وحدت نیوز (انٹرویو) حجت الاسلام آغا سید علی رضوی کا تعلق اسکردو نیورنگاہ سے ہے۔ وہ حوزہ علمیہ قم اور مشہد کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ گلگت بلتستان میں انقلابی تحریکوں کے سرخیل رہے ہیں۔ انجمن امامیہ بلتستان میں تبلیغات کے مسئول کے طور بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انقلابی فکر کے حامل جوانوں اور عوام میں ان کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ انہیں پورے خطے میں مقاومت و شجاعت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تمام ملی اور قومی بحرانوں میں عوام کی نطریں ان پر ہوتی ہیں۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ گرفتار بھی ہوئے، تاہم حکومت عوامی ردعمل کے سبب فوری طور پر رہا کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ جی بی میں گندم سبسڈی کے خاتمے کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں بنیادی اور مرکزی شخصیت انکی ذات تھی اور انہوں نے حکومت کو عوامی تائید سے بارہ روزہ تاریخی دھرنے کے بعد سبسڈی بحال کرنے پر مجبور کیا۔ موجودہ مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت میں انجمن تاجران کیجانب سے غیر قانونی ٹیکس کے خلاف سولہ روزہ دھرنے میں بھی وہ صف اول کا کردار ادا کرتے رہے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عوامی حقوق کیلئے ہمہ وقت اور ہر حال میں میدان میں رہنے کے سبب خطے کے عوام انکے معترف ہیں۔ عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کے سبب انہیں شیڈول فور میں بھی ڈالا ہوا ہے۔ اسوقت عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان سمیت مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کی مسئولیت بھی انکے کندھوں پر ہے۔ مقبول عوامی لیڈر آغا علی رضوی سے ایک بین الاقوامی خبررساں ادارےنے علاقائی صورتحال پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
سوال: گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور دیگر حقوق کیلئے آپ مصروف عمل ہیں، بتائیں اس راہ میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین میں رکاوٹیں مختلف سطح پر ہیں۔ ایک رکاوٹ یو این سی آئی پی کی چارٹر ہے، جس کے مطابق جی بی کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس قضیہ میں انڈیا اور کشمیر دونوں شامل ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں کے عوام نے مسلح جدوجہد کے بعد آزادی کے پرچم گاڑ دیئے اور ڈوگرہ فوج کو بھگانے کے بعد یہاں کے انتظامات پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کے ہاتھ میں دے دیئے، اس کے باجود اسکی متنازعہ حیثیت کیسے قائم رہتی ہے؟ معاملہ کچھ بھی ہو اس وقت کے حکمرانوں نے جی بی کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اس میں سب سے بڑی غلطی ہی اقوام متحدہ کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہے کہ جس میں گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ تسلیم کیا گیا اور مسئلہ کشمیر کا حل استصواب رائے کے ذریعے کرانے کا فیصلہ ہوا، تب سے اب تک جی بی کو لٹکایا ہوا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ سے استصواب رائے کے لئے وقت کا تعین کراتا تب بھی مسئلہ حل تھا، خیر یہ ایک سفارتی کمزوری تھی۔ اقوام متحدہ کے بعد پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور حکمران بھی اس سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے ہیں۔ وفاقی سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی سنجیدہ سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے اور جی بی کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آزادی کے ابتدائی دنوں میں اگر اس معاملے کو کسی کنارے تک پہنچانے کی کوشش کرتے تو جی بی اور کشمیر دونوں پاکستان کا مسلمہ حصہ ہوتے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے اس مسئلے کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے عالمی سطح پر کوشش کرے اور ان مسائل کو حل کرے۔
