وحدت نیوز(آرٹیکل) دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر اسرائیلی کی کھلی جارحیت کے بعد جس دن سے سید مقاومت علامہ مجاھد سید حسن نصراللہ (حفظہ اللہ) کا خطاب سنا، تو اس دن سے ارادہ کیا، کہ کچھ جوہری نکات جن کی طرف سید مقاومت نے اپنے خطاب میں اشارہ کیا، ان کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کروں، اور ساتھ ہی جو مقاومت نے دشمن کو پوری طاقت کے ساتھ نہ بھولنے والا جواب دیا اس بارے کچھ لکھوں، لیکن اس کے سامنے دو رکاوٹیں حائل تھیں.
1- میری دیگر مصروفیات اتنی تھیں، کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر لکھنے کا وقت نہیں مل رہا تھا.
2- جن عسکری وسیاسی عربی اصطلاحات کو سید مقاومت نے اپنے خطاب میں بیان کیا تھا، اسے میں خود اپنی ناقص فھم کے مطابق سمجھ چکا تھا، لیکن ان اصطلاحوں کو صاحب اختصاص نہ ہونے، اور ایک ادنی سے دینی طالب علم ہونے کے ناطے، اور اردو زبان پر زیادہ دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے اس کو بیان کرنا قدرے مشکل نظر آ رہا تھا.
لیکن ایک عزیز کہ جن کو میں یہ ساری باتیں بیان کر چکا تھا انکے اصرار اور تشویق دلانے پر آج قلم اٹھانے کی حامی بھر لی، تاکہ آپ تک یہ اہم باتیں پہنچا سکوں۔
لیکن اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے، چند اصطلاحات کی تشریح ضروری ہے، کیونکہ ان الفاظ کو سید حسن نصر اللہ اپنے خطابات میں بہت استعمال کرتے ہیں، اور اردو قارئین کے لئے شاید یہ الفاظ اس طرح سے واضح نہ ہوں۔
ان میں سے اہم اصطلاحات قدرة الردع ( deterrence)، اس کے شرائط اور قواعد اشتباکات ( Rules of Engagement) ہیں۔
قدرة الردع اور قواعد اشتباكات کی وضاحت
1- قدرۃ الردع (Deterrence) کا مطلب کیا ہے؟ انگریزی زبان میں اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
(The deterrence is the act of stopping something from happening.)
دوسرے معنی میں مفھوم الردع کی وضاحت یوں ہے، کہ اپنے دشمن یا مدمقابل کو اس فعل سے منع کرنے کی صلاحیت رکھنا، اور اسے مجبور کرنا، کہ اگر اس نے کوئی غلط اقدام اٹھایا، یا کوئی بھی کاروئی کی، تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا. اور وہ جو مقاصدحاصل کرنا چاہتا ہے، ان سے زیادہ نقصان اٹھائے گا.
قدرۃ الردع (Deterrence) کی شرائط
اس صلاحیت اور طاقت کے حصول کی مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں.
1- الاتصال (communication )
یہ اتصال اور پیغام رسانی خطابات اور بیانات کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے، اور اس کے علاوہ سفراء، اعلی سطح کےحکومتی اہلکار، یا کسی ثالث کے ذریعے بھی اس کام کو سر انجام دیا جا سکتا ہے. یہ علی الاعلان بھی ہوتی ہے اور مخفیانہ طور طریقوں سے بھی ہوتی ہے.
2- القدرۃ (capability)
یہ صلاحیت اور طاقت مادی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی.
3- المصداقية (credibility)
آمادگی اور تیاری میں بھی سنجیدگی اور مصمم ارادے ہوں اور اقدامات اور کاروائی میں بھی غیر متزلزل اور پختہ ارادہ رکھتا ہو. صداقت اور سچائی شعار ہونا چاھیے.
2 قواعد اشتباکات Rules of Engagement کا مطلب کیا ہے ؟
عسکری علوم کے مطابق دشمن کے خلاف کارروائی اور طاقت کا استعمال کرتے وقت، جن قواعد وضوابط کی ملٹری فورسز پابند ہوتی ہیں. ایسے تمام قانونی، عسکری، اسٹریٹجک، سیاسی اور عملیاتی اصول، قواعد اشتباکات کہلاتے ہیں.
( اصل موضوع)
ان اہم اصطلاحات کی وضاحت بعد، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
چند دن پہلے المنار ٹی وی چینل پر اسرائیلی تجزیہ نگار کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ، اسرائیل کی قومی سلامتی کے انسٹیوٹ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے. کہ ” اسرائیل کو اب اپنی شمالی سرحد پر نئے Deterrence Equation (معادلۃ الردع) کا سامنا ہے.” اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مقاومت نے صھیونیوں کے لئے نئی ریڈ لائنز کھینچ دی ہیں.
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید مقاومت نے اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ” اب ہمارے سامنے کوئی ریڈ لائنز نہیں. اب ہم لبنان کے مقبوضہ علاقوں (مزارع شبعا اور کفر شوبا کی ھائٹس) کی بجائے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین سے دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کریں گے، اور اس کے ساتھ Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کو بہتر بنائیں گے. ”
اور سید مقاومت نے واضح پیغام دیا کہ ” اگر ہمارے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی گئی تو تمھاری ساری فوج اور ساری سرحدیں ہماری جوابی کاروائی کی زد میں ہونگی.” اور مزید فرمایا کہ “ہمارے ملک، ہمارے مورچوں اور ہمارے مجاھدین کے خلاف ہر کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا. ”
اقوام متحدہ کی قرارداد (1701) کہ جسے لبنان نے سیاسی اور عسکری طور پر قبول کیا تھا، اور محور مقاومت بھی اس کی پابندی کرتی تھی، اب وہ عملی طور پر کئی سالوں سے جمود کا شکار ہے. کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے لبنانی سرحدوں کو عبور کر کے اس قراداد کی خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اور اقوام متحدہ کی یونیفل فورسسز بھی اسے روکنے اور منع کرنے سے بے بس اور عاجز نظر آتی ہیں۔
اس لئے حزب اللہ نے Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کی نئی پیش رفتہ صورتحال کے پیش نظر تین اصولوں کا اعلان کر دیا.
1- مقبوضہ لبنانی علاقوں سے کاروائی کی بجائے اب مقاومت اسرائیل کی سرحد پر صہیونی فوج کو نشانہ بنائے گی.
2- جو بھی اسرائیل کے ڈرون طیارے لبنان کی فضا میں آئیں گے انہیں نشانہ بنایا جائے گا.
3- اگر اسرائیل نے لبنان کی سرزمین کے اندر کوئی بھی کاروائی کی تو اسرائیل کے اندر تک حملوں کے ذریعے اس کا جواب دیا جائے گا .
“حزب الله کے ایگزیکٹو کونسل کے نائب صدر شیخ علی دعموس نے 6 ستمبر 2019 کے جمعہ کے خطبے میں اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہ مقاومت کی افیفیم عسکری کارروائی نے اسرائیل کو اسی زبان میں اچھی طرح سمجھایا کہ جو زبان وہ سمجھتا ہے. اور deterrence Equations (معادلۃ الردع) کو تقویت دی ہے، اور اسکی شرائط کو بہتر کیا ہے. جبکہ دشمن کی کوشش تھی کہ دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر کھلی جارحیت کے ذریعے اسے تبدیل کرے، اور شرائط کو نظر انداز کرے.
مزید کہا کہ: اگر لبنانی مقاومت کے پاس یہ طاقت، عزم وارادہ اور حکومت اور عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی، تو لبنان آج دشمن کے سامنے ایک آسان ھدف ہوتا اور لبنان کمزوری وپستی وذلت میں ڈوب چکا ہوتا. ”
جب اسرائیل نے بیروت کے نواحی علاقے پر ڈرون حملہ کیا اور دمشق کے اطراف میں میزائیل حملے کے ذریعے حزب اللہ کے دو مجاھد شہید کئے، اور اس کے جواب میں سید مقاومت نے بدلہ لینے اور جوابی کاروائی کا اعلان کیا، تو پورا اسرائیل سہم گیا، ان پر حزب اللہ کی دفاعی طاقت اور عزم و ارادے کا خوف طاری رہا، اور تقریبا ایک ھفتہ سید مقاومت کے امر پر وہ ڈیڑھ قدم پر کھڑے نظر آئے، اور جب حزب اللہ نے اپنی نوعیت کی جوابی کاروائی کی، اور شمالی جبھہ کے قائد، ایک فوجی جنرل کو اپنے ھدف کا نشانہ بنایا، (اور جو میزائل استعمال ہوئے سوریہ ساخت کورنیٹ میزائل تھے) تب جا کر اسرائیل نے ٹھنڈا سانس لیا، وگرنہ انکی نیندیں اڑ چکی تھیں. لبنان کے ساتھ بارڈر کے قریب اپنی بارکیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے، اس منظر کو روسی چینل کی صحافی خاتون اور کیمرہ مینوں نے پوری دنیا کو لائیو دکھایا.
اس کاروائی سے پہلے مختلف ممالک نے لبنان کے اعلی سطح حکومتی اہلکاروں سے رابطے کیے، کہ وہ حزب اللہ سے کہیں، کہ جوابی کاروائی نہ کرے، اور اس کے بدلے ہم لبنان کی مالی مدد کریں گے، اور اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ آئندہ اسرائیل کبھی بھی حماقت نہیں کرے گا، لیکن مقاومت نے اپنا انتقام لیکر دشمن کو اسی کی زبان میں ناقابل فراموش درس دیا.
قارئین محترم!
اس دنیا میں (جہاں کمزوروں کی کوئی سنتا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی عزت کرتا) اگر عزت و آبرو کے ساتھ جینا ہے، اور ملک میں امن و امان لانا ہے تو اس کے لئے معادلة الردع کا فارمولہ اپنانا ہوگا اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں، اس اہم ترین فارمولے کو سمجھنے کے لئے درجہ ذیل پانچ نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔
1- معروف ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب اسرائیل کے سابق وزیراعظم موشی دایان سے جب پوچھا گیا کہ لبنان پر کاروائی کے لئے کس فوجی دستے کو بھیجیں گے، تو اس نے جواب دیا تھا کہ لبنان کی طرف فوج بھیجنے کی ہرگز ضرورت نہیں وہاں تو بینڈ باجے کا دستہ بھیجیں گے، اور وہی کافی ہو گا.
لیکن آج جب لبنانی مقاومت نے اپنی دفاعی پوزیشن کا لوہا دنیا سے منوایا ہے تو اس سے انکے ملک کے امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے، اور اگر کوئی بیرونی دشمن جارحیت کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھرپور جوابی کاروائی ہوتی ہے.
2- ایران اگر آج محفوظ ہے اور امن و امان کے لحاظ سے پر سکون ہے، اور پوری دنیا میں اسکا احترام ہے، اور خطے کی مضبوط طاقت شمار ہوتا ہے، تو وہ اس کی طاقت ردع یا مضبوط دفاعی صلاحیت ہے. گذشتہ 10 جون میں دنیا کی سپر پاور امریکہ نے ایران کو دھمکی دی، اور اپنا جاسوسی طیارہ ایران کی حدود میں بھیج کر خوب اندازہ لگا لیا کہ ایران کتنا طاقتور ہے، برطانیہ نے ایک بحری جہاز پر قبضہ کیا تو ایران نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے انکے چار بحری جہاز اپنے قبضے میں لے لئے. امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے نئے مشرق وسطی کا پلان لانچ کیا، لیکن ایران کی سربراہی میں مقاومت کے بلاک نے انہیں عراق وشام ویمن میں شرمناک شکست سے دوچار کیا.
3- یمن پر ساڑھے چار سال سے سعودی اتحادیوں نے جنگ مسلط کر رکھی ہے، اب جب یمن کے غیرت مند فرزندوں نے انصار اللہ کی شکل میں اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط کر لی ہے اور انکے ڈرون اور بیلسٹک میزائل دشمن کے حساس علاقوں پر حملے کرنے کی قابل ہوئے ہیں، تو اب یہ اتحادی خود آپس میں جنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور فوجوں کا انخلاء شروع ہو چکا ہے.
4- عراقی وفلسطنی مقاومت نے بھی اپنی مضبوط دفاعی صلاحیتوں کی وجہ سے امریکہ واسرائیل کو بے بس کر دیا ہے. آج عراق میں حشد شعبی امریکیوں کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے، اور تمام تر امریکی سازشوں کو انہوں نے خاک میں ملایا ہے. اسی طرح آج اگر فلسطین پر میزائل حملہ ہوتا ہے، تو تل ابیب پر میزائل داغے جاتے ہیں، اسی دفاعی صلاحیت کے بہتر ہونے سے امن و امان کی صورتحال آج پہلے سے بہتر ہے.
5- اگر پاکستان نے بھی 27 فروری کو انڈیا کے جنگی جہازوں کو نہ گرایا ہوتا اور ہماری دفاعی صلاحیت مضبوط نہ ہوتی، تو آج پورا ملک دشمن کے رحم وکرم پر ہوتا. جو آئے دن مختلف بہانوں سے ہماری سر زمین کے تقدس کو پامال کیا جاتا. اور اسرائیل کو اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ وہ ہمارے شاھین میزائل کی زد میں ہے، تو جیسے اس نے شام، عراق اور سوڈان کے علمی ابحاث اور ایٹمی ہتھیاروں کے مراکز کو نشانہ بنایا تھا، وہ ہمارے ایٹمی مراکز بھی تباہ کر چکا ہوتا. پاکستان کی طاقتور فوج اور مضبوط دفاعی صلاحیت نے اسے بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ کر رکھا ہے.
یہ ایک واضح حقیقت ہے، کہ قیام امن کے لئے پاور اور طاقت کا حصول اور مضبوط دفاعی صلاحیت اور وسائل بہت ضروری ہیں. آپکی قوت ردع ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی