وحدت نیوز(آرٹیکل) {وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ} روز ہفتہ 11جمادی الثانی 597 ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سرزمین طوس پر جلوہ گر ہو گیا ۔ اس کا نام محمد کنیت ابوجعفر ،لقب نصیر الدین محقق طوسی ،استاد البشرتھے۔خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم عربی و فارسی قواعد،معانی بیان اور کچھ منقول علوم اپنے روحانی باپ سے حاصل کیا۔والد نے بیٹے کو منطق ،حکمت ،ریاضی و طبیعیات کے نامور استاد نور الدین علی ابن محمد شیعی کے سپرد کر دیا جو خواجہ نصیر الدین کے ماموں بھی تھے۔مدت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایسا لگا کہ انکے علم کے کی پیاس ماموں نہیں بجھا سکتے اسی بنا پر وہ ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے ۔خواجہ نصیر الدین روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کرتے ہی نصیر الدین کا لقپ پاتے ہیں ۔
خواجہ نصیر الدین نےطوس میں مقدمات ومبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتےہوئے تحصیل علم کے لئے نیشاپور کا سفراختیار کرتے ہیں ۔مدرسہ سراجیہ نیشاپورمیں خواجہ نصیر امام سراج الدین کے دروس فقہ و حدیث اور رجال میں شرکت کرتے ہیں ۔فرید الدین داماد نیشاپوری جن کا شماراپنےزمانے کےبزرگ ترین استادوں میں ہوتا تھا مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے خواجہ نصیر ان کے [اشارات ابن سینا] کے درس میں شرکت کرتے ہیں ۔استاد وشاگرد میں علمی مباحثے کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نے نصیر الدین کی استعداد علمی اور تحصیل علم میں شوق کو دیکھتے ہوئے ایک اور دانشمند قطب الدین مصری شافعی سے ملائی جو فخرالدین رازی کے شاگرد تھے اور علم طب کی مشہور کتاب [قانون ابن سینا] کے بہترین شارحین میں سے تھے۔
طوسی شہررے اور قم کے علاوہ اصفہان تک جاپہنچے لیکن کوئی استاد ایسا نہیں پایا جو طوسی کےعلمی پیاس کو بجھا سکے اس بنا پر وہ عراق کا سفر کرتے ہیں ۔ اور 619ھ میں معین الدین سے اجازۃروایت لینے میں کامیاب ہو گئے۔محقق طوسی نےعراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ حلی نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر الدین سےکیں۔نصیر الدین موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت سے علم نجوم وریاضی کا حصول کیا۔خواجہ نصیر الدین عراق میں تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے کہ سر زمیں ایران پر مغلوں کا حملہ ہوتا ہے ۔ان کادل بھی ہم وطن اور خاندان کے افراد کے لئے بےحد مضطرب ہو گئے دوسری طرف عراق میں انکی علم و دانش سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت کم نظر آتے تھے اس لئےوطن کی طرف واپس آنے کا قصد کرتے ہیں۔
طوسی اپنے خاندان سے ملاقات کے لئے شھر قائن پہنچتے ہیں اور وہاں اپنی ماں و بہن سے ملاقات کرتے ہیں اور اہل شہر کے اصرار پر امام جماعت ہو کر لوگوں کومسائل سے آگاہ کرتے ہیں ۔ماں کی رضامندی سے 628 ھ میں فخر الدین نقاش کی بیٹی [نرگس خانم] کو اپنا شریک حیات بنا لیتے ہیں ۔خواجہ نصیر الدین چند ماہ تک قائن میں رہے اور شادی کے بعد قہستان کے [محتشم ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور جو مرد فاضل و کریم تھے] نے انہیں بلا بھیجا انکی بیوی راضی ہو گئی اور دونوں نے اسماعیلوں کے قلعے کی راہ لی ۔چونکہ اس زمانے میں ہر شہر مغلوں کے حملےسے سقوط کر رہے تھے توقلعہ بہترین اور محکم ترین جگہ تھی۔جس زمانےمیں طوسی قلعہ قہستان میں رہتے تھے بڑے احترام سے زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے ناصر الدین کی فرمائش پر [طہارۃ الاعراق ]ابن مسکویہ کو عربی سےفارسی میں ترجمہ کر کے میزبان کے نام اسے اخلاق ناصری سے موسوم کرتے ہیں ۔
خواجہ ناصر الدین کا مذہب اسماعلیوں سے میل نہیں رکھتے تھے ۔طوسی نے ایک مدح عباسی خلیفے کے نام لکھ دی اور مدد طلب کیں لیکن طوسی اپنے پہلے سیاسی اقدام میں شکست کھا گئے جس کے بعد طوسی کو دوبارہ قلعوں میں رہنا پڑا۔26 سال طوسی نے اسماعیلی قلعوں میں زندگی بسر کیں اور اس مدت میں متعدد کتابوں کی تالیف کی جن میں شرح اشارات ابن سینا،اخلاق ناصری ،رسالہ معینیہ ،مطلوب المومنین،روضۃ القلوب، رسالۃ تولا و تبرا ،تحریر اقلیدس ،روضۃ التسلیم قابل ذکر ہیں۔
مغلوں کے فتوحات کے بعد ہلاکو خان نے طوسی کے علم و فضل کی وجہ سے اپنے بزرگان میں شامل کئے اور جہاں جاتے طوسی کو ساتھ لے جاتے تھے ۔طوسی نے جوینی کی مدد سے قلعہ الموت کی فتح کے بعد حسن بن صباح کے عظیم کتاب خانے کو آتش زنی سے بچایا۔ابن ابی الحدید اور انکا بھائی موفق الدولۃ فتح بغداد کے بعد مغلوں میں قید تھے اور قتل کئے جانے والے تھے ابن علقمی طوسی کے پاس انکی سفارش کرتے ہیں اور طوسی نے ان دونوں کی شفاعت کر کے موت کےمنہ سے ان دونوں کو رہائی دی۔طوسی نے مراغہ میں رصدگاہ کی تعمیر اور ایک بڑے مکتب علم ، دانش کی بنیاد رکھ دیں ۔
مشہور مستشرق رونالڈس لکھتے ہیں : طوسی نے مراغہ میں ہلاکو خان سے کہا کہ فاتح حاکم کو صرف غارت گری پر اکتفا نہیں کرنے چاہیے۔اس مغل نے طوسی کا مطلب بھانپ لیا اور حکم دیا کہ مراغہ کے شمالی پہاڑ پر ایک عظیم رصد گاہ بنائی جائے اور کام شروع کئے اور بارہ سال کی مدت میں مکمل ہو گئے اس کے بعد بہت بڑا کتاب خانہ بھی بنایا گیا جس میں تمام کتابوں کو اکٹھا کر دیا گیا جو بغداد کے کتابخانوں کی غارتگری سے بکھر گئی تھیں۔
مراغہ کی رصدگاہ 656ھ میں بننا شروع ہوا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی وفات کے سال 672ھ میں مکمل ہوئی۔ اس تعمیر میں فلسفہ و طب اور علم ودین حاصل کرنے والے طالب علموں کے لئے الگ الگ مدارس و عمارتیں بنائی گئی تھیں جہاں فلسفہ کے طالبعلم کو روزانہ تین درہم اور طب پڑھنے والوں کو دو درہم اور فقیہ کے لئے ایک درہم اور محدث کے لئے روزانہ نصف درہم مقرر کر لیا گیا تھا۔ اس علمی کام میں جن علما ء و دانشمندوں نےطوسی کا ساتھ دیا ان میں چند اعلام کا ذکر کیا جاتا ہے ،نجم الدین کابتی قزوینی وفات 675 ھ صاحب کتاب منطق شمسیہ ،موید الدین عرضی 650-664،صاحب کتاب شرح آلات رصدیہ ،فخرالدین خلاصی 587-680 ھ ،محی الدین مغربی ،فرید الدین طوسی ،وغیرہ۔
مراغہ کا رصد خانہ اسلام میں پہلا رصد خانہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی رصدگاہیں موجود تھیں ۔طوسی کے عظیم کارناموں میں سے ایک مراغہ کی رصدگاہ کے نزدیک کتابخانے کی تعمیر تھیں یہاں تک کہ اس کتابخانے میں چار لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہو گئے۔ محقق طوسی بے پناہ علم و دانش اور مختلف فنون میں ید طولی رکھنے کے ساتھ بہترین اخلاق و صفات حسنی کے حامل تھے جسکابیان تمام مورخین نےکیاہے ۔ طوسی کو
صرف قلم وکتاب والے دانشمندوں میں شمارنہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ انکے ہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی چناچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بےروح پر ترجیح دیتے تھے۔علامہ حلی جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین عالم کےطور پر جانے جاتے ہیں طوسی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ علامہ حلی اپنےاستاد کے فضائل اخلاقی کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں :خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں ،انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں ،میں نے جتنے دانشمندوں کو دیکھا ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔خدا انکی ضریح کو منور کرے میں نے ان کی خدمت میں الہیات شفا ابن سینا اور علم ہیئت میں تذکرہ کا درس لیا جو خود انکی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی اس کی تابانی رہے گی۔{مفاخر اسلامی ،علی دوانی ج4 ص136}
مورخین اہل سنت میں سے ابن شاکر نے اخلاقی طوسی کی تعریف اس عبارت میں کی ہے۔[خواجہ نہایت خوش شکل و کریم و سخی برباد،خوش معاشرت اور حکیم تھے ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا ۔[؛فوات الوفیات،ابن شاکر ج۲ ص۱۴۹؛ ] خواجہ طوسی کے شاگردوں میں علامی حلی ،ابن میثم بحرانی ،قطب الدین شیررازی ،ابن فوطی ،سید رکن استر آبادی وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ کئی سو سال گزر گئے ہیں مگرآج بھی طوسی کے آثارعلم و دانش سے استفادہ جاری و ساری ہے۔طوسی بہت سے عصری علوم بالخصوص فلسفہ و ریاضی میں صاحب نظر تھے اور کلام،منطق ،ادبیات ،تعلیم و تربیت ،اخلاق ،فلک شناسی و رمل وغیرہ میں ایک مقام رکھتے تھے۔مخالفین و غیر مسلمین نے انکی جو تمجید و تعریف کی ہے وہ لائق توجہ اور خواجہ کے وسعت علمی کا ثبوت ہے ۔
جرجی زیدان اس موضوع پر لکھتے ہے[ اس ایرانی کے ذریعےحکمت و علم مغلوں کی سلطنت کے ہر دور داراز علاقوں میں یوں پہنچ گئے کہ رات کی تاریکی میں نور تاباں تھے۔[آداب الغۃ العربیہ ،فوائد الرضویہ] نصیر الدین کی جامعیت ایسی ہے کہ ہر علم و فن میں انکا نام نظر آتا ہے شاید خواجہ نصیر ان کم نظیر ترین انسانوں میں سے ہےیں جنہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں اپنے قلم کی مہارت دکھائی ہیں ۔ اختصار کے طور پر خواجہ کے تصانیف کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔تجرید العقائد ،شرح اشارات ،اوصاف الاشراف،قواعد العقائد،اخلاق ناصری،آغاز و انجام ،تحریر مجسطی،تحریر اقلیدس،تجرید المنطق،اساس الاقتباس ،زیج ایلخانی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
18ذی الحج 673 ھ کو بغداد کےآسمان کا رنگ دگرگوں تھا گویا کوئی ایسا اتفاق واقع ہونے والا ہے جس سے اس شہر کا سکون ختم ہو جائے گا اور لوگ سوگوار ہو جائیں گے۔ایک ایسا مرد بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا جس کی پر شکوہ زندگی سراسر حادثات سے بھر پور تھی جس نے سالہا سال تلوار و شمشیر کا نظارہ کیا اور ایک ہھر سے دوسرے شہر کی طرف ہجرت و اسیری کا تجربہ بھی تھا ۔ طوسی کی تمام زندگی میں تلوار کا منحوس سایہ اس کے سر پر رہے اور اسی بربریت کے سایہ تلے اس نے مکتب کے عقائد و افکار نشر کئے اور اپنی یاد گار بے شمار کتابیں چھور گئے۔ تاریخ نقل کرتے ہے کسی نے خواجہ سے وصیت کرنےکےلئے کہے ؛ کہ آپ کو مرنے کے بعد جوار قبر امیر المومنین علیہ السلام میں دفن کیاجائے۔خواجہ سراپا ادب تھے جواب میں بولے [مجھے شرم آتی ہے کہ مروں تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے جوار میں اور اسکا آستانہ چھوڑ کر کہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گفتگو کے بعد آنکھ بند کر کے اہل علم و دانش کو غم و عزا میں بٹھا دیے ۔بغداد سراسر غرق ماتم ہو ئے ،خواجہ کی تشیع
جنازہ میں بچے ،جوان ،بزرگ ،مردو عورت باچشم گریاں شریک تھے۔ انکی میت کو آستان مقدس امام کاظم و امام جواد علیہم السلام کے روضے لے گئے جس وقت قبر کھودنا چاہا تووہاں پہلے سے تیارقبر کا سراغ ملتے ہے ،عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ کی تاریخ ولادت اور اس قبر کی تیاری ایک تاریخ کو ہوئی تھی ،کہا جاتا ہے کہ جس دن خواجہ نے طوس میں آنکھ کھولی اسی دن امام کاظم علیہ السلام نے ان کے لئے اپنے پاس جگہ مہیا کیں چونکہ خواجہ بھی تمام عمر مغلوں کے اسیر و زندانی رہے اور زندان میں ایک لحظے کے لئے بھی شیعی اعمال و مناجات کو ترک نہیں کیں۔
طوسی کو کاظمین میں سپرد خاک کئے گئے اور انکی قبر پر آیت شریفہ{وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ}نقش کر دی ۔خواجہ اگرچہ اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن افکار و قلم ہمیشہ ہمیشہ محبین کے گھروں میں باقی رہے ،صدیاں گزر گئے لیکن انکا نام علم و دانش کے میناروں سے چمکتے رہے اور رہینگے ۔
تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی
منابع :
1۔تخفۃ الاحباب ،محدث قمی
2۔ روضات الجنات ،قصص العلمائ ،مرزا محمد تنکابنی
3۔شرح اشارات ،شیخ عبد اللہ نعمہ
4۔ سرگذشت و عقائد فلسفی نسیر الدین طوسی ،محمد مدرسی زنجانی
5۔ فوات الوفیات ابن شاکر
6۔فلافہ شیعہ ،شیخ عبد اللہ نعمہ
7۔الوافی بالوفیات ،ابن صفدی رکنی
8 ۔ الاقاب ،محدث قمی
9۔مفاخر اسلامی ،علی دوانی
10۔آداب اللغۃ العربیہ ،محدث قمی
11 ۔خواجہ نصیر یاور وحی و عقل،عبد الوحید وفائی ،مترجم حسن عباس فطرت
12 ۔احوال و آثار خواجہ نصیر الدین،محمد تقی مدرس رضوی۔