افغان امن معاہدہ کے تناظر میں کیا امریکا اس خطے سے نکلنا چاہتا ہے؟ || ناصرشیرازی کے قلم سے

04 March 2020

وحدت نیوز (آرٹیکل) قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط کے بعد اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا گیا جو افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائیگا۔طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔معاہدے کی تفصیلات نکات کی صورت میں اس  طرح سے ہے، امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے نو ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائیگی۔

انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 تک پابندی ختم کرنے کا پابند ہوگا۔ انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریز رہیں گے۔ طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکیورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ، اور جنگجوں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔کیا امریکہ واقعا اس خطےسے نکلنا چاہتا ہے ؟ یا اس کا ایک پولیٹیکل سٹنڈ (سیاسی چال )ہے ۔جسٹ ٹائم گیم کرناچاہتاہےانتخابات تک اس نے کیا جب تک افغان کے تمام اسٹیک ہولڈرزجب تک آن بورڈ نہ ہوںافغانستان کی مکوئی ڈیل کامیاب ہوسکتی ہے ؟اور( شمالی اتحاد ،افغان گورنمنٹ ) افغان گورنمنٹ کے تازہ ابھی یہ اشرف غنی(صدرافغانستان) اس کا باقاعدہ بیان ہے کہ ہم طالبان کر رہا نہیں کریں گے ۔

اس کا مطلب ہے کہ ابھی سے اس پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ایک تو اس معاہدے کی کامیابی ہےجسے وہ ایک فتح سمجھ رہے ہیں ابھی تک وہ زیر سوال ہے ۔دوسرا اس میں جو اسٹیک ہولڈر ہیں انہیں بھی شامل نہیں کیا گیا ۔تیسرا ایران کے مسئلے پر بھی ناقابل اعتماد ثابت ہوا ہےاگریمنٹ کے اعتبار سے لہذا اس میں کو ئی گارنٹی نہیں کہ یہ معاہدہ کامیاب ثابت ہو گا کہ نہیں؟ ۔اس میں 35 ممالک کے گرنٹر کے طور پہ دستخط کیے ہیں جبکہ ایران کے معاملے پر تو اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک نے دستخط کیے تھے۔ہم اسے اب بھی ایک امریکی چال ہی سمجھتے ہیں ۔اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اگر امریکہ اس خطے سے نکلتا ہے کسی بھی سیاسی اور سفارتی عمل کے ذریعے سے تو یہ دراصل اسکے نجس وجود کا کنوئیں سے نکلنے کے مترادف ہو گا جس کے بعد کنوئیں کے پاک ہونے کی گنجائش بن سکتی ہے ۔

لہذا یہ جدوجہد کہ امریکہ کو اس خطے سے نکلنا چاہیے ہم اس کی تائید کرتے ہیں ۔ بنیادی طور یہ ڈیل پاکستان نے کرائی ہے ۔ اور پاکستان اس معاہدے کی تمام تر کامیابی کو اپنے کھاتے میں سمجھتا ہے ۔پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے ایک باڈر کو محفوظ بنالیا ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن آجائے گا تو ایک ایسی گورنمنٹ آجائے گی جس سے ہم بات کرسکیں گے کہ دہشت گرد ادھر کیوں آتے ہیں اور پھر وہاں کیوں بھاگ جاتے ہیں ۔پاکستان خواہش ہے کہ یہ 2000 سے زائد کیلومٹر والاباڈر پر امن ہوجائے اس پر ٹریڈ شروع جائے ۔ لیکن مشکل یہ ہے وہاں (افغانستان) میں 34 انڈین قونصلیٹ موجود ہیں انڈین کی بڑی اسٹرانگ ایکسس موجود ہے وہاں پر لہذا پاکستان اس پہ اپنی پرانی چیزیں گرنٹی تو دیں ہیں مگر یہ سب کچھ ویٹنسی پر ہے اب انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم بھی انتظار کرہے ہیں اور پازٹیو لے رہے ہیں کہ چلیں امن کی خاطر کچھ دیر دیکھ لیں ۔ چائنا بھی خطے کے حالات کو بغور دیک رہا اور چائنا کے بینیفٹ کے اندر بھی ہے لہذا وہ حربےاور سازشیں جو امریکہ کے اپنی موجودگی کے حوالے سے کرسکتاوہ (چائنا) اپنی پکٹس کے ذریعے سے نہیں کرسکتا ۔ وہ اس لئے کہ امریکہ جہاں جاتا ہے سرمایہ لگا کر وہاں گروہوں کو خریدتا ہے انتشارپیدا کرتا ہے ۔ امریکہ کے انخلا سے جہاں افغانستان ، پاکستان کو فائدہ ہوگا وہاں چائنا کے مفاد میں بھی ہے ۔

چائنا تو چاہتا کہ امریکہ خطے سے نکلے ۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات پوشیدہ ہے کہ کیا واقعی امریکہ اس خطے سے نکلے گا ۔ بغیر گرنٹی لیئے اور کیا امریکہ کا جانا اس خطے سے اسے ہضم ہو پائے گا ۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ کیا وہ یہ (ہجمونک،یعنی تسلط اور اپنے غلبے کے کھونے)کو برداشت کر پائے گا۔پاکستان کی افغان پالیسی بظاہر کامیاب نظر آتی ہے مگر ناکام ہوئی ہے اسی پالیسی کی تناظر میں نتیجے پاکستان کو اس ڈیل  کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے ۔ اب پاکستان نے اپنی پالیسی میں اصلاح کا عمل شروع کیا ہے۔ اسی اصلاحی عمل کے نتیجے میں پاکستان کو ایک ڈیل کے ذریعے دہشت گردوں کو چھوڑنا پڑا ہے ۔ اور وہ لوگ دوبارہ افغانستان پہنچ کر دہشت گردوں حصہ بن چکے ہیں ۔ لہذا اب پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اپنے ملک کو دیکھے اور پر امن بنائے اور افغانستان کو بھی پر امن دیکھنا چاہتا ہے ۔ پر امن افغانستان ہی پاکستان کے فائدے میں ہے ۔ لیکن اس ڈیل میں جو قیمت پاکستان نے چکائی ہے ۔ اس سے ایک تلوار پاکستان پرلٹکتی رہے گی کہ کہیں پاکستان دوبارہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوجائے اور دہشت گرد اکٹھے ہو کر پاکستان کے خلاف کسی اقدام پر نہ اتر آئیں ۔ اب پاکستان کو یہ سارے معاملات خود دیکھنے ہوں گے ۔ پاکستان ہمیشہ امن کا خواہان رہا ہے اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے ۔ اسی لئے پاکستان اس میں باقاعدہ طور پر ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر شریک ہے اور اسے ایک کامیابی سمجھ رہا ہے ۔پاکستان انٹرسٹ بھی ہے کہ افغانستان اپنے ملکی حالات کو دیکھے اور پاکستان اپنے ملک کی سلامتی کو محفوظ بنائے ۔ لہذا اب پاکستان اپنے اسی انٹرسٹ کے تناظر میں اس کو کامیابی جان رہا ہے ۔

اگر تو کسی بھی صورت نتیجہ امریکہ کا خطے سے انخلا ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ورنہ نہیں ۔ایران نے انتقام سخت سلوگن کی تفسیر بھی یہ کی ہے کہ امریکہ کا اس خطے سے انخلا ہو ۔ اور اس کے لئے انہیں پہلا محاذ چاہیے۔ اس کے لئے انہیں پہلے سٹپ کی ضرور تھی اور یہ سارے معاملات چاہیے وہ شام ہو عراق ہو لبنان ہو افغانستان کے حالات ہوں یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہاں اصطلاح استعمال ہوتی ہے ڈمننگ انفیکٹ یعنی جب ایک گرے گا دوسرا اس پر گا تیسرا اس پر اور پھر یہ عمل نہیں رکے گا جب تک سب نہ گر جائے ۔ امریکہ کا انخلا ایک ملک سے ہو گا تو باقی جگہوں سے بھی حتمی ہے یہ ہونہیں سکتا کہ ایک تو گرے اور باقی سالم رہیں ۔ امریکہ کو اب اس خطے سے جانا ہو گا ۔ اسی میں اس کی عافیت ہے ورنہ وہ انتقام سخت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ امریکہ اگر شام سے نکلتا ہے تو عراق سے نکلنا اس کے مقدر میں ہے ۔

اب صرف ایک ایک اینٹ کےگرنے کی دیر ہے دیوار خود بخود گر جائے گی ۔ماہرین اس معاہدےاور خطے کے حالات کواس تناظر میں دیکھ رہے ہیںکہ جب امریکہ کےعین الاسد اور افغانستان میں امریکہ کے ہائی ویلیو ٹارگٹس ہٹ ہوئے تو یہ انتقام سخت کا آغاز ہو گیا ہے اور امریکہ اب اس کی تاب نہیں لا سکے گا ۔ اور اس نے اپنے آپ کو اس خط سے سمیٹنا شروع کردیا ہے ۔یہی معاہدہ اس کا آغاز اور شروعات ہے ۔اب افغانستان کی عوام کو چاہیے کہ اس ملک کے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرزہیں جیسے طالبان ، گورنمنٹ ، حزب اختلاف کی جماعتیں ، پشتون ، فارسی (شمالی اتحاد) اور تاجیک یہ سب ملکر اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے ملک و ملت کی خاطر آگے بڑھیں اور اس ملک میں جوایک عرصے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔ مضبوط مخلوط حکومت تشکیل دیں اور کسی باہر ممالک سے فرمان نہ لیں بلکہ اپنے وطن کی تقدیر خود لکھیں اور نہ ہی اپنی سرزمین کو کسی ملک یا ہمسائے کے خلاف استعمال ہونے دیں ۔

طالبان کا وہ گروہ جو چاہتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے اور شدت پسند بھی نہیں وہ اس معاہدے کی پاسداری کرے گا مگر طالبان کے اندر بھی گروہ بندیاں ہیں ۔ کچھ اس کی مخالفت پر بھی اتریں گے جیسے حکومتی اشارے مل رہے ہیں کہ ہم سب طالبان کو نہیں چھوڑیں گے تو اس ے ایک انارکی پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ داعش وجود بھی اس ملک میں انتشار کا باعث بن سکتا کیونکہ داعش ایک تکفیری سوچ کی حامل تنظیم ہے اور اس  کا تو منشور یہی ہے کہ اپنے مخالف کو کچلنا وہ کسی مکاتب فکر کا لحاظ کیے بغیر اس پر حملہ ور ہوتے ہیں ۔ جس گروہ کی تربیت امریکن اور اسرائیل نے کی ہو اور فنڈنگ آل سعود ہو اس  سے خیر توقع نہیں کرنی چاہیے ۔طالبان کو ضمانت دینی ہو گی کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔

 

تحریر: سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ
(مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان)



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree