وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ مبشر حسن شہیدی نے کہا ہے کہ راولپنڈی امام بارگاہ میں خودکش دھماکہ سانحہ پشاور کا ہی تسلسل تھا، راولپنڈی امام بارگاہ میں دھماکہ کر کے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والے مدارس ہی کی پیداوار ہیں، یہ سیکولر یا لبرل لوگ نہیں ہیں بلکہ مذہبی شناخت رکھتے ہیں،یہ پاکستان میں موجود بعض مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے تکفیری ہیں، کوئی لاکھ کوشش کرے ، ان کے تعلیمی بیک گراؤنڈ پر نقاب نہیں ڈالی جاسکتی، جس جس نے بھی طالبان اور ان کے اتحادی کالعدم دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی، ان سب کو ان گروہوں کے بدنام زمانہ دہشت گردوں کی طرح مشتہر کرکے گرفتار کیا جائے اور انہیں بھی ان کی معاونت کرنے کے جرم میں پھانسی دی جائے، کراچی شہر میں سال 2015ء کے پہلے ہفتے میں 5شیعہ مسلمان شہید کئے جاچکے ہیں،یہ دہشت گرد آج بھی آزاد ہیں اور شہداء کے ور ثاء کو ملک بھر میں دھمکیاں دیتے ہیں کہ قاتلوں سے صلح کرلو ، انہیں معاف کردو ورنہ تمہیں بھی قتل کردیا جائے گا، سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پاکستا ن کی نظریاتی جنگ لڑنا ہے، جو بھی سیاست یا مذہب کی آڑ میں تکفیری نظریہ کو پروان چڑھاتا ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا دشمن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے پاک محرم ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ آئی ایس او کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری غیور عباس عابدی،مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں علامہ علی انور جعفری، علامہ احسان دانش، علامہ صادق جعفری اور ناصر حسینی بھی موجود تھے۔
علامہ مبشر حسن شہیدی نے کہا کہ کل شب سرور کائنات حضور پرنور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص)کے عاشقوں کو عید میلاد النبی (ص) کا جشن منانے کی سزا دی گئی۔ آٹھ مسلمان صرف اس جرم میں شہید کردیئے گئے کہ انہوں نے عالم اسلام کی ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کی سب سے بڑی عید منائی۔ہمیں فخر ہے کہ ان عظیم شہداء کا تعلق مکتب آل محمد ؑ سے ہے،جس طرح علی رضا تقوی نے ناموس رسالت پر جان قربان کی ، آج پھر شمع رسالت( ص )کے پروانوں نے دیوانہ وار جام شہادت نوش کیا ہے، یہ فضیلت اپنی جگہ لیکن اس سے کوئی قاتل دہشت گردوں کی مذمت کرنے سے غافل نہ ہو، ہم اس عظیم عید پر حملہ آور تکفیری دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں خواہ ان کا نام طالبان ہو یا بدل کر جماعت الاحرار رکھ دیا جائے،نام بدلنے سے یہ اپنے سیاہ چہروں اور انسانیت دشمن اعمال کو چھپا نہیں سکتے۔
علامہ مبشر حسن شہیدی نے کہا کہ پاکستان کے ان غیرت مند فرزندوں پر سلام کہ جو اسلام اور پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑ تے ہوئے شہید ہورہے ہیں،ان شہداء نے بھی سانحہ پشاور کے معصوم شہید بچوں کی طرح قاتلوں کی اسلام دشمنی سے نقاب ہٹادی ہے،یہ سانحہ پشاور کا ہی تسلسل تھا، چٹیاں ہٹیاں عون رضوی امام بارگاہ میں بم دھماکہ کرنے والے دہشت گردوں نے خود ہی ذمہ داری قبول کرکے اپنا اور اپنے مکتب کا تعلق بیان کردیا ہے،یہ لوگ مدارس ہی کی پیداوار ہیں، یہ سیکولر یا لبرل لوگ نہیں ہیں،یہ پاکستان میں موجود بعض مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے تکفیری ہیں، کوئی لاکھ کوشش کرے ، ان کے تعلیمی بیک گراؤنڈ پر نقاب نہیں ڈالی جاسکتی۔مدارس سے وابستہ بعض مولویوں نے ہی ان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات بھی کئے ۔مدارس سے وابستہ اہم اور نامور شخصیات ہی ان تکفیریوں کی پشت پناہی میں پیش پیش نظر آیا کرتے تھے۔پاکستانیوں کی یادداشت میں ابھی وہ مناظر موجود ہیں۔
علامہ مبشر حسن شہیدی کا کہنا تھا کہ علامہ حسن ترابی کو شہید کرنے والا قاتل دہشت گرد بھی کراچی کے ایک مدرسے کا طالبعلم تھا۔میاں چنوں میں ایک مدرسے کے اندر دھماکہ خیر مواد دھماکے سے پھٹ گیا تھا تو پاکستانیوں کو معلوم ہوا تھا کہ مدارس دہشت گردی کے لئے اسلحہ اور ایمونیشن چھپانے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔پچھلے سال اپریل میں ایک انگریزی اخبار نے رپورٹ شایع کی کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بعض مدارس دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہیں اور ان میں دو مولویوں کے اور ان کے مدارس کے نام بھی شایع کئے گئے تھے۔بعض مدارس کا دہشت گردی میں ملوث ہونا کب تک چھپایا جاتا رہے گا؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے تمام مدارس اور مساجد جو مسجد ضرار کی طرح دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہیں ، ان کے خلاف بلا تاخیر کارروائی کا آغاز کیا جائے اور ایسے مدارس اور مساجد کا دفاع کرنے والے مولوی نما حضرات کو بھی تحفظ پاکستان ایکٹ اور دیگر قوانین کے مطابق پکڑ کر مقدمہ چلائیں ۔جس جس نے بھی طالبان اور ان کے اتحادی کالعدم دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی، ان سب کو ان گروہوں کے بدنام زمانہ دہشت گردوں کی طرح مشتہر کرکے گرفتار کیا جائے اور انہیں بھی ان کی معاونت کرنے کے جرم میں پھانسی دی جائے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں سرعام سزائے موت دی جائے۔
علامہ مبشر حسن شہیدی نے مزید کہا کہ مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں، اس کا اعتراف تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی علی الاعلان کرچکے ہیں۔چٹیاں ہٹیاں امام بارگاہ میں عاشقان رسول اعظم (ص) کے اجتماع کو بم کا نشانہ بنانا کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ ملک بھر اور خاص طور کراچی میں جاری شیعہ نسل کشی کا تسلسل ہی ہے۔ کراچی شہر میں سال 2015ع کے پہلے ہفتے میں 5شیعہ مسلمان شہید کئے جاچکے ہیں۔انہیں تکفیری دہشت گردوں نے ہدف بنا کر قتل کیا ہے۔یہ دہشت گرد آج بھی آزاد ہیں اور شہداء کے ور ثاء کو ملک بھر میں دھمکیاں دیتے ہیں کہ قاتلوں سے صلح کرلو ، انہیں معاف کردو ورنہ تمہیں بھی قتل کردیا جائے گا۔چٹیاں ہٹیاں امام بارگاہ پر دہشت گرد حملے سے قبل اسی نوعیت کی دھمکیاں د ی گئی تھیں۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے ہر فرد کو سزائے موت دی جائے اور ان پر اسلامی و پاکستانی قوانین کا اطلاق کیا جائے۔ ان سے قصاص لیا جائے اور اس راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کی جائے۔
علامہ مبشر حسن شہیدی کا کہنا تھا کہ ہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مالکان اور ذمے داران سے ، اے پی این ایس، سی پی این ای، پیمرا سمیت سارے متعلقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کالعدم دہشت گرد گروہوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو بے نقاب کریں ، ان کی میڈیا پروجیکشن نہ کریں۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کے موقف کو اس طرح پیش کریں کہ قوم کے سامنے ان کے کالے کرتوت آشکارہوں نہ کہ انہیں ہیرو بناکر پیش کیا جائے۔ان دونوں چیزوں میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر دہشت گرد خود کو مسلمان اور اپنے مخالفین کو کافر یا اسلام دشمن کہتے ہیں تو ہرگز ان کا باطل موقف پیش نہ کیا جائے بلکہ دنیا کو بتایا جائے کہ یہ اسلام کے دشمن انسانیت کے دشمن دہشت گردوں کا موقف ہے۔اگر ذرائع ابلاغ نے دہشت گردوں کی میڈیا پروجیکشن کی تو پھر اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد وہ بھی دہشت گردوں کی اعانت کرنے والوں میں شمار کئے جاسکتے ہیں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ امید ہے کہ صحافت کی آزادی کا درست استعمال کیا جائے گا اور اسے تکفیری دہشت گردوں کی اسلام دشمنی اور انسانیت دشمنی کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
علامہ مبشر حسن شہیدی نے کہا کہ ہم پاکستان کے سارے سیاستدانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوج عسکری محاذ پر جنگ لڑنے میں مصروف ہے اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پاکستا ن کی نظریاتی جنگ لڑنا ہے۔جو بھی سیاست یا مذہب کی آڑ میں تکفیری نظریہ کو پروان چڑھاتا ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا دشمن ہے۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام اس نظریاتی جنگ میں سیاسی قیادت کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ ہیں اور قومی سیاسی قیادت کو اب اس جنگ کو کھل کر اونر شپ دینا ہوگی۔نظریاتی محاذ پر دہشت گردوں سے لڑے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ذرائع ابلاغ بھی اس نظریاتی جنگ کی فرنٹ لائن پر مورچہ زن ہو۔اسلام اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں، انسانیت کے دفاع میں ہمیں پاکستان کے دفاع کی نظریاتی جنگ لڑنا ہوگی اور وقت آگیا ہے کہ ہم اس نظریاتی اور تبلیغاتی جنگ میں اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