وحدت نیوز(آرٹیکل) کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلےوالوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے، جیسے جیسے انسان کی سوچ کاافق وسیع ہوتا جاتا ہے ،اسکے دوستوں اور دشمنوں کی سطح بھی مختلف ہوجاتی ہے، ہم عموماًاپنے ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال میں پھنسے رہتے ہیں اور یا پھر دوسرے ممالک کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کے بیانات تک محدود رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے دشمن کی دشمنی ہماری حکومتوں یاسرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دشمن تمام اسلامی ممالک، اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب و تمدن سے بر سر پیکار ہے۔
بدقسمتی سے ہم انتہائی محدود سوچ اور کمزور اطلاعات کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین تاریخی تناظر کے ساتھ تجزیہ اور پلاننگ کرتے ہیں۔۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعات کے بعد دنیا ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی تو ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نےوائٹ ہاوس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔
اس دور میں ہم جب وقتی حالات کے تحت قومی فیصلے کر رہے تھے تو اس وقت مغربی و امریکی اقوام، تاریخی پسِ منظر کے ساتھ ، ہمیں مسلمان سمجھ کربحیثیت مسلمان ہمارا تعاقب کر رہی تھیں۔مذہبی و دینی بنیادوں پر ہمارا تعاقب اس بات کی دلیل ہےکہ دشمن صلیبی جنگوں کو تسلسل کے ساتھ لڑ رہاتھا، یہ لڑائی کسی اسلامی حکومت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس لڑائی میں ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا، قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا گیا،نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا گیا،تعلیمی ا داروں کوتباہ کیا گیا ، سول شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ۔اب تک صرف افغانستان میں سول شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد گرایا گیا۔شام و عراق میں انفرااسٹریکچر کو تباہ کرنے کے بعد آثار قدیمہ تک کو منہدم کر دیا گیا ، صلیبی جنگوںمیں اس سے پہلے دشمن نے ہم پر ہر طرح کاحربہ ازمایا تھا ، حتی کہ ایک صلیبی جنگ صرف بچوں کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی تھی۔
"بچوں
تاریخی اسناد کے مطابق 1212ء میں مسلمانوں خلاف کی صلیبی جنگ" لڑی گئی۔ مسیحی راہبوں کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کے افراد گنہگار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں مسلمانوں پر فتح نصیب نہیں ہورہی ، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں ،انہوں نے معصوم بچوں پر مشتمل 37 ہزار کا ایک لشکر بنایا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ یہ لشکر بیت المقدس پہنچنے سے پہلے ہی نیست و نابود ہوگیا۔
اس طرح کے تجربے کرنے کے بعد اب دشمن ہمارے خلاف اپنے بچوں کے لشکر ترتیب نہیں دیتا بلکہ اب تو ہمارے ہی بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر ہمارے اوپر خود کش حملےکرواتا ہے اور اب مسلمانوں کے خلاف جو لشکر ترتیب دئیے جاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں صلیب نہیں بلکہ ایسا پرچم ہوتا ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
دشمن قدیمی صلیبی جنگوں کے ذریعے تو ہم سے بیت المقدس کو نہیں لے سکا تھا لیکن بعد ازاں نئی حکمت عملی کے ساتھ بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل کاوجود صلیبی ممالک کی حمایت کا ہی مرہون منت ہے۔
مسلمان ایک طرف طالبان ، القائدہ،داعش اور لشکر جھنگوی سے نبرد ازما ہیں اوردوسری طرف، اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک سے پنجہ ازمائی کر رہے ہیں جبکہ صلیبی طاقتیں دونوں محازوں پر مسلمانوں کے خلاف کھل کر اسلام دشمن ممالک اور تنظیموں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حتی کہ اگر یمن میں ایک گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے مر جاتا ہے تو یہ سب بھی صلیبی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
اس وقت مشرقی ممالک کا اقتصاد،کرنسی، سیاست، معدنی ذخائر، فوجی نقل و حرکت اور آبی وسائل ان سب پر امریکہ و مغرب کاکنٹرول ہے، اور یہ مکمل کنٹرول انہوں نے صلیبی جنگوں کے تجربات کے بعد حاصل کیاہے۔لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی آج مکمل طور پر اسلامی دنیا پر حاکم ہے اورافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ مسلمان دانشمند اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
امریکہ ومغرب کا انداز تفکر یہ ہے کہ وہ ساری دنیاکے مالک ہیں، اور ساری دنیاانکی غلام ہے،لہذا غلاموں کے لئے وہ کسی احترام یا اخلاق کے قائل نہیں ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کے پھینکے گئے بم اس کی واضح دلیل ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے کس بے دردی سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے، شام کو کھندرات میں تبدیل کیاہے، عراق کو تہس نہس کیا ہے اور افغانستان کو برباد کیا ہے یہ سب کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔
امریکہ و مغرب کا کینہ حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ ملتوں تک پھیلاہوا ہے،یہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے ، فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب ،فحش فلموں، اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی ، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان ، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ ومغرب کے حالیہ کنٹرول سے نجات کے لئے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گلی کوچے کی دوستی و دشمنی سے باہر آئیں اور عالمی اسلامی برادری کے تصور کےمطابق اپنے نفع و نقصان کا تعین کریں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسجد سےمسجدکے خلاف فتوے، مسلک سے مسلک کے خلاف کتابیں لکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے باہمی فاصلوں کو مٹانے، مشترکہ دشمنوں کو پہچاننے، اور آپس میں اخوت و رواداری کے فروغ کا خلوص دل سے قصد کریں۔
ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم بین الاقوامی آمریت کے دور میں جی رہے ہیں، ایسی آمریت جس میں واضح طور پر یہ پیغام دیاجاتا ہے کہ ہماری اطاعت کرو، ہمارا ساتھ دو نہیں تو ہم تمہیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیں گے۔اس زمانےکا آمر جدیدتعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور وہ کمزور اقوام کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت کرنے پر آمادہ نہیں،ایسے میں اگر ہمارے دانشمند صرف اپنے اوپر ہی غصہ نکالتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو کوستے رہیں گے تو دشمن مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ہمیں دشمن کی علمی و فکری طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے۔
ہماری تمام مسلمانوں خصوصاً علمائے اسلام سے اپیل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کو پہچانیے،مسلمانوں کے تاریخی دشمنوں پر ایک نگاہ ڈالئے،دشمنوں کی سازشوں پر لبیک کہنے کے بجائے ، تجزیہ و تحلیل کےذریعے سازشوں کو بے نقاب کیجئے، عالم اسلام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیجئے، اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ابھارنے کے بجائے وحدتِ اسلامی کے سورج کو طلوع ہونے دیجئے ، اسی میں پورے عالم بشریت کی بھلائی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلےوالوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے،ہمیں اب گلی محلے کی سطح سے اوپر آنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.