ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی تفصیلی رپورٹ

27 June 2013

00 mwm gilgit apcوحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے تحت مقامی ہوٹل میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بعنوان ’’ دہشت گردی کی موجودہ لہر اور گلگت بلتستان کا مستقبل ‘‘ کیا گیا۔ کانفرنس میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، آل پارٹی مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، مجلس وحدت مسلمین، تحریک اسلامی شیعہ علماء کونسل، پریس کلب، امامیہ مسجد بورڈ، اہل سنت مسجد بورڈ، نپورہ امن جرگہ، بالاورستان نیشنل فرنٹ، جماعت اسلامی پاکستان و دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں علامہ اعجاز حسین بہشتی، علامہ شیخ بلال سمائری سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ابتدائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل علامہ نیئر عباس مصطفوی نے کہا کہ تمام شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہیں اور شکر گزار ہیں۔ بحیثیت مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے ہمیں مل کر کوشش کرنی ہے کہ عالمی استکبار ہمیں جس طرف دھکیلنا چاہتا ہے کہ یہ جنت نظیر علاقہ بد امنی کا شکار ہو جائے ہمیں اس کے لیئے کوئی لائحہ عمل بنانا ہے۔ آپ کی رائے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔پاکستان کو بچانے کے لیے ہم تمام لوگوں کو مل کر قرآن کا سینے سے لگا کر اور مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرنا ہو گا اور سیرت پیغمبر اسلام کو سامنے رکھتے ہوئے اور نمونہ بناتے ہوئے اس وادی کو دہشت گردی سے بچانا ہوگا ۔


بالاورستان نیشنل فرنٹ کے صفدر حسیننے کہا کہ ایسے نازک موڑ پر اے پی سی کے انعقاد پر ہم مجلس وحدت کو مبارک پیش کرتے ہیں۔ موجودہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار خیبر پختونخواہ ہے اور ہم جغرافیائی طور پر ان سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے ہم بھی متاثر ہو رہے۔ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی فرقہ واریت کی ہمیں نشاندہی کرنی پڑے گی ۔2800ایجنسیز کی افراد بقول سی ایم موجود ہیں جو کہ بد امنی پیدا کرتے ہیں امن نہیں کرتے ۔ ہمیں منافقت چھوڑنی پرے گی ۔ ان یہاں عالمی سازشیں شروع ہو چکی ہیں۔ اب ریاستی اداروں کے ساتھ بین الاقوامی ادارے بھی شامل ہو چکے ہیں۔


مسلم لیگ ن کے حافظ حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت نے ہمیشہ گلگت میں امن کے لئے موثر کردار ادا کیا ہے ہم اس پر بھی شکر گزار ہیں، دہشت گردی میں اضافی کی وجہ سے مقامی خامیاں اور وفاقی اور ادارہ جاتی خامیاں ہیں۔ 1974سے کو سازشیں شروع ہوئی ہیں ان کی کئی وجوہات ہیں مگر ہم ایک دوسرے کو وجہ قرار دیتے ہیں۔ سنی شیعہ کو اور شیعہ سنی کو کوستا ہے اور جب دونوں مل کر بیٹھتے ہیں تو ایجنسیوں کو کوستے ہیں ۔ لیکن اصل میں ہم منافق ہیں۔ آج بھی یہاں سنی کے بڑے علماء کو ہونا چاہئے تھا۔ آج علامہ شہیدی آئے ہیں کل یہ چلے جائیں گے پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا ۔ ہم کہتے ہیں کہ شیعہ چاہتے ہیں سنیوں کو سیاسی طور پر باہر نکال دیں اور یہ سنی چاہتے ہیں۔ خود اس خطے کو جو انتظامی نظام ہمیں دیا گیا ہے وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر ہمیں دیا گیا ۔ آج موجودہ حکمران جماعت کے کسی وزیر کو بلانا چاہیے تھا۔ نانگا پربت کے واقعے پر بھی اپ تک کئچھ نہیں ہوا۔2دن کا یہ ٹریک تھا آخر گئے کہاں؟؟ ؑ عوام کے درمیان گیپ کو ختم کر دیا جائے اور شیعہ سنی علماء کا مکالمہ ہونا چاہیے، پچھلے دنوں راحت حسینی نے جو اجتماع میں شرکت کی اس کا بہت مثبت اثر ہوا ہے ۔ ہمیں کنکریٹ اقدامات کرنے چاہیے۔


تحریک اسلامی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہماری کچھ تجاویز ہیں۔ ہمیں شیعہ سنی، اسماعیلی، نور بخشی ، غیر مسلم حتیٰ کہ ہر پاکستانی کو اس مملکت خداداد کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کچھ حقائق عرض ہیں کہ آج سے 25 یا 30 سال پہلے اہل سنت برادران آ کر شیعہ مساجد میں نعتیں پڑہتے تھے پھر کیا ہوا کہ ایک دوسرے سے دور ہو گئے ؟ اس پر سوچنا پڑے گا ۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ شیعہ سنی مل کر بیٹھیں ایک ہی محفل میں۔ چین کی ہمارے ساتھ سرحد ہے اور اب چائنہ کو یہ پیغام دینے کے لیے کہ پاکستان آپ کا دوست نہیں اور ڈرانے کے لئے یہ سازش کی گئی ہے ۔ ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ہمارے علاقے کی معیشت صرف اور صرف سیاحت پر منحصر ہے اسی لئے سیاحوں پر حملہ کیا گیا ہے ۔کہ اس علاقے کی معیشت تباہ کی جائے ۔ میں مجلس وحدت کا مشکور ہوں۔


متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے تشریف لانے والے نمائندے کا کہنا تھا کہ بیروزگاری، غربت اور دہشت گردی کے مسائل ہیں اگر حکومت وقت ایسے اقدامات کرتی جیسے اب دہشت گردوں کو گرفتار کو کرنے کے لئے کر رہی ہے تو ایسا واقعہ کبھی نہ ہوتا۔ یہ دہشت گرد کون ہیں اور کہاں سے آئے ؟ یہ کون لوگ ہیں جو خود ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں مذہبی جماعتوں کو بہت پہلے بیٹھنا چاہیے تھا اس پر سوچنا چاہیے تھا کہ ان لوگوں کو سمجھا سکتا۔اس ساری صورتحال کے مستقبل میں بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے جو کہ خود دہشت گردی کا شکار ہے جس کی قائد تحریک الطاف حسین نے بھر پور مذمت کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں۔


ٓآل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما کریم خاننے کہا کہ گلگت بلتستان کی دہشت گردی میں شیعہ سنی علماء کا کوئی کردار نہیں ۔ اس کا ذمہ دار صرف اور صرف حکومت ہے ۔ اور یہ پر مساوات نہیں ہے فیڈرل گورنمنٹ اس کی پوری اور پوری ذمہ دار ہے ۔ افسران یہاں ہوتے نہیں ہیں صرف نو آموز یا بوڑھے افسران بھیجے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمان اپنا کام نہیں کرتے بلکہ صرف پکنک کے لئے آتے ہیں ۔ جب بھی کوئی واقعہ ہوا آئی جی صاحب اسلام آباد ہوتے ہیں ۔ گورنمنٹ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ میں ن لیگ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بابو سر میں کوئی چیک پوسٹ نہیں ہے آپ سے گذارش ہے کہ وہاں چیک پوسٹ ہونی چائیے۔


جماعت اسلامی کے مقامی رہنما عبد السمیع کا کہنا تھا کہ اپنے خطے کی فکر کرتے ہوئے مجلس وحدت کو پروگرام کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں ۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو ہم غیروں کی جنگ اپنے گھر میں لائے اور ہم نے اپنی مصلحتوں کو سامنے نہیں رکھا جس کی وجہ سے مملکت پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے ۔ گلگت بلتستان میں جو دہشت گردی میں اضافہ ہوا ، کارڈ چیک کر کے مارا گیا اور اب تاریخ میں پہلی دفعہ سیاحوں کو مارا گیا ۔ جماعت اسلامی امت واحدہ پر یقین رکھتی ہے ۔ ہم نے ملی یکجہتی کونسل کے ذریعہ اور مختلف کوششیں کی ۔ ابھی میں اسکردو میں گیا تو شیخ حسن جعفری سے ملاقات کی اور انہیں مبارکباد دی کہ آپ نے امن قائم کیا ہوا ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ گلگت میں بھی کوشش کرنی چائیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جماعت جو قدم اٹھائے گی ہم ان کا ساتھ دیں گے ۔ ہم اگر اپنی دوریا ں اور نفرتیں ختم کر دیں تو امن ہو سکتا ۔ آپس کی نا چاقی کی وجہ سے دشمن کو موقعہ ملتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں دیا مر انتظامیہ سے کوتاہی ہوئی ہے ۔ اس خطے پر عالمی طاقتوں کی نظریں ہیں اور وہ فروعی اختلافات ابھار کر ہمیں لڑانا چاہتا ہے اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ہمارا خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ اس کی اسٹرٹیجک ویلیو ہے ۔ پچھلے دنوں مولانا طارق جمیل نے ایک کردار ادا کیا امامیہ بورڈ اور اسماعیلیوں کے پاس جا کر ۔ ہم بھی برداشت کا ما حول پیدا کرنا ہو گا ۔ سب سے پہلے یہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، پھر انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ ان کے پاس وسائل ہیں ۔ جیسے دیامر جرگہ نے ایک کمیٹی بنائی اور حکومت کا ساتھ دے رہی تاکہ جرائم پیشہ پکڑے جا سکیں ۔ ہم علماء پر الزام ہے کہ یہ فرقہ واریت ان کی وجہ سے ہے ۔ ہم ہر جمعہ کے خطبہ میں جھوٹ ، چوری ، سود پر بات کرتے مگر کوئی عمل نہیں ہوتا تو پھر کیا صرف مرنے مارنے والی بات پر عمل کرتے ہیں ۔؟؟؟؟؟؟ یہ صرف اپنی جان چھڑوانے کی خاطر علماء پر ڈال دیا جاتا ہے ۔


تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے حشمت اللہ نے کہا کہعلماء کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اب تک 37معاہدے ہوئے اس کا کیا اثر ہوا، یہاں سب بیٹھے ہیں باہر جا کر سب اپنی اپنی بولیاں بولیں گے ۔ علماء نوجوانوں کو سمجھائیں کہ قتل و غارت نہ کریں ۔میں یہ عرض کروں گا کہ پولیٹیکل پارٹیز کچھ نہیں کر سکتی اگر علماء کردار ادا نہ کرے۔ اس وقت یہاں نوکریاں بکتی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ شیعہ حکومت ہے ۔ یہ تاثر کیوں پیدا ہوا۔ امن کے لئے علماء کو ہی اٹھنا ہو گا ۔ہماری مالی حالت بہت کمزور ہے ہمیں سوچنا ہو گا ۔ ہمیں 1952کی طرح 30پوائنٹ دے دیں ہم آپ کے دوش بدوش ہیں اور دیکھیں کہ سابقہ معاہدے کیوں ناکام ہوئے ۔؟ سوچیں اس پر ۔


اہل سنت ساجد بورڈ کے رہنما راجہ نثار کا کہنا تھا کہگلگت میں جو شیعہ سنی مخالفت کی جو لہر تھی وہ اللہ کے کرم سے ختم ہو چکی ہے۔ ہم نے ٹھانی ہوئی ہے کہ ہم یہ مخالفت ختم کریں گے اور آپ کو خوشخبری ہو کہ پچھلے 6ماہ میں گلگت میں کوئی بھی مذہبی منافرت کا واقعہ کوئی نہیں ہوا ہے۔ہم نے عملی ثبوت دیا عاشورہ میں آپ کے پرگرامز میں گئے ۔راحت الحسینی نے بڑا کردار ادا کیا ۔ اس وقت یہاں ہمین سمجھانے کی نہین عملی طور پر باہر جا کر عوام اور جہلاء کو سمجھانے کی ہے ۔دشمن نے جب دیکھا کہ اب مذہبی منافرت ختم ہو گئی تو اس نے دوسری دہشت گردی شروع کی اس میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور راتوں رات 18آدمی کہاں سے آئے ۔۔ وہ بونیر، چلاس اور مانسہرہ کے دہشت گرد ہوں گے اور ایجنٹ ہوں گے بیرونی طاقتوں کے ۔ حکومت جواب دے کہ بونجی میں جو ہیلی کاپٹر اور ایس ایس جی کے جوان رکھے تھے وہ کہاں گئے تھے؟ حکومت کو ٹارگٹڈ آپریشن کرے۔ اب حکومت دیامر جرگے کو کہتی ہے کہ ان 10دہشت گردوں کو پکڑے ۔۔۔ اب وہ کہاں سے پکڑے ؟؟؟؟ سرکاری افسران یہاں موجود ہی نہیں رہتے ، آئی جی نیہں ہوتا ، چیف سیکرٹری نہیں ہوتا تو کام کون کرے گا ۔ ہم علماء کو گلہ اس لئے کرتے کہ آپ موثر ہیں ، ہر جمعہ کو لوگ آپ کی سنتے ہیں ۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ البتہ اندرونی منافرت ہم ختم کریں گے اور بیرونی کو حکومت ہی پکڑے گی ۔ ایسے سیمینارز ہوں جس میں دونوں طرف کے علماء ہوں وہ مل کر بیٹھیں ۔


پاکستان مسلم لیگ ق کے نمائندے کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے تمام مسائل کی اصل وجہ شیعہ سنی ہیں ۔ ہم آج تک دوسروں کے آلہ کار بنے رہے ہیں ۔ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں پسے ہوئے ہیں ۔ ہم نے کس قانون میں اپنا حصہ لیا؟ کس وجہ سے ہم پھانسی چڑھ رہے ہیں ؟ ہم وہ لوگ ہیں جن کا عملی طور پر کوئی کردار نہیں ہے ۔کبھی ہمیں کشمیر سے نتھی کرتے کبھی بھارت کے ساتھ ۔ ہمارا اپنا ہی سٹیٹس ہے۔ میں تو اس وجہ سے پاکستان کی کسی پارٹی کے ساتھ ہوں کہ وہ ہمیں ہمارے حقوق دیں گے۔ ایک ایجنسی کے کرنل صاحب ہیں انہوں نے بتایا کہ یہاں فسادات کے لئے کوئی پیسے نہیں خرچ کرنے پڑتے۔ اب یہاں ایک انٹر نیشنل دہشت گردی ہے ، اب ہم یہ بھی سنتے ہیں 2100سے 3000طالبان ہیں گلگت میں اور جیکٹ اور بم بنانے کی فیکٹری ہے میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں سنی علماء کو کہ جن کی وجہ سے کوئی بڑا دہشت گردی نہیں ہوئی۔ جو طالبان ہیں ان کے خلاف کردار ادا کرنا چاہیئے شیعہ سنی علماء کو ۔یہاں سے گفتگو سے زیادہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری ادا کرے اور اپنے حصے کا کام لے۔اور جوانوں پر کام کرے ان کو تعلیم دے ۔سب کو ایک ایک ٹاسک دیا جائے۔اور بین المذاہب رواداری کو فروغ دیا جائے ۔ پاکستان کی بیورو کریسی نے ہمیشہ ہمیں دبایا ہے اور ہمیں کچھ نہیں دیا بلکہ تعلیمی اداروں میں خیرات میں ہمیں کچھ سیٹیں دی جاتی ہیں ۔ یہاں کوئی میڈیکل کالج یا صنعت یا بڑا ادارہ نہیں ہے ۔ہم اس طرف جا رہے ہیں کہ ہم غلامی کرتے رہیں گے ۔ سب سے پہلے اس دہشت گردی کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے سنی بھائیوں کو اجتماعی کوشش کرنی چاہیئے اور شیعوں سے گذارش ہے کہ فوری رد عمل نہ دیں ۔ ہم تو ایک دوسرے کی تجہیز و تکفین حتیٰ کہ تعزیت کے لئے نہیں جاتے ہمیں یہ طریق تبدیل کرنا پرے گا ۔دہشت گرد جب حملہ کرتے تو اللہ اکبر کرتے جو کہ کسی طرح سے بھی سنیوں سے گئے ہوئے ہیں اس پر بھی توجہ دینی چاہیئے وہ بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔سیاسی طور پر انتظامی عہدوں پر آنے والے لوگوں کو شیعہ سنی بنیاد پر نہیں بلکہ پارٹی اکثریت کی بنیاد پر آنا چاہیئے۔ اگر حکومت پاکستان کے سیکیورٹی کے ادارے ایک ہو جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں کہ جلد یہ مسائل حل ہو جائیں۔


نپورہ امن جرگہ کے جعفر اللہ نے کہا کہ دہشت گردی بین الاقوامی سازش ہے جو کہ ہم پر تھونپی گئی ہے ، اور 9/11کو بہانہ بنا کر دنیا بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ موقع پرست حکمرانوں اور عیاش سربراہوں نے ان کی مدد کی ہے۔ امریکہ اسرائیل روس فرانس ہندوستان کی ایجنسیوں نے اسلام کے خلاف محاذ کھولا ان کے تھنک ٹینک نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ٹھانی اور طالبان اور القاعدہ کہ تشکیل دیا۔ ہمارے حکمران اس میں پورے پورے شریک ہیں وہ کبھی ان کو مجاہد کہتے ہیں اور کبھی ان کو دہشت گرد کا نام دیتے ہیں ۔ دہشت گردوں نے نہ سیاحوں کو چھوڑا، نہ مسجد ، مدرسہ، امام بارگاہ،بچے بوڑھے عورتیں سب ان کا شکار ہوئی۔ یہاں آج سنی علماء کے علاوہ اگر نور بخشی اور اسماعیلی بھی ہوتے تو زیادہ اچھا اور بہتر ہوتا ۔مگر ہم تو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ہم فرقہ واریت کو اتنا آگے لے گئے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ۔ جو کام ہمارے ساتھ کافر نہیں کر سکتا تھا وہ خود ہم نے اپنے ساتھ کر دیا ۔ یہاں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر جو منافق ہیں انہوں نے ڈالر اور پیسے کی وجہ سے ہمارا نقصان کیا اور کافر اپنی سازشوں میں کامیاب ہیں ۔ اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہے پھر علماء پر کہ انہوں نے اسلام کو نہیں دیکھا بلکہ اپنے فرقہ کو دیکھا۔ اس وقت یہاں علماء کردار ادا کرنا ہے۔ ہم نے اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے قاتلوں، چوروں، کرپٹ لوگوں، دہشت گردوں کی پشت پناہی کی ۔ہم نے نپورہ میں ایک سال میں امن قائم کر لیا اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ یہاں گلگت میں آپ اچھے علماء بھی کردار ادا کریں اور دوسرے فرقہ کے علماء کے ساتھ مل کر بیٹھ جائیں ۔یہاں منبر پر بھی دوسرے فرقوں پر حملے کیے جاتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مشترکات پر بات کی جائے۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے نیشنل لیول پر بات کی جائے اور قومی سطح پر سیمینارز کروائے جائیں۔ امریکہ خود طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے اور ہمیں روک رہا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائیں اور ان کو قومی دھارے میں لایا جائے۔


مسلم لیگ ق کی رہنما اور ممبر جی بی اسمبلی آمنہ انصاری نے کہا کہ 1975, 88, 92,93,94یہ وہ عرصہ ہے کہ جب کہیں دہشت گردی نہیں تھی بلکہ یہاں پر فسادات ہوئے پھر 2005میں دہشت گردی کا آغاز ہوا اور 2007میں یہ پیکیج آ گیا ۔ ہمارے جوان دہشت گرد نہیں ہیں مگر ہم پر یہ لیبل لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔میں کچھ تجاویز دوں گی امن بحال کرنے کے لیے علماء کا بہت اہم کردار ہے جبکہ ڈیلویپمنٹ کے لیئے ریاست کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔ گلگت بلتستان 72کلومیٹر طویل علاقہ ہے اور اس کے 4روٹ ہیں ، اگر ان پر سیکیورٹی سخت کر دی جائے دو بیرونی دہشت گردوں کا راستہ روکا جاسکتا ہے ۔ ہم سیاسی سیٹ اپ کا مذہبی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں ۔۔۔۔ ہمیں اسے مذہبی نہیں بلکہ میرٹ پر تقسیم کرنا چاہیئے۔ جو وسائل جی بی میں اس وقت سیکیورٹی کے نام پر استعمال ہو رہے ہیں کیا وہ واقعی سیکیورٹی پر استعمال ہو رہے ہیں ؟ اس کو دیکھنا چاہیئے اپنے حقوق کے تحفظ اور موجودہ پیکج کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں اگر کوئی افسر میرٹ پر کام کرنا شروع کرتا ہے تو اس کو سیاسی کی مذہبی بنیاد پر ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے ۔ آج تک کسی بھی دہشت گردی کے مجرم کو سزا نہیں ملی ۔ ہمارے مذہبی اور کلچرل ایونٹس کو دوبارہ سے بحال کرنا چاہیئے۔ جی بی کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیئے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کو پروموٹ کرنا چاہیئے۔ عدلیہ ، صحافت کو بہتر بنانا چاہیے۔ ہمیں گھر گھر جا کر لوگوں سے رابطہ رکھنا چاہیئے۔


پاکستان پیپلز پارٹی کے امجد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ 1973کے آئین کے مطابق یہاں کوئی بھی سول آرمڈ فورس نہیں بنائی جا سکتی مگر ہم نے روس کے خلاف آئین پاکستان کو توڑا اور سول آرمڈ فورس بنائی ۔ یہ تمام لوگ ریاست کی طرف سے ہی پیدا کیے گئے ہیں ۔ ہم آج تک کوئی واضح پالیسی نہیں بنا سکے ۔ حتیٰ کہ کارروائی کر کہ کالعدم جماعت ذمہ داری لے لیتی ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں ۔ یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ریاستی دہشت گردی نہیں ختم ہو تی۔ پاکستان کا گلگت بلتستان میں وجود کا کوئی حق نہیں ہے ، کیونکہ ریاست کا کردار آئین کے مطابق جی بی میں امن قائم کرنا ہے ۔ اگر امن نہیں تو پھر جناب کوئی تعلق نہیں ہے پاکستان سے ۔ جی بی میں فرقہ واریت ہماری اپنی نہیں ہے بلکہ باہر سے پیدا کی گئی ہے ۔عام عوام کا کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ کچھ خواص ہیں جن کا روزی رزق اسی وجہ سے ہے کہ فساد پھیلتا رہے ۔ فساد پھیلانے کی فیکٹریاں ہمارے اپنے پاس ہیں ۔ علماء دو اقسام کے ہیں ۔ علماء اسلام اور علمائے فرقہ اور یہی مسلک کے علماء ہمارا مسئلہ ہیں ۔ ہم سیاست کو بھی مذہب میں کھینچ لیتے ہیں ۔ دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں ان کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ ہمارے اندر کے لوگ غربت کی وجہ سے خریدے گئے ہیں ۔ اور ان واقعات کو افغانستان کے میدان جنگ سے تیار کیا جاتا ہے۔ نانگا پربت کا واقعہ صرف پیسہ اور کسی اور کے مفاد کے لئے کیا گیا ہے۔ 10 لوگوں نے 18کروڑ عوام کی روزی پر قدغن لگائی ہے ۔ ان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں بلکہ قانونی طور پر سزا دینی چاہیے ۔ آج تک جتنے بھی واقعات ہوئے ان کے لئے ہمارے پاس کوئی ٹیکنالوجی نہیں بلکہ کاؤنٹر ٹیررازم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سیکیورٹی کے ادارے ہمیں کہتے ہیں کہ یہ مجرم ہے اور ہم کہتے ہیں کہ بلکل ٹھیک ہے ۔ افغانستان میں بیٹھے ہوئے لوگ خیبر پختونخواہ سے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان کے ذریعے سنکیانگ تک پہنچنا ہے ۔ ہم زیادہ دیر نہیں بچا سکیں گے ۔ یہ جی بی کو بہت مسلح کیا گیا ہے ۔ بہت زیادہ اسلحہ موجود ہے ۔ دشمن کو جی بی کی سرزمین کی ضرورت ہے عوام کی نہیں ہے ، ہمیں تھر پارکر میں پھینک دیا جائے گا اور سر زمین پر قبضہ کیا جائے گا یہاں کے معتبر لوگوں کو اپنی اہمیت پہچاننی چاہیئے۔ دیا مر کے علماء اور جرگہ نے ہمیں کہا کہ یہ ان لوگوں کے گھر ہے جن کے آپ نے نام لیے ہیں ان کو گرفتار کر لیں وہاں کے لوگ بہت مدد کر رہے ہیں ۔ فرقہ واریت در اصل کسی بھی معاملے کو مذہب کی بنیاد پر پیش کرنا ہے۔مسلکی بنیاد پر چیزوں کو خراب نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بہتر بنانا چاہئے۔ جیسے مولانا طارق جمیل اور راحت حسینی کی وجہ سے حالات بہت بہتر ہوئے جس کو دیکھتے ہوئے جی بی حکومت نے بھی ایسے فورم بنانے کا سوچا ہے۔جیسے پہلے مسجد بورڈ کام کر رہا ہے پہلے سے ۔ہم 4اہلسنت اور 4اہل تشیع، 2 اسماعیلی اور باقی شامل ہو کر 16افراد کی کمیٹی بنائی جارہی ہے جس کا نام ابھی فائنل نہیں ہوا ہے بہت جلد یہ فائنل ہو جائے گا ۔علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree