وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانيت كی تاريخ پر اگر نگاه ڈاليں تو وہ آپ کو جنگ و جدال كے واقعات سے بهری نظر آئے گی۔ انسان كے دل ميں اگر خوف خدا نہ رہے اور اسكے پاس قوت و قدرت كے وسائل اکٹھے ہوجائيں تو وه سركش، ظالم اور باغی ہو جاتا ہے۔ تاريخ نے وه ادوار بهی ديكهے، جب يہ ناتوان انسان غرور و تكبر ميں اتنا آگے بڑھ گیا كہ "انا ربكم الاعلى" كا دعویٰ كر ديا۔ ليكن تاريخ نے جب اپنا رخ بدلا تو نہ نمرود رہے، نہ فرعون، سب خس و خاشاک كی طرح بہ گئے۔ كائنات كے خالق حقیقی نے انہيں فتنوں سے اپنے بندوں كا امتحان بهی ليا اور حق و باطل كے ان معركوں ميں مختلف افراد اور گروہوں كی حقيقت اور اصليت عياں ہوتی گئی كہ كون حق كے ساتھ ہے، كون ظلم و جور اور طغيان كا ساتھ دينے والا ہے اور اپنی ذاتی اور وقتی مصلحتوں كے عوض اپنی توقير و اقدار اور دين کا سودا كرتا ہے۔ جارحيت كا جواز باغيوں نے كبهی نسل و قوم و ملت كی بالادستی قرار ديا تو كبهی دين و مذہب كا غلبہ۔
آج ايک بار پهر عالم مشرق ميں جہان زياده آبادی مسلمانوں كی ہے، وہاں پر مغربی استعماری قوتوں نے اپنے پٹھو حكمرانوں كے ذريعے ايک خوفناک مذہبی جنگ كا نقشہ كهينچا ہے اور وه چاہتے ہیں كہ اسكا ايندھن خطے كے شيعہ اور سنی مسلمان ہوں۔ ايک طرف امريكہ، غرب، اسرائيل اور انكی سياست پر عمل كرنے والے خطے كے ممالک ہیں، جنہوں نے مذہبی جنونيت، تكفير اور طاقت و غلبہ كی روايات كو جنم بخشا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت اور مقاومت كا بلاک ہے، جسے صیہونی و امريكی بالادستی گوارا نہیں اور يہ بلاک وسائل كی قلت كے باوجود حكمت و برداشت، صبر و تحمل اور لاجک و منطق سے فقط مقابلہ ہی نہیں كر رہا بلكہ اس كی مقبوليت اور طاقت ميں اضافہ ہو رہا ہے، كيونكہ اس مقاومت كے بلاک كا محور و مركز ايران ہے۔ مكار دشمن نے طے كيا ہے كہ اس کا مقابلہ مذہبی فتنوں سے كيا جائے اور ارض مقدس حجاز پر مسلط كرده خاندان كہ جنہوں نے امريكہ اور غرب سے وفاداری اور اسرائيل كی قيام و حفاظت كی ذمہ داری كے عہد پر حكومت حاصل كی ہے، وه اس وقت سالانہ اربوں اور كهربوں ڈالرز فتنہ تكفير پر خرچ كر رہے ہیں اور متشدد مذہبی جنونی لشكر جہان اسلام ميں تشكيل دیئے ہیں، ليكن ظلم يہ ہے كہ الله تبارک و تعالٰى اور قرآن و اسلام کے نام پر دين اسلام كو بدنام اور مخلوق خدا كو بے دریغ ذبح كر رہے ہیں۔
اسلام كے دو مضبوط بازو اہل سنت اور اہل تشيع ہیں، يہ اسلام كے نام نہاد ٹهيكيدار تكفيری، مسلمانوں كو كمزور كرنے كيلئے اہل سنت كو مشرک اور اہل تشيع كو على الاعلان كافر كہتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں كی اكثريت اہل سنت ہیں، تو اس نومولود تكفيريت و سلفيت نے اپنے آپ كو اہل سنت كا نمائنده قرار ديا ہے، حالانكہ انكی تعداد حقيقی اہل سنت كے مقابلہ ميں بہت كم ہے۔ يہ بهی حقيقت ہے كہ پوري دنيا ميں پائے جانے والے نام نہاد جہادی اور دہشتگرد گروه اسے تكفيری اور سلفی سوچ کی ہی پيداوار ہیں۔ انہوں نے لیبیا ميں لاكهوں اہل سنت كو قتل كيا۔ شام كی 70% سے زياده آبادی اہل سنت كی ہے اور وہاں پر انہوں نے لاكهوں اہل سنت كو قتل كيا ہے۔ عراق و يمن ميں بهی مختلف اہل سنت كے علاقوں پر قبضہ حاصل كرنے كيلئے انہوں نے ہزاروں اہل سنت كو ذبح كيا۔ جب تک داعش شيعہ و سنی مسلمانوں كو قتل كرتی رہی تو امريكہ و غرب انكی حمايت كرتا رہا اور اسلحہ بهی ديتا رہا اور امريكہ نواز خليجی ممالک بهی ہر لحاظ سے انکی مدد كرتے رہے۔ جب حملہ فرانس پر ہوا اور مغرب و امريكہ تک دہشتگردی كی آگ کے شعلے پہنچے تو جان كيری نے آل سعود كے لئے فرمان جاري كيا کہ "داعش اور ہمارے ہر مخالف ملک كے خلاف ايک اسلامی اتحاد بنايا جائے۔"
سعودی حكمرانوں نے اس اتحاد كی تشكيل كے لئے اسلامی ممالک كا اجلاس بلانے كی بهی تكليف گوارا نہیں كی اور 34 اسلامی ممالک كے اتحاد كا اعلان كر ديا۔ اگر يہ اتحاد واقعاً داعش كے خلاف بنايا گیا ہوتا تو وه ممالک جو اس وقت عملی طور پر داعش سے لڑ رہے ہیں، انكو بهی دعوت دی گئی ہوتی، ليكن یہ اتحاد تشکیل دینے والوں کا مقصد جنگ كا خاتمہ نہیں بلكہ اس جاری جنگ كو طول دينا ہے۔ اسی لئے تو امريکہ نے اعلان كيا كہ يہ اتحاد ہماری توقعات کے عین مطابق ہے۔ دوسری طرف مصر كے مشہور اسكالر اور رائیٹر محمد حسنين هيكل نے تعجب كا اظہار كرتے ہوئے كہا كہ يہ كيسا اتحاد ہے كہ جس كے سب ممبران كے ظاہری پر يا باطنی طور پر اسرائيل سے تعلقات ہیں۔ اے كاش سعوديہ بيت المقدس كی آزادی اور مظلوم فلسطينی عوام كے لئے اسرائيل كيخلاف اتحاد كا اعلان كرتا۔ اے كاش يمن میں بيگناه عوام كے قتل اور اس ملک پر چڑھائی كی بجائے صیہونی حكومت پر چڑھائی كرتا، اے كاش داعش، القاعدہ و طالبان سميت مسلح گروہوں كی بجائے فلسطينی جہادی گروہوں كو جديد ترين اسلحہ ديتا اور ان کی مالی مدد كرتا۔
بين الاقوامی ميڈيا ميں يہ خبر بهی عام ہوچکی ہے كہ يہ اسلامی ممالک كا اتحاد نہیں ہے بلكہ امريكہ كے کہنے پر سعوديہ نے سنی ممالک كا اتحاد بنايا ہے۔ اسی لئے ايران و عراق و شام كو اس اتحاد سے خارج رکھنے كا اعلان كيا ہے۔ اس اتحاد سے ان تمام اسلامی ممالک ميں جہاں اہل سنت كے مختلف مذاہب اور اہل تشيع اکٹھے زندگی بسر كر رہے ہیں، وہاں پر ايک نيا فتنہ جنم لے گا۔ مثلاً پاكستان ميں اكثريت اہل سنت كی ہے، ان میں بهی بهاری اكثريت بريلوی اور صوفی مذهب كے ہيروكاروں كی ہے اور وه كبهی بهی آل سعود اور سلفيت و وہابیت کو قبول نہیں كرتے۔ پھر مسلمانوں كی دوسری اكثريت اہل تشيع ہیں، جنکے خلاف لڑنے کے لئے يہ اتحاد بنايا گيا ہے تو باكستان کی اكثريتی عوام اس کی ہرگز حمايت نہیں كرسکتی۔ پاكستان ايک اسلامی ریاست ہے، شيعہ اور سنی ریاست نہیں، اور نہ ہی اسے بانيان نے اسے شيعہ یا سنی اسٹیٹ بنايا تها۔ حكومت پاكستان كو اس اتحاد ميں شامل ہونے يا نہ ہونے پر بہت غور و فكر اور تامل كرنا ہوگا۔ وزارت خارجہ كے متضاد بيانوں ميں سنجيدگی نظر نہیں آرہی اور حكمرانوں كو معلوم ہونا چاہیئے كہ پاكستانی عوام پاكستان كو اسلامی جمهوريہ پاكستان ہی ركهنا چاہتی ہے، نہ كہ سنی پاكستان اور نہ شيعہ ہی پاكستان۔ اگر كوئی گروه آج اپنی سياسی و عسكری طاقت کے گھمنڈ ميں آکر پاكستان كو ڈی ٹریک كرنا چاہے گا تو وه اس مادر وطن سے تاريخی خيانت كا مرتكب ہوگا اور اس سرزمين كے وفادار بیٹے ایسے لوگوں کو ہرگز معاف نہیں كريں گے۔
تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی