وحدت نیوز (آرٹیکل) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے حالیہ دنوں ابو ظہبی میں او آئی سی کی وزرائے کارجہ کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب کے لئے ان کو خصوصی دعوت ابو ظہبی اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ او آئی سی کے فورم پر کسی غیر مسلم ملک یا غیر ممبر ملک کی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہو۔اس خطاب سے متعلق سب اہم بات اس کے وقت کا تعین تھا۔پاکستان کے عرب دوست ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو ایسے وقت میں مدعو کیا کہ جب چند روز قبل ہی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں جو بڑھتے بڑھتے پھر بھارتی فضائیہ کی پاکستانی علاقوں کی حدود کی خلاف ورزی اور بمباری جیسی خبروں تک جا پہنچی جس کے جواب میں پاکستان فضائیہ نے بھی ایک کاروائی میں بھارتی فضائیہ کے ایک مگ اکیس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا جسے دو روز بعد امن مقاصد کے خاطر واپس بھارت کو دے دیا گیا۔ان تمام باتوں سے ایک طرف کشمیر کی صورتحال بھی ہے کہ جہاں ویسے تو ستر برس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم کشمیر قوم ہے تو حالیہ چند ماہ میں یہ ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا بھاری افواج کا معمول بن چکا ہے، پاکستانی حدود میں بھارت کی شیلنگ اور اس کے نتیجہ میں معصوم شہریوں کی شہادت بھی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ایسے ایام میں کہ ایک طرف پاک بھارت کشیدگی کے باعث دونوں ممالک میں تناؤ کی کیفیت اور اس حد تک کہ دونوں ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کی پروازوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا تو دوسری طرف اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جو یقیناًپہلے سے طے شدہ تاریخ کے مطابق تھا۔او آئی سی اجلاس کی انوکھی اور منفرد بات یہ ہوئی کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ آ کر خطاب کریں،۔
دوسری طرف اس پوری صورتحال میں پاکستان کا نقطۂ نظر ٹھوس اہمیت کا حامل تھا کہ اگر بھارت کو اسلامی ممالک کے بین الاقوامی فورم پر بلانا ہی ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دے ؟ یا کشمیریوں کی ستر سالہ جد وجہد کو صرف نظر کرے؟ بہر حال اس قسم کے متعدد سوالات اس بات کا موجب بنے ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت ہی کر لی جس پر سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید اور تعریف بھی کیجا رہی ہے ان تمام باتوں سے بالا تر ہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے چند سوالات اخذ کرتے ہیں ۔سشما سوراج نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کیا اور انہیں عرب ممالک کی طرف سے کافی اہمیت دی گئی،سشما نے جہاں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی ثقافت کی بات کی وہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ سب کو اپنے مذہب کے مطاب رہنا چاہئیے کسی کو حق نہیں کوئی کسی پر زور زبردستی کرے، لیکن سشما جی یہاں پر یہ بتانا بھول گئی تھیں کہ یہ بھارت ہی ہے اور ان کے وزیر اعظم ہی ہیں کہ جن کو ’’گجرات کا قصاب‘‘کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارناموں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آج جب وہ بھارت کے وزیر اعظم بھی ہیں تب بھی مسلم کش پالیسی سے باز نہیں آتے تو سشما جی سے گذارش ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آ کر یہ درس دیں تو اچھا لگے گا۔سشما سوراج نے اپنی گفتگو میں سعودی عرب اور بنگلہ دیش کو خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جبکہ شیخ عبد اللہ بن زید کو سشما سوراج کو اس کانفرنس میں خطاب کی دعوت دینے کے لئے زبردست شکریہ کے کلمات ادا کئے اور ان کو اپنا بہتری دوست قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں ۔
انہوں نے لوگوں کی آزادی، عزت وشرافت، یکجہتی اور عدل و انصاف کے نقاط پر بھی زور دار گفتگو کی۔بات صرف یہاں تھمی نہیں بلکہ انہوں نے مزید تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے موضوعات کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے گفتگو کی اور مسلم دنیا کو باور کروایا کہ بھارت ان ممالک کے ساتھ مل کر یہ سب کام انجام دینا چاہتا ہے تاہم یہاں پر ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما جی یہ بھول چکی تھیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور شاید جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو عین اس وقت ممکن ہے کشمیر میں کوئی مظلوم بھارتی جارح افواج کے مظالم کا نشانہ بن رہا ہوگا۔سشما سوراج نے آزادی اور عزت و عظمت سمیت انصاف کی بات کی تو آئیں ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ آٹھ ہزار کشمیری لوگوں کا کیا قصور ہے جن کو آپ کی افواج اور ایجنسیوں نے لا پتہ کر رکھا ہے؟ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی آزادی آپ نے سلب کر رکھی ہے؟ ان ماؤں اور بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جن کی عزت و شرافت کو آپ نے تاراج کیا ہے ؟کیا سشما سوراج کے اس فورم پر اس طرح کی بات کرنے سے بھارت کے تمام جرائم اور مظالم جو کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں ان کو معافی دے دی جائے گی ؟ کیا یہ مسئلہ فلسطین کی طرح امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی کوئی سازش تونہیں کہ فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی سودے بازی کر لی جائے ؟بہر حال سشما جی کو سوچنا چاہئیے کہ ان باتوں کا کیا مقصد تھا؟سشما سوراج نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے معزز اراکین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے ہمارے نعرے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب ہم کشمیری عوام سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں۔سشما سوراج چونکہ عرب حکمرانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں تو انہوں نے پوری کانفرنس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے تا کہ مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنائی جائے۔انہوں نے خلیج ممالک کو بھارت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہا کہ 8ملین بھارتی شہری ان ممالک میں موجود ہیں۔سشما سوراج نے ایک بات ایسی کہہ دی جوشاید عرب دنیا کے چند حکمرانوں کو ناگوار گزری ہو، سشما نے کہا کہ ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسی اجلاس میں موجود ایسے عرب حکمران موجود تھے کہ جو ماضی میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں لیکن شاید یہ حکمران اس لئے بھی برداشت کر گئے ہوں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت اسرائیل کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی ہے۔
سشما سورا ج نے دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی اظہار خیا ل کیا اور کہا کہ اس وقت خطر ناک ترین دہشت گردی کا سامنا ہے ۔یہاں انتہائی مہارت کے ساتھ انہوں نے تمام مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ سب کے سب بھارت کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ساتھ دیں ۔انہوں نے اس عنوان سے دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی مقدس آیات بیان کیں،سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے خیالات بیان کئے،سنسکریت مذہبی کتاب ،سوامی وویکنندا اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبد الکلام آزاد کے چند جملوں کو بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کتابوں ، فلسفیوں اور روحانی پیشواؤں کے نظریات جو کانفرنس میں سشما سوراج نے بیان کئے کیان ان تمام کتابوں یا افراد نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت کرنے کا بھی درس دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی ستر سال سے کشمیر کے مظلوموں کو کیوں کچل رہی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ سشما سوراج نے وہی کہنا تھا جو اس نے کہہ دیا لیکن گھر تو ہمارا بھی صاف نہیں ہے۔جب او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ان ممالک کی جمعیت کس قدر اثر رکھتی ہے، اقوام متحدہ میں ایک چوتھائی سے زیادہ اکثریت انہی رکن ممالک کی ہے ، اگر یہ باتیں ان کو معلوم ہوتیں اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو قاتلوں کے لئے اسٹیج فراہم نہ کرتے۔مزید یہ کہ یہ کیسا اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا فورم ہے کہ جہاں چند خلیجی عرب ملکوں کی اجارہ داری کے باعث مسلمان ممالک شام اور یمن شریک نہیں ہوسکتے ۔جہاں قطر ، ایران اور ترکی کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے۔بس اتنا کہوں گا کہ او آئی سی میں موجود خلیجی عرب ممالک اور دیگر کا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا انہیں اس قابل ہی بناتا ہے کہ کشمیریوں کے قاتل اور بالخصوس سشما سوراج ان جیسوں سے خطاب کرے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی