وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی کی متنازعہ فرقہ وارانہ بل کو منظور کروانے کی کوشش کے خلاف دیگر مرکزی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس،پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خوبصورت ناموں کے ساتھ متنازعہ بل پاس کرنے کی کوششں کی جا رہی ہیں، اپنے عنوان کے برعکس اس کا مواد انتہائی متنازعہ ہے اور شدت پسندانہ سوچ پر مبنی ہے، بائیس ارکان اسمبلی کے ساتھ ایک حساس ترین بل کو قومی اسمبلی میں چور رستے سے پاس کیا گیا، اب ایک مرتبہ پھر اسی متنازعہ فرقہ ورانہ بل کو ایوانِ بالا سے منظور کروانے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے، اس بل میں سزاؤں کو بڑھا کر عمر قید میں بدلا گیا ہے، ہم تمام مسالک فکر کے مقدسات کی توہین کو حرام سمجھتے ہیِں، اس میں توہین اور اختلاف کی کوئی تعریف نہیں کی گئی، تاریخی حقائق کو بیان کرنا کیا توہین کے زمرے میں آتا ہے، اس بل کی منظوری سے توہین توہین کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی، یہ متنازعہ ترمیمی ایکٹ ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مجموعی فضاء کو زیر آلود کرنے کا باعث بنے گا، جسے متشدد سوچ والے گروہ اور عناصر، معصوم لوگوں پر بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کے طور پر ناجائز استعمال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر پاکستانی شہری اپنے عقیدے کی ترویج میں آزاد ہے، آئین کہتا ہے کہ کسی پر بھی اس کے مسلک یا مذہب کے عقائد کے برخلاف زبردستی تعلیمات لاگو نہیں کی جا سکتیں، جب بل کی بنیاد ہی اسلامی معاملات سے متعلق ہے تو اسے مذہبی اسٹک ہولڈرز کے ساتھ ڈسکس ہونا چاہئے تھا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور ملی یکجہتی کونسل جیسے مذہبی اداروں کو بھی اس پر غور وفکر کا موقع نہیں دیا گیا، یہ سب قائد اعظم رح اور علامہ محمد اقبال رح کے مسلم پاکستان کی تصویر کو مسخ کرنے کے مترادف ہے، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہم اس ترمیمی بل کو خاموشی سے پاس کروانا چاہتے تھے، اس بل کے نتیجے میں نیا انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ہم اس مسلکی اور متنازعہ بل کو چور رستے سے پیش کیئے جانے کو یکسر مسترد کرتے ہیں، سینٹ اور قومی اسمبلی جیسے اداروں کا مسلکی انتشار کے لئے استعمال بند ہونا چاہیے، اس حساس ترین ایشو کے حوالے سے ہم اپنے آئینی و قانونی احتجاج کے تمام آپشنز محفوظ رکھتے ہیں۔