وحدت نیوز (آرٹیکل) گلوبلائزیشن وہ نظام ہے جس كی ابتداء اٹهارويں صدی كے يورپی صنعتی انقلاب كے بعد استعماری دور كے آغاز سے ہوئی۔ يورپ كو ايک طرف تو اپنی فيكٹريوں اور كارخانوں كے لئے خام مال كی ضرورت پيش آئی اور دوسری طرف انہیں اپنی مصنوعات اور پيدوار كی فروخت كيلئے منڈيوں اور صارفين كی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان اہداف كے حصول كيلئے يورپ نے عسكری طاقت كا استعمال كيا اور دنيا كے مختلف ممالک پر قبضہ جما كر انكو اپنی كالونیاں بنانے کا پلان بنایا۔ نيو گلوبلائزيشن ميں امريكہ اور يورپ نے بغير عسكری طاقت كے بين الاقوامی منڈيوں پر قبضہ جمايا اور اپنے اہداف حاصل كئے۔ اس معركے كو انہوں نے تجارت، بين الاقوامی كمپيٹيشن اور ٹيكنالوجی كے پهيلاؤ، ميڈيا، انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن وسائل كی فراہمی كے ذريعہ سر كيا۔ 1991ء كو جب روسی اتحاد كے ٹوٹنے سے مشرقی بلاک كا خاتمہ ہوا اور دنيا پر مغربی بلاک كا غلبہ ہوا، جس كی سربراہی امريكہ كے پاس تهی، امريكہ نے نئے عالمی نظام "نيو ورلڈ آرڈر" كا اعلان كيا اور آئی ايم ايف، عالمی بنک اور عالمی تجارت كی تنظيم وغيره كے ذريعہ دنيا كے وسائل اور مقدرات پر امريكہ مسلط ہو گيا۔
گلوبلائزیشن كے اہداف، مراحل اور اثرات كو بيان كرنے سے پہلے اسكا مختصر تعارف اور مفہوم بيان كرنا ضروری ہے كہ گلوبلائزيشن كيا ہے۔
گلوبلائزيشن كيا ہے؟
اس سے مراد ايک نيا عالمی نظام ہے جو كہ علم و ٹيكنالوجی كی ترقی اور كمیونیکیشن كی دنيا ميں انقلاب اور روابط و اتصالات كے مختلف جديد ترين آلات وسائل كی بنياد پر قائم ہے، تاكہ مختلف اقوام و ممالک كے مابين قائم سرحدوں كو توڑ كر پوری دنيا كو ايک جهوٹے سے گاؤں ميں تبديل كيا جاسكے۔ آج ہم اس اصطلاح "گلوبلائزيشن" كو بڑے فخر سے استعمال كركے اپنے آپكو تعليم يافتہ اور علمی پيش رفت كے ساتھ چلنے والا ثابت كرتے ہیں اور بهول جاتے ہیں كہ ايسی خوبصورت اصطلاحوں اور رنگ برنگے نعروں اور دعوؤں كے ذریعے ہمارے دشمن كيسے ہمارے ذہنوں كو مسخر كرتے ہیں اور ہميں مرعوب كركے اپنے اہداف كی تكميل كے لئے استعمال كرتے ہیں۔ حقيقت يہ ہے كہ وه هماری سرحديں توڑ كر ہمارے كلچر اور ثقافت پر حملہ آور ہیں۔ يہ ثقافتی يلغار ہے اور ہم حملہ آوروں كے گن گاتے ہیں اور دشمن كا ساتھ دے رہے ہیں۔ وه ہماری فكر و سوچ، عادات و تقاليد اور اعتقادات و نظريات كو اپنی مرضی كے مطابق تبديل كرنا چاہتے ہیں۔
گلوبلائزیشن كے اہداف:
1۔ دنيا كو ايک چھوٹے گاؤں سے تشبيہ دينا اور ايسا بنانے كا بنيادی مقصد امريكی اور مغربی طرز زندگی اور ايمان و عقيده كی ترويج کرنا۔
2۔ جديد آلات و وسائل كی پيش رفت كے ذريعے وه يہ پيغام بهی دے رہے ہیں كہ معيار زندگی كو بلند كرنے كے لئے انكی اتباع ضروری ہے۔
3۔ گلوبلائزيشن كا اقتصادی ہدف يہ ہے کہ دنيا كو ايک منڈی ميں تبديل كر ديا جائے، تاكہ اس پر فقط ايک ہی اقتصادی نظام حاكم ہو، كمزور اور ترقی پذير ممالک کی اقتصاد كو اپنی بڑی بڑی ملٹی نيشنل كمپنيوں كے ذريعے كنٹرول كيا جائے، وسيع پيمانے پر غير ملكی سرمايہ كاری کی جائے اور ان ممالک كے قدرتی ذخائر، گيس پٹرول اور پاور جنريشن كے ديگر وسائل پر قبضہ كيا جاسكے۔
4۔ اسكا ثقافتی ہدف اقوام عالم كی خصوصيات و اقدار كا خاتمہ ہے۔ گلوبلائزيشن كے ذريعے وه مختلف اقوام كی ثقافتی ميراث، عادات و تقاليد، فكر و عقيدہ كو فرسوده و خرافات سے تعبير كرتے ہیں اور مادی وسائل اور طاقت كے استعمال سے اقوام عالم كو اپنا غلام بناتے ہیں۔
5۔ دين و مذہب چونکہ انكے راستے ايک بڑی ركاوٹ بنتے ہیں، اس لئے دينی اقدار اور روح دين كو دينی عبادات و رسومات سے جدا كرنا انكا اہم ہدف ہے۔
گلوبلائزيشن كے مراحل:
كمیونیکیشن اور ميڈيا كے جديد ترين وسائل، انٹرنیٹ، فلم انڈسٹريز وغيره كے ذريعے دنيا كو تسخير كيا جا رہا ہے اور مختلف بين الاقوامی ادارے اور این جی اوز، ملٹی نيشنل كمپنياں مصروف عمل ہیں اور اس نطام كی ترويج كے لئے مختلف مراحل طے كئے گئے، جن میں کچھ یہ ہیں۔
1۔ مادی وسائل، انڈسٹريز اور جنگی اسلحہ وغيره كو پہلے مرحلہ ميں پوری دنيا ميں پھيلايا گيا۔
2۔ ماڈرن كلچر كی ترويج اور اقوام عالم كے رہن سہن كے اصول، انكے لباس و رہائش اور كهانے كے آداب و سليقہ كو دوسرے مرحلے پر تبديل كيا گيا۔
3۔ اخلاقی اقدار، ويليوز، طرز زندگی اور معاشرتی آداب كو تيسرے مرحلہ پر نشانہ بنايا گيا۔
4۔ چوتهے مرحلہ پر نظريات و عقائد اور عبادات كو نشانہ بنايا جاتا ہے، ان پر كڑی تنقيد كی جاتی ہے اور جو ان پر ايمان ركهتا ہے يا عمل كرتا ہے، اس كا مذاق اڑايا جاتا ہے۔
گلوبلائزيشن كے سلبی اثرات:
اس ميں كوئی شک نہیں كہ ميڈيا و كمیونکیشن كے وسائل كی فروانی سے لوگوں كے لئے بہت سہوليات پيدا ہوئی ہیں، فاصلے كم ہوئے اور كاموں ميں آسانياں پیدا ہوئی ہیں، ليكن ان وسائل كے غلط استعمال اور غلط وسائل كی فراوانی اور آسانی سے ان تک رسائی سے بہت سلبی اثرات مرتب ہوئے۔
* سماجی زندگی متاثر ہوئی، معاشرے سے اجتماعی روابط، تعلقات اور رشتے چھین لئے گئے اور اقوام كی قومی اور ثقافتی شناخت ختم ہوگئی۔
* ثروت مند ممالک اور زیادہ ثروت مند ہوگئے اور غريب و فقير ممالک کے فقر و غربت ميں اور ہی اضافہ ہوا۔
* امريکہ نے پوری دنيا کی اقتصاد كو اپنے كنٹرول ميں لے ليا۔
* بے روزگاری اور فقر و فاقہ ميں اضافہ ہوا اور متوسط طبقے كا خاتمہ ہوا۔ امير امير تر اور غريب غريب تر ہوگیا۔
* مختلف ممالک بحرانوں كی زد ميں آئے اور اندر سے كمزور و ناتواں اور كهوكهلے ہوگئے۔
* اخلاقی طور پر گری ہوئی بے مقصد فلموں اور پروگراموں كی ترويج سے جرائم اور فسادات ميں اضافہ ہوا۔
* زندگی كی مجبوريوں كے پيش نظر كمسن ليبرز كے رجحان ميں اضافہ ہوا۔
تحریر۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی