وحدت نیوز(رپورٹ) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 30ویں برسی کی مناسبت سے حمایت مظلومین کانفرنس سے سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا مکمل خطاب ۔
تیس سال سے ہم عزادار ہیں اور تیس سال سے ہم دلوں کے اس محبوب کو ،اس کی یاد کو اپنے سینوں میں لئے میدان میں موجود ہیں وہ جو پاکستان کی سرزمین پر قافلہ سالار حریت تھا ،جو آزادی کے کارواں کا سالار رہبر اور پیشوا تھا وہ جو پاکستان کی سرزمین پر محروموں مظلوموں کی امید تھا ۔قیامت تک مولا کے پیروکاروں کے لئے وصیت یہ تھی کہ کونا لظالم خصما و للمظلوم عونا کہ ظالموں کا خصما بن کے رہنا اور مظلوموں کا عون عربی زبان میں خصم انسان کے لباس کی سب سے اوپر والی جگہ (گریبان ) کو کہتے ہیں خصم یعنی تم ظالموں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا ۔اے میرے پیروکاروں اے علی ؑ کے ماننے والوں،تمہیں مولاعلی ؑ یہ وصیت کررہے ہیں کہ تم ظالموں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا ۔تمہارے ہاتھ ظالموں کے گریبان تک پہنچ جانے چاہیئےاور ان کے مقابل قیام کرنا ،ان کے ساتھ سمجھوتا نہ کرنا ۔ان کے ساتھ ساز باز نہ کرنا ،ان کا ساتھی نہ بننا ،ان کے گریبان میں ہاتھ ڈالنا اور مظلوموں کا صرف حامی نہیں بلکہ مدد گار بننا مظلوموں کی صرف تائید نہیں بلکہ مدد کرنا ۔
دوستو ںشہید قائد مولاعلی ؑ کے سچے اور صادق بیٹے تھے ،شہید قائد نے عالمی استکباری قوتوں ،اس زمانے کے فرعونوں، نمرودوں اور شدادوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالاتھا ۔ شہید کا ہاتھ ان کے گریبانوں تک جا پہنچا تھا اس لے انہیں شہید کیا گیا و ہ پاکستان کی سرزمین پر مظلوموں کو بیدار کررہے تھے ،مظلوموں کو اکھٹا کررہے تھے ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کو طاقتور بنا رہے تھے۔
شہید کا سفر ،شہید کی قیادت مظلوموں کو طاقتور بنانے کے لئے تھی لہذا پورے پاکستان کے انہوں نے سفر کئے ۔ایک انتھک سفر جو گلگت بلتستان سے لیکر بلوچستان اور سندھ کے آخر ی علاقوں تک جبکہ اس وقت سفر کی سہولتیں نہیں تھیں ،سڑکیں نہیں تھیں ،سفر کی مشکلات تھیں اوروسائل کی کمی تھی اس کے باوجود وہ ظالموں کے تعاقب میں نکلے ،مظلوموں کی مدد کے لئے نکلے ۔میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ وہ اس زمانے کے علی ؑ یعنی امام خمینی کے پاکستان کی سزرمین پر مالک اشترتھے ۔ان کا قد و قامت ،انکا نورانی اور ملکوتی چہرہ ،ان کی معنویت اور روحانیت ،ان کی شجاعت اور بصیرت ،ان کی دشمن شناسی ،انکا حوصلہ ،ان کی ہمت ان کی مقاومت ،ان کی استقامت ،انکا صبر میں آپ اپنے جد مولاعلی ؑ اور آئمہ اتباع اور صفات کی تجلی نظر آتی تھی ،جلوہ نظر آتا تھا ۔
دوستو ہم اس وقت سر فخر سے بلند رکھتے تھے ،ہم یہ سوچا کرتے تھے کہ ہم پہاڑوں سے ٹکرائیں گے اور انہیں راستے سے اٹھاکر پرے پھینک دینگے ،لہذا شہید کو دیکھ کر حوصلہ ملتا تھا ،شہید کو دیکھ کر ہمت بنتی تھی ۔شہید عالمی استکباری قوتوں کو پہچانتے تھے ،دشمن شناس تھے اور امریکہ کو سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ پاکستان کی سرزمین پر گلی گلی کوچہ کوچہ ،شہر شہر مردہ باد امریکہ کا نعرہ لے کر پہنچے ۔مردہ باد امریکہ یعنی شیطان بزرگ ،یعنی زمانے کا دجا ل اور ابلیس شہید قائد امریکہ کا دشمن تھے ،اسرائیل اور عالمی صیہونیزم کے دشمن تھے ،وہ پاکستا ن کا استقلال چاہتے تھے ،وہ پاکستان کے دشمنوں کے دشمن تھے ،وہ پاکستان کے ترقی اور پیشرفت چاہتے تھے ،چاہتے تھے کہ پاکستان ایک خودمختار Sovereign ملک بنے جس کے فیصلے اسلام آباد میں ہوں وائٹ ہاوس میں نہ ہوں ،تل ابیب میں نہ ہوں ،نہ لندن میں ہوں۔
وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ترقی کرے ،پیشرفت کرے ایک باوقار ملک بنے وہ پاکستان کو درست انداز سے سمجھتے تھے ،وہ پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن سے خوب واقف تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے تمام سیاسی و مذہبی قائدین میں ان جیسا کوئی نہ تھا اس وقت ہمارے قائد جیسا امام خمینی کے بعد پورے دنیائے اسلام میں کوئی رہبر نہیں تھا دوستو میں بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ دشمن بہت منظم ہے ،وہ جانتا تھا کہ شہید قائد کس طرح قوم کو بیدار کررہا ہے کربلائیوں کو بیدار کررہا ہے ،کس طرح شیعہ سنی وحدت کو وجود دے رہا ہے ،کس طرح روکاوٹوں کو عبور کررہا ہے ،اگر یہ سفر جاری رہا ،یہ قائد اور پیشوا آگے بڑھتا رہا کہ جسے نہ جھکایا جاسکتا ہے نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے ،نہ ٹریپ کیا جاسکتا ہے جیسے نہ دھوکا دیا جاسکتا ہے لہذا ان کےلئے یہ بہت خطرناک تھا ۔
وہ ایک اور خمینی برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے ،ایک جوان ایک چالیس بیالیس سال جس عمر ہو وہ معاشرے میں اس طرح سے پاپولر ہو جائے ،ایسے مشہور ہو کہ دلوں میں جگہ بنانا شروع کردے ،ہرطرف اس کی عزت و وقار میں اضافہ ہو،اور پاکستان بنانے والی قوم اور ملت طاقتور بننا شروع ہوجائے ،شیعہ سنی اکھٹاہونا شروع ہوجائیں دشمن کے لئے ناقابل برداشت تھا ۔دشمن کے منصوبوں کے لئے اسٹرٹیجکلی نقصاندہ تھا ،دشمن نے اس خطے اور پاکستان کے لئے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا تھا جب تک وہ شہید کو راستے سے نہ ہٹائیں اور ان یتیمان آل محمد اور شیعہ اور سنی کو ٹکڑوں میں نہ بانٹیں ،تقسیم نہ کریں ،کمزور نہ کریں ۔
اس زمانے کے حالات آپ کے سامنے ہیں ،عالمی قوتوں کے منصوبے آپ کے سامنے ہیں وہ اس ریجن میں آئے تھے اس پورے علاقے کو Destabilize عدم استحکام کرنے کے لئے ۔دوستو وہ امام خمینی کا سچا اور صادق پیرو تھا ،وہ مکتب آل محمد ص کا پروردہ کربلائی شعور و فکر رکھنے والا رہبر تھا ۔وہ واقعا حسینی تھا ،وہ واقعا مولاحسین ؑ کا سچا بیٹا تھا ۔آج جو آپ یہاں آئے ہیں تو اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا۔جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے تو اللہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کرے گا ۔
آج تیس سال گذرنے کے باوجود شہید کی محبت میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی ہے ،دشمن ناکام ہوا ہے ہمیں شہید کے نعروں میں شہید کی بصیرت نظر آتی ہے مردہ باد امریکہ خالی ایک نعرہ نہیں ہے یہ ایک اسٹرٹیجی ہے ایک منصوبہ اور حکمت عملی ہے ،لہذا اس پنڈال کو اس طرح مردہ باد امریکہ کے نعروں سے گونجنا چاہیے کہ کم ازکم امریکی سفارت خانےمیں یہ پیغام جائے جس کو کل تم نے شہید کیا تھا چھپ کے بزدلوں کی طرح وار کیا تھا آج اسلام آباد میں ،اس کا نعرہ ،اس کا شعور موجود ہے ۔
ہم شہید کے بہادر بیٹے ہیں ،غیرتمند بیٹے ہیں ،ہم دشمنوں کو پہچانتے ہیں ،شہید نے جو دوسرا نعرہ پورے پاکستان میں پہنچایا تھاوہ کیا تھا ؟اسرائیل مردہ باد ،ہم نہیں بھولینگے اسرائیل کل بھی مردہ باد تھا آج بھی مرد ہ باد ہے اور کل بھی مرد ہ باد ہو گا ،مردہ باد مردہ باد اسرائیل مردہ باد، لہذا شہید قائد صرف نعرے نہیں دےکر گئے بلکہ ایک اسٹرٹیجی دے کرگئے ہیں۔ایک منزل دیکھا کے گیا ،ایک راستہ دیکھا کے گیا اور اس راستے پر چلنے کا سلیقہ دیکھا گیا حوصلہ دے کے گیا ،شعور دے کر گیا اور ہم اسی راستے پر چلتے رہے گے ،آگے بڑھتے رہے گے ،اور انشااللہ اپنی استقامت اور مقاومت سے دشمنوں کو مایوسی کرکے رہے گے۔
دوستوںشہید قائد اس لئے شہید ہوئے کیونکہ وہ شہید وحدت امت ہے ،وہ شہیدِ وحدت مسلمین ہے ،وہ شہید وحدت مومنین ہے وہ شہیدِ وطن ہے ،وہ شہیدِ استقلال وطن ہے ،وہ وطن کی آزادی کا شہید ہے ،وہ حریت کا شہید ہے وہ پاکستان کو خود مختار ملک بنانے کی راہ کا شہید ہے دوستوں شہید قائد کو عالی استکباری قوتوں نے شہید کیا ہے کیونکہ و ہ عالمی استکباری اسٹیبشلمنٹ کے لئے چلینج تھا ۔
اس لئے اسے مارا ہے کیونکہ وہ عالمی استکباری غلبے کے لئے چلینج تھا ۔دوستو ںآپ دیکھ لے کس طرح عالمی استکباری قوتوں نے کس طرح اس انتہائی اسٹرٹیجکل جگہ پر واقع ملک کو اپنے خون آشام منصوبوں کا شکار کیا اورقتل و غارت گری کا رواج دیا ۔اگر اس وقت ہم اٹھ کھڑے ہوتے ۔
انہوں نے شہید قائد کو شہید کرکے ہمارا سرکاٹا تھا اگر ہم اس وقت دشمن تک پہنچتے تو بعد کی شہادتیں شاید اس طرح سے نہ ہوجاتیں ،بعد کے یہ حالات پیدا نہ ہوتے ۔لہذا دشمن یہ سمجھتا تھا ،زمانے کے یزید ہمیشہ کج فہم کج فکر اور احمق ہوتے ہیں ،اندھے ہوتے ہیں وہ یہ سوچتے ہیں کہ شہادتوں سے تحریکیں رک جاتیں ہیں شہادتوں سے راستے تاریک ہوجاتے ہیں آج علماء زعما ءیہاں موجود ہیں یہ شہیدکی فتح اور دشمن کی شکست کا اعلان ہے ۔دوستوںشہید دین اور سیاست کو اکھٹا سمجھتے تھے ،وہ دین اور سیاست کی جدائی کے قائل نہیں تھے کس طرح سے ممکن ہے کہ جن کے بارہ میں سے گیارہ امام شہید ہوں وہ دین اور سیاست میں جدائی کے قائل ہوجائیں ۔کیسے ممکن ہے کہ جو مکتب امامت سے تعلق رکھتے ہوں وہ دین اور سیاست کی جدائی کے قائل ہوں۔
گذشتہ چند سالوں سے ہم نے شہید کا پرچم اٹھایا اور دشمنوں کے مقابلے میں میدان میں اترے ہیں ۔ دوستوں آپ کو یاد ہوگا کہ پاراچنار محاصرے میں تھا ،بسوں سے اتار کر مارا جاتا تھا ،تکفیری دروازوں تک پہنچ چکے تھے ۔ڈیرہ اسماعیل خان کربلا تھی ،کوئٹہ مقتل تھی کراچی سندھ ،پنجاب پورا ملک ہمارے بیگناہوں کے خون سے لہو رنگ تھا شہادتیں ہمارا ورثہ ہے لیکن ہماری کوئی آواز نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے پاراچنار جب محاصرے میں تھا میں اور آقائی امین شہیدی ائر مارشل قیصر حسین صاحب سے ملنے گئے اسلام آباد یہ 27دسمبر 2007کا دن تھا ۔کہنے لگے میں ابھی پشاور سے واپس آیا ہوں ،ائرمارشل ،ائرچیف فور سٹار جرنیل یہ کہتا ہے میں وہاں گیا اور وہاں کے کور کمانڈر نے ملاقات کا وقت دینے سے انکار کردیا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ کہتے تھے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیچھے کوئی نہیں ہے ۔ہم تنہا ہیں ساڑھے پانچ لاکھ لوگ محاصرے میں ہیں ،ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں بچے ان وحشی درندوں طالبان کے محاصرے میں ہیں کوئی آواز نہیں سنتا ہماری ۔ہماری کوئی بات نہیں سنتا میڈیا میں بلیک آوٹ ،سنسر ہے ڈی آئی خان سے لوگ شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے ،ہرطرف برا حال تھا ہم مدرسوں میں تھے ہم نہیں چاہتے تھے ۔۔۔ہم کونسا کام کررہے تھے تبلیغ کا ۔۔ہر وہ کام جس قوم کو تقسیم کرنے کا ہم پر الزام نہ لگے ،ہم تبلیغی کام کرتے تھے ،اسیروں کی مدد کرتے تھے ،شہدا کے بچوں کی کفالت کے لئے کوشش کرتے تھے ۔ہم ادارے بنارہے تھے ،علمی مراکز بنارہے تھے لیکن جب یہ مظلومیت دیکھی تو ہم گھر سے باہر نکلے ۔ آپ انصاف سے بتائیں اے پاکستان کے علماء،اے پاکستان کی عوام ،اے پاکستان کے غیور اور شجاع لوگواے میری ماؤں بہنوں بیٹیوں بتاؤجب مجلس وحدت بنی تو اس کے بعد کیا ہماری طاقت میں اضافہ ہوا یا کمی آئی ؟بولیں کہ کیا ہماری طاقت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے ہماری آواز میں طاقت پیدا ہوئی ہے یا نہیں ہوئی ہے ؟پاراچنار کا محاصرہ ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا ؟بلیک آوٹ اور سنسر شب ختم ہوا یا نہیں ہوا ؟ہم نے پانچ دن دھرنا دیکر ایک ظالم حکومت کو گرایا یا نہیں گرایا ؟
ہم نے شیعہ سنی وحدت پیدا کردی ،ہم اکھٹے ہوئے راوالپنڈی کے عاشور کا واقعہ آپ کے سامنے ہے،ہم نے عزاداری سید الشہداءکیخلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام کیا ۔ہم شہید قائد کے معنوی فرزند تھے ،ہم نے اپنے سرپر کوئی بڑعنوان نہیں رکھا ہم نے جماعت بنائی تو کیا نام رکھا ؟مجلس وحدت مسلمین اور بڑا عہدہ سیکرٹری جنرل ،مجلس کے دوست اور ہمیں خدمتگار بننے کا شوق ہے ،یتیمان آل محمد ص کا نوکر بننے کا شوق ہے ہم خدمت کے بھوکے ہیں اقتدار اور قدرت کے بھوکے نہیں ہیں ہم نے اپنی قوم کو حوصلہ دیا ہمت بندھائی نو دن پارلیمان کے باہر دھرنا دیا اور پیغام دیا خبردار گلگت بلتستان کے مظلوموں کو تنہا مت سمجھنا پورے پاکستان کے مظلوموں کے حامی ان کے ساتھ ہیں اور ان کی آواز میں آواز ملائیںگے اور ان کے دشمنوں کا تعاقب کرینگے ۔
کوئٹہ ،شکار پور ،کراچی ،ڈی آئی خان ۔۔۔آج حالات بہتر ہیں یا نہیں ہیں ؟دشمن ہماری سیاسی طاقت توڑنا چاہتا تھا ،ہماری سماجی طاقت توڑنا چاہتا تھا ہماری معاشی طاقت توڑنا چاہتا تھا ۔ہمیں ڈرانا چاہتا تھا ہمیں مایوس کرنا چاہتا تھا ،ہم بے چارے بن کر رہیں ،ہم ڈرے ہوئے سہمے ہوئے رہیں ہمیں قادیانیوں کی طرح مسلمانوں کے پیکر سے کاٹ کر پرے پھینک کر نفرت انگیز بنانا چاہتا تھا ۔آج آپ دیکھ لیں صورتحال کیا ہے الحمد اللہ ہم شہید کے راستے پر چلے ،آج دشمن سیاسی طور پر بھی تنہا ہے ،سماجی طور پر بھی تنہا ہے مذہبی طور پر بھی تنہاہے اور منفور ہے ۔اگر کوئی ان سے ملے بھی تو چھپ کر ملتا ہے کھلے کوئی نہیں ملتا ،خوف ہے آپ کا ،یہ آپ کی طاقت ہے ۔
دوستو ںشہید قائد نے لاہور کی قرآن و سنت کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ہم سیاسی کردار ادا کرینگے ۔ہم 2013سے سیاسی جدوجہد میں آئے۔ کیوں ؟ہم چاہتے تھے کہ سیاسی شناخت ہو، دشمن یہ چاہتا تھا کہ ایک فرقہ وارانہ سرکل میں ہمیں بند کرکے فرقہ واریت کا لیبل لگاکر ہمیں تنہا کردے ۔یہ ہمارا ایک اسٹرٹیجک اسٹینڈstrategic stand اور فیصلہ تھا کہ ہم نے سیاسی شناخت پیداکرنی ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اور عالمی قوتوں کے نمایندے پاکستان میں موجود ہیں انکا influenceاثر رورسوخ ہے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہم سیاسی جدوجہد میں بھی کامیابیاں حاصل کریں ۔وہ روکاوٹ بننا چاہتے ہیں ،وہ ہمیں مایوس کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں نامید کرناچاہتے ہیں ،وہ بھول جائیںہم ہیں کربلا ئی عاشورائی ،ہم کربلائی شعور اور بصیرت کے حامل ہیں ہم جانتے ہیں کہ زمانے کے یزیدوں کا تعاقب کیسے ہوتا ہے اور انہیں شکست کیسے دی جاتی ہے ۔اس الیکشن ہماری اسٹرٹیجی یہ تھی ،ایک اسٹریٹجک مقاصدstrategic goalsتھا اور وہ یہ تھا کہ کمپرومائزیٹ جو لیڈر شب ہے ،کچھ لوگ جو ہمارے پولیٹکل لیڈر ہیں ان کے بزنس انڈیا میں ہے ان کے کاروبار یو اے ای میں ہیں ،ان کے کاروبار برطانیہ میں ہیں
،ان کا پیسہ وہاں پر ہے یہ لوگ عالمی قوتوں کے آگے دبتے ہیں کیونکہ ان کی کمزوریاں ان کے پاس ہیں ۔ان کی کرپشن کی فائلیں ان کے پاس ہیں ،ان کے اربوں روپےوہاں پر ہیں ۔ لہذا یہ عالمی قوتوں کےnationals interest قومی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنے ملک کے قومی مفادات کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بحرانوں کا شکار ہے ۔یہاں سے میری گفتگو توجہ سننا پاکستان ایشیا کا دل ہے پانچ ارب انسان کےcollectiviti اکھٹ کا مرکز ہے ،پانچ ارب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے جہاں انرجی کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں اور جہاں deficiencyاور ضرورت ہے اور جہاں یہ چیز آپس میں ملتی ہے۔ ایشیا دنیا کا سب سے بڑابراعظم ہے ،وسائل کے اعتبار سے بھی آبادی کے اعتبار سے بھی تہذیبی اعتبار سے بھی ،لیبر بھی سستی ہے ۔ اہم مہارتوں کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی ایشیا میں ہیں ۔اور دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا مرکز بھی ایشیا ہے ،یہودیت یہاں پیدا ہوئی، کرسچنیٹی عیسائیت یہاں پیدا ہوئی اسلام یہاں پیدا ہوا ،ہندوازم ،بدھ ازم ،سیکھ ازم ،حتی کہ کیمونزم بھی ایشیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ایشیا بہت امیر خطہ ہے ، طول تاریخ میں پاور ایشیا اور یورپ کے درمیان شفٹ ہوتی رہی ہے۔ اس وقت پاور کا سرکل ایشیا کی طرف آرہا ہے ۔امریکہ یورپ اور اس کے حامی اس طاقت کی منتقلی کو روکنا چاہتے ہیں۔ سست کرنا چاہتے ہیں اور اپنے غلبے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں ۔اسی بنیاد پر ایشیا کے جو اہم حصے ہیں ان کو destabilize غیر مستحکم کررہے ہیں اور گریٹر میڈل ایسیٹ بنارہے ہیں ۔توجہ چاہتا ہوںمیں ان دنوں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں a peace to end all peaceیعنی امن پورے امن کے خاتمے کے لئے یہ David Fromkin کی کتاب ہے جو امریکی ہے جس نے 1914سے لیکر 1922تک پہلی عالمی جنگ کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے ۔جس میں وہ لکھتا ہے یورپین یہ کہتے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ماڈرن میڈل ایسٹ پیدا ہوگا اور وہ افریقی ممالک سے لیکر افغانستان اور وسطی ایشیا تک تھا جو دوسری جنگ عظیم میں اسرائیل بنے پر مکمل ہوا اور مسلمان ممالک چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہوگئے ۔ آپ دیکھ لیں افریقہ کے مسلمان ممالک سے لیکر وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک یہ آبای آپس میں جڑی ہوئی ہے اور اس مسلمانوں کی طاقت کو توڑ دیا گیا ۔ان کے اندر کیمونسٹ مومنٹس شروع کی گئیں نیشنلسٹ مومنٹس شروع کیں گئی تاکہ اسلامی سوچ مرجائے اور یہ الگ الگ ہوجائیں ۔کوئی ایرانی نیشنلسٹ کوئی عراقی نیشنسلٹ کوئی ترک نیشنلسٹ کوئی عرب نیشنلسٹ ۔۔کیا کیا بن جائے دوستو اب جو گریٹر میڈل ایسٹ کی بات ہورہی ہے تو بالکل وہی علاقہ ہے جو پہلے ماڈرن میڈل ایسٹ کہلایا تھا یعنی مراکش سے لیکر افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک اس کو reshapeتشکیل نو کرناچاہتے ہیں اور اگر وہ reshape اس کی دوبارہ تشکیل نہ کرسکے تو امریکہ ٹوٹ جائے گا ،یورپ بھی ایسے نہیں رہے گا ۔
یہ جو ٹکراو اس وقت جاری ہے یمن سے لیکر ساوتھ چائنہ سی پیک تک یہ ٹکراو اسٹرٹیجک ہے یہ امریکہ کی hegemonyغلبہ و بالادستی کیخلاف ہے اور اس میں آپ کا بنیادی کردار ہے امریکہ اسرائیل اور ان کے تمام ساتھی یمن میں اسٹرٹیجک شکست کھاگئے ہیں ہم یمن کے مظلوموں کے ساتھ ہیں ،ہم یمن کے مظلوموں کو سلام کرتے ہیں ان کی استقامت کو سلام ان کی ہمت کو سلام ،ان کے حوصلے کو سلام، ان کی قربانی کے جذبے کو سلام اور ان کے میدان میں ثابت قدم رہنے کو سلام۔ چالیس ماہ سے زیادہ ہو ا ہے یمن کےمظلوم ان کے مقابلے میں کھڑے ہیں دنیا کی ساری طاقتیں شکست کھاگئی ہیں ۔یہ امریکہ کی اسٹرٹیجک شکست ہے الحمداللہ وہاں پر شیعہ سنی اکھٹے ہیں ،اہل تشیع زیدی اہلسنت جو کہ شافعی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔شیعہ سنی اکھٹے ہیں کس کے مقابلے میں امریکہ کے مقابلے میں جو جہان اسلام کو توڑنا چاہتا ہے ۔وہاں اسرائیل امریکہ اور آل سعودکو شکست ہورہی ہے فرانس کو شکست برطانیہ کو شکست ان سب اتحادیوں کو شکست ہورہی ہے ۔لبنان میںبھی ان کو شکست ہوگئی ہے شام میں 90ملکوں کے دہشتگردگئے لیکن امریکہ کو شکست ہوگئی ،لبنان میں عسکری شکست بھی ہوئی سیاسی شکست بھی ہوئی ،اسی طرح عراق میں شکست کھاگئے اس وقت شام کے شہر ادلب میں ایک لاکھ دہشتگرد ہیں ترکی میں ایک لاکھ دہشتگرد ہیں، پریشان ہیں ان کو کہاں لیکر جائیں ۔
اب دشمن پاکستان کو بھی destabilizeغیر مستحکم کرنا چاہتا ہے اگر پاکستان غیر مستحکم ہوا تو ایشیا غیر مستحکم ہوجائے گا ۔چائنہ کی اقتصادی ترقیeconomic growth امریکی قومی مفاداتnational interest کے لئے خطرہ ہے لہذا وہ پاکستان کے اندر سیاسی بحران ،معاشی سماجی امن و امان کا بحران لانا چاہتے ہیں ۔مجلس وحدت کی یہ پالیسی تھی کہ امریکی پالیسی کے پچھے چلنے والوں کو ،انڈیا کی پالیسی کا ساتھ دینے والوں کو پاکستان میں شکست ہو اور شکست ہوئی ،اس میں ہمارا بھی حصہ ہے ۔ یہ الیکشن بہت اہم تھا الحمداللہ ہمارے مجتہدین نے فتوا دیا کہ پاکستان کی عوام اپنے وطن کی استحکام کی خاطر اپنا یہ حق استعمال کریں ووٹ ڈالیں انتخابات میں شریک ہوں ۔یہ جو ٹرن آوٹ زیادہ تھا اس کی ایک وجہ ہمارے مجتہدین کے فتواتھے جن کی بنیاد پر لوگوں نے جوق در جوق الیکشن میں حصہ لیا اور ووٹ ڈالا۔اس کا نتیجہ ہم نے دیکھ لیا امریکہ کے حامی چاہیے وہ تکفیری مذہبی تھے چاہے وہ تکفیری سیاسی تھے یا ان کے لبر ل ایجنٹ تھے انہیں شکست فاش ہوگئی پاکستان میں یہ ایک اسٹرٹیجک شکست ہے پاکستان تبدیل ہونے کی جانب جارہا ہے ۔اس میں ہمارا حصہ ہے ہمارا رول ہے ،ہم نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا
میںنے عمران خان صاحب سے چند روزپہلے کہا دوسری دو بڑی جماعتوں کی لیڈرشب مالی کرپشن کا شکارہے وہ سر تک ڈوبی ہوئی ہے غرق ہے ،وہ سمجھوتوں کا شکار ہیں۔ ان کے باہر کے ملکوں میں پیسہ اور کاروبار ہے آپ کمپرومائزڈ نہیں ہیں ہمیں آپ سے توقع ہے ،پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی ہونی چاہیے ،بیلینس پالیسی ہونی چاہیے ،علاقائی ممالک سے اچھے تعلقات ،ہمسائیوں سے اچھے تعلقات ،مسلم امہ سے اچھے تعلقات ،بیس کروڑ عوام کا ایٹمی ملک پاکستان لیڈرشب کا رول پلے کرے گا۔
دوستوں !ہم حساس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں ہم نے مدتوں بعد امیدکی نسیم کو چلتے ہوئے دیکھاہےامید ہے نامیدی نہیں ہے ،تکفیریت کو شکست ہوئی ہے ہمارے ملک میں کچھ ناعاقبت اندیش قاتلوں کو مین اسٹریم میں لانا چاہتے ہیں اور ہمارے کچھ نادان ،کمزور لوگ ۔۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ۔۔ہم چاہتے ہیں کہ مسلک کے بڑے علماء کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے ڈئیلاگ ہونا چاہیے جو کسی مسلک کے نمایندے ہیں ان کے ساتھ بیٹھو کوئی بات نہیں ان کے بڑے مفتیوں کے ساتھ بیٹھوکوئی بات نہیں ملک میں مذہبی ہم آہنگی لانے کے لئےامن و امان لانے کے لئے، نفرتیں مٹانے کے لئے بیٹھو کوئی بات نہیں لیکن قاتلوں کے ساتھ نہیں ،چھپ چھپ کے ملنا ،چھپانا ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کاش ان نادانوں کو پتہ چلتا یہ ان مظلوموں اور یتیمان آل محمد کے ساتھ خیانت کررہے ہیں اور ان کے اقدامات قابل مذمت ہیں جب پیغام پاکستان پر سائن ہورہے تھے تو میں نے بھی کئے تھے شایدمیںآخری لوگوں میں سے میں تھا سائن کروانے والوں سے میں نے کہا تھا کہ اچھاڈاکیومنٹ ہے یہ لیکن یہ کافی نہیں ہے آپ چار پانچ کام کرنے پڑیں گے پھر جاکر پاکستان میں صورتحال بہتر ہوگی وہ یہ کہ
1۔ تکفیر کرنے والوں کے جو بڑے مفتی ہیں یہ لوگ ٹی وی پر آکر کہیں فقہ حنفی شافعی،مالکی ،حنبلی جعفری اور غیر مقلد، یہ اسلام کے مسلمہ مکاتب فکر ہیں اور ان کی تکفیر حرام ہے ۔
2ْ۔ یہ چھوٹے مولوی ان کی حمایت کریں ٹی وی پر آکر اور تکفیر سے توبہ کریں ۔
3۔ آئین میں ترمیم کی جائے آئین میں لکھا جائے کہ فقہ حنفی شافعی،مالکی ،حنبلی جعفری اور غیر مقلدیہ اسلام کے مسلمہ مکاتب فکر ہیںاور ان کی تکفیر اور توہین قابل تعزیر جرم ہے۔
4۔ جو لوگ شہید ہوگئے ان کے خون کو کسی اور کو معاف کرنا کا حق نہیں ہے ان کے گھروالوں کے پاس جاو ،وہ تین طرح کے قدم اٹھاسکتے ہیں وہ قصاص مانگ سکتے ہیں یہ انکا حق ہے ،دیت مانگ سکتے ہیں یہ نکا حق ہے اور معاف بھی کرسکتے ہیں ۔
ان نکات کے بغیر یہ جتنے بھی اقدامات ہیں وہ قاتلوں کومین اسٹریم میں لاکر پھر فتنے کھڑے کرنے کے ہیں اور ا ن کی تقریریں آپ نے سن لیں ہیں گذشتہ چند دنوں میں وہ کیسی تقریریں کررہے ہیں پھر سے ہم پاکستان میں ایمان رکھتے ہیں کہ کسی بھی مسلک کا ماننے والاکافر نہیں ہے ،سب مسلمان ہیں ،سب بھائی ہیں ،سب مادر وطن کے بیٹے ہیں لیکن قاتلوں کے ساتھ کوئی بھی غیرتمند نہیں بیٹھا کرتا ۔کوئی شریف نہیں بیٹھا کرتا عزت نفس رکھنے والانہیں بیٹھا کرتا ،گھٹیا بیٹھا کرتا ہے پست بیٹھا کرتا ہے اور چھوٹا بیٹھا کرتا ہے ۔
الحمد اللہ اس الیکشن میں آپ کی بصیرت نے ان تکفیریوں کو شکست دی امریکہ اور انڈیا کے دوستوں کو شکست دی بڑا مشکل چینج ہے یہ زہن میں رکھ لیں ،ابھی آگے مشکل مرحلے درپیش ہیں یہ عبوری حکومت اپوزیشن اور مسلم لیگ نون نے مل کر بنائی تھی الیکشن کمیشن کا چرمین یہ لوگ لیکر آئے تھے اس لیکشن کمیشن اور نون لیگ و پی پی کی بنائی حکومت نے الیکشن کو سبوتاژ کرنے اور سوالیہ نشان کھڑا کرنے میں مرکزی رول پلے کیا ہے ۔ان سے پوچھا جائے یہ خیانیت ہوئی ہے خیانت اس کا فائدہ انڈیا کو ہوگا اگر یہ خیانت نہ کرتے تو پی ٹی آئی کی جیت اس سے زیادہ ہوتی ہمیں بھی نقصان پہنچایا گیا ،ہم جانتے ہیں کہ ہم امریکہ اسرائیل اور انڈیا کے حامیوں کی آنکھوں میں خار کی طرح کھڑکتے ہیں ،ہم جانتے ہیں انشااللہ یہ خار دشمنوں کی آنکھ میں ہمیشہ کھڑکتا رہے گا لہذا مشکل سفر درپیش ہے ممکن ہے حکومت بنانے میں روکاوٹیں کھڑی کی جائیں جیسے عراق میں مئی میں الیکشن ہوا آج تک حکومت نہیں بنانے دیا جارہا ہے لبنان میں13 مئی میں الیکشن ہواحکومت نہیں بننے دیا جارہا ہے ۔پاکستان کی عوام بیدار رہے ہیں ،ملک معشیتی مسائل کی جانب جارہا ہے انڈیا امریکہ سارے مل کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔لہذا ہم نے میدان میں حاضر رہنا ہے اس وطن کی خاطر اور دشمنوں کے مقابلے میں الحمد اللہ آج فلسطین میں بھی مظلوم طاقتور ہیں ،کشمیر میں بھی مظلوم طاقتور ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہیں انشااللہ ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑینگے ۔
اسی طرح سے گلگت کے اندر انڈیا اور امریکہ کی آنکھ میں وہاں کا امن کھڑکتا ہے وہاں کا نالائق وزیر اعلی وہ وہاں پر نامنی لیکر آرہا ہے ،بے گناہوں کو شڈول فور میں ڈال رہا ہے وہاں کے علما کو ،شخصیات کو وہاں کے بزرگ عالم دین جناب قبلہ علامہ سید علی رضوی اور ان جیسے علما ءو زعماء کو ۔آپ نے دیکھا کہ اس وقت داریل اور چلاس کے علاقو ں میں آپریشن ہورہا ہے بچیوںکے سکول بوکوحرام کی طرح جلائےرہے ہیں ۔ہم پرامن لوگ ہیں ،ہم کبھی بھی اس ملک میں اسلحہ اٹھاکر مسلح جدوجہد کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔گلگت بلتستان کی عوام اپنی شناخت مانگتے ہیں ،وہ پاکستانی بننا چاہتے ہیں اور انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے، وہاں کا نالائق وزیر اعلی اور ناعاقبت اندیش لوگ ملکر انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے ۔لہذا ابھی جو حکومت آنے والی ہے مجھے امید ہے کہ وہ سادگی کو اپنائے گی اقتصادی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے ۔عمران خان صاحب نے جو اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں جائیںگے۔ مجھے امید ہے کہ وہ سادگی کو اپنائیںگے ،ملکی مصنوعات کو استعمال کرنے کا اعلان کریںگے ،باہر کی مصنوعات کو نہیں خریدیں گے تاکہ زرمبادلہ بچ سکے ۔بلاتفریق کرپشن کے خلاف اقدام ہوگا امن وامان کے لئے کام ہوگا نیشن بلڈنگ کا کام کرینگے ایک قوم بنے گے ایک طاقتور قوم بنے گے ۔گلگت بلتستان کے نمایندے یہاں موجود ہیں جو وہاں کی اپوزیشن لیڈرہیں کیپٹن شفیع صاحب میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ یہاں تشریف لائے اور میں اعلان کرتا ہوں پورے مجمعے کی جانب سے کہتا ہوں ہم گلگت بلتستان کے مظلوموں کے ساتھ ہیں میں دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں سے اور حسنیوں سے خاص طورپر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب نئی حکومت آئے تو باہر سے زرمبادلہ بھیجو پیسے بھیجو تاکہ ہمیں قرضے نہیں لینے پڑیں ۔تاکہ ہمیں اپنی سالمیت پر کمپرومائز نہ کرنا پڑے تاکہ ہمیں ان عالمی معاشی دہشتگردوں کے آگے نہ جھکنا پڑے ۔پوری دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں خاص کر حسینیوں سے گذارش ہے کہ یہاں پیسہ بھیج دیں زرمبادلہ بھیج دیں اور انشااللہ جب حکومت اعلان کرے گی تو ہم حمایت کرینگے ایک اچھی ٹیم بنانی چاہیے بہترین ٹیم بنانی چاہیے تاکہ ڈیلیور کرے اور جو ڈیم بنانے کا اعلان ہے اور نئی حکومت آکر اعلان کرے گی انشااللہ ہم بھی اس میں بھر پو رحصہ ڈالے گے ۔پاکستان بنایا تھا پاکستان بچاینگے کوئٹہ میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی کراچی میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن مایوس مت ہونا ہم انشااللہ الیکشن کمیشن میں جاینگے کوٹ میں جاینگے اپنے حقوق کے لئے پچھے نہیں ہٹے گے ۔مایوس نہیں ہونا نامید نہیں ہونا کل کی نسبت آج ہمارا بہت بہتر ہے اور آنے والا کل اس سے بھی بہترہوگا انشااللہ انشااللہ اے امام زمان ؑ گواہ رہنا اے یوسف زہرا ؑ گواہ رہنا ہم تیرے باوفا پیرو ہیں ۔۔۔