وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر انسان کی جدوجہد کو اس کےظاہری عمل اور اس عمل کے پیچھے پنہاں فکر کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔  ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے تئیس سال بعد پاکستان کے دینی حلقوں میں یہ بات مسلمہ ہو چکی ہے کہ شہید کا عمل صائب اور ان کی فکر درست تھی- اگرچہ یہ بات ان کی حیات میں اس حد تک ثابت نہ تھی- متعدد علماء اور دیگر رہنماء جو ایک زمانے میں ان کے عمل کوتعجب کی نگاہ سےدیکھتے  تھے اور ان کی فکر کے لحاظ سے تردد کے شکار رہتے تھے لیکن آج وہ بھی شہید کے گُن گا رہے ہیں۔ گویا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ  سچے  اور مخلص انسانوں کو  اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے جان گنوانا پڑتی ہے-

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے عمل کی پاکیزگی اور ان کی فکر کی سچائی نہ صرف ان کی اپنی شخصیت میں تبدیلی لائی بلکہ ہزاروں لاکھوں دوسرے انسانوں  میں تبدیلی کا مؤجب بھی  بنی ہے۔ بیرون ملک کے ایک اہم مذہبی رہنما نے ایک مرتبہ ایک پرائیوٹ محفل میں یہ کہا کہ میں پاکستان میں جس بھی دینی جوان سے ملا ہوں وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈاکٹر محمد علی شہید سے تعلق رکھتا ہے۔

ڈاکٹر شہید کی زندگی کا اہم ترین اور نمایاں پہلو اُن کا ہمیشہ متحرک رہنا ہے۔ وہ نامساعد حالات میں بھی ہمیشہ متحرک رہتے بلکہ ایسے حالات ہی کو عمل کا بہترین وقت سمجھتے تھے۔ ان کی فکر یہ تھی کہ ہمیں اپنے آپ پر نامساعد حالات کا بوجھ ڈالنا چاہیے تاکہ ہم اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں اور اپنے سینوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے کھول سکیں۔

وہ  یہ سمجھتے تھے کہ جب بھی ایسے نا مساعدحالات ہوں تو ہمیں اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہیے کیونکہ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہم دوسروں کے حملوں کی موجوں اور ان کی تحریکی کاوشوں کے فکری بھنور میں پھنس کر انہی کی بعض حرکات کی نقالی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر محمد علی شہید کی فکر کے مطابق اگر ہم اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات سے بے اعتناء رہیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات، تشخص اور حقیقت سے متصادم کسی بھی واقعے اور چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

 اسی لئے حق و صداقت کے مدعی کو اپنے تشخص کی بقا کے لیے اپنی تمام ترخواہشات، رجحانات،قلب و وجدان اور حرکات و اعمال کے ذریعے جدوجہد کرنی چاہئیے۔بلاشبہ وه جانتے تھے کہ یہ جدوجہد پہلے بازو و دل سے ہو گی اور پھر وجود اور سر کا تقاضا کرے گی۔وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے آج اپنے دلوں اور سروں کو قربان نہ کیا تو دوسرے لوگ بڑی ڈھٹائی سے ایسی جگہ اور وقت میں ہم سے ان کا مطالبہ کریں گے جب ہم اختیار سمیت اپنا سب کچھ کھو چکے ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی عمل و فکر کا ایک خاصہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ضروریات کو جہان کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ڈھال لیا تھا مثلاً دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کو جہاں وہ دنیا کے لئے ضروری سمجھتے تھے وہاں اسے اپنی ذات کی بھی ایک ضرورت سمجھتے تھے۔ اجتماعی جدوجہد کرنے والوں میں یہ خاصیت کم و بیش ہی دیکھنے میں آئی ہے اسی وجہ سے ان کی جدوجہد میں وہ لگن اور قربانی کا جذبہ نظر  نہیں آتا جو ڈاکٹر صاحب کی ذات میں قابلِ مشاہدہ تھا۔ ڈاکٹر شہید کی اپنی کوئی مخصوص دنیا نہ تھی بلکہ انہوں نے اپنے وجود  کو اجتماع سے مربوط کر لیا تھا۔فکری طور پر وہ اپنے اس تعلقات کی نوعیت کو سمجھتے تھے اور اس میں بالکل واضح تھے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں قبل از وقت اپنی وصیت لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔

اگرچہ شہید ڈاکٹر  کا عمل کے میدان میں بہت متحرک ہونا اور تحریر و تقریر کے ذریعے ان کی جانب سے کوئی قابلِ ذکر مواد منتقل نہ ہونا ہمارے لئے ایک بہت بڑی محرومی کا باعث ہے  تاہم  ڈاکٹر صاحب فکری لحاظ سے ایک  مضبوط اور پختہ انسان تھے اور غوروفکر کے عمل کو ہمیشہ جاری رکھتے تھے۔

 راقم سمیت جن لوگوں کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے ہر عمل کے پیچھے ایک گہری سوچ ہوتی تھی جو ایک فکری عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی تھی۔ یہ بات ڈاکٹر شہید کی جدوجہد سے متاثر نوجوانوں کو پلے باندھ لینا چاہئیے کہ ڈاکٹر صاحب کا ہر عمل گہری فکری عمل کا نتیجہ ہوتا تھا۔

 ڈاکٹر صاحب سے تحریری و تقریری طور پر زیادہ مواد نقل نہ ہونا اس وجہ سے تھا کہ انہیں اردو زبان پر عبور نہ تھا۔ ان کی بنیادی تعلیم جنوبی افریقہ کی تھی لہذا انہیں اردو زبان پر دسترس حاصل نہ تھی۔ ڈاکٹر شہید فکر میں تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے ذہن سے سوچتے تھے اور مسائل و خیالات کے تجزیہ تحلیل میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ شہید ڈاکٹر کو کبھی بھی جذبات کی رو میں بہتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ہر عمل کو منطق و عقل کی بنیاد پر انجام دیتے تھے۔ جذباتی لوگوں کی قدر ضرور کرتے تھے اور ان کی حسن نیت کو سمجھتے بھی تھے لیکن انہیں سمجھاتے اور ان کے احساسات کو توازن پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔

ڈاکٹر شہید جیسی انسانی روح کا ارتقاء تعامل فکر کے ذریعے اور اس کی روشنی میں ہوتا ہے۔ایسے انسان اپنی ذات میں اور اپنے نفس کے باطن میں گہرائی سے مسلسل غوروفکر کرتے رہتے ہیں اور نفس کی کمزوری اور جذباتیت کی وجہ سے جو اوہام پیدا ہوتے ہیں ان سے چھٹکارا پانے کے لیے تنگ نظری کے خول کو توڑ دیتے ہیں،جس کے نتیجے میں ان کی ان حقائق کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے، جن میں کوئی کجی یاگمراہی پیدا نہیں ہو سکتی۔

ڈاکٹر شہید کی شخصیت کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جو صرف کام برائے کام کرنا چاہتی ہو بلکہ وہ کائنات کی روحانی تعبیر کے قائل تھے، معاشرے کے اپنے تشخص کو کھو دینے کا درد محسوس کرتے تھے، عالمی سطح پر شیطنت کے کھیل  کے مقابلے کے لئے کمر بستہ تھےاور اس کے مقابل رحمانی قوتوں کے ظہور کو  ضروری سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو اس وسیع کائناتی جدوجہد کا حصہ سمجھتے تھے۔

ایک عالم و روحانی کے گھر میں متولد ہونے اور قرآن و حدیث کے سائے میں پرورش پانے نے خود ڈاکٹر شہید کی اس فکری پاکیزگی کو جلا بخش دی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ہماری عملی و فکری زندگی اور اس کی جدوجہد ہماری روحانی زندگی کے لئے ہے،جو ہماری دینی فکر کا جزولاینفک ہے۔

وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جس طرح ظاہری عبادت اور ذکرو تسبیح کے ذریعے قلب و روح کی روحانی زندگی میں رفعت پیدا ہوتی ہے،اسی طرح اجتماع میں رہنا اور اس کی اصلاح و فلاح کے لئے محنت و جدوجہد کرنے کا تعلق بھی روحانی زندگی سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی ایک حقیقی مؤمن کی زندگی تھی جس کا ہر کام عبادت،ہر فکر مراقبہ،ہر کلام مناجات ، ہر عمل معرفت کی رزمگاہ،کائنات کا ہر مشاہدہ چھان پھٹک اور نگاہِ شوق اور اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کے ساتھ رحمت وشفقت پر مبنی تعلق ہوتا ہے۔

اگرچہ آج کے رہنما اور تمام اہم جماعتیں اپنے آپ کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والے اور پاکستان میں ان کے قائم کردہ اصول عمل کے وارث قرار دیتے ہیں،لیکن اس کے باوجود وہ حسبِ منشا عوامی محبت اور تقدس حاصل نہیں کر پائے اور گروہ در گروہ میں تقسیم ہو کر مثبت کردار ادا نہیں کر پا رہےاور بعض اہلِ نظر کے مطابق انہوں نے راہِ راست سے بھٹک کر منفی پہلوؤں کو اختیار کر لیا ہے۔

ایسے موقع پر جب ہم شہید کی تئیسویں برسی منا رہے ہیں ہمارے راہنماؤں اور ملی تنظیموں کو اپنے اندر اس حقیقی عمل و فکر کے فقدان کا سبب تلاش کرنا چاہیے  جس کے ڈاکٹر شہید امین تھے ۔ یہ جاننا چاہئیے کہ حقیقی ایمان اور کردار کے خلوص کی وہ جھلک جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھی  اور جو کیسی بھی صورتحال ہو ان کی ذات اور ان کے اجتماعی کاموں میں نمایاں تھی اب کہاں ہے یا اس کا رنگ پھیکا کیوں پڑ گیا ہے۔

تحریر: پروفیسر سید امتیاز رضوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) متکلمین امامیہ نے اپنی کتابوں میں ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت کے بارے میں قرآن و سنت سے بہت سارے نصوص ذکر کئے ہیں کہ جن کی وضاحت کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں پر بطور نمونہ چند نصوص بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

1۔ آیہ ولایت:
{ إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّہ ُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوۃَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکَوۃَ وَہُمْ رَاکِعُون}۱تمہاراولی تو صرف اللہ اوراس کا رسول اوروہ اہل ایمان ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔

آیت کریمہ کے مطابق خداوند متعال،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ مومنین جو خاص صفات کے حامل ہیں مسلمانوں پرولایت رکھتے ہیں ۔علاوہ از یں کلمہ{انما} حصر پر دلالت کرتاہے ۔۲ یعنی خدا ،پیغمبر اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعض مومنین کو مسلمانوں پر  ولایت حاصل ہے۔
آیت کریمہ کی شان نزول کے سلسلے میں شیعہ وسنی کتابوں میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں نیزطرفین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔۳بنابریں آیت کریمہ سے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری  ثابت ہوجاتی ہیں  اگرچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام بھی دوسرے مومنین کی طرح اس آیت  {النَّبیِ أَوْلیَ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِہِمْ}کے حکم میں شامل تھےلیکن آپ ؐکی رحلت کے بعد  حضرت علی علیہ السلام کی ولایت شروع ہوتی ہے۔

2۔آیت تبلیغ:
{یايہُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ  وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ  إِنَّ اللّہ َ لَا يہَدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِين}۴اے رسول!جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیاگیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویاآپ نےاللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اوراللہ آپ کو لوگوں{کے شر}سے محفوظ رکھے گا،بےشک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔آیہ کریمہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے بہت ہی قابل توجہ اور اہم موضوع کے بارے میں اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے اگر وہ کام انجام پذیر نہ ہو تو گویا اسلام کی بنیاد اور رسالت خطرے میں پڑ جائے گی لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موضوع کو بیان کرنے کے لئے مناسب موقع کے منتظر تھے کیونکہ عوام کی طرف سے ممانعت ،رکاوٹ اور خطرے سے ڈرتے تھے ۔یہاں تک  خداوند متعال کی طرف سے تاکید کے ساتھ حکم ملا کہ اس کام کو انجام دینے میں تامل نہ کریں اور فورا انجام دیں اور نہ ہی کسی سے ڈریں۔یہ موضوع یقینی طور پر دوسرے احکام کی طرف نہیں تھا کیونکہ ایک یا چند قوانین کی تبلیغ کی یہ اہمیت نہیں ہے کہ ان کی تبلیغ نہ کرنے سے اسلام کی بنیاد اکھڑ جائے گی اور نہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قوانین کے بیان کرنے اور تبلیغ سے خوفزدہ تھے۔بنابریں قرائن و شواہد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مذکورہ آیت غدیر غم کے مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بہت زیادہ شیعہ اور سنی مفسرین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔جیساکہ ابو سعید خدری فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو  حضرت علی علیہ السلام کی طرف دعوت دی ۔ آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے بازو کو پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ آپؐکی بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔{الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}

شیعہ و سنی کتابوں میں نقل ہونی والی متعدد احادیث میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیاگیاہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام  کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کو غدیر خم میں پہنچایا ہے ۔ شیعہ عقائد کے مطابق یہ بات مسلم ہے جبکہ اہل سنت کے متعدد علماء نے  بھی آیت کی شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت قرار دیا ہے اگرچہ یہ افراد ولایت کے معنی میں شیعہ مذہب کے ساتھ متفق نہیں ہیں  ۔

علامہ امینی نے کتاب  الغدیر میں اہل سنت کے تیس بزرگ علماء کا نام ذکر کیا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بارے میں غدیر خم میں نازل ہوئی ہے ۔آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں موجود احادیث  کے علاوہ خود آیت کریمہ کے ابتداوانتہا اورکلمات پر غور کرنے سے بھی واضح ہو جاتا ہے  جیساکہ آیت کریمہ کے ابتدائی حصے  میں اس مطلب کو بیان کیاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کو لوگوں تک پہنچانے پر مامور تھے  اور یہ الہیٰ پیغام اتنا اہم تھا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے انجام نہ دیں تو گویا نبوت و رسالت کی ذمہ داری انجام نہیں دی ہے جبکہ اس جملہ{ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ}{خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا}سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ اس حکم کو پہنچانے  سے خوف محسوس کرتے تھے جس کی بنا پر خدا نے آپ ؐکو تسلی دی اور آپ ؐکی حفاظت کا اعلان فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پیغام کے پہنچانے میں اپنی جان کا خوف نہیں تھا اور آپ ؐاپنی موت و حیات کے بارے میں خوفزدہ نہیں تھے بلکہ آپ ؐدین  کے بارے میں خوف محسوس کر رہے تھے کہ کہیں  لوگ اس اعلان کے بعد دین  کے بارے میں مشکوک اور مرتد  نہ ہو جائیں کیونکہ یہ  پیغام حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت سے متعلق تھا اور حضرت علی علیہ السلام آپ ؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔عرب کے پرانے رسم و رواج کے مطابق منافقین کے لئے  یہ بہترین موقع تھا کہ آپ ؐ کے اس اقدام کو عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کے مطابق سمجھ بٹھیں جس کے نتیجے میں  دین اسلام کی حقانیت اور اس کے عظیم اہداف خطرے میں  پڑ جاتےجبکہ دین اسلام عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتا تھا لہذا  خداوند متعال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ ہم ہر قسم کی ناروا تہمت سے آپ کو محفوظ رکھیں گےاور اس سلسلے میں دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔۵

3۔ آیہ اکمال دین:
{الْيَوْمَ يَئسَ الَّذِينَ کَفَرُواْ مِن دِينِکُمْ فَلَا تخَشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ  الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتیِ وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}۶  آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں،پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور اپنی
نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو  بطوردین پسندکرلیا۔

آیت کریمہ اس دن کی خبر دے رہی ہےکہ جس دن کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا جس سے دو نتیجہ حاصل ہوا:

1۔ کفار ہمیشہ کے لئے اسلام کی تباہی سے مایوس ہوگئے۔2۔دین اسلام اپنے کمال کو پہنچا اور خداوند متعال کی نعمتیں پوری ہوئیں اور وہ دین اسلام سے راضی ہو گیا ۔  یہاں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کون سا دن تھا ؟ اور کون سا عظیم واقعہ رونما ہوا؟
شیعہ و اہل سنت ذرائع سے نقل ہونے والی متعدد احادیث  کے مطابق آیت کریمہ حجۃ الوداع اور روز غدیر خم 18 ذی الحجۃ سن10ہجری کو نازل ہوئی یعنی جب پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاجیوں کے جمع غفیر میں اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کا اعلان فرمایا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ بات شیعہ روایات کےمطابق مسلم ہے۔ اہل سنت کی روایات میں بعض اصحاب جیسے ابو سعید خدری ،جابر بن عبد اللہ انصاری ، زید بن ارقم اور ابو ہریرہ وغیرہ نے مذکورہ آیت کو واقعہ غدیر سے مربوط جانا ہے ۔

مسئلہ امامت، دین اسلام کی حفاظت اور احکام کےنفاذ و ابلاغ میں امام او ررہبرکے اہم کردار کو مد نظر رکھنےسے واضح ہو جاتا ہےکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت اسلامی کے رہبر کے انتخاب یعنی حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے اعلان کے بعد کفار مایوس ہو گئے کیونکہ یہ لوگ اسلام کی نابودی کے لئے ہمیشہ سازش میں مصروف  رہتےتھے لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکے گرچہ ان کی آخری امید یہی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کے خلاف عملی قدم اٹھاسکتے ہیں کیونکہ آپ ؐکا کوئی بیٹا نہیں ہے۔لہذا وہ اس  دن کے منتظر تھے تاکہ دین اسلام کے خلاف اپنی دشمنی کو برملا کریں لیکن پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے سامنے قانونی اور عمومی طور پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرما کر ان کی امیدوں کو ناامیدی میں تبدیل کیا. جب رہبر و امام کا اعلان ہوا تودین عروج و کمال کو پہنچا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام جیسا رہبر مسلمانوں کو ملاجو قرآن و سنت کی صحیح تفسیر کرتے ہیں اور جن کا کلام حق و باطل کی پہچان کا معیار بنا جس کے نتیجے میں دین وشریعت تحریف سے محفوظ رہیں۔ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں مسلمانوں پر خدا کی نعمتیں بھی کامل ہوگئیں اور اس قسم کے آئین پرعمل کرنے کے نتیجے میں رضایت الہی بھی حاصل ہوگی۔

لہذا خدا کی حکیمانہ تدبیر کو جسےپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں واضح فرمایا جس سے دین اسلام ،کفار کی سازشوں سے محفوظ رہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سلسلہ میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیےلیکن جو چیز پریشانی کا باعث ہے  وہ مسلمانوں کے اپنے اعمال ہیں کیونکہ اگر وہ اس عظیم نعمت کا انکار کریں تو یقینا یہ الہی نعمت ان کے ہاتھوں سے چھن جائے گی کیونکہ الہی سنت یہ رہی ہے کہ وہ کسی قوم یا  فرد کو نعمت عطا کرنے کے بعد واپس نہیں لیتا مگر یہ کہ کفران نعمت کرے اور اپنے ہاتھوں سے الہی نعمت کے زوال کا اسباب فراہم کرےچنانچہ ارشادرب العزت ہے :{ذَالِکَ باَنَّ اللّہ َ لَمْ يَکُ مُغَيرِّا نِّعْمَہً أَنْعَمَہَا عَلیَ قَوْمٍ حَتیَ يُغَيرِواْ مَا باَنفُسِہِمْ}۷ایسا اس لئےہواکہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔ آیت اکمال دین کا یہ جملہ {فَلَاتخَشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ}{پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو}اسی الہی ٰقانون کی طرف اشارہ ہے ۔۸

حوالہ جات:
۱۔مائدۃ،55۔
۲۔مختصر المعانی ،ص82،باب القصر۔
۳۔المیزان ج6ص16 – 20۔تفسیر ابن کثیر،ج2ص597۔تفسیر قرطبی،ج6س221۔شواہد التنزیل،حسکانی،ج1ص161۔اسباب النزول ، واحدی ، ص 132۔الریاض النضرۃ،طبری،ج3،ص208۔ المیزان ج6،ص 35۔المراجعات ،ص 161۔
۴۔مائدۃ، 67 ۔
۵۔المیزان،ج6،ص 45 – 52۔
۶۔مائدۃ،3۔
۷۔انفال،53۔
۸۔المیزان، ج5، ص178 – 179۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) فروری کے مہینہ میں میونخ میں بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والی میونخ کانفرنس دنیا کے سیاسی حالات او ر منظر نامہ پر نئے نقش مرتب کر گئی ہے کہ جہاں دنیا بھر کے ممالک سے آئے ہوئے سرکاری اعلیٰ عہدیداروں نے دنیا کے امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے مختلف قسم کی آراء پیش کیں اور خطوں میں رونما ہونے والے واقعات و سیاسی معاملات کی طرف توجہ مبذول کروائی۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کانفرنس میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے والی اور سنہ1948ء میں قائم ہونے والی جعلی ریاست اسرائیل کی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی دنیا کی سیکورٹی سے متعلق تقریر کی ، حیرت کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ایک ایسی جعلی اور غاصب ریاست ہے کہ جس کا وجود ہی دہشت گردی پر مبنی ہے اور دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو یہ بات نہیں جانتا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل گذشتہ ستر سال سے کس طرح انسانیت کی دھجیاں اڑانے میں مصروف عمل ہے، فلسطین کی بات کریں یا پھر فلسطین سے باہر گرد ونواح کے ممالک کی تو ہر طرف اسرائیل کی نظرآتا ہے کہ جس نے دیگر ممالک کی زمینوں پر قبضہ کر رکھاہے اور خطے میں نت نئے انداز سے براہ راست اور دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش اور النصرۃ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے معاونت کرتا ہے تا کہ خطہ غیر مستحکم رہے اور معصوم انسانوں کا خون زیاں ہوتا رہے۔

اب بات کرتے ہیں میونخ کانفرنس کی ، کہ جہاں اسی جعلی اور ظالم ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے خطاب کیا، اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ سیکورٹی کے بغیر نہ تو امن ہے نہ ہی خوشحالی اور نہ ہی ہمدردی اور نہ ہی آزادی ہے۔اب ذرا کوئی ان سے پوچھتا کہ جناب آپ تو خود دنیا کی سیکورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ موساد نامی دہشت گرد قسم کی خفیہ ایجنسی تو آپ ہی کی ہے کہ جو نہ صرف فلسطین میں لوگوں کا قتل و غارت کرتی ہے بلکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں ان کے دہشت گرد جا جا کر دوسرے ممالک کی اہم شخصیات کو اغوا اور قتل کرتے پھرتے ہیں، حال ہی میں ترکی سے لبنان کے جنوبی علاقے میں پہنچنے والے اسرائیلی موساد ایجنٹوں نے حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جسے لبنانی سیکورٹی اداروں نے ناکام بنا دیا تھا، تو آپ اب کس منہ سے یہ باتیں کرتے ہیں؟ جبکہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے نہ صرف فلسطینیوں کی سیکورٹی کو تہس نہس کیا ہے بلکہ سیکورٹی سے مربوط وہ تمام موارد کہ جنہیں نیتن یاہو نے بیان کیا ہے یعنی فلسطینیوں کی آزادی بھی سلب کی گئی، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا گیا، ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں کو بھی اسرائیل نے اپنا دشمن بنا کر ان کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں، اس طرح کے کئی ایک موارد ہیں جو خود اسرائیل پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں لیکن شرم کی بات ہے کہ یہان میونخ سیکورٹی کانفرنس میں آپ بھاشن دیتے نہیں تھک رہے؟

مزید بھاشن میں ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران ہمارے خطے یعنی مشرق وسطیٰ میں اپنی بالا دستی قائم کر رہا ہے ، حیرت کی بات پھر یہ ہے کہ نیتن یاہو کو معلوم ہی نہیں کہ مشرق وسطیٰ صیہونیوں کا خطہ ہونے سے پہلے عرب دنیا اور وہاں کے مقامی باشندوں کا خطہ ہے کہ جن کی نسل در نسل اس خطے میں چلی آ رہی ہے تو یہ صیہونی جو دنیا کے دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے سنہ48ء سے قبل یہاں پر لائے گئے تا کہ غاصب صیہونیوں کی سازش یعنی اسرائیل قائم ہو سکے تو آج یہ کس منہ سے اس خطہ کو اپنا کہتے ہیں؟ اور اگر مان لیجئے کہ اپنا خطہ ہے تو کیا کوئی اپنے خطے کے لوگوں کا قتل عام کرتاہے ؟ کیا اسرائیل نے سنہ48ء کے بعد سے سنہ67ء اور پھر متواتر 1975ء اور 1982ء اور 2006ء اور 2008ء سمیت مختلف موقع جات پر اس خطے کے ممالک اور عوام پر جنگیں اور مظالم مسلط نہیں کئے ؟ تو یہ خطہ کسیے نیتن یاہو کا ہو سکتا ہے؟

ماہرین سیاسیات کے مطابق جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعطم نیتن یاہو درا صل ایک عجیب سی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور بلکہ یہ کہا جائے کہ مسلسل سیاسی و جنگی میدانوں میں اسرائیل کے حصے میں آنے والی شکست نے اسرائیلی تمام عہدیداروں کی ذہنی حالت و کیفیت کو متاثر کیا ہے اور یہی اثر نیتن یاہو کی جانب سے ہمیشہ بین الاقوامی فورمز پر ظاہر ہوتا ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ دشمنوں کی فتح کا خود اعلان کرتے ہیں، یہاں میونخ کانفرنس میں بھی نیتن یاہو نے ایسا ہی کیا ہے، تقریر کے دوران ایک ڈرون طیارے کے کچھ ٹکڑے ہاتھوں میں اٹھا کر نیتن یاہو کاکہنا تھاکہ یہ ایرانی ساختہ ڈرون ہے جسے 10فروری کو اسرائیل نے مار گرایا تھا ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اقدامات کئے جا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کے درجنوں ڈرون روزانہ کی بنیاد پر فلسطین اور غزہ کی پٹی اور اسی طرح لبنان کے جنوبی علاقوں سے پرواز بھرتے ہیں اور غاصب صیہونیوں کے ناقابل تسخیر ہونے اور ان کی فضائی برتری کے دعووں کو چکنا چور کرتے ہیں کیونکہ جب اسرائیل خطے میں موجود دیگر ممالک کے عوام پر ظلم و ستم کرتا ہے یا پھر ان کے ممالک میں گھس کر فوجی کاروائیاں انجام دیتا ہے اور دوسرے ملکوں کی اہم شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے تو پھر خطے کی دیگر اقوام اور حکومتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں اور اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے تمام جنگی حکمت عملیوں کا استفادہ کریں۔بہر حال نیتن یاہو کی تقریر میں مسلسل ایران ایران اور ایران کی بات سن کر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے سیاسی وجنگی میدانوں میں شکست تسلیم کر لی ہے ۔

دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ نے مینوخ کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران بڑے اطمینان کے ساتھ مسکراتے ہوئے نیتن یاہو کو ایک کارٹونسٹ سرکس کا لقب دیا اور کہا کہ نیتن یاہو کی الزام تراشیوں اور اس طرح کے ڈرون کے ٹکڑے دکھانا کسی سرکس سے کم نہیں ہے۔

بہر حال یہ نیتن یاہو کی جانب سے دکھائے جانے والے ایرانی ساختہ ڈرون کے بعد دنیا کو یہ اندازہ بھی ہو چکا ہے کہ ایران فلسطین کے عوام کی کس حد تک مدد کرنے میں مصروف ہے یعنی فلسطین کی عوام و مزاحمتی تحریکوں کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کے لئے نہ صرف ایران مالی مدد کر رہا ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں بھی فلسطینیوں کو خود کفیل کر رہا ہے جس کا ثبوت اس طرح کے متعدد ڈرون طیاروں کا غاصب اسرائیلی فضاؤں میں پرواز کرنا ہے ۔نہ صرف فلسطین و دیگر خطوں سے ڈرون بھیجے جا تے ہیں بلکہ فلسطینیوں نے اب اسرائیلی ڈرون طیاروں کو مار گرانا بھی شروع کر دیا ہے اور اس طرح کے چند ایک واقعات گذشتہ برس بھی رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ایسے ہی واقعات فلسطین کی سرحدوں پر واقع دیگر ممالک کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں کہ جب اسرائیل کی طرف سے ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جواب میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کو مار گرایا گیا، حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں ایک ایف سولہ طیارہ گر کر تباہ بھی ہوا جس کا بھی شاید اسرائیل کو شدید رنج و الم بھی ہے اور دنیا پر آشکار ہو چکا ہے کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کھوکھلے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر جعلی ریاست اسرائیل فلسطین سمیت خطے کی دوسری اقوام کے خلاف جنگیں مسلط کرنے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے سمیت ان ممالک کی حدود میں داخل ہونے سمیت دوسروں کی سیکورٹی کو چیلنج کرسکتا ہے تو پھر فلسطین و لبنان و شام و عراق مصر اور دیگر تمام ان اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دفاع کو بہتر بنانے کے لئے اسرائیل کی سیکورٹی کو چیلنج کریں ، نیتن یاہو کی جانب سے ایرانی ساختہ ڈرون کے ٹکڑے دکھا کر سرکس کرنا ایک طرف ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی دشمن نے اپنے دشمن کی برتری کا خود اعلان کر دیا ہے کیونکہ اگر وہ ڈرون کا ٹکڑا ایرانی ساختہ بھی تھا تو کیا وہ ایران سے چل کر اسرائیل کی حدود تک آیا؟ یقیناًایسا نہیں ہوا ہو گا ۔کیونکہ اب خطے کی دیگر اقوام غیرت مندانہ اور شجاعت مندی کے ساتھ اپنی عزت وناموس کے دفاع میں سرگرم عمل ہیں اور اس معاملے میں فلسطین کی شجاع و پائیدار قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر محاذ پر اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔پس اسرائیل چونکہ ایک جعلی و غاصب ریاست ہے تاہم خطے سمیت دنیا کا امن اب اسرائیل کی نابودی سے مشروط ہو چکا ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ظالموں کو نابود کر کے ہی رہے گااور وہ لوگ جن کو مظلوم تر بنا دیا گیا ہے ان کو اس زمین پر حاکم قرار دے گا۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز(آرٹیکل) انحرافات آتے رہتے ہیں، یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، عوام منحرف ہوجائیں تو خواص ان کی اصلاح کرتے ہیں، عوام کے منحرف ہونے سے نظریات اپنی جگہ  مستحکم رہتے ہیں، لیکن اگر خواص منحرف اور آلودہ ہو جائیں تو وہ نظریات کو بھی اپنی جگہ سے ہلانے اور بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے سامنے  پاکستان کی تاریخ موجود ہے، نظریاتی طور پر یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ سارے مسلمان اس میں ملکر رہیں گے لیکن کچھ خواص نے  اپنے سے بلند منصب پر بیٹھے ہوئے خواص کی اطاعت کرنے کے لئے اس  ملک میں دیگر مکاتب کی تکفیر شروع کردی جس سے  بڑے پیمانے پر  بگاڑ پیدا ہوا اور عوامی  سطح پر خون خرابہ ہوا۔

معاشرے میں ظاہری طور پر حکمرانوں اور سرکاری شخصیات  کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے، جب معاشرے میں کسی بلند منصب پر بیٹھے ہوئے افراد کثیف، آلودہ اور غلیظ ہو جاتے ہیں تو ان سے ٹپکنے والی غلاظت ، نشیب اور اطراف کو بھی غلیظ کرتی ہے۔ اس لئے خواص کا نحراف ، عوام کے انحراف کی نسبت بدترین اور   زیادہ نقصان دہ ہے۔

پاکستان میں نظریہ پاکستان کے ساتھ جتنا بھی ظلم ہوا، اور پاکستانیوں کو جس قدر بھی خاک و خون میں غلطاں کیا گیا اس کی ایک اہم وجہ پاکستان کے سیاسی و سرکاری  خواص کا  خود نظریہ پاکستان سے منحرف ہوجانا ہے۔

جب معاشرے کی بڑی سطح کے خواص امریکہ  کے مفادات کے لئے پاکستان کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئےتو اس کے اثرات نیچے عوام تک دیکھنے کو ملے اور  بعض دینی و مذہبی  درسگاہیں  اور سکول وکالج بھی اس در آمد شدہ نام نہاد جہاد اور شدت پسندی  کی لپیٹ میں آئے۔

جس طرح ایک انسان میں حواس خمسہ  ہوتے ہیں اور اُس کی متفاوت  حِسیں ہوتی ہیں، اگر انسان کے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیں تو اس کے لئے  یہ خوبصورت اور دلکش زندگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گی۔بالکل اسی طرح ایک معاشرے کی بھی مختلف حِسیں  ہوتی ہیں،جیسے فنون لطیفہ، شعرو شاعری، مصوّری، موسیقی ۔۔۔ ان حِسوں میں سے ایک حِس ہے برائی کے خلاف ردِّ عمل دکھانا۔

جب کسی معاشرے کے خواص کثیف اور آلود ہوجاتے ہیں تو وہ معاشرہ مریض ہو جاتا ہے اور اس وقت اُسے برائی کے خلاف بے حسی کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔  جب برائی کے خلاف ردّعمل ختم ہوجاتا ہے تو لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ معاشرے کے سب سے بلند منصب پر کیسا شخص بیٹھا ہوا ہے!؟

لوگ فقط کھاتے پیتے ہیں، افزائش نسل کرتے ہیں اور مرجاتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کی گردن میں کس کی غلامی کی زنجیر پڑی ہوئی ہے، ان کی محنت کا ثمر کون کھا رہا ہے، وہ کس کی دست بوسی کر رہے ہیں اور کس کے ساتھ تصاویر بنوا کر فخر محسوس کر رہے ہیں، ان کی آئندہ نسلیں کس کی غلامی میں جئیں گی اور ان کے ملک کا مستقبل کیا ہوگا!؟

جب معاشرہ برائی کے مقابلے میں بے حس ہوجاتا ہے، سچ اور جھوٹ کے معرکے میں غیرجانبدار ہوجاتا ہے، اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرتا ، کھرے اور کھوٹے میں فرق نہیں کرتا تو پھر وہ آٹے کی ایک بوری اور چند ڈالروں کے گرد گھومنے لگتا ہے، پیٹ بھرنے کے لئے بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے، مسلمان مسلمان کی تکفیر کرتا ہے اور اسلامی ریاست میں پر امن غیر مسلموں کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں۔

یہ معاشرتی انحطاط، اخلاقی زوال، باہمی نفرتیں اور انسانوں کے درمیان فاصلے در اصل معاشرے کے سب سے بلند منصب پر غیر صالح اور مفسد لوگوں کے بیٹھنے کی وجہ سے ہیں۔

ہر دفعہ الیکشن  آتا ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ لوگوں کو  برائیوں کے خلاف بیدار کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے،اس موقع پر عوام میں برائیوں کے خلاف ردّعمل کی حس کو بیدار کیا جانا چاہیے، لوگوں کو یہ راستہ نہ دکھایاجائے کہ دو بروں میں سے کم برے کا انتخاب کریں بلکہ لوگوں کے سامنے اچھے ، متقی اور صالح افراد کو   انتخاب کے لئے  پیش کیاجانا چاہیے۔

یہ ہمارے دانشمندوں خصوصاً، وکلا، اساتذہ اور میڈیا پرسنز کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  درپیش سیاسی انتخابات میں عوام کی درست رہنمائی کریں اور اہلیانِ پاکستان کو نظریہ پاکستان کے مطابق امیدواروں کے انتخاب کا شعور دیں۔

جب ہم عوام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد مرد و خواتین دونوں ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایک خاتون کسی بھی طور پر  معاشرتی امور سے  غافل یا لا تعلق نہیں رہ سکتی۔خواتین کے لئے دینِ اسلام میں حضرت فاطمہ الزہراؑ اور حضرت زینبؑ بنت علیؑ نمونہ عمل ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے میں فتنہ و فساد عروج پر ہو اور مسلمان خواتین اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کریں اور معاشرے کے اعلی ترین منصب پر بے اصول اور بے دین لوگ براجمان ہوں اور مسلمان خواتین اُن کے خلاف جدوجہد نہ کریں۔

لہذا پاکستان میں  انتخابات  کے موقع پر برائیوں کے خلاف  ردّ عمل دکھانے میں اور کرپٹ خواص کو دیوار کے ساتھ لگانے میں  خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

معاشرہ اس وقت برائیوں کے خلاف بے حس ہوجاتا ہے جب کرپٹ خواص  مختلف بہانوں  سےلوگوں کو بے وقوف  بنا لیتے ہیں،  اور اپنے کالے کرتوتوں پر لوگوں کو خاموش اور بے حِس  رہنے پر قانع کر لیتے ہیں۔

ہم کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے!اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیاہم اپنی آئندہ نسلوں کو انہی کرپٹ خواص کی غلامی میں دیں گے  یا پھر ان کے خلاف جدجہد میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) دماغ کی غذا علم ہے، ساری غذائیں چمچ سے نہیں کھائی جاتیں، کچھ ہاتھ سے، کچھ گلاس سے اور کچھ کپ سے لی جاتی ہیں، اسی طرح ہر غذا کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے، صبح ناشتے میں جو غذائیں پسند کی جاتی ہیں وہ دوپہر کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں اور رات کے کھانے میں جن چیزوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ ناشتے اور دن کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں۔

جس طرح جسم کے رشد اور ارتقا کے لئے مختلف غذاوں کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح دماغ کے  رشد اور ارتقا کے لئے بھی مختلف علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرینِ تعلیم، طالب علم کی عمر ،اس کے  ماحول اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق  علوم کی بھی درجہ بندی کرتے ہیں۔

ہر عمر کے تناسب سے طالب علم کو مناسب مقدار میں علم دیا جاتا ہے اور ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق طالب علم کو مفید علم سیکھنے  اور حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بدن کی غذا کی طرح دماغ کی غذا یعنی علم  دینے کے بھی مختلف طریقے اور روشیں ہیں جن سے مناسب استفادہ ضروری ہے۔

جس طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اسی طرح مجموعی طور پر ایک ملت کو بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ دانشمندوں اور ہمارے ماہرین تعلیم کا کام ہے کہ وہ بحیثیت ملت اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔

مسجد کےمحراب و منبر سے لے کر میڈیا تک یہ سب انسانی تعلیم و تربیت کے ذرائع ہیں، انہی ذرائع کو بروئے کار  لاکر ہم اپنے ملی و قومی شعور میں بطریقِ احسن اضافہ کر سکتے ہیں۔ انسان فطری طور پر علم کا تشنہ ہے، اگر انسان فطری تقاضوں کا ساتھ دے تو پورا نظامِ کائنات اس کی مدد کرتا ہے۔

آج ہمارے ہاں ہر چیز میں بگاڑ ہے، ہر شخص ناراض ہے، ہر شعبہ خراب ہے چونکہ ہم بحیثیت قوم نظامِ فطرت سے ہٹے ہوئے ہیں، جس طرح اسلام، دینِ فطرت ہے اسی طرح علم، انسان کی فطری ضرورت ہے ، چنانچہ دینِ اسلام میں بھی بار بار حصولِ علم کی تاکید کی گئی ہے ۔

کبھی کہا گیا ہے کہ علم حاصل کرو مہد سے لے کر لحد تک یعنی علم حاصل کرنے میں عمر کی کوئی قید نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے یعنی علم کی خاطر ہجرت کرنے میں اور دوسرے ممالک کی طرف جانے میں کوئی مضائقہ نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مردو عورت پر فرض ہے یعنی علم کے حصول میں لڑکے اور لڑکی کا کوئی فرق نہیں۔

بلاشبہ علم انسانی معاشرے کی مسلسل ضرورت اور انسانی فطرت کی مسلسل آواز ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر طور پر  اُن لوگوں کا منبر و محراب اور میڈیا پر قبضہ ہوتا ہے جو خود علمی طور پر عقب ماندہ ہوتے ہیں۔ جب محراب و منبر اور میڈیا پر عقب ماندہ لوگ براجمان ہوتے ہیں تو معاشرہ بھی پسماندگی کی طرف جاتا ہے اور معاشرے پر ایسے لوگ حکومت کرتے ہیں جن  کی تعلیمی ڈگریاں تک جعلی ہوتی ہیں۔

جب محراب و منبر ، میڈیا اور سیاست میں تعلیمی  و اخلاقی طور پر زوال پذیر لوگ چھائے ہوئے ہوں تو ماہرین تعلیم اور دانشمندوں کی اوّلین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ منبر و محراب، سیاست اور میڈیا کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور شائستہ اور بہترین افراد کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھائیں۔

جب تک ہم اپنی قوم کی تعلیمی و شعوری سطح بلند نہیں کرتے ، بچوں کی طرح مساجد و مدارس اور سیاست دانوں نیز میڈیا پرسنز کے ایک مخصوص تعلیمی و اخلاقی معیار کے قائل نہیں ہوجاتے اس وقت تک صرف ووٹ ڈالنے اور الیکشن کرانے سے ملکی و قومی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

سیاسی شعور اور بازار سے آٹا اور صابن خریدنے کے شعور میں بہت فرق ہے، جب ووٹ ڈالنے والے کو ہم نے سیاسی شعور ہی نہیں دیا اور اس کی سیاسی تربیت ہی نہیں کی تو وہ کبھی آٹے کی ایک بوری کی خاطر اور کبھی برادری، فرقے یا علاقائی و لسانی تعصب  کی خاطر ہی ووٹ دے گا۔

اس وقت انتخابات سے پہلے سیاسی دانشوروں اور عمومی مفکرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو سیاسی طور پر بیدار کریں، انہیں ملک و قوم کا نفع و نقصان سمجھائیں، انہیں سیاست کی ابجد سے آشنا کریں اور ان کے سامنے ایک صاف و شفاف سیاسی نظریہ پیش کریں۔

خصوصا جو تنظیمیں اپنے آپ کو الٰہی و نظریاتی کہتی ہیں ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو الٰہی سیاست کے اصولوں کی تعلیم دیں۔

چونکہ جس طرح تعلیم و تربیت کے بغیر بچہ عقب ماندہ رہ جاتا ہے اسی طرح تعلیم و تربیت کے بغیر اقوام بھی پسماندہ اور عقب ماندہ رہ جاتی ہیں ۔

آج ہمیں ایک ایسی اسلامی حکومت کی ضرورت ہے کہ جسمیں  کم از کم مندرجہ زیل خصوصیات پائی جائیں:

۱۔ لوگوں کا انتخابات میں انتخاب  اُن کے ایمان ، تعلیم اور کردار  کی وجہ سے کیا جائے

۲۔ کچہری سسٹم اور عدالتی نظام میں رشوت خور بابو حضرات اور ہرکاروں کا خاتمہ کیا جائے

۳۔امیر و غریب سب کے بچوں کے لئے ایک جیسا معیاری اور جدید نظامِ تعلیم فراہم کیا جائے

۴۔کام اور روزگار کے مواقع رشوت اور سفارش کے بجائے ، تعلیم، میرٹ اور تجربے کی بنیاد پر سب کے لئے یکساں ہوں

۵۔ تھانوں اور دیگر سرکاری داروں میں عوام کے احترام کو یقینی بنایا جائے اور سرکاری اہلکاروں کی تربیت و نگرانی کی جائے تاکہ رشوت و سفارش کا خاتمہ ہو

۶۔ عوام کو قانونی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی تعلیم اور شعور دیا جائے

۷۔بنیادی انسانی حقوق پر سب کا حق تسلیم کیا جائے

۸۔ صحت کے سہولتیں امیر و غریب کے لئے ایک جیسی ہونی چاہیے

یہ ہم نے کم از کم خصوصیات کا ذکر کیا ہے ۔ جب تک ہم عوام کو اسلامی نظام ریاست و سیاست سے آشنا نہیں کریں گے ، عوام کو آٹے کی بوری اور برادری سے باہر نہیں نکالیں گے تب تک  ، پاکستان بحرانات سے نہیں نکل سکتا اور عوام کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  مقدمہ:حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لہن ان لا یرین الرجال و لا یرو نہن}۱۔رسول خدا ﷺ آپ  ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک}۲۔

بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجہ الله}۳۔ کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔۔ }۴

اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ہم  سیرت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا  میں موجود چند  تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں  گے۔

لغت میں سیرۃ ،رفتار کے معنی میں آیا  ہے۔ "حسن السیرۃ؛ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔"۵  ۔

ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: "سنت" اور "طریقہ"ہے۔ جیسے" السیرۃ:السنۃ؛ سیرت یعنی  سنت اور  راہ  وروش کے معنی میں ہے۔سار بہم سیرۃ حسنہ"یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش  آیا۔اصطلاح میں سیرہ سے مراد کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ہوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو" سیرۃ  کہا جاتا ہے جسے دوسرے  انسان  اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جاسکے ۔۶

صاحب مفردات کے مطابق "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے  کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش  اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ۷صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو  تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔  ۷۔بنابر این اگر اس کا ريشہ(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو  نظارت ، سرپرستي و رہبري  اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔

شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان  کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں  انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔۸
سیرہ تربیتی ہر اس رفتار کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔اس بناء پر انسان کا ہر وہ رفتار جو وہ دوسروں  کے  احساسات ،عواطف، یقین و اعتقاد اورشناخت پر اثرانداز  ہونے کےلیے انجام دیتا ہے ،سیرت  تربیتی کہا جاتاہے۔۹

سیرت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا  میں موجود چند  تربیتی نمونے

الف۔گھریلو اور ازدواجی نمونہ
زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں زندگی میں کبھی انسان خوش ، کبھی غمگین ، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے اگر میاں بیوی با بصیرت اشخاص هوں تو سختیوں کو آسمان اور ناہموار کو همورا بنادیتے ہیں۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا  اس میدان میں ایک کامل اسوہ نمونہ ہیں آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہی اپنی پاک طبیعت اور روحانی طاقت سے تما م مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو  ایک نئے معرکہ کا آغاز هوا اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلوزندگی کے اخلاقیات کھل کر سامنے آئے ۔

ایک دن امام علیؑ جناب فاطمہؑ سے کھا نا طلب کیا تا کہ بھوک کو برطرف کرسکیں لیکن جناب فاطمہؑ نے عرض کیا میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لیے منتخب کیا دو دن سے گھر میں کافی مقدار میں غذا نہیں ہےاور جو کچھ غذا تھی ویہ آپ اور آپ کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ کو د هی ہے امام نے بڑی حسرت سے فرمایا اے فاطمہ آخرمجھ سے کیوں نہیں فرمایا میں غذا فراہم کرنے کے لیے جاتا توجناب فاطمہؑ نے عرض کیا: اے ابوالحسن میں اپنے پروردگار سےحیا ءکرتی هوں کی میں اس چیز کا سوال کروں جو آپ کے پاس   هنہ ہو۔۱۰۔

ب۔ سیاسی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ؑکے سیاسی  اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رہبری کی کامل پیروی اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلی اور جنگ وجہاد کے بندوبست میں خوشی اور دلسوزی سے حاضر رہنا ۔سب سے پہلے آپ نے غصب  شدہ حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی آیات سے دلیلیں قائم کیں۔

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کےپاس تشریف لے گئیں اور فرمایا:۔تم کیوں مجھے میرے بابا کے میراث سے منع کر رہا ہے  اور تم کیوں میرے وکیل کو فدک سے بے دخل کردیا هہے حالا نکہ الله کے رسول نے الله کے حکم  سے اسے میری ملکیت میں دیاتھا۔"۱۱۔

اسی طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت میں پورا پورا ساتھ دیا  اور آپ حسن وحسین کا هاتھ پکڑکر رات کے وقت مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصیات کے گھرجاتے اور انہیں اپنی مدد کی دعوت دیتے اور پیغمبر کی وصیت یا ىد  دلواتے ۔۱۲

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا فرماتیں ہیں اے لوگو!کیا میرے والد نے علی ؑکو خلافت کے لیے معین نہیں فرمایا تھا کہا ان کی فداکاریوں کو  فراموش کربیٹھے ه ہوکیامیرے پدر بزرگوار نے ہی نہیں فرمایاتھا کہ میں تم سے رخصت ه ہو رہا ہوں اور تمہارے درمیان دو عظیم چیزین چھوڑے جارہا هہوں اگر ان سے تمسک رہوگے توہرگز گمراہ نہیں هہوگے اور وہ چیزیں ایک الله کی کتاب اور دوسرا میری  اہل بیت ۔

ج۔  اقتصادی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اقتصادی اخلاقیات میں بھی همارے لیے اسوہ کامل ہیں سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھاتھا" السخی قریب من الله" سخی الله کے قریب هہوتا هہے ۔

جابر بن عبد الله انصاری کا بیان هے کہ رسو ل خدا نےہمیں ه عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ هوگئے تومحراب میں هہماری  طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو هر طرف سے حلقہ میں لیے هہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بالکل پرانا کپڑہ پہنا هہوا تھا یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کی خیرت پوچھی اس نے کہا:ا ے الله کے رسول میں بھوکا هہوں لہذا کچھ کو دیجئے میرے پاس کپڑا بھی نہیں ہیں مجھے لباس بھی دیں۔ رسول خدا نے فرمایا فی الحال میرے  پاس کوئی چیز نہیں هے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سےمحبت کرتاہے اورالله اور اس کا رسول بھی  اس سے محبت کرتے ہیں جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو۔فقیر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پررکا بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام ۔شہزادی کونین نے جواب میں کہا  تم پر بھی سلام هہو ۔تم کون ہو ه؟کیا میں بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ میں فقیرہوں مجھ پر کرم فرمائے خدا آپ پر اپنیرحمت نازل فرمائے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا هہار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نےہبہ کیا تھا اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے ۔

 اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور مسجد میں تشریف فرماتھے عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زہرا نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا حضور یہ سن کر روپڑے اس وقت  جناب عمار ىاسر کھڑے هوئے عرض کیا یارسول الله کہا مجھے اس ہا رکے خریدنے کی اجازت ہے رسول خدا نے فرمایا خرید لو جناب عمار نے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے اس نے کہا اس کی قیمت یہ هہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جاسکوں۔ جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کورسول خدا  نےخیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے  ہوئے کہا :اس ہارکے بدلے تجھےبیس دینار،دوسو درہم ٬ ایک بردیمانی ٬ ایک سواری اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں  اور گوشت فراہم کررہا هہوں جس سے تم بالکل سیرہوجاؤ  گے۔جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خدا کے پاس آیا ۔رسول خدا نے فرمایا کیا تم سیرہوگئےہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہوجاؤں بے نیازہو گیا ہوں۔جناب عمار نے هہار کو مشک سے معطر کیا اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا ا س ہار کو لو اور رسول خدا کی خدمت میں دو اور تم بھی  آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں۔  غلا م ہار لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا او رجناب عمار کی بات بتائی رسول خدا نے فرمایا یہ ہار فاطمہ کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام هہار لی کر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا ۔
 
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے و ہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کردیا۔ غلام مسکرانے لگا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہا ر کی برکت نےمسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سیرہو ها اوربرھنہ کو لباس اور غلام آزادہوگیا پھر بھی  یہ ہا هر اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا۔۱۳۔

خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو  اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات  اور منصب  عصمت و طہارت  کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہ ؑ علمی ،عملی ،اخلاقی،اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ  نے"اسوہ حسنہ"قرار دیا ہے۔بنابرین حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے ۔

{السّلام علیک أیّتہا الصدّیقۃ الشہیدۃ الممنوعۃ إرثہا، المکسور ضلعہا، المظلوم بعلہا، المقتولِ وَلَدُہا}

 

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

حوالہ جات:
۱۔حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
۲۔  المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154
۳۔  انسان،9۔
۴۔  آل عمران،164۔
۵۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتاب العربیہ ، ۱۴۳۲ھ ،ص۴۳۹۔
۶۔ محمد بن مکرم ابن منظور،لسان العرب،بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ق، ج۴ ،  ص۳۸۹؛  فخرالدین محمد طریحی ، مجمع البحرین ،  تہران:مرتضوی، ۱۳۷۵، ج۳، ص۳۴۰۔
۷۔ معجم مقاييس اللغہ، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرین، ج2، ص63؛  محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواہر القاموس،  بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۸۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران:  صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔  ، ص۴۳ ۔ ۔ مرتضیٰ
۹۔محمد داؤدی، سیرہ تربیتی پیامبر و اہل بیت ، تربیت دینی ، بی تا،ج ۲، ص۲۳۔                  
۱۰۔باقر مجلسی مجلسی بحار الانوار مؤسس الوفا بیروت 1404ق ج43 ٬ص59۔
 ۱۱۔قزوینی،محمد کاظم، مترجم الطاف حسین ٬فاطمہ زہرا من المہدی الی الحد، قم قزوینی فاونڈیشن ، 1980،ص343۔
۱۲۔ابراہیم امینی، ،اسلام کی مثالی خاتون،(مترجم،اخترعباس)،دارالثقافہ اسلامیہ ،1470 ھ، ص191۔
۱۳۔ محمد باقر بحار الانوارج43 فص56و57۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree