وحدت نیوز(بیروت) التجمع العربي والاسلامي لدعم خيار المقاومة نامی بین الاقوامی تنظیم نےبیروت میں ایک بین الاقوامی علمی اور فکری نشست گاہ کا اہتمام کیا،(واضح رہے کہ چالیس سے زیادہ ممالک کی علمی اور فکری شخصیات اس تجمع کے اعضاء ہیں ) جس میں تجمع نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ اور اس تجمع کے پاکستان کے کوآرڈینیٹر علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کو مسئلہ کشمیر پر گفتگو کی دعوت دی، جس میں مصر سے اس تجمع کے کوارڈینیٹر اور سیکریٹری جنرل کے معاون ڈاکٹر جمال زہران، اور اردن سے الجمعیہ العربیہ للعلوم السیاسہ کے سربراہ محمد شریف الجیوسی، اور اس کے علاوہ پاکستان، لبنان، شام، بحرین، فلسطین، تیونس اور سوڈان سے تعلق رکھنے والی اہم فکری شخصیات نے شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز 8 منٹ پر مشتمل ایک ویڈیو کلپ کے ذریعے سے ہوا، جو مسئلہ کشمیر کے پس منظر، وہاں ہونے والے مظالم اور اس خطے کی اہمیت کے حوالے سے، مختصر لیکن مفید اور موثر معلومات پر مشتمل تھی۔اس ڈاکومنٹری کے بعد تجمع کے سیکریڑی جنرل ڈاکٹر یحیی غدار نے اس بات پر زور دیا، کہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے، جس کے ماوراء قدیم استکباری قوتوں کے مذموم مقاصد کار فرما ہیں، جن میں سے اہم ترین مقاصد اس خطے کو اپنے زیر تسلط رکھنا، وہاں کے وسائل اور امکانیات پر قبضہ، اور وہاں کے امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنا ہیں۔
ڈاکٹر یحیی غدار نے مزید کہا کہ اس وقت کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، جس میں ہر قسم کے فوجی قوت سے اجتناب خطے کے ساری عوام کے لئے ناگریز ہے، اس حوالے سے کشمیری عوام کے مستقبل اور حق خود ارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے قرار دادوں کا احترام ضروری ہے، اور مزید کہا: کہ اس ضمن میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اقدامات قابل تحسین ہیں، کیونکہ بظاہر ایسے اقدامات سے استعماری طاقتوں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوتی، اور آخر میں ڈاکٹر غدار نے محور مقاومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری طرف علامہ سید شفقت نے مسئلہ کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس حوالے سے امت مسلمہ اور عرب ممالک کی ذمہ داری پر مفصل گفتگو کی اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اس مسئلے میں فوجی اقدامات سے اجتناب نا گزیر ہے۔بر صغیر پاک و ہند پر برطانوی قبضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ استعمار نے بر صغیر پاک و ہند پر تدریجیا قبضہ کیا، اور ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے میں ایک اہم کردار کا ، جس میں پہلا حربہ ہندوؤں کی طرف سے اردو زبان کے خلاف اور عربی رسم الخط کو ختم کرنے کا مطالبہ تھا، اور فتنے کو مزید طاقت دینے کے لئے، اور متشدد فکر کو رواج دینے کی خاطر دیوبند نامی علاقے میں ایک دینی مدرسے کا قیام عمل میں لایا گیا، حالانکہ اس خطے کی عوام اس متشدد فکر کے شدید مخالف ہیں، اور اس دینی مدرسے کی وجہ سے اس خطے میں متعدد بار بڑے بڑے فسادات ہوئے۔
شیرازی صاحب نے لوگوں کی توجہ ایک اہم بات کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ جو قربت ضیاء الحق کے دور کے بعد سے لیکر عمران خان کے دور سے پہلے تک پاکستان کا خلیجی ممالک اور امریکہ کے ساتھ قربت زیادہ نہ تھی، جس کی وجہ سے خطے کا توازن بگڑ گیا اور تکفیری فکر کو رواج ملا، اور دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔خطے کے حوالےسے بھارتی موقف کی طرف اشارہ کرتے کہاکہ مقاومتی تحریکوں کے حوالے سے بھارت کا موقف 1990 کے بعد یکسر تبدیل ہوا ہےاور اس وقت اسرائیل کے ساتھ بھارت کے گہرے تعلقات قائم ہیں اور یہ بات واضح رہےکہ کشمیر کے حالات 1989 کے بعد زیادہ خراب ہونا شروع ہوئے،کیونکہ اسی دور میں انڈین اسرائیلی مراسم گہرے ہونا شروع ہوئے اور پاکستان کے ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کا خدشہ بھی بڑھ گیا۔
علامہ شیرازی صاحب نے مزید کہا کہ گیارہ ستمبر کے حادثے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی، اور باہمی اعتماد کمزور ہوا، جس کی اہم وجہ بھارت اور امریکی مفاہمت میں اضافہ تھا، اور اسی طرح خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے بڑھتے تعلقات نے اس ملک کا محور مقاومت سے دور ہو جانے کا اہم سبب شمار کیا جا سکتا ہے، آج آپ کو خلیجی ممالک میں جا بجا مندر نظر آئیں گےاور سب سے اہم مسئلہ پاکستان چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سی پیک کا منصوبے کو سبوتاژکرنے کی کوشش ہے، کیونکہ اس سے امریکہ کے اقتصادی مفادات کو نقصان کا اندیشہ ہے۔
علامہ شیرازی صاحب نے کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلوں پر خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کہ اس وقت کشمیر میں بھارتی حکومت نے کثرت کے ساتھ متشدد ہندووں کو آباد کرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ کشمیر کی انفرادی صورت حال کو ختم کر دیا گیا، 1989 سے لیکر آج تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شہید کیا گیا، اور پانچ لاکھ سے زیاد افراد جیل کے سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ جب اقوام متحدہ کے مسوول نے کشمیر کی صورت حال پر رپورٹ پیش کی تو رونے لگا اور کہا اب تک 10000 سے زیادہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
خطاب کے آخر میں شیرازی صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کئی مقامات پر لوگ آزادی حاصل کر چکے، لیکن چونکہ کشمیری عوام مسلمان ہیں اس لئے ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، سب کی ذمداری ہے کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیل کے ایجنڈے کا رستہ روکے جو کہ کشمیری عوام کے مستقبل کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں اور پاکستان کو محور مقاومت سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہےاور جمہوری اسلامی ایران کے حالیہ اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں جن میں کشمیر میں حالیہ واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے اور دنیا کے تمام حریت پسندوں اور محور مقاومت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام کے حق میں آواز بلند کریں اور ان مظلوموں کا ساتھ دیں۔
تجمع کے سیکریڑی جنرل کے معاون اور مصر میں تجمع کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر جمال زہران نے کشمیر کے غیور عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیااور اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ساری عربی اور اسلامی انجموں، تنظیموں، تحریکوں اور آزاد انسانوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ وہ مزید ظلم و ستم کو روکا جا سکے، اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان کا شمار پہلے امریکی استکبار کے سامنے نہ جھکنے والے ممالک میں ہوتا تھا، لیکن 90 کی دھائی کے بعد سے اس توازن اور سوچ میں خلل پیدا ہوا ہے، اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایشیا میں نئی جنگ نہیں چاہتے، کیونکہ یہ جنگ عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں ٹنیشن کم کرنے کے لئے بھارت اپنی ذمداری پر عمل کرے، اور کشمیر کو اپنے حقوق دینے میں تاخیر نہ کرے۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک جبہہ شعبیہ کے نمائندے ابو کفاح دبورنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ ہر فساد کے پیچھے کھڑا نظر آتا ہے، اور دنیا کے متعدد مقامات پر ایسے ایسے نزاعات اور کشیدگیوں کو فروغ دیا ہے، جن کی وجہ سے کبھی بھی جنگ کی فضا قائم ہو سکتی ہےاور مزید کہا کہ کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کا حق ہے، اور محور مقاومت اس حوالے سے تمام مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے۔
جہاد اسلامی کے میڈیا شعبے کے سر براہ الحاج محمد رشید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کی مظلومی دور کرنے کے کئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ ہندوستان مزید طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔بحرینی اپوزیشن رہنما الحاج ابراہیم المدھون نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا حالیہ کشمیری بحران میں خلیجی ممالک کے دور سے غفلت نہیں کرنی چاہیے اور خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے پاکستان کے بعض حکومتی اہلکاروں کی مدد سے بعض خلیجی ممالک کی عوام پر ظلم و ستم روا رکھا گیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ عمران خان اس حوالے سے پاکستانی موقف تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ان کو خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے بجائے عوام سے روابط بڑھانے چاہیے۔مدھون نے مزید کہا کہ ہمیں کشمیری عوام کی مظلومیت کو نہیں بھولنا چاہیے اور اس ضمن میں میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں مقاومت کے محور کا کردار مہم ہے۔
اردن سے تعلق رکھنے والے تجمع عربی و اسلامی لدعم خیار المقاومہ کے مجلس امناء کے رکن استاد محمد شریف الجیوسی نے کشمیر کے مسئلےکو عادلانہ قرار دیا اور اس حوالے سے برطانیہ کے خبیث اور سازشی دور کا ذکر کیا اور کہا خطے کے موجودہ دور کے حالات اس بات کے متقاضی نہیں کہ قریب وقت میں یہ مسئلہ حل ہو جائے، کیونکہ سعودی عرب تکفیری سوچ، وہابیت اور متشدد فکر کو رواج دینے میں دن رات لگا ہوا ہے اور یمن پر ایک ظالمانہ جنگ مسلط کی ہوئی ہے اور ترکی عثمانی خلافت کے احیاء میں مصروف ہے، عرب ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیںاور محور مقاومت کے سامنے کچھ چیزیں اولویت رکھتی ہیں، جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو وہ متشدد فکر کو رواج دے رہا ہے، ظلم و ستم کو فروغ دے رہا ہے، البتہ روس اور چین کے تعاون سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، کیونکہ ان ملکوں کے پاکستان اور ہندوستان سے اچھے تعلقات ہیںاور انہوں نے خود کشمیریوں کی داخلی مزاحمت کو اہم تر قرار دیا۔