وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے بازیابی کے بعد’’ روزنامہ جنگ لاہور‘‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا جرم جبری لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانا تھا، میں پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا اور اس ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتا تھا، اس لیے مجھے غیر قانونی طریقے سے اٹھا کر اذیت ناک جگہ رکھا گیا، 31دن سورج نہیں دیکھا، اگر میں اس ملک کے مفادات کے خلاف کوئی کام کررہاتھا تو میرا اوپن ٹرائل کیوں نہیں کیا گیا، جس ادارے نے مجھے اٹھایا اس نے یہ الزامات آج تک کسی بھی فورم پر کیوں پیش نہیں کیئے، مجھے 31دن غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا گیا، اس دوران تین بار میری جگہ تبدیل کی گئ، مجھے لاہورکے ایک گنجان آباد علاقے سے میرے معصوم بچوں کے سامنے اٹھایا گیا، انہوں نے کہا کہ اس دوران میرے چہرے پر ماسک چڑھادیا گیااور دو بار گاڑیاں تندیل کرکے مجھے تین گھنٹے بعد ایک نا معلوم مقام پر ٹھہرایا گیا، آخری بار جہاں سے میری رہائی کے احکامات آئے میں فیصل آباد کے کسی حراستی مرکز میں تھا ، انہوں نے کہاکہ مجھے حراست میں لینے سے میری رہائی تک میرے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ہی رہا، نقاب اتارنے کی کوشش کرتا تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا، جس جگہ مجھے رکھا گیاوہاں دو، دو سال سے لوگوں کو رکھا ہواہے، میں ادارے کی ہی تحویل میں تھا، انہوں نے کہا کہ جس طرح مجھے اٹھایا گیا اس سے تو لگتا ہے کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہے، مجھ سمیت جن افراد کو وہاں رکھا گیا تھا اس کے ساتھ انسانوں سے بدتر سلوک ہوتا تھا اور مجھے ایک تفتیشی کمرے میں لے جاکرکسی آفیسر کے سامنے بٹھادیا جاتااور کہاجاتا کہ صاحب جو پوچھے اس کا درست جواب دوجس کے بعد مجھ سے پوچھا جاتا کہ میرے کیا سیاسی مقاصداور اہداف ہیں، میں کن کن لوگوں سے ملتا ہوں ، میری جماعت آگے کیا کرنا چاہتی ہے اور میں ہیومن رائٹس اور خصوصاًلاپتہ افراد کیلئے کیوں اور کس کے کہنے پر آواز اٹھاتا ہوں ، ناصرشیرازی نے بتایا کہ مجھے چھوڑنے سے پہلے مجھے یہ پیغام بھی دیاگیا کہ اگر میں آوازاٹھائی یا اپنی گمشدگی پر شور شرابا کیا تو نہ صرف دوبارہ اٹھالیا جائے گا بلکہ آئندہ جو سلوک کیا جائے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
http://e.jang.com.pk/12-04-2017/lahore/pic.asp?picname=171.png