وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر استعماری آلہ کاروں کی کوئی جگہ نہیں۔ ہم ظلم کے مخالف اور مظلوم کی حامی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ہمارا اصولی موقف ظلم اور ظالموں کے خلاف تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام سیمینار بعنوان ’’وحدت اسلامی اور استحکام پاکستان‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے شیعہ سنی اتحاد کو عملی شکل دی ہے۔ ایسے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جو تکفیریت کی تقویت کا باعث ہو۔ پاکستان میں پہلی اکثریت وہ اہلسنت ہیں جو لبیک یارسول اللہ ﷺ اور لبیک یاحسین ؑ کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتی اہلکار کی جانب سے بےگناہ پاکستانی شہری کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملوث اہلکار کو قانون کے مطابق سزا سنائی جائے، انہوں نے قاتل سفارتکار کی رہائی کی شدید مذمت کی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل )خواجہ آصف کے اعترافی بیان کے بعد بین الاقوامی خبررساں اداروں نے اپنا جنرل راحیل شریف کے اس 34 رکنی سعووی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کی تصدیق کردی ہے۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر یمن پر حملے کیلئے بنایا گیا تھا اور بعد ازاں اسی کو مسلم دنیا کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے عسکری اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس کا خالق اور مالک سعودی عرب اور بالخصوص سعودی ولی عہد سلمان ہے جو خطے میں اپنی انتہاپسندانہ پالیسی کی وجہ سے معروف ہے۔ اس تعیناتی نے جہاں راحیل شریف کے بطور آرمی چیف کردار پر بعض سوالات کا جواب دے دیا ہے، وہاں سعودی عرب کی پاکستانی امور میں مداخلت کو بھی واضح کردیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد سعودی شاہی خاندان خصوصی جہاز کا پاکستان سے راحیل شریف کو لیکر سعودی عرب پہنچانا، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ ایک دن کی بات نہیں تھی بلکہ کھچڑی بہت دیر سے پک رہی تھی۔ آل سعود راحیل شریف سے بہت سی ضمانتیں اور رعایتیں پہلے ہی حاصل کرچکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آل سعودنے راحیل شریف کو ان خدمات کا صلہ اس نئے عہدے کی صورت میں دیا ہے۔ جس کے غبارے سے اس کے قیام سے پہلے ہی ہوا نکل چکی ہے۔ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں اس معاہدے کی تائید تو کردی ہے لیکن اس کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

سبکدوش ہونیوالے جنرل کو ریٹائرمنٹ کے دوسال بعد کسی ایسی نوکری کیلئے پہلے حکومتی اداروں سے اجازت لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جو یقیناً آل سعود کے مطالبے پر جاری کی گئی ہوگی۔ 34رکنی اتحاد ایک عجیب سراب، دھوکہ اور مسلم دنیا کے ساتھ غداری کی علامت ہے کہ آج تک اس اتحاد نے مسئلہ فلسطین کے عسکری حل پر بات نہیں کی۔ اسرائیلی مظالم کے مقابلہ میں فلسطینیوں کی عسکری حمایت کا عندیہ نہیں دیا۔ اسرائیلی جارحیت کے شکار مسلم ممالک کی مدد کرنے کا اعلان نہیں کیا اور اردن، شام، لبنان اور مصر کی زمینوں پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے حوالے سے عسکری مدد کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ عالم اسلام کے قدیم ترین اور عظیم ترین مسئلہ آزادی مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کیلئے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ تو پھر یہ اتحاد ہے کن مقاصد کے حصول کیلئے۔؟ مسلم ممالک میں بیرونی جارح قوتوں کی موجودگی بالخصوص امریکہ و اسرائیل کے اڈوں کے خاتمہ کیلئے بات تک نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کی برما میں نسل کشی پر کسی جوابی عسکری اقدام کا اعلان نہیں کیا گیا، تو یہ آیا یہ اتحاد صرف سعودی اور اس کے اتحادیوں کے اہداف کے حصول کیلئے تیار کیا گیا ہے۔؟؟ تو پھر ایسے اتحاد میں پاکستان کی اس درجہ شمولیت انتہائی باعث تشویش اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش محسوس ہوتی ہے۔

بطور پاکستانی ہمارے لیے مسئلہ کشمیر انتہائی اہم ہے۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے اور پاکستان کی شہ رگ ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مودی حکومت سے بے نظیر تعلقات کے بعد ان ممالک سے مسئلہ کشمیر میں کس طرح کی مدد کی بات بھی بعید نظر آتی ہے، جبکہ 34 رکنی اتحاد نے مسئلہ کشمیر کے متعلق اشارے کنائے میں بھی بات کرنے سے انکار کردیا ہے، تو پھر پاکستان کے سابق آرمی چیف کا وزن سعودی اتحاد کے پلڑے میں ڈال کر کس کی خدمت کی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ راحیل شریف کو حق حاصل کہ وہ کوئی ملازمت کرے، لیکن حالیہ قٖضئیہ سادہ نہیں، بلکہ انتہائی اہم ہے۔ راحیل شریف بطور آرمی چیف ملک کے اہم ترین رازوں کے امین رہے ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت سمیت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے سرخیل رہے ہیں۔ کیا ان سب رازوں کو آل سعود کو منتقل کرکے وطن عزیز کے خلاف ایک نئی خیانت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ راحیل شریف سمیت دیگر ذمہ داران نے ملکی رازوں اور ملکی شخصیات کا بہت کم قیمت پر سودا کیا ہے۔ بلی تھیلے سے باہرآتی جارہی ہے اور نواز حکومت کی کرپشن پر راحیل شریف کی خاموش حمایت، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کی پردہ داری اور ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرکے پاک چائینہ اکنامک کوریڈور پر کاری ضرب لگانے کی کوششوں پر موجود سوالات کے آسان جوابات ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کیلئے اس سطح کی سازش کی جا سکتی تھی، جو اب آشکار ہو رہی ہے۔ راحٰل شریف کو مستقبل قریب میں ایسے بہت سے سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔ تھوڑی سی روشنی اس نام نہاد اتحاد پر ڈالتے ہیں کہ جسے کسی صورت میں ایک باقاعدہ اور باضابطہ اتحاد امہ یا الائنس قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس اتحاد کے متعلق چند اہم نکات:
1۔ داعش کے خلاف جنگ لڑنے والے مسلم ممالک یعنی عراق، شام، ایران، لبنان وغیرہ اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ان کو شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
2۔ داعش، القاعدہ، طالبان، النصرہ، بوکوحرام اور دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں کے حامی، سہولت کار، خالق اور سپورٹر ممالک اپنی اسی پالیسی کے ساتھ صرف اس اتحاد کا حصہ ہیں، بلکہ اس کے پالیسی ساز بھی ہیں۔
3۔ اس اتحاد نے کشمیر اور فلسطین پر کوئی عسکری پالیسی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
4۔ اس اتحاد میں شامل ممالک کی اکثریت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی ہے۔
5۔ اس اتحاد میں شامل اور فعال ممالک براہ راست امریکی بلاک کا حصہ اور اس کی پالیسی کے سہولت کار ہیں۔
6۔ اس اتحاد کا ضابطہ کار، اہداف غیر معینہ ہیں جبکہ اس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے ۔ جو یمن جیسے مسلم ممالک پر جارحیت کا مرتکب ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ اتحاد امت مسلمہ کے خلاف استعمال ہوگا۔
7 ۔ یہ اتحاد خالصتاً فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہے اور فقہ جعفریہ کی اکثریت رکھنے والے ممالک اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔

جنرل راحیل شریف جو بطور آرمی چیف اداروں کو اپنی پروجیکشن کیلئے استعمال کرنے کے حوالہ سے معروف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے کردار سمیت ملک بھر راحیل شریف کی شخصیت سازی کیلئے فوجی اداروں کا استعمال سب کے علم میں ہے۔ ان کی اس متنازعہ، فرقہ ورانہ، عسکری اتحاد کیلئے نامزدگی نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس فیصلہ کا کم از کم نتیجہ ملک میں جاری شورش میں اضافہ، سی پیک کیلئے رکاوٹوں میں اضافہ، نیشنل ایکشن پلان کی تدفین سمیت ملکی سالمیت کیلئے سنگین خطرات کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ وطن عزیز کے سلامتی کے ذمہ داروں اور پاریمنٹ کو اس مسئلہ میں کردار ادا کرنے ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ رجحان کہ ہمارے اہم جرنیل اور خفیہ اداروں کے سابق سربراہوں رقم اور کچھ دیگر منافع کے حصول کیلئے خود کو یو اے ای، قطر اور سعودی عرب کا نوکر بنا رہے ہیں۔ جس میں ہماری اپنی سلامتی کیلئے خطرہ موجود ہے۔

بس یہ کہتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص نئی ملازمت کیلئے کسی بڑی کمپنی میں انٹرویو دیتا ہے، تو فیصلہ میز پر موجود وہ فائل کرتی ہے کہ جس میں اس کا سابقہ تجربہ، فعالیت، کارکردگی اور معلومات کی تٖصیلات درج ہوتی ہیں۔ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عسکری اتحاد کی سربراہی کی نوکری کیلئے جنرل راحیل شریف نے کیا فائل جمع کرائی ہوگی۔ کن تجربات، معلومات اور فعالیتوں کو اپنی کارکردگی میں شامل کیا ہوگا تاکہ اس نئی ملازمت کو حاصل کرسکیں اور سابقہ تجربات کو نئی ملازمت میں استعمال کرسکیں۔ وطن عزیز کے اہم ترین سلامتی کے اداروں میں کام کرنے کی معلومات اور کارکردگی کسی دوسرے ملک یا اتحاد کو منتقل کی جارہی ہے اور یہ کام قلیل رقم اور عارضی شہرت کے حصول کیلئے کیا جارہا ہے تو وطن سے اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی۔؟ وطن وزیز میں محب وطن قوتوں، جماعتوں اور اداروں کو اس خیانت کے خلاف رائے ہموار کرنے اور اپنے غم و غصہ کے اظہار کیلئے میدان میں آنا ہوگا تاکہ ملک کے مستقبل کی حفاظت ممکن ہوسکے۔

تحریر: سید ناصر شیرازی
مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل، ایم ڈبلیو ایم

وحدت نیوز (آرٹیکل) جہاں اتحاد بین المومنین اہم ہے اور اس حوالے سے اپنے ہمارے دوست کا م کر رہے ہیں وہیں اتحاد بین المسلمین کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس حوالے سے جو کام ہو رہا ہےاسےجاری رہنا چاہیے یہ ایسے ہی ہے کہ یہ دونوں اصول ہیں کہ جن کو زندہ کرنےاور اپنے اندر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ متصادم نہیں ہیں ۔اور نہ ہی ایک دوسرے کی جگہ لے رہے۔اپنی اپنی جگہ پر کام جاری رہنا چاہیے اس میں جو رول پلے کرنے والاانداز ہے وہ مختلف ہے۔لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیںاتحاد بین المومنین کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کو بھی عملی طور پر دیکھانا ہوگا۔اتحاد سے مراد انضمام نہیں بلکہ اتحاد ہی ہے ۔ انضمام یعنی ایک دوسرے میں ضم ہو جانا اور اتحاد یعنی اپنے اپنے مکتب فکر پر عمل پیرا رہتے ہوئےاور دوسروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی خدمات کو انجام دینا ۔ تاکہ معاشرہ ہر قسم کے تفرقہ سے پاک رہے ۔
    
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر ہمارا اتحاد بین المسلمین کے حوالے سےویژن کیا ہے؟پاکستان میں بنیادی طور پراگر ہم کہیں کہ اسوقت چار یا پانچ مکاتب فکر  موجود ہیں ۔ جس میں اہلسنت، اہلحدیث، اہلسنت دیوبندی اور اہلسنت بریلوی حضرات ہیں شیعہ سائیڈ پر فقہ جعفریہ لیڈ کر تی ہے اور اس کے بعد اسماعیلی حضرات فقہ جعفریہ کے ساتھ آتے ہیں ۔ تو ہمارا پاکستان کے اندر کام کرنے کا ویثرن یہ ہے کہ ہم اسوقت کسی بریلوی ، دیوبندی یا شیعہ تفریق کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ افراد جو تکفیری ذہن رکھتے ہیں یا وہ گروہ یا وہ پارٹیاںجو تکفیر کی قائل ہیں ان کو ہم اس سسٹم سے جدا کریں اور دیگر وہ تمام مکاتب فکر جو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں ایک دوسرے کو آزادی اظہاررائےاور اپنے مکاتب فکر کے مطابق آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیتےہیں اوردوسرے مکاتب فکر کا احترام کرتے ہیں، ذہنی اور فکری طور پر ان کا الائنس ڈولیپ کریں ۔یہ سوچ دیوبندی حضرات کے اندر بھی پائی جاتی ہے ،بریلوی حضرات اور اہلحدیث کے اندر بھی موجود ہے ۔وہ سارے لوگ جو اتحاد بین المسلمین کےلئے کوشاں ہیں ۔ اس کا حصہ ہیں ۔ اور وہ سارے تکفیری گروہ جو نظریاتی طور پراور آئیڈیالوجی کے اعتبار سےایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں اور جن کی سوچ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہیںسمجھتے خواہ کسی بھی مکتب فکرسے اس کا تعلق ہو ۔ہم چاہتے ہیں کہ انہیں آئسولیٹ کیا جائے انہیں تنہا کیا جائے اور ان کو اپنے مکتب فکر کے اندر بھی  پذیرائی حاصل نہ ہونے پائے۔وہ اپنے مکتب فکر کو بھی بدنام کرنے کا سبب بن رہےہیں اس کی بھی توہین کرنے کا باعث ہیں ۔ لہذا ان کے حوالے سے کلئیر سٹینڈ لیناہو گا ۔تمام مکاتب فکر کے وہ معتدل لوگ جو تکفیر کے قائل نہیں ہیں ان کو مشترکات پر اکھٹا کرنا ہو گا اور اختلاف رائے کا حق دیتے ہوئے تمام مسالک کا احترام کرنا ہو گا جو اپنے انداز سے آزادی سےاپنے مسلک پر عمل کرنا چاہیںیہ وہ روح ہےاتحاد کی جس کے لئے ہمیں پاکستان کے اندرجو کام بھی کرنا ہے اسے اس کی اصل روح (اتحاد)کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا ہے۔
    
 اس حوالے سے ہم نے جو قدم اٹھائے ہیں۔جیسے ہم نے نہیں دیکھا بڑی پارٹی کون سی ہے؟بڑی شخصیت کون سی ہے؟ہم نے یہ دیکھا ہے کہ وہ کون سے گروہ ہیں ؟ جو تکفیری گروہوں کو سپورٹ نہیں کرتے خود تکفیری نہیں ہیں لیکن تکفیری گروہوں کو سپورٹ بھی نہیں کرتے ان کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملاتے ان کے ساتھ ان کی ایڈجیسٹمنٹ نہیں ہے۔لہذا پہلے مرحلے میں ہم نے تمام مکاتب فکر میں سے ان گروہوں کی شناخت کی ہے کہ جو تکفیریت کے مقابلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے آمادہ ہیں اور ہم نے الحمداللہ اس کے اندربڑی ایچومنٹ حاصل کی ہےاور پاکستان میں جس میں سنی اتحاد کونسل، 30 جماعتوں کا ایک بڑا الائنس سنی تحریک اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف گروہ ان کے ساتھ مربوط تنظیمیں یہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئیں ہیں اور بہت سی شخصیات بھی شامل ہونا شروع ہوئیں ہیںجن میں بالخصوص دیوبندی حضرات میں سے وہ لوگ کہ جو تکفیریت کے قائل نہیں ہیں کہ جو وطن عزیزاور ملت کیلئےتکفیر کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں وہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئے ہیں توپہلے مرحلے میں ہم نے جو تکفیریت مخالف  تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ان مشترکہ اہداف پر اکھٹے کرناشروع کیا ہے۔
    
دوسرےمرحلے پر ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ غیر اعلانیہ ،غیر سیاسی اتحاد و وحدت کی فضاء پیدا کی جائے جس کے لئے ماحول بنایا ہے ۔ مختلف گروہوں کو اپنے ساتھ اکھٹا کیا ہےہم چاہتے ہیںکہ یہ گروہ اتنےمضبوط ہو جائیں ان کی آواز مضبوط ہو جائے کہ عملی طور پر تکفیریت کی حمایت کرنا پاکستان کے اندر مشکل امر ہو جائے اور اس کے جو سہولت کار حمایت کرنے والے ہیںان کے لیے بھی یہاںزمین تنگ ہوجائے ایسی معاشرتی فضاءقائم کرنی ہے ۔اب ہم اس اگلے مرحلے کی طرف گامزن ہیں ہمیں یقیناً یہ اس کے لئے اور کام بھی کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ وہ چیزیں جس کی وجہ سے تکفیریت کو مواد ملتا ہے جیسے توہیں آمیز مواد(لٹریچر،خطاب،گفتگو)یا وہ توہین آمیزحرکات جو ہمارا شیلٹر لے کر کی جائیں جو فقہ جعفریہ کا شیلٹرلے کر کی جائیں لیکن اس سےتکفیریت کے لیے بنیاد مضبوط کی جائےاور اس خطاب ،لٹریچر یا گفتگو کو تکفیری لوگ بنیاد بنا پیش کریں ، اور پھرتکفیری گروہ آپ کے خلاف ماحول سازی کرے، اس کو بھی روکنا ہے ۔ اس کی اجازت بھی نہیں دینی ہوگی ۔ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنے کے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔ جو یقیناً اتحاد بین المومنین کی طرف بھی ایک قدم ہے اس میں اصلاح بھی ہے کہ ہم نے اپنا اجتماعی ویژن درست کیا ہےمیں صرف اس میں اتنا عرض کروں گاکہ اس سلسلے میں ذاکرین، خطباء ، علماء ،ماتمی انجمنوں بالخصوص بانیان مجالس ان کے ساتھ ہماری بات چیت اور ڈسکشنز اور انڈرسٹینڈنگز ڈوویلپ ہوئی ہیں ۔اور بعض نےہمارے ساتھ یاداشتیں لکھی ہیں بعض نے ایگری مینٹس اس حد تک کیے ہیں کہ ضابطہ اخلاق تک مرتب کیے ہیں اس کے اندر ہم نے تین نقاط کو واضح کیا ہے۔ان کی حفاظت کی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا قدم ہے۔ ہم نےتکفیریت سے اس کی غذا چھین لی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس کے اندر پہلا نقطہ یہ طے کیا ہے جس پر پاکستان کےنامور ذاکرین نے اور اہم بانیان مجالس نےبھی دستخط کیے ہیںکہ ہم اپنی مجالس عزاء اور اپنے دینی اجتماعات کو کسی بھی مکتب فکر کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی اپنے داخلی گروہی تقسیم ہے اس کو بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے اور تیسرا اس کے اندر یہ نقطہ ہے کہ انشاء اللہ پاکستان اور پاکستانیت اور پاکستانی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہم اپنے اجتماعات کے اندر گفتگو کریں گے تو الحمداللہ اس کے اندر بھی بہتری آئی ہے اب دشمن کو ایسا مواد نہیں ملتا ہےیا کم ملتا ہے جس کی بنیاد پر وہ فضاء سازی کر سکے اور اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھاسکے۔ پھر وہ ادارے  جو دہشت گردی کے مقابلے میںبنے ہیں میں یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ جامع ہیں لیکن وہ ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیںتکفیریت کی روح کے خلاف ہے کہ شیعہ اور سنی مل کر بیٹھیں ملی یکجہتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے اور ایسامشترکہ فورمزسے کہ جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ بیٹھتے ہیں یہ تکفیریت کے خلاف ہے تو ایسےفورمز کو بھی مضبوط کرنا شروع کیا ہےمجلس وحدت مسلمین، ملی یکجہتی کونسل کے بانیان میں سے ہیں اور اسی طریقے سے ایسے کئی فورمز غیر اعلانیہ طور پر وجود رکھتے ہیں جس میں شیعہ اور سنی مل کر بیٹھتے ہیں یو ں تکفیریت کے لیے فضاء تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔اور اسی میں وطن عزیز اور ملت پاکستان کی کامیابی ہے ۔
    
 اگلے مراحل میںوہ قوانین جو پاکستان کے اندرتکفیریت مخالف بنے ہیں ابھی کچھ نئے قوانین بھی متعارف ہوئے ہیں ان کے اوپر ان کی روح کے مطابق عمل درآمدکرانے کی ضرورت ہے اور اسی طریقے سے ضرب عضب پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو نا چاہیے تاکہ کوئی شخص کسی دوسرے کی تکفیر اور نفرت انگیز مواد کے ذریعے سے پاکستان کی فضاء کو مسموم نہ کرسکے اس پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنےا تحادیوں کے ساتھ مل کر فضاء سازی کی ہے اور اس فضاء سازی کے نتیجے میں کئی چیزیں بہتر ہوئی ہیں اورنفرت انگیز مواد میں کافی کمی ہونا شروع ہوئی ہے اور اس کا جو مس یوز ہونا تقاریر کی صورت میں تھا ،اس میںکمی ضرور آئی ہے یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ ختم ہوا ہے ابھی بھی اجتماعات میں مکتب اہل بیتؑ کے خلاف نعرے لگتے ہیں لیکن اب اس پر آواز بلند ہوتی ہے اس پر سیاسی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں مذہبی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں اور ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں رہی ہےبڑی تیزی سے ان کو انشاء اللہ تعالیٰ تنہا کرنے کی طرف جارہے ہیں ۔ یہ ایک ایسا کام ہے کہ جس میں آئینی اور قانونی گنجائشیں موجود ہیں ۔ہم تمام گنجائشوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے چیزوں کو آگے بڑھائیں پھر ایک بہت بڑا کام آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نےبھی تکفیر یت کے لیے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دی ہے ازواج مطہرات اوراصحابہ کرام کے حوالے سے ایک تاریخی فتویٰ صادر کیا ہے ’’ اہلسنت کے مقدسات (ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ) کی توہین کو انہوں نے حرام قرار دے دیا ہے ‘‘ اس کے بعد ہمارے ہاں بھی یقینی طور پر اصلاح ہوئی ہے۔بہر حال کچھ لوگ تکفیریت پھیلانے کے حوالے سے اس سے استفادہ کرتے تھے جب تشیع کی اتنی بڑی لیڈر شپ سٹینڈ لے لیتی ہے تو اس کے بعد ان کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے جو تکفیریت کو بڑھاوا دیں جو اس میں سب سے بڑی سپورٹ ہمیںآغا کے اس فتویٰ کی روشنی میں ملی ہے۔     

ظاہر ہےیہ ایک اتحاد کی جانب بہت بڑا سٹپ تھا ۔ قدم بہ قدم ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ایک چیز جو ہمارے پاس بہت اہم ہے اس حوالے سے بھی ہم کچھ ڈوویلپمنٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ عمان معاہدہ ہے جو اہلسنت کی طرف سے ایک پیش کش ہے۔کنگ آف جورڈن کی طرف سے اور اس کے بعد اس پر تقریباً اہل تشیع،اہل تسنن اور اہل حدیث میں سے عالم اسلام کی برجستہ شخصیات نے اس کے اوپر دستخط کیے ہیں یہ اہلسنت کی طرف سے وہ پہلا معاہدہ ہے جس میںمسلمان کی تعریف کی گئی ہے اور اس میں پانچ مکاتب فکر معین کیے گئے ہیں جس میں فقہ جعفریہ کو اسلامی مکتب فکر کے طور پر معین کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان تمام مکاتب فکر میں سے کسی ایک کے اوپر بھی عملدرآمد کرتے ہوئے صحیح مسلمان رہ سکتے ہیں اس کے علاوہ جوکرتا ہےوہ دائرہ اسلام میں نہیں ہے تو اس کے اندر باقاعدہ تعریف کی گئی ہے کہ یہ تمام مکاتب فکراسلامی مکاتب فکر ہیں  اس میں اہلسنت کے مکاتب فکر ہیں حتیٰ اہلحدیث ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے معین ہے یہ ایک پہلا بڑا ڈاکومینٹ ہے جس پر مراجع کے بھی دستخط اور توثیق موجود ہے اسی طرح سے عالم اسلام مصر،آفریقی ممالک اور بعض دیگراسلامی ممالک کے بڑےجید مفتیان اعظم کے دستخط ہیں تو یہ بھی ایک ڈاکومینٹ ہے عمان ڈیکلریشن کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی بھی ایک ویلیو ہے اوراقدام اہلسنت کی طرف سے کیا گیا ہے تو پاکستان میں اہلسنت بھائی ہمارے ساتھ اتحاد کے عملی اقدام کو آگے بڑھارہے ہیں ۔
    
تو اب ہمارا ویژن یہ ہے اگر ہم عملی اتحاد کی بات کریں توآئندہ ماہ ربیع الاول آرہا ہے جیسے ابھی ماہ محرم و صفر تھاتواس میں اہلسنت بھائیوںنے ساتھ دیا ہے۔پاکستان میں کہیں کوئی تفرقہ پیدا نہیں ہوا ہے۔مجالس عزاء اور عزاداری سید الشہداء کے جومعاملات ہیں ان میں کہیں بھی پاکستان کے اندر نفرت پیدا نہیں کی ہےلو گ ایک ساتھ  ہیں۔اہلسنت کو اپنائیت محسوس ہوئی ہے کوئی ایسا ایونٹ نہیں ہوا ہے کہ جس سے کوئی دہشت گردوں کو یا جو تکفیریت والوں کو مواد ملا ہولیکن ابھی ربیع الاول کا مہینہ آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ تو آپ دیکھیں گے یہ بھی شیعہ سنی اتحاد کا مہینہ ہو گااور محمدعربی ﷺکو غلام ماننے والے شیعہ اور سنی مل کران ایام کو منائیں گے یہ جو مہینہ شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے ایک عجیب تاثیر رکھتا ہو گا۔تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ تین مہینے تو عملاً شیعہ سنی اتحاد کے ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ہمیں توقع ہے انشاء اللہ تعالیٰ کرم کریںگے۔ ہم اس وثر ن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حمایت کرنے والےلوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے بنیادی مٹریل میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ ہمارے ساتھ گروہ انجمنیں، جماعتیں ہیں ملنا شروع ہوئیں ہیں ان کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہوئی ہے عوام کے اندر بھی مقبولیت بڑھی ہے اس کے نتیجے میں مجموعی فضاءبھی بہتر ہوئی ہے اس کے جواثرات اور اس کی لہریں پارلیمنٹ کے اندر اورپولیٹکل کوریڈورز کے اندرسنائی دینے لگی ہیں۔
    
پاکستان ایک ایسا ملک ہے شیعہ اور سنی نے مل کربنایا اور اس کے اندر تکفیریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ایک اس موضوع کے اوپر کام کیا ہےکہ کون سے گروہ، ممالک اور آئیڈیالوجیز ہیں جنہیں تکفیریت کا آئیڈیا سوٹ کرتا ہے۔ان کو بے نقاب کیا جائےانکی پاکستان کے اندر مداخلت کم کی جائے جن میں بدقسمتی سے ایک بڑے ملک کا نام آتا ہے آل سعود کا نام آتا ہے کہ جنہوں نے پاکستان کے اندرشیعیت کے خلاف نفرت انگیز مواد پیدا کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
    
ابھی ایک تازہ سلسلہ شروع ہوا ہے حرمین شریفین بلکہ تحفظ آل سعود ہے ۔ حرمین شریفین کوکوئی خطرہ الحمداللہ نہیں ہے۔اور عالم اسلام اس کا پورا دفاع کرے کو تیار ہے۔لیکن آل سعود نے ایک فضاء بنائی ہے کہ اس کی بنیاد پر اہل تسنن اور اہل تشیع کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے ہمیں اس کا رستہ روکنا ہے ہمیں پاکستان کے اندر کسی بھی ملک کی مداخلت روکنی ہے پاکستان کے اندر فارن فنڈنگ روکنی ہے پاکستا ن کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔پاکستان کے اندر کسی مدرسے کسی انسٹیٹوشن اور کسی پارٹی کیلئے بیرونی فنڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور یہ بیرونی فنڈنگ اہداف کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ایک خطرہ بھی ہے
    
بالآخریہ معلوم ہے جو مزارات پر حملے ہوئے ہیں اورانہیں شرک کے مراکز قرار دیا گیا ہے ان کو بالآخریہ سوچ اور فنڈنگ آل سعود سےہو ئی ہے اور انہوں نے پہلے سعودی عرب کے اندر رسول ﷺکے اصحاب اور اہلبیتؑ کے مزارات کو مسمار کیا ہےاس کے بعد جو تفکر داعش کی صورت متشکل ہو ا ہے جو انہی سی مانوس ہے اس نے شام و عراق کے اندران مقدس مقامات کو مسمار کیا اور ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ داتا دربار سے لے کر عبداللہ شاہ غازیؒ تک اور ابھی جو شاہ نورانی ؒ کے مزار پر جو حملہ ہوا ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اس تفکر کے خلاف ہیں جو صوفیاء کا تفکر ہے جس کے نتیجے میں تمام مکاتب فکر مل بیٹھتے ہیں جس میں نفرتیں نہیں ہیں ۔جس میں محبتیں ہیں جس میں اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کیا جاتاہے۔ تو اس موضوع پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ہمیں پولیٹکل پروسیس کے نتیجے میں ہم بالآخر بڑی حد تک اس کو ایکسپوز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ سلسلہ نہیں روکا ہے اور اس پربیرونی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہو رہی ہے۔
    
 بالخصوص یمن کےمسئلہ پر پاکستان نے سعودی عرب کی یمن پر مسلط کردہ جنگ میں ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بعد سے یہ انولومینٹ بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کے اثرات بھی ہمیں کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں ۔لیکن ایک بات حقیقت ہے پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیںرہا۔کیونکہ جہاں شیعہ سنی مسئلہ آتا ہے وہاں شیعہ سنی کو قبول نہیں کرتا ہے اور سنی شیعہ کوقبول نہیں کرتا ہےلیکن یہاں مشترکہ شادیاں ہیں مشترکہ فیملیز ہیں مشترکہ پروگرامز ہیں مشترکہ ایکٹوٹیز ہیں کسی بھی جگہ گلی یا کوچہ میں سول وار کی سی کیفیت نہیں ہے یہاں نامعلوم ہاتھ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اس کے پیچھے تفکر اور آئیڈیالوجی ہوتی ہے یقیناً اس کے مراکز ہیں لیکن عوامی سطح پر شیعہ اور سنی کے درمیان دوری نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو وہ سول وار میں ڈوویلپ نہیں کر سکے عوام نے شیعہ اور سنی اختلاف کو جنگ میں بنانے کو قبول نہیں کیا ہے اختلاف یقناً موجود ہےاور اختلاف حسن ہوتا ہے اختلاف پولیٹیکل موجود ہے مذہبی موجود ہے۔
    
 لیکن ہمیںیہ اختلاف اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ ہم کسی کی جان و مال کو پامال کریں توانشاء اللہ تعالیٰ ایک ویثرن کے تحت ہم نےآگے بڑھنا شروع کیا ہے کہ خداوند کریم ہمیں توفیق دے گا۔اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس ویثر ن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں شیعہ اور سنی کواسلا م کے دو بازئوں کی صورت میں متعارف کرائیں گے اور یہ جو وحدت ہے تکفیریت کو شکست دے گی اورلوگ یہ سمجھنا بھی شروع ہو گئے ہیں پاکستانی عوام، میڈیا اور دیگر کہ تکفیریت ایک ایجنڈ ا ہے اس ایجنڈے کا مقصد عالم اسلام کو کمزور کرنا ہے  خدانے جو طاقت دی ہے اس سے استفادہ نہ کرنے دینا ہے۔
    
 تو ا ن شاء اللہ تعالیٰ جب ہم اس بڑے دشمن کو سمجھ جائیں گے تو ہم ان چھوٹے بڑے اختلافات کو بڑا نہیں بننے دیں گے۔کہ وہ مسالک کے درمیان مذاہب کے درمیان اور فرقوں کے درمیان نفرت اور جنگی فضاء ڈوویلپ کریں ہم انشاء اللہ تعالیٰ ان جزئی اختلافات کو نفرت میں نہیں بدلنے دیں گے۔اسی میں اتحاد ہے ۔ اور ہماری ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ہم نےہی اس وطن عزیز کو بنایا تھا اور ہم شیعہ و سنی ملکر اس کو بچائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے درمیان وحدت پیدا کرے اور ہمت دے کہ ہم ملکر دشمن  کا مقابلہ کرسکیں ۔ اور ہمیں ہر میدان میں ثابت قدم رکھے -

تحریر۔۔۔۔سید ناصرعباس شیرازی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی اورسیکریٹری امور سیاسیات سیداسد عباس نقوی نے سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کے عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باعث اسپتا ل میں داخلے پر تشویش  اور نیک خواہشات کا اظہارکیا ہے، ایم ڈبلیوایم کے قائدین نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہاکہ صاحبزادہ حامد رضا پاکستان میں سنی شیعہ اتحاد کے بڑے علمبردار ہیں ، ان کی شخصیت جتنی اہل سنت برادران میں محترم ہے اس سے زیادہ اہل تشیع مکتب فکر ان کی عزت اور احترام کا قائل ہے، انہوں نے ہمیشہ پاکستان میں فرقہ واریت کے خاتمے اور استحکام وطن کی بات کی اور عملی کوشش بھی جاری رکھی ہے ، پاکستان کو تکفیریت کے نجس وجود سے پاک کرنے کے لئےایم ڈبلیوایم  سنی اتحاد کونسل کے ہم رکاب ہو کر ماضی کی طرح حال اور مستقبل میں بھی مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہے جس کے لئے ہم صاحبزادہ حامد رضا کی مکمل صحت وسلامتی او ر طو ل عمر کے لئے دعا گوہیں ،پروردگارعالم  انہیں اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے صدقے جلد از جلد شفائے کاملہ وعاجلہ عنایت فرمائے۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی اور سیکریٹری امور سیاسیات اسد عباس نقوی کی پاکستان مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما ، سابق نائب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سے لاہور میں ملاقات ہوئی ، چوہدری پرویز الہٰی اور ایم ڈبلیوایم کے رہنمائوں کے درمیان ملکی سیاسی صورت حال اور دوطرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا، اس موقع پر چوہدری پرویز الہیٰ کاکہناتھا کہ دو نومبرکی موومنٹ سیاسی جماعتوں کا آئینی حق ہے،ن لیگ کا طرز حکمرانی آمرانہ ہے،اداروں کے درمیان تصادم کی فضاءپیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے،چوہدری پرویز الہٰی  نے مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں کو دو نومبر کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کی دعوت بھی دی  ۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما سید ناصرشیرازی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دو نومبر کے احتجاج میں شرکت کی دعوت پر شکرگذار ہیں ،ایم ڈبلیوایم  سانحہ ماڈل ٹائون اور پانامہ لیکس پر حکومتی احتساب کے مطالبے پر قائم ہے،نیشنل ایکشن پلان کا غلط استعمال کرتے ہوئے ملت جعفریہ کو نشانہ بنانے والے اقدامات پر موجودہ حکومت کو جواب دہ ہونا پڑے گا،سانحہ کوئٹہ میں کالعدم مذہبی جماعتوں اور را کا گٹھ جوڑتشویش ناک ہے، موجودہ حکومت مسئلہ کشمیر کے حل میں سفارتی طور پر مکمل ناکام ہے، مضبوط خارجہ پالیسی ہی مسئلہ کشمیر کے فوری حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے، موجودہ ملکی سیاسی صورت حال میں تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ہیں ۔

مرکزی سیکریٹری سیاسیات اسدعباس نقوی نے دو نومبر کے احتجاج میں شرکت کی دعوت پر چوہدری پرویز الہیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو نومبر کے احتجاج کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کے ادارے کوئی بھی فیصلہ پارٹی سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی وطن واپسی کے بعد کریں گے،ملک میں عدم استحکام اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے کسی بھی اقدام کے مخالف ہیں ، کرپٹ اور ظالم حکومت کے خلاف احتجاج تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کا آئینی وقانونی حق ہے ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) شہید قائد عارف حسین الحسینی کی 28ویں برسی کے سلسلے میں جناح ایونیوپر  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام”تحفظ پاکستان کانفرنس“کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ شیعہ قوم کے آج اس اجتماع نے ثابت کیا ہے کہ یہ مشکل کی گھڑی میں پاکستان کو بچانے کی اہلیت اسی قوم کے پاس ہے۔انہوں نے کہا جو لوگ یہ شکوہ کرتے تھے کہ قوم کے پاس رہنما موجو د نہیں،علامہ ناصر عباس کے نوے دن کی بھوک ہڑتال کے بعد ان کی سوچ بدل چکی ہے۔قائد وحدت کی تحریک نے حکمرانوں کی رعونت کواپنے عزم سے شکست دی ہے۔ مظلوموں کی فتحیابی تک یہ معرکہ ختم نہیں ہو گا۔

Page 2 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree