The Latest

عرب معاشرہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے، انسانی اقدار اپنی حیثیت کھو چکی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہونے والی جنگیں نسلوں تک چلتی ہیں، غلامی کا دور دورہ ہے، خواتیں کے حقوق کو چھوڑئیے یہاں غریب، مفلس اور نادار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اس گھٹن زدہ اور دخترکش ماحول میں ایک ایسی خاتون موجود ہیں جو ملیک العرب یعنی عرب کی ملکہ کے لقب سے معروف ہوتی ہیں اور اس گناہوں سے آلودہ معاشرے میں طاہرہ یعنی پاک و پاکیزہ خاتون کے لقب سے ملقب ہوتی ہیں۔
ایسا دور کہ جس میں عرب معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو بد فعالی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے خاندان کی عزت و آبرو کے لیے ننگ و عار تصور کیا جاتا ہے، ایسے معاشرے میں جنم لینے والی خاتون کو کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں ہم فقط ان کا تصور ہی کرسکتے ہیں اور یہ خاتون کردار و عمل میں اس درجہ پر فائز ہوتی ہیں کہ پورا خاندان اور قبیلہ آپ پر فخر کرتا ہے، اس خاتون سے ہماری مراد ام الممنین حضرت خدیجہ (س) ہیں، آپ کا گھر اسلام سے قبل ہی غریبوں مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کی پناہ گاہ تھا، آپ ایک سخی خاتون تھیں، آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھا، جہاں غریبوں، مسکینوں اور مسافروں کو کھانا ملتا تھا۔
آپ اسلام سے پہلے تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں اور اتنی کامیاب تجارت کی کہ ملیکالعرب کے نام سے معروف ہوئیں، آپ کے تجارتی قافلے شام و یمن وغیرہ میں تجارت کے لیے جاتے تھے، آپ کے تجارتی قافلوں کی تعداد کافی زیادہ تھی، اسی لیے آپ نے مختلف لوگوں کو معین کیا جو ان تجارتی قافلوں کو لے کر جاتے اور سامان تجارت کی خرید و فروخت کرتے۔ انہی قافلوں میں سے ایک قافلہ نبی مکرم (ص) کے سپرد ہوا، س قافلے کی واپسی پر حضرت خدیجہ (س) کے غلام میسرہ نے آپ (ص) کی جو اخلاقی صفات بیان کیں، ان سے متاثر ہو کر آپ (ص) کو خود پیغام نکاح بھجوایا۔
یہاں حضرت خدیجہ (س) کی نگاہ انتخاب کو داد دینی چاہیے، آپ نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے پیغام نکاح ٹھکرا دیئے مگر عبداللہ کے یتیم جو ظاہری مال و اسباب سے محروم ہیں، انھیں پسند فرمایا۔ ایک تاجر خاتون کی حیثیت سے آپ کو ایک ایسے مرد کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جو بڑے مال و اسباب کا مالک اور صاحب طاقت ہو، مگر حضرت خدیجہ (س) کے ہاں ان جاہلی معیارات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ کے ہاں انتخاب کا معیار امانت، دیانت اور صداقت جیسی صفات حسنہ ہیں، اس میں ہمارے لیے بھی رہنمائی ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جن خاندانی مشکلات کا شکار ہے اور معاشرے میں جو عدم اطمینان ہے، طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ رشتہ کے انتخاب کے وقت مال، دولت، گاڑی کوٹھی کا پوچھا جاتا ہے، مگر امانت، دیانت، دینداری جیسی صفات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جس کا خمیازہ پورا معاشرہ بھگت رہا ہے۔ حضرت خدیجہ (س) جب تجارت کرتی تھیں تو کامیاب تاجر تھیں اور شادی کے بعد کامیاب ترین بیوی قرار پائیں۔ حضرت خدیجہ (س) کا حضرت محمد (ص) سے نکاح حضرت ابوطالب نے پڑھا اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا، جو کتب تاریخ میں محفوظ ہے۔ (مناقب ابن شہر آشوب ج ص)
تاریخ میں ملتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے مقام ابراہیم (ع) اور زمزم کے درمیان کھڑے ہو کر حضرت خدیجہ (س) کے حکم سے یہ اعلان کیا: اے امت عرب خدیجہ (س) مہر کی رقم سمیت تمام اموال، غلام اور کنیزوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں آپ کو گواہ بنا رہی ہیں۔ اپنے شوہر کے لیے اتنا جذبہ خیر سگالی، اس محبت، اطاعت کا اظہار، یہ فقط حضرت خدیجہ (س) کے حصہ میں آیا اور جب آپ (ص) پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ (س) نے فورا آپ (ص) کی تصدیق و تائید کی اور تبلیغ اسلام کا آغاز ہوا تو جس طرح آپ (ص) سے لوگ دور ہوئے نہ بات کرتے، نہ مدد کرتے، الٹا تنگ کیا جاتا، ستایا جاتا، یہی صورت حال حضرت خدیجہ (س) کو قریش کی خواتین کی طرف سے پیش آئی۔
آپ (س) کی سہیلیوں اور رشتہ دار خواتین نے آپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا مگر آپ (س) کے پایہ ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی، وہ جن کے پاس خواتین کے جھرمٹ ہوتے تھے، جن کی کنیزیں تھیں، ان سے بات کرنے والا کوئی نہیں، مگر اسلام اور نبی اسلام (ص) پر اتنا یقین ہے کہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتیں، بلکہ جب آپ (ص) کفار کے رویے، ان کے ستائے گھر تشریف لاتے تو آپ (ص) کی دلجوئی فرماتیں اور آپ (ص) گھر میں سکون پاتے۔
آپ (س) نے خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، اس کے ساتھ ساتھ آپ (س) نے سب سے پہلے حضور اکرم (ص) کے ساتھ نماز ادا کی۔ ابن عفیف کہتے ہیں کہ میں کعبہ کے پاس موجود تھا کہ ایک مرد کھڑا ہوا ہے، اس کے دائیں طرف ایک بچہ ہے اور بائیں جانب ایک خاتون کھڑی ہیں اور انہوں نے رکوع و سجود میں اس مرد کی پیروی شروع کر دی، میں نے حضرت عباس (رضی) سے پوچھا یہ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ محمد بن عبداللہ ہیں اور اس کے ساتھ ان کی بیوی ہے اور یہ بچہ (حضرت علی(ع) ) میرا بھتیجا ہے۔
(حضرت محمد (ص)) کہتا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ قیصر و کسری کے خزانوں کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، لیکن بخدا روئے زمین پر ان تینوں کے علاوہ اس کے دین کا کوئی پیروکار نہیں ہے۔ اس کے بعد راوی کہتا ہے کہ کاش میں ان تینوں میں سے چوتھا ہوتا۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر ج ص) ابن عفیف حسرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر اس وقت اسلام قبول کرتے تو چوتھے اسلام قبول کرنے والے ہوتے۔
آپ (ص) نے حضرت خدیجہ (س) کی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں فرمایا۔ اللہ تعالی نے آپ (ص) کو حضرت خدیجہ (س) کے بطن سے اولاد عطا کی، اس سے آپ (ص) کو ابتر کا طعنہ دینے والوں کی زبانیں بند ہوگئیں اور آج پوری دنیا میں نسل پیغمبر اکرم (ص) موجود ہے۔ جب قریش مکہ نے مسلمانوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا اور تمام بنی ہاشم شعب ابی طالب میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے انتہائی سخت ایام تھے۔ ان کی خوراک اور ملنے جلنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ بنو ہاشم کے افراد درختوں کے پتے اور باسی روٹیاں کھانے پر مجبور ہوگئے، مگر نصرت رسول (ص) کے لیے کمر بستہ تھے۔ ایسے حالات میں وہ خاتون جو ملیک العرب کے نام سے معروف تھی، جس کے سینکڑوں تجارتی قافلے تھے۔ عرب کے بڑے بڑے تاجر اس کے مقروض تھے، اس پر یہ وقت آئے کہ پتے کھانے پر مجبور ہیں مگر اس کے باوجود آپ (س) کے دل میں اسلام اور بانی اسلام کی محبت میں اضافہ ہی ہوا۔
جس سال بنو ہاشم کا مقاطعہ ختم ہوا، اسی سال حضرت خدیجہ (س) اور حضرت ابوطالب (ع) کا انتقال ہوا۔ اس طرح حضور (ص) کی دو عظیم پشت پناہ ہستیاں ایک ہی سال انتقال فرما گئیں۔ کسی بھی تحریک کے لیے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک مال اور دوسرا تلوار یعنی عسکری قوت۔ اللہ تعالی نے آپ (ص) کو مال حضرت خدیجہ (س) اور عسکری قوت حضرت ابوطالب (ع) کے ذریعے عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان دو کا انتقال ہوا تو آپ (ص) نے اس پورے سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔

Rehbar editedامت مسلمہ کے عظیم رہنماء اور ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ سے منسلک ماہرین ، محققین ، سائنسدانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:موجودہ فیصلہ کن مرحلے سے عبور کا راستہ مزاحمتی معیشت پر استوار ہے اور ایرانی عوام کے پختہ عزم و ارادہ کے مقابلے میں دباؤ اور مشکلات ناچیز ہیں۔علم ترقی کا سرچشمہ ہے۔ایران یادگار تاریخی اور حساس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو کر اپنی منزل تک ضرور پہنچیں گے۔
رہبر معظم کا کہنا تھا کہ ملک پیشرفت و ترقی کی جانب گامزن ہے اور ایرانی قوم کی پیشرفت و ترقی میں کوئی مشکل اور رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے موجودہ مرحلہ کھیل کے مقابلوں کے میدان کی طرح ہے جو محنت، تھکاوٹ اور خدشات کے باوجود کھلاڑیوں کے لئے شوق و نشاط کا باعث ہے اور کھلاڑی اس میں شوق و نشاط اور بھر پور عزم کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ مزاحمتی اقتصاد کوئی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک واقعیت اور حقیقت ہیجسے محقق ہونا چاہیے۔ علم و دانش کی بنیاد پر استوار کمپنیاں مزاحمتی اقتصاد کے بہترین اورموثر ترین عناصر میں شامل ہیں جو مزاحمتی معیشت و اقتصاد کومزید پائداربنا سکتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر علم و دانش کی بنیاد پر قائم کپمپنیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کی کمی اور کیفی لحاظ سے حمایت کی جائے، تو علم کے ذریعہ ثروت کی پیداوار سے ملک کی معیشت و اقتصاد میں حقیقی رونق پیدا ہوجائیگی۔ خام مواد کی فروخت در حقیقت ایک جال ہے جو انقلاب سے پہلے کے برسوں سے میراث میں ملا ہے افسوس کہ ملک اس میں گرفتار ہوکر رہ گیا ہے۔ اور اس فریب سے نجات حاصل کرنے کے لئے تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔

شرکائے کانفرنس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بشمول یورپ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دوہرا معیار روا رکھا جا رہا ہے۔
ہم شرکائے بین الاقوامی یکجہتی فلسطین کانفرنس پاکستان 2012 فلسطین کے غیور عوام کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سامنے عظیم مزاحمت اور انتفادہ کی تحریک پر سلام پیش کرتے ہیں، اور فلسطینی عوام کو تین باتوں کی مکمل یقین دہانی کرواتے ہیں۔
1۔ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا۔
2۔ فلسطینی پناہ گزینوں اور مہاجرین کی وطن واپسی کا حق دلوانا۔
3۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینی مزاحمت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل انسانیت کے لئے زہر قاتل ہے، ہم جمہوری قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو حق خود ارادیت دلوانے میں کردار ادا کریں اور ہم مسئلہ فلسطین کو اپنے کاندھوں پر لینے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور اس مسئلہ کے حل کو جلد از جلد حل کروانا چاہتے ہیں۔
ہمارے تناظر میں
* غاصب صیہونی ریاست اسرائیل غزہ کا غیر قانونی محاصرہ کرکے فلسطینیوں کے بنیادی نقل و حمل کے حقوق کا استحصال کر رہی ہے۔
* ہم غزہ، مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور اس سے متصل علاقوں میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی غیر قانونی تعمیرات اور یہودی آباد کاری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
* امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بشمول یورپ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دوہرا معیار روا رکھا جا رہا ہے، جبکہ فلسطین کی منتخب عوامی حکومت کی حمایت نہیں کی جاتی۔
* اسرائیل کی بربریت، جنگی جرائم، فلسطینی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ اور فلسطینی عوام کا قتل عام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اس وقت گیارہ ہزار سے زیادہ فلسطینی مرد و خواتین، بچے و بوڑھے اسرائیل کی جیلوں میں غیر قانونی طور پر سزائیں بھگت رہے ہیں۔
* تمام فلسطینی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے تعصب کا شکار ہیں۔
* اس وقت لاکھوں فلسطینی دنیا کے دوسرے ممالک میں جلا وطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
* اسرائیل کی غاصبانہ سوچ میں صیہونی نظریہ ایک بنیادی جز ہے، جو ان کی ہر پالیسی میں نمایاں نظر آتا ہے۔
ہم عہد کرتے ہیں کہ
1۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے طور پر منایا جائے گا اور پاکستان حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس سرکاری سطح پر منایا جائے اورملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا جائے۔
2۔ پاکستان میں جاری مسائل اور دہشتگردانہ کارروائیوں کی جڑ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ اور یورپی ممالک ہیں، لہذا دفاع فلسطین دفاع پاکستان ہے، اس عنوان سے بھرپور مہم چلائی جائے گی۔
3۔ پاکستان کے غیور عوام کو مسئلہ فلسطین پر یکجا کیا جائے گا۔
4۔ فلسطین کے عوام کی جدوجہد آزادی میں ہر ممکنہ تعاون کریں گے۔
5۔ اسرائیل اور اسرائیلی مصنوعات کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا۔
6۔ تعلیمی اداروں میں ثقافتی اور کھیلوں کے پروگرامات منعقد کروا کر اسرائیل کے خلاف مہم کا آغاز کیا جائے گا۔
7۔ وہ تمام حکومتیں اور ادارے جو اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات یا گٹھ جوڑ کی بات کریں گے، ان تمام حکومتوں اور اداروں کی شدید مخالفت کی جائے گی۔
8۔ اسرائیل ایک عالمی دہشتگرد ہے، اس حوالے سے مہم کا اعلان کیا جائے گا۔
9۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کو دنیا بھر میں اور بالخصوص پاکستان میں آشکار کیا جائے گا۔
10۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کے ذریعے صیہونی گٹھ جوڑ کا خاتمہ کیا جاسکے۔

nasiremillat editedمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ صہیونی ریاست کا وجود وجہ فساد ہے۔ باہر سے لا کر آباد کیے گئے پانچ لاکھ یہودیوںمیں سے اکثریت امریکی نژاد اسرائیلیوں کی ہے۔ یہودیوں کو قدس کی سرزمین سے نکال باہر کرتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔ یہ پاکستانی مسلمانوں کی اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ وابستگی اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کا ثبوت ہے کہ عوامی دباؤ آج تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے رکاوٹ بنا ہے۔ان خیالات کو اظہار انہوں نے اسلام آباد ہوٹل میں منعقدہ فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل کا کہناتھا کہ اسرائیل ملک نہیں بلکہ باہر سے لا کر آباد کیے گئے لوگوں پر مشتمل آبادی ہے جس نے مقامی آبادی پر بزور طاقت اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے۔ ہم رہبر کبیر حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ کی اس فکر کے پیرواور حامی ہیں کہ یہودیوں کو نکال کے فلسطینی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ شام میں دہشت گردوں کی کاروائی کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرتے ہوئے علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد فقط اسرائیل کا تحفظ ہے کیونکہ شام عرب ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ فلسطینیوںکی اخلاقی و سیاسی حمایت کا دم بھرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنے وجود کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے اور بشار الاسد حکومت کا وجود گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل نے برما میں مسلمانوںکے قتل عام پر او آئی سی اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کہاںہیں انسانی حقوق کے علمبردار اور امن کے ٹھیکیدار ۔ انہیں شامی دہشت گردوں کے خلاف عوامی حمایت یافتہ بشار الاسد حکومت کی کاروائیاں تو نظر آتی ہیں لیکن برما کے مظلوم مسلمانوں کا قتل عام ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ناصر ملت کا کہنا تھا کہ رہبر کبیر کی فکر ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم ہر ظالم کے خلاف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوںنہ ہو اور ہر مظلوم کے ساتھ ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔

وحدت نیوز! اسلامی دہشتگردوں کے ذریعے اگلا انقلاب شام میں برپا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ شام کا ڈرامہ آخری مراحل میں ہے۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور میں دعا کر رہا ہوں کہ اے اللہ! مسلمانوں کی خیر اور ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ اس مرتبہ اسلامی کانفرنس کا نشانہ صرف شام کے مسلمان ہوں گے یا پاکستان، بنگلہ دیش، یمن اور افریقہ میں ساحل کے ممالک، سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
تحریر: نذیر ناجی
اب آپ کو یاد کرنا پڑے گا کہ ایک اسلامی کانفرنس ہوا کرتی تھی، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس تنظیم نے کبھی بھی مسلمانوں کی کسی ریاست یا کسی گروہ کے مفادات کیلئے کبھی کچھ نہیں کیا۔ یہ ہمیشہ اس وقت حرکت میں آتی ہے، جب امریکہ اور اس کے حواریوں کو اسلام کا نام استعمال کرکے اپنے اسٹریٹجک مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھے اسکا جو سب سے پہلا اور بڑا کارنامہ یاد ہے، وہ اسرائیل کیساتھ معاہدہ امن کرنے کے بعد مصر کی نام نہاد مسلم امہ میں واپسی کا ڈرامہ ہے۔
انور سادات نے جب کیمپ ڈیوڈ میں یہودیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے تو فطری طور پر لازم تھا کہ عرب عوام میں بالخصوص اور مسلمانوں میں بالعموم اس پر شدید ردعمل پیدا ہوتا، لیکن مسلمان حکمرانوں کو اس معاہدے سے پہلے اعتماد میں لیا جاچکا تھا اور جو ہوا ان کی مرضی سے ہوا۔ انہوں نے صرف عوامی غم و غصے اور بغاوتوں کے خوف سے اس معاہدے کی مخالفت کی اور مصر کو اپنی نام نہاد برادری سے نکال دیا۔ مگر جب عوام کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا تو مصر کو واپس مسلم امہ کا حصہ بنانے کے لئے اسلامی کانفرنس کا مردہ زندہ کیا گیا۔ اس کا ایک اجلاس منعقد ہوا، ہمارے مرد مومن مرد حق ضیاالحق کی ڈیوٹی لگی کہ وہ مسلم امہ کے ناراض حکمرانوں کو اس بات کا قائل کریں کہ مصر، مسلم امہ کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اور اسلامی کانفرنس میں اس کی واپسی بہت ضروری ہے۔
اس مقصد کے لئے او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ جنرل صاحب اپنی اسلامی شان و شوکت کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لائے اور پورا زور خطابت صرف کرتے ہوئے پہلے ہی سے قائل اسلامی حکومتوں کے نمائندوں کو مزید قائل کیا۔ کافروں کو مکے دکھائے، اسرائیلیوں کے خلاف شعلے اگلے۔ اسلامی تاریخ کے سنہرے ادوار کو یاد کیا اور پھر اسلامی کانفرنس کی طرف سے مصر کے ہجر کی درد بھری کہانی دہرائی اور پھر بتایا کہ مصر کی اسلامی کانفرنس میں واپسی کیوں ضروری ہے۔
یہ ساری المیہ کہانی دہراتے ہوئے وہ کبھی ہنسے، کبھی غضبناک ہوئے، کبھی آنسو بہائے، کبھی ہچکیاں لے کر روئے، پہلے سے تیار اسلامی حکومتوں کے نمائندوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے اور اس جذباتی فضا میں مصر کو اسلامی کانفرنس میں واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ امریکہ اور اسرائیل جو کام اپنی سفارتی طاقت اور اثر و رسوخ کے ذریعے کرنے میں دقت محسوس کر رہے تھے، اسلامی کانفرنس نے وہ کر دکھایا۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں شادیانے بجائے گئے، مصری حکمرانوں نے عرب عوام سے جو غداری کی تھی، اسے سند قبولیت حاصل ہوگئی اور اس کے بعد کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہ او آئی سی کہاں گئی اور کیا کرتی رہی۔
البتہ اس کا سیکرٹریٹ جوں کا توں قائم رہا۔ اسے پیٹرو ڈالر ملتے رہے اور مختلف مسلمان ملکوں کے امریکہ نواز لیڈر اس تنظیم کے عہدیدار بن کر عیش و آرام کے مزے لوٹتے رہے۔ مصر اور پاکستان کے کئی لیڈر اس چشمہ فیض سے خوب سیراب ہوئے، لیکن اسلامی بلاک کی سطح پر یہ تنظیم کہیں نظر نہ آئی۔ میں ان تمام تنازعات اور خونریزیوں کا ذکر نہیں کروں گا، جن سے متعدد ملکوں کے مسلمان دوچار ہوتے رہے۔ خود مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا، لیکن اسلامی کانفرنس کبھی کوئی نتیجہ خیز قدم نہ اٹھا سکی۔
افغانستان میں بادشاہت کے خلاف مقامی قوم پرستوں نے جب بغاوت کرکے جمہوری حکومت قائم کی تو امریکیوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور انہیں اتنا مجبور کر دیا کہ ببرک کارمل کو سوویت یونین سے مدد مانگنا پڑی اور جب امریکی سازش اور خواہش کے عین مطابق روسی فوجیں اپنی حمایت یافتہ مقامی حکومت کی مدد کے لئے اسی کی درخواست پر افغانستان میں داخل ہوئیں، تو اسلامی کانفرنس انگڑائی لے کر اٹھی اور پھر جب تک روسی افواج افغانستان سے واپس نہ چلی گئیں، اس کے پے در پے اجلاس ہوئے۔
امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اڈے بنا کر افغانستان کے اندر مداخلت کے جو مراکز قائم کئے، اسلامی کانفرنس، عالمی رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کرنے کے لئے مسلسل سرگرم رہی۔ افغان جنگ کے دوران او آئی سی کے جتنے اجلاس منعقد ہوئے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جیسے ہی افغانستان سے سوویت افواج واپس گئیں، او آئی سی لاپتہ ہوگئی۔ پچیس چھبیس سال لاپتہ رہنے کے بعد اچانک اس کا اجلاس طلب کرنے کی خبر آئی ہے اور میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اب مسلمانوں کو کہاں پر اور کیسا گھا لگانے کی تیاریاں ہیں۔
امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد جنگ کے جو نئے طریقے ایجاد کئے ہیں، وہ بہت انوکھے اور منفرد ہیں۔ پہلے دونوں ملکوں میں باقاعدہ فوجیں اتار کے میدانی جنگیں لڑی گئیں۔ جن میں فضائیہ کا بے رحمانہ استعمال ہوا۔ ان جنگوں کے دوران امریکہ نے اسلام کے نام پر دہشتگرد گروہوں کے ساتھ اپنے رابطے بڑھائے اور حیرت انگیز طور پر جس دہشتگردی کے خلاف اس نے عالمی جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، انہی دہشتگردوں کو مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ میں آلہ کار بنانا شروع کر دیا۔
اس کا پہلا تجربہ تو پاکستان میں ہوا، جہاں امریکہ نے پاکستان ہی کے تیار کردہ مجاہدین کو اسی کے خلاف استعمال کرنے کا تجربہ کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک گروہ کو ہماری مسلح افواج کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ وہ اب ہمارے پورے ملک میں دہشتگردی کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک گروہ سوات میں فضل اللہ کی زیرقیادت میدان جنگ میں اتارا گیا، جو اتنی تیزی سے فتوحات حاصل کرنے لگا کہ مغربی میڈیا نے اسلام آباد پر ان کے قبضے کے خطرات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو خطرہ محسوس ہوا کہ دہشتگردوں کی یہ لہر ہمارے ایٹمی اثاثوں کی طرف بڑھنے والی ہے۔ چنانچہ فوج کو میدان میں اتارا گیا اور دہشتگردوں کو اپنی طاقت کا مرکز افغانستان میں منتقل کرنا پڑا، لیکن سوات پر ان دہشتگردوں کے قبضے کے دوران ہمارے میڈیا کے کچھ عناصر نے جیسے بڑھ چڑھ کر ان کی حمایت کی، اس سے پتہ چلا کہ دہشتگرد صرف مقامی نہیں، ان کی ڈوریاں بیرون ملک سے ہل رہی ہیں اور بیرونی طاقتوں کے زیراثر کام کرنے عناصر والے ہمارے ملک میں بیٹھ کر جذباتی فضا کو ان کے حق میں ہموار کر رہے ہیں۔
کرزئی حکومت بظاہر سیکولر ہے۔ وہ اور امریکہ دونوں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں کو ان دونوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ کھیل جو ہمارے ملک سے شروع ہوا تھا، بہت دور تک پھیلنے لگا اور افغانستان میں لڑنے والے جن دہشتگردوں کے ساتھ امریکہ نے رابطے کئے، اچانک وہ لیبیا کا رخ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے پشاور سے پکڑے گئے جو دہشتگرد امریکہ کے حوالے کئے تھے اور جنہیں گوانتاناموبے میں قید کیا گیا تھا، وہاں سے رہائی پا کر لیبیا پہنچے اور قذافی کے خلاف بغاوت منظم ک۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بغاوت کے آغاز میں صدر قذافی نے شدید تکلیف کے عالم میں کہا تھا کہ جن نام نہاد مجاہدین کو اس نے اپنے ملک میں پناہ دی، وہی اس کی جان کے دشمن ہوگئے ہیں۔ صدر قذافی کو جس ہجوم نے گھیر کے ہلاک کیا، اس کی قیادت بھی القاعدہ کے وہ لوگ کر رہے تھے جو پاکستان اور افغانستان سے لیبیا گئے تھے اور جس نوجوان نے صدر قذافی پر ہلاکت خیز وار کئے، وہ بھی پاکستان میں رہ کر لیبیا گیا تھا۔
اسلامی دہشتگردوں کے ذریعے اگلا انقلاب شام میں برپا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ شام کا ڈرامہ آخری مراحل میں ہے۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور میں دعا کر رہا ہوں کہ اے اللہ! مسلمانوں کی خیر اور ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ اس مرتبہ اسلامی کانفرنس کا نشانہ صرف شام کے مسلمان ہوں گے یا پاکستان، بنگلہ دیش، یمن اور افریقہ میں ساحل کے ممالک، سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
"بشکریہ روزنامہ جنگ"

mwmflagاگر قرآن و سنت کانفرنس کی آٹھ گھنٹے کی کارروائی کو سیکنڈز میں تقسیم کریں تو یہ تقریبا 0.0024 سیکنڈز بنتے ہیں، کانفرنس میں شریک ہونے والے 2 لاکھ سے زیادہ مومنین میں سے ہر ایک نے فقظ 0.0024 سیکنڈز میں اپنے اندر ایسا جذبہ اور ولولہ محسوس کیا جس کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر کانفرنس میں شریک ہونے والی شخصیات کئی سالوں تک Door To Door جا کر کانفرنس کے شرکا کی خدمت میں حاضر ہوتیں تب بھی یہ خاص جوش اور ولولہ مومنین میں منتقل کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ جذبہ اور کانفرنس کا پیغام فقط اس بات سے عبارت تھا کہ ہمارا مورال بہت بلند ہوا ہے کہ جیسے ہر ایک کو نئی زندگی ملی ہو۔ہر ایک کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ جب ہمارے علما، ذاکرین، واعظین، تنظیمی احباب، عزادار، مدارس کے ذمہ دار اور عوام تمام ایک پرچم کے نیچے جمع ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے مومنین گردن تان کر یہ کہہ رہے تھے کہ تمام طبقات کی نمائندہ شخصیات کو یک زبان دیکھ کر ہمارا حوصلہ بہت بلند ہوا ہے۔ آج ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہمارے شہدا کا خون رائیگان نہیں جائے گا، اور یہ بھی بعید نہیں کہ ہم اکٹھے ہو کر خارجی استعمار سمیت داخلی سطح پر موجود تمام ملک دشمن قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات اور قرآن و سنت کانفرنس کا اولین پیغام یہ تھا کہ ایم ڈبلیو ایم confused نہیں ہے۔ ملت تشیع پاکستان کی ابھرتی ہوئی نمائندہ جماعت کا Agenda بالکل واضع ہے، اور وہ ہے ملت مظلوم پاکستان کے حقوق کا تحفظ۔، کربلا کے پیغام کی پاسداری۔ ایم ڈبلیو ایم کہیں پر بھی قومی حقوق کے حوالے سے compromise نہیں کرئے گی، چاہے سانحہ چلاس ہو، کوئٹہ کے واقعات ہوں یا پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شیعہ طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی۔ سیاسی حوالے سے کانفرنس کا پیغام نہایت واضع تھا کہ پاکستان کی جو پارٹی تکفیری دہشتگردوں سے تعلق بنائے یا انہیں اپنی صفوں میں جگہ دے، مومنین اس کا بایئکاٹ کریں۔ یہ یک نکاتی ایجنڈا ہر ایک کو سمجھ بھی آتا ہے اور پاکستان کی انتخابی سیاست کے ماحول میں موثر بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے نہ فقط عوام کو بلکہ ایم ڈبلیو ایم کے تمام کارکنان کو بھی Political Line Of Action ملی ہے۔ کانفرنس کا یہ اعلان کہ ہمارے دشمن عالمی سطح پر بھی ہیں، علاقائی اور مقامی سطح پر بھی۔ اور ہر سطح پر ملت اسلامیہ بالخصوص ملت تشیع دہشتگردی کا شکار ہے اور دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد امریکی ٹولہ ہے، چاہے وہ شام میں ہو یا پاکستان میں۔ کانفرنس میں یہ اعلان کیا گیا کہ ایم ڈبلیو ایم کا vision یہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دہشتگردی کے اڈے امریکی سفارت خانے اور قونصلیٹ ہیں۔ اس سے پہلے اس ایشو پر اس طرح کی Clarity of mind کہیں سے سامنے نہیں آئی، ہو سکتا ہے کہ یہ ذہنی واضحیت پائی جاتی ہو، لیکن کسی کو جرائت اظہار نہیں ہوئی۔ یہ فقط خون شہید عارف حسین الحسینی کی تاثیر ہے کہ ملت تشیع پاکستان کی نمائندہ جماعت نے اس حقیقت کو مینار پاکستان کے سائے تلے عالمی اور مقامی میڈیا کے سامنے اس طرح برملا کیا، اور مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی اپنے دشمن کی طرف متوجہ بھی کیا اور دشمن کو بے نقاب بھی کیا۔ خود ایم ڈبلیو ایم کو بحیثیت جماعت جتنا فائدہ اس اجتماع سے ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ چین کی سرحد سے لیکر کراچی کے ساحلوں تک ملک کے کونے کونے میں جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور جماعت پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ جماعت کے ذمہ داروں کو جہاں نیا حوصلہ ملا ہے، وہاں ان کی ذمہ داری بھی دوچند ہوگئی ہے۔ یکم جولائی کو مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع ایم ڈبلیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے، تمام سطحوں پر فعالیت اور عمومی روابط کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ اسلام آباد میں تواتر سے ہونے والے قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی برسی کے اجتماعات کی طرح قرآن و سنت کانفرنس میں بھی غالب اکثریت پاکستان کے تنظیمی افراد پر مشتمل تھی اور شرکا کی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی تھی جو کسی قومی جماعت کا حصہ نہیں رہے، لیکن وہ اب تنظیمی طور پر ایم ڈبلیو ایم کا حصہ ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے ذیلی شعبوں کے علاوہ ماہنامہ پیام زینب (س)، امام سجاد (ع) فاونڈیشن، شہید فاونڈیشن، ماہنامہ العارف، قومی تعلیمی اداروں اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی قومی تنظیموں نے اپنے اپنے اسٹالز اور کانفرنس میں شرکت کرکے ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور پاکستان میں دشمنان ملت تشیع کو پیغام دیا ہے کہ حسین (ع) ابن علی(ع) اور جناب زینب(س) کے پیروکار ہمیشہ ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ یہ ملت مظلوم پاکستان کی خدمت میں مصروف تمام اداروں کے درمیان مثالی فکری اور ذہنی ہم آہنگی کا ثبوت تھا۔ پاکستان کے گوش و کنار سے آئے ہوئے طلبہ و طالبات اور خواتین کی نمایاں شرکت ایم ڈبلیو ایم پر اعتماد کا قومی اظہار ہے۔ سخت گرمی اور رش کی وجہ سے ایک درجن سے زیادہ خواتین بے ہوش ہوگئیں، لیکن ان پیروکاران بی بی زینب (س) کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی، اور مینار پاکستان کی فضائیں مسلسل لبیک یاحسین (ع) کی صداوں سے گونجتی رہیں۔ کانفرنس کا سب سے اچھوتا اور دلفریب پہلو یہ تھا کہ اعلان کیا گیا کہ ہمارا ایمان ہے کہ طاقت کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ دولت، افرادی قوت اور نظم و جماعت اللہ تعالی کی نصرت کے مظاہر ہیں۔ کانفرنس کی انتظامیہ اور قائدین نے ہر لمحہ اس کا اظہار کیا کہ یہ کامیابی اور خدمت کرنے کی ہمت فقط ائمہ معصومین (ع) سے توسل کی بدولت ہے اور عالم تکوین میں آپ (ع) کی نصرت و تائید کا اثر ہے۔ ہمارا نعرہ یا علی (ع) مدد اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری worth نہ دھن ہے نہ دولت، نہ دنیاوی فکر و فلسفہ نہ مال و دولت، نہ افراد کی زیادتی، نہ مادی اسباب بلکہ ان کامیابیوں کا سبب ہماری پشت پہ صاحب العصر و زمان (ع) کا ہاتھ ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سروں پہ مولا عباس (ع) کے علم کا سایہ ہمارا پشتیبان ہے۔ اللہ تعالی تمام قومی جماعتوں کو راہ خدا میں کامیاب و کامران فرمائے اور ایم ڈبلیو ایم کے قائدین اور کارکنان کو ملت کی طرف سے ملنے والے اعتماد اور جماعت کی طرف سے کئے گئے وعدوں پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔

barma prtsteditedبرما میں مسلمانوں کے بیہمانہ قتل عام کی مذمت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برما کے مسلمانوں کی مدد کے لئے اس ملک میں امن محافظ فوج روانہ کریں۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے جامع مسجد کھارادر میں برما میں بدھسٹوں کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مقررین میں مولانا باقر زیدی، مولانا علی انور جعفری اصغر زیدی اور برادر محمد مہدی شامل تھے۔ اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد نے برما کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے برما کی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برما کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اس دکھ اورمصیبت کی گھڑی میں ترقی پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن پوری دنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے لیکر مذہبی اور سیاسی راہنما تک اس انسانیت سوز واقع پرخاموش اور شرم ناک رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سوائے ملت ایران اور رہبر مسلمین جہان آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے علاوہ کسی مسلم رہنما نے اس مسئلے پر آواز بلند نہیں کی، شاید لگتا یہ ہے کہ یہ رہنما شام میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے مزاحمت اسلامی کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔رہنماں کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی برما کے مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانا گوارا نہیں کیا ہے، رہنماں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا برما مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے لئے فی الفور مداخلت کی جائے اور اقوام متحدہ کی امن فوج کے دستوں کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا جائے۔ انہوں نے اسلامی ممالک اور بالخصوص عرب ممالک کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی نوکری چھوڑ کر مظلوم مسلمانوں کی فریاد کو سنیں ورنہ مظلوموں کی آہ و بکا ان کی لرزتی ہوئی حکومتوں کے آخری جھٹکا ثابت ہوں گی۔حالیہ دنوں میں دنیا کے بہت سے ممالک میں مسلمانوں کی جانب سے میانمار میں مسلم نسل کشی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور اس پر بین الاقوامی اداروں اور حقوق انسانی کی نام نہاد تنظیموں کی خاموشی کی مذمت ہو رہی ہے.میانمار کے مغربی صوبہ راخین میں انتہا پسند بدھسٹوں کے حملوں میں ہزاروں مسلمان جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں.

jawan editedمجلس وحدت مسلمین پنجاب کی صوبائی کابینہ نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب علامہ امین شہیدی سے ملاقات کے بعد جوان ہاؤس کا دورہ کیا۔ شعبہ جوان کے میڈیا کوارڈینیٹر برادر محمد نے وفد کو شعبہ جوان کی میڈیا کے حوالے سے فعالیت پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پنجاب ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے لئے شعبہ جوان کی ملی خدمات قابل تحسین ہیں۔ قوم کو اپنے حسینی کردار جوانوںپر فخر ہے۔ ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے وفد میں علامہ اصغر عسکری کے علاوہ ، سیکرٹری امور تنظیم سازی ذوالفقار اسدی، سیکرٹری مالیات بردار مسرت کاظمی شامل تھے۔

Hassan editedآج کے اس مشکل دور میں ذاکر، عالم، ماتمی اور نمازی کو پرچم وحدت کے سائے تل جمع کرنا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا ایسا کارنامہ ہے جو تاریخ کے سینے پر سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ایم ڈبلیو ایم غموںاور تکلیفوں کے دھوپ میں جلنے والوں کے لئے سائبان اور شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی ہے۔ قوم کی نظریں ایم ڈبلیو ایم پر لگی ہیں۔ ملت جعفریہ کو مایوس نہیں کریں گے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے ایم ڈبلیو ایم پنجاب کی صوبائی اور ضلع لاہور کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ قوم کا وقار بحال کرنے کے لیے عوام کے درمیان خلیج کو دورکرناہوگا۔قومی تحریک ایک شجرسایہ دار کی مانند ہوتی ہے جس کے نیچے ہر ستایا ہواپناہ حاصل کرتاہے اسی روش پر چلتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین نے ہر ولائے علی رکھنے والے کے لئے اپنی آغوش پھیلادی ہے۔مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ یکم جولائی کو قوم کے بھرپور اعتماد کے بعداکابرین مجلس وحدت کی ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے اور قوم کا ہرطبقہ صرف اور صرف مجلس وحدت کی طرف دیکھ رہا ہے اور پاکستان میں شیعہ حقوق کی واحد آس مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو سمجھتا ہے۔ مجلس وحدت کے ذمہ داروں کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ قوم کے اعتما د پر پورا اترنے کے لئے اپنی مخلصانہ کوششوں کو اور زیادہ تیز کردیں۔

mwmflagمجلس وحدت مسلمین پنجاب کے وفد نے سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی کی قیادت میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی سے ان کی رہائش گاہ پرملاقات کی ۔ تین گھنٹے دورانیے کی اس ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے تنظیمی امور، ملت جعفریہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے علاوہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر سیر حاصل گفتگوہوئی۔ اس موقع پر پنجاب کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ خدا کے عنایت الٰہی سے ایم ڈبلیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ پورے ملک میں مرکز سے دیہات کی سطح تک قائم ہو چکا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے عہدیداران پاکستانی معاشرے کو اسلامی فلاحی معاشرہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اسلام دشمن قوتیں پاکستان میں تشیع کی بیداری سے خوف زدہ ہیں۔ انہوں نے کہا اب حکومت وقت سے مطالبہ کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ شیعہ قوم پاکستان کے آئین اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ہمیں کوئی راست اقدام اٹھانے کیلئے مجبور نہ کیا جائے۔ بین الاقوامی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بحرین ، سعودی عرب اوربرما میں مسلمانوں کی نسل کشی اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کو نظر نہیں آتی۔ لیکن شام کے لئے آئے دن راگ آلاپتے رہتے ہیں۔کراچی سے خیبر تک ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ حکومت اور امن دشمن شرپسند عناصر کا معصوم شہریوں کے خلاف گٹھ جوڑ ہو چکا ہے۔ جس پر پاکستانی عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ پولیس، ایف سی ، رینجرز سمیت خفیہ ادارے دہشت گردوںکو گرفتا ر کر کے کیفر کردار تک پہنچانے میں کیوں سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے وفد وفد میں سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی کے علاوہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری ، سید اسد عباس نقوی ، برادر ذوالفقار اسدی ، برادر رائے ناصر اور برادر مسرت کاظمی شریک تھے جبکہ مرکز ی شوریٰ عالی کے رکن علامہ اقبال بہشتی کو خصوصی طور پر ملاقات میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree