The Latest
مجلس وحدت مسلین کراچی کے رہنما مولانا صادق رضا تقوی ،محمد مہدی ،علامہ آفتاب جعفری اور آصف صفوی نے وحدت ہاوس کراچی سے جاری ہونے والے مذمتی بیان میں کہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان بلخصوص کوئٹہ میں شیعان حیدر کرار کی منظم نسل کشی نہ رکی تو عدلیہ اور حکمران نوجوان ملت کے غیض وغضب سے نہیں بچ سکیں گے۔ایڈیشنل سیشن جج بلوچستان ہائی کورٹ شہید سید ذوالفقار حسنین نقوی کی کوئٹہ میں امریکی نواز دہشت گردوں کے ہاتھوں بہیمانہ شہادت کی پرزور مذمت کرتے ہوئے رہنماوں کا کہنا تھا کہ ذوالفقار نقوی کا قتل دراصل عدل و انصاف کا قتل ہے ایڈیشنل سیشن جج بلوچستان ہائی کورٹ سید ذوالفقار نقوی ایک ایمان دار دین دار اور فرض شناس جج تھے اورانہوں نے عدل و انصاف کے دامن کو کبھی نہ چھوڑا ۔ رہنماوں کا کہنا تھا شہید ذوالفقار نقوی کا قتل آزاد عدلیہ پر ایک سوالیہ نشان ہے؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کہ جو خود کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے ہی شہر میں ہی موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف کوئی سوموٹو نوٹس کیوں نہیں لیتے ہم حکومت اور عدلیہ کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیئے گئے توجو نوجوان اب تک علماء کے احترام میں خاموش ہیں آگے چل کر ان نوجوانوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔اور تمام تر حالات کی ذمہ دار حکومت وقت اور عدلیہ ہوگ
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے لاہور میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے احباب وطن عزیز پاکستان کی روز بروز بگڑتی صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں، شیعان حیدر کرار پر آئے دن قاتلانہ حملے ٹارگٹ کلنگ روز مرہ کا معمول
بن چکا ہے، گزشتہ دنوں گلگت بلتستان سے لے کر کوئٹہ تک کوئی ایسا دن باقی نہیں کہ جس دن کسی نہ کسی شیعہ مسلمان کا خون اس سرزمین پر نہ بہا ہو، حکومت اور قانون نافذکرنے والے ادارے میڈیا اور اخبارات میں چند مذمتی جملے اور روایتی تسلیاں دے کر اگلے دن کے سانحے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کی بجائے نہتے پر امن اور محب وطن لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتوں تک نے آج تک کسی ایسے قاتل کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہمارے مطالبات پر کان دھرنے کی کوشش کی گئی، شیعہ قوم کو پاکستان میں منظم منصوبے کے تحت دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیشن جج کوئٹہ ذوالفقار نقوی کی شہادت عدل و انصاف کا گلہ کاٹنے کے مترادف ہے، جب عدلیہ کے افسران دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں تو عام آدمی کے تحفظ کی توقع نہیں کی جا سکتی اور آج کے واقعات جو کوئٹہ میں معصوم شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرنا اور ایک بھی دہشت گرد کا گرفتار نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان دہشت گردوں کی سر پرستی ضرور کوئی طاقت کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کے کردار کو ان واقعات نے مشکوک بنا دیا ہے، بلوچستان کی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہاں گورنر راج نافذ کر کے ان قاتلوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے نہیں تو تمام تر حالات کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومت کی ہو گی۔ علامہ اسدی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں طلباء گزشتہ کئی ہفتوں سے محصور ہیں اور وہاں غذائی قلت اور عوام ریاستی تشدد کا شکار ہیں لیکن ان کے مسائل کے حل کے لئے نہ تو وفاقی حکومت کوئی ایکشن لے رہی ہے نہ ہی وہاں کے نام نہاد صوبائی حکومت ان مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، گلگت بلتستان والوں کیساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہ کیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے ہاتھ حکومت وقت کے گریبان تک پہنچ جائیں۔
علامہ عبدالخالق اسد ی نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ بات بات پر سوموٹو ایکشن لے رہی ہے لیکن پاکستان میں دو ہزار سے زائد شیعہ مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے ذریعے شیعہ نسل کشی پر درخواست دائر کر رہے ہیں، اس کے بعد ہمیں اس بات کا بھی یقین ہو جائے گا کہ دنوں میں مقدمات نمٹانے والی عدلیہ شیعہ کلنگ کے دائر مقدمے پر کیا فیصلہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے توسط سے یہ مطالبات حکمرانوں، اعلی ٰ عدلیہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ کوئٹہ سمیت ملک بھر میں شیعہ نسل کشی پر سپریم کورٹ فوری سوموٹو ایکشن لے اور حکومت سمیت سیکورٹی اداروں سے ان واقعات پر فوری جواب طلب کرئے، گلگت بلتستان کے بگڑتے ہوئے حالات پر ہمیں شدید تشویش لاحق ہے وفاقی حکومت وہاں کے مسائل فور ی طور پر حل کرئے اور شاہراہ قراقرم کو افواج پاکستان کے حوالے کر کے لوگوں کے سفر کو محفوظ اور دہشت گردوں کے خلاف فوری فوجی آپریشن کا اعلان کرے ملک اسحاق کی گرفتاری کے بعد کل کالعدم تنظیم کے مظاہرے میں تکفیری نعرہ بازی کا وزیر اعلیٰ فوری نوٹس لیں ورنہ یہ گروہ دیگر صوبوں کی پنجاب کے امن کو بھی متاثر کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔
اسلام آباد ( پ ر ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کوئٹہ میں ایک ہی دن میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی تین وارداتوں میں نو افراد کی شہادت پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قتل و غارت اور خونریزی کی ان سنگین وارداتوں کی ذمہ دار حکومت بلوچستان ہے ، جو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا علم رکھنے کے باوجود ان کے خلاف اپریشن نہیں کرتی ، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز میں انہوں نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان کی حکومت کو علاقائی امن و امان سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی عملی کردار ادا نہیں کرتی ، اگر سانحہ القدس ریلی اور سانحہ مستونگ جیسے روح فرسا واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جاتاتو کسی بھی شرپسند کو تخریب کاری کی جرات نہ ہوتی ، بد قسمتی سے آج تک کسی قاتل کو بھی پکڑ کر تختہ دار تک نہیں پہنچایا گیا ۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ کوئٹہ میں ایک ہی روز ٹارگٹ کلنگ کی تین وارداتیں ہوئیں اور نو معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا لیکں حکمرانوں کے کانوںپر جوں تک نہیں رینگی، ان حالات میں حکومت اور حکومتی اداروں سے عوام کے تحفظ کی توقع رکھنا فضول ہے ، انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظرمیں قوم کو وحدت کی لڑی میں پرو کر متحد اور منظم کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ قوم کی اجتماعی طاقت کے ساتھ بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا جا سکے ۔
مرکزی آفس مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں جڑواں شہروں کی بارہ سے زائد طلبہ،ماتمی ،عزادار،اور سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا ایک اہم اجلاس ہوا اس اجلاس کا مقصد اتوار کے دن ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہونے والی احتجاجی ریلی اور پھر احتجاجی و تشہیراتی کیمپ لگایا جائے گا اس اہم اجلاس میں تمام شرکاء نے ملک بھر میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کی سخت الفاظ میں مذمت کی
اس اجلاس کی صدارت ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغرعسکری اور سیکرٹری اسلام آباد علامہ فخر علوی اور سیکرٹری روابط اقرار حسین کر رہے تھے
اجلاس میں اس بات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا کہ ریاست اور ریاستی ذمہ دار ادارے اس سلسلے میں جان بوجھ کر غفلت برت رہے ہیں
شرکاء اجلاس نے کہا کہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے سامرجی آلہ کار ملوث ہیں جو اس وقت ملکی اہم اداروں دفاعی لائن اور اہل تشیع کو ٹارگٹ کر رہے ہیں ۔
اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں جان بوجھ کر فرقہ واریت کرانے کی سازش ہو رہی ہے اسی لئے ٹارگٹ کلنگ کو جان بوجھ کر فرقہ و اریت کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔
شرکاء اجلاس میں کوئٹہ میں آج بس سے اتار کر شہید کئے جانے والے افراد کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی اور اس واقعے کی ذمہ داربلوچستان حکومت کو قراردیا
اجلاس میں امامیہ آرگنائزیشن ماتمی تنظیم خشبو آل عمران پنڈی انجمن بلتستان اسلام آباد انجمن دعاے زھرا ،کرم ویلفیر سوسایٹی ماتمی دستہ کاروان عباس
آئی ایس او راوالپنڈی یوتھ آف پاراچنار اور یوتھ آف پاکستان ودیگر شامل تھے
تہران میں غیر وابستہ تحریک کے اجلاس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ملاقات میں خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں رہبر مسلمین کا کہنا تھا کہ دہشتگردی غرب کی طرف سے اس خطے کے ممالک پر مسلط کیا گیا تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں جہاں بھی قدم رکھتی ہیں، ناامنی اور فساد بھی اپنے ساتھ لے جاتیں ہیں۔ حضرت آیت الله خامنه ای نے دہشتگردی سے مقابلے کیلئے اسلامی ممالک کی ہم آہنگی اور غیر وابستہ ممالک کی توانائیوں سے فائدہ اٹھانے کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بڑی طاقتوں کی زور گوئی اور انکی طرف سے مسلط کئے گئے مسائل و مشکلات سے مقابلے کیلئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انقلاب اسلامی ایران کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مومن، صمیمی اور متمدن عوام کے بارے میں ایرانیوں کی رائے اور احساسات بہت مثبت ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ امید ہے کہ انشاءاللہ خداوند تعالٰی کی مدد سے پاکستان پر مسلط کئے گئے مسائل بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے عوام کے تعلقات قریبی اور بہت گہرے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم ایران کے ساتھ اپنے روابط کو وسعت دینا چاہتے ہیں، وحدت اور استقامت کے بارے میں آپکے حکیمانہ خیالات کی ہم پوری طرح تائید کرتے ہیں۔ انھوں نے غیر وابستہ ممالک کی تحریک کی صدارت سنبھالنے پر ایران کو مبارک باد دی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری سے آج سرگودھا کے علمائے کرام کے وفد نے ملاقات کی
وفد سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عالمی سامراج کا ہدف ملک میں انارکی پھیلانا ہے تاکہ وہ اپنے مذموم اہداف کو حاصل کر سکے ،اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ بھی اسی سامراجی ایجنڈے کا ہی ایک حصہ ہے ہم تمام تر یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ اس ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے کوئی بھی دوسرا مسلمان مذہب نہیں بلکہ وہ افراد ہیں جو سامراج کے آلہ کار ہیں جو نہ صرف اہل تشیع کو بلکہ ملک کے انفراسٹریکچر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دہائیوں میں سامراج کے ان آلہ کاروں کی کوششیں یہ تھیں کہ پاکستان کی ملت جعفریہ کو دیوار سے لگادیا جائے اور تنہائی کا شکار کیا جائے وہ چاہتے تھے کہ ملکی اہم اداروں میں شیعہ دشمن مائنڈ سیٹ بنایا جائے لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی ۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ سامراج جانتا ہے کہ پاکستان کی اہم دفاعی لائن میں سے ایک یہاں کے مسلمانوں کی باہمی وحدت ہے اور اہل تشیع ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جان سے بڑھ کر قربانی دینے والے ہیں اس لئے وہ فرقہ واریت کا ناسور پھیلانا چاہتے تھے لیکن ملت جعفریہ کی بصیرت کی وجہ سے وہ ناکام ہوئے ۔
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ ہمارے اندر سلیقے اور طریقے کا اختلاف ہو لیکن یہ اختلاف باعث تفرقہ نہیں ہونا چاہیے ملت جعفریہ میں باہمی محبت اور دوستی کی ترویج انتہائی ضروری ہے اور ہر اس بات سے اجتناب واجب ہے جو ملت کو تقسیم کرے ۔
انہوں نے علمائے کرام کے ایک سوال کے جواب پر مزید کہا کہ ملکی سیاست میں ہمارا کردار انتہائی ضروری ہے اس لئے عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ،علمائے کرام ،ذاکرین اہلبیت ؑ ،شعرا طلبہ سب کو مل کر ملت کے سیاسی شعور کو اجاگر کرنا ہوگا ،انہوں نے کہا کہ ہم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ممکن ہے کہ سیاسی عمل میں ہمارا کسی سے اختلاف نظرہوگا لیکن ملک کی بہتری کے لئے ہم تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں
علمائے کرام کے وفد نے اپنے علاقے کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے موقف کو عوام اپنے دلوں کی ترجمانی سمجھتے ہیں اس لئے مجلس وحدت کو اپنا ہی پلیٹ فارم سمجھتے ہیں
وفد نے یکم جولائی کے پروگرام کو ایک بے مثال پروگرام سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملت جعفریہ کا ایک تاریخی اجتماع تھا جہاں ملت کے تمام طبقات موجود تھے
علامہ ناصر عباس جعفری نے یکم جولائی کو شہید قائد کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ قرآن و سنت کانفرنس میں شدید گرمی کے باوجود عوام عظیم شرکت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت مخلص باوفا عاشقان امام حسین ع کا اجتماع تھا جو امام حسین ع کے سچے پیروکار شہید قائد کی برسی میں آئے تھے یہی وجہ ہے کہ موسم کی حدت اور انتظامی کمی کے باوجود ثابت قدم رہے
سرگودھا سے آئے ہوئے اس وفد میں مولانا سید حسین شاہ ،مولاناسیداختر عباس،مولاناذکی خان ،مولانا سرفرازحسینی اور مولانا ملازم حسین شاہ صاحب موجود تھے
گلگت بلتستان کی حکومت سانحہ بابوسر کے بعد عوام کو کچھ ریلیف دینے کے بجائے عرصہ حیات تنگ کر رہی ہے زیل میں مقامی اخبارات کی خبروں کو ملاحضہ کیجیے
گارڈز کو ایس پی نے خود فائرنگ کر کے زخمی کر دیا، سید علی رضوی فائرنگ کے بعد ایس پی گاڑی بھگا کر لے گئے، گن مین کو سڑک پر تڑپتا دیکھ کر مظاہرین نے انہیں ہسپتال پہنچایا
گرفتاریاں پولیس کی بدنیتی تھی، آئندہ کسی کو گرفتار کیا گیا تو بھرپور جواب دیں گے، ذمہ دار پولیس اور انتظامیہ ہو گی
سکردو (کے ٹواخبار) سیاسی سماجی شخصیت سید علی رضوی نے کہا ہے کہ میری اور طلبہ کی گرفتاریاں پولیس کی بدنیتی تھی، آئندہ کوئی گرفتاری نہیں ہو گی، اگر گرفتاریاں کی گئیں تو ہم بھرپور جواب دیں گے، حالات جو بھی رخ اختیار کریں گے ذمہ دار پولیس اور انتظامیہ ہو گی، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس پی حنیف نے خود فائرنگ کر کے اپنے گارڈ گلزار حسین اور ابرار حسین کو شدید زخمی کر دیا، فائرنگ کے بعد حنیف اللہ گاڑی بھگا لے گئے، مظاہرین زخمی گن مینوں کو سڑک پر تڑپتا دیکھ کر ہسپتال لے گئے، انہوں نے کہا کہ سکردو شہر میں ہنگامے حکومت کی بے وقوفی کے باعث پھوٹ پڑے، وہ کمشنر اور ایس پی کے ذریعے سکردو کی پرامن فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں، پہلے بھی فسادات کرائے گئے، آئندہ بھی وہ امن نہیں چاہتے ہیں۔ گلگت میں پھنسے طلباء کا ڈی سی آفس سے وزیراعلیٰ ہائوس تک مارچ، شدید احتجاج طلباء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر سی 130 طیارے چلانے کا مطالبہ درج تھا
وزیرداخلہ نے وعدہ کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے C-130 طیارے چلائے جائیں گے لیکن وعدہ ایفا نہیں ہوا، طلباء
گلگت (فرمان کریم، ڈسٹرکٹ رپورٹر) گلگت میں پھنسے ہوئے طلباء نے دوسرے روز بھی احتجاج کیا، طلباء نے ڈی سی آفس سے احتجاجی ریلی کی شکل میں مارچ کیا جو ہیلی چوک سے ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ ہائوس پہنچے وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر سینکڑوں طلباء نے احتجاج کیا، اس موقع پر طلباء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر سی ون تھرٹی طیارے چلانے کا مطالبہ درج تھا۔ طلباء طلعت فدا، مدثر، نیئر عباس، فرحان، سہیل اور وسیم نے کے پی این کو بتایا کہ اس وقت پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیرتعلیم سینکڑوں طلباء گلگت میں پھنسے ہوئے ہیں جن کو اپنے تعلیمی اداروں میں پہنچنے کے لیے حکومت کی طرف سے کسی ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں ہے، شاہراہ قراقرم پر سفر کرنا غیر محفوظ ہے، وزیرداخلہ رحمن ملک نے وعدہ کیا تھا کہ ان پھنسے ہوئے طلباء و طالبات کے لیے سی ون تھرٹی طیارے چلائے جائیں گے لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا، ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث طلباء و طالبات کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے، یونیورسٹیوں اور کالجوں کو کھلے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، اب تک وہ اپنے تعلیمی اداروں میں نہیں پہنچ سکے ہیں، انہوں نے کہا کہ کل تک سے وزیراعلیٰ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ ان کے فون اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کرتے، انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پھنسے ہوئے طلباء و طالبات اپنے تعلیمی اداروں میں پہنچ کر اپنے تدریسی عمل کو شروع کر سکیں، انہوںنے صوبائی حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا تو وہ پھر سڑکوں پر نکل کر جلائو گھیرائو شروع کر دیں گے۔ انتظامیہ اور پی آئی اے والے اپنے عزیز اور رشتہ داروں کو فلائٹ پر بھیج دیتے ہیں لیکن طلباء و طالبات کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ امن تباہ کرنے کی سازش کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے، علماء ،بلتستان میں ہنگاموں کی ذمہ دار حکومت ہے، آغا مظاہر اور باقر حسین کا جلسے سے خطاب
سکردو (سپیشل رپورٹر) ممتاز عالم دین آغا سید مظاہر حسین الموسوی اور سید باقر حسین الحسینی نے کہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر بلتستان میں فسادات کرانا چاہتی ہے، سکردو میں 1947ء سے اب تک کسی عالم دین کو گرفتار نہیں کیا گیا مگر موجودہ حکومت نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے اور علماء طلبہ کو گرفتار کر کے بدترین مثالیں قائم کر لیں، امامیہ چوک اور یادگار شہداء پر احتجاجی جلوسوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم امن کے داعی ہیں، کبھی امن کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا، اس سے بڑی خوش قسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ بلتستان میں تمام مسالک کے لوگ صدیوں سے بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں مگر بعض قوتیں ہمارے درمیان تفرقہ ڈالنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ جو لوگ بلتستان کے امن کو تباہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں، انہیں ہر گز معاف نہیں کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ بلتستان میں گزشتہ دو ماہ سے مسلسل ہنگامے ہو رہے ہیں جس کی ذمہ دار حکومت ہے۔
ہماری پولیس دہشت گردوں کے سامنے بلی اور شہریوں کے لیے شیر ہے، منظور پروانہ
سکردو ایئرپورٹ پر پھنسے طلباء، سیاحوں اور عام مسافروں پر تشدد قابل مذمت ہے
پولیس فورس ظلم ڈھانے میں حکمرانوں کا ساتھ نہ دے، یونائیٹڈ موومنٹ کے سربراہ کا ردعمل
سکردو (پ ر) چیئرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ منظور پروانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سکردو ایئرپورٹ پر پھنسے ہوئے طلباء غیر ملکی سیاح اور عام مسافروں کی طرف سے نکالی گئی پر امن احتجاجی ریلی پر پولیس کی پر تشدد کارروائی قابل مذمت ہے۔ حکومت شاہراہ قراقرم پر مسافروں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے اور ہوائی سروس کے ذریعے گلگت بلتستان میں پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کو نکالنے کے بجائے مسافروں کے پرامن احتجاج کو طاقت کے زور پر دبانے کی حکمت عملی میں مصروف ہے۔ ان خیالات کا اظہار یونائیٹڈ موومنٹ کے سربراہ منظور پروانہ نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف پولیس کے سامنے ان کے ساتھی کو دہشت گرد قتل کرتے ہیں تو پولیس دم دبا کر بھاگ جاتی ہے لیکن دوسری طرف پولیس پرامن شہریوں کے سامنے شیر بنی ہوئی ہے، حکومت گلگت بلتستان میں پولیس فورس کو اپنی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا غیر اخلاقی ہتھکنڈا ترک کرے اور پولیس فورس عوام پر ظلم ڈھانے میں حکمران جماعت کا ساتھ نہ دیں تاکہ معاشرے میں پولیس کا وقار برقرار رہے اور لوگوں میں پولیس کے خلاف منفی جذبات نہ ابھریں۔ گزشتہ تین دنوں سے سکردو ایئرپورٹ ایریا میدان جنگ بنا ہوا ہے، جہاں ایک طرف طلباء اپنی کتاب اور قلم لے کر اڑان بھرنے کے لیے تیار ہیں تو دوسری طرف پولیس بندوق اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں امن کی بات بیگانے کا خواب لگتا ہے اور حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔
ہزار گنجی کوئٹہ میں بے گناہ افراد کے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل عام کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے زیر اہتمام آج ایک احتجاجی دھرنا لیاقت پارک کے سامنے دیا گیا۔ صبح شروع ہونے والا دھرنا شام پانچ بجے تک جاری رہا۔ اس موقع پر دھرنے میں شریک افراد میں اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ علامہ سید ہاشم موسوی نے دھرنے کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ اس دہشت گرد حملہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، حکومت نے دہشت گردوں کو بے گناہ ہزارہ مومنین اور ملت جعفریہ کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے آ ئے دن دہشت گرد ہزارہ مومنین کو قتل کرکے فرار ہو جاتے ہیں اور حکومت دہشت گردوں کے بارے مکمل معلومات ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بے گناہ ہزارہ قوم اور کوئٹہ میں آباد ملت تشیع کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو اپنے کاروبار کیلئے آتے جاتے جگہ جگہ بلاوجہ تنگ کرتی ہے، جس کی وجہ سے ملت تشیع یہ محسوس کرنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت خود دہشت گردوں کی پشت پناہی میں ملوث ہے۔ دھرنے کے شرکاء نے انتظامیہ، صوبائی حکومت، آئی جی پولیس اور دہشت گردوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی، اور روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کئے رکھا، دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف ہزارہ ٹراییب سردار سعادت علی ہزارہ نے کہا کہ صوبائی حکومت مسلسل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جس کی وجہ ہزارہ قوم کو شدید تشویش لاحق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کا بلند حوصلہ اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ جاری رکھیں گے۔ ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہماری قوم میں اتنی ہمت ہے کہ اپنا دفاع خود کرے لیکن ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے۔ انہوں نے ہزارہ قوم کے جوانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔ دھرنے سے علامہ جمعہ اسدی، علامہ کاظم اور محمد یونس بھی خطاب کیا۔ مقررین نے حکومت کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ آئے دن دہشت گرد ہزارہ قوم اور ملت جعفریہ کو نشانہ بناتے ہیں لیکن حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے حرکت میں نہیں آتی۔ مقررین نے دہشت گردوں کو اسلام دشمن شیطان پرستوں کا آلہ کار قرار دیتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔
آخر میں شرکاء سردار سعادت علی ہزارہ و دیگر اکابرین کی اپیل پر دھرنا ختم کرتے ہوئے جلوس کی شکل میں علمدار روڈ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شرکاء نے جلوس کے دوران صوبائی حکومت، انتظامیہ اور دہشت گردوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے آئی جی پولیس کے دفتر کے سامنے بھی علامتی دھرنا دیا۔
مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی آفس سے جاری بیان میں سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی نے کوئٹہ ٹارگٹ کلنگ اور گلگت بلتستان انتظامیہ کی طلباء پر تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں شیعہ نسل کشی جاری ہے اور آج عدلیہ پر بھی وار کرکے سیشن جج کو شہید کیا گیا، ان کا قصور فقط شیعہ ہونا تھا، ملک میں مٹھی بھر دہشت گردوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت، عدلیہ سمیت سکیورٹی اداروں کی خاموشی ایک بھیانک اور تباہ کن دور کی نشان دہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی استحکام کے مسئلے پر ریاست کے چاروں ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ہم سکردو میں گرفتار طلباء کو فوری رہا کرنے اور ان کے مطالبات من و عن ماننے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء اور طلباء پر ریاستی تشدد آمریت کی بدترین مثال ہے۔
علامہ اسدی نے کہا کہ راستوں میں دہشتگردوں کی بربریت اور علاقے میں حکومتی اداروں کا تشدد خطے میں غزہ جیسے حالات پیدا کر رہے ہیں، یہ سب ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، ملک میں شیعہ قوم کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب عوام کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبان میں ہونگے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ میں شہید جج ذوالفقار علی نقوی کے قتل کی جوڈیشنل انکوائری کی جائے اور گلگت بلتستان میں محصور طلباء کو فی الفور خصوصی پروازوں کا انتظام کرکے ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
بسم اللّه الرّحمن الرّحيم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی الرسول الاعظم الامین و علی الہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین و علی جمیع الانبیاء و المرسلین
آپ معزز مہمانوں کو، ناوابستہ تحریک کے ملکوں کے سربراہوں، نمائندہ وفود اور اس عالمی اجلاس کے دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
ہم یہاں اس مقصد سے جمع ہوئے ہیں کہ پروردگار کی نصرت و ہدایت سے اس مہم اور تحریک کو، کہ چھے عشرے قبل چند دلسوز اور فرض شناس سیاسی رہنماؤں کی دانشمندی، حالات کے ادراک اور بیباکی کے نتیجے میں جس کی داغ بیل پڑی تھی، دنیا کے عصری تقاضوں اور حالات کے مطابق آگے بڑھائيں، بلکہ اس میں نئی جان ڈالیں اور ایک نئی حرکت پیدا کریں۔
جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک کے علاقوں سے ہمارے مہمان یہاں تشریف لائے ہیں جن کا تعلق گوناگوں قومیتوں اور نسلوں سے ہے اور جو مختلف اعتقادی، ثقافتی، تاریخی اور وراثتی پس منظر کے حامل ہیں، لیکن جیسا کہ اس تحریک کے بانیوں میں سے ایک، احمد سوکارنو نے سنہ 1955 کے معروف بانڈونگ اجلاس میں کہا تھا، ناوابستہ (تحریک) کی تشکیل کی بنیاد جغرافیائی، نسلی اور دینی مماثلت نہیں بلکہ ضرورتوں کی یکسانیت ہے۔ اس وقت غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کو ایسے باہمی رابطے کی احتیاج تھی جو انہیں جاہ طلب، استکباری اور کبھی سیر نہ ہونے والے نیٹ ورکوں کے تسلط سے محفوظ رکھے، تسلط پسندی کے وسائل کی پیشرفت اور وسعت کے بعد آج بھی یہ ضرورت بدستور موجود ہے۔
میں ایک اور حقیقت پیش کرنا چاہتا ہوں؛
اسلام نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ نسلی، لسانی اور ثقافتی عدم مماثلت کے باوجود انسانوں کے اندر یکساں سرشت موجود ہے جو انہیں پاکیزگی، مساوات، نیکوکاری، ہمدردی اور امداد باہمی کی دعوت دیتی ہے اور یہی عمومی سرشت ہے جو گمراہ کن جذبات سے بحفاظت گزر جانے کی صورت میں انسانوں کو توحید اور ذات اقدس الہی کی معرفت کی سمت لے جاتی ہے۔
اس درخشاں حقیقت میں ایسی بے پناہ صلاحیت ہے کہ وہ آزاد، سربلند اور بیک وقت ترقی اور مساوات سے آراستہ معاشروں کی تشکیل کی بنیاد اور پشت پناہ بن سکتی ہے، انسانوں کی جملہ مادی و دنیاوی سرگرمیوں کو روحانیت کی ضیاء عطا کر سکتی اور اخروی جنت سے قبل جس کا وعدہ ادیان الہیہ نے کیا ہے دنیاوی جنت تعمیر کر سکتی ہے۔ یہی عمومی اور مشترکہ حقیقت ہے جو ان اقوام کے برادرانہ تعاون کی اساس قرار پا سکتی ہے جو ظاہری شکل و شمائل، ماضی کی تاریخ اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے آپس میں کوئی مشابہت نہیں رکھتیں۔
جب اس قسم کی اساس پر عالمی تعاون استوار ہوگا تو حکومتیں خوف و خطر، توسیع پسندی اور یکطرفہ مفادات کی بنیاد پر نہیں اور ضمیر فروش اور خائن افراد کے توسط سے نہیں بلکہ صحتمند مشترکہ مفادات کی بنیاد پر اور اس سے بھی بالاتر انسانیت کے مفادات کے تناظر میں باہمی روابط قائم کریں گی اور اپنے بیدار ضمیروں اور اپنی قوموں کے دلوں کو ہر تشویش سے نجات دلا سکتی ہیں۔
یہ مطلوبہ نظام اس تسلط پسندانہ نظام کے عین مقابل نقطے پر ہے کہ حالیہ صدیوں کے دوران توسیع پسند مغربی حکومتیں اور آج امریکا کی جارح اور استبدادی حکومت جس کی علمبردار، مبلّغ اور دعویدار ہے۔
مہمانان عزیز!
چھے عشرے بیت جانے کے بعد بھی تاحال ناوابستہ تحریک کے اصلی اہداف بدستور زندہ اور قائم ہیں۔؛ استعمار کی نابودی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خود مختاری، طاقت کے بلاکوں سے عدم وابستگی اور رکن ممالک کے درمیان آپسی وابستگی اور تعاون کے ارتقاء کے اہداف۔ دنیا کے عصری حقائق اور ان اہداف میں فاصلہ بہت زیادہ ہے لیکن ان حقائق سے گزرتے ہوئے اہداف تک رسائی حاصل کرنے کا اجتماعی ارادہ اور ہمہ گیر سعی و کوشش پرخطر لیکن امید افزاء اور ثمر بخش ہے۔
ماضی قریب میں ہم سرد جنگ کے دور کی پالیسیوں اور اس کے بعد یکطرفہ طرز عمل کی شکست کے شاہد رہے ہیں۔ دنیا اس تاریخی تجربے سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی نطام کی جانب حرکت کر رہی ہے اور ناوابستہ تحریک ( ان حالات میں) ایک نیا کردار ادا کر سکتی ہے اور اسے ایسا ضرور کرنا چاہئے۔ یہ (نیا) نظام عمومی شراکت اور قوموں کے مساوی حقوق کی بنیاد پر تشکیل دیا جانا چاہئے اور اس جدید نظام کی تشکیل کے لئے ہم تحریک کے رکن ممالک کی یکجہتی نمایاں عصری تقاضوں میں سے ایک ہے۔
خوش قسمتی سے عالمی تغیرات کا افق ایک چند قطبی نظام کی خوش خبری دے رہا ہے جس میں طاقت کے روایتی محوروں کی جگہ، گوناگوں اقتصادی، سماجی اور سیاسی سرچشموں سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک، ثقافتوں اور تہذیبوں کا ایک مجموعہ لے رہا ہے۔ یہ حیرت انگیز تبدیلیاں جن کا ہم حالیہ تین عشروں کے دوران مشاہدہ کرتے رہے ہیں، واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہیں کہ نئی طاقتوں کا طلوع قدیمی طاقتوں کے زوال کے ہمراہ رہا ہے۔ اقتدار کی یہ منتقلی ناوابستہ ممالک کو یہ موقعہ مہیا کراتی ہے کہ عالمی میدان میں موثر اور مناسب کردار ادا کریں اور روئے زمین پر منصفانہ اور حقیقی معنی میں شراکتی انتظامی سسٹم کی زمین ہموار کریں۔ ہم ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک نظریات اور رجحانات کے اختلاف کے باوجود مشترکہ اہداف کے تناظر میں ایک طویل مدت تک اپنی یکجہتی اور باہمی رابطے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ کوئی معمولی اور چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ یہ رابطہ منصفانہ اور انسان دوستانہ نظام کی اساس قرار پا سکتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات ناوابستہ تحریک کے لئے شاید دوبارہ ہاتھ نہ آنے والا موقعہ ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا کے کنٹرول روم کا اختیار مٹھی بھر مغربی ممالک کی آمریت کے چنگل میں نہیں ہونا چاہئے۔ بین الاقوامی انتظامی امور کے میدان میں ایک عالمی جمہوری شراکت ایجاد کرنے اور اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ان تمام ممالک کی احتیاج ہے جو چند استبدادی اور تسلط پسند ممالک کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلتوں سے نقصان اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساخت اور اس کا اسلوب عمل غیر منطقی، غیر منصفانہ اور سراسر غیر جمہوری ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی ڈکٹیٹرشپ، دقیانوسی، منسوخ شدہ اور خارج المیعاد سسٹم ہے۔ اسی غلط اسلوب عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا اور اس کے ہمنوا، شریفانہ مفاہیم کے لباس میں اپنا استبداد دنیا پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی لیکن ان کی مراد مغربی مفادات ہوتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں ڈیموکریسی کی لیکن اس کی جگہ مختلف ملکوں میں اپنی فوجی مداخلت کی بنیاد رکھتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اور شہروں اور قریوں میں آباد نہتے عوام کو اپنے بموں اور ہتھیاروں کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔ ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق بشریت پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں میں تقسیم ہے۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے انسانوں کی جانیں بے قیمت اور امریکا و مغربی یورپ میں (بسنے والے انسانوں کی جانیں) بہت قیمتی قرار دی جاتی ہیں۔ امریکا اور یورپ کی سلامتی بہت اہم جبکہ بقیہ انسانوں کی سیکورٹی بے وقعت سمجھی جاتی ہے۔ ایذا رسانی اور قتل اگر کسی امریکی، صیہونی یا ان کے گماشتہ افراد کے ہاتھوں انجام پائے تو جائز اور قابل چشم پوشی ہے۔ ان کی خفیہ جیلیں جو مختلف بر اعظموں میں بے سہارا، وکیل کی سہولت سے محروم اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قیدیوں سے مذموم ترین اور نفرت انگیز ترین سلوک کی گواہ ہیں ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاتیں۔ اچھے اور برے کی تعریف پوری طرح یکطرفہ اور امتیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مفادات کو بین الاقوامی قوانین کا نام دیکر اور اپنی غیر قانونی اور تحکمانہ باتوں کو عالمی برادری (کے مطالبے) کا نام دیکر قوموں پر مسلط کر دیتی ہیں۔ اپنی اجارہ داری والے منظم میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے وہ اپنے جھوٹ کو سچ، باطل کو حق اور ظلم کو انصاف پسندی بناکر پیش کرتی ہیں اور ہر اس سچائی کو جو ان کے فریب کو برملا کرتی ہو جھوٹ اور ہر برحق مطالبے کو بغاوت کا نام دے دیتی ہیں۔
دوستو! یہ ناقص اور زیاں بار صورت حال جاری رہنے کے قابل نہیں ہے۔ اس غلط عالمی سسٹم سے سب تھک چکے ہیں۔ امریکا میں دولت و اقتدار کے مراکز کے خلاف ننانوے فیصدی عوام کی تحریک اور یورپی ممالک میں عوام کا اپنی حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں پر ہمہ گیر اعتراض بھی اس صورت حال سے قوموں کا پیمانہ صبر لبریز ہو جانے کی علامت ہے۔ اس غیر منطقی صورت حال کا کوئی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا ہمہ جہتی، منطقی اور مستحکم رابطہ راہ حل کی تلاش میں بہت موثر واقع ہو سکتا ہے۔
محترم حاضرین!
بین الاقوامی امن و آشتی عصر حاضر کی انتہائی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے اور عام تباہی کے خطرناک ہتھیاروں کی نابودی ایک فوری ضرورت اور عمومی مطالبہ ہے۔ آج کی دنیا میں سیکورٹی ایک عمومی اور غیر امتیازی احتیاج ہے۔ جو لوگ اپنے اسلحہ خانوں کو انسانیت مخالف ہتھیاروں سے بھر رہے ہیں، خود کو امن عالم کا علمبردار قرار دینے کا حق نہیں رکھتے۔ بلا شبہ یہ (ہتھیار) خود ان کو بھی امن و سلامتی فراہم نہیں کر سکتے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ نیوکلیائی ہتھیار رکھنے والے ممالک اپنے فوجی نظام سے ان مہلک وسائل کو ختم کرنے کا حقیقی اور سنجیدہ ارادہ نہیں رکھتے بلکہ انہیں بدستور خطرات کے سد باب کا ذریعہ اور اپنی سیاسی و عالمی ساکھ کا ایک اہم معیار مانتے ہیں۔ یہ تصور بالکل غلط اور ناقابل قبول ہے۔
جوہری ہتھیار سے نہ سیکورٹی حاصل ہوتی ہے اور نہ سیاسی قوت بڑھتی ہے بلکہ یہ (ہتھیار) ان دونوں چیزوں کے لئے خطرناک ہے۔ سنہ انیس سے نوے کے عشرے کے واقعات سے ثابت ہو گیا کہ ان ہتھیاروں کی موجودگی سابق سوویت یونین جیسی حکومت کو بھی بچا نہیں سکتی۔ آج بھی ہم ایسے ملکوں کو جانتے ہیں جو ایٹم بم کے مالک ہونے کے باوجود بد امنی کی زد میں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نیوکلیائی، کیمیائی اور اسی طرح کے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ناقابل معافی اور عظیم گناہ سمجھتا ہے۔ ہم نے جوہری ہتھیار سے پاک مشرق وسطی کا نعرہ بلند کیا ہے اور اس کی پابندی بھی کر رہے ہیں۔ (لیکن) یہ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال اور ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے حق سے دست بردار ہو جانے کے معنی میں ہرگز نہیں ہے۔ عالمی قوانین کی رو سے اس توانائی کا پرامن استعمال تمام ممالک کا حق ہے۔ سب کو اپنے ملک اور اپنی قوم کی مختلف حیاتی ضرورتوں کے تحت اس صاف ستھری انرجی کے استعمال کا موقعہ ملنا چاہئے اور اس حق کا حصول دوسروں پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ چند مغربی ممالک جن کے پاس نیوکلیائی ہتھیار ہیں اور جو اس غیر قانونی عمل کے مرتکب ہوئے ہیں جوہری ایندھن کی پیداوار پر بھی اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ مشکوک اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں کہ ایٹمی ایندھن کی پیداوار اور فروخت پر کچھ مراکز کی دائمی اجارہ داری قائم ہو جائے جن کے نام تو بین الاقوامی ہوں لیکن در حقیقت وہ چند مغربی ممالک کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہوں۔
ہمارے اس زمانے کا طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکا جس کے پاس سب سے زیادہ مقدار میں انتہائی مہلک ایٹمی ہتھیار اور عام تباہی کے دیگر اسلحے ہیں اور ان کا استعمال کرنے والا جو واحد ملک ہے، آج ایٹمی عدم پھیلاؤ کا علم بردار بننا چاہتا ہے! انہوں نے اور ان کے مغربی ہمنواؤں نے غاصب صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرکے اسے اس حساس علاقے کے لئے بہت بڑے خطرے میں تبدیل کر دیا ہے لیکن عیاروں کی یہی جماعت خود مختار ممالک کو جوہری توانائی کا پرامن استعمال کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہاں تک کہ نیوکلیائی دواؤں اور دیگر پرامن انسانی مقاصد کے تحت ایٹمی ایندھن کی تعمیر کے سد راہ بننے کے لئے اپنی پوری توانائی استعمال کر رہی ہے۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کی تعمیر پر تشویش تو ان کا جھوٹا بہانہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں انہیں خود بھی معلوم ہے کہ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں! لیکن جب سیاست میں روحانیت کی کوئی رمق باقی نہ رہ جائے تو وہ جھوٹ کو جائز قرار دے دیتی ہے۔ اکیسویں صدی میں جو ایٹمی دھمکی دے اور اس پر اسے شرم بھی نہ آئے کیا وہ دروغ گوئی سے پرہیز یا اس پر شرم کرے گا؟!
میں تاکید کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش میں نہیں ہے۔ ساتھ ہی پر امن مقاصد کے تحت جوہری توانائی کے استعمال کے حق سے ہرگز چشم پوشی بھی نہیں کرے گی۔ ہمارا نعرہ ہے؛ "جوہری توانائی سب کے لئے، ایٹمی ہتھیار کسی کے لئے نہیں"۔ ہم ان دونوں باتوں پر اصرار کرتے رہیں گے۔ ہمیں علم ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تناظر میں ایٹمی ایندھن کی پیداوار پر چند مغربی ممالک کی اجارہ داری کا خاتمہ تمام خود مختار ممالک منجملہ ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے مفاد میں ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ اور زبردستی کے سامنے کامیاب استقامت کے تین عشروں کے تجربے سے اسلامی جمہوریہ اس حتمی یقین پرپہنچ چکی ہے کہ ایک متحد اور عزم محکم رکھنے والی قوم کی استقامت تمام مخاصمتوں اور دشمنیوں پر غلبہ پانے اور اعلی اہداف کی جانب لے جانے والا پرافتخار راستہ تعمیر کرنے پر قادر ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں ہمارے ملک کی ہمہ جہتی ترقیاں ایک ایسی حقیقت ہے جو سب کی نظروں کے سامنے ہے اور اس پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی رسمی اداروں نے بار بار اس کا اعتراف کیا ہے۔ یہ سب کچھ پابندیوں، اقتصادی دباؤ اور امریکا و صیہونزم سے وابستہ چینلوں کی زہر افشانیوں کے عالم میں حاصل ہوا ہے۔ پابندیاں، جنہیں کچھ مہمل باتیں کرنے والے، کمر شکن قرار دے رہے تھے، نہ صرف یہ کہ کمر شکن ثابت نہیں ہوئیں اور نہ آئندہ ہوں گی بلکہ ان کی وجہ سے ہمارے قدم مزید مستحکم، ہماری ہمتیں اور بھی بلند ہوئیں اور اپنے تجزیوں کی درستگی اور اپنی قوم کی داخلی توانائی پر ہمارا اطمینان و بھروسہ اور بھی پختہ ہو گیا۔ ہم نے ان چیلنجوں کا سامنا کرتے وقت نصرت الہی کا منظر بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
مہمانان گرامی!
میں یہاں ایک انتہائی اہم مسئلے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ اس کا تعلق ہمارے علاقے سے ہے لیکن اس کے وسیع پہلوؤں کا دائرہ علاقے سے باہر تک پھیل گیا ہے اور اس نے کئی عشروں سے عالمی سیاست کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ فلسطین کا دردناک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آزاد اور واضح تاریخی شناخت رکھنے والا فلسطین نامی ملک بیسویں صدی کی چالیس کی دہائی میں برطانیہ کی سرکردگی میں وحشت ناک مغربی سازش کے تحت طاقت، اسلحہ، قتل عام اور فریب و عیاری کے ذریعے اس کی (مالک) قوم سے ہڑپ کر ایک ایسی جماعت کو سونپ دیا گیا جس کی اکثریت کو یورپی ممالک سے ہجرت کرواکے لایا گيا تھا۔ یہ سنگین غاصبانہ کارروائی جو شہروں اور قریوں میں نہتے عوام کے قتل عام، ان کے گھربار سے ہمسایہ ممالک کی جانب ان کی جبری نقلی مکانی کے ساتھ انجام پائی، چھے عشروں سے زیادہ کی اس مدت میں انہی مجرمانہ اقدامات کے ساتھ بدستور جاری ہے۔ یہ انسانی معاشرے کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی و فوجی قائدین نے اس عرصے میں کسی بھی جرم کے ارتکاب سے دریغ نہیں کیا ہے؛ انسانوں کے قتل عام، ان کے گھروں اور کھیتوں کی تباہی، مردوں، عورتوں حتی بچوں کی گرفتاری اور انہیں دی جانے والی ایذاؤں سے لیکر اس قوم کی توہین اور تحقیر، صیہونی حکومت کے حرام خوری کے عادی معدے میں اسے نابود کر دینے کی کوششوں اور فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں ان کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملوں تک جن میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں، (کسی بھی مجرمانہ کارروائی سے انہوں نے دریغ نہیں کیا)۔ صبرا، شتیلا، قانا، دیر یاسین وغیرہ کے نام ہمارے علاقے کی تاریخ میں مظلوم فلسطینی عوام کے خون سے لکھے گئے ہیں۔ آج 65 سال بعد مقبوضہ علاقوں میں باقی رہ جانے والوں کے خلاف ان صیہونی درندوں کی یہی مجرمانہ کارروائیاں اب بھی انجام پا رہی ہیں۔ وہ پے در پے نئے نئے جرائم انجام دے رہے ہیں اور علاقے کو ایک نئے بحران سے دوچار کر رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ان نوجوانوں کے قتل ہونے، زخمی ہونے اور گرفتار کر لئے جانے کی خبریں نہ آتی ہوں جو دفاعی وطن میں اور اپنے وقار کی بازیابی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں اور کھیتوں کی نابودی پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ صیہونی حکومت جس نے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکا کر، انسانوں کا قتل عام کرکے، عرب علاقوں کو ہڑپ کر اور علاقائی و عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کرکے دسیوں سال سے قتل و جنگ اور شرپسندی کی آگ بھڑکا رکھی ہے، فلسطینی قوم کو جس نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے قیام کیا ہے اور جدوجہد کر رہی ہے، دہشت گرد قرار دیتی ہے اور صیہونزم سے تعلق رکھنے والے چینل اور بہت سے بکے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ بھی اپنی اخلاقی ذمہ داریوں اور میڈیا کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اس کذب محض کو دہراتے ہیں۔ انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاسی رہنما بھی ان تمام جرائم پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور کسی بھی شرم و حیا کا احساس کئے بغیر، المئے رقم کرنے والی اس حکومت کے حامی بنے ہیں اور اس کے وکیل اور محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کی ملکیت ہے اور اس پر غاصبانہ قبضے کا تسلسل بہت بڑا اور ناقبل برداشت ظلم اور عالمی امن و سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مغرب والوں اور ان سے وابستہ لوگوں نے جتنی بھی تجاویز پیش کی ہیں سب غلط اور ناکام ثابت ہوئی ہیں اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔ ہم نے بہت منصفانہ اور مکمل جمہوری راہ حل پیش کیا ہے کہ تمام فلسطینی خواہ وہاں کے موجودہ باشندے ہوں یا وہ افراد جنہیں دوسرے ملکوں کی جانب جبرا ہجرت کروا دی گئی اور جنہوں نے اب تک اپنی فلسطینی شناخت قائم رکھی ہے، وہ مسلمان ہوں، یہودی ہوں یا عیسائی، سب دقیق نگرانی میں انجام پانے والے اطمینان بخش استصواب رائے میں شرکت کریں اور اس ملک کے سیاسی نظام کے ڈھانچے کا انتخاب کریں، تمام فلسطینی جو برسوں سے بے وطنی کا دکھ جھیل رہے ہیں اپنے وطن لوٹیں اور اس ریفرنڈم اور اس کے بعد آئین کی تدوین اور انتخابات میں حصہ لیں۔ اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
یہاں میں امریکی سیاست دانوں کو، جو تا حال ہمیشہ صیہونی حکومت کے محافظ اور پشت پناہ کی حیثیت سے میدان میں حاضر رہے ہیں، ایک خیر خواہانہ نصیحت کرنا چاہوں گا۔ اس حکومت نے اب تک آپ کے لئے بے شمار درد سر کھڑے کئے ہیں، علاقے کی قوموں کے اندر آپ کو نفرت انگیز اور آپ کو ان کی نگاہوں میں غاصب صیہونیوں کا شریک جرم بنا کر پیش کیا ہے۔ ان برسوں کے دوران اس راستے پر چلنے کی وجہ سے امریکی حکومت اور عوام کو جو مادی اور اخلاقی خسارہ اٹھانا پڑا ہے وہ سرسام آور ہے اور شاید اگر مستقبل میں بھی یہی روش جاری رہی تو آپ کو اور بھی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ آئيے! ریفرنڈم کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کی تجویز پر غور کیجئے اور شجاعانہ فیصلے کے ذریعے خود کو کبھی نہ حل ہونے والی اس گتھی سے نجات دلائيے! یقینا علاقے کے عوام اور روئے زمین کے تمام آزاد فکر انسان اس اقدام کا خیر مقدم کریں گے۔
مہمانان محترم!
میں ایک بار پھر اپنی شروعاتی گفتگو کی جانب پلٹنا چاہوں گا۔ دنیا کے حالات بہت حساس ہیں اور دنیا بڑے اہم اور تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے۔ امید ہے کہ ایک نیا نظام جنم لے رہا ہے۔ ناوابستہ تحریک میں عالمی برادری کے دو تہائی سے زیادہ ارکان شامل ہیں جو مستقبل کے خدو خال طے کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تہران میں اس عظیم اجلاس کا انعقاد خود بھی بہت بامعنی واقعہ ہے جسے اندازوں اور تخمینوں میں مد نظر رکھنا چاہئے۔ ہم اس تحریک کے ارکان اپنی وسیع صلاحیتوں اور امکانات کے باہمی فروغ کے ذریعے دنیا کو بدامنی، جنگ اور تسلط پسندی سے نجات دلانے کے سلسلے میں یادگار اور تاریخی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ ہدف آپس میں ہمارے ہمہ جہتی تعاون سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ہمارے درمیان انتہائی دولت مند ممالک اور گہرا عالمی اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کی تعداد کم نہیں ہے۔ اقتصادی اور میڈیا کے میدان میں تعاون اور آگے لے جانے اور بلندیوں پر پہنچانے والے تجربات کے تبادلے کی صورت میں مشکلات کا حل یقینی طور پر ممکن ہو جائے گا۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے عزم و ارادے کو مستحکم کریں، اہداف کے تئیں وفادار رہیں، توسیع پسند طاقتوں کے غیظ و غضب سے نہ ڈریں اور ان کی مسکراہٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں، ارادہ الہی اور قوانین خلقت کو اپنا پشت پناہ سمجھیں، دو عشروں قبل کمیونسٹ محاذ کی شکست اور موجودہ دور میں مغرب کی نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کی پالیسیوں کی شکست کو، جس کے آثار یورپی ممالک اور امریکا کی سڑکوں پر اور ان ممالک کی معیشتوں کو در پیش لا ینحل مشکلات کی صورت میں سب کے سامنے ہیں، عبرت کی نظر سے دیکھیں۔ اور آخری بات یہ کہ شمالی افریقا میں امریکا پر منحصر اور صیہونی حکومت کے مددگار آمروں کی سرنگونی اور علاقے کے ملکوں میں پھیلی اسلامی بیداری کو ہمیں بہت بڑا موقعہ سمجھنا چاہئے۔ ہم عالمی نظم و نسق میں ناوابستہ تحریک کے سیاسی کردار کو فروغ دینے کے بارے میں غور کر سکتے ہیں، اس انتظامی سسٹم میں تبدیلی لانے کے لئے ایک تاریخی دستاویز کی تدوین اور اس کے اجراء کے وسائل فراہم کر سکتے ہیں، ہم موثر اقتصادی تعاون کی جانب پیش قدمی کی منصوبہ بندی اور اپنے درمیان ثقافتی رابطوں کے نمونوں کا تعین کر سکتے ہیں۔ ایک فعال اور باہدف سکریٹریئيٹ کی تشکیل ان اہداف کے حصول میں بہت موثر اور مددگار ہو سکتی ہے۔
میں (آپ سب کا) شکر گزار ہوں