وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی زندگی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا۔ ان تمام ادوار کا آپس میں ایک خاص رشتہ قائم ہے اور اس اٹوٹ رشتے کے ذریعے یہ پانچ مراحل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ بنابرایں جسے بچپن میں صحیح تربیت ملے اس کا لڑکپن کافی حد تک بہتر گزرتا ہے اور جس کا لڑکپن معاشرے کی کثافتوں کی نذر نہ ہو تب اس کی نوجوانی بھی بہتر گزر جاتی ہے۔ جو نوجوانی میں غلط سوسائٹی، برےمعاشرے، برے گھرانہ اور برے مربّی سے محفوظ رہے اس کی جوانی ہوا و ہوس کے سیلاب میں غرق نہیں ہوتی اور جس کی جوانی تمام آفتوں سے بچ کر گزر جائے اس کا بڑھاپا تو سنور ہی جاتا ہے۔
البتہ ان تمام مراحل میں انسان کی اپنی ذاتی استعداد اور رجحانات کا بھی دخل بھی ضرورہے۔ بالخصوص اگر کوئی بچہ غیرمعمولی استعدادکاحامل ہوتو اس کے رجحانات بھی منفرد قسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت بچوں کو جب مطلوبہ وسائل مل جاتے ہیں تو جوان ہوکر وہ نا صرف اپنی ذات کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو، بلکہ بسااوقات پورے علاقے اور ملک کو برائیوں اور مصیبتوں سے نجات دلاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے تربیت یافتہ افراد بڑے عرصے بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں سے ایک منفرد اور چمکدارستارہ حجۃ الاسلام و المسلمین غلام محمد فخرالدین قدس اللہ سرّہ بھی تھے۔
موصوف نے 22نومبر 1971ء کو قمراہ سکردو میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد حاجی مہدی مرحوم صوم و صلوۃ کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ مداح اہل بیت علیھم السلام بھی تھے۔ علاوہ ازیں والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے آپ کو ایک خاص شفقت و محبت نصیب ہوئی۔ لہذا آپ کی تربیت کے لیے بنیادی درسگاہ بہترین گھرانہ قرار پائی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں قمراہ میں ہی حاصل کی۔ اس دوران بھی آپ کو دیندار اساتذہ سے کسب فیض کرنے کا سنہری موقع ملا۔ بعد ازاں نوجوانی کے عالم میں جب آپ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے سکردو آئے تب آپ کو آئی ایس او جیسا بہترین پلیٹ فارم ملا۔آپ نے نا صرف اس پلیٹ فارم کی بدولت اپنی ذات کو معاشرے کی آلودگیوں سے بچائے رکھا بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں کو بھی اس پلیٹ فارم کی طرف راغب کرکے ان کی تربیت کی اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار اداکیا۔
ڈگری کالج سکردو سے ایف اے اور بی اے اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد چونکہ آپ کو قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کے ساتھ ایک خاص شغف تھا لہذا آپ نے اپنے فن سخنوری کا لوہا بھی اسی دور میں ہی منوا یا۔
آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر علما کرام نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے تحریک جعفریہ پاکستان کے مسؤلین کی توجہ کو بھی اپنی طرف جذب کی۔ آپ نے اس ملکی سطح کی تنظیم میں خلوص نیت اور جذبہ ایمانی کے ساتھ حریم اہل بیت علیھم السلام کا بھرپور دفاع کیا۔
علوم محمد و آل محمد علیھم السلام سے آپ کی چاہت و بعض علما کے مفید مشوروں بالخصوص حجۃ الاسلام شیخ محمد حسن جعفری صاحب کی پدرانہ ہمدردی کے باعث آپ کوعُشّ آل محمد علیھم السلام قم المقدّسہ میں جیّد علما کے محضر میں زانوئے تلمذتہہ کرنے کا بہترین موقع نصیب ہوا۔ حوزے کے اساتذہ کو جب آپ کی صلاحیتوں کا ادراک ہوا تو انھوں نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا۔ کم وقت میں آپ نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ سطحیات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آپ نے مختلف مراجع عظام کے درس خارج میں بھی بھرپور شرکت کی۔
آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہاں ایک منفرد محقق بھی تھے۔ سیاسی تحلیل میں تو آپ اپنی مثال آپ تھے۔ جب آپ تحلیل کرنا شروع کرتے تھے تو جی کرتا تھا کہ سنتےہی رہیں، آپ حقائق کو الفاظ کا ایسا لبادہ پہناتے تھے کہ واقعیّت مجسم ہوکر سامنے آجاتی تھی۔ آپ ایک عالمی فکر کے حامل تھے۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کسی پرظلم ہوتا تو آپ بے چین ہوجاتے تھے۔
آپ نے منجی عالم بشریت امام زمان عجّل اللہ فرجہ الشریف سے خصوصی عقیدت کی بنا پر اپنے ایم فل تھیسسز کا موضوع ہی" احادیث تطبیقی مہدویت در صحاح ستہّ و کتب اربعہ" انتخاب کیا اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ بعد ازاں آپ کی گوناگوں تبلیغاتی مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے قرآن و حدیث میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے معینہ کلاسیں ختم کرنے کے بعد پی ایچ ڈی تھیسسز " نقد و بررسی آراء قرآنیون در مورد قرآن و سنت " کے موضوع پر لکھا۔ تھیسز کے دفاع کا منظر دیدنی تھا۔ ہم نے خود اس جلسہ دفاعیہ میں شرکت کی تھی۔ آپ ایسے علمی انداز سے اساتذہ کے اشکالات کا جواب دیتے تھے کہ مخاطب دنگ رہ جاتے تھے۔ وہاں اساتذہ نے بھی آپ کی شخصیت کو ایک منفرد شخصیت اور تھیسسزکو بھی نہایت عمیق اور مفید قرار دیا اور کہا کہ ایسی تحقیقات بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تھیسز میں آپ نے 98.75% نمبرلے کر تحقیقی دنیا میں پاکستان اور اسلام کانام روشن کیا۔ علاوہ ازیں آپ کی مزید دو کتابیں بعنوان "مہدویت اور انسان کا مستقبل " اور "قرآنی زندگی" چھپ چکی ہیں۔بعض دوسری کتابیں بھی عنقریب چھپنے والی ہیں۔ ان میں سےایک اہم کتاب " ولایت فقیہ " ہے۔
آپ نے اپنی عمر کے آخری دو سال سرزمین قم المقدسہ میں مجلس وحدت المسلمین کے سیکریڑی جنرل کے عنوان سے دینی خدمات انجام دیں ۔ بنابریں موصوف ایک ایسی شخصیت ہیں جس نے ہر پلیٹ فارم سے عالمِ اسلام کی خدمت ،رہبری اور فلاح و بہبود کے لئے کام کیاہے۔
آپ گزشتہ تین سالوں سے مسلسل تبلیغی سلسلے میں حج بیت اللہ سے مشرّف ہورہے تھے۔ اس سال بھی آپ اپنے خالق حقیقی سے لو لگانے گئے تھے۔ آخر کار اعمال حج کے بجاآوری کے دوران آل سعود کی نااہلی، عدم دقت، بے اعتنائی اور بدنظمی یاپھر سازش کے باعث ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منیٰ کے مقام پر حالت احرام میں اجلے ملبوس میں لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کے ساتھ اپنے حقیقی معشوق سے جا ملے۔
یوں ہم ایک عالم باعمل، محقق کم نظیر، خطیب توانا، پیکر تقویٰ، مدرس بے بدیل، تابناک ماضی، امید مستقبل، عالم بصیرو مبارز سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ آپ کے مقدس جسدِ مبارک کو مکہ میں ہی قبرستانِ مِنیٰ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
آخر میں خدا کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ائمہ معصومین علیھم السلام کے جوار میں جگہ عنایت کرے اور ہمیں ان کے مشن کو احسن طریقے سے جاری رکھنے کی توفیق دے۔
تحریر۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ( حوزہ علمیہ قم)