وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے ،جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کودنیا والوں کو سمجھا دیا۔وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند عباس ہے ۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے ،عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کر ینگے۔
عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی۔چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں جن کی کنیت ام البنین ہے۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھےایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا {کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے } اور کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھاجس کے آباؤواجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پاگئی۔ جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعدآپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر تشریف لائی اور بچوں کی دیکھ بال اور ان کی خدمت شروع کی۔جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔
اللہ نے آپ کوچار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان اور یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہو گئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام پر قربان ہونے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کو اس طرح توصیف کرتے ہیں:{رَحِمَ اللَہُ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہُ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ يَداہُ فاَبْدَلَہُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ مِنہُما جِناحَيْن يَطيرُ بِہِما مَعَ الْمَلائِکَۃِ فی الْجَنَّۃِ کَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی طالِبْ عليہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہِ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃٌ يَغبِطَہُ بہا جَميعَ الشُّہدَاءِ يَوْمَ القِيامَۃِ}
خدا میرے چچا عباس کو رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پر دیے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔
امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں:{کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَۃِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاہَدَ مَعَ أَبی عَبْدِاللَّہِ عليہ السلام وَأَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَہيدا}ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھے مستحکم ایمان کے مالک تھے ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخر کار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔
جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتی۔صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہیں۔
آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے ۔بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔
حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بہادر فرزند کی تمنا تھی جو اپنے بعد اسلام کی حفاظت کر سکے اور حسین بن علی علیہ السلام کے لئے مددگار بنے۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ہوئی،حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بہادر قبیلے کی بہادرخاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ام البنین سیرت و کردار میں نہایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی ۔
عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ہونے کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔
معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اورنقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ہاشم شیر خدا کا فرزندتھا۔
قمر بنی ہاشم ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ بلایا اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔
حضرت عباس علیہ السلام عرب کے عظیم بہادروں میں شمار ہوتے تھے کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک مقام پر جب اسلام کوخطرے میں دیکھا،نانا محمد[ص] کے دین کو سرے سے نابود ہوتے دیکھا، تو عباس سے برداشت نہ ہوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں اس لئے عباس[ع] نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلندکیا وہی علم جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا.
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا
تعداد میں بہتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل تھےعباس علمدار لیکن یہی بہترافراد یزیدی افواج سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔حضرت عباس[ع] نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی ۔یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کر کے راہ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی تا کہ قمر بنی ہاشم حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیں اور وہ اکیلے میدان میں رہ جائیں لیکن قمر بن ہاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا
حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدارعلیہ السلام کو دو جہت سے باب الحوائج کہا جاتا ہے ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اہل بیت اطہار کی ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا تھا اور ہر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے جہاں سے ہزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ہوئے ہیں اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کہا جاتا ہے۔
سلام ہو اس عظیم غازی پر ،حسین[ع] کے علمدار پر،سقائے سکینہ پر ،جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ہاتھوں سیراب ہونے کے لئے اسلام پر قربان ہوئے ۔عباس علمدا رنہ صرف حسینی فوج کےعلمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں ۔یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھے کہ کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ہوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے ارض و سماء والے سخی عباس کہتے ہیں
عباس علیہ السلام جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کر کے آئےتھے اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پہنچ جائے اور حسین علیہ السلام کی معصوم بچیاں سیراب ہوں ،اس لئے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی لیکن عباس علیہ السلام نےامام وقت کی دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّہِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينی
إنّی أُحامِی أبَداً عَنْ دينی
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبیِّ الْطَّاہِرالا مين
خدا کی قسم اگر میرا دائیں ہاتھ قلم کیا جائے تب بھی میں دین کا دفاع کرتا رہوں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔پیکر وفا نے اپنے دونوں ہاتھ اوراپنی قیمتی جان اسلام اور وقت کے امام پرقربان کیا ۔
جنہیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ہی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے
امام جعفرصادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّہَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للہِ وَلِرَسُولِہِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّی اللہ عَلَيْہِمْ وَسَلَّمَ ۔سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام، کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"السلام علی ابی الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاہ بنفسہ، الآخذ لغدہ من أمسہ، الفادي لہ، الواقي الساعي إليہ بمائہ المقطوعۃ يداہ ۔ سلام ہو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کردی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت
کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔ اغواء قتل وغارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذراسی بات پر تلواریں نکل آتیں اورخون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ دنیا چشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی ۔راہزن رہنماء بن گئے ۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرابن گئےاور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔
تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑدیے۔دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑکر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اورآپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔
امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔
رہبر انقلا ب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ اس بابرکت دن کے بارے میں فرماتےہیں:روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اورجس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
اس عظیم دن کی مناسبت سے ہم یہاں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بعض اہداف بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{و لیعقل العباد عن ربہم ما جہلوہ، فیعرفوہ بربوبیتہ بعد ما انکروا ، و یوحدوہ بالالویہہ بعد ما عندوا}اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت ،ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔
آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرتہ}تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروہم منسی نعمتہ}انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے ۔{و یحتجوا علیہم بالتبلیغ}تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا :{و یثیروا لہم دفائن العقول}تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا:{ویروہم الایات المقدرۃ، من سقف فوقہم مرفوع،ومہاد تحتہم موضوع ....} تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپرموجودبلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کےذریعے۔۔۔۔}
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پراتمام حجت کرنا:{وجعلہم حجۃ لہ علی خلقہ، لئلا تجب الحجۃ لہم بترک الاعذار الیہم} اللہ نے انبیاءکو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہےاور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل وشہود اور حواس ہیں جو محدودہونے کی بنا پر ہدایت ا ور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔علاوہ از یں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتےبلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل بھی کراتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کامحتاج ہوتا ہے۔ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضابھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :{ رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلی اللَّہِ حُجَّۃ
ُ بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینےوالے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کےاہداف میں شمار کرتاہے :
1۔لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا:{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فی کُلّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّہَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت} یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ہم نےاپنےرسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کےساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔انسان کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: {فطری لحاظ سے}سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اورڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی ، اجتماعی،مادی او رمعنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الہیٰ ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلامانبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں ۔{و ان لللہ علی الناس حجتین :حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنۃ : فاما الظاہرۃ فالرسل و الانبیاء و الائمہ علیہم السلام و اما الباطنۃ فالعقول}
خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و ا خروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہونیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر وکمال پر مشتمل ہواور امور دینی میں ان کی مدد کرےعلاوہ از یں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔امام خمینی رح
۲۔امام خامنہ ای ۔[17 نومبر 1998ء]۔
۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۴ ۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
۵۔ نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
۶۔نساء،165۔
۷۔نحل،36۔
۸۔حدید،25۔
۹ ۔جمعہ،2۔
۱۰ ۔بقرۃ،213۔
۱۱۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
۱۲۔تلخیص المحصل،ص367۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چا ہیے اور ایسے فرد کو امام منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو نیز معاشرے میں اسلامی احکام کو نافذ کر سکتا ہو جیسا کہ ابن خلدون اس بارے میں لکھتے ہیں:{وقصاری امرالامامۃ انہا قضیۃ مصلحیۃ اجماعیۃ ولا تلحق با لعقائد}۱مسئلہ امامت کے بارے میں بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ {اسلامی معاشرے کی }ضروریات کے مطابق اور اجماع مسلمین یا اجماع {ارباب حل و عقد }کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ عقائد کے ساتھ مربوط نہیں۔اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ الہیٰ قرار دیتا ہے ۔ امام پیغمبر اور نبی کی طرح خداوند متعال کی طرف سے معین ہوتا ہے۔ اسی لئے امام اور پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پیغمبر پر وحی ناز ل ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو وحی الہیٰ ٰ پہنچاتا ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و وحی کا سلسلہ ختم ہوا ہے ۔یہاں ہم قرآن کریم ،احادیث معصومین علیہم السلا م اور عقلی دلائل سے استفادہ کرتے ہوئے امامت کی مختلف ذمہ داریوں کو بیان کریں گے۔
1۔امام فضائل اخلاقی کا عملی نمونہ
امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں نفس کی تربیت کرنے اورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں ۔امام رضا علیہ السلامنےامام کی جوصفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے بعض عبارت یہ ہیں ۔{الامام النار علی الیفاع،الحار لمن اصلی بہ ،والدلیل فی المہالک،من فارقہ فہالک}2۔ امام اس آگ کے مانند ہے جو کسی بلندی پر لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے روشن کی جائے۔امام ہلاکت خیز میدانوں میں صحیح راستہ بتانے والا ہے۔ جو اس سے الگ رہا ہلاک ہوا ۔
حضرت علی علیہ السلا م بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام خط میں لکھتے ہیں :{ الا و ان لکل ماموم اماما یہتدی بہ و یستضیئ بنور علمہ،الا و ان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ و من طعمہ بقرصیہ ، الا و انکم لا تقدرون علی ذلک و لکن اعینونی بورع و اجتہاد و عفہ و سداد}3۔یاد رکھو کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتداء کرتا ہے اور اسی کے نور علم سے کسب ضیا ء کرتا ہے ۔ تمہارے امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر گزارہ کیا ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے لیکن کم از کم احتیاط ، کوشش ، عفت اور سلامت روی سے میری مددتو کرو۔
امام کے اس کلام میں سب سےزیادہ امامت کے اخلاقی و تربیتی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ آپ ؑسعی وکوشش، عفت ،تقوی ،پرہیز گاری، قناعت و سادگی وغیرہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ عثمان بن حنیف کسی ایسی محفل میں شریک ہوا تھا جہاں ثروتمند لوگ جمع تھے اور اس محفل میں کوئی غریب شامل نہیں تھا ۔
2۔ معارف دینی کی تعلیم
نبوت کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف کتاب و حکمت کی تعلیم ہے ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ يُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الحکْمَۃ}{نبی انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے } قرآن و حکمت کی تعلیم کا مرحلہ تلاوت قرآن اور وحی کے ابلاغ کے بعد کا ہے ۔{ يَتْلُواْ عَلَيہْم}{ ان کےسامنے آیات کی تلاوت کرتا ہے} شریعت و وحی کا ابلاغ نبوت کےساتھ مختص ہے لیکن ختم نبوت کےساتھ معارف و احکام دین کی تعلیم ختم نہیں ہوتی ۔خاص طور پر مختلف سیاسی اور اجتماعی موانع کی وجہ سے مسلمان عصر رسالت میں تمام معارف و احکام اسلامی سےآشنا نہ ہو سکے ۔ علاوہ ازیں وحی پر مبنی ان آسمانی معارف و احکام کو لوگوں تک نہ پہنچانے کی صورت میں غرض نبوت وہدف وحی حاصل نہیں ہوگا لہذا عقل و حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعدان علوم و حقائق کو کسی ایسے فرد کے حوالے کرے جو آپ ؐکےبعد مناسب مواقع پر لوگوں کو معارف و احکام اسلامی بیان کرے ۔اسی بنا پر ائمہ اطہار علیہم السلام کی حدیثوں میں ان کے راسخون فی العلم ہونےنیز قرآن کے تمام حقائق و معارف سے آشنا ہونے پرزور دیا گیا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو علم کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ جیساکہ آپ ؐفرماتے ہیں :{انامدینۃ العلم و علی بابہا فمن اراد العلم فلیات الباب}4۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔پس جو شخص علم کا طالب ہو اسے دروازے سے داخل ہونا چاہیے۔
3۔ اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری
انسانی معاشرے میں ایک سیاسی نظام کی ضرورت بدیہی امور میں سے ایک ہے ۔اسی لئے تاریخ بشریت کی ابتداءسے لے کر اب تک ایسا کوئی انسانی معاشرہ پیدا نہیں ہو سکا جہاں ایک سیاسی نظام حاکم نہ ہو ۔البتہ تاریخ بشریت میں وجود میں آنے والے سیاسی نظاموں میں بہت سارے اختلافا ت موجود تھے ۔انسانی معاشرے میں سیاسی نظام قائم کرنے والے اکثر حاکموں نے ظلم و استبداد کی روش اختیار کی جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ حکومت کی ضرورتکے منکر ہوگئے جنہیں{ Anarchist}}{حکومت مخالف عناصر} اور ان کے نظریہ کو { Anarchism}کہاجاتا ہے ۔اسی طرح تاریخ اسلام میں بھی بہت سے لوگوں نے حکومت کی ضرورت کی مخالفت کی جیساکہ حکمیت کے مسئلے میں بہت سے لوگ فکری طورپر خطا کر گئے وہ حکم یعنی قانون ا ور حکم یعنی فرمانروا میں اشتباہ کرکئےاور اس آیت {لاحکم الا لله} سے استدلال کرتے ہوئےاصل حکمیت کے ہی منکر ہوگئے اور اسے ناجائز قراردے کر حضرت علی علیہ السلام اور باقی افراد کوکافر قراردینےلگے۔ اگرچہ ان حالات میں حکمیت کا مسئلہ عاقلانہ و مصلحت آمیز نہیں تھا۔اسی لئے حضرت علی علیہ السلام اس کے سخت مخالف تھے لیکن آپ ؑنے خوارج کے اصرار پر مجبور ہوکر حکمیت کو قبول فرمایا البتہ اصل حکمیت عقل و وحی کے خلاف تو نہیں تھا ۔ آپ ؑنے مختلف مقامات پر خوارج کی غلطیوں کے بارے ارشاد فرمایا :جیساکہ{نعم لاحکم الا لله ، لکن ہولاء یقولون لا امرہ الا الله و لا بد للناس من امیر بر او فاجر} بے شک حکم صرف اللہ کا ہے لیکن ان لوگوں کا کہنا ہےکہ حکومت اور امارت بھی اللہ کے لئے ہے حالانکہ واضح سی بات ہے کہ نظام بشریت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہت ضروری ہے چاہےنیک ہو یا فاسق ہو۔”یعنی اگرکوئی نیک و صالح امیر موجود نہ ہو اور معاشرے میں ہرج و مرج کا خطرہ ہوتو لوگوں کو ناصالح امیر کی حکومت کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خوارج جو حکومت مخالف تھے جب حروراء نامی جگے پر پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلا جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے حکومتی عہدوں کو تقسیم کیا اور ہر عہدے کے لئے الگ الگ مسئول مقرر کیا ۔
امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے ۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود الہیٰ کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔5متکلمین کی طرف سےامامت کی جو مشہور تعریف بیان ہوئی ہے اس میں بھی سیاسی امامت مراد ہے ۔ مثلا یہ تعریف کہ امامت سے مراد اسلامی معاشرے کےدینی اور دنیوی امور میں لوگوں کی رہبر ی کرنا ہے {الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا}۔امام رضا علیہ السلام امامت کے بارےمیں فرماتے ہیں :{ان الامامۃ زمام الدین ، و نظام المسلمین، و صلاح الدنیا و عز المومنین ، ان الامامۃأس الاسلام النامی و فرعۃ السامی ، بالامام تمام الصلاۃ و الزکاۃ و الصیام و الحج و الجہاد و توفیر الفئ و الصدقات و امضاء الحدود و الاحکام و منع الثغور و الاطراف .الامام یحل حلال الله و یحرم حرام الله و یقیم حدود الله و یذب عن دین الله و یدعو الی سبیل ربہ بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و الحجۃ البالغۃ}6۔امامت زمام دین اور نظام مسلمین ہے اور اس میں امور دنیا کی درستی اور مومنین کی عزت ہے ۔امامت اسلام کی مضبوط بنیاد اوراس کی بلند شاخ ہے۔امام ہی سےنماز،زکوۃ،روزہ،حج وجہاد کا مل ہوتےہیں ۔ وہی مال غنیمت کا مالک ،صدقات کا وارث ،حدود و احکام کا جاری کرنے والااور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ہے ۔امام حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام قرار دیتاہے ۔وہ حدود الہیٰ کو قائم کرتا ہے اور دشمنوں کو دین خدا سے دور کرتا ہےنیز لوگوں کو دین خدا کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کےذریعے بلاتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے کامل حجت ہے ۔
مذکورہ مباحث سےواضح ہو تا ہے کہ امام کی ذمہ داری صرف اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں بلکہ اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی کی ذمہ داری میں شامل ہے۔مذکورہ بالا نکات پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں ۔بعبارت دیگر کسی مذہب کے نزدیک بھی دین سیاست سے جدا نہیں ہے ۔شیعوں کے نزدیک سیاسی رہبری کا بہترین نمونہ اس وقت کامل ہو تا ہے جب امامت کے دوسرےپہلو بھی موجود ہوں۔ بنابریں امام وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ،ہادی او ر ان کا رہنما ہو جو مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالےنیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی وجہ سے معاشرے میں واقع ہونے والے شگاف کو بھی پر کرے۔پس ان عالی ترین مقاصد تک رسائی حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیات کےبغیر حاصل نہیں ہو سکتی جنہیں خداوند متعال نے جان ونفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قراردیا ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث {من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ}7 {اگر کوئی وقت کےامام کی معرفت کےبغیرمر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے ۔} سےواضح ہوتا ہےکہ امامت صرف سیاسی جہت نہیں رکھتی کیونکہ معاشرےکے سیاسی رہبر کی عدم شناخت اور جاہلیت کی موت کے درمیان کوئی تلازم نہیں پایا جاتا ۔ اگر کوئی شخص کسی دور درازمقام پر زندگی گزار رہا ہو اور اسے اسلامی معاشرے کے سیاسی رہبر کے بارےمیں کوئی علم نہ ہو لیکن احکام دینی کو جانتا ہو اور وہ اس پر عمل کرتا ہو تواس شخص کے بارے میں ہر گز یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شخص جاہلیت کی موت مرے گا ۔ بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک ایسے مقام و منزلت پر فائز ہے جوہدایت و گمراہی اور ایمان و کفر کا معیار ہے ۔
4۔ باطنی ہدایت
امامت کے مختلف مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مقام نبوت و رسالت کے بعد ہی مقام امامت پرفائز ہوئے جیسا کہ ارشاد ہوتاہے :{ وَ إِذِ ابْتَلیَ إِبْرَاہیمَ رَبُّہُ بِکلَمَاتٍ فَأَتَمَّہُنّ ۔۔۔۔}8اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور اس نے انہیں پورا کر دیا تو خدا نے کہا: ہم تجھے لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ البتہ مقام امامت کا مقام نبوت اورسالت سےبالاتر ہونےکا لازمہ یہ نہیں کہ امام کا مقام پیغمبر کےمقام سے بھی بالاتر ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص پیغمبر بھی ہو اور امام بھی ،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی بھی تھے اور امام بھی ۔اما م رضاعلیہ السلام ایک مفصل حدیث میں امامت کی حقیقت اور اس کے اہداف نیز امام کی خصوصیات اور مقام و منزلت بیان فرماتے ہیں : کیا لوگ امامت اورمقام امامت کی قدر کو پہچانتے ہیں ؟کیا ان کو اس کے متعلق اختیار دیا گیا ہے ؟امامت منزلت کے لحاظ سے بہت ہی بلند و برتر ہےاور شان کے اعتبار سے بھی بہت عظیم نیز ان کا محل و مقام بھی بہت بلند ہے اور اپنی طرف غیر کے آنے سےبھی مانع ہے اور اس کا مفہوم بہت ہی گہرا ہے ۔لوگوں کی عقلیں اس تک پہنچ نہیں سکتیں اور ان کی راہیں اس کو پا نہیں سکتیں۔ وہ اپنے اختیار سے اپنے امام کو نہیں بنا سکتے ۔خداوند متعال نے ابراہیم خلیلؑ کو امامت سے سرفراز کیا۔نبوت اور خُلّت کے بعد امامت کا مرتبہ ہے ۔خدا نے ابراہیم کو اس کا شرف بخشا اور اس کا یوں ذکر کیا :{ إِنی ّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا}میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوش ہوکر کہا:اورکیاتو میری اولاد کو بھی امام بنائےگا؟اللہ نے فرمایا:{ لَا يَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِين}ظالم لوگ میرے عہدکو نہ پا سکیں گے۔اس آیت نے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کر دیا ۔امام محمدباقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتےہیں :{لنور الامام فی قلوب المومنین انورمن الشمس المضیئۃ بالنہار}9مومنین کےدلوںمیں امام کا جو نورہے وہ نصف النہار کے سورج سےزیادہ روشن ہوتا ہے۔
نتیجہ بحث:
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے اور ایسے فرد کو امام منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ الہیٰ قرار دیتا ہے۔
امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں نفس کی تربیت کرنےاورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں ۔ آیت اکمال، حدیث مدینۃ العلم اور وہ روایات جو حضرت علی علیہ السلام کےوسیع علم پر دلالت کرتی ہیں اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ امامت کے پہلووٴں میں سے ایک مسلمانوں کو معارف و احکام الہیٰ کی تعلیم دینا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام نے بعض معارف و احکام الہیٰ کو بیان فرمایا ہے اور بعض معارف و احکام الہیٰ کو دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کے سپرد کیا ہے ۔ امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود الہیٰ کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔ بنابرین امام کی ذمہ داری صرف اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں بلکہ اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ امامت کے مختلف مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے۔ بنابریں امام کی باطنی ہدایت ایصال الی الطریق نہیں ہوتی بلکہ ایصال الی المطلوب ہوتی ہے، یعنی امام صرف راستہ نہیں دکھاتابلکہ منزل تک پہنچاتا ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔ اصول کافی ،ج1 ،ص 155۔ باب نادر فی جامع فضل الامام و صفاتہ۔
۲۔نہج البلاغہ، نامہ 45۔
3 ۔المستدرک،ج3،ص 127۔ البدایۃ و النہایۃ ،ج7،ص359۔
۴۔ شرح المواقف، ج8،ص346۔شرح المقاصد،ج5،ص233۔
۵۔ اصول کافی،ج1، کتاب الحجہ ،باب جامع فی فضل الامام۔
۶۔ شرح المقاصد ،ج5،ص 239۔شرح العقائد النسفیہ،ص110۔
۷۔ بقرۃ،144۔
۸۔ اصول کافی،ج1 ،کتاب الحجۃ،باب فی فضل الامام ،ص 154۔
۹۔اصول کافی ،ج ،کتاب الحجۃ ،ص 150،باب ان الائمۃ نور اللہ عزوجل ۔
تحریر۔۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔سیوطی آیت کریمہ {وَلَتَعْرِفَنَّ ہُمْ فیِ لَحْن ِالْقَوْل} {اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے}کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ :آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے :{ما کنا نعرف المنافقین علی عہد رسول الله{ص}الا ببغضہم علی ابن ابی طالب{ع}} پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتےتھے ۔نسائی {متوفی 303ھ}نے خصائص امیر المومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرادیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتےہیں جن میں آپ ؐفرماتے ہیں :امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا {اسی طرح}منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے ۔
خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں جن کے مضامین اس طرح کے ہیں:
1۔ {انی افترضت محبۃ علی ابن ابی طالب علی خلقی عامۃ}حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے ۔
2۔ {لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار} اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتےتو خدا وند جہنم کو خلق نہ کرتا ۔
3۔اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلامکی اس عمر کے برابر{جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری}عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفاو مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن {حضرت}علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔
4۔{من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی}جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے ۔
5۔{ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء} ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے ۔
6۔{من زعم انہ امن بی و بما جئت بہ و هو یبغض علیا فی و کاذب لیس بمومن}جوشخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہومگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتاہوتو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے ۔
اسی طرح شبلنجی شافعی نےنور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیاہے :
1۔مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے :{والذی فلق الحبۃ و برا النسمۃ انہ لعہد النبی الامی بانہ لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق}خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کےسوا کوئی مجھ سےبغض نہیں کرتا ۔
2۔ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں :{کنا نعرف المنافقین ببغضہم علیا} ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بے شمارحدیثیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔لہذامذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھےگرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کونفاق کا معیار سمجھا گیا ۔ اس صورت حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ ونمونہ قرار دیتے تھے۔
گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنزدیک آپ سب سے زیادہ عزیز تھے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی ۔ ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہوجاتاہے ۔ کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے حالانکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط وخصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ۔
محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما} اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئکَ ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ} اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاںسب کو بیان نہیں کر سکتے ۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتےتھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سےحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہو اتھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہٴ علی علیہ السلام کے نام سے پہچاناجاتا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتےرہتےتھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب وکامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔
حوالہ جات:
۱۔ محمد،30
۲۔الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۳۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۴۔خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
۵۔ المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
۶۔ نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
۷۔ الریاض النضرۃ ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
۸۔آل عمران 61۔
۹۔البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
۱۰۔ طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
۱۱۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث 111 ،ص 106۔
۱۲۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث 111 ،ص 106۔
۱۳۔خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔
تحریر ۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کا نام محمد بن علی بن موسی اور امام جواد کے لقب سے معروف ہیں۔آپ10 رجب سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور والدہ سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہیں۔
ولادت امام
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرائمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں ۔
مبارک ترین مولود
امام محمد تقی علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کی ولادت سے قبل امام کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا مخالفین کہتے تھے کہ "امام رضاعلیہ السلام سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو پیدائش کے بعد امام رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: هہذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم برکۃ علی شيعتنا منہ"۔یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔ ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحیی صنعانی کہتے ہیں:{ إنا لعند الرضا عليہ السلام بمنی إذ جبئ بأبي جعفر عليہ السلام قلنا: هذا المولود المبارک ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم برکۃ منہ} ہم امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔
آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمہ، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ
کرامات امام
آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ہم یہاں کچھ نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
۱۔استجابت دعا
داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادعلیہ السلام کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آپ نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی"۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی۔
۲۔درخت کا بارور ہونا
بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادعلیہ السلام کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امام نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امام نے پانی منگوایا اور درخت کے ساتھ بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالایا اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔
مناظرات امام
امام محمد تقی ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ رہا۔ہم یہاں بعض مناظرات کو بیان کریں گے:
مامون کے دور میں بغداد میں امام جوادعلیہ السلام کا ایک اہم مناظرہ یحیی بن اکثم کے ساتھ ہوا۔ مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان [امام جواد] کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جوادعلیہ السلام کے درمیان مناظرے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔ مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا؟ ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟، شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ ، رات کو چھپ کراس نے اس کا شکار کیا یا اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی کے چہرہ پر شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔
امام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "حل" میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔ اس کے بعد امام جواد نے یحیی سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔
امام کی زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا ، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔امام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی ،اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی ، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما نے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔
اسی طرح ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امام نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بےشک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الانسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ} اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔ یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ {أنّ مثل أبي بکر وعمر في الاَرض كمثل جبرئيل وميکائيل في السماء} بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔ امام نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرئیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔
اصحاب و شاگردان امام
آپ کے زیادہ تر اصحاب آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور آپ کے فرزند فرزند امام ہادی علیہ السلام کے بھی شاگرد تھے جو مختلف فقہی اور اعتقادی کتابوں کے مصنفین و مؤلفین تھے ۔امام جوادعلیہ السلام کے اصحاب اور رواۃ کی تعداد تقریبا 120 ہے جنہوں نے تقریبا 250 حدیثیں آنجناب سے نقل کی ہیں۔ ان روایات کا تعلق فقہی، تفسیری اور اعتقادی موضوعات سے ہے۔ آپ کے اصحاب اور راویوں میں علی بن مہزیار، احمد بن ابی نصر بزنطی، زکریا بن آدم، محمد ین اسمعیل بن بزیع، حسن بن سعید اہوازی، عبدالعظیم حسنی، ابراہیم بن ہاشم قمی، زکریا بن آدم اور احمد بن محمد برقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امام جوادعلیہ السلام کے راوی صرف شیعہ ہی نہ تھے اہل سنت سمیت دوسرے فرقوں کے افراد نے بھی آپ سے روایات نقل کی ہے۔
اہل سنت مشاہیر کے اقوال
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپکی علمی شخصیت کو ممتاز گردانا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال ذکر کرتے ہیں ۔
۱۔سبط ابن جوزی:امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔
۲۔ابن حجر ہیتمی:مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔
۳۔فتال نیشابوری:مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
۴۔جاحظ عثمان معتزلی: وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں۔
حوالہ جات
کلینی، اصول کافی،ج1، ص492۔
مفید،ارشاد ص ۴۷۳
المناقب، ج4، ص394
کلینی، اصول کافی، ج1 ص321۔
مجلسی، بحارالانوار، ج50، صص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔
اعلام الوری ص ۲۰۰
ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضۃ الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ۔
شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص586۔
ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔فتال نیشابوری، ص241و242۔
طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
ق،۱۶۔
طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304
طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص359۔
ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106 ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز (آرٹیکل) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔
-1علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے۔
-2آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں۔
-3آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے۔
-4علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں \پرندوں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے۔
-5روضۃ الصفاء میں ہے : خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں۔ علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن ، تفسیر قرآن ،علم السیرۃ ،علوم وفنون وادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اورسے ظاہرنہیں ہوئے۔
-6صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں : عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارکے راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔
-7علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے۔
8۔علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔
-9امام باقرعلیہ السلام نے تقریبا چار سال کی عمر میں کربلاکا خونین واقعہ دیکھا۔آپ اپنے جد امام حسین علیہ السلام کےپاس موجود تھے۔آپ کی شرافت اور بزرگی کو اس حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک نیک صحابی جابربن عبد اللہ انصاری سے فرمایا:اے جابر : تم زندہ رہوگے اور میرےفرزند محمد ابن علی ابن الحسین سے کہ جس کا نام توریت میں باقر ہے ،ملاقات کروگے ،ان سے ملاقات ہونے پر میرا سلام پہنچادینا۔جابر نے ایک طویل عمر پائی اور یوں وہ دن بھی آیا کہ امام باقرعلیہ السلام کے سامنے جابر کھڑا تھا۔جب معلوم ہوا کہ آپ امام باقر ہیں توجابر نے آپ کے قدموں کا بوسہ لیا اورکہا اے فرزند پیغمبر میں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام و درود قبول فرمائیں۔انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا تھا۔
آپ کا علم بھی دوسرے تمام ائمہ علیہم السلام کی طرح چشمہ وحی سے فیضان حاصل کرتا تھا۔جابر ابن عبد اللہ انصاری آپ کےپاس آتے اور آپ کے علم سے بہرہ مندہوتے اور بار بار عرض کرتے تھے کہ اے علوم کو شگافتہ کرنےوالے،میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بچپن ہی میں علم خدا سے مالا مال ہیں ۔آپ کا علمی مقام ایساتھا کہ جابر بن یزیدجعفی ان سے روایت کرتے وقت کہتے تھے،وصی اوصیا اور وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن حسین نے ایسا کہا ہے ۔حضرت امام باقر علیہ السلام نے علوم و دانش کے اتنے رموز و اسرار وضع کئے ہیں کہ سوائے دل کے اندھے کے اور کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔اسی وجہ سے آپ نے تمام علوم شگافتہ کرنے والے اور علم و دانش کا پرچم لہرانے والے کا لقب پایا۔آپ نے مدینہ میں علم کا ایک بڑا دانشگاہ بنایا تھا جس میں سینکڑوں درس لینےوالے افراد آپ کی خدمت میں پہنچ کر درس حاصل کیا کرتے تھے۔امام باقر علیہ السلام کے مکتب فکر میں مثالی اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائی تھی ان میں سے کچھ افراد یہ ہیں :
1۔ ابان بن تغلب: ابان نےتین اماموں کی خدمت میں حاضری دی ،چوتھے امام ،پانچویں امام اور چھٹے امام۔ابان کی فقہی منزلت کہ وجہ سے ہی امام باقر علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کےلئے فتوی دو تاکہ لوگ ہمارے شیعوں میں تمہاری طرح کے میرے دوست دار کو دیکھیں ۔
2۔زراۃ ابن اعین:امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں : ابو بصیر ،محمد ابن حکم ، زراۃ بن اعین اور بریدہ ابن معاویہ نہ ہوتے توآثار نبوت مٹ جاتے یہ لوگ حلال اور حرام کے امین ہیں ۔
3۔ کمیت اسدی: ایک انقلابی اوربامقصد شاعر تھے ۔دفاع اہل بیت کے سلسلے میں لوگوں کوایسی جھنجھوڑنے والی اور دشمنوں کواس طرح ذلیل کرنےوالی شاعری تھی کہ دربار خلافت کی طرف سےموت کی دھمکی دی گئی۔جب کمیت نے امام کی مدح میں چند اشعار پڑھ لئے تب
امام نے اسے اپنا لباس دے دیا۔
4۔ محمد ابن مسلم: امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے سچے دوستوں میںسےتھے۔آپ کوفہ کے رہنےوالے تھے لیکن امام کے علم بیکراں سے استفادہ کرنےکے لئےمدینہ تشریف لائے۔ایک دن ایک عورت محمدابن مسلم کے گھر آئی اور سوال کیا کہ میری بہو مر گئی ہے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ موجود ہے۔ہم کیا کریں؟ محمد نے کہا کہ امام باقرعلیہ السلام نےجو فرمایا ہے اس کے مطابق توپیٹ چاک کر کےبچہ کو نکال لینا چاہئے اور پھر مردہ کو دفن کر دینا چاہئے۔پھر محمد نے اس عورت سےپوچھاکہ میرا گھر تم کو کیسےملا؟ عورت بولی میں یہ مسئلہ ابو حنیفہ کےپاس لے گئی۔انہوں نے کہا محمد ابن مسلم کےپاس جاو اور اگر فتوی دیں تومجھے بھی بتادینا۔
امام باقر علیہ السلام کی رہبری کا ۱۹ سالہ زمانہ نہایت ہی دشوار حالات اور ناہموار راہوں میں گزرا۔اپنے آخری ایام میں امام نے اپنے بیٹےامام جعفر صادق علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان کے پیسوں میں سےایک حصہ ۸۰۰ درہم دس سال کی مدت تک عزاداری میں صرف کریں۔عزاداری کی جگہ میدان منی اور عزاداری کا زمانہ حج کا زمانہ قرار دیا گیا۔حج کا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا لوگوں اور دوستوں کی وعدہ گاہ ہے اگر کوئی پیغام ایسا ہو کہ جسے تمام عالم اسلام تک پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں اور امام نے بھی عزاداری کے لئے حج کے ایام اور اس جگہ کو معین کیا تاکہ ہر سال مجلس عزاء برپاہونےپر ہر آدمی یہ سوال کرنے پر مجبور ہو کہ آخر کس کے لئےیہ مجلسیں برپا ہوتی ہیں اور عالم اسلام کی بلند شخصیت محمد ابن علی ابن الحسین علیہ السلام کی موت آخر طبیعی نہ تھی ۔ان کو کس نے قتل کیا اور کیوں؟ آخر ان کا جرم کیا تھا،کیا ان کا وجود خلیفہ کے لئے خطرے کاباعث تھا؟دسیوں ابہام اور اس کے پیچھے اتنے ہی سوالات اور جستجو والی باتیں اور صاحبان عزاء اور صاحبان معرفت کی طرف سے جوابات کا ایک سیلاب۔
۷ ذی الحجہ ۱۱۴ ہجری کو ۵۷ سال کی عمر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ظالم و جابربادشاہ ہشام ابن عبد الملک نے آپ کو زہر دلوایا اور اس زہر کےاثر سے آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دنیائے علم و دانش ہمیشہ کے لئے سوگوار ہوگئی۔اس آفتاب علم و ہدایت کو بھی ظالموں نےباقی رہنےنہ دیا۔شہادت سےپہلے امام جعفرصادق علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: میں آج کی رات اس دنیا سےکوچ کر جاوٴں گاکیونکہ میں نے اپنےپدر بزرگوار کو خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے شربت پیش کر رہےتھے جسے میں نےپیا ہے وہ مجھے زندگی جاویداوراپنے دیدار کی بشارت دےرہے تھے۔ دوسرےدن اس آفتاب علم و دانش کے دریائے بیکران کوجنت البقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کےپہلو میں دفن کر دیا لیکن وقت کے ظالم و جابر حکومتوں نے اس قبر مطہر پر سائباں بھی گوارہ نہ کیا۔
دن کی دھوپ اوررات کی شبنم میں یہ قبر مطہر آج بھی مطلومیت کی مجسم تصویر ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵۔
۲۔جلاء العیون ص ۲۵۹۔
۳۔ مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱
۴۔اعلام الوری ص ۱۵۶۔
۵۔ مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۔
۶۔ کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷۔
۷۔صواعق محرقہ ص ۱۲۰
۸۔ وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰ ۔
۹۔ تذکرۃالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱۔
۱۰۔ تاریخ اسلام۔
تحریر۔۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی