وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین راولپنڈی ،اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’اسوہ زینب (س)تنظیمی و تربیتی ورکشاپ ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کہا کہ عورتیں مردوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ عورتیں اپنی ظرافت اور مدبرانہ صلاحیت کو استعمال کرکے معاشرے کو جیسے چاہیںچلاسکتی ہیں ۔ عملی طور پر بھی اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور فکری و عقلی دلائل سے بھی اسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جو عورتیں بے تدبیری کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں لیکن جو عورتیں مدبرانہ صلاحیت استعمال کرتی ہیں وہ خاندان کو رام کر لیتی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنی صلاحیتوں سے کسی شیر کو لگام ڈال لے اور اس پر سوار ہو جائے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جسمانی اعتبار سے شیر سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس شخص نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ عورتوں میں یہ توانائی موجود ہے، جسے وہ بروئے کار لائیں لیکن ظرافت و نزاکت کے ساتھ، اس نزاکت کے ساتھ جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا کہ صرف عورتوں کی جسمانی ساخت تک محدود نہیں بلکہ ان کی فکر و نظر اور فیصلہ کرنے اور سوچنے کے ان کے انداز میں اللہ تعالی نے ودیعت کر دی ہے۔ تو میری نظر میں کاموں کی بنیاد یہ ہونا چاہئے۔ اس نقطہ نگاہ اور طرز فکر کی تقویت کی جانی چاہئے اور اسے آگے لے جایا جانا چاہئے۔
ہمارے ملک کی خواتین کے مسائل میں جو چیزیں سب سے زیادہ اہم بلکہ یوں کہا جائے کہ سب سے زیادہ فوری اور توجہ طلب چیزیں ہیں۔ گھر اور خاندان کا مسئلہ ہے۔ گھر اور خاندان کی قدر و منزلت کو سمجھنا ضروری ہے۔ بغیر جائے سکونت اور پناہ گاہ کے کسی انسان کی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر انسان کو گھر اور گھریلو فضا کی حاجت ہوتی ہے۔ گھریلو فضا سے مراد ہے خاندانی ماحول، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف سطح پر عورت کو ستم اور زیادتی سے محفوظ رکھنا۔ ایسی عورتیں جو کمزور اور مظلوم ہیں، ایسی عورتیں ہیں جو ستم اور زیادتی کا سامنا کرتی ہیں، ان کی مظلومیت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے موثر قوانین کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے مناسب اخلاقیات اور ذہنیت کی ترویج ضروری ہے، مناسب آداب و رسوم کی ترویج لازمی ہے، تا کہ عورت مختلف سطحوں پر، معاشرتی سطح پر، جنسی سطح پر، خاندانی سطح پر، ثقافتی سطح پر اور فکری سطح پر ناانصافی اور زیادتی سے روبرو نہ ہو۔ یعنی انتہائی ذاتی مسائل جیسے جنسیاتی مسائل وغیرہ میں بھی اس کا احتمال ہے کہ عورت مظلوم واقع ہو۔ اسی طرح عمومی مسائل یعنی معاشرتی مسائل اور خاندانی مسائل میں بھی عورتوں پر ظلم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ شوہر کی نگاہ میں احترام، بچوں کی نظر میں احترام، باپ اور بھائی کی نطر میں احترام، ضروری ہے۔ اگر خاندان کے اندر عورت کو محترم سمجھا گیا اور اس کا احترام کیا گیا تو سماج کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ بچے ماں کے ہاتھ ضرور چومیں! اسلام یہ چاہتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ جن خاندانوں میں دینی اقدار، اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات کا زیادہ پاس و لحاظ کیا جاتا ہے، ان میں یہی ماحول ہے۔ گھر میں ماں کے لئے بچوں کے دل میں خاص احترام ہونا چاہئے۔ اس احترام سے بے تکلفی اور اپنائیت کا ماحول ختم نہیں ہوگا۔ مامتا اور لاڈ پیار کے ساتھ ہی یہ احترام بھی ہونا چاہئے۔ گھر کے اندر عورت کا احترام ہونا چاہئے۔ اس طرح اس کی مظلومیت دور ہوگی۔ فرض کیجئے کہ کسی خاندان میں، کسی گھر میں مرد اپنی زوجہ کی توہین کرتا ہے، مختلف انداز سے توہین کرتا ہے، توہین آمیز برتاؤ کرتا ہے، توہین آمیز انداز میں اس سے بات کرتا ہے، یا خدانخواستہ عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے، ہمارے ملک میں یہ رویہ عام ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ مغرب میں یہ چیز بہت زیادہ ہے، بہت کثرت سے نظر آتی ہے اور یہ توقع کے عین مطابق بھی ہے۔ مغرب والے، خاص طور پر یہ یورپی نسلیں، وحشی پنے کی عادی ہیں۔ ان کا ظاہری روپ بڑا صاف ستھرا ہے، پریس کئے ہوئے کپڑے، سلیقے سے لگی ہوئی ٹائی، کپڑوں سے اٹھتی ہوئی قیمتی پرفیوم کی مہک، یہ ظاہری شکل ہے لیکن ان کا باطن وحشی پنے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی گواہ ان کی تاریخ ہے اور یہ عادت ان کے اندر آج بھی موجود ہے۔ بڑی آسانی سے قتل کر دیتے ہیں، بڑے اطمینان سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہذا گھر کے اندر عورت کو زد و کوب کرنا یورپیوں کے لئے اور امریکیوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے میں اور اسلامی ماحول میں یہ چیز ہرگز نہیں ہونا چاہئے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ چیز ہمارے معاشروں آج عام ہے۔ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ عورت میں طاقت اور قدرت رکھی ہے ہے کہ وہ ان سارے مسائل کو حل کر سکتی ہے ۔ اپنے مثبت برتائو سے اپنی مدبرانہ صلاحیتوں سے ۔ اپنی اولاد کی تربیت کر کے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ خواتین اپنے مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر معاشرے میں وہ کچھ کردار ادا کرسکتی ہیں جو اکیلے مرد انجام نہیں دے سکتے ۔ آپ نے ظلم کے خلاف خاموش نہیں رہنا ۔ اپنے آپ ،اپنی اولاد اور اپنے خاندان کو ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس آپ نے دینا ہے ۔ درحقیقت آپ نے اپنے خاندان کو ہمت دلانی ہے کہ ہم سب حضرت ثانی زہراء (س) کی پیرو کار ہیں ۔ اور کردار زینبی (س) میں سب سے پہلی چیز ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہے اور خوف نہیں کھانا ۔ ہماری خواتین کو کردار زینبی اپنا کر باقی خواتین کے لئے رول ماڈل بننا چاہیئے۔ اگر خاندان یا قریبی دوست خواتین میں سے کوئی بھی آپ کو بے پردگی کی جانب جانے کا کہے توآپ ڈٹ جائیں۔ عزاداری سیدالشہداء کی مجالس ہوں یا معاشرے کے عمومی پروگرام آپ حجاب پہن کر جائیں اور دوسروں کے لئے رول ماڈل بنیں ۔ یہی آپ کا جہاد ہے ۔ اسی حجاب اسلامی میں رہتے ہوئے آپ نے گھریلو، تنظیمی کام سر انجام دینے ہیں ۔الحمدللہ کراچی میںہمارا شعبہ خواتین بہت فعال ہےمجھے امید ہے راولپنڈی اسلام میں بھی بہت جلد فعال ہو کر خواہران کے لئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کو یقینی بنائیں گی ۔ آپ کے لئے مرکزی آفس موجود ہے ۔ آپ اپنی کاوش کو جاری رکھیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین ۔
شعبہ خواتین کی اس تنظیمی و تربیتی ورکشاپ سے برادر ناصر شیرازی مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان ، حجۃ الاسلام والمسلمین آغا اقبال حسین بہشتی صوبائی سیکرٹری جنرل صوبہ خیبر پختونخواہ اور حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد یونس مرکزی سیکریٹری تربیت نے بھی خطاب کیا ۔