The Latest
وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رےاستی ڈپٹی سیکرٹری جنرل طالب حسےن ہمدانی نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقعہ پر پاجگراں کے مقام پر مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں دہشت گردی کی ابتدا آج سے چودہ سو سال قبل ایک بدبخت خارجی عبد الرحمن ابن ملجم نے کی اور امیر المومنین کو دوران نماز زخمی کر دیااوریہی زخم ان کی شہادت کا باعث بنا۔آج اسی خارجی گروپوں کے پیروکار عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انبیاءوصحابہ کرامؓ کی قبروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ حضرت علی ؑ سے لوگوں کی دشمنی ان کے عادلانہ طرز عمل اور اصول پسندی کی بنا پر تھی۔انہوں نے داخلی و خارجی سازشوں کا جس تدبر اور حکمت سے مقابلہ کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔حضرت علیؑ کے افکار سے درس حاصل کر کے ہر دور کی شورشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دور عصر میں امت مسلمہ کو نہ صرف یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا سامنا ہے بلکہ اپنے اندر موجود خارجی و تکفیری قوتیں بھی مسلمانوں کے زوال کا باعث بنی ہوئی ہیں۔یہ اندرونی و بیرونی دشمن عالم اسلام کو نقصان پہچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان مذموم عناصر کو اسلامی کی حقیقی تعلیمات سے شکست دی جا سکتی ہے جو اہل بیتؑ کے گھرانے سے ملتی ہیں۔امت مسلمہ حضرت علی ؑ کی فہم و فراست اور جرات و کردار کو عملی زندگیوں میں اپنانے کی ضرورت ہے۔اسلام شناسی ہی تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا بنیادی حل ہے۔حضرت علی ؑ نے چودہ سو سال قبل واضح طور پر کہا تھا کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔آج امت مسلمہ اور یہود و نصاری کا موازنہ کیا جائے تو مسلمان ممالک میں مختلف طبقات مظالم کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ بدامنی،انتشار اور باہمی نفاق سر اٹھا رہا ہے جب کہ کفریہ معاشروں میں ارباب اقتدارکا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ امیر المومنین ؑ کی تعلیمات کے مطابق ہر جگہ انصاف رائج ہو تو خوب بخود امن قائم ہو جائے گا۔حکمرانوں کو چاہیے کہ سیرت امیر المومنین ؑ پر عمل پیرا ہو کر عوام کی خدمت کریں۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی حیات طیبہ عالم انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے امام علی علیہ السلام نے دینِ خدا کی سر بلندی کےلیے پوری زندگی جدوجہد کی اور تمام مشکل اوقات میں دینِ خدا کا سہارا بنے۔امام علی علیہ السلام ایک انسان کامل اور بشریت کے لیے نمونہ عمل ہیں ۔ہم سیرت علوی کو اپنا کر دنيا میں عظیم مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج پھر شیطانی طاقتیں دینِ اسلام کو مٹانے کے لئے میدانِ عمل میں آچکی ہیں ۔ عالمی سامراجی قوتوں نے داعشی دہشتگردوں کے ذریعے دینِ مقدس اسلام کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے۔امام علی علیہ السلام کی سیرت اپنا کر ہم اس دور کے نظام کفر نظام طاغوت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آل سعود عصر حاضر کے وہ منافقین ہیں جو دینِ اسلام کے خلاف مسلسل سازشیں کر رہے ہیں ،مولا علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو با بصیرت ہونا چاہئے تاکہ وہ دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیرت علوی کو اپناتے ہوئے ہم اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کریں ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) جمعہ کا دن تمام ایام میں زیادہ فضیلت اور برکت رکھنے والا دن ہونے کے ساتھ ساتھ سید الایام ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات میں سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس دن ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کے اجزائے تخلیق جمع کئے گئے، جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس دن زمانہ جاہلیت میں قریش قصی بن کلاب کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جمعہ کو یوم العروبہ کہا کرتے تھے۔ اسلام میں جمعہ کے دن کا بڑا مقام اور درجہ ہے۔ یہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے دن کا خصوصی امتیاز اور شرف صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا، کسی اور امت کو نہیں بخشا گیا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل فرمائی ہے: رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بڑا اور افضل دن جس میں سورج طلوع ہوا، وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے۔‘‘ ایک اور روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن آدم علیہ السلام تخلیق کئے گئے اور اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا۔ اسی دن قیامت قائم ہوگی اور اسی دن ہی یعنی جمعہ کو ہی امام مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے، اسی دن مجھ پر درود بکثرت پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود شریف مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔"(شرح مسلم للسعیدی، جلد دوم صفحہ621)
خداوند کریم کا احسان و شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر ماہ رمضان المبارک کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع دیا اور یہ موقع عطا کیا کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے گناہوں کی تلافی کرسکیں اور اس ماہ مبارک کے فیض اور برکات کو سمیٹ سکیں، پوری دنیا کے گوش و کنار میں رمضان المبارک اپنی رحمتیں اور برکتیں لئے ہوئے ہمارے درمیان ہے اور عنقریب ہم سے رخصت ہو جائے گا۔ اسی مبارک مہینہ کی آخری عشرے کی طاق راتیں شب قدر کہلاتی ہیں، یعنی ان راتوں میں اللہ کی کتاب قرآن کریم جو پیغمبر اکرم (ص) کے سینہ پر نازل ہوئی، کے نزول کی راتیں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح انہی آخری ایام میں ایک یوم جمعہ ہے، جسے عام زبان میں ہم ’’جمعۃ الوداع ‘‘ کہتے ہیں۔ اس روز ہر مسلمان کی روح انتہائی پاکیزہ اور بلند درجات پر پہنچ چکی ہوتی ہے اور ہر مسلمان خود کو اپنے پروردگار سے بےحد قریب محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا، جن میں مسلمانوں کے لئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسا فضیلت اور برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لئے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔
رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے، رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دن کے وقت ان سے حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی چھڑوا دی جاتی ہیں، تاکہ یہ ماہ مبارک گزرنے کے بعد ان کے نفس حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہوں۔ پھر جمعۃ الوداع کے موقع پر انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ بھر کی مشق کا جائزہ لیں اور پوری دیانتداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں۔ اس انقلاب کا جو ان کے اندر پیدا ہوا ہے۔ مرکزیت اتحاد اور اطاعت امیر کے مظاہرے سے تجدید ایمان کریں اور خالق کائنات کے حضور اس کی عملی شہادت پیش کریں۔ تربیت یافتہ ان مقدس انسانوں کی جماعت زندگی کے میدان میں جس مقصد کو بھی لے کر آگے بڑھے گی، کامیاب و کامران ہوگی۔
مسلمان معاشروں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن کثیر تعداد میں لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں اور عبادات کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ آج جمعۃ الوداع ہے جو انتہائی عظمت و رحمت کا دن ہے۔ اسی طرح جمعۃ الوداع کے دن پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم و بابرکت سال کے سب سے افضل ترین دن کو قبلہ اول کی آزادی کے لئے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصٰی کی آزادی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ بیت المقدس کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے۔ سیدالمرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو ان کے نزدیک بھی مسجد اقصٰی نہایت محترم قرار پائی۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں آپ کے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی بھی تجلیل و تحسین کی گئی۔ ارشاد رب العزت ہوا: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک، وہی مسجد کہ جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ذات خوب سننے والی اور دیکھنے والی ہے۔‘‘
انقلاب اسلامی ایران کے بانی اور بیسویں صدی کے عظیم رہنما حضرت آیت اللہ العظمٰی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن کو یعنی جمعۃ الوداع کو مسلمانوں کے درمیان ’’عالمی یوم القدس‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’جمعۃ الوداع یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ (ص)، یوم اسلام ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا، وہ استعمار امریکہ اور اسرائیل کی خدمت کرتا ہے۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جمعۃ الوداع کو ہی کیوں یوم القدس قرار دیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں یقیناً ہر ذی شعور یہی جواب دے گا کہ آج کے دن جہاں ہر مسلمان اپنے اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، وہاں دنیا کے اندر مظلوم بنا دیئے جانے والے مسلمانوں اور انسانوں کو بھی یاد کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔‘‘ پس ثابت ہوتا ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیئے جانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جس روز پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہو کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوں اور رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں مصروف عمل ہوں، وہاں اللہ کی مخلوق کو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل میں یاد رکھیں اور حضرت محمد (ص) کی حدیث کا مصداق بنتے ہوئے دنیا کے ان مظلوموں کی نصرت کا عہد کریں کہ جن کو ان کی سرزمینوں سے نکال دیا گیا ہے، جن کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے ہیں، جن کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، جن کے گھروں کو بھاری مشینری سے مسمار کر دیا گیا ہے، جن کے اہل و عیال کو ان کے معصوم بچوں سمیت گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔
یقیناً رمضان المبارک کا برکتوں بھرا مہینہ ہم سے متقاضی ہے کہ ہم جہاں روزہ کی حالت میں تمام گناہوں سے پاک رہتے ہوئے اللہ کے قریب ہوں تو ایسے اوقات میں ہمیں اپنے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جسے بیت المقدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے بازیابی کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتا ہے، جس میں شب قدر بھی ہے، ایسی رات کہ جسے زندہ رکھنا سنت الٰہی ہے، اس کی رات ملائکہ اپنے رب کے حکم سے سلامتی نازل کرتے رہتے ہیں، مخلوقات کے مقدر کا فیصلہ اسی رات میں ہوتا ہے، تاہم جمعۃ الوداع یوم القدس ہے، یوم القدس اسی رات کے جوار میں ہے، مسلمانوں کے لئے اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہے، شب قدر میں اللہ سے راز و نیاز کے بعد جمعہ کو یوم القدس کے روز دنیا کی تمام شیطانی طاقتوں سے اظہار نفرت کریں۔ ایک عرصے تک آنحضرت (ص) مسجد اقصٰی کی طرف رْخ کرکے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپ (ص) مصروف نماز تھے کہ اللہ کا حکم آیا کہ رخ مسجد حرام کی طرف کر لیں، آپ نے دوران نماز ہی رْخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا۔ مضافات مدینہ میں اس مقام پر آج بھی مسجد قِبلتَین (یعنی دو قِبلوں والی مسجد) موجود ہے۔ زائرین مدینہ عام طور پر اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور ان کی امت کے نزدیک مسجد اقصٰی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے اور آنحضرت (ص) چونکہ مسجد حرام سے پہلے اس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے، اس لئے مسلمان اسے اپنا قبلہ اول جانتے ہیں۔
روایات میں ملتا ہے کہ جس رات اللہ تعالٰی نے حضرت محمد (ص) کو معراج کا سفر طے کروایا، اس رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف بلایا اور مسجد اقصٰی میں آپ (ص) نے نماز ادا کی اور اس نماز میں آپ کے پیچھے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح مقدسہ نماز ادا کر رہی تھیں۔ اسی اعزاز پر آپ کو امام الانبیاء کا شرف حاصل ہوا۔ مسجد اقصٰی ہی سے آپ (ص) معراج کے اگلے سفر کے لئے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور لامکاں تک چا پہنچے۔ مسجد اقصٰی کے ارد گرد اللہ تعالٰی کی نشانیاں ہیں اور وہ نشانیاں جہاں اللہ تعالٰی کی جانب سے برکتیں نازل ہوتی ہیں، انبیاء کرام کے مزارات ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ قبل ازیں بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء علیہم السلام یہاں تشریف لائے۔ اسی وجہ سے اس کو انبیاءؑ کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق یہی وہ جگہ ہے، جہاں سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کروایا تھا، جو مسجد اقصٰی کے قریبی علاقہ میں واقعہ ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ میری نشانیوں کی زیارت کرو۔ اللہ کی نشانیوں کی زیارت اور وہاں کی جانے والی دعائیں مقبول ہوتی ہیں، جیسے صفا اور مروہ کو اللہ تعالٰی نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ بیت المقدس مسجد اقصٰی قبلہ اول دنیا کی ایک چوتھائی قوم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے انتہائی متبرک، محترم اور دینی و روحانی مقام ہے اور ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے کہ وہ مسجد اقصٰی کی زیارت کرے اور یہاں نماز ادا کرے۔ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ’’کوئی سفر اختیار نہ کرو، سوائے تین مساجد کے ’’مسجد الحرام، مسجد نبوی (ص)،مسجد اقصٰی۔‘‘
کیونکہ دوسری کسی بھی مسجد کی نسبت مسجد الحرام میں عبادت کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر، مسجد نبوی میں نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اقصٰی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس! آج 69 برس گزر جانے کے بعد بھی انبیاء علیہم السلام کی سرزمین اور وہ مسجد کہ جہاں ختمی مرتبت حضرت محمد (ص) نے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح کو نماز ادا کروائی، غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے اور غاصب اسرائیلی دشمن آئے روز نہ صرف مسجد اقصٰی کی توہین کرتا ہے، بلکہ مسلمانوں کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں پر انسانیت سوز مظالم بھی ڈھاتا ہے۔ صیہونیوں کے دعوے کے مطابق القدس ان کی ملکیت ہے اور وہ کسی صورت بھی اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اسرائیل سے شائع ہونے والے عبرانی زبان کے ایک اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ یہودی تنظیموں نے اپنی حکومت اور یوکرائن کی مدد سے مسجد اقصٰی کے اندر معبد بنانے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل وزیر سیاحت نے اعلان کیا تھا کہ مسجد اقصٰی کی کھدائی سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی کان ملی ہے، جبکہ دوسری طرف حماس اور الاقصٰی فاؤنڈیشن نے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ حماس نے کہا ہے اسرائیل سینکڑوں سرنگیں مسجد اقصٰی میں کھودنے کے باوجود ہیکل سلیمانی کے آثار دریافت نہ کرسکا۔
ہیکل سلیمانی کے بارے میں یہودیوں کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
1۔ ہیکل سلیمانی عین اس مقام پر تھا، جہاں قبۃ الصخرہ واقع ہے۔ یہ موقف یہود میں قبول عام کی حیثیت رکھتا ہے۔
2۔ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر آشر کوف جن کی تحقیق کے مطابق ہیکل قبۃ الصخرہ کے شمال میں قبۃ الروح کے اندر موجود پتھر کی جگہ واقع ہے، جبکہ قبۃ الصخرہ کے شمال میں ایک سو دس میٹر یعنی تین سو تیس فٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
3۔ تل ابیب کے ممتاز ماہر تعمیر توویاسا کیر کی رائے کے مطابق ہیکل قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصٰی کے درمیان عین اس جگہ واقع ہے، جہاں فوارہ واقع ہے۔
اسرائیل اپنے آقاؤں خصوصاً امریکہ کی آشیرباد پر فلسطین اور بیت المقدس کا قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ 1967ء سے لے کر اب تک 700 قراردادیں اسرائیل کے خلاف پاس ہوگئیں، جن میں سے امریکہ نے 270 قراردادوں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے ناجائز وجود کو بچایا۔ دیگر قراردادیں اسرائیل نے مسترد کر دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پر ویٹو کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے جہاں اسرائیل کے ناجائز وجود کو استحقاق بخشا، وہاں یو این کے وجود کو غیر موثر اور عضو معطل بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جب تک امریکہ اسرائیل کی ناجائز حمایت کرتا رہے گا، اس وقت تک مڈل ایسٹ میں مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔
اسرائیل کی غنڈہ گردی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی اسرائیل مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ صد افسوس کہ اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی میں یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ اور عالمی امن و انصاف کے دوہرے معیار کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اسرائیل جارحیت پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور صیہونی ہر قیمت پر وسیع تر صیہونی ریاست یعنی گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مخصوص ذہنیت اور مذموم مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ کی مکمل آشیر باد سے اسرائیل کو ناقابل تسخیر بنایا جا رہا ہے۔ اس کی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے، اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ لبنان کے پہاڑی علاقہ، اردن اور مصر کے صحرا سینائی کے علاقہ پر اسرائیل نے ناجائز غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں بالخصوص 2000ء میں لبنان سے پسپائی، 2004ء میں دو اسرائیلی فوجیوں کے بدلے میں حزب اللہ اور حماس کے سیکڑوں رہنماؤں کی رہائی، 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں 33روزہ جنگ کے نتیجہ میں شکست کھانے، 2008ء میں غزہ میں حماس کے ساتھ ہونے والے معرکہ میں شکست، اسی طرح 2012ء اور 2014ء میں غزہ و فلسطین میں حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست کھانے کے بعد اسرائیل نے خطے میں ناامنی پھیلانے کے لئے نت نئی دہشت گرد تنظیموں کو پیدا کیا ہے، جو آج لبنان، شام، عراق و فلسطین اور لیبیا سمیت پاکستان اور دیگر ممالک میں داعش، النصرۃ اور نجانے کس کس نام سے کام کر رہی ہیں، ان تمام دہشت گرد گروہوں کو امریکی سرپرستی میں اسرائیل براہ راست مالی و مسلح معاونت کر رہا ہے، تاکہ پورے خطے میں موجود مسلمان ممالک کو دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے مسئلہ میں الجھا دیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو پس پشٹ ڈال دیا جائے۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی بھی ملک کے اندر خانہ جنگی ہوگی تو وہاں کی حکومت اور عوام کس طرح مسئلہ فلسطین کے لئے جدوجہد کر پائیں گے، بہرحال اسرائیل کی اس مکروہ چال کو شام میں پانچ سال کی جدوجہد کے بعد ناکامی ہوئی ہے اور وہ تمام دہشت گرد گروہ کہ جن کو اسرائیل مدد کر رہا تھا اور یہاں تک کہ ان دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے زخمی دہشت گردوں کا علاج معالجہ اسرائیل کے گولان کی پہاڑیوں پر موجود اسپتالوں میں کیا جا رہا تھا، بالآخر ان دہشت گردوں کو شکست فاش ہوئی ہے، یہی صورتحال عراق میں ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی انہی دہشت گردوں کے خلاف ردالفساد آپریشن جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا کر خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جو مکروہ چال چلی تھی، وہ آخر کار انجام کو پہنچ چکی ہے، جس کے بعد امریکی سیاست نے ایک نیا رخ اپناتے ہوئے تمام مسلمان ممالک کی سربراہی کرنے کا اعلان کیا ہے اور حالیہ دنوں میں ہی مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے شیطان کا استقبال کیا گیا اور اسے اربوں ڈالرز کے تحائف سے نوازا گیا، نجانے یہ تحائف کس لئے پیش کئے گئے، شاید عراق، افغانستان، شام، یمن، لیبیا اور پاکستان سمیت فلسطین میں بہنے والی خون کی ندیوں کے عوض عرب حکمرانوں نے امریکی صدر کو یہ تحائف پیش کئے ہیں۔؟ بہرحال یہ لمحہ فکریہ اور سوچنے والا ایک سوال ہے۔ مسلم دنیا کے ممالک کو جمع کرکے دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گردی کے موجد امریکہ نے اسلام پر لیکچر دیتے ہوئے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، کسی میں یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکی صدر یعنی شیطان بزرگ کی زبان روک لیتا۔
آج دنیا میں ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ جس کے باعث القدس و فلسطین کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں، آج عرب دنیا کے حکمران دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گردوں کے بانی اور جعلی ریاست اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے ساتھ مل کر نہ صرف فلسطین و القدس پر سودے بازی کر رہے ہیں بلکہ اپنے سے اختلاف رکھنے والی عرب و غیر عرب ریاستوں کو بھی نیا شام، یمن اور لیبیا بنانے کی تیاری کرنے میں مصروف عمل ہیں، اس کی تازہ مثالیں عرب دنیا اور امریکہ کی جانب سے ایران اور قطر کے خلاف کیا جانے والا اعلان جنگ ہے، قطر اور ایران دونوں کا گناہ یہی ہے کہ وہ فلسطین کاز کی حمایت کرتے ہیں، فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ امریکہ اور اس کے عرب حواری فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد اور جعلی ریاست اسرائیل کو امن کا سفیر گردانتے ہیں۔ ان حالات میں قبلہ اول بیت المقدس کے تقدس کے تحفظ اور اس کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرضیت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام بیدار ہو اور مسلمان حکمران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اور وسیع تر اسرائیلی ریاست کے خواب اور صیہونیوں کے تمام تر ناپاک عزائم اور مذموم ارادوں کو خاک میں ملانے کے لئے دنیا کے اسلامی ممالک اپنی مشترکہ اسلامی فوج کا استعمال مسلمان ممالک کے خلاف کرنے کی بجائے اسرائیل کے خلاف پر عزم ہو جائیں۔ مسلم اقوام متحدہ کا اعلان کرکے یا پھر او آئی سی کو فعال ادارہ بنا کر اس پلیٹ فارم سے قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان، فلپائن، برما کے مظلوم مسلمانوں کے سلگتے مسائل حل کرنے کے لئے اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کریں۔
یہ ہر مسلمان کا مذہبی اور بنیادی حق ہے، کیونکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ انسانی حقوق چارٹر کے مطابق کسی بھی قوم کے مذہبی مقامات پر نہ تو قبضہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی عبادت گاہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ مگر صد افسوس کہ مٹھی بھر صیہونیوں نے بین الاقوامی سامراج اور دہشت گرد طاقتوں کی آشیر باد سے 1948ء میں فلسطین پر ناجائز غاصبانہ قبضہ کر لیا اور بیت المقدس کا کنٹرول سنبھال کر اسے مسلمانان عالم کے لئے بند کر دیا گیا۔ اس نازک مرحلے پر او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو او آئی سی کا قیام اسی لئے عمل میں آیا تھا کہ مسجد اقصٰی کو آزاد کرانا ہے، اس مقصد کے لئے باقاعدہ طور پر القدس فنڈ اور القدس فورس کی منظور ی بھی دی گئی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ القدس کی آزادی کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں، جبکہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ فلسطین کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ ہونے سے پہلے او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے، جس میں باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے کہ آزاد فلسطین کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا خصوصاً فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی صرف حمایت ہی نہ کریں بلکہ سیاسی، سفارتی، مالی اور معاشی اعتبار سے بھی ساتھ ہوں اور اسرائیل اور امریکہ کو مقبوضہ فلسطین کو آزاد کرنے پر مجبور کریں۔
جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا کی مسلمان تنظیمیں، جماعتیں اور افراد بیت المقدس کی آزادی کے لئے احتجاجی جلسے، جلوس، مظاہرے اور ’’القدس‘‘ ریلیاں نکالتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا آغاز ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوا۔ انقلاب ایران کے بانی حضرت امام خمینی ؒ نے کہا تھا کہ ’’یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جسے بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے، اسے صرف سرزمین قدس سے ہی وابستہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان مقابلے کا دن ہے۔‘‘ کیونکہ نصف صدی کے قریب بیت المقدس پر یہودی قبضہ اور بیت المقدس کے تقدس کی پامالی غیرت مسلم کو کھلا چیلنج ہے۔ غیور مسلمانو! بیت المقدس کی حرمت اور حفاظت درحقیقت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ ملت اسلامیہ کے حکمرانو! بیت المقدس کی آزادی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور آج مسجد اقصٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہے، اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور سپہ سالاروں میں کوئی سچا، کھرا، دلیر اور نڈر و بہادر مسلمان حکمران، سپہ سالار ہے جو قبلہ اول کو یہودیوں کے نرغہ سے آزاد کرا سکے۔ یوم القدس عالم اسلام کے مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ آیئے! بیت المقدس کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمان اپنے تمام تر اختلافات یکسر بھلا کر پوری طرح متحد ہو جائیں اور بیت المقدس کی آزادی ہر مسلمان کے دل کی آواز اور نعرہ بن جانا چاہئے۔
یاد رکھئیے! عالم اسلام کے اندرونی و بیرونی تمام دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسئلہ فلسطین و القدس کو فراموش کر دیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ دنیائے اسلام اس طرح اپنے داخلی مسائل میں الجھ کر رہ جائے کہ مسئلہ فلسطین اسے یاد ہی نہ رہے، تاکہ صیہونی حکومت کو اپنے خبیثانہ مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ فلسطین و القدس کی آزادی کی لڑائی اسلامی لڑائی ہے، ہم سب کی لڑائی ہے، یہ صرف عربوں کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں، جس طرح بھی ممکن ہے، یہ جنگ لڑیں، اس جدوجہد میں حصہ لیں، اس مہم کو جاری اور اس آواز کو بلند رکھیں۔ اس عظیم مسئلہ (فلسطین و القدس) کی اہمیت کو گھٹا کر اسے عربوں کا داخلی معاملہ سمجھ لینا بہت بڑی بھول ہے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(اسلام آباد) حضرت علی علیہ السلام کے یوم شہادت کے سلسلے میں ملک بھر میں جلوس شبیہ تابوت برآمد کیے گئے،جن میں ہزاروں کی تعداد میں عزاداروں نے شرکت کی۔کراچی ،لاہور،کوئٹہ،پشاور،اسلام آباد،راولپنڈی،گلگت بلتستان اور آزادکشمیر سمیت ملک کے بڑے شہروں کے مرکزی جلوسوں میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی و صوبائی رہنما ؤں علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ احمد اقبال رضوی،علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ مختار امامی ،علامہ باقر زیدی،علامہ مبارک موسوی،علامہ مقصود ڈومکی سمیت دیگر شخصیات اور وحدت سکاؤٹس کی کثیر تعداد بھی شریک تھی۔ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی ؑ کے چہرے کی طرف دیکھنے کو عبادت قراردیا ہے ۔پوری کائنات میں کسی دوسری شخصیت کو یہ شرف حاصل نہیں۔حضرت علی ؑ کی محبت ہر دور میں مومن اور منافق کی پہچان رہی ہے۔استعماری و سعودی ٹکروں پر پلنے والے نام نہاد علما اس ملک کو ایسی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس میں فرقہ واریت اور نفرت کا راج ہو۔انہوں نے ایک روزنامے میں ایک ناصبی ملا کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اہانت آمیز رویہ اختیار کرنے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ مضمون ملک میں آگ لگانے کی ایک سازش ہے ۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس شخص کو اہلبیت اطہار علیہم السلام کی توہین کے جرم میں فوری طور پر گرفتار کر کے دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔اگر ذمہ دار اداروں کی طرف سے اس مضمون نگار کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی تو پھر احتجاج سمیت تمام قانونی و آئینی حق استعمال کرنے کے آپشن ہمارے پاس موجود ہیں۔
انہوں نے کہا مولا علیؑ کے عادلانہ کردار اور تقوی کی غیر مذاہب بھی مثالیں پیش کرتے تھے۔دور عصر کی خارجی قوتوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے امیر المومنین حضرت علی ؑ کے سیرت و کردار کو اپنی عملی زندگیوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ملک کے دوسرے شہروں میں بھی مقررین نے عزاداروں سے خطاب کرتے ہوئے مولائے کائنات کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔شہادت مولائے کائنات امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے سلسلے میں کراچی میں مرکزی مجلس عزا ٹھیک 10 بجے نشتر پارک میں شروع ہوئی جس سے معروف عالم دین مذہبی اسکالر علامہ ریاض جوہری نے خطاب کیابعد ازاں نشتر پارک سے جلوس برآمد ہوا جس کی قیادت بوتراب اسکاوٹ نے کی۔ آئی ایس او کے زیر اہتمام نماز ظہرین دوران مرکزی جلوس مسجد و امام بارگاہ علی رضا ایم اے جناح روڈ پر مولانا شاہد رضا کاشفی کے زیر اقتداء ادا کی گئی۔ ملک بھر میں جاری کالعدم جماعتوں کی فعالیت اور شیعہ بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔ بعد از احتجاج و جلوس عزاء اپنے مقررہ راستوں نشترپارک ،نمائش چورنگی،سی بریز ،صدر دواخانہ،ایمپریس مارکیٹ ،تبت سینٹر،ریڈیو پاکستان،بولٹن مارکیٹ،لائٹ ہاوس سے ہوتا ہوا خوجا مسجد کھارادر سے حسنیہ ایرانیان امام بارگاہ پر اختتام پذیر ہوا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)کتاب فضل تو را آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
وہ علی :جو عین اسلام تھا۔
وہ علی :جو کل ایمان تھا۔
وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔
وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب تھا ۔
وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی تھا۔
وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔
وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔
وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔
وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔
وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔
وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔
وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔
وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔
وہ علی: جس کے عدل کی یہ شان تھی کہ اپنے دور خلافت میں اپنی زرہ کے جھوٹےدعوی کے مقدمہ کے قاضی کی عدالت میں ایک معمولی یہودی کے برابر کھڑا ہو گیا اور اپنے خلاف قاضی کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
وہ علی :جس کی قوت فیصلہ کی شان یہ ہے کہ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اقضاکم علی
وہ علی :جس کی شجاعت ضرب المثل تھی اور ہاتف غیبی نے جنگ احد میں جسے یوں داد شجاعت دی: لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔
وہ علی :جس نے بدر و احد کی سخت جنگوں میں اسلام کو فتح مند کیا اورہر معرکے مین پرچم اسلام کو سر بلند کر کے نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دئے۔
وہ علی :جس کی جنگ خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری تھی اورجس نے کل ایمان بن کر کل کفر پر فتح حاصل کیا۔ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین۔
وہ علی: جس نے ایک ہاتھ سے در خیبر اکھاڑ کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اوررسول خدا سے سند افتخار لی۔
وہ علی :جس نے مشرکین مکہ کے سامنے سورہ برائت کی تلاوت کی۔
وہ علی :جس نے فتح مکہ کے دن علم اسلام کو اٹھایا۔
وہ علی: جو رسول خدا کے دوش مبارک پر بلند ہو کر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور{طہر بیتی لطائفین} کا حق ادا کیا۔
وہ علی :جو رزم و بزم دونوںمیں یکساں تھا اگر میدان جنگ میں بے مثال سپاہی و سپہ سالار تھا تو مجلس میں ایک بے نظیر حاکم اورشفیق استاد تھا۔
وہ علی: جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا عاجز تھی اورجس کے زور بیان کے آگے عرب و عجم کے خطبا زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔
وہ علی :جو شب ہجرت بستر رسول خدا پر بے خوف و خطر آرام کی نیند سویا اورنفس مطمئنہ کا لقب بارگاہ یزدی سے حاصل کیا۔
وہ علی :جو نماز فجر کے سجدے میں ابن ملجم کے تلوار کے وار سے زخمی ہوا اوراکیس رمضان المبارک کے دن درجہ شہادت پر فائز ہوا۔
وہ علی: جس نے محنت و مزدوری کر کے اورباغوں کو پانی دے کر روزی کمانے کو فخر سمجھا۔
وہ علی :جس کا طرز جہانبانی قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے ۔
وہ علی : جس نے امیری اور غریبی کے فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
وہ علی :جس کی فضیلت کے بارے میں جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ؛میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا:{ یا علی ما عرف اللّہ حق معرفتہ غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّہ و غیری} اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔
وہ علی :جس کی فضائل حساب نہیں کر سکتے ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔
وہ علی :جس میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔
وہ علی :جونفس پیغمبر ’’ انفسنا‘‘ کی مصداق بن کر میدان مباہلہ میں اترا ۔
وہ علی :جن کی فضائل و کمالات بیان کرنے میں رسول خدا نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں
کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہے۔
وہ علی :جو حق کا محور اور مزکر تھا۔ علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامہ؛علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے عمار سے فرمایا: اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔
وہ علی :جو قسیم النار و الجنہ ہے۔
وہ علی :جسے کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک انشاپرداز،ایک خطیب،ایک عالم،ایک مومن،ایک مفتی،ایک قاضی،ایک عادل،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک مجاہد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔آخر میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں چند اشعار ذکر کر کے اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
جس نے اصنام کو کعبے سے نکالا وہ علی
ہر اندھیرے کو کیا جس نے اجالا وہ علی
جس کا رتبہ ہے رسولوں سے بھی بالا وہ علی
جس نے اس دین کی کشتی کو سنبھالا وہ علی
جو ملائک سے بھی ہے رتبے میں برتر وہ علی
جس کے خدام ہیں سلمان و ابوذر وہ علی
جو ہر جنگ میں ہے سب سے مقدم وہ علی
جس نے مجمع کئے کفار کے برہم وہ علی
علی امام من است و منم غلام علی
هہزار جان گرامی فدای نام علی
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ ایاّم تاجدارِ ولایت اور خلیفہ راشدحضرت امام علی ؑ کی شہادت کے ایام ہیں، پورا عالم اسلام سوگوار اور اداس ہے، لیکن فقط سوگواری اور اداسی ، اس زخم کا مرہم نہیں ہے۔ اگر ہمیں مقتول سے محبت ہے اور ہم شہید کے ساتھ اپنی محبت کے تقاضے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو فقط اشک بہانے یا قاتل کو برا بھلا کہنے سے اس محبت کا حق ادا نہیں ہوجائے گا۔
محبت کے دعویداروں کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ قاتل اور مقتول کے درمیان اختلاف کیا تھا؟ یہ ٹھیک ہے کہ انیس رمضان المبارک کو قاتل نے امام مبین کے سر اقدس پر ضرب لگائی اور اکیس رمضان المبارک کو آپ شہید ہو گئے لیکن اب محبت کے دعوے داروں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا آپ کے کفن دفن کے ساتھ آپ ؑ کی سیرت اور مشن کو بھی دفن کر دیا جائے یا اسے دنیا میں باقی رکھا جائے۔
حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل سے نفرت کے ساتھ ساتھ ، امام علیؑ کے مشن اور سیرت کو بھی زندہ رکھا جائے۔ اگر ہم نے فقط قاتل کو برا بھلا کہا اور امام کے مشن اور سیرت کو نہیں بچایا تو ہم بھی قاتل کے مددگاروں میں سے ہیں۔ چونکہ قاتل نے امام مبینؑ کو اُن کے مشن اور سیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
اگرہم نے چودہ سو سال کے بعد آج بھی امامؑ کی سیرت کا احیا کر لیا تو گویا ہم نے ابن ملجم کو شکست دیدی لیکن اگر فقط ہماری زبان پر تو علیؓ علیؓ رہا اور ہم زبانوں سے تو قاتل کو برابھلا کہتے رہے لیکن اپنے اعمال کو سیرت علی ابن ابی طالب ؑ کے مطابق انجام نہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری محبت فقط چند آنسووں اور نعروں تک محدود ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالبؑ کی شہادت کا واقعہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو اسی سے خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔
عبدالرحمن بن ملجم مرادی یمن کا رہنے والا تھا۔ جب خلیفہ سوم کو قتل کردیا گیا اور حضرت علی ؑ مسند خلافت پر بیٹھے تو آپ نے یمن کے سابق حاکم کو اپنی جگہ برقرار رکھا اور انہیں خط لکھا کہ اپنے علاقے کے دس ایسے افراد کو میری طرف بھیجو جو فصیح ترین، عقلمندترین ، دانا اور فہیم ہوں تو ان دس آدمیوں میں سے ایک یہی ابن ملجم مرادی تھا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم کوئی عام سا ، سادہ لوح بندہ نہیں تھا کہ جسے دھوکے کے ساتھ قتل پر آمادہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا شمار اپنے زمانے کے سمجھدار لوگوں میں ہوتا تھا۔
یہ چھانٹے ہوئے سمجھدار لوگ جب حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سلام کے بعد ابن ملجم کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
السلام علیک ایہاالامام العادل ، والبدر التمام واللّیث الہمام ، والبطل
الضرعام ، والفارس القمقام ومن فضّلہ اللّہ علی سائر الایام صلی اللہ علیک وعلی آلک الکرام اشہد أنّک امیرالمؤمنین صِدقاً وحقاً وأنّک وصیُّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم من بعدہ۔( بحارالانوار، ج ٤٢ ،ص٢٦٠۔)
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم بھی حضرت امام علیؑ کی خلافت و ولایت اور امامت کا اقرار کرتا تھا اور آپ کے فضائل پڑھتا تھا۔
بعد ازاں ابن ملجم کوفہ میں ساکن ہوا ۔ یہ جنگ جمل اور صفین حضرت علی ؑ کے لشکر میں تھا بعد ازاں خوارج کا ہم فکر ہوگیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ابن ملجم کو ایسا کیا ہوا کہ یہ خلیفہ راشد اور امام وقت کا جانی دشمن بن گیا!؟ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم کو امام کی پیروی سے نکال کر امام کی دشمنی پر آمادہ کرنے والے دو خارجی تھے۔ ایک کانام برک ابن عبد اللہ اور دوسرے کا نام عمرو بن بکر تمیمی ہے۔ یہ خارجی وہ لوگ تھے جو صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعوی کرتے تھے اوریہ جنگ صفین میں حضرت امام علی ؑ سے جدا ہوگئے تھے۔
یہ لوگ اپنے آپ کو اتنا سمجھدار سمجھتے تھے کہ قرآن سے اپنے مسائل خود حل کرنے کے درپے تھے ، اور امام علیؑ کی اطاعت کے بجائے صرف اللہ اور قرآن کی اطاعت کا نعرہ لگاتے تھے۔ یہ لوگ اول درجے کے عبادت گزار اور قاری قرآن تھے لیکن قومی، سیاسی اور اجتماعی مسائل کو نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ مکے میں ابن ملجم کو انہوں نے اس بات پر قائل کیا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ نعوذ باللہ حضرت امام علیؑ ، قرآن پر عمل نہیں کر رہے اور حکم خدا پر عمل نہیں ہورہا۔ ابن ملجم ان کی دلیلوں سے قائل ہوگیا اور اس نے ان سے وعدہ کیا کہ عالم اسلام کے سیاسی مسائل کے حل کے لئے وہ امیرالمومنین ؑ کو شہید کرے گا۔ اس کے بعد جب ابن ملجم کوفے میں پہنچا تو کوفے میں ابن ملجم کو قطام نامی عورت نے بلایا ، قطام کا باپ اور دو بھائی خارجیوں میں سے تھے اور مولاؑ کے ساتھ جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس نے بھی ابن ملجم کو امیرالمومنینؑ کو شہید کرنے کے صلے میں شادی کا لالچ دیا۔
یوں ابن ملجم جیسا سمجھدار شخص بھی قومی، ملی، اجتماعی اور سیاسی سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے خوارج کے ہمراہ ہو گیا اور خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ الرسولﷺ کے قتل کا مرتکب ہوا۔
اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اسلام فقط عبادات اور تلاوت قرآن تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے لئے مقامی، ملی، اجتماعی، بین الاقوامی اور سیاسی شعور بھی ضروری ہے۔ ورنہ جس آدمی کو اسلام کا حقیقی شعور نہ ہو تو خوارج کی طرح کوئی بھی اپنی مرضی کی چند آیات سنا کر اور چند احادیث کو جوڑ توڑ کر، اس کے دین سے کھیل سکتاہے، اس کی نماز و روزے کو بدل سکتا ہے، اسے خودکش بمبار بننے پر تیار کر سکتا ہے اور اسلام کی محبت کے نام پر بے گناہ انسانوں کو قتل کروا سکتا ہے۔ آج بھی یہ جتنے بھی بے گناہ انسانوں کے قاتل ، ہمارے ارد گرد موجود ہیں ، ان سب کو اسلام کے نام پر ہی تیار کیا گیا ہے۔
یہ آج جو دنیا میں قرآن و حدیث کا نام لے کر ، لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، یہ خوارج اور ابن ملجم کا طرز عمل ہے۔ اگر ہم اپنے زمانے کے خوارج اور ابن ملجم کو روکنا چاہتے ہیں ، اگر ہم امیرالمومنینؑ حضرت علی ابن بیطالب ؑ کی طرح دین کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرے میں سنی سنائی باتوں کے بجائے، دین کی حفاظت کے لئے دین کے فہمِ عمیق اور حقیقی دینی تعلیمات کی حاکمیت کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہماری زبانوں پر نام علیؑ کے ساتھ ہمارے کاموں میں بھی سیرت علیؑ کی جھلک ہونی چاہیے۔ ورنہ یاد رکھئے ! وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو، اسی سے گمراہیاں پھیلتی ہیں اور خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
حضرت علی ؑ سے لوگوں کی دشمنی ان کے عادلانہ طرز عمل اور اصول پسندی کی بنا پر تھی، علامہ راجہ ناصرعباس
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقعہ پر امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں دہشت گردی کی ابتدا آج سے چودہ سو سال قبل ایک بدبخت خارجی عبد الرحمن ابن ملجم نے کی اور امیر المومنین کو دوران نماز زخمی کر دیااوریہی زخم ان کی شہادت کا باعث بنا۔آج اسی خارجی گروپوں کے پیروکار عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انبیاء وصحابہ کرامؓ کی قبروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ حضرت علی ؑ سے لوگوں کی دشمنی ان کے عادلانہ طرز عمل اور اصول پسندی کی بنا پر تھی۔انہوں نے داخلی و خارجی سازشوں کا جس تدبر اور حکمت سے مقابلہ کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔حضرت علیؑ کے افکار سے درس حاصل کر کے ہر دور کی شورشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دور عصر میں امت مسلمہ کو نہ صرف یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا سامنا ہے بلکہ اپنے اندر موجود خارجی و تکفیری قوتیں بھی مسلمانوں کے زوال کا باعث بنی ہوئی ہیں۔یہ اندرونی و بیرونی دشمن عالم اسلام کو نقصان پہچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان مذموم عناصر کو اسلامی کی حقیقی تعلیمات سے شکست دی جا سکتی ہے جو اہل بیتؑ کے گھرانے سے ملتی ہیں۔امت مسلمہ حضرت علی ؑ کی فہم و فراست اور جرات و کردار کو عملی زندگیوں میں اپنانے کی ضرورت ہے۔اسلام شناسی ہی تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا بنیادی حل ہے۔حضرت علی ؑ نے چودہ سو سال قبل واضح طور پر کہا تھا کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔آج امت مسلمہ اور یہود و نصاری کا موازنہ کیا جائے تو مسلمان ممالک میں مختلف طبقات مظالم کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ بدامنی ،انتشار اور باہمی نفاق سر اٹھا رہا ہے جب کہ کفریہ معاشروں میں ارباب اقتدارکا طرز عمل اس کے برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ امیر المومنین ؑ کی تعلیمات کے مطابق ہر جگہ انصاف رائج ہو تو خوب بخود امن قائم ہو جائے گا۔حکمرانوں کو چاہیے کہ سیرت امیر المومنین ؑ پر عمل پیرا ہو کر عوام کی خدمت کریں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین الحسینی نے کہا ہے کہ امام علی (ع) کے طرز حکومت کو اپنا کر ہی دنیا میں عدل قائم کیا جاسکتا ہے، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ وہ مسلمان بھی ہیں اور انہوں نے خدا کو جان دینی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ شب امام بارگاہ جعفریہ میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف مولا علی (ع) ہی تھے کہ جنہوں نے ضربت لگنے پر کہا کہ ’’رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہوگیا‘‘۔ مولائے کائنات نے اپنی تمام زندگی کو ہمارے لئے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان فرقوں میں تقسیم ہوکر علی کی تعلیمات سے دور ہوگیا، اسلام کی پہلی دہشتگردی مسجد کوفہ میں ہوئی اور آج ابن ملجعم کی اولادیں مسلمانوں کے گلے کاٹ رہی ہیں، جس طرح علی (ع) کامیاب ہوئے تھے اور ابن ملجعم نامراد ہوا تھا اسی طرح آج علی (ع) کے ماننے والے سر کٹا کر بھی کامیاب ہورہے ہیں اور داعش، طالبان اور ان جیسے دیگر دہشتگرد گروہ ناکام ہورہے ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) یمن ایک عرب اسلامی ملک ہے جو کہ جنوب ایشیا میںواقع ہے۔اس ملک کی زمین بہت زیادہ زرخیز ہے اور کاشتکاری کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ یمن کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے تا ہم دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں۔اسلامی مکاتب فکر میں سے زیدی شیعہ اور اہل سنت کی آبادی دوسرے فرقوں سے زیادہ ہے۔یمن کی 60 فیصد آبادی زیدی شیعوں پر مشتمل ہے۔زیدی شیعہ بارہ اماموں میں سے چار اماموں کو مانتے ہیں اور چوتھے امامؑ کے بعدان کے بڑے بیٹے حضرت زیدرحمتہ ا ﷲعلیہ کو امام مانتے ہیں۔ زیدیوں کے بیشتر فقہی مراسم اہل سنّت برادران کی طرح ہیںجس کی وجہ سے ایک عام فرد کویمن میں زیدی شیعوں اور اہل سنّت کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر رہنے والے زیدی شیعوں اور اھل سنّت کے درمیان کس قدر اخوت کا رشتہ اور ہم ّہنگی ہے۔یمن دنیا کی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اس کی زمینیں اگر چہ زرخیز ہیں تا ہم مختلف حکومتوں کی عدم توجہ اور لاپرواہی کی وجہ سے ملکی معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے جس کی وجہ سے ملکی سیاسی صورتحال بھی ہمیشہ بحران کا شکار رہا ہے۔ 2011 میںیمنی عوام نے اس وقت کے صدر علی عبداﷲصالح کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے کیے جس کے دور میں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ملک میں بیرونی مداخلت بھی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔
حکومت کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کی وجہ سے آخر کار عوامی دبائو میں آکر علی عبداﷲصالح کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کی جگہ منصور الہادی صدر منتخب ہوا۔تاہم صدر منصور الہادی بہی سابقہ صدر کی غلط حکومتی پالیسیوں سمیت بیرونی ایجنڈوں پر عمل پیرا رہا۔ جس کے نتیجہ میں عوام کے غم و غصہ میںایک بار پھر شدید اضافہ ہوااور یمن کے شمالی علاقوں سے حوثی قبایل اور دیگر کثیر تعداد میں عوام نے مل کر یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا۔ حوثی قبائل اور دیگر یمنی عوام کا صنعا پر قبضہ کے بعد صدر منصور الہادی نے عوامی طاقت کے سامنے بے بس ہو کر 22 جنوری 2015ء کو استعفیٰ دیاجس کے ساتھ ہی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ بھی مستعفی ہوئی۔ انقلابیوں کی احتساب <Accounitability>اور بازپرسی <Investigation>کی خوف سے منصور الھادی اور کچھ دیگر کرپٹ <Corrupt>اعلی حکومتی اراکین صنعا سے خفیہ طور پر فرار ہوئے۔صنعا پر قبضہ کے بعد حوثیوں کی مضبوط اور ملک گیر تنظیم ،انصاراﷲ نے 6 فروری 2015ء کو عبوری حکومت تشکیل دی جس کی تائید حوثیوں کے علاوہ یمن کے دیگر مکاتب فکر اورعوامی حلقوں نے بھی کیں۔انصاراﷲ نے عبوری حکومت کیلئے ایک انقلابی کونسل <Revolutionary Council>تشکیل دی جس میں حوثیوں کے علاوہ اہل سنّت اور دیگر مکاتب فکر کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
انصاراﷲتنظیم کے بانی شیخ بدرالدین الحوثی تھے جن کے وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے حسین بدرالدین الحوثی تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے۔حسین الحوثی کے بعد تنظیم کا موجودہ سربراہ عبدالمالک الحوثی ہیں۔ انصاراﷲتنظیم کا بنیادی نعرہ<Motto>ــ" اﷲ اکبر ، امریکہ مردہ باد ، اسرائیل مردہ باد ، یہود پر لعنت،اسلام فتح مند رہے!" ہے جو اس تنظیم کے مقاصد اور اہداف کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔اور شاید اسی نعرے کی وجہ سے آج اس تنظیم کو سخت سے سخت مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن تحریکوں نے بھی دنیا کے سامراجی اور استعماری طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا شعار بلند کیا اور ان کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کیا ،انہیں ہر طرح کے سازشوں اور مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انصاراﷲکی طرف سے انقلابی کونسل اور عبوری حکومت <Interim Government>کی تشکیل کے بعدیمن کے مستعفی صدر نے سعودی بادشاہ اور بعض دیگر عرب ،خلیجی بادشاہوں کے ایماء پر 21فروری2015ء کو اپنا استعفی واپس لینے کا اعلان کیا اور اپنے کچھ وفادار ساتھیوں کو بلا کر عدن شہر کو ملک کا عبوری دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے پھر سے یمن کا صدر ہونے کا دعویٰ کیا۔
یمن کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے سعودی بادشاہ نے یمن کی انقلابی حکومت کو جس نے کچھ عرصے کے بعد انتخابات کرنے کا اعلان بھی کیا تھا،اپنی بادشاہت<Monarchy>کیلئے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف اپنے بعض پٹو خلیجی بادشاہوں کو ملا کر ایک جنگی اتحاد> <War Allienceتشکیل دی۔اس مقصد کی خاطر سعودی عرب ایک خطیر رقم خرچ کر رہا ہے۔سعودی اتحادی فوج نے یمن کی عوامی انقلابی حکومت کو بزور بازو ختم کرنے کیلئے 26مارچ 2015 ء کو فضائی اور زمینی حملے شروع کیا۔اس حملے کا مقصد خود سعودی عرب اور خطے کے دیگر خلیجی عرب ممالک کی بادشاہتوں کو بچانا ہے کیونکہ سعودی سرحد سے متصل ملک یمن میں ایک اسلامی جمہوری <Islamic Republic>نظام نہ صرف سعودی بادشاہت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خطے کی دیگر بادشاہتوں کیلئے بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یمن میں اسلامی جمہوری نظام حکومت کے قیام سے سعودی عرب اور خطے کے دیگر خلیجی ممالک کے عوام جو کئی عرصے سے بادشاہتوں کے قید و بند میں زندگی گزار رہے ہیں اپنے ممالک میں بھی اسلامی جمہوری نظام کیلئے قیام کریں گے اور عوامی بیداری کی یہ لہر شدت اختیار کرسکتی ہے۔لہٰذا اس ٖفوجی اتحاد کی پوری کوشش ہے کہ یمن کی انقلابیوں کو شکست دے کر پھر سے اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسلط کرتے ہوئے عوامی بیداری <Public Awareness>کے اس عظیم لہر کو روکیں۔سعودی اتحادی افواج کے حملوں سے اب تک تیرہ ہزار معصوم شہری شہیدجبکہ تیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تربچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔اس مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے یمن کی بنیادی ڈھانچہ <Infrastructure>تباہ ہوا ہے جبکہ ملک بری طرح غذائی اور طبی بحرانوں کا شکار ہے۔یمن جنگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور اس کے آلہ کار دیگر میڈیا ذرائع کا کردار نہایت غیر منصفانہ اور شرمناک ہے۔آپ نے بھی بارہا سنا ہوگا کہ ان میڈیا ذرائع کے اوپر یمن کی انقلابیوں) جن کی اکثریت حوثیوں پر مشتمل ہے( کیلئے لفظ "باغی"استعمال کیا جاتا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے اور اس سے بعض ذرائع ابلاغ کی اصل چہرہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔حوثی 2000 سالوں سے یمن میں مقیم ہیں اور ان کی سیاسی تنظیم"انصاراﷲ" نہ صرف ملکی طور پر رجسٹرد ہے بلکہ اسے باقی تمام مکاتب فکر خصوصااہل سنت ،سول سوسائٹی اوریمن کے 60 فیصد سے زیادہ سرکاری افواج کی حمایت بھی حاصل ہے جو اس بات کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ یہ لوگ نہ صرف باغی نہیں ہیں بلکہ ملک کے وفادار بھی ہیں۔ حوثیوں کے باغی نہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اب تک یمن میں انقلابیوں کے خلاف نہ تو کوئی بڑا عوامی مخالفت <Public Resistance>سامنے آئی ہے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل عام ہوا ہے۔ اگر حوثی باغی ہوتے تو شام و عراق میں جس طرح باغی داعش<ISIS> کے ہاتھوں لاکھوں بے گناہ نسانوں کی قتل عام ہوا ،اسی طرح یمن میں بھی ہوتا۔باغی تو انہیں کہا جاتا ہے جو کسی جائز اور درست اکثریتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جبکہ یمن کے انقلابی تو صرف اپنے ملک کی دفاع کر رہے ہیں اور ملک کو استعماری قوتوں کی چنگل سے نجات دینا چاہتے ہیں اورملک کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے ان کی تعداد 75فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت یمن کے انقلابی گارڈز،رضا کار عوامی دستے اور سرکاری فوج اندرونی محاذ پر ملک کے مقبوضہ علاقوں کو القاعدہ کے دہشتگردوں اور منصور الھادی کے وفادار فوجیوں سے آزاد کرانے کیلئے بر سرپیکارہیں جبکہ بیرونی محاذ پر جارح سعودی اتحاد کے فوجیوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔اس وقت یمن کے اکثریتی علاقوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہے جبکہ عدن شہر سمیت چند دیگر علاقوں پر منصور الہادی کے فوجیوں اور القاعدہ دہشتگردوں کا قبضہ ہے تاہم انقلابی افواج کی سخت مزاحمت سے مقبوضہ علاقوں سے ان دہشتگردوں کا قبضہ ختم ہو رہا ہے۔یمن کی عوامی انقلابی حکومت نہ صر ف خلیجی بادشاہتوں کیلئے خطرہ ہے بلکہ دنیا کے دیگر استعماری طاقتوںامریکہ،اسرائیل ،برطانیہ اور فرانس کیلئے بھی خطرہ ہے اس لیے برائے نام حقوق انسانی <Human Rights>کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ قوتیں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ سعودی اتحادی افواج کی فنّی ومالی مددort> <Financial & Logestic Suppبھی کر رہی ہیں۔تاہم ان کو سوائے معصوم شہریوں کے قتل عام کے سوا نہ صرف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ سعودی عرب کی معیشت بری طرح تباہ ہونے کے ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی بار عالمی بینک<World Bank>سے قرض لینا بھی پڑا ہے۔عالم اسلام کی ماتھے پر بد ترین داغ یہ ہے کہ یمن پر حملہ کرنے والے سارے عرب ممالک مسلمان ہیں ۔بعض حلقوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ انقلابیوں سے مقامات مقدسہ یعنی مکہ اور مدینہ کو خطرہ لاحق ہے جو کہ ایک سراسر غیر منطقی بات ہے کیونکہ یمن کے انقلابی عوام بھی مسلمان ہیں اور ان کو بھی دنیا کے دیگر تمام مسلمانوں کی طرح مکہ و مدینہ عزیز ہیں۔یہ شور و غل محض آل سعود کی بادشاہت کو بچانے کیلئے ہے جو ان کی نمک خواروں کی طرف سے کیا جارہا ہے!
لہٰذا ہمارے ارباب اختیار کو چاہیے کہ بادشاہتوں کی بقاء کیلئے لڑے جانے والے اس جنگ سے دور رہیں اور اپنے وطن عزیز کی ارضی و نظریاتی سالمیت کو خطرے سے دوچارنہ کریں۔
تحریر۔۔۔۔محمد طحٰہ منتظری
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹریٹ میں یوم علیؑ کی مناسبت سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا ہے کہ کل ملک بھر میں یوم علی ؑ کے مناسبت سے ماتمی جلوسوں اور مجالس عزاء کے ہزاروں اجتماعات ہونگے،پنجاب بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں جلوس ہائے شہادت مولائے کائناتؑ و مجالس عزاء برپا ہونگے،پنجاب حکومت نے عرصہ دراز سے ملت تشیع کیخلاف انتقامی کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں،ملک بھر کے دیگر صوبوں کی نسبت جہاں جہاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے وہاں وہاں ملت جعفریہ مشکلات کا شکارہیں،حکومت پنجاب ہم سے ہماری مذہبی آزادی جو آئین پاکستان نے ہمیں دے رکھی ہے سلب کرنے پر تلی ہوئی ہے،ہمیں بتایا جائے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پاکستان میں ان کے اولادوں پر زمین تنگ کرنے کا ایجنڈا ان کو کہاں سے ملا ہے؟پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی رہنماوں پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی قائم مقام سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب،علامہ سید ملازم حسین نقوی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم پنجاب،علامہ حسن ہمدانی ،سید حسن کاظمی،رانا ماجد علی،رائے ناصر علی،علمدار حسین،زاہد حسین مہدوی سمیت بانیاں مجالس و جلوس ہائے عزاء شریک تھے۔
انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی اور ابھی بھی ہم دہشتگردوں کے نشانے پر ہے،نیشنل ایکشن پلان کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دوھول جونک دیا ہے،پنجاب میں مسلم لیگ ن اور ملت جعفریہ کے نسل کشی کرنے والوں کا گٹھ جوڑ اس بات کی غمازی ہے کہ یہ نیشنل ایکشن پلان دراصل مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین کے لئے مختص ہیں،ہمیں اس بات پر نہایت تشویش ہیں کہ کراچی جیل سے لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کو فرار کرانے کا ضرور ایک ایجنڈا ہوگا،اور ان دہشتگردوں کے فرار ہونے کیساتھ ہی کراچی میں ملت جعفریہ کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوچکی ہے،اتنی ایجنسیاں اور سکیورٹی اداروں کے حسار سے جب اتنے خطرناک دہشتگرد فرار ہوسکتے ہیں تو ایسے نگہبان ہماری جان ومال کی حفاظت کیسے کریں گے؟جلوس ہائے عزاء پر کیمیکل اور تیزاب کے ذریعے حملہ کرنے کی تیاری کرنے والے گروہ کی گرفتاری کا اعلان ہوا ہے۔ہمیں بتایا جائے کہ ان کا تعلق کس گروہ سے تھا ان کے سہولت کار کون تھے؟
ہم نے چوبیس ہزار شہداء قربان کیے لیکن ملکی سلامتی اور قانون سے کھیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی،ہم ملکی سلامتی کیخلاف کسی بھی اقدام اور قانون شکنی کو حرام سمجھتے ہیں،پنجاب میں ہم ایک طرف تکفیری دہشتگردوں کے لئے تر نوالہ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف پنجاب حکومت کی ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بھی ہم ہی نبے ہوئے ہیں،پنجاب سے ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے محب وطن علماء اور درجنوں نوجوانان کئی کئی مہینوں سے غائب ہیں،آخر ہم انصاف لینے کہا جائیں؟آیا پنجاب حکومت نے ہمارے شہداء کے کسی ایک قاتل کو نشان عبرت بنایا؟نہیں ہمارے قاتلوں کے سرپرست پنجاب حکومت کے صفوں میں بیٹھے ہیں۔
پریس کانفرنس سے ایم ڈبلیوایم پنجاب کے قائم مقام سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہاکہ عزاداری سید شہداء ہماری شہ رگ حیات ہے جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسطرح ہم عزاداری سید شہداء کے بغیر زندہ رہنے کو موت تصور کرتے ہیں،لھذا پنجاب حکومت کی طرف سے مختلف اضلاع میں دفعہ144 کے نام پر جلوسوں کو بندکرنے کی سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے،عزاداری کے جلوسوں پر دفعہ 144 لاگو ہی نہیں ہوتے،لھذا ہم آپکے توسط سے حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو یہ آگاہ کرتے ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں سے باز آئیں جس سے ملک بھر میں انتشار کا سبب بنے،ہم حکومت کو ٹیکس اداکرتے ہیں اور ہماری مذہبی رسومات اور عبادات کے لئے سکیورٹی کی فراہمی حکومت اور انتظامیہ پر فرض ہیں،مسلم لیگ ن کی حکومت کان کھول کر سن لیں ذکر محمد و آل محمدﷺ کو چودہ سو سال گذرے گئے اور کوئی بھی یزیدی پیروکار اس پر قد غن نہیں لگا سکے تو انشااللہ یہ بھی ناکام رہیں گے،ہمیں مجالس کے لئے وقت کی تعین کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں یہ ہماری عبادات ہیں اور اس کے شروع اور اختتام کے ٹائم کا تعین بھی ہم خود کرینگے،ایسے معاملات میں ایف آئی آرکی اندراج کو ہم مکمل مسترد اور متعصبانہ فعل سمجھیں گے،جو ہماری مذہبی آزادی کیخلاف اور آئین پاکستان سے متصادم عمل ہے،ہم پاکستان میں بستے ہیں پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس مادر وطن کے ہم وارث ہیں،ہمارے ساتھ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیریوں جیسا سلوک بند کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ انشااللہ حکومت پنجاب اور مسلم لیگ ن کے ان متعصبانہ کاروائیوں کا جواب ہم آنے والے الیکشن میں عوامی طاقت کے ذریعے دینگے،اور آپ اس کا مشاہدہ کرینگے،ن لیگ اپنی آقاوں کی خوشنودی کے لئے پاکستان میں مسلکی منافرت کو ہوا دے رہی ہے،ملکی سلامتی کے ادارے اس حساس صورت حال پر اپنا کردار ادا کر یں اور ملک دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائیں،پاکستان ہمارا وطن ہے اور وطن کی حفاظت اور سلامتی کو ہم اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں،پنجاب میں داعش کی وجود سے انکار کرنے والے اب کہاں ہے ہم چیخ چیخ کر کہتے رہے داعش نے ملک میں اپنی جڑھیں گاڑ دی ہے لیکن کسی کو ٹس سے مس نہیں ہوا ،پنجاب حکومت کی صفوں میں دہشتگردوں کے سہولت کار اور سیاسی سرپرست چھپے ہوئے ہیں،کالعدم شدت پسند گروہ کو مکمل پرٹول دیا جارہا ہے،یہی گروہ ہماری نسل کشی میں پیش پیش رہے ہیں اور اب بھی ان کا یہ دہشتگردانہ سلسلہ جاری ہے،ہم یوم علیؑ پر کسی بھی قسم کی قد غن کو مسترد کرتے ہیں،اور ملت جعفریہ کے لاپتہ افراد جو پنجاب سے لاپتہ ہیں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