وحدت نیوز (آرٹیکل) شیعوں کےمخصوص عقائد میں سے ایک {عقیدہ رجعت }ہے ۔یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ مہدی موعود {عج}کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قائم ہونےکے بعد اولیائے الہی اوراہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمنوں کا ایک گروہ دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آئیں گے۔اولیاءاور نیک لوگ دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت دیکھ کر خوش ہو ں گے اور انہیں اپنے ایمان اورعمل صالح کے ثمرات دنیا میں حاصل ہوں گے جبکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو اپنے ظلم کی سزا ملے گی البتہ آخری جزا و سزا قیامت میں ملیں گی ۔ رجعت ایک ممکن امر ہے جو عقلی لحاظ سے محال نہیں ہے ۔اس کے امکان پر واضح دلیل گذشتہ امتوں میں اس کا واقع ہونا ہے یعنی گذشتہ امتوں میں بھی کچھ لوگ مرنے کے بعد زندہ ہو ئے ہیں۔قرآن کریم جناب عزیر علیہ السلام کے بارے میں فرماتاہے کہ وہ مرنے کے سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوئے ۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔رجعت اور مردوں کے زندہ ہونے کا ایک نمونہ بنی اسرائیل کےمقتول کا زندہ ہونا ہے۔بنابریں بعض شبہ ایجاد کرنے والوں کا رجعت کو تناسخ کے ساتھ تشبیہ دینا ان کی کوتاہ فکری اور نا آگاہی کی دلیل ہے ۔
شیعہ علماء نے عقیدہ رجعت کے اثبات میں تین طرح کے دلائل ذکر کئے ہیں:1۔آیات قرآنی 2۔سنت نبوی 3۔احادیث اہل بیت علیہم السلام۔ علماء کے نزدیک سب سے عمدہ دلیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ نقل شدہ احادیث ہیں۔علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ان احادیث کو چالیس سے زیادہ موثق شیعہ علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کیا ہے اور یہ احادیث پچاس سے زیادہ شیعوں کی تفسیر ، حدیث اور کلام کی کتابوں میں نقل ہوئیں ہیں ۔ علاوہ ازیں شیعوں کے کچھ بزرگ علماء نے رجعت کے بارےمیں مستقل کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح دوسرے افراد نے بھی اپنی کتابوں میں باب غیبت میں اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔ لہذا اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت پر ایمان رکھتاہو تو ان تمام دلائل کے بعد اس مسئلے میں شک و تردید کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اسی لئے رجعت کے بارے میں شیعہ علماء کا اجماع ہے ۔علمائے علم کلام نے رجعت کے اثبات کے لئے ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث سےاستدلال کرنے کے علاوہ قرآن کریم کی بعض آیات سےبھی استدلال کرتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف دو نمونےذکر کرتےہیں:
1۔{وَ يَوْمَ نحَشُرُ مِن كُلّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِايَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُون} اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔یہ آیت اس دن کے بارے میں بیان کر رہی ہے کہ جس دن ہر امت سے خدا کی نشانیوں کو جھٹلانے والے چند افراد زندہ ہو ں گے ۔اس آیت میں {حشر}صرف اورصرف ایک گروہ{ناصالح افراد} کے ساتھ مخصوص ہے ۔یعنی اس آیت میں صرف ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کا ذکر موجود ہے حالانکہ قیامت کے دن{حشر}عام ہوگا یعنی تمام انسان محشور ہوں گے جیساکہ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : {وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنهْمْ أَحَدًا}اور سب کوہم جمع کریں گےاوران میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
بنابریں قرآن کریم دوقسم کے {حشر}کے بارے میں خبر دے رہا ہے ۔1۔حشرعمومی جو قیامت اور آخرت کے ساتھ مربوط ہے۔2۔حشر خصوصی جو چند افراد کے ساتھ مخصوص ہے ۔چونکہ یہ آخرت کے ساتھ مربوط نہیں ہے لہذا یہ دنیا میں ہی انجام پائے گا اوریہ وہی رجعت ہے ۔
2۔{قَالُواْرَبَّنَاأَمَتَّنَااثْنَتَينْوَأَحْيَيْتَنَااثْنَتَينْفَاعْترَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلىَ خُرُوجٍ مِّن سَبِيل}وہ کہیں گے :اے ہمارےپروردگار!تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کر تےہیں تو کیا نکلنے کا کوئی راہ ہے ؟ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں خبر دے رہی ہے جو قیامت کےدن عذاب الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔یہ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں بخشش طلب کرتے ہیں ۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ افراد دو مرتبہ مرنے اور دو مرتبہ زندہ ہونے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں ۔یعنی خدا نے انہیں دو مرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندگی عطاکی حالانکہ تمام انسان ایک دفعہ مرتے ہیں اور ایک دفعہ ہی زندہ ہو تے ہیں یعنی روح انسان کےبدن میں دوبارہ داخل ہو تی ہےتاکہ وہ اپنے اعمال کا جزا و سزا دیکھ سکے۔مذکورہ گروہ دو مرتبہ مر جاتا ہے اور دو دفعہ زندہ ہو جاتاہے بنابریں یہ مطلب عقیدہ رجعت کےساتھ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ رجعت کرنےوالوں کے لئے دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی حاصل ہوگی ۔
منکرین رجعت اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں : دو مرتبہ موت واقع ہونےسےمراد ایک دنیوی زندگی سےپہلے والی موت اور دوسری دنیوی زندگی کے بعد آنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سے مراد ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی ہے ۔یہ تفسیر لفظ {اماته}کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ اس سےمراد صاحب حیات کو موت دیناہے یعنی پہلے وہ حیات رکھتا ہو پھر اسے موت دی جائے۔ بعبارت دیگر لفظ{اماته}اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ موت سے پہلے ایک زندگی ہے جبکہ انسان کو اس کی ابتدائی شکل میں موت دینا یعنی جب وہ مٹی یا نطفہ کی شکل میں موجود ہو اورابھی تک اس کے بدن میں روح نہ پھونکی گئی ہو تویہ صاحب حیات نہیں ہے کیونکہ ایسے مقام پر لفظ {اماته}استعمال نہیں ہوتا ۔علاوہ ازیں یہ انسانوں کا کلام ہے اور اس کا ظہور بھی یہی ہے کہ انہیں انسانی زندگی گزارنے کے بعد دو مرتبہ موت دی گئی ہے ۔
بعض افراد اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں :دو مرتبہ موت دینے سے مراد ایک دنیوی زندگی کےبعد آنےوالی موت ہے اور دوسری منکرونکیر کےسوالات کا جواب دینے کے لئے قبر میں زندہ ہونے کے بعدآنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سےمرادبھی ایک دنیوی زندگی اور دوسرا قبرمیں زندہ ہونا ہے ۔
یہ تفسیربھی آیت کے ظہور کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ آیہ کریمہ کا ظہور یہ ہے کہ یہ افراد جوعذاب الہی میں گرفتار ہیں اپنے ان دو زندگیوں کے بارے میں [جو ان کے اختیارمیں دی گئ تھی}نادم ہیں کیوں انہوں نے اپنی ان زندگیوں کومعقول اور جائز طریقے سے نہیں گزاری کہ آخرت میں عذاب کے مستحق نہ ہوں جبکہ یہ اس صورت میں ہوگا جب انہیں دو مرتبہ زندگی اسی دنیامیں ہی ملی ہوں کیونکہ عمل اسی دنیا کے ساتھ مختص ہیں لیکن قبر میں زندہ ہو نا عمل کے لئے نہیں ہے تاکہ یہ افراد اپنی اس زندگی کے گناہوں کے بارے میں ندامت کا اظہار کریں ۔
رجعت کےدلائل میں سےایک دلیل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث ہے جو شیعہ و اہلسنت دونوں کے نزدیک مقبول و مشہور ہے ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں جتنے وقائع اور حوادث رونما ہوئے وہ سب امت اسلامی میں بھی رونما ہوں گے۔صحیح بخاری میں ابوسعید خدری سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرابشبر،وذراعا بذراع} “تم گذشتہ امتوں کی روش پربعینہ عمل کرو گے”۔ شیخ صدوق {کمال الدین} میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کرتےہیں کہ آپ ؐنے فرمایا:{ کل من کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هذه الامة مثله،حذو النعل بالنعل و القذة بالقذة}جو کچھ گذشتہ امتوں میں واقع ہوا وہ سب اس امت میں بھی واقع ہو گا۔واضح رہے کہ رجعت گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے اہم حوادث میں سے ہے۔ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ حدیث کی روشنی میں امت اسلامی میں بھی رجعت واقع ہوگی ۔مامون عباسی نے جب امام رضا علیہ السلامسے رجعت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی حدیث سے استدلال فرمایا۔علامہ شبر رجعت کے عقلی اورنقلی دلائل ذکر کرنے کے بعد اسے مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :گزشتہ دلائل کی روشنی میں رجعت پر اجمالی طور پر ایمان رکھنا واجب ہے لیکن اس مسئلہ کی تفصیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام پر ہی چھوڑنی چاہیے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارےمیں روایات متواتر ہیں جبکہ بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی رجعت کے بارے میں بھی روایات توا تر سے نزدیک ہیں لیکن ان کی رجعت کی کیفیت ہمارے لئےواضح نہیں ہے۔اس بارےمیں علم صرف خدا اور اولیاء کو ہی حاصل ہیں۔
حوالہ جات:
۱۔بقرۃ،259۔
۲۔مائدۃ،110۔
۳۔ بحار الانوار ،ج53،ص132 – 134۔
۴۔نمل:83۔
۵۔کہف،47۔
۶۔مصنفات الشیخ المفید،ج7،ص33۔{المسائل السروریۃ}
۷۔غافر،11۔
۸۔مصنفات الشیخ المفید،ج7 ،ص33 – 35 {المسائل السروریہ}
۹۔صحیح بخاری : ج 9،ص 112،کاتاب الاعتصام بقول النبی{ص}۔
۱۰۔کمال الدین ،ص 574۔ا
۱۱۔بحار الانوار ،ج53،ص59،حدیث 45۔
۱۲۔حق الیقین،ج2،ص35۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔ اغواء قتل وغارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذراسی بات پر تلواریں نکل آتیں اورخون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔دنیاچشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی ۔راہزن رہنماء بن گئے ۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرابن گئےاور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔
تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑدیے۔دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑکر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اورآپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔
امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔
رہبر انقلا ب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ اس بابرکت دن کے بارے میں فرماتےہیں:روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اورجس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{و لیعقل العباد عن ربہم ما جہلوہ، فیعرفوہ بربوبیتہ بعد ما انکروا ، و یوحدوہ بالالویہہ بعد ما عندوا}اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت ،ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔
آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرتہ}تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروہم منسی نعمتہ}انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے ۔{و یحتجوا علیہم بالتبلیغ}تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا :{و یثیروا لہم دفائن العقول}تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا:{ویروہم الایات المقدرۃ، من سقف فوقہم مرفوع،ومہاد تحتہم موضوع ....} تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپرموجودبلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کےذریعے۔۔۔۔}
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پراتمام حجت کرنا:{وجعلہم حجۃ لہ علی خلقہ، لئلا تجب الحجۃ لہم بترک الاعذار الیہم} اللہ نے انبیاءکو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے ۔
آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہےاور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل وشہود اور حواس ہیں جو محدودہونے کی بنا پر ہدایت ا ور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔علاوہ از یں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتےبلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل بھی کراتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کامحتاج ہوتا ہے۔ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضابھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :{ رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلی اللَّہِ حُجَّۃ
ُ بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینےوالے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کےاہداف میں شمار کرتاہے :
1۔لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا:{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فی کُلّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّہَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت} یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ہم نےاپنےرسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کےساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔انسان کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: {فطری لحاظ سے}سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اورڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی ، اجتماعی،مادی او رمعنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الہیٰ ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلا م انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں ۔{و ان لللہ علی الناس حجتین :حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنۃ : فاما الظاہرۃ فالرسل و الانبیاء و الائمہ علیہم السلام و اما الباطنۃ فالعقول}
خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و ا خروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہونیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر وکمال پر مشتمل ہواور امور دینی میں ان کی مدد کرےعلاوہ از یں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں ۔
حوالہ جات:
۱۔امام خمینی رح
۲۔امام خامنہ ای ۔[17 نومبر 1998ء]۔
۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۴ ۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
۵۔ نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
۶۔نساء،165۔
۷۔نحل،36۔
۸۔حدید،25۔
۹ ۔جمعہ،2۔
۱۰ ۔بقرۃ،213۔
۱۱۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
۱۲۔تلخیص المحصل،ص367۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصرو ف ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هہوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هہے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا:ہم اس کے شاگرد هہیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هہو ؟
شاگرد نے کہا:ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور وہ جو کام کرنا چاہتا هہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال هہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں هے جو تم سمجھ رہے هہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وہ مفہوم و معانی نہیں هہیں جو آپ نے سمجھا هہے؟ وہ کہے گا: هہاں یہ احتمال پایا جاتا هہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل هہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے هہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!ہوسکتا هہے قرآن کا مفہوم کچھ اورہو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی هو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے هہوں!۔
شاگرد اپنے استاد کے پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ہو بہو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں غرق ہو گیااس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔ استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رہا اورشاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رہاآخر کاراسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی پیداوارنہیں هے اور ممکن هہی نہیں هہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے اذہان میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔
اس دفعہ شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا هہے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔۱
تاریخ میں نقل ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا قید میں تھے،شدید قحط پیش آگیا خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں، نماز استسقاء بجالائیں اور خداوندمتعال سے بارش کی دُعا کریں ۔مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن بارش نہ برسی۔
چوتھے دن جاثلیق نصرانی مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لیے صحرا گئے۔وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش برسنے لگی۔اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کیلیے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے بارش برسنا شروع ہو گیا اور لوگ سیراب ہوئے۔لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا،اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے ۔
خلیفۂ وقت کے لئے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح بن وصیب کو حکم دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کوآزاد کر دے اور اس کے پاس لے آئے۔ حضرت نے خلیفہ سے فرمایا:لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں۔خلیفہ کہنے لگا:لوگوں کی ضرورت پوری ہوئی ہےاور دوبارہ طلب باران کی اب ضرورت نہیں ۔حضرت نے فرمایا میں چاہتا ہوں لوگوں کے اذہان سے شک نکال دوں اور اس واقعے سے اُنہیں نجات بخشوں۔
خلیفہ نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب تیسرے دن بھی طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں۔خلیفے کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے تمام مسیحو ں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا،اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا،اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش برسنے لگی۔اس موقع پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو کھولے،جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے۔پس امام علیہ السلام نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی،ایک کپڑےے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا:اب طلب باران کرو۔راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے سورج ظاہر ہوگیا۔
لوگوں نے اس واقعے سے مزید تعجب کیا۔اس وقت خلیفہ نے حضرت سے سوال کیا:یا ابا محمد! اس امر کی وجہ بیان فرمائیں ۔ حضرت نے فرمایا:ان لوگوں نے کسی قبرستان میں ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی وضاحت پر یقین کرلیا،پھر اسی طرح خود بھی آزمائش کر کے دیکھا تو قضیہ ویسے ہی تھا جیسے حضرت نے بیان فرمایا تھا۔اس واقعہ کے بعد لوگوں کے اذہان سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے۔ خلیفہ اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے۔یہاں حضرت نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی خلیفے سے فرمایا اور خلیفے نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا
جائے۔
حوالہ جات
۱۔مناقب، ج۴، ص۴2۴۔
۲۔ زندگی حضرت امام حسن عسکری(ع)، علیاکبر جہانی، ص۱۳۵۔
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز( آرٹیکل) خامس آل عبا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور مصیبت اس قدر عظیم تھی کہ گریہ و زاری آپ کے نام سے ملی ہوئی تھی اورجس طرح حریت،شجاعت، غیرت، دفاع از دین وغیرہ، امام حسین علیہ السلام کے نام سے ملی ہوئی ہیں۔اس دلخراش حادثے نے نہ صرف اہل اسلام کو متاثر کیا بلکہ عرشیان اورساکنان آسمان کے لئے یہ حادثہ سنگین ترہوا۔[ و جلت و عظمت المصیبۃبک علینا و علی جمیع اہل السلام و جلت و عظمت المصیبۃ بک علینا و علی جمیع اہل السموات]
تاریخچہ عزاداری مظلومیت امام حسین علیہ السلام کوہم تین حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک پرقسم مختصرروشنی ڈالیں گے۔
1۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے قبل ان کے لئے عزاداری:
روایت میں ہے کہ انبیاء الہی امام علیہ السلام کی ولادت سے کئی ہزار سال پہلے جب ماجرائے کربلا سے باخبر ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ کیا۔روایت میں ہے کہ جب جبرئیل[ع]حضرت آدم علیہ السلام کو توبہ کرنے کے لئے کلمات کی تعلیم دے رہے تھے اور جب انہوں نے خداوند متعال کو پانچ مقدس اسماء سے پکارا،اور جب نام امام حسین علیہ السلام پر پہنچے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہو گئی ۔
جناب آدم [ع]جبرئیل سے پوچھتے ہیں کہ میں جب پانچویں شخصیت پر پہنچاتونہیں معلوم کیوں ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی اور آنسو جاری ہوگئے ؟جبرئیل[ع] کہتے ہیں اس شخصیت پر ایک عظیم مصیبت آئے گی کہ تمام مشکلات و مصائب اس مصیبت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں ۔انہیں غریبانہ بالب تشنہ بغیریارو مدد گار شھید کر دیا جائے گا ۔جبرئیل امام حسین علیہ السلام اور انکے خاندان پرڈھائے جانے والے مصا ئب حضرت آدم علیہ السلام کو بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ جبرئیل [ع] وآدم [ع] مثل مادر[فرزند مردہ]ان پر روتے ہیں {فبکی آدم و جبرئیل بکاء الثکلی }اور جب خداوند متعال نے حضرت موسی[ع] کے لئے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شھادت اور اہل حرم کی اسیری اور سر شھداء کا مختلف شھروں میں پھیرانے کی خبرسنائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی گریہ و زاری کیا ۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی جب جبرئیل[ع] سے پانچ مقدس شخصیات کے نام سیکھ لئے اور جب امام حسین علیہ السلام کا اسم مبارک انکی زبان سے جاری ہوا تو ایک عجیب سی حالت ان پر طاری ہو گئی اور اشک جاری ہوئے۔خداوند متعال سے عرض کی خداوندا! کیوں جب ان چہار مقدس شخصیات کے نام لیتا ہوں توغم و اندوہ مجھ سے ختم ہو جاتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام کا نام میری زبان پر جاری ہوتا ہے تو آنسو جاری ہو جا تے ہیں؟خداوند متعال نے مصائب امام حسین علیہ السلام میں سے بعض مصائب حضرت زکریا علیہ السلام کو سنائے اور جب حضرت زکریا علیہ السلام ان مصائب سے آگاہ ہوئے تو تین دن تک مسجد سے باہر نہیں آئے اور لوگوں سے بھی ملاقات نہیں کی اور ان تمام مدت میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ و زاری کی۔
روایت میں منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جب حضرت عیسی علیہ السلام ا پنے حواریوں کے ساتھ کربلا کی سر زمین سے گزرے تو گریہ کرنا شروع کردیا ۔حواریین نے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ گریہ شروع کردیا اور جب حواریین نے حضرت عیسی علیہ السلام سے گریہ کی وجہ پوچھی تو حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : اس سر زمین پر پیامبر اسلام [ص]اور فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا کا فرزند قتل کیا جائیگا۔
2۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر انکی ولادت کے بعد عزاداری:
امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام علی علیہ السلام اور حضرت زھراء[س] جب انکی مظلومیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی ۔
رسول خدا [ص]کا گریہ:
روایت میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زھراء[س]کےگھر تشریف لے گئے اور اسماء سے فرمایا: میرے بیٹے کو لے آو۔اسماء نے امام حسین علیہ السلام کو ایک سفید کپڑے میں ملبوس کر کے رسول خدا[ص]کو دیا ۔پیغمبر اکرم [ص] نے امام حسین علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور انہیں آغوش میں لے کر گریہ کیا ۔ اسماءنقل کرتی ہیں جب میں نے حضرت[ص] سےپوچھا کہ میرے ماں باپ آپ[ص] پر فدا ہو جائیں آپ کیوں گریہ کر رہےہیں ؟آپ[ص] نے فرمایا: اس فرزند کی خاطر رو رہا ہوں ۔اسماء کہتی ہیں یہ فرزند تو ابھی ابھی متولد ہوا ہے اس پر آپ [ص]کو خوشحال ہونا چاہیے ۔آپ[ص] نے فرمایا [ تقتلہ الفئتہ الباغیتہ من بعدی لا انا لھم اللہ شفاعتی] میرے بعد ان کو ایک گروہ ستم کار شھید کرے گا کہ ہرگز خداوند متعال انہیں میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔ اسکے بعد آپ[ص] نے فرمایا [یا اسماء لا تخبری فاطمۃ بھذا فانھا قریبتہ عھد بولادتہ]اے اسماء فاطمہ [س]کو اس سے آگاہ نہیں کرنا چونکہ وہ ابھی تازہ اس بچے کی ماں بنی ہے ۔
امام علی علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ:
ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ میں اورامیر المومنین علی علیہ السلام صفین جاتے وقت ساتھ تھے اور جب نینوا کے مقام پر پہنچے تو بلند آواز میں مجھ سے فرمایا : اے ابن عباس اس مکان کو پہچانتے ہو ؟ میں نے عرض کی میں نہیں جانتا ہوں ۔فرمایا :اے ابن عباس جس طرح میں اس سر زمین کو جانتاہوں اسی طرح تم اسکے بارے میں جانتے تو حتما میری طرح گریہ کرتے ہوئے اس سر زمین سے گزرتے۔ اسکے بعد امام علیہ السلام کافی دیر تک گریہ کرتے رہے یہاں تک آنسو آپکی محاسن سے سینہ مبارک کی طرف سرازیر ہوگئے ۔میں بھی امام علیہ السلام کے ساتھ گریہ کرنے لگا امام[ع] نے اسی حالت میں فرمایا وای ،وای ابوسفیان کو مجھ سے کیا کام ؟مجھے آل حرب سے کیا کام؟یہ لوگ حزب شیطان اور اولیائے کفر ہیں ۔اے ابا عبد اللہ صبر کرو چونکہ آپکے والد کو بھی اسی گروہ سے وہی ظلم و ستم پہنچے گے جس طرح تمھیں پہنچے گے۔[اوہ اوہ مالی و لآل سفیان؟ مالی و لآل حرب حزب الشیطان؟ و اولیاء الکفر؟صبرا یا ابا عبد اللہ فقد لقی ابوک مثل الذی تلقی منھم]
گریہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شھادت امام حسین علیہ السلام اور انکے مصائب کی خبر اپنی بیٹی کو سنائی تو حضرت زھراء [س] نے سخت گریہ کیا اور اسکے بعد اپنے والد سے پوچھتی ہیں کہ یہ ماجرا کس زمانے میں واقع ہوگا ؟ رسول خدا [ص]نے فرمایا : یہ حادثہ اس زمانے میں رونما ہو گا جب نہ میں اس دنیا میں ہونگا اور نہ تم اور نہ علی اس دنیا میں ہو نگے ۔جب یہ سنا تو حضرت فاطمہ[س] شدید گریہ کرنے لگیں اسکے بعد رسول خدا[ص]نے انہیں امت کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کے لئے عزاداری کی خبر دی اور اس گریہ و زاری کی جزاء بھی بیان فرمائی۔
3۔ امام حسین علیہ السلام پر ان کی شہادت کے بعد عزاداری:
آخر کار ابتدائے خلقت میں اولیاء الھی کو جس دلخراش و دلسوزناک واقعے کی اطلاع دی گئی تھی وہ61ہجری کو سر زمین کربلا پر واقع ہوا ۔وہ حادثہ جو واقع ہو نے سے پہلے ہی اشکوں کو جاری کر دیتا تھا دسویں محرم 61ہجری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مومنین کے دلوں میں آگ کی طرح حرارت وجود میں لے کر آیا جو قیامت تک خاموش نہیں ہوگی۔اس قدر یہ حادثہ المناک تھا کہ روز عاشورا کو روز عزاداری و سوگواری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور رہیگا چونکہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:[ ان القتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا] یقینا امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت بھر دی ہے جو کبھی بھی خاموش نہیں ہوگی ۔9
جب اہل حرم کی نظر شہداء کے جسموں پر پڑی تو فریاد کرنے لگے اس وقت زینب بنت علی[س] بھی فریاد کرنی لگی۔]وا محمداہ صلی علیک ملیک السماء ھذا حسین مرمل بالدماء مقطع الا عظاء و بناتک سبایا [اے پیغمبر ،درود خدا ہو آپ[ص] پر :یہ آپ کا فرزند حسین[ع] ہے جو اپنے خون میں غلطان ہے اور انکے جسم کو قطعہ قطعہ کیا گیا ہے اور یہ آپ[ص]کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہو چکی ہیں ۔ زینب بنت علی[س] نے جب گریہ شروع کیا تو منقول ہے کہ [فابکت واللہ کل عدو و صدیق]خدا کی قسم دوست و دشمن سب گریہ کرنے پر مجبور ہوئے اور سب نے گریہ کیا۔
اسیروں کے کاروان کو کوفہ و شام لے جانے کے بعد امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب[س] کے خطبوں نے شہر دمشق میں ہلچل مچا دی ، یہاں تک کہ یزید کے محل میں ہی مراسم عزاداری برپا ہوئی اور اموی خاندان کی عورتوں نے بھی مراسم میں شرکت کی اور یہ برنامہ تین تک دن جاری رہا ۔[فخرجن حتی دخلن دار یزید فلم تبق من آل معاویہ امراۃ الا استقبلھن تبکی و تنوح علی الحسین فا قاموا علیہ المناحۃ ثلاثا]
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں:
امام حسین علیہ السلام کی عزادری امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کےزمانے میں بھی منعقد ہوا کرتی تھی ۔کمیت اسدی امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں شھداء کربلا پر مرثیہ سرائی کرتےیہاں تک امام علیہ السلام کے آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔امام صادق علیہ السلام ابو ہارون مکفوف سے امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کے لئے فرمایا: اور ابو ہارون مرثیہ خوانی شروع کی۔
امرر علی جدث الحسین
فقل لا عظمہ الزکیتہ
امام[ع] کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں آخر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں[یا ابا ہارون من آنشد فی الحسین فابکی عشرۃ فلہ الجنۃ]اے ابا ہارون جو کوئی امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کرے گا اور دس افراد کو رلائے گا اس کی جزا جنت ہے ۔امام رضا علیہ السلام نے دعبل خزاعی سے فرمایا: اے دعبل ایام عاشورا ہمارے لئے بہت غمگین و اندوھناک ہیں لذا اسی مناسبت سے چند اشعار پڑھو ۔
دعبل نے مرثیہ خوانی شروع کی اور امام[ع] نے اپنے جد بزرگوار پرگریہ کیا ۔
غم امام حسین علیہ السلام میں نہ صرف انسان بلکہ فرشتے اور آسمان والوں نے بھی گریہ و زاری کیا ۔٦١ ہجری سے آج تک غم حسین علیہ السلام میں آنسو بہائے جا رہے ہیں اور ہر سال یہ مراسم پر رونق تر ہو رہیں ہیں اس لئے کہ حسین علیہ السلام نے درس بندگی اور درس آزادی دیا ۔آج جسے بھی امام حسین علیہ السلام کی ذرہ برابر معرفت ہو وہ بھی اس عظیم کاروان میں شامل ہو جاتا ہے جس کاروان کا امیر رسول خدا [ص]،علی مرتضی[ع] ،زھرامرضیہ [س]حسن مجتبی[ع] اور باقی ائمہ علیھم السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام ہیں جو فرماتے ہیں :[فلا ندبنک صباحا و مساء و لا بکین علیک بدل الدموع دما حسرۃ علیک و تا سفا و تحسرا علی ما دھاک و تلھفا حتی اموت بلوعۃ العصاب و غصۃالاکتیاب]
یعنی اے میرے جد مظلوم و غریب !اس قدر تجھ پر صبح و شام گریہ کروں گا اور اس قدر رووں گا کہ آنسووں کے بدلے آنکھوں سے خون رواں ہو گا ۔ایسا رونا جس کی بنیاد تجھ پر حسرت و افسوس ، غم و اندوہ اور جگر سوز ہے۔اس المناک اور دردناک عظیم سانحہ کی وجہ سے جو تیرے ساتھ پیش آیا۔یہاں تک کہ تیری اس جگر سوز اور اندوہناک مصائب کی وجہ سے قریب ہے کہ میری روح پرواز کر جائے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
منابع:
١۔زیارت عاشورا
٢۔بحارالانوار،ج٤٤،ص٢٤٥
٣۔معالی السبطین،ج١ص١٨٦
٤۔احتجاج طبرسی،ج٢،ص٥٢٩
٥۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٣
٦۔بحار الانوار،ج٤٣،ص٢٣٩
٧۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٢
٨۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٩٢
٩۔مستدرک الوسائل ،ج١٠ص ٣١٨
١٠۔بحارالانوار،ج٤٥،ص٨١کامل بن اثیر ، ج ٤ ،ص٨١
١١۔تاریخ طبری،ج٤٥ص١٤٢
١٢۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٨٧
١٣۔زیارات ناحیہ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) مقدمہ:تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف ابعاد میں سے کسی ایک بعد{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانےیا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنےکا نام ہے تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔امام حسین علیہ السلام کی تربیت رسول خداؐ جیسے ہستیوں کے دامن میں ہوئی ہے ۔ ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک کے لئے تربیت کے سنہری اصول بتا دئے ہیں۔ اگر انسان ان اصولوں پر عمل کرے تو کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔ ً کربلا کا زندہ وجاوید واقعہ اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے تربیتی پیغامات کو ہرسال لوگوں تک پہنچاتا ہے تاکہ بنی نوع انسان ان انمول پیغامات پر عمل کریں اور اپنے لئے سعادت اور خوش بختی کی راہ اختیار کریں۔قیام امام حسین علیہ السلام کے بھی بہت سی جہات ہیں جو قابل بررسی ہیں جیسے عرفانی، سیاسی، اجتماعی، تاریخی و غیرہ۔ اس تحریر میں ہم قیام امام حسین علیہ السلام کے تربیتی پیغامات کو بطورمختصر بیان کرنے کی کوشش کرینگے۔
1۔خدا پر ایمان
امام حسین علیہ السلام توحید اور ایمان کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ توحید کے اندر دوسرے تمام اوصاف خداوندی پوشیدہ ہیں ۔ امام ؑ مکہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ :اے میرے خدا !میں غنا کی حالت میں تیری طرف محتاج ہوں پس کس طرح حالت فقر میں تیری طرف محتاج نہ ہوں۔ دانائی کی حالت میں نادان ہوں پس کس طرح نادانی کی حالت میں نادان نہ رہوں۔امام حسین علیہ السلام حر کے لشکر سےمخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ: میری تکیہ گاہ خدا ہے اور مجھے تم سے بے نیاز کرتا ہے ۔ صبح عاشور لشکر ابن سعد شور وغل اور طبل بجاتے ہوئے خیمہ کی طرف آئے تو آپ نے فرمایا : خدایا !ہر گرفتاری اور مشکل میں تو میری پناہ گاہ اور امید ہے اور ہر حادثہ میں جو مجھے پیش آتا ہے تو میرا مدد گار ہے۔۱۱جب زخمی ہو کرکربلا کی زمین پر تشریف لائے تو فرمایا: الہی رضا بقضائک و تسليما لامرک و لا معبود سواک يا غياث المستغيثين۔
2۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان
امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس سے پوچھتے ہیں : ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو فرزند رسول کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ نے پر مجبور کررہے ہیں حالانکہ رسول خدا (ص)کے اس فرزند نے نہ کسی کو خدا کاشریک ٹھہرایا ہے ، نہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور نہ رسول(ص) کے آئین سے ہٹ کر کوئی فعل انجام دیا ہے۔ ابن عباس جواب میں عرض کرتے ہیں : میں ان لوگوں کے بارے میں اس قرآنی آیت کے سوا کچھ نہیں کہوں گاکہ(یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کی نسبت کافر ہو گئے ہیں) ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ؑ نے فرمایا: خدایا! تو گواہ رہنا ،ابن عباس نے صراحتاً ان لوگوں کے کافر ہونے کی گواہی دی ہے ۔امام ؑ نے میدان کربلا میں لشکر ابن سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا:{انشدکم الله ھل تعرفونی ،قالوااللهم نعم انت ابن رسول الله و سبطہ قال انشدکم الله ھل تعلمون ان جدّی رسول الله قالوا اللهم نعم }میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو۔کہا کہ ہاں آپ رسول اللہ(ص) کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ میرا نانا رسول خدا(ص]ہے۔5۔حضرت زینبؑ نے دربارابن زیاد میں فخر سے یہ جملہ ادا کیا :{الحمد الله الذی اکرمنا بنبیہ محمد}تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد(ص) کے ذریعے کرامت بخشی۔
3۔ توکل بر خدا
امام حسین علیہ السلام کے کلمات اور افعال وکردار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ خدا پر توکل کرتے تھے ۔امام ؑ مکہ سے نکلتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :{فمن کان باذلا فینا مہجتہ موطنا علی لقاء الله نفسہ فلیرحل معنا فانی راحل مصبحا ان شاء الله}جو بھی اپنے خون کو ہماری راہ میں بہانا چاہتا ہے اور خدا سے ملاقات کا مشتاق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔میں کل صبح سفر پر نکل رہا ہوں۔ آپ ؑنے صرف اپنے اصحاب اور ساتھیوں پر بھروسہ نہیں کیا اسی لئے آپ نے فرمایا کہ : {فمن احبّ منکم الانصراف فلینصرف}جو واپس جاناچاہتا ہے وہ واپس چلا جائے ۔ شب عاشور چراغ بجھا کر فرمایا کہ جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرمایا :{ما توفیقی الا بالله علیہ توکلت والیہ انیب} میری توفیق خدا سے ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی میری پناہ گاہ ہے۔ وہ تمام خطبات جو روز عاشور آپ نے دیے ان میں یہ جملہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ:{انی توکلت علی اللّٰہ ربی وربکم} میں خدا پر توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔
4۔ صبر و تحمل
امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ا صحاب صبر اور تحمل میں نمونہ تھے ۔ امام ہمیشہ اپنے اصحاب اور اقرباء کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ صبر اور مقاومت سے کام لو اے بزرگ زادگان کیونکہ موت تمہیں غم اور سختی سے عبور کراتی ہے اور وسیع بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔کربلا کے میدان میں ہمیں ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے صبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسی وجہ سے ان کا نام ام المصائب پڑ گیا ۔ حضرت زینب وہ شخصیت ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت فرمایا :{اللہم تقبل منا هذا القربان القلیل} اے خدا ہماری یہ قلیل قربانی اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔امام حسین علیہ السلام ؑ شب عاشور اپنے اہل حرم کو جمع کرکے فرماتے ہیں : یہ قوم میرے قتل کے بغیر راضی نہیں ہو گی ۔ لیکن میں آپ لوگوں کو تقوی الہٰی اور بلا پر صبر اور مصیبت میں تحمل کی وصیت کرتا ہوں۔
5۔ اخلاص
امام حسین علیہ السلام کے قیام کاکوئی ذاتی مقصد نہیں تھا بلکہ خداکی رضا کی خاطر لوگوں کو گمراہی سے بچانا تھا۔جو لوگ طالب مال ودنیا تھے انہوں نے امام ؑکا ساتھ نہیں دیا اور کئی لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے بھی گئے۔امام ؑ کے ساتھ فقط وہی لوگ تھے جو مخلص تھے اور مال ومتاع کی غرض نہیں رکھتے تھے ۔امام حسین علیہ السلام نے خروج نہ حکومت کے لئے کیاتھا نہ جاہ طلبی ومال کے لئے ۔بلکہ امام ؑ خالصتاًللہ مدینہ سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے تھے۔امام ؑنے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا کہ {انی لم اخرج اشرا ً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً بل خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول الله ارید ان امر بالمعروف وانہی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی} میں اس وجہ سےقیام نہیں کر رہا ہوں تاکہ فسادپھیلاؤں اور ظلم کروں بلکہ میں اس وجہ سے قیام کررہاہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ اور میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔امام ؑکے اصحاب میں سے حضرت عابس نے رجز پڑھتے ہوئے فرمایا کہ : میں اپنی تلوار سے تمہارے ساتھ جنگ اور جہاد کروں گا یہاں تک کہ خدا کی بارگاہ میں چلاجاؤں اور اس کے بدلے میں خدا سے جزا کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ۔
6۔ وفاداری
قیام امام حسین علیہ السلام میں ہر طرف وفاداری کے پیکر نظر آتے ہیں ۔اسی وفا داری کو دیکھ کر اباعبداللہ ؑ ارشاد فرماتے ہیں : {فانی لا اعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی} میں نے اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اچھے اصحاب نہیں دیکھے۔شیخ مفید کتاب ارشاد میں لکھتے ہیں کہ جب شمر ملعون آیا اور کہا کہ :{انتم یا بنی اختی آمنون }اے میری بہن کے فرزندو!تم امان میں ہوتو پیکر وفاحضرت عباس نے جواب میں فرمایا کہ : {لعنک الله ولعن امانک اتؤمننا وابن رسول الله لا امان لہ}تم اور تمہارے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو، کیا تو ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسول خدا ؐ کے فرزند کیلئے امان نہیں ہے۔ کتاب اعیان الشیعہ میں حضرت عباس ؑ کا جواب اس طرح سے موجود ہے۔تبت یداک ولعن ما جئتنا بہ من امانک یا عدوالله اتأمرنا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاطمہ وندخل فی طاعۃ اللعناء ۔ اے دشمن خدا وای ہو تجھ پر ، لعنت ہو تمہارے امان پر ۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی وآقا حسین ؑابن فاطمہؑ کو چھوڑ دیں اور لعینوں کی اطاعت کریں۔عمرو بن قرظہ روز عاشور دشمنوں کے تیروں کے سامنے امام ؑ کے لئے سپر بنتے ہیں تاکہ امامؑ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اس قدر زخمی ہو گئے کہ زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور حضرت سے پوچھنے لگے : اے فرزند رسول !کیا میں نے وفا کی ہے ۔ حضرت نے جواب دیا :ہاں! تم مجھ سے پہلے بہشت جا رہے ہو ،رسول خداؐ کو میرا سلام کہنا۔حضرت مسلم ابن عوسجہ فرماتے ہیں کہ :{والله لو علمت انی اقتل ثم احیا ثم احرق ثم احیا ثم اذری یفعل بی ذالک سبعین مرۃ ما فارقتک} خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور جلاکر راکھ کیا جائے پھر اسے ہوا میں اڑایا جائے گا، اسی طرح ستر بار یہ عمل دہرایا جائے تب بھی میں آپ کوچھوڑکر نہیں جاؤں گا۔
7۔ شوق شہادت
اما م ؑ اورا صحاب امام ؑ شہادت طلبی کے مظہر اور نمونہ تھے خصوصاً اما م حسین علیہ السلام اس میدان میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ امام ؑ جب مدینہ سے روانہ ہورہے تھے تو آپؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :{فمن کان باذلاً فینا مہجتہ موطناً علی لقاء الله نفسہ فلیرحل معنا}جو بھی شہادت کا طالب ہے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتاہے وہ میر ے ساتھ چلے۔راہ حق میں موت کو امام ؑ زینت قرار دیتے ہیں {خطَّ الموت علی ولد آدم مخطَّ القلادۃ علی جید الفتاۃ} موت ،بنی آدم کے لئے اس گردن بند کی طرح ہے جو جوان لڑکیوں کے گلے میں ہوتا ہے۔شب عاشور امام ؑ کے اصحاب شوق شہادت میں محو تھے اور شہادت کی تمنا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: تعریف اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آپ ؑ کی مدد کرنے کی سعادت بخشی اور آپ کے ساتھ شہید ہونے کی شرافت عطاکی ۔ایک مقام پر امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ :{انی لااری الموت الا سعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الا برماً }میں موت کو سعادت لیکن ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتا هوں ۔قاسم بن الحسن سے جب امام ؑ نے پوچھا کہ : {کیف الموت عندک} موت آپ کے نزدیک کیسی ہے تو فرمایا:{یا عماہ احلی من العسل}چچا شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔ حضرت قاسم نے موت کو شہد سے تشبیہ دے کر یہ بتا دیا کہ جو شہادت کاجذبہ رکھتا ہے اس کے نزدیک موت شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔
8۔ حجاب وعفت
کربلا میں خواتین مخصوصاحضرت زینب ،ام کلثوم اور دوسری مخدرات اپنے آپ کو نامحرموں کی نظروں سے پچانے کی کوشش کرتی تھیں ۔ حضرت ام کلثوم بازار کوفہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں:{یا اہل الکوفۃ اما تستحیون من الله ورسولہ ان تنظرون الی حرم النبی} اے اہل کوفہ کیا تمہیں خدا اور اس کے رسول ؐ سے شرم نہیں آتی کہ تم حرم نبی ؐ کو دیکھ رہے ہو۔حضرت زینبؑ نے پردہ کے بارے میں یزید کو مخاطب کر کے بہت ہی سخت الفاظ میں فرمایا : اے رسولؐ کے آزاد کردہ کی اولاد !کیا یہ عدالت ہے کہ تمہاری بیویاں اور کنیزیں پردہ میں ہوں اور رسول خداؐ کی بیٹیاں اسیر کرلی جائیں اور ان کے پردے کو چھین لیا جائے ۔ ان کے چہروں کو عیاں کیاجائے اور دشمن انہیں اس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر پھرائیں کہ شہر،دیہات اورقلعہ کے لوگ اور بیابانی افراد ان کو دور ونزدیک سے دیکھیں۔صحابی رسولؐ حضرت سہیل بن سعدنے بازار میں جب حضرت سکینہ سے کہا میں آپ کے نانا کا صحابی ہوں ،کیامیں اس حالت میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں۔ حضرت سکینہ ؑ نے فرمایا کہ اس نیزہ بردار کو آگے بھیج دیں تاکہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوں اور حرم رسول پر ان کی نگاہ نہ پڑے۔
9۔عزت نفس
عزت نفس مومن کی برجستہ صفات میں سے ایک صفت ہے ۔خداوند متعال نےاس صفت کو اپنے لئے اور انبیاء الہی اور مومنین کے لئے قرار دیا ہے ۔خداوند متعال نے فرمایا :{و لله العزۃ و لرسولہ و للمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون}عزت، خداوند متعال اور انبیاء اور مومنین کے لئے ہے ۔ سید محسن امین لکھتے ہیں : امام حسین علیہ السلام ظلم و ستم اور ذلت کو قبول نہ کرنے ،ظلم و ستم کے مقابلے میں ڈٹ جانے، خدا کی راہ میں جہاد کو آسان سمجھنے اور عزت و آزادگی حاصل کرنے میں ضرب المثل ہیں ۔وہ ہر انسان کا جو روح برتر کا مالک ہو نمونہ عمل ہیں .ہر باضمیر اور عالی ضمیر انسان اس کی اقتداء کرتا ہے اور وہ ہر زمانے میں ان تمام انسانوں کے لئے جوذلت و پستی کو قبول نہیں کرتے، راہنما و رہبر ہیں ۔اسد حیدر یوں لکھتا ہے : امام حسین علیہ السلام نے عزت دین کی خاطر زندگی کو اہمیت نہیں دی اور اپنی امت کی کرامت کی خاطر دشمنوں سے راسخ عزم کے ساتھ مقابلہ کیا اور تمام خطرات سے روبرو ہوکراسکے باوجود کہ دشمنوں نے وحشیانہ مظالم ڈھائے جو کہ قابل شمارش نہیں ،پھر بھی ان تمام مشکلات کو سہتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :(موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے اور جب شہید ہو رہے تھے تو فرمایا:( الموت اولی من رکوب العار و العار اولی من دخول النار) اور ایک جگہ پر فرماتے ہیں ( انی لا اری الموت الا سعادۃ ولا الحیاۃ مع الظالمین الا برما) میں موت کو سعادت لیکن ظالموں کے ساتھ زندگی کو ذلت و خواری سمجھتا ہوں ۔عاشورا کے روز قیس ابن اشعث کو فرمایا :( لا والله لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ولا اقرلکم اقرار العبید۔خدا کی قسم ذلت کاہاتھ تمھارے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح فرار یا اقرار نہیں کرونگا ۔آپ فرماتے ہیں :( الا و ان الدعی بن الدعی قد رکز بین اثنیتین بین السلۃ و الذلۃ و هیہات منا الذلۃ) اس زناکار فرزند زناکار نے مجھے دو چیزوں کے درمیان مخیر کر دیا ہے ذلت اور شہادت لیکن ذلت ہم سے کوسوں دور ہے ۔ مقدس و پاک ماوں کی گود میں پلنے والے اور پاک و غیرت مند والدین کے فرزندوں کو گوارہ نہیں کہ وہ پست و ذلیل افراد کی اطاعت کریں ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد حنیفہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:( یا اخی والله لو لم یکن فی لدنیاء ملجاء و لا ماوی لما بایعت یزید بن معاویۃ)۴۰اے برادر خدا کی قسم اس دنیا میں میرے لئے اگر کوئی ٹھکانہ نہ رہے تب بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا ۔
10۔شجاعت
سید علی جلال مصری لکھتے ہیں :عاشورا کے دن دو طاقتوں کے درمیان فرق تصور سے بھی بالاترتھا اس کے باوجود شجاعت ، پائیداری اور استقامت میں امام حسین علیہ السلام نے ہر دانشمند و عاقل کو حیران کر دیا چونکہ اس کی مانند کوئی نہیں تھا جس طرح امام حسین علیہ السلام کے دشمن پستی و ذلت میں بے مثال تھے۔سید محسن امین امام حسین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں لکھتے ہیں : جب پیادہ افراد نے امام پر حملے کئے تو امام نے اپنی تلوار سے دشمن کی صفیں کاٹ ڈالیں، دشمن، امام سے اس طرح سے بھاگے جس طرح بھیڑیں شیر سے بھاگتی ہیں ۔صاحب کشف الغمہ کمال الدین سے امام علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں نقل کرتے ہیں:۴۲ امام حسین علیہ السلام کی شجاعت سے اصحاب کے چہرے لحظہ بہ لحظہ نورانی تر ہو جاتےتھے اور ایک خاص آرامش اور خاموشی ان پر طاری تھی کہ بعض اصحاب دوسرے اصحاب سے فرماتے تھے( انظروا لا یبالی بالموت فقد قال لہم الحسین صبرا بن الکرام فما الموت الا قنطرۃ تعبر بکم عن الیوس و الضرار الی الضنان الواسعہ و النعم الدائمۃ) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اے جوان مردو صبر کرو ،موت صرف ایک پل کی طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور مشکلات سے نجات دے کر بہشت اور ابدی نعمات کی طرف پہنچانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتی۔امام ؑ اور اصحاب امام ؑ شجاعت کے میدان میں ہر ایک کے لئے نمونہ ہیں ۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں حمید بن مسلم نقل کرتے ہیں :خدا کی قسم کسی کو بھی امام حسین علیہ السلام کی طرح نہیں دیکھا جو دشمن کی کثرت کی وجہ سے مغلوب ہو چکا ہواور اسکے فرزندوں اور اصحاب کو قتل کر دیا گیا ہو لیکن پھر بھی قدرت قلبی اور ثابت قدم اور عزم راسخ کا مالک ہو۔
11۔حق طلبی اور احقاق حق
قیام امام حسین علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو دوبارہ زندگی بخشی اور بدعتوں اور تحریفوں سے دین اسلام کو نجات دلائی۔امام علیہ السلام صرف یزید کی بیعت نہ کرنےکےلئے مدینے سے نہیں نکلے تھے بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی احیاء اور امت کی اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن منکر کی خاطر نکلے،امام خمینی فرماتے ہیں :امویان اصل اسلام کو ختم کرنا چاہتے تھے تا کہ ایک عربی ریاست قائم کریں۔دوسری جگہ پر فرماتے ہیں :اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو یزید اور پیروان یزید اسلام کو الٹا لوگوں تک پہنچا دیتے۔مدینہ سےروانہ ہوتے وقت آپ نے فرمایا: جو بھی میری پیروی کرے گا اور میری باتوں کو قبول کرے گا تو سعادت پائے گا اور جو میری اطاعت نہ کرے اور میری اطاعت کے دائرے سے باہر چلا جائے تو اس وقت تک صبر کرے گا کہ جب تک نہیں کرتا خداوند متعال میرے اوراس کے درمیان حکم۔امام علیہ السلام نے اپنے خطوط میں فرمایا: میں تمہیں قرآن وسنت کی طرف دعو ت دیتا ہوں چونکہ سنتوں کو ختم کیاگیا ہے اوربدعتوں کو زندہ کیا گیا ہے ۔
12۔فطرتوں کا بیدار کرنا
بنی امیہ کی مسموم تبلیغات کی وجہ سے مسلمان صحیح اعتقادات سے کوسوں دور ہو چکے تھے،یہاں تک کہ عاطفہ نام کی کوئی شئی باقی نہ رہی ۔اسلامی معاشرے میں اس قسم کی تبدیلی سے معاشرہ ذلت و پستی اور موت کے دھانے پہنچ چکا تھا۔امام علیہ السلام نے یزیدی فوج میں موجود نام نہادمسلمانوں کی فطرتوں کو جھگا نے اور انکی روح و وجدان میں تحول لانے کی کوشش کی اور ان کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ لیا لیکن پھر بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا چونکہ ان لوگوں کے پیٹ حرام چیزوں سے بھرے ہوئےتھے اور وجدان سرے سے ہی ختم ہو چکا تھا،جیسا کہ آپ نے فرمایا:(ویحکم یا شیعۃ آل ابی سفیان!ان لم یکن لکم دین ،و کنتم لا تخافون المعاد،فکونوا احرارا فی دنیاکم ه۔۔۔۔) وائے ہو اے ابو سفیان کے پیروکار!اگر تم لوگوں کا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت سے خوف محسوس نہیں کرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد زندگی کر لو۔۔۔ دوسری جگہ پر امام[ع] فرماتے ہیں :( الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتھم یحوطونہ ما درت معایشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون ۔امام نے اس زمانے کے دینداروں اور ہر زمانے میں آنے والے افراد سے مخاطب ہو کر فرمایا : لوگ دنیا کے غلام ہیں اور جب سختیاں اور مشکلات آجائیں تو بہت ہی کم دیندار رہ جاتے ہیں ۔
13۔ایثار و فداکاری
ایثار و فدا کاری عشق ملکوتی ہے جو رحمت الہی سے اخذ ہوتا ہے۔ کربلا میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نے ایثار و فدا کاری کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں جو رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ ہیں ۔ان میں سے ہر ایک شخص شہادت میں پہل کر رہا تھا۔ ہر ایک کی خو اہش یہی تھی کہ دوسروں سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر جان قربان کر دے ،اور جب کوئی موت کے دھانے پہنچ جاتا تو دوسروں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ثابت قدمی سے رہنے کی وصیت کرتا،اصحاب امام حسین علیہ السلام خداوند متعال کے حضور جانے کے لئے بے تاب تھے۔
14۔غیرت
امام حسین علیہ السلام اورآپ کے اصحاب غیرت کے پیکر تھے ۔ امام نے یہ کبھی گوارا نہیں کیا کہ جیتے جی کوئی اہل حرم کے خیموں کی طرف جائے یا اہل حرم خیموں سے باہر آئیں ۔حتی اس وقت بھی جب آپ ؑ زخمی حالت میں تھے اور حضرت زینب ؑ آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی تو فرمایا بہن زینب واپس خیمہ میں جاؤ میں آپ ابھی زندہ ہوں۔حضرت عباس رات کو خیموں کی حفاظت کے لئے خیموں کے گرد چکر لگاتے تھے تاکہ خواتین وبچے بے خوف وہراس سو جائیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تھے تو دشمن کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں اور کسی میں یہ جرأت بھی نہیں تھی کہ آپ کے سامنے جائے ۔ شمر ملعون کہنے لگا کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حسینؑ زندہ ہیں یا نہیں تو خیموں پر حملہ کردو۔ امام نے جب یہ سنا تو فرمایا: اے پیروان ابوسفیان ! اگر تم میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد رہو۔ یعنی کم از کم حیا دار بنو ،خواتین اور بچوں سے تمہاری کیا دشمنی ہے ۔کوئی پوچھتا ہے :ماتقول یابن فاطمہ؟ اے فرزند فاطمہ ؑ کیا کہہ رہے ہو۔امام ؑ نے فرمایا:{انا اقاتلکم وانتم تقاتلونی والنساء لیس علیہن حرج }میں تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے ۔عورتوں نے کیا بگاڑا ہے ۔
15۔ مواسات وایثار
امام حسین علیہ السلام نے فقط دوستوں کے ساتھ نہیں بلکہ دشمن کے ساتھ بھی مواسات اور ایثار کا عملی مظاہرہ کیا ۔ حر کا لشکر جب کربلا پہنچا تو پیاس کی شدت سے ان کی حالت بری تھی تو آپ نے فرمایا کہ دشمنوں کو پانی پلایا جائے نہ فقط انسانوں کو بلکہ ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا گیا۔ شب عاشور اصحاب امام ؑ آپس میں یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ کل ہم پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرینگے اور امام ؑکے عزیزوں پر ہم سے پہلے آنچ آنے نہیں دیں گےجبکہ دوسری طرف خاندان بنی ہاشم کے جوان اکھٹے ہو تے ہیں اور حضرت عباس ؑ جوانان بنی ہاشم سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اصحاب غیروں میں شمار ہوتے ہیں اور بار سنگین کو خاندان کے افراد کو اٹھانا چاہیے ۔ آپ لوگوں کو سب سے پہلے میدان میں جانا چاہیے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اصحاب کو پہلے میدان کی طرف میدان بھیجا گیا۔حضرت عباس ؑ کے اسی کردار کی وجہ سے آپ کو زیارات میں ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے کہ{فلنعم الاخ المواسی}کس قدر اچھے مواسات کے حامل بھائی ہیں۔
16۔ تسلیم ورضا
امام ؑاپنے تمام افعال میں تسلیم ورضا کا درس دیتے ہیں ۔ آپ ؑسے جب عبداللہ ابن مطیع نے کوفہ کے لوگوں کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا:{یقضی الله ما احبّ} خدا جس چیز سے محبت کرتا ہے اسے مقدر کرتا ہے۔شہیدمرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ رضا وتسلیم میں سے ایک یہ ہے کہ کام کسی اور کے ہاتھ میں ہو یعنی خدا کے فرمان اور امر سے ہو۔ شخصی اور خواہش نفس کی پیروی میں نہ ہو۔امام ؑکے اقوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ رضائے الٰہی میں انجام دیتے ہیں ۔ امام ؑ اپنی آخری دعا میں فرماتے ہیں {صبراً علی قضائک یا ربّ لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین ، مالی رب سواک ولا معبود غیرک ، صبراً علی حکمک} پروردگا ر!آپ کی قضا پر صبر کرتا ہوں ۔ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اے فریاد کرنے والوںکی فریاد سننے والا ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں۔
حوالہ جات:
1۔اعرافی علی رضا، سید نقی موسوی،فقہ تربیتی،ص ۱۴۱،موسسہ اشراق قم۔
2۔مفاتیح الجنان دعا عرفہ۔
3۔العوالم ،الامام الحسین ص٢٣٣۔
4۔الارشاد ج٢ ص٩٤۔
5۔کلمات امام حسین علیہ السلام ؑ ص٣٠٦۔
6۔لھوف ص ١٢٠۔
7۔الارشاد ج٢ ص١١٥۔
8۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦۔
9۔الارشاد ج٢ص٧٥۔
10۔ بحار الانوار ج ٤٤ ص٣٢٩۔
11۔ کلمات الامام الحسین ص٤٠٠۔
12۔بحارالانوار ج ٤٤ ص ٣٢٩،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٧۔
13۔العوالم ٢٧٢۔
14۔الارشاد ج٢ص٩١۔
15۔الارشاد ج٢ ص ٨٩۔
16۔ اعیان الشیعہ ج١١ص٤٧٧۔
17۔سوگنامہ آل محمدص٣٠٤۔
18۔بحارالانوار ج٤٥ص٢٢۔
19۔الارشاد ج ٢ض٩٢ ۔
20۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦ ۔
21۔لہوف ص ٩٠، حماسہ حسینی ج ١ ص ١٥٢۔
22۔کلمات امام حسین علیہ السلام ؑ ص٤٠٢۔
23۔حماسہ حسینی ج١ ص ٢٧٠۔
24۔ مقتل الحسین ؑ ص٤٠٠۔
25۔احتجاج طبرسی ج٢ص ٣٥۔
26۔حیاۃ امام حسین علیہ السلام بن علی ؑ ج٣ ص٣٧٠۔
27۔اخلاق فلسفی،ص ١٩٦
28۔فی رحاب ائمہ اھل البیت، ج٢، ص ٦٦
29۔سیدحیدر،مع الحسین فی نھضتہ،ص ٢٥
30۔مجلسی،بحار الانوار،ج٤٤،ص١٩٢
31۔سید بن طاووس ،لھوف ،ص ١٣٨
32۔مجلسی ،بحار ،ج٤٥،ص٧
33۔ موسوعۃطبقات الفقہاء،ج١ص ۳۲۔
34۔سید محمد ہادی ،فادتنا کیف نعرفھم، ج٦ ص ٥٩
35۔ارشاد مفید،ص٢٦٣
36۔ اربلی،کشف الغمۃ فی معرفۃالائمۃ ، ج٢ص ٢٢٩۔
37۔ فرہنگ عاشورا در کلام امام خمینی ،ص١٥۔
38۔صحیفہ نور،ج١٢ص١٥
39۔ہمان ج١٧ص٥٨
40۔محمد بن احمد مستوفی ،برگزدہ از الفتوح ابن اعثم کوفی،ص١٧۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل)60 ہجری جونہی ختم ہوئی ِ60ہجری کا محرم بڑے افسوس اور غم و اندوہ میں غرق ہو کر، بڑی بے تابی سے، حزن سے بھرے ہوئے اور مجبوری کے عالم آغاز ہوا اس لئے کہ نواسہ رسول ؐ سال کی ابتدامیں کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا اور یہ لوگ خدا کے ساتھ راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔
آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا ۔
اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا !میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔راستے کی مشکلات و مصائب جھیلتے ہوئے آل محمد کا یہ قافلہ بڑی آب وتاب کے ساتھ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا پہنچ گئے۔آل محمد کو 61ہجری کی ابتدا میں ہی مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور یہ مہینہ آل محمد اور ہر انصاف پسند انسان کے لئے نہ بھولنے والا مہینہ ثابت ہوا اور قیامت تک کے لئے یہ مہینہ اسی غم و اندوہ کے ساتھ شروع ہونے کو ہی اپنا فخر سمجھنے لگا ۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سواکیا ہے
ایک ضرب یداللہ ہی ایک سجدہ شبیریؑ
نواسہ رسولؐ نے بد عتوں ،گمراہیوں ،ظلم و استبداد اور شرک و استحصال کے خلاف قیام کیا۔اس مہینہ میں نواسہ رسولؐ کو حق پرستی اور عدل پروری کے جرم میں شہید کیا گیا۔ کربلا کی تپتی ہوئی صحرا کو نواسہ رسولؐ اور ان کے 72 ساتھیوں کے خون سے سیراب کیا گیا ۔ یوں اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے درندہ صفت ،حکمرانوں ،استحصال و استکبار اور ظلم و نا انصافی کے خونچکاں پنجوں میں گرفتارہو گیا ۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔الموت أولی من رکوب العار والعار أولی من دخول النار"۔
اصول دین نہ بچاتے جو کربلا والے
ورق ورق یہ کہانی بکھر گئی ہوتی
بچا لیا اسے سجدہ ،حسین ؑ کا ورنہ
نماز ،عصر سے پہلے ہی مرگئی ہوتی
محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سر نگوں کر دیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کےساتھ کربلا پہنچے اوروہاں امام عالی مقام نے کربلا کے تپتےہوئے صحرا میں انسانوں کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو نے
آج کا محرم کربلا کی یاد ہے اور یہ محرم ہل من کی آواز ہے ۔ محرم سرفروشان حق کی ناقابل شکست ولولہ ہے ،محرم ظلمت کی گٹھاوں سے طلوع ہونے والی نوید سحر ہے ۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں عاشورہ برپاہوئی ۔یوم عاشور ہ جو میزان حق و باطل ہے ، جس روز سید الشہدا ء علیہ السلام نے اپنے با وفا اہل بیت واصحاب کے ساتھ بنی امیہ کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقش نوچ پھینکا اور کربلا کی تپتی ہوئی ریگستان میں یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست د ر دست یزید
حقائے کہ بنا لا الہ است حسین ؑ
جب تک بے کس مظلوم انسانوں کی آخری امید حجت خدا امام زمانہ ؑ کا ظہور نہیں ہو گا اور وہ عظیم الہی انقلاب بر پا نہیں ہو گا جو تمام انسانیت کی فلاح اورنجات کا ضامن ہے عزاداران حسین ؑ محرم مناتے رہیں گے ،راہ حق میں سروں کوقربان کرتے رہیں گے ، سینوں میں گولیاں کھاتے رہیں گے ، مشکلات ومصائب جھیلتے رہیں گے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے رہیں گےاور غم حسین میں اس وقت تک آنسو بہاتے رہیں گے جب تک باطل کو بہاکر نہیں لے جائے گا۔
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کر کے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش ،القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان بزرگ امریکہ، اسرائیل ،سعودی عرب ا ور ان کے دستر خوان پر پلنے والے یزیدی افکار رکھنے والےعناصر کو علم ہونا چائیے کے شیعیان حید کرار اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کرتےرہیں گے اور ان کا غم مناتے رہیں گے اور قیامت تک یہ سلسلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔
تحریر :محمد لطیف مطہری کچوروی