مٹھی بھر لوگ ۔۔۔یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

25 July 2016

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان میں  اکثریت  باصلاحیت افراد کی ہے  ،عوام  بھی مذہبی اور دیندار ہیں  لیکن ایک گندی اقلیت  ملک و ملت کے وسائل پر قابض ہے۔ہر روز کتنی ہی  قیمتی جانیں دہشت گردی  کے واقعات ،پینے کے گندے پانی،ٹریفک کے ناقص انتظامات  اور گھٹیا دوائیوں کے باعث تلف ہوجاتی ہیں۔ان سارے حادثات کے دوران  سرکاری ادارے  بھی کام کرتے ہوئے فعال نظر آتے ہیں۔

کوئی بھی سرکاری ادارہ یہ ماننے پر تیار نہیں کہ اس کی غفلت یا اس کے اہلکاروں کی کرپشن کی وجہ سے کو ئی حادثہ پیش آیاہے۔اگر کوئی شخص  اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت لے کر تھانے جائے تو  تھانے جاکر وہ خود پولیس والوں کے مظالم کا شکار ہوجاتاہے۔

اسی طرح قانون بظاہر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں جیسے ہمارا نیشنل ایکشن پلان  لیکن انہی قوانین کے ذریعے پر امن شہریوں کے گرد شکنجہ کسا جاتا ہے۔

پولیس اور اسمبلی کو چھوڑ کر آپ پاکستان ریلوے  سروس کا حال دیکھ لیں۔دنیا کس طرف جارہی ہے اور ہماری ریلوے سروس کیا گل کھلا رہی ہے۔

ریلوے کے بعد محکمہ برقیات کو لے لیں ،آج شاید  کوئی  بھی ایسا پاکستانی نہیں ہو  گا جس نے محکمہ برقیات کی کرپشن  کے زخم  نہ کھائے ہوں۔میٹر دیکھے بغیر بل دینا تو اس محکمے کا معمول ہے  اوراگر آپ کسی اہلکار کو ہزاردوہزار روپے تھمادیں تو ۲۵ ہزار کا بل ۱۵ سو روپے میں تبدیل ہوسکتاہے۔

اصل بات یہ ہے کہ  سرمایہ دارانہ نظام کے لوگ بجلی لوٹتے ہیں اور عام پاکستانیوں سے اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔

 اگرآپ کو  پاکستان کے کسی پارک  میں جانے کی توفیق ہوجائے تو  بہت کم پارک ایسے ملیں گئے جہاں ٹائلٹ کا مناسب  انتظام  بھی ہو۔

اس کے علاوہ آپ  سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھیں  ،اکثر سرکاری ہسپتالوں میں  اس قدر گندگی پائی جاتی ہے کہ ایک صحیح و سالم آدمی بھی اگر  ہسپتال جائے تو مریض ہو جاتا ہے ۔دوائیاں  تک موجود نہیں ہوتی ۔ایک لمبی قطار میں مریض کھڑے ہوتے ہیں اور اکثر کئی جگہوں پر ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں  کہ ڈاکٹر کب آئے گا؟

بعض اوقات تو مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان مریضوں کے لیے کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ کم از کم ان کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں وغیرہ لگا دی جائیں یا کوئی انتظام کیا جائے اور جو مریض ایڈمٹ ہوتے ہیں وہاں موجود بیت الخلا میں پانی ہی نہیں ہوتا اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

  اس کے بعد  بلدیہ کے حوالے سے بات کریں  تو اکثر لاری اڈوں پر  موجود  گندگی کے ڈھیر ان کے حسنِ کارکردگی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔

عام ہوٹلوں کا حال دیکھیں  تو آپ کو اکثر جگہوں پرصفائی کے علاوہ سب کچھ دکھائی دے گا ۔اور بعض ہوٹل تو حرام گوشت کھلاتے ہوئے  بھی پکڑے گئے ۔

نادرا اور ایمبیسیوں کے بارے میں کچھ کہنا ہی وقت ضائع کرنا ہے۔اسی طرح مسئلہ کشمیر کو لیجئے ،ہندوستان اپنے تمام تر مظالم کے باوجود کشمیر کی غالب  نسل نو ،اکثر سیاستدانوں اورمتعدد مفکرین کو کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتاجارہاہے جبکہ ہم کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ کہنے کے باوجود کھو رہے ہیں۔خلاصہ یہ کہ کوئی شعبہ بھی کرپشن سے پاک نہیں ۔

یہ پاکستان کی صورتحال کا ایک اجمالی نقشہ تھا اب آئیے ممکنہ  حل بھی ڈھونڈتے ہیں:۔

1۔ اداروں کی  یقینی نظارت

ایسا بھی نہیں کہ حکومت  فلاح و بہبود کہ لیے کچھ نہیں کرتی ،حکومت  باقاعدہ طور پر سکولز ، ہسپتال،تعمیراتی کاموں کے لیے ،ریلوے  سرویس کے لیے  اور دیگر تمام  سرکاری اداروں  کے لیے مخصوص بجٹ کے لیے دیتی ہے ۔مشکل یہ ہے کہ نظارت نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ جگہ بجٹ خرچ نہیں ہوتا۔یا پرائیویٹ معاملات میں بھی کوئی صحیح نظارت نہیں ۔کبھی کوئی سمبوسوں میں چوہے کا گوشت ڈالتے ہوئے میڈیا پر آتا ہے اور کبھی گھی بنانے والی فیکٹری کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرغی کی آنتوں سے گھی بناتے رہے ۔

 جو مولوی فساد ، تفرقہ بازی ،دہشت گردی  پر لگے ہوے ہیں ان کو پتہ ہے کہ کوئی نظارت نہیں ۔سب اپنی مستی میں ہیں وہ کرتے  ہی اسی لیے ہیں  کیوں کہ نظارت نہیں ۔تمام اداروں کی کرپشن کی مہم ترین وجہ نظارت کا نہ ہونا ہے۔

 2۔ شکایات کی شنوائی  کا سسٹم بنایاجائے

کوئی سرکاری ادارہ چاہے پرائیویٹ  ہو یا سرکاری، جہاں بھی شکایات کا نوٹس نہیں لیا جاتا وہ شعبہ زوال کا شکار ہونے لگتا ہے۔اس شعبے کے اندر اچھے افراد بھی آہستہ آہستہ کام خراب کرنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے   کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اور پاکستان میں ہر آدمی کہتا ہے کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔اور کرپشن کوئی کرتا ہی اسی وجہ سے ہے جب اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی مجھے نہیں پوچھے گا۔

پورے پاکستان میں عوامی شکایت سیل قائم کیئے جائیں جن میں ہر آدمی اپنی شکایت کھلے دل سے درج کروائے اور وہ شکایت سیل عوام کو پریشان کرنے کے بجائے  باقی کام خود انجام دے ۔

3۔قانون کا سب  پر لاگو نہ ہونا :

ہمیں جاننا چاہیے کہ کسی قوم کی پستی اور زوال کی وجہ  امیر اور طاقتور  پر قانون کا نافذ نہ ہوناہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خصوصا پولیس سے رشوت ختم کروائی جائے تاکہ عام آدمی بھی طاقتور لوگوں کے خلاف بلاخوف شکایت درج کرواسکے۔

4.آرمی کا تقدس بچایاجائے

پاکستان آرمی کو چاہیے کہ اپنے تقدس کو ہر قیمت پر بچائے۔کوئی بھی ملک اسی صورت میں محفوظ رہ سکتاہے جب اس کی آرمی مضبوط ہوگی۔تلاشیوں اور ناکوں کے دوران اگر کہیں سے آرمی کے جوانوں کی رشوت لینے کی شکایت موصول ہوتو اس کا فوری طور پر ایکشن لیاجانا چاہیے۔اسی طرح آرمی کو فرقہ پرست عناصر کی بھینٹ بھی نہیں چڑھنے دینا چاہیے۔

5-عوامی طاقت کا شعور

کرپٹ لوگوں نے عوام کو یہ ذہن نشین کروایاہوا ہے کہ لوگ کچھ بھی نہیں کرسکتے،دھرنوں،ہڑتالوں اور شکایات سے کوئی بھی تبدیلی نہیں آسکتی،حالانکہ اصل طاقت عوام کے پاس ہی ہے۔

لوگوں کو اس طرح کی باتوں سے خاموش کروادیا جاتاہےکہ یہاں تو وزیراعظم بھی رشوت لیتاہے،پولیس خود ملی ہوتی ہے،سب ڈاکو ہیں۔۔۔۔

حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،سب کو ڈاکو کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے لوگ بھی اہم پوسٹوں پر موجود ہوتے ہیں ،لہذا لوگوں کو  خاموشی کے  ساتھ ظلم سہنے کے بجائے آواز بلند کرنے کا شعور دیاجانا چاہیے۔ پیامبر ص نے فرمایا  تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر  کسی ایک اعضاء کو تکلیف ہو تو  وہی درد دوسرے اعضاء کو بھی ہوتی ہے۔ہم سب کو مل کر مظلوموں کی حمایت کے لئے نکلنا چاہیے۔

دیکھا گیاہے کہ   جن علاقوں میں لوگ باہر نکلتے ہیں وہاں کی صور ت حال دیکھیں وہاں سرکاری افسران اور پولیس  کا اخلاق بھی  اچھا ہوتا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اپنی ذمہ داری اگر پوری نہ کی تو لوگ اسے معطل بھی کروا سکتے ہیں اور یہاں کہ لوگ  باشعور ہیں۔

بعض دفعہ پولیس یا دوسرا ادارہ  اس بات پر  آمادہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شکایت ہو تو اس کا نوٹس لیں گئے کیوں کہ بغیر شکایات اور ثبوت کے خود نوٹس تو نہیں لے سکتے لیکن وہاں کوئی ایسا فرد نہیں ہوتا جو سامنے کھڑا ہو جائے۔

کئی دفعہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کہیں ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی تھی  تو  لوگوں  کے احتجاج کے بعد کاٹ دی گئی۔

6-ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیاجائے۔

اس وقت پاکستان میں انسانی بنیادوں پر ایم ڈبلیو ایم کے مٹھی بھر لوگوں نے بھوک ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اذانیں دینے،نمازجماعت منعقد کرنے اور درس اخلاق دینے سے نہ ہی تو پاکستان میں انسانی حقوق کی جنگ لڑی جاسکتی ہے اور نہ ہی عوامی شعور کی سطح بلند ہوسکتی ہے۔

عوامی شعور کی سطح کو بلند کرنے کے لئے عوام کو خانقاہوں سے نکال کرمیدان ِ عمل میں لانا ضروری ہے۔  اگر عوام کو خود ان کے حقوق کے دفاع کے لئے کھڑا نہیں کیاجاتا توکوئی درس اخلاق ان کی اصلاح نہیں کرسکتا۔  میدانِ عمل میں آنے سے ہی عوام کو اپنی خودی کا احساس ہوتا ہے،اپنی قدروقیمت کااندازہ ہوتاہے ،اپنی طاقت کا پتہ چلتاہے اور حقوق کے دفاع کا ہنر آتاہے۔

جو اذان عوام کوخدا اور معاشرے سے کاٹ کر سلادے وہ اذان ،ذان نہیں بلکہ لوری ہے اور جو دھرنا اور احتجاج لوگوں کو بیدار کر کے خدا اور معاشرے سے ملادے  وہی اذان ،اذانِ انقلاب ہے۔

اس وقت عوام کو ان کے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے ایم ڈبلیو ایم نے  جو قدم اٹھایاہے ہمیں تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اس کی حمایت کرنی چاہیے۔یہ مٹھی بھر لوگ در اصل مظلوم انسانیت کی خاطر آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اپنی آوازوں کو ان کی آوازوں میں شامل کریں۔

تحریر۔۔۔۔۔۔مسلم عباس

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree