وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر ابن حیان دنیا کے عظیم دانشمندوں میں سے ایک ہے جو علم کیمیاء میں نہ فقط عالم اسلام میں بلکہ غیر مسلموں کے درمیان بھی مشہور ہے۔وہ نہ فقط علم کیمیاء میں فوق العادہ تھے بلکہ فلسفہ ،منطق اور طب ،نجوم ریاضیات اور فلکیات اور دوسرے علوم میں بھی صاحب نظر تھےلیکن انہیں زیادہ شہرت علیم کیمیاء میں ملا۔برتعلیموجابر کے بارے میں کہتے ہے: جابر بن حیان کا علم کیمیا میں مقام وہی ہے جو مقام ارسطو کو منطق میں ہے ۔سارتون ان کو ایک عظیم دانشمند قرار دیتے ہے جس کی شناخت قرون وسطی میں علم کے میدان میں ہوئی ۔جابر نے علم کیمیا میں جدید اسلوب استعمال کر کے نئے علوم میں اضافہ کر دیا اور اس کو علم موازین کہلائے ۔ بہت سارے اختراعات اور کشفیات کی جابر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔جابر کی ولادت اوررحلت کی تاریخ جابر کے زندگی کے دوسرے زاویوں کی طرح مبہم رہ گیا ہے۔لیکن 158 سے 198کے درمیان جابر اس دنیا سے چلے گئے جو نقل ہوئی ہے ۔جابر کی محل ولادت اور وہ جگہ جہاں جابر نے بچپن گزاری ہے اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض اس کو کوفی اوربعض خراسانی سمجھتے ہے۔ابن ندیم کہتے ہے: کہ جابر ذاتا خراسانی تھا ۔ویل دورانت کہتے ہے:جابر کوفہ کے کسی داروساز کا بیٹا تھا اور وہ طبابت میں مشغول رہتا تھا اور اپنے اکثر اوقا ت تجربہ گاہ میں گزار تا تھا۔مذہب کے اعتبار سے جابر مکتب تشیع سے تعلق رکھتا تھااور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے خاص روابط رکھتے تھے۔ہولیمارد اس کے بارے میں کہتے ہے:جابر امام صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد اور قریبی دوستوں میں سے تھے اور انکی راہنمائی میں جابر نے علم کیمیا کوجو اسکندریہ کے زمانے میں ایک افسانے کی طرح مقید تھے آزاد کرا دیے۔اور اس راستے میں کماحقہ اپنے مقصود تک پہنچ گئے اسی لئے جابر کانام ہمیشہ اس فن کے بزرگان جیسے بویل،پریستلی،دلاویز اور دوسرے مشہور دانشمندوں کے ساتھ لئے جاتے ہے۔جابر اپنے اکثر کتابوں میں اس بات کی یقین دہانی کی ہے کہ اس نےاپنے علوم امام صادق علیہ السلام سے حاصل کئے ہیں۔چوتھی صدی کی ابتداء ہی میں جابر کے وجود کے بارے میں شک و تردید کرنے لگے اور بعض نے سرے سے جابر کی وجود سے انکار کرنا شروع کیا۔ابن ندیم جو چوتھی صدی کے درمیانی عرصے میں زندگی کی ہے جابر کے بارے میں کہتے ہے:بعض اہل علم اور کتاب بیجھنے والے [جو اہل علم تھے]کہتے ہیں کہ جابر کا کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر جابر کا وجود فرض بھی کر لیں تو کتاب الرحمۃکے علاوہ اور اسکی کوئی تصنیف نہیں ہے اوردوسرے جتنے بھی تصنیفات ہے وہ دوسروں نے لکھی ہے لیکن جابر کی طرف کی نسبت دی گئی ہے۔لیکن وہ خود ایک استدلال کے ذریعے ان باتوں کو رد کر تاہے۔وہ لکھتےہیں : کون حاضر ہے کہ سخت محنت و کوشش کرے اور دو ہزار صفحوں پر مشتمل ایک کتاب لکھے جس کے لئے وہ اپنی ساری توانائی صرف کرے اور تمام زحمتیں اٹھائے اور اس کے بعد کتاب کی نسبت کسی اور شخص کی طرف دے ۔چاہے دوسرا شخص وجود رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔بہر حال یہ عمل ایک قسم کی جہالت ہے اور کوئی بھی عاقل اس کام کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔جیسے پل کرواس مستشرق ا تریشی جابر کے وجود کے میں بارے میں شک کرتے ہے۔لیکن جابر کا نام قدماء کے کتابوں میں آیا ہے جیسے ابن ندیم ،حسن بن بسطام بن شاپور،ابوبکررازی،محمد بن علی شلمغانی،ابوحیان توحیدی وغیرہ۔ان سب کے کتابوں میں جابر کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو خود جابر کے وجود کی دلیل ہے ۔ کہ جابر نامی ایک شخص موجود تھا جوفاضل اور دانشمند تھا۔جس نےدوسری صدی میں حکومت عباسی کے عہد سلطنت میں زندگی کی ہے ۔مکتب تشیع میں سے دوازدہ امامی جابر کو دوازدہ امامی قرار دیتے ہے جب کہ اسماعلیہ اسے اسماعیلی سمجھتے ہے ۔
