وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سالانہ مرکزی کنونشن کے دوسرے روز میڈیا کے نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بجائے لاٹھی گولی کا نظام چل رہا ہے۔ قومی اداروں کو ملک دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے پُرامن افراد کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔آئے روز ظلم و بربریت کے المناک واقعات کا رونما ہونامقتدر اداروں کا اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلقی کی دلیل ہے۔پانامہ لیکس نے حکمرانوں کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ساری قوم لوٹے ہوئے قومی خزانے کی واپسی چاہتی ہے۔انہوں نے کہا پانامہ کیس کے فیصلے کا ہر پاکستانی کو بے صبری سے انتظا رہے۔عدالت عالیہ عوام کو اس اضطراب سے نکالنے کے لیے پانامہ کیس کا فیصلہ سنائے تاکہ ساری دنیا کو حقیقت سے آگاہی ہو۔انہوں نے کہا کہ غیر مسلم ممالک میں معمولی سی بدعنوانی کی مرتکب حکومتی شخصیات پوری قوم سے معافی مانگنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتیں لیکن ہمارے ہاں ناقابل معافی جرائم پر بھی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو شرمناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کسی پراکسی وار کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ہم ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا ہو گا۔ افغانستان اور روس کے درمیان لڑی جانے والی لڑائی کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ ضیا الحق کے غیر مدبرانہ فیصلوں کے باعث ہماری ارض پاک پر منتقل ہو گئی جس کاخمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔انہوں نے کہا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔بھارتی بربریت پر اقوام عالم کی مسلسل خاموشی مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاری کے روایتی تعصب کی علامت ہے۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر موثر انداز میں عالمی فورمزپر اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ولی خان یونیورسٹی میں نوجوان طالب علم مشعال خان کے بیہمانہ قتل کو المناک سانحہ قرار دیتا ہوئے کہاہے کہ اس درندگی کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ کسی بھی ملک میں سزا دینے کامرحلہ جرم ثابت ہونے کے بعد آتا جس کا اختیار مخصوص حکومتی اداروں کو حاصل ہے۔کسی شخص کو کسی دوسرے کی زندگی چھین لینے کا قطعاََ حق حاصل نہیں۔قتل کے اس واقعہ میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر پُرامن لوگوں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے۔حکومت کے غیرآئینی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو سی ٹی ڈی کے ذریعے دبایا جا رہا ہے ۔حکومت قومی اداروں کو انتقامی کاروائیوں کے لیے استعمال کرنے سے باز رہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیا جائے۔مذہبی منافرت پھیلانے والی جماعتوں سے حکومت کا مفاہمانہ طرز عمل نیشنل ایکشن پلان کی نفی ہے۔حکومت کی یہ پالیسی دہشت گردوں کے حوصلوں کی تقویت کا باعث اور آپریشن رد الفساد کے راہ کی رکاوٹ ہے۔