وحدت نیوز(سکردو)جامشورو حادثے نے گلگت بلتستان کی فضا کو سوگوار کر دیا اور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس افسوسناک سانحے کو دو دن سے زیادہ گزرنے کے باوجود سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداوں کی سرد مہری سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کی سرزمین اہلبیت کے پیروکاروں کے لیے عرصہ دراز سے مقتل گاہ بنی ہوئی ہے۔
شہید حسن ترابی ہو یا شہید خادم حسین الغروی، کشمراہ کے فرزند شہید عارف حسین، شہید نبی گیول رنگاہ ہو یا سانحہ عباس ٹاون کے شہید عامر و دیگر، کراچی ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے کواردو کے دو بھائی شہید نذیر ہو یا بشیر ،اسی طرح ملت جعفریہ کے قابل فخر عالم دین علامہ جلبانی ہو یاخرم زکی، علی رضا عابدی ہو یاعلی رضا تقوی، سبط جعفر رضوی یا شہیدآفتاب جعفری ان سمیت دیگر ہزاروں شہدا کے قاتلوں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ کراچی وادی حسین شہدا سے بھرے پڑے ہیں۔ ان سب کے ذمہ دار یہاں کی حکومتیں ہیں۔ سانحہ جامشورو میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ خاموشی انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ سندھ حکومت بھی اس المناک سانحے پر چپ سادھ بیٹھی ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ مجرموں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے اور ایف آئی آر بھی فرمایشی دفعات کے ساتھ بنائی جا رہی ہے۔ تھانہ اور پولیس کی قاتلوں کے ساتھ گھٹ جوڑ کے تانے بانے مل رہے ہیں۔ لہذا جیوڈیشل انکوائری کے ذریعے سے سانحے کے حقائق تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس سانحے میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے تمام افراد نہ صرف قیمتی تھی بلکہ زین ترابی، آغا جان رضوی اور علی کاظم کو جانی خطرہ بھی لاحق تھا۔
وزیراعلی' سندھ اور سندھ حکومت نے اس سانحے پر جس طرح چشم پوشی کی وہ افسوسناک ہیں۔ایک طرف اس سانحے میں چار جانوں کا چلے جانا اور دوسری طرف خراش تک نہ آنا بہت سارے سوالوں کے جوابات کے لیے کافی ہے۔
شہدا کی میتوں کی کراچی سے روانگی ہو یا لواحقین کی حوصلہ افزائی ہر دو عمل سندھ کی حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ ہم بحیثت گلگت بلتستان کے باسی بھی اور بحیثیت مکتب اہلبیت کے پیروکار کے مقتدر حلقوں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے قاتلوں کو سزا دیں۔ سندھ کی سرزمین ہو یا کرم کی سرزمین، کوئٹہ ہو یا گلگت بلتستان ہمیں جینے کا حق دیں۔