وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر چند کہ راقم بلتی زبان و ادب کے رموز اورادبی و علمی اصطلاحات سے تقریبا نا آشنا ہوں۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ صرف معاشرے میں رائج الفاظ اور عام بول چال ہی جانتا ہوں۔ ایک مرکب لفظ‘‘سرفہ رنگہ’’پر غور کیا گیا۔ پہلا لفظ سرفہ یعنی تازہ، نیا، جدید، جبکہ رنگاہ ایسا خطہ ارضی یا زمین کا ایسا ٹکڑا جو باقاعدہ ذراعت وغیرہ کیلئے استعمال نہ ہو، بلکہ قرب و جوار کی آبادیوں کے لئے بطور چراگاہ استعمال ہونے والی زمین۔ اس مرکب لفظ کے معنی و مفہوم جو اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ ہیں ایسی تازہ زمین جو کہ کاشت کاری کیلئے استعمال نہ ہو۔ رنگاہ، سنیو رنگا، ہلما رنگاہ اور سرفہ رنگاہ وغیرہ کے علاقوں سے بلتستان کے عوام واقف ہیں۔ سرفہ کو ہم ماڈرن یا جدید کے معنی میں لیں تو ہمارے ذہنوں میں زمانے کے نت نئے طور طریقوں، نت نئی ٹیکنالوجی، نئی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصطلاحات اور پالیسیاں وغیرہ بھی آجاتے ہیں۔ انسان اپنی ضروریات کے مطابق رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے کو استعمال کرتا ہے۔ جس کیلئے سرفہ یعنی تازہ خیالات اور مشورے کار آمد ہوتے ہیں۔ نئی اصطلاحات اور پالیسیاں ضروری نہیں کہ کسی پرانے اصطلاح یا پالیسی کے متبادل کے طور پر بنائی جائے، بلکہ یہ نئی تخلیق بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ انسان کو اللہ نے سوچنے کی صلاحیت دی ہے جس سے نت نئے ایجادات ہوتے آج کی دنیا کو اکیسویں صدی میں ھم گلوبل ولیج کہتےہیں۔ بقولِ شاعر،
جہانِ تازہ کے افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہی وجہ ہے دنیا آج تحقیق کے شعبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اورمحققین کی ہی محنت کا ثمرہے جو آج نت نئی ٹیکنالوجی، ایجادات ہماری زندگیوں کو پر آسائش بنا رہی ہیں۔ سکردو کے مضافات میں دریائے سندھ کے اس پار سرفہ رنگاہ سے اب ایک دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اس کی وجوہات سرفہ رنگاہ جیب ریلی، سرفہ رنگاہ ہائیکنگ اور سرفہ رنگاہ کی جانب سکردو شہر کی وسعت کیلئے ہونے والے اقدامات ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ عظمی کی سلطنت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی، تقریبا پوری دنیا میں اسکا سکہ رائج تھا۔ لوگوں کیخیالات بدلے، زمانہ بدلا، ضروریات بدلیں، نئے تقاضے سامنے آئے۔ آج ڈالر پوری دنیا پر راج کررہا ہے۔ اور سپر پاور امریکہ دنیا پر دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی دنیا پر معاشی و سیاسی اجارہ داری کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ جدت پسندی اور تازہ خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں مہارت ایسا ہتھیار ہے جو امریکہ کو سپر پاور بنا گیا۔ دنیا کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ امریکہ کی اجارہ داری اس وقت تک قائم رہے گہ جب تک اقوام عالم میں اس کے خیالات و افکار کے مقابل کوئی تازہ تر اور جدید تر خیال سامنے نہیں آجاتا۔
تحقیق کے طالبعلم ہونے کے ناتے مختلف کتب اور دستاویز سے واسطہ پڑتا ہے اور ماضی اور حال کی کئی حقیقتیں اور ایجادات سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ میرا قلیل مطالعہ باور کراتا ہے کہ دنیا کی معاشی بازار میں تیل کو اولیت حاصل ہونے سے قبل لوگوں کا انداز فکر ویسا نہیں تھا جیسا عہد رفتہ میں ہے۔ عرب ممالک میں قدامت پرستی عروج پر تھی، لارنس آف عربیہ نامی مووی دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خطہ عرب کے نقشے کو اس عہد کی طاقتوں نے نئی شکل دی۔ تب سے زمانہ جدید سے ما بعد جدیدیت کا روپ دھار گیا۔ آج بھی دنیا کی طاقتیں خاص کر امریکہ بہادرعرب سرزمین کو اپنے بہترین مفاد میں استعمال کررہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم اور مایہ ناز لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرایا گیا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے جدید تفکر کے حامل شاہ فیصل کو بھی انجام تک پہنچایا جا چکا تھا۔ بھٹو تازہ خیالات کے مالک تھے جو سامراجی قوتوں کے جبر کو قبول کرنے کو اپنی اور قوم کی توہین سمجھتے تھے۔بھٹو کو منظر سے ہٹانے کے بعد پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل بڑھ گیا۔ امریکی ساختہ مرد مومن, مرد حق ضیاء الحق کے ذریعے مجاہدین کی تربیت کروائی، ضیاء کے اندھیرے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ مخصوص سکول آف تھاٹ کو پروان چڑھایا گیا۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اعتراف کے بعد اب اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ امریکی ساختہ مرد مومن کے مجاہدین کے نعرے با قاعدہ عقیدے بن گئے۔ اس وقت بوئی گئی زہریلی فصل کو پاکستان سمیت خطے کے ممالک اب تک کاٹ رہے ہیں۔ امریکہ بہادر کی ضروریات بدلیں، سو پالیسی بھی بدلی۔ نتیجتا نئی تھیوری سامنے آئی۔اب روشن خیال اعتدال پسندی کا ڈھونگ رچایا گیا اور یہ بھی ایک اور آمر مطلق کے ذریعے۔ گزشتہ مرد مومن سے تربیت دلانے گئے مجاہدین کو کچلنے کیلئے روشن خیال بہادر کو خوب استعمال کیا گیا جس کے نتائج سے پوری دنیا واقف ہے۔ افغانستان میں سترہ سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد گزشتہ دنوں قندوز میں ڈیڑھ سو معصوموں پر بمباری نے ثابت کیا کہ اس اعتدال پسند روشن خیال سوچ کے پیچھے شہہ دماغوں کو اپنی دھاک بٹھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے کوئی روکنے والا نہیں۔
گزشتہ دنوں مقامی اخباروں میں خبر شائع ہوئی ہے کہ بلتستان کے مخصوص علاقے میں مخصوص بیرونی طاقت کو پانچ سو کنال کی اراضی چاہئے۔ صوبائی حکومت خطے کی ہزاروں بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین خالصہ سرکار کے نام پر ہتھیانے کے لئے پہلے سے ہی بے تاب ہے۔ خالصہ سرکار کے کالے اصول کے نفاذ میں ہنوز عوامی طاقت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سکردو چھومک میں سولہ روزہ عوامی نگہبانی کے نتیجے میں انتظامیہ قبضے میں فی الحال ناکام ہے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ لینڈ ریفارمز کے نام پر گلگت بلتستان میں جہاں جہاں سرفہ رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے ہیں ان کو زیر استعمال لانے کیلئے حکومت نئی پالیسی بنا رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومتی پالیسی کی آڑ میں مخصوص ملک کے لئے پانچ سو کنال عوام کی ملکیتی زمین مفت دینے کی بھی حکمت عملی بن رہی ہو۔ عوامی سطح پر ایسی پالیسی کی شدید مخالفت کے آثار نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب اسی علاقے کے نوجوانوں کا ایک طبقہ روشن خیالی کے نعروں اور سوچ سے مرعوب و متاثر دکھائی دیتا ہے۔ مقامی طور پر اس سوچ کو ہوا دینے کی کچھ مثالیں ثقافتی پروگرامز اور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی انسان دوست گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔ اتفاقا ثقافت کے نام پر کی جانیوالی سرگرمیوں کو بھی ستر کی دہائی کے بعد سے باقاعدہ ایک نئی فکر کے ساتھ علاقے سے ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا جدیدیت کے جتنے زینے طے کر لے مگر یہ بات اٹل ہے کہ کوئی شریف انسان قدیم جاہلیت کے زمانے کے قبیح کاموں کو اچھا نہیں سمجھتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں اب کچھ لا ابالے منچلے ڈانس پارٹیاں منعقد رہے ہیں۔ یعنی ان کے حصے میں جدید تعلیم اور طرز فکر کی بجائے ایسی جدید مگر قبیح حرکتیں آئیں۔
گلگت بلتستان کے اہل فکر اور ہوش مند افراد کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ خطے کو بیرونی عناصر کے ثقافتی یلغار سے بچایا جائے. مروت اور ادب کی آمیزش میں گوندی ہوئی ہماری تہذیب کو کسی اور تمدن سے ملانے کی چنداں ضرورت نہیں. ساتھ ساتھ اہل نظر کایہ بھی قومی فریضہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کی اچانک گلگت بلتستان میں بڑھتی دلچسپی کا ادراک کیا جائے. یہاں کی جدی پشتی عوامی ملکیتی زمینوں کو خالصے والی سرکار کی مشکوک نظروں سے بچایا جائے۔ یہ زمینیں نہ سرکار کی ہیں اور نہ کسی بیرونی شاہ، شیخ یا مسٹر کو تحفے میں دینے کے واسطے پڑی ہیں۔ یہ زمین ہماری ہے۔ہم اس زمین سے ہیں۔سارفہ رنگاہ ہمارا ہے۔نہ سرکار کا ہے اور نہ کسی بیرونی طاقت کی ملکیت ہے۔
تحریر: شریف ولی کھرمنگی(بیجنگ)
وحدت نیوز (آرٹیکل) سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، لُٹنے والا اور لوٹنے والا، قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم نیز دھوکہ دینے والا اور دھوکہ کھانے والاکبھی بھی برابر نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت ساری غلط باتیں پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر بھی جاری رہتی ہیں ، جن میں سے ایک یہی بات ہے کہ جی یہاں تو سب لوگ ہی برے اور فراڈی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، جہاں بر ے لوگ ہیں وہیں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ ہم اچھوں کو بروں کے ساتھ خلط ملط کرکے بروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک کسان کے چھ بیٹے تھے، سب کے سب نمازی اور محنتی، بوڑھے کسان نے اپنے بڑے بیٹے کو گھر کا سربراہ بنایا اور بقیہ بیٹوں سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا کہا، اگلے دن گاوں کے دکاندار نے سب سے بڑے بیٹے کو خاندان کا سربراہ بننے پر مبارکباد دی اور دکان پر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا اور گپ شپ میں اسے سگریٹ کے ایک دو کش بھی لگوائے، دوسرےدن بڑے بیٹے نے پھر جا کر دکاندار کو سلام کیا اور سگریٹ کے ایک دو کش لگانے کا خود تقاضا کیا ، تیسرے دن دکاندار نے اسے پورا سگریٹ مفت پلا دیا اور چوتھے دن اسے کہا کہ اگر تم روزانہ میرے پانچ سگریٹ بکواو تو میں تمہیں ایک سگریٹ مفت پلاوں گا، جوان نے کچھ دیر سوچا اور اپنی جیب سے پانچ سگریٹ خریدے اور ایک مفت کا سگریٹ لے کر گھر آگیا، گھر آکر اس نے اپنے بھائیوں کو سگریٹ کے فوائد پر ایک لیکچر دیا اور وہ پانچ سگریٹ اپنے بھائیوں کو بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لئے۔ بھائی بھی تو بھائی ہونے کے ناطے اپنے بڑے بھائی پر اندھا اعتماد کرتے تھے، انہوں نے یہی خیال کیا کہ یہ ہمارا بڑا بھائی ہمیں کوئی غلط چیز تھوڑی لا کر دے گا۔
یہ سلسلہ چل نکلا تو ایک دن دکاندار نے کسان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ اگر تم سونا لاکر مرے پاس بیچو تو تمہارے پانچ بھائیوں کو بھی منافع ہوگا اور تمہیں بھی پانچ گنا زیادہ منافع دوں گا۔ کسان کے بیٹے نے کہا کہ میرے پاس تو سونا ہے ہی نہیں، دکاندار نے کہا کہ تمہارے گھر میں سونا موجود ہے ذرا اپنی ماں سے پوچھو۔ جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور ماں سے معلومات لیں تو دکاندار کی پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی، سب بچوں نے مل کر ماں کو سونا بیچنے پر آمادہ کیا، ماں کا سونا بک گیا اور سب بچوں کو اپنے اپنے حصے کا منافع بھی بروقت مل گیا ، سب سے بڑا بیٹا تو پانچ گنا منافع ملنے پر پھولے نہیں سما رہا تھا، اب اس کا دکاندار سے یارانہ اور بھی بڑھ گیا، دکاندار نے ایک دن اسے سمجھایا کہ ان زمینوں پر کب تک کاشتکاری کرو گئے ، یہ زمینیں بیچو اور پیسے کما کر کوئی کاروبار شروع کرو اور فوراً ارب پتی بن جاو، جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور کاروبار کے فوائد پر لیکچر جھاڑا، بوڑھے ماں باپ کڑھتے رہے لیکن بچوں نے زمینیں بیچ ڈالیں اور پیسے کما لئے، اب دکاندار نے کہا کہ اتنے پیسوں کا تم کیسے کاروبار کرو گے تمہیں تو کاروبار کا تجربہ ہی نہیں لہذا یہ پیسے اکٹھے مجھے دے دو میں اپنے کاروبار میں لگاوں گا اور منافع تم سب بھائیوں کو ملے گا البتہ تمہیں شریکِ درجہ اول ہونے کی وجہ سے پانچ گنا زیادہ دوں گا۔
جوان نے سر کھجایا ، تھوڑا بہت سوچا اور خوشی خوشی بھائیوں کو دکاندار کے کاروبار میں شریک ہونے کے منصوبے سے آگاہ کیا، سب نے سابقہ تجربے اور بھائی کے رشتے پر اعتماد کی وجہ سے ساری رقم بڑے بھائی کے قدموں میں لا کر رکھ دی۔ اب بڑے بھائی نے وہ رقم اٹھائی اور جاکر دکاندار کی گود میں رکھ دی ، دکاندار نے بہت گرمجوشی سے جوان کا استقبال کیا اور اسے دودھ پتی پلاکر رخصت کیا، اگلے چند دنوں میں دکاندار نے اپنا سارا سامان سمیٹا اور وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔ اب عام لوگ تو کسان کے سارے بیٹوں کو ملامت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سارے بیوقوف ہیں لیکن اگر غوروفکر سے کام لیاجائے تو دراصل اس سارے مسئلے کا اصل زمہ دار کسان کا وہ بڑا اور لالچی بیٹا تھا جو کسان کے گھر کا سربراہ تھا اور جس نے سگریٹ کے ایک کش کے لئے اپنے بھائیوں کے اعتماد کو بیچ ڈالا تھا۔
آج اسلامی دنیا کا یہی حال ہے، خانہ کعبہ مسلمانوں کاقبلہ ہے، حرمین شریفین سے امت مسلمہ کا قلبی لگاو ہے، دینی، سیاسی، جغرایافیائی اور منطقی حوالے سے سعودی عرب مسلمانوں کا بڑا، رہبر اور قائد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب جو کچھ کرتا ہے دیگر اسلامی ممالک اسے بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے سعودی عرب ایک بڑے اسلامی بلاک کا قائد ہے ، اسلامی دنیا کے اکتالیس ممالک کی فوج سعودی عرب کے پرچم تلے آج بھی متحد ہے ۔ ایسے میں اگر سعودی عرب عالمی سرمایہ داروں اور دکانداروں کے کہنے پر اسلامی ممالک کو جہادی کلچر میں لپیٹ کر منشیات، ہیروئن، افیون، چرس، کلاشنکوف اور دہشت گرد سپلائی کرتا ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ سارے اسلامی ممالک ایک جیسے ہیں بلکہ سعودی عرب کا کردار سب سے منفرد اور جداگانہ ہے ۔
خصوصاً جب سے سعودی شہزادے نہیں میڈیا میں برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ہم نے وہابی ازم کو بھی امریکہ و مغرب کے مفاد کے لئے عام کیا ہے اس کے بعد مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے اپنے حکمرانوں کو بیدار کرنا چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر اندھا اعتماد کرنے کی وجہ سے کہیں دیگر اسلامی مناطق سےبھی ہاتھ نہ دھو ڈالیں۔ آج صورتحال ایسی نہیں ہے کہ سب اسلامی ممالک بے حس ہو چکے ہیں، سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اکثر ممالک ایک بڑا بھائی سمجھتے ہوئے سعودی عرب پر اندھا اعتماد کئےبیٹھے ہیں اور اب مسلمان دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یاتو اپنی ملتوں اور حکومتوں کو سعودی عرب کا اصل چہر ہ دکھائیں اور یا پھر اس اندھے اعتماد کی قیمت چکانے کے لئے تیار رہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلام ایک عالمی اورابدی دین ہے جس میں انسان کی فردی و اجتماعی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔انسان کی فطری ضرورتوں میں سے ایک ازدواج ہے ۔یہ ضرورت اس وقت پوری ہوگی جب وہ کسی سےشادی کرے ۔قرآن کریم نےمرد و عورت کی تخلیق کو خدا کی نشانی اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کو مودت و رحمت قرار دیا ہے ۔ارشاد رب العزت ہو رہاہے:{ وَ مِنْ ءَايَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکمُ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُواْ إِلَيْہَا وَ جَعَلَ بَيْنَکُم مَّوَدَّۃً وَ رَحْمَۃً إِنَّ فیِ ذَالِکَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفکَّرُون}1اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاراجوڑا تمہیں میں سے پیدا کیا ہےتاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قراردی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس آیہ کریمہ میں شادی کی بعض حکمتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ازداوجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد انسان کو فکری و روحی سکون مل جاتاہے ۔ شادی کرنے سےنسل انسانی جاری رہتی ہے اور انسانی معاشرے وجود میں آتے ہیں ۔قرآن اس سلسلے میں کہتاہے :{وَ اللّہ ُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکمُ أَزْوَاجًا وَ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِينَ وَ حَفَدَۃً وَ رَزَقَکُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ} 2 اور اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نےتمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیےاور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں ۔شادی کرنےسےعقلی و معنوی مقاصد حاصل ہونےکےساتھ ساتھ انسان کی نفسانی خواہشات بھی پوری ہو تی ہیں۔چنانچہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:{من تزوج فقد احرزنصف دینہ}جس نےشادی کی اس نے اپنا نصف دین بچا لیا ۔ آپ ؐ نے شادی کو بہترین عمل قرار دیا اور فرمایا:{ما بنی فی الاسلام بناء احب الی الله من التزویج}خدا کےنزدیک اسلام میں سب سےبہترین بنیاد ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔
اگرہم انسان کی زندگی کا مطالعہ کریں توہم اس حقیقت کو درک کر سکتے ہیں کہ انسان کےلئے دو قسم کی شادیوں کی ضرورت ہے ایک دائمی شادی اور دوسری موقتی شادی۔دائمی شادی عام حالتوں کےلئے ہےجبکہ موقتی شادی غیر معمولی حالات کے پیش نظر جیسے اگرکوئی طولانی مدت کےلئےسفر میں جائےاور بیوی ساتھ نہ ہو ۔اسی طرح جنگ اور مختلف حوادث میں جو عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں ۔علاوہ ازیں دائمی شادی کے لئےبہت زیادہ اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ موقتی شادی کے لئے اتنےاخراجات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔انسان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کےلئےاسےشادی کرنےکی ضرورت ہے اگرموقتی شادی کےذریعے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو تو وہ ناجائز روابط کے ذریعے اسےپوری کرنےکی کوشش کرے گا جس سے انسانی معاشرے میں اخلاقی برائی پھیل جائی گی اور معاشرہ تباہ و بربادہو جائے گا۔
دین مقدس اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے دو قسم کی شادیوں کو جائز قرار دیا ہے ۔ایک دائمی شادی اوردوسری موقتی شادی۔ دائمی شادی کے بارے میں قرآن کریم کہتاہے :{ وَ إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فیِ الْيَتَامی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنیَ وَ ثُلَاثَ وَ رُبَاعَ فاِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃ}3اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکنےکا خطرہ ہے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں دو،تین ،چار ان سےنکاح کر لو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ہے تو پھر ایک ہی عورت {کافی ہے}۔
قرآن کریم عقد موقت یا متعہ کےبارے میں کہتاہے:{ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنہنَّ فَاتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِيضۃ}4
پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطورفرض ادا کرو ۔لفظ متعہ عرف،شرع اور شیعہ وسنی فقہاء کےنزدیک نیز روایات میں عقد موقت کے معنی میں ہے۔مشہور مفسر جناب طبرسی مجمع البیان میں اسی آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:اس آیت کے متعلق دو نظریےپائے جاتے ہیں :1۔ بعض لوگوں نےاستمتاع سےمراد لذت جوئی لیا ہے اور بطور دلیل بعض اصحاب اور تابعین کے عمل کو پیش کیا ہے ۔2۔ بعض لوگوں نے استمتاع سےمراد عقد موقت لیا ہے اور بطوردلیل ابن عباس، سدی ،ابن مسعوداور تابعین کی ایک جماعت کو پیش کیا ہے جو استمتاع کوعقد موقت سے تفسیر کرتے تھے۔ ان دو نظریوں میں سے دوسرےنظریے کی صحت واضح ہے اس لئے کہ عرف و شرع میں متعہ اور استمتاع سے مراد عقدموقت ہے ۔اس کے علاوہ مہر کا ادا کرنا لذت اٹھانے پر منحصر نہیں ہے۔ بنابرین آیہ کریمہ متعہ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ :1۔ اس آیت سے پہلی والی آیتوں میں عقد دائمی اور اس کے مہریہ کا حکم بیان ہوا ہے لہذا اسےدوبارہ تکرار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔2۔دائمی شادی میں جونہی صیغہ عقد جاری ہو مہر شوہر پر واجب ہوتا ہے اور اگر عورت ہمبستری سے پہلے اس کامطالبہ کرے تو مہر دینا واجب ہے جبکہ مذکورہ آیت کےمطابق شوہر پر مہر اس وقت واجب ہوگا جب اس نے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہو لہذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب عورتوں سے ہمبستری کرنا تو ان کا مہر ادا کرنا۔5اس نظریہ پر یہ اعتراض ہے کہ :مہریہ کاا دا کرنا عقد پرمنحصر ہے یعنی جیسےہی عقد پڑھ لیاگیا ،عورت اپنا تمام مہر مانگ سکتی ہے اور اس میں ہمبستری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تونصف مہر دینا ہو گا ۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث 6کےعلاوہ اہل سنت نے بعض اصحاب اور تابعین سےوقتی شادی کےبارےمیں احادیث نقل کی ہیں۔ابن عباس،ابی بن کعب ،سعید بن جبیر اورسدی آیہ کریمہ کی تلاوت اس طرح کرتے تھے:{فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنہْنَّ ُإلی اجل مسمی فَاتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِيضَۃ}مجاہد کا کہنا ہے:مذکورہ آیہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔7.فخر الدین رازی لکھتے ہیں :مسلمانوں نےابی کعب اور ابن عباس کی قرائت سےانکار نہیں کیا ہے ۔یہاں سےمعلوم ہوتاہے کہ ان دونوں کی قرائت کے صحیح ہونے کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ متعہ کےجائزہونے کے بارے میں بھی مسلمانوں کا اجماع ہے ۔8اہل سنت کے علماء نے یہ ادعا کیا ہے کہ یہ آیہ نسخ ہوئی ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں بعض آیات کے علاوہ صحاح اور مسانید میں منقول احادیث سے استدلال کیاہے ۔بعض افراد نے آیہ کریمہ {وَ الَّذِينَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ.إِلَّا عَلیَ أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانہُمْ فاِنہَّمْ غَيرْ مَلُومِين َ.فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاءَ ذَا لک ِفاُوْلَئکَ ہُمُ الْعَادُون}۹{اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر اپنی بیویوں اورکنیزوں سے پس ان پر ملامت نہیں ہے، جو لوگ اس کے علاوہ کی خواہش کریں وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں }کو حکم متعہ کےمنسوخ ہونے کی دلیل قرار دیاہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کےمطابق صرف دو طریقوں سے عورتیں مرد پر حلال ہوجاتی ہیں ۔ ایک زوجیت اور دوسرا ملکیت جبکہ اس آیت میں متعہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے ۔ متعہ کا ملک یمین نہ ہونا واضح ہے اسی طرح متعہ شادی کی قسم بھی نہیں ہے کیونکہ اس میں شادی کےاحکام جیسے ارث ،نفقہ اور حق قسم {شب خوابی}نہیں ہیں ۔اس غلط تصور کا جواب یہ ہے کہ
پہلا: عقد موقت {متعہ}کیفیت کےلحاظ سے عقد دائمی جیسا ہے ۔اس قسم کے ازدواج کے شرعی ہونےمیں کوئی انکار نہیں کرتا۔ان دونوں کےدرمیان بعض احکام مشترک اور بعض احکام ان میں سے ہر ایک مخصوص ہیں۔
دوسرا:سورۃ مومنون کی آیت مکی آیات میں سے ہے جبکہ عقد موقت پر دلالت کرنےوالی آیت مدنی ہے ۔ مسلمانوں کا اجماع ہےکہ آیۃ متعہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ ناسخ کو زمان کے اعتبار سےمنسوخ کے بعد ہونا چاہیے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب ان سےکہا جاتاہے کہ سورۃ مومنون کی اس آیت نےکنیزوں سے شادی کرنے کے حکم کو کیوں نسخ نہیں کیاہے؟ چنانچہ ارشاد ہوتاہے :{وَ مَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن يَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُم مِّن فَتَيَاتکُمُ الْمُؤْمِنَات}10{اور جس کےپاس اس قدر مالی وسعت نہیں ہے کہ آزاد مومنہ عورتوں سے نکاح کرے تو وہ کنیز مومنہ عورت سے عقد کرے}تو جواب دیتے ہیں کہ سورہ مومنون کی آیت مکی ہےلیکن مذکورہ آیت { جس میں کنیزوں سے شادی کاحکم ہوا ہے }مدنی ہے ۔مکی آیتیں مدنی آیات کے لئے ناسخ نہیں بن سکتیں ۱۱جبکہ اسی بات کو متعہ کے بارے میں کہنےسےگریزکرتے ہیں ۔{والذین ہم هلفروجہم حافظون}یہ آیتیں سورہ معارج میں بھی موجود ہیں جبکہ سورہ معارج بھی مکی ہے ۔
بعض روایات کےمطابق متعہ کا حکم اضطراری حالات کے لئے تھالہذا جب اضطرار ی حالات ختم ہوگئے تو متعہ کاحکم بھی منسوخ ہوا ہے ۔ 12جبکہ اضطراری احکام، اضطراری حالتوں کے تابع ہیں اور اضطراری حالات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےسے مخصوص نہیں ہیں جیسے مجبوری کی حالت میں مردار کا گوشت کھانا جائز ہے اور یہ حکم صرف صدر اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آج بھی اس قسم کی کوئی حالت پیش آجائے تومردارکا گوشت کھانا جائز ہے ۔اس قسم کی روایتوں کے مقابلے میں اوربھی روایات موجود ہیں جو خلیفہ دوم کےزمانے تک متعہ کے جائز ہونےپر دلالت کرتی ہیں ۔ عمران بن حصین سےبخاری نےنقل کیا ہے کہ اس نےکہا : آیہ متعہ کتاب خدا میں نازل ہوئی ہے ہم نے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس پر عمل کیا ۔اس کےحرام ہونے کے بارے میں کوئی دوسری آیت نازل نہیں ہوئی ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا ۔ اس کےبعد ایک شخص نے اپنی رائے کی بنا پر اس سلسلے میں حکم صادر کیا ۔13اس قسم کی روایتوں کو مسلم نےچند واسطوں سے جابر بن عبد اللہ انصاری سےنقل کیا ہے۔۱۴متعہ کے منسوخ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ان روایتوں میں بہت زیادہ ضد و نقیض باتیں ہیں جوان کے جعلی ہونے کو ثابت کرتے ہے۔۱۵ مثلا بعض روایات کے مطابق یہ حکم فتح مکہ کے سال منسوخ ہوا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے سال یہ حکم منسوخ ہوا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر یہ حکم نسخ ہوا ہے جبکہ بعض کےمطابق جنگ تبوک میں یہ حکم نسخ ہوا ہے۔16ان اقوال کا لازمہ یہ ہے کہ ایک حکم چند سالوں میں متعدد بار مباح اور متعدد بار نسخ ہو اہو۔یہ نہ علم و حکمت خداوندی سے سازگار ہے اور نہ اسلام میں اس قسم کی کوئی روش پہلے سے موجود تھی۔واضح رہےکہ اتنے اختلافات اور تعارض کےہوتےہوئے ان روایات سےایک قطعی حکم کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔علاوہ ازیں یہ روایتیں دوسری روایتوں سے{جو متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں}تعارض رکھتی ہیں۔ابن عباس کہتے ہیں :{ماکانت المتعۃ الارحمۃ رحم الله بہا امۃ محمد{ص}لو لا نہیہ{یعنی عمر}عنہا ما احتاج إلی الزناء الاشقی}17
متعہ ایک رحمت تھی خدا نے اس کے ذریعے پیغمبر کی امت پر رحمت کی۔اگر عمربن خطاب متعہ سے منع نہ کرتا تو سوائےشقی کے کسی اور کو زنا کی ضرورت نہ پڑتی ۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ متعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعےمنسوخ نہیں ہوا بلکہ خلیفہ دوم نے اس سےمنع کیا ہے ۔یہ حدیث جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہونے والی حدیث کی موٴید ہے ۔
طبری اور ثعلبی آیہ کریمہ{فمااستمتعتم بہ منہن}18کی تفسیرمیں حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نےفرمایا : {لو لا ان عمرنہی عن المتعۃ مازنی الاشقی}19اگرعمر نےمتعہ سےمنع نہ کیا ہوتاتو شقی کےسوا کوئی زنا نہ کرتا۔اسی بات کو دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نےبھی متواتر طریقوں سےآپؑ سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث بھی جابربن عبداللہ انصاری کی حدیث کی موٴید ہے ۔ جناب جابر ابن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے :ہم رسول خداؐ کے زمانےمیں بطور مہر مختصر کھجور اورآٹے پر چند دنوں کے لئے متعہ کیا کرتےتھے اوریہ کام ابوبکرکےزمانے تک انجام دیا لیکن عمر نے عمرو بن حریث کےواقعے کےبعد اس سے منع کردیا۔ 20
6۔خلیفہ دوم کا یہ قول مشہور ہے {متعتان کانتا علی عہد رسول الله{ص}و انا انہی عنہما و اعاقب علیہما: متعۃ الحج و متعۃالنساء}21دو متعے جو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےمیں رائج تھے میں ان سےمنع کرتاہوں اور جو ان کا مرتکب ہو ااسے سزا دوں گا: متعۃ النساء اور حج تمتع۔خلیفہ دوم کے اس قول سے واضح ہو جاتاہے کہ متعہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں منسوخ نہیں ہوا تھابلکہ انہوں نے اپنی طرف سے منع کیا تھا ۔ فریقین کی روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے بلکہ خلیفہ دوم نےاس حکم پر عمل کرنے سے روکاہے وہ کہتا ہے :{ایہا الناس ثلاث کن علی عہد رسول الله.انا انہی عنہن و احرمہن و اعاقب علیہن وہی ه متعۃ النساء و متعۃ الحج و حی علی خیرالعمل} اےلوگو:تین چیزیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں رائج تھیں میں ان سےمنع کرتا ہوں اور انہیں حرام قراردیتا ہوں ۔ جس کسی کو ان کا مرتکب پاوَں گا اسےسزا دی دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں :عورتوں سے متعہ کرنا ،حج تمتع اور حی علی خیر العمل۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پہلے اور تیسرے مسئلے میں خلیفہ کی ممانعت ابھی تک باقی ہے لیکن حج تمتع کوخلیفہ دوم کی مخالفت کےباوجود مسلمان بجا لاتے ہیں ۔22
عقد موقت کے مخالفین اس بارے میں بہت سےشبہات پیش کرتےہیں جو عموما نکاح موقت سے آشنائی نہ رکھنےکی وجہ سے ہے۔ ہم یہاں عقد موقت کےسلسلے میں کئےگئے دو اعتراضات کا مختصراجواب دینے کی کوشش کرینگے ۔
1۔شادی کا مقصد ازداجی زندگی اور نسل کو باقی رکھناہے جبکہ یہ ہدف صرف عقد دائمی کےذریعےحاصل ہوتا ہے کیونکہ متعہ یا عقد موقت کرنےکا مقصد صرف جنسی خواہشات کو بجھانا ہے ۔ 23
جواب:اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شادی کرنےکا ایک مقصد نسل کو باقی رکھنا اور ازدواجی زندگی کوقائم کرنا ہے لیکن شادی کرنے کا مقصد
صرف یہی نہیں بلکہ جنسی لذتوں کو جائز طریقے سے پورا کرنا اور معاشرے کو فساد اور برائیوں سے پاک رکھنا بھی شادی کے اہم اغراض میں سے ہے۔لہذا جب عقد دائمی کےلئےراستہ ہموارنہ ہو تو ان اہداف کو حاصل کرنے کا معقول اور جائز طریقہ عقد موقت ہے ۔ علاوہ ازیں بہت سارے افراد تولیدنسل کی خاطر اس قسم کی شادی کرتے ہیں کیونکہ متعہ اور دائمی شادی سےپیدا ہونےوالےبچوں کے احکام مشترک ہیں۔
2۔متعہ عورت کی شرافت و کرامت کے ساتھ منافات رکھتاہے کیونکہ یہ ایک قسم کی جسم فروشی ہے ۔ عورت کی عزت وکرامت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کچھ چیزوں کی خاطر اپنے آپ کو ایک اجنبی مرد کے سپرد کرے ۔
جواب:متعہ اوردائمی شادی کے درمیان ماہیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔جو کچھ عورت مرد سے لیتی ہے وہ مہر ہے۔ان دونوں قسموں میں مرداپنی بیوی سے لذت اٹھانے کا حق رکھتا ہےجس کے مقابلےمیں مردپرعورت کا مہر واجب ہوتا ہے۔عقد موقت اور دائمی کوئی مالی تجارت نہیں بلکہ یہ ایک مقدس عہد وپیمان ہے جو معقول اور جائز طریقے سے شوہر اور بیوی کے درمیان انجام پاتا ہے ۔یہ بات بہت تعجب آور ہے کہ جو لوگ اس قسم کی شادی پر اعتراض کرتے ہیں یہیں افراد اس دور میں جہاں کچھ شیطان صفت افراد اپنے جنسی خواہشات کو پوری کرنے کے لئےعورتوں کو مختلف طریقوں سے شکار کرتے ہیں اور انہیں اپنی جنسی پیاس بجھانے کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں اسے جدید دور کے تہذیب و تمدن کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔یہ کیسےممکن ہے کہ اگرایک عورت اپنی مرضی سے کسی کےساتھ متعہ کرےتو یہ عورت کی شرافت کے خلاف ہو لیکن اگر ایک عورت چند پیسوں کی خاطر کسی لہوو لعب کی محفل میں یا کسی نائٹ کلب میں ہزاروں عیاش مردوں کے سامنےان کی جنسی خواہشات کو ابھارنے کی خاطر ہر قسم کی حرکتیں انجام دے اور چند افرادکے ہاتھوں اس کی عزت لٹ جائے تویہ عورت کی کرامت و شرافت کے خلاف نہ ہو۔ 24
بہت افسوس کی بات ہے کہ بعض مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے متعہ جیسےاسلامی احکام کی بے حرمتی ہوئی ہے۔ بعض خود خواہ مردوں اور عورتوں نے اس اہم اسلامی قانون کے فلسفےکو پاوٴں تلے روندتے ہوئے اسے صرف لذت اٹھانے کا وسلیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے کچھ موقع پرست نادان افراد کو موقع مل گیا تاکہ وہ اسی بہانے سے اس حکم شرعی کو ایک فعل قبیح کےطورپر پیش کریں۔ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے اسی لئےشادی شدہ افراد کو متعہ کرنےسےمنع فرمایا اس کے باوجود انہوں نےہمیشہ اس حکم شرعی کی اہمیت کے پیش نظر اہل سنت کے نظریے کی سختی سے مخالفت کی اور اس بارے میں تقیہ اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیا ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جن موضوعات میں تقیہ نہیں کروں گا ان میں سے ایک متعہ ہے ۔25
امام موسی کاظم علیہ السلام نے علی بن یقطین کو{ جنہوں نے متعہ کیا تھا }سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: تمھیں متعہ کرنے کی کیا ضرورت ہے خدا نے تمہیں اس کام سے بے نیاز کیا ہے ۔ آپ ؑکسی اورمقام پر فرماتےہیں:یہ کام اس شخص کےلئے مناسب ہےجو شادی شدہ ہونے کے باوجود خدا نے اسے اس کام سے بے نیاز نہیں کیا ہے۔جو شخص شادی شدہ ہے وہ اس وقت متعہ کر سکتا ہے جب اس کی بیوی اس کے پاس نہ ہو یعنی اس تک رسائی نہ ہو۔26
بہر حال جو کچھ واضح ہے وہ یہ کہ شارع کی طرف سے اس شرعی حکم کو صادر ہونےاورائمہ اہلبیت علیہم السلام کا اس مسئلے کے بارے میں رغبت دلانے کا مقصد یہ نہیں کہ چند ہوسران اورشیطان صفت افراد اس کے ذریعے اپنی جنسی لذتیں پوری کریں یا اس کے ذریعے چند سادہ لوح عورتوں اور بےسرپرست بچوں کو مشکلات میں گرفتا ر کریں ۔27
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔روم،21۔
۲۔نحل،72۔
۳۔نساء،3۔
۴۔نساء،24۔
۵۔مجمع البیان ،ج3ص60۔ ناصر مکارم شیرازی،شیعہ پاسخ می گوید،ص 114 ۔
۶۔وسائل الشیعۃ ،ج14،ابواب المتعۃ،باب1۔
۷۔تفسیر ابن کثیر،ج2، ص244۔
۸۔مفاتیح الغیب،ج10ص52۔
۹۔مومنون ،5 – 7۔معارج،29 – 31۔
۱۰۔نساء،25۔
۱۱۔سید شرف الدین عاملی ،الفصول المہمۃ ،ص75۔
۱۲۔صحیح بخاری ،ج3،ص246۔صحیح مسلم،ج2،ص1027۔
۱۳۔صحیح بخاری،ج6ص27۔
۱۴۔صحیح مسلم،ج2ص1023۔
۱۵۔سید محسن امین ، نقض الوشیعۃ ،ص 303۔شرف الدین عاملی ،مسائل الفقیۃ ،ص69۔ علامہ امینی ،الغدیر،ج6ص225۔،شیخ محمد حسین کاشف الغطاء،اصل الشیعۃ و اصولہا،ص171۔
۱۶۔شرح صحیح مسلم،نووی ،ج9،ص191۔
۱۷۔ابن اثیر،نہایۃ،ج2،ص488۔
۱۸۔نساء،24۔
۱۹۔سیدشرف الدین عاملی،الفصول المہمۃ ،ص79۔
۲۰۔ صحیح مسلم ، ج 2 ،ص131۔
۲۱۔فخر الدین رازی ،مفاتیح الغیب،ج10،ص52۔
۲۲۔ جعفرسبحانی،عقائدامامیہ ،ص367۔
۲۳۔تفسیرالمنار۔
۲۴۔مرتضی مطہری،نظام حقوق زن دراسلام،ص67۔
۲۵۔نظام زن در اسلام،ص82۔
۲۶۔ایضاً،ص82۔
۲۷۔ایضاً۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) زندگی کوشش اور کاوش کا نام ہے، اچھائی کے کے لئے کوشش اور بھلائی کے لئے کاوش کبھی رائیگاں نہیں جاتی، فرعون وقتی طور پر بچوں کا خون بہا سکتے ہیں اور ماوں کے حمل گرا سکتے ہیں لیکن موسیٰ ؑ کی ولادت کو نہیں روک سکتے۔ دنیا میں اچھائی اور برائی، خیر اور شر، موسیٰ و فرعون کی جنگ ہر دور میں لڑی گئی اور لڑی جاتی رہے گی۔ اچھائی اور بھلائی کی خاطر مارے جانے والے تاریخ کے تاریک صفحات پر اُمید کے روشن ستارے بن کر جگمگاتے ہیں،انہی روشن ستاروں سے آنے والی نسلیں رہنمائی حاصل کرتی ہیں اور اپنے قلم کو عصا بنا کر وقت کے نیل کو دولخت کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں سیالکوٹ کے مصر میں ایک فرعون صفت مسلم لیگ ن کے یوسی چیئرمین عمران اسلم چیمہ نے اپنی ڈیوٹی پر مامور نہتے صحافی کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔تفصیلات کے مطابق سمبڑیال میں نوائے وقت کے نمائندے ذیشان اشرف بٹ کو بیگووالہ کے دوکانداروں نے شکایت کی کہ چیئرمین یونین کونسل بیگووالہ نے ناحق دکانداروں پر ٹیکس عائد کر رکھا ہے ۔ شکایت ملنے پر نمائندہ نوائے وقت ذیشان اشرف بٹ یونین کونسل بیگووالہ کے ن لیگی چیئرمین عمران اسلم چیمہ سے معلومات لینے کیلئے جب اس کے دفتر پہنچا اور دکانداروں کی شکایت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو عمران اسلم چیمہ طیش میں آگیا جس پر اس نے اور اسکے ساتھیوں نے آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کرکے ذیشان اشرف بٹ کو شدید زخمی کر دیا اور بعد ازاں موقع پر ہی یہ صحافی جاں بحق ہو گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری قتل نہیں ہے، جب تک یہ دنیا باقی ہے اس میں نیکی اور برائی کا ٹکراو ہوتا رہے گا، بے شک نون لیگی چئیرمین اپنے اس کارنامے پر اتراتا ہوگا اور مختلف لوگوں نے ا اس بہادری پر مبارکبادی کے ڈونگرے بھی برسائے ہونگے لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم لوگ کس دور میں جی رہے ہیں۔؟کس صدی میں سانس لے رہے ہیں ؟اور کیوں ہمارے اخلاقی رویے ابھی تک پتھروں کے دور کا پتہ دے رہے ہیں۔؟
یہ قتل کسی شدت پسند تنظیم نے نہیں کیا بلکہ ایک ملک گیر سیاسی تنظیم کے چئیر مین نے کیا ہے ، یہ ہمارے ہاں کی سیاسی تنظیموں کا حال ہے تو پھر شدت پسند تنظیموں سے گلہ ہی کیا کیا جائے۔ بات صرف کسی ایک سیاسی تنظیم تک محدود نہیں بلکہ جس کے پاس طاقت ہے اس کا یہی حال ہے، اور وہ اسی طرح طاقت کے نشے میں مست ہے، مشال خان کا قتل ہوا تو اس کے پیچھے بھی سیاسی ہاتھ تھا اور راجپوتانہ ہسپتال میں گزشتہ سال ایک ڈاکٹر کی ہٹ دھرمی کے باعث ایک مریضہ دم توڑگئی تو کئی دنوں کے احتجاج اورہڑتال کے باوجود اس ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، اس مریضہ کا قصور بھی یہ تھا کہ وہ ایک صحافی “ کامران کورائی” کی ماں تھی۔
یہ لوگ جنہیں حق اور سچ بولنے کی پاداش میں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، جنہیں جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے صلے میں صلیبوں پر گاڑھ دیا جاتا ہے، جنہیں کلمہ حق لکھنے کی سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جوآگے چل کر تاریخ کا عنوان بنتے ہیں ،جن کے صبر سے قومیں بیدار ہوتی ہیں اور جن کی کوششوں سے انسانی نسلیں فرعونوں سے آزادی حاصل کرتی ہیں۔ایسے لوگ ہر دور میں کٹتے اور مرتے تو رہے ہیں لیکن کبھی ان کے حوصلے میں کمی نہیں آئی۔
یہ بے گناہ کے خون میں تر بتر عمران اسلم چیمہ کا کردار نہیں بلکہ نون لیگ کا اصلی چہرہ ہے۔ یہ چہرہ قوم کے ہر مہذب اور باشعور شخص کو جھنجوڑ رہا ہے، یہ چہرہ ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کر رہا ہے ، یہ چہرہ ہم سب سے پوچھ رہاہے کہ ہم آخر کب تک اپنی آئندہ نسلوں کو فرعونوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھیں گے۔
ذیشان اشرف بٹ اپنے سرخ لہو سے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑ گیا ہے:
تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
(فراز)
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان اپنی قیمت خود لگاتا ہے، ایک مدبر انسان اپنی شخصیت کی میزان میں تلتا ہے،انسان کی شخصیت دشمن تراش ہے، بے شک انسان کی شخصیت سے دشمن اور حاسد جنم لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک منفعل اور مدبّر، مشتعل اور مفکر کے طرزِ زندگی اور اسلوبِ گفتار میں فرق ہوتا ہے، دنیا میں صرف ایک ہستی ایسی ہے کہ جس کے طرزِ زندگی کو منافقت کی موت اور جس کے اسلوبِ رفتار کو نہج البلاغہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دعوتِ ذوالعشیر کے موقع پر جب سرورِ دوعالمؑ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو فرزندِ ابوطالبؑ نے منفعل یا مشتعل ہوکرپیغامِ رسالت کی حمایت نہیں کی بلکہ آپ نے مکمل مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں تصدیقِ رسالت کرنے کے ساتھ ساتھ اس تصدیق کے رشتے کو تا عمر نبھایا بھی۔ اگر آپ کی اس تصدیق کے پیچھے وقتی اشتعال یا انفعال ہوتا تو تاریخ کے کسی صفحے پر مورخ یہ رقم کرتا کہ فلاں جنگ یا معرکے میں ابوطالبؑ کا بیٹا موت، شکست، جنگ کی شدت، تلواروں کی چھنکار یا تیروں کی بارش کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے پیچھے ہٹ گیا تھا۔
آپ صرف دینِ اسلام کے دفاعی ماہر نہیں تھے بلکہ پیغمبرِ اسلام کے دستِ راست، مشیر اور وزیر بھی تھے۔آپ کے سارے اوصاف اور فضائل اپنی جگہ لیکن آپ فضائل اور اوصاف کا مجموعہ نہیں بلکہ فضائل و اوصاف کی کسوٹی اور میزان ہیں۔ تاریخِ اسلام کے مطابق آپ نے دعوتِ ذوالعشیر میں فقط تائید رسالت نہیں کی بلکہ اُس روز سے آپ نذرِ اسلام ہوگے، روزِ اوّل سے ہی آپ اسلام میں ایسے ضم ہوگئے کہ رسولِ اسلام کے ساتھ سائے کی طرح نظر آتے تھے۔تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دعوتِ ذوالعشیر کے موقع پر رسالتِ محمدیﷺ کی تصدیق کا فیصلہ ایک عام سے نو سالہ بچے کانہیں بلکہ ایک حکیم، مدبر اور دانا نوجوان کا فیصلہ تھا۔
اس کے بعد تاریخ اسلام میں جتنے بھی اتار چڑھاو آتے ہیں، امتحانات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دینِ اسلام کو جو کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں ، اُن سب میں فراست بوتراب، حلمِ حیدرِ کرار اور شجاعت صفدر و غضنفر واضح طور پر جھلکتی ہے۔ اسلام کی تائید علی ابن ابیطالبؑ کی زندگی کا اصول تھا، ایک اصول پرست انسان کبھی بھی اصولوں پر سودا نہیں کرتا ، یہ ممکن نہیں کہ اصول پرست انسان کو مسلمان آپ زمزم سے غسل دیں اور کافر اس کے پاوں کو دھوکر پئیں بلکہ وہ قرآنی فیصلے کے مطابق مومنین پر مہربان اور منافقین پر سخت ہوتا ہے۔ جس طرح مقناطیس لوہے چون کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی طرح ایک اصول پرست انسان بھی اپنے جیسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جتنی اس کی شخصیت میں مضبوطی ہوتی ہے اتنی ہی اس کی کشش زیادہ ہوتی ہے۔ جس طرح ایک اصول پرست انسان کی ذات میں کشش زیادہ ہوتی ہے اسی طرح اس کی ذات میں بے اصول لوگوں کے خلاف دافع بھی زیادہ ہوتا ہے۔
دنیا میں علی ابن ابیطالب ؑ کی شخصیت کتنی مضبوط ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد آپ کا دافع بھی اسی طرح موجود ہے اور آپ کا جاذبہ بھی اسی طرح ہے۔آپ کے چاہنے والے اور آپ کے محب آج بھی آپ سے شدید محبت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن آج بھی آپ سے شدید بغض رکھتے ہیں۔ جس طرح نظامِ شمسی میں دافعہ اور جاذبہ پایا جاتا ہے ، اسی طرح انسان کی شخصیت میں بھی دافعہ اور جاذبہ پایا جاتا ہے، جو کمزور شخصیت کے لوگ ہوتے ہیں، ان کے مرتے ہی ان کی دشمنی و دوستی بھی مرجاتی ہے لیکن جو مضبوط اور جاندار شخصیت کے لوگ ہوتے ہیں ، ان کی شخصیت جتنی مضبوط ہوتی ہے ، ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کی محبت اور نفرت بھی اسی قدر باقی رہتی ہے۔
کسی بھی شخصیت سے محبت کا تقاضایہ ہے کہ اس شخصیت کے طرزِ زندگی اور پسند و ناپسند کو زندہ رکھا جائے ، اور کسی بھی شخصیت سے نفرت کے اظہار کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے طرزِ زندگی اور پسند و ناپسند کو فراموش کر دیا جائے۔کسی کے نعروں اور دعووں سے یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کون کس کا چاہنے والا ہے بلکہ کسی کے طرزِ زندگی، گفتار اور کردار سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کون کس کے راستے کا راہی ہے۔مولودِ کعبہ کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا جتنا بھی اظہار کیا جائے وہ کم ہے لیکن اس خوشی کے موقع پر ہمیں اپنے طرزِ زندگی پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے کہ کیا ہمارے طرزِ زندگی سے بھی حضرت علیؑ کی سیرت جھلکتی ہے یا نہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر عمارت اپنے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، برصغیر کی آزادی کے بھی کچھ ستون ہیں،بلاشبہ سرسید احمد خان، چودھری رحمت علی، علامہ محمد اقبال کا شمار انہی ستونوں میں ہوتا ہے۔موجودہ دور میں ایک خاص منصوبے کے تحت سرسید احمد خان کی تکفیر کی جاتی ہے ، پاکستان کا نام تجویز کرنے کا سہرا کسی اور کے سر باندھنے کی سعی کی جاتی ہے اور علامہ اقبال کو ایک سیکولر انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سات ہی جیسے دہشت گردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ویسے ہی علامہ اقبال اور قائداعظم کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ ان کا بھی کوئی مذہب نہیں۔
حالانکہ سب کے افکارو نظریات اور مذہبی عقائد روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اس کے باوجود اب یہ لکھا جاتا ہے کہ دوقومی نظریے کے بانی سرسید کے بجائےحضرت مجدد الف ثانی تھے، اسی طرح لفظ پاکستان کے خالق کے طور پر چودھری رحمت علی کے بجائے کسی اور کا نام لیا جانے لگا ہے اور ساتھ ہی علامہ اقبال اور قائداعظم کا چونکہ مذہب چھپانا مقصود ہے ، اس لئے ان کے دینی و مذہبی نظریات کو سرے سے ہی رد کردیا جاتا ہے۔
بھلا کہاں پر حضرت مجدد الف ثانی کا دور اور کہاں پر دو قومی نظریہ، کہاں حضرت شاہ ولی اللہ کا عہد اور کہاں پر لفظ پاکستان کا انتخاب، کہاں پر مولانا قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی، مولانا مودودی اور یعقوب نانوتوی کے افکار اور کہاں پر علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات، اسی طرح کہاں پر دارالعلوم دیوبند اور جماعت اسلامی کا وژن اور کہاں پر تشکیل پاکستان۔
مذکورہ بالا ساری شخصیات قابلِ احترام ہیں لیکن شخصیات کو بچانے یا بڑھانے کے لئے تاریخ میں تحریف سے گریز کرنا چاہیے۔تاریخ میں تخریب اس لئے بھی کی جا رہی ہے چونکہ جولوگ تشکیل پاکستان کے خلاف تھے اب وہ پاکستان میں اپنے وجود کے اظہار کے لئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لے رہے ہیں۔
تئیس مارچ کی مناسبت سے اس وقت ہماری کوشش ہے کہ تاریخ پاکستان کی تین اہم شخصیات کے افکارو نظریات کا خلاصہ پیش کریں پھر کسی اور مناسبت سے دیگر شخصیات کے کارنامے اور خدمات بھی بیان کئے جائیں گے۔
آئیے ہم شروع کرتے ہیں سرسید احمد خان سے اور سرسید کے بارے میں ان معلومات کا ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر زیرِ مطالعہ نہیں آتیں۔
سرسید احمد خان
۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو سرسید ایک اکتالیس سالہ معروف دانشمند تھے۔یعنی آپ ۱۸۱۷ میں پیدا ہوئے، اور ۱۸۵۷ تک آپ کئی مقالات اور کتابیں لکھ چکے تھے، آپ کے نانا فریدالدین کشمیری آخری مغل بادشاہ کے وزیر اعظم تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت شاہی دربار میں ہی ہوئی۔
۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی کے بعد سرسید احمد خان نے مندرجہ زیل امور پر توجہ دی:
۱۔سول انگریز اہلکاروں کو نہ مارا جائے
۲۔مسلمانوں کا ہندووں کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے چونکہ دونوں کے عقائد،عبادت گاہیں، معبود، ہیرو، تاریخ، دین، رسومات،حلال و حرام اور پاک و نجس ایک دوسرے سے مختلف ہے۔پس ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔
۳۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی ہے لہذا وہ ہندووں کے بجائے مسلمانوں کو اپنا اصلی دشمن سمجھتے ہیں اور کسی وقت بھی ہندو انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
۴۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہندووں کے بجائے انگریزوں کو اپنے اعتماد میں لیں ۔
۵۔ عملی سیاست وقتی طور پر مسلمانوں کے لئے زہرِ قاتل ہے ، مسلمان سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دیں۔
۶۔ جس چیز سے حکومت کسی ملت کو محروم کرنا چاہے اس چیز کو اس ملت کے نصابِ تعلیم میں شامل کردیا جائے
مذکورہ بالا امور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرسید نے مندرجہ زیل عملی اقدامات کئے:
۱۔ رسالہ اسبابِ بغاوت ہند کی اشاعت ۱۸۵۹ میں ہوئی، اسی طرح اسی سال مراد آباد میں ایسے سکولوں کی بنیاد رکھی جن میں فارسی اور انگریزی دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی،۱۸۶۲ میں غازی پور میں بھی اسی طرح کا سکول کھولا۔
۲۔۱۸۶۴میں غازی پور سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی ۔انگریزی و دیگر یورپی زبانی کی سائنسی کتابوں اور مقالات کا اردو ترجمہ کیا جائے
۳۔۱۸۶۹ میں انگلستان کا سفر کیا اور وہاں کے دو مشہور رسالوںTatler & Spectator کا مطالعہ کیا اور واپسی پر انہی کی روش کے مطابق ۱۸۷۰ میں رسالہ تہذیب الاخلاق شائع کیا۔
۴۔ ۱۸۷۵میں ایم اے او (محمڈن اینگلو اورینٹیل )ہائی سکول کی بنیاد رکھی جو ۱۹۲۰ میں یو نیورسٹی بنا۔۱۸۸۵ میں کانگرس کی بنیاد رکھی گئی تو سرسید نے مسلمانوں کو سیاست کے بجائے تعلیم کی طرف دعوت دی۔
۵۔۱۸۸۶ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کی بنیاد رکھی، یہ ایک تنظیم تھی جو ہر علاقے میں مقامی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل سنتی اور ان کے حل کے لئے کوشش کرتی۔
۶۔ سرسید احمد خان ۸۱ سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور علیگڑھ یونیورسٹی کی مسجد میں دفن ہوئے۔
یوں برصغیر کی آزادی کی تاریخ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔
۷۔۱۹۰۶ میں ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی اور یوں سرسید کے بوئے ہوئے بیج سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اس موقع پر مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کومنتخب کیا گیا، مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا اور برطانیہ میں لندن شعبے کا صدرسید امیر علی کو بنایا گیا۔
اسی طرح سرسید کے بعد چودھری رحمت علی کے بارے میں بھی کچھ اہم اور مفید نکات بیان کرتے ہیں:
چودھری رحمت علی
سرسید کی وفات سے صرف ایک سال پہلے یعنی ۱۸۹۷ میں ،مشرقی پنجاب کے گاوں موہراں میں گجر خاندان کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس نے اٹھارہ برس کی عمر میں تقسیمِ برصغیر کا فارمولہ پیش کیا[1]،جسے پہلا پاکستانی کہاجاتا ہے اور جس نے پاکستان کا نام تجویز کیا۔اس نے ۱۹۱۸ میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ یعنی بی اے تک کی تعلیم ہندوستان میں ہی حاصل کی، بی اےکےبعد محمد دین فوق کےاخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےشعبہ صحافت میں عملی زندگی میں قدم رکھا۔
1931ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
1933ء میں چودھری رحمت علی نے وہاں پر پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28 جنوری، 1933ء کو انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران "اب یا پھر کبھی نہیں" (Now OR Never) کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ شائع کیا اور یہی پمفلٹ لفظ "پاکستان" کی تشہیر کا باعث بنا۔
1935ء میں آپ نے آپ نے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" بھی کیمبرج سے شائع کیا اور تشکیل پاکستان کے لئے امریکہ، جاپان ، جرمنی اور فرانس کے دورے بھی کئے اور اس سلسلے میں ہٹلر سے ملاقات بھی کی۔
آپ نے ہی "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیاجس میں پاکستان ، صیفستان ، موبلستان ، بانگلستان ، حیدرستان ، فاروقستان ، عثمانستان وغیرہ کے علاقے اور نقشے بیان کئے گئے۔[2]
آپ لاہور میں ہونے والے تئیس مارچ ۱۹۴۰ کے سالانہ اجلاس میں شامل نہیں ہوئے ، اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
ایک خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث آپ پر پنجاب میں داخلے پر پابندی تھی اور دوسری وجہ یہ کہ آپ مسلم لیگ کے ساتھ آل انڈیا کے لفظ کے مخالف تھے،آپ کے نزدیک انڈیا کے بجائے دینیہ یا برصغیر کا لفظ معقول تھا۔چونکہ آپ صرف مسلمانوں کو ہی متحدہ ہندوستان کا وارث سمجھتے تھے۔
تئیس مارچ کی قرارداد میں کہیں بھی لفظ پاکستان استعمال نہیں ہوا تھا، ہندو پریس نے اسے طنزاً قرارداد پاکستان کہا اور پھر یہی نام مشہور ہو گیا۔
تئیس مارچ ۱۹۴۰ کا اجلاس قائداعظم کی زیر صدارت ہوا ، جس میں مسلمانوں نے علیحدہ وطن کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان بننے کے بعد چودھری رحمت علی دو مرتبہ پاکستان آئے تاہم پاکستان کی بیوروکریسی نے آپ کو قبول نہیں کیا اور آپ واپس لندن چلے گئے۔
3 فروری1951 بروز ہفتہ آپ نے لندن کے ایک ہسپتال میں وفات پائی ، جہاں سترہ دن تک آپ کے ورثا کا انتظار کیا گیا اور بالاخر 20 فروری، 1951ء کو دو مصری مسلمان طالب علموں نےچودھری رحمت علی کو انگلستان کےشہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی - 8330 میں لا وارث کے طور پر امانتاً دفن کیا اور آپ ابھی تک وہیں دفن ہیں۔[3]
سرسید اور چودھری رحمت کے بعد علامہ اقبال کی شخصیت کے کشھ اہم پہلو بھی پیش خدمت ہیں:
علامہ محمد اقبال
9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور۲۱ اپریل ۱۹۳۸ کو فوت ہوئے۔ آپ 25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی آزادی کے ایک ستون ہونے کے ناطے فکرِ اقبال میں امت کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔
2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انھیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔
جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔
اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انھیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یادرکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔
اب آیئے اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔
اقبال کے زمانے میں سیاسی و اجتماعی شعور کو کچلنے کے لئے استعمار سرگرمِ عمل تھا اور یہ مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا۔ لہذا اس مسئلے کو ہم سب سے پہلے بیان کر رہے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کا اپنی حقیقی شناخت اور خودی کو کھو دینا اور اس کا حلاقبال کے زمانے میں استعمار کی سازشوں کے باعث مسلمانوں میں اجتماعی شعور کے فقدان کا مسئلہ اس قدر سنگین تھا کہ مسلمان اپنی خودی اور شناخت تک کھوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ بانگِ درا میں جوابِ شکوہ کے سترہویں بند میں اقبال کہتے ہیں:
شور ہے ہوگئے دینا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو!
اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مثال اس ماہی کی سی تھی، جو علم و حکمت کے سمندروں میں پلی بڑھی تھی، لیکن غفلت نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس سمندر کی طلب کر رہی ہے، خود اسی سمندر میں اب بھی غوطے کھا رہی ہے۔ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ علوم و فنون کے بحرِ بیکراں کی پروردہ ہونے کے باعث ہر لحاظ سے دوسری اقوام سے بے نیاز اور غنی ہونے کے باوجود بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لئے دوسروں سے رہنمائی اور مدد کی طالب تھی۔ چنانچہ بالِ جبریل میں مسلمانوں کی غفلت کی تصویر اقبال نے ایک شعر میں کچھ یوں کھینچی ہے:
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے؟
اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے
اقبال نے امت کی حقیقی شناخت کھو جانے کا حل امت کی خودی کو زندہ کرنے میں ڈھونڈا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات
اقبال جہاں خودی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی علاقائی، جغرافیائی یا لسانی خودی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امت کا ہر فرد مسلمان ہونے کے ناطے اپنی خودی اور شناخت کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مقام کو سمجھے اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام
اقبال نے صرف خودی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خودی کو واپس لانے کے لئے آپ عملی فعالیت کے ذریعے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فکرِ اقبال کے ساتھ جب ہم اقبال کی ذات کو رکھ کر دیکھتے ہیں تو ایک یہ بات سامنے آتی ہے کہ باصلاحیت اور دانشمند حضرات گوشوں میں بیٹھ کر صرف افکار کی کھچڑی تیار کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں۔
2۔ مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا حلاقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے مظالم اور ہندووں کی سازشوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ہی غلام بنا کے رکھ دیا تھا، مسلمان اپنی آواز کو نہ ہی تو غاصب حکمرانوں کے سامنے بلند کرنے کا سلیقہ جانتے تھے اور نہ ہی ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے فکری و نظریاتی تربیت کا کوئی سلسلہ موجود تھا، چنانچہ اب اس مسئلے کے حل کے لئے اقبال نے خود اپنی سرپرستی میں 1934ء میں لاہور سے روزنامہ احسان کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی جاتی تھی اور جس کا اداریہ تک آپ خود لکھتے تھے اور اس اخبار میں نوجوانوں کی فکری و سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے آپ کے مضامین و نظمیں شائع ہوتی تھیں۔
اس جراتِ اظہار کے باعث اقبال کہتے ہیں:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اقبال نے خود عملی طور پر میڈیا کے میدان میں قدم رکھا، ایک اخبار نکالا اور اس طرح مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے درمیان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے مقام، اپنے دین اور اپنے جذبات کے اظہار کا ہنر سکھایا۔ آپ شاعری کی زبان میں "مسلمان" کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تو جرات اور تڑپ کے ساتھ اپنی خودی، شناخت اور مقام کو آشکار کر، تاکہ تو اور تیری آئندہ نسلیں غیروں کی غلامی کو قبول نہ کریں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
اسی طرح امت کی فکری تربیت کے لئے اقبال نے بے شمار مضامین اور اشعار لکھے ہیں، ہم ان میں سے نمونے کے طور پر چند اشعار اس وقت پیش کر رہے ہیں:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھو گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک
قوم کو فکری طور پر عقائد کی پاسداری کی ترغیب دینے کیلئے ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں
ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
اقبال اسی طرح پورے عالمِ اسلام کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے تھے، مثلاً فلسطین، طرابلس، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں اقبال کا ایک ایک شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اسی طرح 1912ء میں جنگِ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں:
فاطمہ! تو آبرُوے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے
کشمیر کے بارے میں ارمغان حجاز میں اقبال فرماتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل
جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
افغانستان کے بارے میں بالِ جبریل میں لکھتے ہیں:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
3۔ کسی متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا اور اس کا حلاقبال، پورے عالم اسلام کے لئے ایک مرکز اور پلیٹ فارم کے خواہاں تھے آپ کے بقول:
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی
لیکن اس وقت بہت سارے لوگ لندن اور جنیوا کو اپنا قبلہ اور مرکز بنا چکے تھے، انھیں جو کچھ ادھر سے حکم ملتا تھا، وہ اسی کے سامنے سرخم کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مسلمان قوم کو مخاطب کرکے کہا:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے
اقبال کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ اس زمانے میں تہران کو ایک عالمی اسلامی مرکز کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس لئے آپ نے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کی خاطر اقوام مشرق کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لندن اور جنیوا کے بجائے تہران کو اپنا مرکز بنائیں۔ جیسا کہ آپ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
آپ کے نزدیک خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس ایک متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا تھا، آپ نے اس سلسلے میں لوگوں کو صرف اشعار اور نظمیں نہیں سنائیں بلکہ آپ نے ایک عالمی اسلامی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے ابتدائی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے فعال کردار بھی ادا کیا اور اس طرح مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم بنا دیا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.