سوال: جب آپکا سمجھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور انڈیا بھی گلگت بلتستان اور کشمیر کے مسئلے میں فریق ہیں، تو ایسے میں تو آئینی صوبے کا مطالبہ کیا بےجا نہیں۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! آپ کو عرض کروں کہ ہمارا ذمہ دار اداروں سے ہمیشہ یہی مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ آئینی صوبہ بنایا جائے۔ اس کا واضح مطلب یہی ہےکہ مسئلہ کشمیر کے تصفیے کے لئے بھی حکومت سنجیدہ کوشش کرے۔ ایک قوم کی تقدیر کے فیصلے میں تین نسلیں گزر گئیں، بتایا جائے مزید کتنے سال انتظار کرائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام عالم سے مدد مانگیں اور اس مسئلہ پر انڈیا کو اور اقوام متحدہ کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ خود بنیادی انسانی حقوق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو اس میں پاکستان حق رکھتا ہے کہ وہ خود اقدام اٹھائے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے قوانین پر عملداری کے لئے ان پر عالمی سطح پر دباو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر مناسب کوشش کرے تو استصواب رائے کے لئے یعنی اقوام متحدہ کے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانا مشکل نہیں۔
دوسری بات یہ عرض کرتا چلوں کہ جب اقوام متحدہ کے فیصلے پر عملدرآمد کے مطالبے کے ساتھ یہ واضح کیا جائے کہ اگر اقوام متحدہ اپنے فیصلے نہیں کرا سکتے تو اس مسئلے پر پاکستان اپنے موقف کے مطابق کوئی اقدام اٹھائے گا اور اس کے بعد عملی طور پر کچھ اٹھانا بھی چاہیئے۔ اس سلسلے میں پاکستان آئین میں ترامیم کے ذریعے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ جیسے انڈیا نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں متنازعہ حیثیت کے حقوق کے ساتھ وہ حقوق بھی دئیے جو دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام کو دیگر شہریوں کے برابر حقوق نہیں دے سکتے تو متنازعہ خطے کو حقوق کا مطالبہ یہاں کے عوام کا آئینی اور قانونی حق ہے۔
سوال: گذشتہ دنوں آپ نے کشمیر کی قیادت سے ملاقات بھی کی اور دیکھا یہ گیا ہے کہ کشمیری قیادت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کیلئے آمادہ نہیں اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ کشمیر کی قیادت کیوجہ سے جی بی کو آئینی حقوق نہیں دیئے جا سکتے، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے۔؟
آغا علی رضوی: مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمارا موقف شروع دن سے واضح ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں نے کشمیر کے مسئلے پر کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نتیجے میں ستر سال بیت گئے۔ ان ستر سالوں میں کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی تو یقیناً یہ مسئلہ حل ہوا ہوتا۔ ہم دنیا کے ہر مظلوم کے حامی ہیں، چاہے وہ فلسطین میں ہو، عراق میں ہو، یمن میں ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ کشمیری بھی مظلوم قوم ہے، بالخصوص مقبوضہ کشمیر کے جوانوں اور ماں بہنوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل نکلے اور ان مظلوموں کی داد رسی ہو۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کے حوالے سے کشمیر کی چند قیادتیں تحفظات رکھتی ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ اگر جی بی کو پاکستان کا آئینی حصہ بنایا گیا تو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور پڑ جائے گا۔
اس سلسلے میں چند قیادتوں سے ہماری ملاقات ہوئی اور ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جی بی آئینی حصہ بنے تو بھی اس سے نہ فقط کشمیر کاز کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط تر ہو جائے گا۔ گلگت بلتستان کے انضمام کے بعد کشمیر کے انضمام بھی عمل میں آ سکتا ہے۔ اب کشمیر کی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے آواز بلند کریں۔ ستر سالوں سے محروم اس خطے کے کسی بھی ایشو پر کشمیر کی قیادتوں نے کبھی آواز بلند نہیں کی۔ اب جی بی کو حقوق ملنے جا رہے ہیں تو اس کے مخالف کسی طور مناسب نہیں۔ چند سیاسی رہنماوں کی وجہ سے جی بی کے عوام اور کشمیر کے عوام کے درمیان بھی فاصلہ پیدا ہونے سے ملکی مفاد کا نقصان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہوشیاری کے ساتھ بات کرنی چاہیئے۔ پہلے کی طرح آج بھی کشمیر کے عوام کو پاکستان جس طرح کے سیٹ اپ دے یا پاکستان کا پانچواں صوبہ بھی ڈیکلیئر کرے تو ہم مخالفت نہیں کریں گے۔
سوال:گلگت بلتستان کے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے اور یہ بات سامنے آرہی ہے کہ عبوری صوبہ نہیں دیا جائیگا جبکہ ریفامز کے نام پر کوئی سیٹ اپ دیا جائیگا، جسکے بعد اگر اسکی مخالفت کی گئی تو توہین عدالت سمجھے جانے کا امکان ہے، ایسے میں آپکی جماعت جی بی کے آئینی حقوق کی جنگ کیسے لڑیگی۔؟
آغا علی رضوی: سب سے پہلے تو چیف جسٹس آف پاکستان کے شکرگزار ہیں کہ جنہوں نے خود اس علاقے کا دورہ کرکے یہاں کی حب الوطنی کو تسلیم کیا اور خطے کی محرومی کو ختم کرنے کے لئے ایکشن لیا۔ انہوں نے عوام کی امنگوں کیمطابق جی بی کو حیثیت دینے، محرومیوں سے نکالنے کے لئے کردار ادا کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس وعدے پر جی بی کے عوام کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف جمی ہوئی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلے میں گلگت بلتستان کو باقاعدہ قومی دھارے میں شامل کر کے خطے کو محرومی اور مایوسی سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ ساتھ ہی یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر یہ فیصلہ عوامی امنگوں کے برخلاف آئے اور عوام اس خطے کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کے لئے کرنے والی ہر جدوجہد نہ صرف توہین عدالت نہیں ہوگی بلکہ نظریہ پاکستان کے عین مطابق اور آئینی عمل ہوگا۔
میں یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ خطے کو مستقبل میں پاکستان کا مکمل آئینی حصہ بننا ہے، جس کے لئے جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گی۔ اگر پاکستان خود گلگت بلتستان کو آئینی تحفظ نہ دے تو جی بی میں بننے والے بڑے منصوبوں پر عالمی طاقتوں کا موقف مضبوط ہو جائے گا اور ملک کا بڑا نقصان ہوگا۔ ایک متنازعہ خطے پر بین الاقومی سطح کے منصوبے یا معاہدے کے خلاف عالمی طاقتیں بالخصوص امریکہ اور انڈیا آواز بلند کرسکتا ہے۔ اس لئے ہمارا رونا یہ ہے کہ ان خطوں کو محرومیوں سے نکالنے عالمی دباؤ سے آزاد کرانے اور پاکستان کے استحکام کے لئے آئینی دھارے میں شامل کیا جائے۔
سوال: ایک طرف آپ صوبائی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں اور آپکی جماعت مسلم لیگ نون کی سخت مخالف ہے تو دوسری طرف انکے رہنماؤں اور حکومتی شخصیات سے روابط کا نیا سلسلہ چل پڑا ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! کسی بھی سیاسی جماعت سے مخالفت اصولوں اور نظریاتی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی بات کریں تو گلگت بلتستان میں انکی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید ہم نے ہی کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انکی انتقامی سیاست، عوام دشمن فیصلے اور غیر جمہوری رویئے ہیں۔ جیسے جی بی کے محروم و مجبور عوام پر ٹیکس کا پہاڑ توڑنے کی کوشش کی، اسی طرح آرڈر 2018ء جو کہ ایف سی آز طرز کا آمرانہ حکم نامہ تھا، اس کے نفاذ کی کوشش کی، یہاں کی عوامی زمینوں پر ناجائز قبضے کی کوشش کی، عوامی فنڈز اور منصوبوں کی غیر منصفانہ تقسیم کی۔ ان وجوہات کی بنا پر اصولی طور پر ہم اب بھی مخالف ہیں اور مخالفت کرتے رہیں گے۔ تاہم جیاں تک ان سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی بات ہے تو میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مخالفت کے باوجود حفیظ الرحمٰن جی بی کا ایک فرد ہے اور جی بی کے عوام کے حقوق کے لئے اور محرومیوں سے نکالنے کیلئے کسی بھی فرد سے ملاقات بھی ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں جی بی سے مربوط ہر فرد کو ساتھ لے کر ہی ہم جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ ستر سالوں سے ہماری محرومی کی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم سیاسی، مذہبی، مسلکی، علاقائی اور لسانی تقسیمات میں پڑے رہے جس کی وجہ سے ہمیں حقوق نہیں ملے۔ اب ایک تاریخی موڑ آرہا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام جماعتوں کو مل کر جی بی کے حقوق کے لئے ایک آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی سلسلے میں ہم نے تمام جماعتوں اور ہر طرح کی شخصیات سے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک بیانیے پر سب کو لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
سوال:گلگت بلتستان کے عوام ایک طرف حب الوطنی کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو دوسری طرف حقوق کے نہ ملنے کا رونا روتے ہیں، حالانکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت گلگت بلتستان کی صورتحال بہت بہتر ہے، ایسے میں خاموش رہنا کیا حب الوطنی کے جذبے کے عین مطابق نہیں۔؟
آغا علی رضوی: پاکستان آرمی کے گلگت بلتستان کے سربراہ ہی کے جملے کو لے لیں تو بات واضح طور پر سمجھ میں آ جائے گی۔ ایف سی این اے جنرل جو کہ نہایت عوام دوست اور خطے سے ہمدردی رکھنے والے انسان ہیں، انہوں نے کئی فورمز پہ یہ آواز بلند کی ہے جو ہم کئی عشروں سے بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا پاکستان سے سر دھڑ کا رشتہ ہے۔ یعنی جی بی کو پاکستان کے وجود میں سر کی حیثیت حاصل ہے۔ جب سر ہی جھکا ہوا ہو تو کیسے وجود کے رتبے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا سر بلند سے بلند تر ہو، اس کے لئے جی بی کی تعمیر و ترقی ضروری ہے۔ جی بی کی ترقی اور تشخص نہ صرف جی بی کی ترقی ہے بلکہ پاکستان کے استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ جی بی کی دفاعی اہمیت، جغرافیائی اہمیت اور تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے روشن مستقبل کا ضامن منصوبہ سی پیک کا ایک بڑا حصہ اس خطے سے گزر رہا ہے، جس پر دشمن کی نگاہیں بھی جمی ہوئی ہے۔
اسی طرح دیامر بھاشا ڈیم جیسا اہم منصوبہ بھی اس علاقے میں تکمیل ہورہا ہے۔ آپ کو عرض کرتا چلوں کہ اگر جی بی پر توجہ دی جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ ملک کے توانائی کے بحران کا حل بھی اسی خطے سے نکل سکتا ہے، جبکہ منفی طاقتیں چاہتی ہیں کہ کسی طرح نظریاتی یا سیاسی اعتبار سے یہ خطہ پاکستان سے دور ہو، لہٰذا ہم یہ جدوجہد کر رہے ہیں اور ان قوتوں سے بھی مقابلہ کرتے ہیں جو منفی پروپیگنڈوں کے ذریعے عوام میں مایوسی پھیلا رہے۔ ان سب کا واحد حل یہی ہے کہ اسکو شناخت دی جائے ساتھ میں اس خطے کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان مضبوط سے مضبوط تر ہو۔ رہی بات دوسرے علاقوں سے موازنے کی تو میں آپ سے ایک مختصر سوال کرنا چاہتا ہوں کہ قومی کی ترقی کا انحصار سب سے زیادہ تعلیم پر ہوتا ہے، آپ بتائیں کہ اس خطے میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں جو ہائیرایجوکیشن کمیشن کے معیار کے مطابق پہلی پچاس یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہو، کتنے میڈیکل کالجز ہیں، کتنے انجینئرنگ کالجز ہیں، کتنے ٹیکنیل کالجز ہیں، کتنی زرعی یونیورسٹیاں ہیں۔ اسی موازنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کیوں ہم حقوق کی بات کرتے ہیں۔