وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی تاریخ میں حق و باطل قوتوں میں ٹکراؤ رہا ہے اور انسان پر ڈھائے جانے مظالم کی لمبی فہرست ہے ۔ ظالم جابرسرکش برسراقتدار طبقے نے محکوم طبقے کو کبھی دیوار میں چنوا دیا تو کبھی دھکتی آگ میں جھونک دیااور کبھی گردنے ما ر دی گئیں تو کبھی جسم کے اعضاء کاٹ دیے گئے۔
جہاں جابروں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ظلم روا رکھا وہاں ظلم و استبداد کے خلاف ڈٹ جانے کا الٰہی فریضہ پیغمبروں نے بخوبی انجام دیا ہے۔ ہمیں قرآن حکیم میں ان انبیاء کا صریح طور پر ذکر ملتاہے جو ظالمین کے ساتھ حالت نہضت میں رہے ہیں۔ جناب موسیٰ ؑ پوری طاقت و توانائی کا ساتھ فرعون کی سرکشی کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے فرعون سے ٹکر جاتے ہیں۔ کبھی حضرت ابراہیم بتوں کو توڑ کر نمرود سے اعلان جنگ کر دیتے ہیں، پھر حضرت عیسیٰؑ روم کی نوآبادی نظام کے پروردہ ملاؤں کے اقتدار سے ٹکرا جاتے ہیں اور ہمارے پیغمبر اکرمﷺ جاہلوں ، غلاموں کے آقاؤں، جاگیرداروں اور طائف کے اشرافیہ و ذمینداروں کے خلاف جدوجہد شروع کرتے ہیں اور کم وپیش ۵۶ جنگیں سرکشوں کے ساتھ لڑنی پڑتی ہیں۔
پھرایک دور میں جناب ابوذر حاکم وقت پرکڑی نقید کرتے ہیں اور انہیں بغیر پالان اونٹ پر ربذہ جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ حجر بن عدی اپنے بیٹوں کے ہمراہ اہل حق کے ساتھ ہونے کے جرم میں ماردیے جاتے ہیں۔ سفر آگے بڑھتاہے، وارث انبیاء انقلابیوں کے رہبرامام حسینؑ ۵۲ ریاستوں کے حاکم یزید اور اس کے ظلم ، فسق و فجور کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور کربلا کے صحرا میں اپنے رفقاء کے ساتھ شہید کردے جاتے ہیں۔ واقعہ کربلا مظلومین و انقلابیوں کی تاریخ کا ایک المناک ترین سانحہ ہے جس نے فکرانسانی کوخون کے چھیٹوں سے بیدار کردیا۔
اگرماضی قریب میں نظر کریں تو صدام جیسے ڈکٹیٹر کے ہاتھوں باقرالصدر جیسے پاکیزہ انسان مقتل گاہوں میں ٹکڑوں میں تقسیم کردیے جاتے ہیں اور لاش تک غائب کرا دی جاتی ہے اور کہیں موسیٰ صدر جیسے افراد کو زمین پر برداشت نہیں کیا جاتا۔ ایک دفعہ پھر ظالموں کو بتوں کو توڑنے کیے لیے امام خمینی قیام کرتے ہیں تو گرفتاریوں سے جلاوطنی کا سفر طے کرتے ہیں، بالآخر اب کے بار تاریخ نے کروٹ لی اور خدا کا لطف ہو ا کی مظلومین فاتح ہوگئے۔ مگر طاغوت اسلامی انقلاب پر صدام کے ہاتھوں حملہ آور ہو جاتا ہے اور لاکھوں جانیں قربان کرکے انقلاب کی حفاظت کی گئی۔
موجودہ صدی کے مظالم میں رہزنی کرنے والے آل سعود کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ضرور رہا ہے۔ آل سعود جب سے اقتدار کے اونٹ پر سوار ہوئے ہیں امت محمدی پر کاری ضربیں لگا رہیں اور بنوامیہ کے غلیظ سیرت پر چلتے ہوئے ملوکیت کے شتر بے مہارسے عدل و انصاف کو اپنے پیروں تلے روند رہیں ہیں۔ سعودی آج ایک بدمست وحشی کے طرح ہے جو اقتدار کے ہوس میں شریف انسانوں کا شکار کررہاہے اور درندگی سے لوگوں کو چیرپھاڑ رہا ہے۔ آل سعود جس کی ماں برطانیہ، باپ آمریکا ہے اور اپنے ناجائز بھائی اسرائیل کو مستحکم کرنے کے لیے کبھی طالبان، کبھی جیش، کبھی لشکر، کبھی القائدہ تو کبھی داعش تشکیل کرتا ہے جوحیوان مسلمانوں کی گردنے کاٹ دیتے ہیں۔ آل سعود تحریکوں کو کچلنے کے لیے کبھی مصر و بحرین میں خود ساختہ حکومتیں قائم کرواتا ہے تو کبھی ایسی حکومت کے خاتمے پر یمن میں جارحیت کر کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو ملبے میں تبدیل کر دیتا ہے۔
اس پر آشوب دور میں حجاز مقدس کے سرزمین(جو اب آل سعود کی نجاست سے آلودہ ہو چکی ہے جس طرح حجراسود کفار و مشرکین کے نجس ہاتھوں سے سیاہ ہوگیا) سے ایک بوذری پیغمبرانہ مشن لیے ظلم و ناانصافی کے خلاف قیام کا علم بلند کرتاہے اور سعودی کے بے حس، گونگے بحرے سماج کو زندگی و زبان عطا کرتا ہے اور آل سعود کے نجس بدن سے خادمین حرمین کا منافقانہ لباس نوچ لیتاہے اور اس کے ظلم ، فساد و فتنہ کو آشکار کر دیتا ہے۔ ہاں، وہ حسینی آیت اللہ باقرالنمر تھے۔ جس کے تنقید سے آل سعود کی بادشاہت کے محل لرزرہے تھے۔ ایسے میں آل سعود اپنے اجداد کے طرح جب اس مجاہد عالم دین کو جھکا نہیں سکے تو یزیدوں نے اس کا سرقلم کر دیا اور لاش تک غائب کر دی ہے۔ جب شہید باقر النمر کا خون ناحق زمین پر گرا جس کی فریاد پورے عالم اسلام و پوری دنیا نے سنی اور مگر امت کے اس سپوت کی شہادت پر صرف وہی طبقہ نالاں ہیں شہادت جن کی میراث ہے۔ آل سعود نے سمجھ لیا ہے ک انہوں نے شیخ نمر کو مار دیا ہے مگر نہیں باقرالنمر نے مرکر ایک نئی زندگی پا لی ہے اور اپنے خون سے آل سعود کے ماتھے پر رسوائی تحریر کر دی ہے۔
تحریر۔۔۔ محمودالحسن