سید ابن طاووس[م664]کتاب مفرج المہموم میں بعض شیعہ افراد کا نام لیتے ہے جو علم نجوم سے آگاہی رکھتے تھے لکھتےہیں: کہ ان میں سے ایک جابر ابن حیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام کاخاص صحابی تھا۔شیعوں کے درمیان مسلمات میں سے ہے کہ جابر شیعہ اور دازدہ امامی تھا۔سید امین اعیان الشیعہ و آقای بزرگ تہرانی کتاب الذریعۃ فی تصانیف الشیعۃ میں جابر کا باقاعدہ نام لیتے ہیں اور انکی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے شواہد بھی ہے جو جابر کو اسماعیلی قرار دیتاہے۔جیسے سید ہبہ الدین شہرستانی کتاب الدلایل و المسائل میں کہتے ہے کہ جابر اسماعیل کی امامت کا قائل تھا۔لیکن انہوں نے اپنے اس ادعا پر دلیل پیش نہیں کیا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ جابر نے اپنے کتابوں میں ظاہر وباطن اور عدد سات کا استعمال کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جابر اسماعیلی تھالیکن اسماعیلیہ مذہب اپنے مبانی کو جابر کی وفات سے نصف صدی بعد آغاز کیا ہے ۔بنا برین یہ بات صحیح نہیں ہے۔اندیشہ اسماعلیان دوسری صدی ہجری میں یعنی عصر جابر میں ایک سادہ اندیشہ تھا۔لیکن یہ بات کہ ان کے کلام میں ظاہر و باطن موجود ہے اس طرح کے تاویلات سے اس کے عقیدہ کو اسماعیلی قرار نہیں دے سکتا چونکہ ان میں سے بعض تعابیر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔
جابر کی بہت ساری تصانیفات ہے جو تقریباتین ہزار نو سو کے لگ بھگ ہے ۔جابر کی کتابوں میں سے کتاب الجمع،کتاب الاستتمام کتاب الاستیفاد وکتاب التکلیس کا لاتین میں ترجمہ ہو اہے اور مغربی مفکرین اس سے استفادہ کر رہے ہیں اور بعض کتابیں جو چھپ چکی ہے وہ یہ ہے کتاب الاسطقس،الکمال،البیان،النور الاوجاء،الشمس ،الایجاح،اور کتاب الملک وغیرہ ہے۔
ابتداء میں مسلمانوں کی توجہ الکیمی یعنی مصنوعی سونا بنانے یا سونے کے لئے اکسیر حاصل کرنےکی طرف تھی۔اس میں جدید کیمیاء کا علم ظاہر ہوا ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کیمیاء گری محض سونا بنانے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ادویہ سازی ،معدنیات ،ارضیات اور دفاعی صنعتوں میں علم کیمیاء کے استعمال کی سخت ضرورت لاحق ہوتی تھی ۔اس لئے مسلمان کیمیاء دان زیادہ تر زورعموما علم کیمیاء پر دیتے تھے۔
لاطین میں جس کیمیاء دان کو گیبر کہا گیا ہے وہ یہی جابر ابن حیان ہے اسے تجربی کیمیاء کا بانی مانا جاتا ہے ۔وہ کیمیاء کے تمام تجرباتی عملوں سے واقف تھے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ کیمیاء میں سب سے زیادہ ضروری شئے تجربہ ہے جوشخصاپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا ہے ۔پس اگر کیمیاء کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اورصرف اس علم کو صحیح جانو جو تجربے سے سچ ہو جائے ۔ایک کیمیاء دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے ثابت کیا ہے ۔
اس لحاظ سے جابر پہلا کیماء دان ہے جس نےمادے کو عناصر اربعہ کے نظریے سے نکالا ۔قدیم عرب میں گندھک پارہ اور نمک تین بنیادی عناصر قرار دئے جاتے تھے ۔گندھک مادے کی ایسی خصوصیت مانی جاتی تھی جن سے اس میں بارودی کیفیات پیدا ہو جاتی ہے ۔نمک
سے عربوں کے ذہن میں عناصرکی وہ خصوصیت تھی جس کی بنا پر چیزیں آگ سے محفوظ رہتی تھی ۔نمک اس شئے کو بھی کہتے تھے جو مختلف عناصر کوپھونکنے ،جلانے اور کشتہ بنانےکے بعد پاقی رہ جاتی ہے یعنی نمکیات موجودہ سالٹس تھے ۔پارہ دو دہاتوں کی انفرادی خصوصیت کو واضح کر نے کے لئے استعمال ہو تا تھا ۔مثلا سونےمیں انتہائی خالص پا رے کی مقررہ مقدار شامل ہوتی ہے ۔
جابر ابن حیان نے اس کے متعلق کہا کہ تمام دھاتوں کے بنیادی اجزاء وہی ہے جو جس کی مناسبت سے سونا وجود میں آتا ہے۔اگر کسی معمولی دھات کو سونے میں تبدیل کرنا ہو تو یہ ضروی ہے کہ اسے غیر مطلوبہ آمیزشوں سے پاک کیا جائےاور چند جزی اجزاء کو شامل کیا جائے تو سوناوجود میں آتا ہے ۔جابر کے اس نظریے کا تصور اس زمانے میں خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ نظریہ آج بھی اسی طرح تابندہ ہے کہ تمام دھاتوں کے بنیا دی اجزاء جوھر یا ان کے ذرات وہی ہے جو سونے کے ہیں ۔اگرچہ اس زمانے میں کیمیاء دان سونا بنانے کےجنون میں مبتلا تھے لیکن جابر اس حقیقت کاقائل تھے کہ تجرباتی طور پر تانبے کو سونے میں تبدیل کرنا محض وقت ضایع کرانا ہے ۔اسی کا عقیدہ تھا کہ مادی دنیا میں ایک ضابطہ کار فرما ہے اس لئے ہر شئے کی نوعیت ایک مخصوص مقدار کی تابع ہے ۔چنانچہ اس نے ایک کتاب المیزان لکھی ہے۔
جابر ابن حیان پہلا شخص تھا جس نے موادکے تین حصوں میں درجہ بندی کی،نباتات ، حیونات اور معدنیات ۔بعد از آں معدنیات کو بھی تین گروہوں میں تقسیم کیا پہلے گروہ میں بخارات بن جانےوالی اشیاء رکھیں اور انہیں روح یا عرق کا نام دیا ۔دوسرے گروہ میں آگ پر پگھلنے والی اشیاء مثلا دھاتیں اور تیسرے گروہ میں ایسی اشیاء جو گرم کرنےپر پھٹک جائیں اور سرمہ بن سکتی تھی ۔ پہلے گروہ میں گندھک ،سنکھیا ،پارہ،کافور اور نوشادر شامل ہے ۔عربی میں نوشادر[امونیم کلورائیڈ]کا نام پہلی بار جابر کی تصنیفات میں دیکھا گیا ہے۔جابر کیمیاء کے متعدد امور پر قابل قدر نظی و تجربی معلومات رکھتے تھے ۔اس کا یہ نظریہ کہ زمین پر وجود میں آنے والی اشیاء ستاروں اور سیاروں کے اثر کا نتیجہ ہے ،آج بھی نیا اور اچھوتا ہے ۔جابر نے کئی کیمیائی مرکبات مثلا بنیادی لیڈکار بونیٹ،آرسینگ سلفائیڈ اور انیٹیمینس سلفائیڈاور الکحل کوخالص کرنا ،شورے کے تیزاب[نائیٹرک ایسڈ]نمک کے تیزاب[کلورک ایسڈ]اور فاسفورس سے دنیا کو پہلی بار روشناس کرایا اوراس نے دو عملی دریا فتیں بھی کیں ایک تکلیس کشتہ کرنا یعنی آکسائیڈ بنانا اور دوسرا تحلیل یعنی حل کرنا ۔
کیمیاء کے فنی استعمالات پر اس کے بیانات بہت اہم ہے ۔مثلا فلزات کی صفائی ،فولاد کی تیاری ،پارچہ بافی اورجلد کی رنگائی ،وارنش کے ذریعے کپڑے کو ضد آب بنانا ،لوہے کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھنا ،شیشے کو مینگا نیز ڈائی آکسائیڈ سے رنگین بنانا ،آئرن پائرٹ سے سونے پر لکھنا اورسرمے سے ایسٹک ایسڈبنا نا وغیرہ ۔
امریکی سائنس دان پروفیسر فلپ جابر ابن حیان کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہے: کیمیاء گری کے بے سود انہماک سے جابر نے اپنی آنکھیں خراب کر لی لیکن اس حکیم اور عظیم دانشور نے کئی چیزیں ایجاد کی اور اصل کیمیاء کی بنیاد رکھی ۔اس کا گھر تجربہ گاہ بنا ہو اتھا ۔
حوالہ جات:
۱۔ کتاب الخلدون العرب،ص ۱۶،۱۷۔
۲۔ایضا،ص۱۹۔
۳۔اعیان الشیعہ ج۱۵،ص۱۱۵۔تاریخ تمدن ،ج۱۱،ص۱۵۹۔تاریخ الاسلام السیاسی،ص ۲۶۱، الفھرست ص۵۰۰۔
۴۔ الفہرست،ص ۵۰۔تاریخ تمدن،ج۱۱،ص۱۵۹۔
۵۔ ملھم الکیمیاء،تلخیص ص ۳۳،۴۲۔
۶۔الفہرست،ص ۴۹۹
۷۔ایضا
۸۔معجم الادبار،ج۵،ص۶۔
۹۔ اعیان الشیعہ،ج۱۵،ص۱۱۸۔الذریعہ ج۵،ص۲۰۔
۱۰۔تاب الامام صادق[ع]،ابو زھرہ،ص ۱۰۱۔
۱۱۔تناظرات اسلامی ساءنس۔ڈاکٹر عطش درانی.
۱۲۔ اسلام کے عظیم سائنس دان۔حفیظ اللہ منظر.
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی