وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ احمد علی نوری و دیگر رہنماوں نے پریس کلب اسکردو میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز پاکستان کو تمام مکاتب فکر بلخصوص اہلسنت اور اہل تشیع نے ملکر حاصل کیا تاکہ تمام مسالک اپنی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست ہو جہاں کے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم ہوں۔ تکفیری عناصر کی مخالفت کے باوجود ایک طویل جدوجہد کے بعد قائداعظم محمد علی جناح اور برصغیر کے مسلمانان وطن عزیز کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نوزائدہ ملک ابتداء سے ہی طرح طرح کی اندرونی و بیرونی مشکلا ت کا شکار رہے۔ بانی پاکستان کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد ملک نئی بحرانوں میں داخل ہوگئے۔ آئین سازی، مہاجرین کی آمد، اداروں کی تشکیل، مالیاتی مسائل اور عالمی طاقتوں کی مداخلت کے سبب ملک شدید مسائل میں گھیرے ہوئے تھے۔ ایسے میں ریاستی اداروں کی ناقص اور کمزور خارجہ پالیسی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت کے سبب ہمسایہ ممالک کو چھوڑ کر سات سمندر پار امریکہ سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جو کہ ایک سنگین غلطی تھی۔ دوسری جانب ملکی سیاسی جماعتوں کی من مانی، ملک دشمن پالیسی، دشمن ملک بھارت کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی سازشوں اور ملک دشمن پالیسیوں کے سبب ملک کے دوحصے ہوگئے۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ سن اسی کی دہائی میں امریکہ کی نیابتی جنگ میں پاکستان کو قربانی کا بکرا بناکر افغانستان میں دھکیل دیا گیا۔ اس وطن کے بیٹوں نے اس وقت بھی اس ناپاک جنگ کی مخالفت کی۔ اس جنگ میں امریکہ کی خوشنودی کی خاطر ریاستی حساس اداروں تک جہادیوں اور تکفیری سوچ رکھنے والوں کو رسائی دی گئی، انہیں ہیرو بنا کے پیش کیا گیا۔ ضیاءالحق کی فرقہ وارانہ سوچ اور ملک دشمن پالیسی کا بویا ہوا وہی بیج آج تناور درخت کی صورت میں دہشتگردی کا پھل دے رہا رہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ان دہشتگرد جماعتوں نے ملک کو لہو لہان کر دیا ہے اور انکے ہاتھوں آرمی، پولیس، حساس ادارے، ریاستی ادارے، تعلیمی ادارے، عبادت گاہیں غرض کچھ بھی محفوظ نہیں۔ اب تک اسی ہزار قیمتی جانیں دہشتگردی کی نذر ہو چکی ہیں۔ اس فتنے کے خلاف جاری تمام آپریشن کی حمایت سب سے بڑھ کر ملت جعفریہ نے کی اور دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کی اخلاقی پشت پناہی اب تک جاری رکھا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم اب تک پچیس ہزا ر کے قریب جنازے اٹھا چکے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف سب سے زیادہ قیام کرنے والی ملت کو نہ صرف دیوار سے لگانے کی کوشش ہو رہی ہے بلکہ اداروں میں موجود مشکوک افراد دہشتگردی کے خلاف تحریک چلانے پر ہم سے انتقام بھی لے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور موجودہ پنجاب و جی بی کی حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی ذمہ داری قبول کرنے والے احسان اللہ احسان کو تو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن دہشتگردی کے خلاف پورے وجود کے ساتھ وطن عزیز کی حفاظت میں کھڑے ہونے والے وطن کے بیٹوں کو دہشتگردوں کی ایماء پر اغوا کیا جا رہا ہے۔ ہم ریاستی اداروں سے ٹکراو کے خواہاں ہیں اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ آئین و قانون پامال ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے سیاسی جماعتوں بلخصوص نون لیگ کا آلہ کار بن کر اس ملک کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آئین پاکستان کی بالادستی ہو۔ ایک سیاسی و مذہبی جماعت کے معروف رہنماء ناصر عباس شیرازی کا ماورائے آئین و قانون اغوا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ پنجاب حکومت اپنے آپ کو ریاست سمجھ رہی ہے۔ مودی کی کاروباری شراکت دار حکومت اور ملکی دولت کو لوٹنے والی حکومت اوچھے ہتھکنڈے پر اتر آئی ہے۔ نون لیگ کے وزیر قانون نے دہشتگردوں کی ایماء پر ناصر شیرازی کو اغوا کیا ہے جو کہ آپریشن ردالفساد پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں نے کہا کہ مذہبی سیاسی جماعت کے رہنماء کا اغواء مسلم لیگ نون کی کارستانی ہے۔ اگر پنجاب حکومت ناصر شیرازی کے اغواء میں ملوث نہیں ہے تو ان کی جبری گمشدگی ظاہر کرتی ہے کہ پورے صوبے میں انکی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کی ہمنواء حکومت کو معزول کر کے ایسی حکومت سامنے لائی جائے، جس میں شہریوں کی جان مال عزت و آبرو کا تحفظ یقینی ہو۔ اگر حکومت پنجاب اپنی حرکت سے باز نہیں آتی تو حکومت گراو تحریک چلانے پر مجبور ہو کر تخت لاہور کی طرف روانہ ہونگے۔ ناصر شیرازی جیسی محب وطن، اتحاد بین المسلمین کی داعی، پاکستان کی نظریاتی و فکری سرحدوں کی محافظ شخصیت کو اغواء کر کے حکومت چاہتی ہے کہ ملک کے امن و امان کی صورتحال خراب ہو اور ملت جعفریہ کا تصادم ریاستی اداروں کے ساتھ ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ ناصر شیرازی اس وقت کہاں ہے، حساس اداروں کو معلوم ہے کیونکہ ریاست کے حساس ادارے دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک اہم شخصیت موبائل فون سمیت لاہور کی معروف شاہراہ سے اٹھائی جاتی ہے اور انکو مخفی رکھنے والی جگہوں کا علم نہ ہو ممکن نہیں۔ اگر انہیں معلوم نہ ہو تو یہ خود حساس اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سالمیت کے لیے بھی انتہائی تشویشناک ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں مجلس وحدت جی بی کے رہنماوں نے کہا کہ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے والے، دہشتگردوں کی اخلاقی و مالی پشت پناہی کرنے والے، ملک کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچانے، ریاستی اداروں کو کمزور کرنے والے مجرمین یا تو ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا ریاستی پروٹول کے اندر گھوم رہے ہیں۔ جبکہ وطن عزیز کے مفادات پر اپنے مفادات کو قربان کرنے والے، دہشتگردی کی ہر صورت کی مخالفت کرنے والے، مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے اس وطن کے حقیقی بیٹوں کو یا تو ٹارگٹ کلکنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا دہشتگردوں کی ہمنوا جماعتوں کے ذریعے اغواء کیا جاتا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مزید یہ کہ عدالت عالیہ بار بار اصرار کے باوجود عدالت کے حکم کو پس پشت ڈال کر مغوی کو عدالت میں پیش نہ کرنا ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی مذموم سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان آرمی کے سربراہ اور عدالت عظمیٰ کے سربراہ سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ناصر شیرازی سمیت دیگر جبری گمشدگان کے معاملے پر فوری نوٹس لیتے ہوئے انہیں بازیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کریں، نیز ریاست میں افراتفری پھیلانے والی مودی کے کاروباری شراکت دار کا گھیرا تنگ کریں۔ نیز پاکستان کی ایک محب وطن ملت کو دیوار سے لگانے کی مذموم سازش کو ناکام بنا کر تمام مکاتب فکر کو انکی تعلیمات کے مطابق آزادانہ زندگی گزرانے کا موقع فراہم کر کے انسانی بنیادی حقوق کو یقینی بنائیں اور ریاستی اداروں کو اپنی حکومت کے لیے استعمال کرنے والی طاقتوں کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے ناصر عباس شیرازی کی ماورائے آئین گرفتاری کے حلاف باقاعدہ تحریک کا اعلان کرتے ہیں اس سلسلے میں مرکزی فیصلے کے مطابق راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے گلگت بلتستان میں ناجائز ٹیکس کے نفاذ کے خلاف جاری تحریکوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ جی بی میں ہر قسم کا ٹیکس غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ آئینی حقوق کے بغیر ٹیکس کا نفاذ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی علاقہ دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ ہم ٹیکس کے نفاذ کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کو حصہ دیا جائے اور یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں سیاسی انتقام کا سلسلہ ختم کیا جائے اور شیخ نیئر عباس مصطفوی کو رہا کیا جائے۔ جی بی میں خالصہ سرکار کے نام پر عوامی زمینوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
پریس کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم جی بی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ احمد نوری، ڈویژنل صدر آئی ایس او بلتستان سعید شگری، ایم ڈبلیو ایم کھرمنگ کے سربراہ شیخ اکبر رجائی، شیخ یعقوب، ایم ڈبلیو ایم شگر کے رہنماء شیخ ضامن مقدسی، شیخ کاظم ذاکری، ایم ڈبلیو ایم روندو کے رہنما شیخ صادق، ایم ڈبلیو ایم ضلع اسکردو کے سربراہ شیخ ذیشان، شیخ مبارک، وزیر سلیم، فدا علی شگری، شیخ علی محمد کریمی، شیخ عابدی، فدا حسین سمیت دیگر رہنماء موجود تھے۔