وحدت نیوز (آرٹیکل) سادہ لوحی کی بھی انتہاہوتی ہے،ہمارے ہاں کے سادہ لوح پاکستانی خادمین حرمین شریفین کا نام دے کر سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ کہہ رہے ہیں ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے خود غرض اور سعودی نمک خوار سعودی بادشاہوں کی اتباع کو دینِ اسلام کہہ رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ایجنڈا ہر ممکنہ طریقے سے اسرائیل کے بچاؤ اور امریکہ کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
سعودی حکمرانوں کو اللہ اولیائے اللہ اور دینِ اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں،انہیں کسی مسلمان،کسی ولی خدا اور کسی اسلامی مسلک پر کبھی رحم نہیں آتا۔ان کی ساری ہمدردیاں یہودیوں،عیسائیوں اور کفار سے وابستہ ہیں۔ شاید آپ کو تعجب ہورہاہو یا آپ مجھے ایک متعصب شخص سمجھ رہے ہوں لیکن اس میں تعجب یا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں۔آپ خود سے تحقیق کر کے دیکھ لیں۔
ایک قاعدہ ہے" کل شیئ یرجع الی اصلہ" ہر چیز اس کی اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ آل سعود کی اصل یہودیت ہے اور موجودہ آل سعود کے آباو ادجداد کا تعلق خیبر کے یہودی قبیلے عنزہ یا ہمان سے ہے۔ (1) اور قرآن مجید بھی یہود کو مسلمانوں کا ابدی دشمن قرارد ے رہا ہے۔ (2) یہ لوگ کبھی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار پانہیں سکتے۔ آج کل عالم اسلام کو جتنی مشکلات کا سامنا ہے ان سب کی بازگشت سعودی حکومت کی طرف پلٹتی ہے۔ نائجیریا میں سینکڑوں افراد کے قتل کا مسئلہ ہو یا یمن میں آٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہریوں کا کشت و خوں ، شام میں لاکھوں مسلمان بے گھراور کسماپرسی کے عالم میں ہونے کا مسئلہ ہو یا امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی میں وہاں ہزاروں لوگوں کا قتل عام کا مسئلہ، ایران پر امریکی پابندیوں کا مسئلہ ہو یا بحرین میں آل خلیفہ کے مظالم کا معاملہ غرض مسلمانوں کے تمام مشکلات کا سرچشمہ آل سعود ہی ہے۔
نہ سعودی عرب میں مذہبی آزادی ہے نہ فکری آزادی نہ حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے اور نہ اپنے حق کا دفاع کرنے کی قدرت۔ جس کا واضح ثبوت کل ہی آیت اللہ باقرالنمر کو بے دردی سے شہید کرنا ہے۔ اسلام تو مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے۔ (3) فکر ی آزادی کی دعوت دیتا ہے(4)نہ ظلم کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کا(5)
مومنو! ناامید نہ ہونا چراغ امید کو اپنے دلوں میں روشن رکھنادشمنوں کے مظالم سے مرعوب نہ ہونا کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ دشمن تو ابتداتاریخ میں ہی ہمیں محو کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک اپنے ان ناپاک عزائم پر تلے ہوئے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں نے توسقیفے سے ہی ولایت کے نور کو بجھانے کی کوشش کی اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی نئی بدعت قائم کردی پھر مرور زمان کے ساتھ ساتھ کربلا کی سرزمین پر چراغ ہدایت کو گل کرنے اور ظلمت کو ہمیشہ کے لیے سایہ فگن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور وہ اپنے اس زعم باطل میں مگن ہوگئےتھے کہ اس کے بعد کبھی ہدایت کا چراغ روشن نہیں ہوگا لیکن انھیں کہاں معلوم تھا کہ امام سجاد ؑ اور ثانی زہرا حضرت زینبؑ حیدری اور حسینی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس چراغ ہدایت کو گل ہونے نہیں دیں گے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ یاد رکھنا کہ آخر کاری فتح ہماری ہی ہوگی اور بشریت کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دینے والا ہمارا ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے جانشین ہوں گے۔اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں اللہ تعالی ان ظالموں کو مختصر مدت کے لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ ان کو ابدی ہلاکت میں مبتلا کرئے۔(6)
اب تو سلب آزادی کی انتہا ہوگئی اور شہید آیت اللہ باقر النمر کو مظلومانہ شہیدکیا گیا۔ نہ انھوں نے کسی کے قتل کا فتوی جاری کیا، نہ کسی مسلمان کے خون کو حلال کیا، نہ کسی کی ناموس کی توہین کی، نہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی، نہ کسی کا حق غصب کیا، نہ کسی کی توہین کی، نہ کسی دہشتگردی کے واقعے میں ملوث ہوئے، نہ کسی کا "برین واش" کرکے اسے خودکش دھماکے پر وادار کیا، نہ بے گناہ انسانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیا، نہ جہاد النکاح کے ذریعے کسی کی ماں بہن کو دوسروں کے لیے جائز التصرف قرارد یا، نہ کسی کے حق پر شب خوں مارا، نہ کسی دہشتگرد تنظیم کی سرکردگی کی، نہ کسی وہابی مسجد میں دھماکہ کرایا، نہ کسی دہشتگرد کے ساتھ تعاون....پھر انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ معارف اہل بیت علیھم السلام کا پرچار کرتے تھے، اسلام کے حقیقی اصولوں سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے، اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے، لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محرومی کا احساس دلاتے تھے، حکومت کی شہریوں کے درمیان تبعیض کی مخالفت کرتے تھے اور اجتماعی عدالت کے نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے(6) کیا کسی شہری کا اپنے شہری اور مذہبی حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا ظالم حکومت آل سعود کے مظالم سے پردہ چاک کرنا اولی الامر کی مخالفت شمار ہوتی ہے؟ کیا شرابی، کبابی اور حرم سرا میں عیش و نوش میں مصروف رہنے والے ایسے حکمران اولی الامر کا مصداق قرار پاسکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے درمیان اجتماعی شعور بیدار کرنا جرم ہے؟ ....
شاید آل سعود یہ گمان کرتے ہوں کہ ایک یا چند نمر کو شہید کرنے سے شیعہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے اور ساکت ہوکر ان کے تمام مظالم پر سسکیاں لیتے ہوئے مظلومانہ زندگی گزاریں گے اور ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب اور دنیا کے گوش و کنار میں بے حس تماشائی بنے رہیں گے۔ اگر تمہاری یہ سوچ ہے تو یہ تمہاری بھول ہے؟ تشیع وہ ملت ہے جس نے ابتدا تاریخ سے ہی حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود اپنا تشخص نہیں کھویا، کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا، کبھی کسی کے ظلم پر خاموش نہیں رہے، کبھی دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سکوت اختیار نہیں کیا، کبھی کسی امریکا یا اسرائیل جیسے استعماروں کے پنجے میں آکر ان کا آلہ کار نہیں بنا۔ کیوں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟میری نظر میں اس کا واحد سبب ہمارا کربلا سے متمک ہونا ہے۔ ہم بادشاہ حریت اباعبداللہ الحسین ؑ کو اپنا آقا و مولی مانتے ہیں اور انھیں اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ جس نے کربلا کی تپتی صحرا میں ہمیں یہ درس دیا ہے کہ "ذلت ہم سے بہت ہی دور ہے"(7) ظالموں کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کے مقابلے میں عزت کی موت سعادت ہے" (8)
ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر چند روز تم اپنی حکومت و اقتدار کے نشے میں مست رہ کر دوسرے مسلمانوں بالخصوص علما حقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہو لیکن یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جہاں امام حسینؑ نے بہتر افراد کے ساتھ ہزاروں سے جنگ کرکے ان کے دشمنوں کو قیامت تک آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا وہاں ان بے گناہ شہیدوں کا خون بھی عنقریب رنگ لائے گا اور تمہارے دیوان اقتدار میں لرزہ طاری کرے گا اور تمہاری بھی وہ حالت ہوجائے گی جو حال ہی میں دوسرے ظالم و جابر حکمرانوں کا ہوا ہے۔ ہم تم سے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ:
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گھڑے پھر بھی بڑھے وادی مرگ بھی منزل گہہ امید بھی
ہاتھ کٹتے رہے پھر مشعلیں تابندہ رہیں رسم جو ہم سے چلی باعث تقلید بنی
شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی
تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی