وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ منیٰ انتہائی درد ناک واقعہ ہے جس نے عالم اسلام کو سوگ میں مبتلا کر دیا ہے۔ابھی تک ہزاروں لاپتا افراد کے اہل خانہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔انہیں مصدقہ اطلاعات کہیں سے بھی حاصل نہیں ہو رہی۔ہمارے جید عالم دین علامہ غلام محمد فخر الدین ابھی تک لاپتا ہیں۔ اس سانحہ کی شفاف اورغیر جانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے۔حجاج کرام کے جان ومال کا تحفظ سعودی حکومت کی قانونی ذمہ داری تھی۔اطلاعات کے مطابق بیشتر زخمی پیاس کی شدت میں پانی نہ ملنے سے شہید ہوگئے جوسعودی حکومت کی بے حسی کو واضح کرتا ہے۔شہدا کے اجساد کے ساتھ بے حرمتی کے مناظر عالمی میڈیا نے بھی دکھائے۔ ہزاروں لاشیں کنٹینرز میں ابھی تک پڑی ہوئی ہیں۔اس وحشیانہ سلوک پر امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے۔یمن ،شام اور بحرین میں سعودی مداخلت نے اس کی توجہ کو تقسیم کیا ہوا ہے۔یہی انتظامی غفلت سانحہ منیٰ کا باعث بنی۔ سعودی حکومت کے اس ناروا رویہ کی یقینی جواب طلبی ہونی چاہیے۔پاکستانی حکومت نے اس سانحہ پر ردعمل کی بجائے معذرت خوانہ طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔کسی بھی پلیٹ فارم پرہماری وزارت خارجہ نے سعودی حکومت کی ناراضگی کے ڈر سے اپنے گمشدہ افراد کے لیے آواز بلند نہیں کی۔وزارت خارجہ کو فوری طور پر ٹیمیں تشکیل دینی چاہیے تھیں جواپنے گمشدہ شہریوں کے کوائف اور دیگر معلومات کو فورا اکھٹا کر کے ان کے خاندانوں کو ان سے آگاہ کرتیں۔
بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے ۔اسلامی اقدار کی پاسداری کو یقینی بنایا جانا چاہیے لیکن یہاں کی نا اہل بیورو کریسی کا ہر حکم اسلامی روایات کے برعکس ہے۔صوبہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا شیڈول محرم میں جاری کیا گیا جس سے ملت تشیع کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ہم اس پرالیکشن کمیشن سے شدید احتجاج کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس انتخابی شیڈول کو تبدیل کیا جائے۔وزارت خارجہ کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے علامہ ناصر نے کہا یمن کے خلاف فوج نہ بھیج کر ہماری حکومت نے عاقلانہ فیصلہ کیا اور ہم اُس انسداد دہشت گردی کے عالمی بلاک کا حصہ بن گئے جس میں رشیا، چین ،ایران اور عراق شامل تھے جبکہ انڈیا کا جھکاو دہشت گردبلاک کی طرف رہا۔ ایسی صورتحال میں اگر خارجی معاملات میں دانشمندانہ طرز عمل اختیار کیا جاتا تو ہندوستان کو عالمی سطح پرآسانی سے تنہا کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہماری خارجہ پالیسی انتہائی ناقص اور مبہم رہی۔امریکہ سمیت تمام اسلام دشمن طاقتیں مضبوط پاکستان سے خائف ہیں۔بہترین خارجہ پالیسی پاکستان کو مضبوط بنانے میں غیر معمولی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضرب عضب کو سیاسی حکومت کی بھرپور تائید حاصل ہونی چاہیے تھی تاکہ دہشت گرد تنہا ہو جاتے ۔سیاسی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کا سہار لے کر ان افراد کے خلاف کاروائیاں شروع کر دیں جو خود دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دورد و سلام پڑھنے اور مسجد کے اوپر چار سپیکر لگانے والوں کو فورتھ شیڈول اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ریاستی سطح پر ہمیں پنجاب اور گلگت بلتستان میں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آئینی و قانونی حق کے استعمال پر غداری کے مقدمات قائم کرنا ریاستی جبر ہے۔ جو ناقابل قبول ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر عزاداری پر ہمیں کوئی قدغن قبول نہیں ۔اگر ایسا ہوا تو ہم باقاعدی مزاحمت کریں گے۔پنجاب حکومت کی شیعہ دشمنی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہمارے فوت شدہ علما پر بھی پابندی کے احکام جاری کیے جار ہے ہیں ۔