وحدت نیوز(آرٹیکل)اسلام قیامت تک کی انسانیت کیلئے ایک جامع و کامل، فطری و عقلی ولائِی نظام حیات ہے، تاریخ اسلام کے 6 واقعات، بہت بڑے، گہرے اور دیرپا اثرات کے حامل ہیں۔
1: بعثت: جس نے اس الہیٰ نظام کو متعارف کیا۔
2: ہجرت: جس نے اس نظام کو نافذ ہونے کے قابل بنایا۔
3۔ غدیر: جس نے اس نظام کے مستقبل کو محفوظ بنایا۔
4: سقیفہ: یہ بغاوت جس نے اِس اِلٰہی وِلائی انسانی نظام پر شب خون مارا، اسلام و مسلمین پر شیطانی حملوں میں سے یہ سب سے مؤثر اور بڑا حملہ تھا، جس کے انتہائی مضر اثرات ہزاروں سال تک جائینگے اور اگر جذبات سے ہٹ کر آپ غور فرمائیں، تو یہ حملہ کربلا سے بھی بڑا واقعہ تھا، چونکہ واقعہ کربلا کے تمام مصائب و آلام اسی کا نتیجہ ہیں۔ بی بی زہراء(س) و گیارہ اماموں کی شہادت اور چودہ سو سالہ تاریخ اسلام کی تمام بربادیوں، شہادتوں، ظلم و تجاوز، قتل و غارت، حتیٰ آج تک پوری دنیا میں بربریت کا سبب یہی سقیفائی شیطان کا حملہ تھا، جس طرح یہ نقصانات بےحد و حساب ہیں، اسی طرح اس سقیفائی شیطان کا خدائے قہار کیطرف سے عذاب بھی بےحد و حساب ہوگا، ان شاء اللہ۔
5: کربلا: یعنی سقیفائی شیطان کے اس بہت بڑے اور گہرے شیطانی منصوبے، بلکہ اس زمانے کے عام مسلمانوں کی عقلوں سے ماوراء سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے اور سنہ11ھ سے سنہ61ھ تک، 50 سالہ جھوٹ، پراپیگنڈا و دھاندلی کی ذریعے انسانی عقل و فطرت پر ڈالے گئے غلیظ پردوں کو چاک کرنے کیلئے اور پچاس سالہ مردہ ضمیروں کو جنجھوڑنے کیلئے اُس زمانے کے امام، انسانیت کے دلسوز پیشوا اور احرار و آزاد لوگوں کے رہبر و مقتدیٰ، حسین ابن علی (ع) نے اپنے زمانے کی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی حکومت و سلطنت (جسکی سرحدیں موجودہ افغانستان کے مشرق سے افریقہ کے مغرب اور جنوبی یمن سے ترکی و آذربائیجان کے شمال تک پھیلی ہوئی تھیں) کیخلاف سیاسی، اصلاحی و فکری انقلاب برپا کرنے کیلئے عظیم قیام فرمایا، بلکہ قیامِ حسینی، فریاد و احتجاجِ فاطمی کی معراج تھا، "زمان، مکان، اور وسائل و افراد" کے لحاظ سے۔
اس بصیر و آگاہ رہبر کے "حساب شدہ قیام" کا "مقدمہ عقلی فطری و احساساتی"، اور "ذی المقدمہ سو فیصد اصلاحی و سیاسی" تھا، بلکہ ہمیشہ ہے۔
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلؤوں سے مسل سکتی ہے
کربلا، خار تو کیا، آگ پہ چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا
اور امام (ع) اپنے قیام کے مقاصد خود بیان فرماتے ہیں۔
1۔ اپنے موجودہ دور کے سب سے بڑے ظالم و طاغوت اور اس کے فاسد نظامِ حکومت کی عملاً مخالفت (اسکے چھوٹے گماشتوں ولید و مروان کی نہیں، اسی طرح گذشتہ ظالموں کا نام بھی نہیں لیا)
2۔ امت و قوم کی اصلاح (سیاسی، اجتماعی، فکری، و اخلاقی اصلاح)
3۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر۔
جیسا کہ خود فرماتے ہیں: اِنِّی لَم اَخرُج اَشِراً وَلابَطِراً وَلاظالِماً وَلامُفسِداً،
بَل اِنَّما خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلاحِ فے اُمَۃ ِجَدِی،
وَاَن اَءمُرَبِالمَعرُوف و َاَنہیٰ عَنِ المُنکَرِ،
وَاَسِیرُ بِسِیرَۃِ جَدِی وَ اَبِی،
یعنی "میرے قیام کا مقصد، امت کی اصلاح، امر بالمعروف، نہی عن منکر اور رسول اللہ (ص) و علی مرتضی (ع) کی سیرت و سنت پر عمل کرانا ہے۔" یا فرماتے ہیں: "کیا تم نہیں دیکھتے کہ (حکومت وقت) حق پر عمل نہیں کرتی اور باطل سے منع نہیں کرتی،" یا فرماتے ہیں کہ: "میرا پیروکار، یزید جیسوں کی بیعت و پیروی نہیں کرسکتا" (یعنی اسکو اپنا لیڈر و رہنما تسلیم نہیں کرسکتا) اور حسینی انقلاب یقیناً کامیاب ہوگیا۔ 72 افراد سے شروع ہوکر، 72 کروڑ یعنی پوری دنیا تک یہ انقلابی فکر پھیل گئی۔ حسینی انقلابی افکار کے پھیلنے میں 3 عناصر مؤثر تھے۔
1۔ حسینی انقلاب زمان و مکان و ساتھیوں کے لحاظ سے، مکمل منصوبہ بندی کیساتھ، ناپا تولا، حساب و کتاب کیساتھ، عقلی، فطری اور حماسی تھا، اس لئے خود مؤثر رہا۔
2۔ انقلاب کو مخلص و بابصیرت وارث مل گئے، (بی بی شریکۃ الحسین(ع) و اسیران کربلا، و آئمہ اہلیبیت (ع) اور سالہا سال تک ان کے عالم فاضل و مخلص شاگرد۔
3۔ عزاداری، جس نے اس انقلاب کو دلوں میں اتار دیا، بھولنے نہیں دیا، پرانا نہ ہونے دیا۔
عزاداری کیا ہے؟
عزاداری چار عناصر پر مشتمل ہوتی ہے، جنہیں خود امام حسین (ع) اور آئمہ اطھار (ع) نے بیان کیا ہے۔
1: تولَّا: یعنی حسینیت، عدالت اور حق و اہل حق کیساتھ اظہار وِلاء و مؤدت (جسکو ھم "تَوَلّٰا" کہتے ہیں)
2: تبرَّا: یعنی یزیدیت، ظلم، باطل و اہل باطل کے خلاف احتجاج و اظہار براءت (جسکو "تبراء" کہتے ہیں)
3: "امربالمعروف"
4: "نہی عن المنکر"
یعنی؛ تولاء، تبراء، امر، و نہی۔
رسم عزاداری:
جہاں تک رسم عزاداری کی بات خے، تو یہ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے ہوسکتی ہے، ہاں اپنی مرضی و خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ قرآن و سنتِ محمد (ص) و آل محمد کے مطابق ہو، یا کم از کم خلاف نہ ہو۔
سوال: ہم رسم کیوں مناتے ہیں؟
رسم افکار و نظریات کی یاد دہانی و تعلیم دلوانے اور انہیں ذہنوں میں راسخ و پختہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے، (شبیہ سازی بھی اسی باب سے ہے)۔ اس لئے رسوم کو نظریئے سے متناسب و ہم آہنگ ہونا چاہیئے، نہ کہ نظریئے سے متضاد۔ مثلاً دل کی بیماریوں کا سبب کولیسٹرول و نامناسب غذا ہے اور علاج پیدل چلنا ہے، اب اگر ہم لوگوں کی آگاہی و علاج کیلئے کوئی رسم رائج کرنا چاہیں تو اجتماعی واک مرسوم و منعقد کرنی چاہیئے۔ جو دنیا میں رسم بن چکی ہے (نہ کہ زیادہ لیٹنے یا مرغن غذا کھانے کی رسم)، اس لئے کہ پیدل چلنا دل کے لیے مفید ہے۔ پس یہ رسم اپنی فکر و مقصد کے ساتھ ہم آہنگ اور مناسب ہے۔ یا مثلاً خوشی کے اظہار کے لیے، فائرنگ کرنے کی رسم (جو کہ لوگ کرتے ہیں) اپنے مقصد سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ فائرنگ اصل میں ڈرانے، زخمی کرنے یا قتل کرنے کی علامت ہے، خوشی کی نہیں۔ اس لیے ایسے مواقع پر فائرنگ کرنا جہالت اور نظریئے کیساتھ نامناسب و مخالف ہے۔ یہ خوش ہونے والوں کی تاسی و پیروی نہیں بلکہ ڈرانے والوں اور قاتلوں کی پیروی ہے، اگرچہ فائرنگ کرنے والا اس بات اور اس فلسفے سے جاہل و غافل ہے، نظریئے و مقصد کو سمجھے بغیر، غیر مناسب و متضاد رسمیں اپنا لینا یا رسمیں بنا لینا، نظریئے کی تدریجی کمزوری و بے اثر ہونے کا باعث بنتی ہیں۔
کسی ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کی یاد منانا ہو، تو پہلے ظالم اور مظلوم کے افعال، کام، فکر اور نظریئے کو سمجھیں اور پھر مظلوم کے نظریات و اہداف و افعال کے مطابق و متناسب رسمیں اپنائیں یا بنائیں۔ نہ کہ ظالم کے کام، افعال اور کرتوتوں کے مطابق و ہم آہنگ رسمیں۔ حضرت عیسی (ع) کا مقصد، نظریہ اور افعال اصلاح معاشرہ، اجراءِ عدل، محبت آمیز و معقول تعیمات کی تبلیغ، ظلم و خونریزی کا خاتمہ اور نامعقول و متشدد افعال کی روک تھام تھا جبکہ مخالفین کا مقصد، نظریہ و افعال، کوڑے و درّے مارنا، خونریزی کرنا، جبر، تشدد، دہشت پھیلانا اور حضرت عیسیٰ کی محبت آمیز و معقول تعلیمات کے برخلاف نامعقول و متشدد عمل کرنا تھا، اب پیروان حضرت عیسیٰ (ع) کو جذبات سے ہٹ کر تھوڑا سوچنا چاہیئے تھا کہ کونسی رسومات حضرت عیسی (ع) کے نظریئے کو فروغ دیتی ہیں اور اصلاح، عدل، انسانیت، اصول پسندی، رحم دلی، محبت، تہذیب، شعور و معقولیت سکھاتی ہیں اور کونسی رسومات اس کے برعکس سنگدلی، ظلم، تشدد، جہالت اور بد تہذیبی کی علامت ہیں۔ انہیں مظلوم عیسیٰ کے اختیاری افعال کا نقل کرنا چاہیئے تھے۔ جو کہ سنت عیسیٰ بن جاتیں، نہ کہ ظالم کے ظلم اور ظالمانہ افعال کا نقل کرنا، مثلاً پھانسی کا پھندا (صلیب) بنا ہر جگہ آویزاں کرنا، حتیٰ گلے میں (ٹائی کی شکل میں) لٹکانا کہ یہ "ظالم کے ظالمانہ فعل کی سنت" تو بن سکتی ہے، "مظلوم عیسی (ع) کی سنت" نہیں، کیونکہ عیسی (ع) نے اپنے اختیار سے یہ پھندا گلے میں نہیں ڈالا تھا۔
قرآن ایسے لوگوں کی ملامت کرکے فرماتا ہے؛ اَفَلا یَتَفَکَّرُون (کیا وہ فکر نہیں کرتے)۔ اَفلا یَتَدَبَّرُون (کیا وہ تدبر نہیں کرتے)۔ اَفَلا یَعقِلُون (کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے)۔ لَھُم قُلُوبُ لایَفقَھُونَ بِھا (وہ عقل و دماغ تو رکھتے ہیں لیکن اس سے تفکر نہیں کرتے) جبکہ کچھ سمجھدار لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُولْأَلْبَابِ۔ (وہ لوگ جو ہر بات سنتے اور پھر اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔) (سورہ زمر آیہ 18) چونکہ عیسائیت میں ان بدعات و تحریفات کا نقصان صرف عیسائیت کو نہیں بلکہ عالمی سطح پر دین، دینداری، اور ہر دیندار کو ہے، عالمی دین گریزی اور سیکولرزم ان کی اِنہی وحشیانہ رسومات کیوجہ سے ہے، یہ تحقیقات بھی سامنے آئی ہیں کہ یہ رسومات یہودیوں نے عیسائیت کیخلاف سازش کے تحت داخل کرائی ہیں، چونکہ یہودی عیسائیوں کے مخلص نہیں، بلکہ ہم سے زیادہ ان کے دشمن ہیں۔
مقصد عزاداری:
حسینی پیغام کو مناسب، معقول و مقبول و مؤثر طریقے سے، آج کے میڈیا کے دور اور ماڈرن و جدید دنیا (ایشیا سے یورپ، مسلم و غیر مسلم) تک پہنچانا ہے کہ لوگ حسینی پیغام کو سنیں، اس پر سوچیں اور اسکو قبول کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عزاداری صرف اپنے لئے بند کمرے میں ہوتی، پھر تو ہماری مرضی، جیسے کرتے، لیکن عزاداری ہم صرف اپنے لئے نہیں کرتے بلکہ اپنے ساتھ دوسرے مختلف مذاہب و مسالک و ممالک کے لوگوں کو جذب کرنے کیلئے بھی کرتے ہیں، یعنی خود بھی پیغام حسینی یاد رکھنا ہے اور لوگوں تک بھی پہنچانا ہے، پس لوگوں کو بھگانا نہیں بلکہ بلانا ہے، پس رسم بھی ایسی ہو، جس میں دعوت ہو، جذبہ ہو، مقبولیت ہو، عقلانیت ہو، پس آپس میں جھگڑنے اور لعن طعن کرنے سے بہتر ہے کہ آپ مندرجہ بالا نقاط پر ذرا غور فرمائیں، اگر مناسب لگیں تو قبول فرمائیں۔
6: اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا چھٹا بڑا واقعہ بلکہ گذشتہ واقعات کے تسلسل میں، سب سے بڑا واقعہ، بلکہ "قیامت صغریٰ"، مُصلِحِ کل جھان، و منجئ بشریت، امید مستضعفین، بقیۃ اللہ، امامِ کون و مکان، صاحب العصر و زمان اور عالمی انقلاب کے رہبر و پیشوا، کا ظھور اور عالمی حکومت کا قیام ہے، جس سے یہی دنیا جنت نظیر بن کر، اسی دنیا میں انسان معراج پر فائز ہوگا، ان شاء اللہ۔ گذشتہ 6 نکات پر غور کرنے سے جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ کہ ارسال انبیاء و ائِمہ و کتب کا مقصد، اگرچہ انسانی مجموعے کا تزکیہ نفس اور خدا تک پہنچانا ہے، لیکن جب تک ان کے ہاتھ میں حکومت و اقتدار اور ولایتِ تشریعی و اِنفاذی نہ ہو، بلکہ فاسدوں کے پاس ہو، وہ حضرات اپنی تمام تر ولایتِ تکوینی کی طاقت کے باوجود بھی، کلی طور پر اپنے اس عالی ہدف کو حاصل نہیں کرسکتے، اس لیۓ حصولِ حکومت کے بغیر چارہ نہیں بلکہ علم اصول کی اصطلاح میں شاید حصولِ حکومت مقدِّمۃُ الوُجوب نہیں (جسکا حصول مکلف کی ذمہ داری نہیں بنتی) بلکہ مقدمۃ الواجب ہو، جسکا حصول بھی مکلف کی ذمہ داری بنتی ہے)۔
تحریر: علامہ محمد اقبال بہشتی