ترک اسرائیل تعلقات تاریخ کے آئینے میں (حصہ3)

06 March 2020

وحدت نیوز(آرٹیکل) ترکی اور پاکستان کے باہمی رشتے بہت مضبوط اور قدیمی ہیں پاکستانی عوام ترک عوام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ترک عوام بھی پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں.دونوں ممالک میں بہت سے مشترکات بھی پائے جاتے ہیںاور مشکل حالات میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں.حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے ترکی کے دو ٹوک موقف اور FATF اجلاس میں پاکستان کی حمایت کو پاکستان کی حکومت وعوام ہمیشہ یاد رکھیں گے. جیسے گذشتہ کالم میں کہا کہ ہمارا مقصد ترکی کی مخالفت یا پاکستان ترکی برادرانہ تعلقات میں دراڑیں ڈالنا نہیں بلکہ فقط ان حقائق کو اردو زبان قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہے جو بین الاقوامی میڈیا میں نشر ہو چکے ہیں تاکہ ہمارے ہاں ہونے مبالغے پر مبنی بے بنیاد پروپیگنڈہ کہیں لوگ حقیقت نہ سمجھ لیںاور جب حقائق کا علم ہو تو وقت گزر چکا ہو اور غلط معلومات پر غلط فیصلے کر چکے ہوں اور بعد میں پچھتائیں.

1- پہلے بھی جب جنرل مشرف صاحب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ پاکستان عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر خود ہی کیا تھا. اور انکے حکم پر رسمی طور پر پاکستانی وزیر خارجہ کی اسرائیلیوں سے ملاقات ترکی کے ذریعے ترکی میں ہی ہوئی تھی. اب بھی ترکی چونکہ اسرائیل کا ایک سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے اور ہمارا دوست بھی تو اس بات کا امکان ہے کہ ہمارے حکمران عوام کو اندھیرے میں رکھ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں اور پھر ہمارا ملک کسی نئے داخلی بحران میں دھکیل دیا جائے.

2- ترکی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ حالت جنگ میں ہے. شام میں کبھی القاعدہ اور جبھۃ النصرۃ ودیگر امریکہ واسرائیل کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کے شانہ بشانہ ادلب وحلب میں فوجیں اتار چکا ہے اور کبھی کرد علاقوں پر عراق اور کبھی شام کی سرزمین پر فضائی بمباری کرتا ہے اور ہمسایہ ممالک کی زمینوں میں فوجی کارروائیاں اور ناجائز قبضہ کرتا ہے. اسی طرح ترکی یونان اور لیبیا سے بھی جنگی حالت میں ہے.

اگر ترکی ہمارا دوست ملک ہے تو شام ، عراق ، لیبیا اور یونان ہمارے دشمن ممالک نہیں. ہمارے حکمرانوں کو ماضی کی غلطیوں سے عبرت لیتے ہوئے ممکنہ طور پر دوبارہ پرائی جنگوں میں کودنے سے اجتناب کرنا ہوگااور اپنی قومی سلامتی ومصلحت کو مقدم رکھتے ہوئے متوازن تعلقات بنانے ہوں گے.

ترک اسرائیل تعلقات کی تاریخ

13 اكتوبر 2019 کو ایک عرب خاتون صحافی رانیا ھاشم نے اپنے ایک ریسرچ پیپر "تاریخ العلاقات التركية الاسرائيلية ” میں لکھا ہے کہ جب رجب طیب اردوان نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کے استنبول کے صدر تھے. تو انکی ملاقات ترکی میں امریکی سفیر مارتن ابراموفیٹس سے ہوئی. جنہوں نے اسے اسرائیل کے لئے ایک اہم امریکی شخصیت بل وولویٹز سے منسلک کردیا. جو پہلے عالمی بنک کے سربراہ اور امریکی وزیر دفاع کے معاون بھی رہ چکے تھے. جو بعد میں امریکی وزیر دفاع بھی بنے. جب امریکیوں نے خطے میں بقول انکے "معتدل اسلام” کو متعارف کروانے کے پلان کو لانچ کیا. تو اپنے پلان کی تکمیل کے لئے انہیں ترکی کی اسلامی جماعت ایک مناسب آپشن کے طور پر نظر آئی. نئے شرق الاوسط منصوبے اور عرب بہار کے لئے ترکی کو اسلامی ممالک کے لئے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا. ”

امریکا واسرائیل کا مقصد اسرائیل مخالف مقاومت اسلامی کے بلاک کو توڑنا ، فلسطین ولبنان کی مقاومتی تحریکوں اور انکے پشت پناہ ایران وشام کو تباہ کرنا تھا. تاکہ صہیونی ریاست محفوظ رہے اور مقبوضہ فلسطین وبیت المقدس کا چیپٹر ہمیشہ کے لئے طاقت کے ذریعے بند کر دیا جائے اور عرب ومسلم ممالک کے ساتھ صہیوني ریاست کے سفارتی تعلقات قائم کر دیئے جائیں. ان مذکورہ اھداف کے حصول کیلئے خطے میں ڈیموکریسی کے فروغ اور عوام کی آزادی جیسے نعروں کے ذریعے ایک طویل جنگ کا آغاز کیا کہ جس کی لپیٹ پورا جہان اسلام اور بالخصوص لیبیا ، تیونس ، مصر اور شام آئے. اور ڈیموکریٹک نظاموں اور عوامی حقوق وآزادی جیسے منصوبوں کی تکمیل میں سرمایہ ان ممالک نے لگایا اور امریکی واسرائیلی جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کیا کہ جن کے ہاں خود جمہوریت نہیں بادشاہی نظام تھا. اور جہاں انکے اپنے عوام بدترین پولیس اسٹیٹ نظاموں کے شکنجوں میں جکڑی ہوئے ہیں .

ترکی ماڈل امریکہ کو اس لئے پسند ہے کہ کیونکہ وہاں اسلامی نظام نہیں بلکہ اتاترک کے زمانے سے ترکی سیکولر ریاست ہے. اور رجب طیب اردوان نے بھی ترکی کے سیکولر نظام کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور اپنے خطابات میں بھی اسی نظام پر کاربند رہنے کی تاکید کر چکے ہیں. 2004 کو ترکی نے امریکہ کو یہ یقین دلایا تھا کہ جہان اسلام پر ترکوں کی حکومت رہی ہے اور انکا ابھی بھی احترام ومقام مسلمانوں کے دلوں میں باقی ہے. اور دوسری طرف ہمارے پاس پورے جہان اسلام میں اخوان المسلمین نامی اسلامی سیاسی جماعتوں کی منظم عوامی طاقت بھی ہے. عرب بہار انقلابوں کے نتیجے میں جب ناپسند حکومتیں گرائی جائیں گی تو ہم اس خلا کو اپنی خلافت کے احیاء سے پر کر سکتے ہیں.

اسی لئے مصر میں حسنی مُبارک کے خلاف لانچ کی جانے والی عوامی تحریک کی اردوان نے 2 فروری 2011 کو اپنے ترکی پارلیمنٹ سے خطاب کے دروان کھل کر حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا .

مارچ 2011 میں جب بشار الاسد حکومت گرانے کے لئے تحریک لانچ کی گئی تو اس کی سربراہی بھی اخوان المسلمین ہی کر رہے تھے کہ جنہیں مکمل طور پر ترکی کی حمایت حاصل تھی اور یہی صورتحال لیبیا اور تیونس میں بھی تھی.

ترکی کے صدر کے کئی چہرے ہیں ایک وہ چہرہ جو امریکہ واسرائیل کو وہ دکھاتا ہے. دوسرا وہ چہرہ جو یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے یورپ کو دکھاتا ہے. ایک وہ سیکولرازم کا چہرہ جو ترکی عوام کو دکھاتا ہے . اور ایک اسلامی دنیا کے سلطان اور خلیفہ کا چہرہ جو مسلمانوں کو دکھایا جاتا ہے. اپنے قتدار کے لئے خلافت اسلامی اور شریعت کے نفاذ کا خواب دیکھاتا ہے . ذیل میں ترک معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ اردوان کے دور حکومت میں اسلامی شریعت کی کتنی پاسداری ترکی میں ہوتی ہے.

ترکی اور یورپی یونین

ترکی 1959 سے یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے. 1987 میں رسمی طور پر رکنیت کے لئے درخواست بھی پیش کی. 1999 میں یورپی یونین نے کہا کہ ترکی یورپی اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے لیکن ترکی اور یورپی یونین کے مابین مذاکرات پہلی بار 2005 میں شروع ہوئے.

اس کے بعد ہر اجلاس میں ترکی پر نئی نئی شرطیں لگائی گئیں کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اعتراض تو کبھی آزادی صحافت کا مسئلہ ، کبھی اقتصادی صورتحال ناقابل قبول اور کبھی جمہوریت وانقلابات پر اعتراضات کی بارش آخر کار 29 مئی 2019 کو یورپی یونین نے ترکی کی شمولیت کے خوابوں پر پانی پھیرتے ہوئے یہ بیان دیا. کہ عدالتی نظام ، جیلوں اور اقتصاد کی صورتحال کے پیش نظر ترکی کی شمولیت یورپی یونین میں قبول نہیں .

اردوان کو پہلے ہی ایک مغربی مشیر کہہ چکے تھے کہ یورپ کی دم بننے کی بجائے اسلامی دنیا کے سر کا تاج بننے کی کوشش کرو. اور مشرق وسطیٰ کے منصوبے میں فرنٹ رول ادا کر کے اپنی خلافت کی راہ ہموار کرو. اسی لئے جب تیسری بار اردوان انتخابات میں کامیاب ہوا تو اپنے خطاب میں کہا کہ "آج استنبول ، بیروت ، ازمیر ، دمشق ، انقرہ ، رام اللہ ، نابلس ، جنین ، ضفہ غربیہ ، القدس اور دیار بکر کو فتح حاصل ہوئی ہے.”

ترکی کے اندرونی دینی چہرے کی نقاب کشائی

2011 کے دورہ مصر کے موقع پر اردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے. اور مصر والوں کو بھی سیکولر ریاست بنانے کی تاکید کی. 26 اپریل 2016 کو جب ترکی پارلیمنٹ کے سربراہ اسماعیل کھرمان نے آئین میں تبدیلی کے وقت سیکولرزم کو تبدیل کرنے کی طرف اشارہ کیا تو اردوان نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیکولر نظام ہی قبول ہے. اور ریاست کی نگاہ میں سب ادیان برابر ہیں. ترکی کے آئین مملکت کے سربراہ یا کسی اعلی عہدیدار کا مسلمان ہونا کوئی کسی قسم کا ذکر نہیں. اسلامی شریعت کے مطابق احوال شخصی وغیرہ کا بھی ذکر نہیں.

1- ترکی سیٹلائٹ پر آدھے سے زیادہ چینل فحش فلموں اور ڈراموں کے چلتے ہیں. ترک فلم انڈسٹری میں کسی بھی شرعی قانون کی کوئی رعایت نہیں ہوتی. اور اس کا مشاہدہ کرنا تو آجکل کے انٹرنیٹ اور سیٹلائٹس کے دور میں بہت آسان ہے.

2- ترکی میں چکلے (prostitution) کو قانونی حیثیت حاصل ہے. آرٹیکل 5537 کی شق نمبر 227 کے مطابق یہ کاروبار جائز اور قانونی ہے. تقریبا 15000 رجسٹرڈ چکلے ہیں. جس سے ترکی کو 4 بلین ڈالرز کی آمدن وصول ہوتی ہے. انسانی حقوق اور صحت کے ادارے کے سربراہ کمال اورداک کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں اس کاروبار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے. ترکی جس سیاحت پر فخر کرتا ہے اس میں بھی اہم کردار اسی کاروبار کا ہے.

3- دنیا میں شراب بنانے کا بڑا کارخانه رجسٹرڈ برانڈ Tekel ( Turkish tobacco and alcoholic beverages company) ترکی میں ہے .جسکی مالیت 292 ملین ڈالرز ہے. جس کی گوگل سرچ سے تصدیق کی جا سکتی ہے. 4 جون 2019 کے کالم بعنوان ” ترکیا المثلیۃ جنسیا وسیاسیا ج1 ” میں فادی عید وھیب نے لکھا ہے کہ ترکی میں ایک اعداد وشمار کے مطابق 2009 کو 2 کروڑ 9 لاکھ 6 ھزار 762 لٹر شراب پی گئی.

4- البانیا کے بعد ترکی دوسرا ملک ہے جہاں ھم جنس پرستوں کے حقوق کا اعتراف کیا جاتا ہے. اردوان کے دور حکومت میں 2014 پہلی ہم جنس پرستوں کی رسمی شادی ہوئی اور ہم جنس پرستوں کے عالمی لیڈر بولنٹ ذا دیوا کے اعزاز میں اردوان نے خود ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا. اور ہم جنس پرستوں کو مبارک باد پیش کی. یہ کوئی خفیہ تقریب نہیں بلکہ باقاعدہ میڈیا پر دکھائی گئی. 2015 کو ایک ھفتے کے مسلسل ہم جنس پرستوں کے مختلف پروگرام اور ان کا الفخر مارچ بھی انقرہ واستنبول اور دیگر شہروں میں منعقد ہوئے.

ترکی کے بین الاقوامی مسائل پر دعوں کی حقیقت

کبھی اردوان مسئلہ فلسطین پر اپنے بیانات وخطابات سے مسلمانوں کو بےوقوف بناتا ہے. جبکہ خطے میں سب سے زیادہ اسرائیل کا قابل اعتماد دوست ہے. اور دونوں ممالک کے مابین اقتصادی ، عسکری ، سیاحتی ودیگر شعبوں میں دوطرفہ تعلقات ہیں. جس کی وضاحت پہلے دو کالم میں پوری تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں.

اور کبھی برما و روہنگیا کے مسلمانوں کا ہمدرد بنتا ہے جبکہ برما حکومت کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہیں.

2015 سے 2018 تک مسلسل سوشل میڈیا پر ایک بریکنگ نیوز چلتی رہی ہے کہ ترکی کے صدر نے برما کے سفیر کو روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے نکال دیا . حالانکہ ترکی وزارت خارجہ کی سائٹ پر ایسی کوئی خبر نہیں لگی. اور کب برما کا سفیر نکالا گیا اور کب پھر واپس آیا اس کی بھی کوئی خبر نہیں.

البتہ ترکی نے روہنگیا کے مسلمان جو بنگلہ دیشی کیمپوں میں مقیم ہیں انکی امداد کی اور اسی طرح برما حکومت سے ترکی نے امداد پہنچانے کی اجازت بھی حاصل کی. اور 1000 ٹن مواد برما بھیجا. اور ترکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ” ترکی نے میانمار کی حکومت کے تعاون سے امداد بھیجی ہے. اور یہ امداد کسی خاص قومیت یا دین کے افراد کے لئے معین نہیں ".

ترک پریس وب کی خبر کے مطابق ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلو نے اپنے بیان میں کہا کہ ترکی اور برما کے مابین تجارتی تبادل 38 ملین ڈالرز ہے اور انھوں نے اسے مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے. اور دونوں ممالک کے مابین مسافروں کی نقل و حرکت کے لئے فلائٹس کا راستہ کھولنے کی بھی بات کی ہے.

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree