وحدت نیوز (آرٹیکل) سعودی آیڈیالوجی اور مالی مدد کا پاکستان کو تباہ کرنے میں ایک بنیادی کردار ہے. پراکسی وار نظریہ اب مزید انکے جرائم کو چھپا نہیں سکتا. ہمارے  عوام کا قتل عام جاری ہے 80 ھزار پاکستانی دھشگردی کی پھینٹ چڑھ چکے ہیں .اور اسکے تنخواہ دار دھشتگرد ، ملاں ، مدارس اور تنظیمیں دھشتگردی ، تعصب و تنگ نظری  اور تکفیریت پھیلا رہے  ہیں. اور انکے دلدادہ وہمدرد نفوذی افراد کہ جن میں ہماری اسٹبلشمنٹ کے بعض آفییسرز اور  سیاستدان ہیں وہ ان دھشگرودں کے  سہولتکار ہیں اور عوام سے جھوٹ بولتے ہیں.  حکمران  ایک کے بعد ایک سعودیہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں  . اگر پاکستان کا قومی مفاد تمہیں عزیز ہے تو بہادری دکھاو اور سعودیہ سے کہو کہ ان وہابیوں کی ہر قسم کی امداد فورا بند کرے .
حکمرانو ! اگر تم پاکستان کی آبرو اور عزت  کو مقدم سمجھتے ہو تو اپنے تعلقات ریالوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دو طرفہ قومی  مفادات اور  احترام متبادل کی بنیاد پر بناو . اور دنیا کے کسی بھی ملک کو اپنے داخلی امور میں مداخلت کی اجازت نہ دو.
اپنی عوام کے حقیقی خادم بنو نہ کہ جھوٹے دعوے کرو اور غریب عوام کا مال لوٹو .  اور دوسروں کے سامنے خوددار قوم کے فرد  نظر آو. جبکہ موجودہ پالیسی اس کے بر عکس ہے. صورتحال یہ ہے کہ بیگنگاہ شہری ماوراء قانون مہینوں اور سالوں سے ایجنسیوں نے عقوبت خانوں میں رکھے ہوئے ہیں.  اور جو قانون توڑتے ہیں اور جرائم پیشہ ہیں وہ حکمرانوں سے گپ شپ لگاتے ہیں. اور انہیں فل  پروٹوکول ملتا ہے. اگر اسٹیٹ انکی حوصلہ افزائی کرتی رہی تو پھر یہ دھماکے کبھی نہیں رکیں گے . دھشتگرد حکومتی خزانوں اور سعودی امداد کے خریدے ہوئے  اسلحہ سے لیس ہیں اور جب چاہیں بیگاہ عوم کا قتل کرتے ہیں. اور جو لوگ اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنی جان ومال و ناموس کی حفاظت اور علاقوں کے دفاع کے لئے اسلحہ خریدتے ہیں.  حکمران انہیں نہتا کر کے درندہ صفت دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں.
دیوبندی تکفیری دھشتگرد تو گزشتہ ایک عرصہ دراز سے ہمارے فوجی افیسرز کے سروں سے فٹبال کھیلنے کا عادی بن چکا ہے. اور نہ اسے سبز ہلالی پرچم قبول ہے اور نہ ہی پاکستان  کا آئین. اسکے پاس اپنا ایجنڈا ہے اور انکے سرپرست انھیں کی طاقت کے بل بوتے پر اور ڈنکے کی چوٹ پر حکمرانوں کو آنکھین دکھاتے ہیں اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں. اب انھوں نے اندرونی و بیرونی پریشرز سے حکمرانوں اور قانون کے محافظوں کی بندوقوں اور امنیتی اداروں کی کاروائیوں کا رخ شیعہ مسلک کی طرف کروا دیا ہے.جبکہ گذشتہ 35 سال سے مسلسل انکے ظلم کا نشانہ بننے والے بھی پاکستان کے شیعہ اور سنی عوام اور دیگر اقلیتیں ہیں. اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کمزور سے کمزور تر ہو. تاکہ  وہ اسے آسانی سے توڑ سکیں.اور اپنی خلافتیں قائم کر سکیں.
حکمرانو !  کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر اس ظلم و نا انصافی سے تنگ آکر  بریلوی اور اہل تشیع مسلک نے بھی خدانخواستہ تمھارا ساتھ چھوڑ دیا تو وطن عزیز کس قسم کے بحران میں مبتلا ہو  گا ؟ پاکستان سے مسلمانوں نے ملکر حاصل کیا اس کسی مسلک کا وطن نہ بننے دو.
ہمیں ملک کا امن اور اسکا  کا دفاع سب سے زیادہ عزیز تر ہونا چاہیئے. پاکستان کے امن پر کو سمجھوتہ قابل قبول نہیں .  وطن کی حفاظت ہر پاکستانی کا پہلا اور بنیادی وظیفہ ہے. جنھیں ہمارے ملک کا امن عزیز نہیں ہمیں بھی انکا امن عزیز نہیں ہونا چاہیئے. اور سادگی سے پرانے پیار کی پینگیں چڑھانے کی پالیسی پر غور کریں. مجروح  عوام کے دلوں پر ایسے بیانات گراں گزرتے ہیں.
 
حکمرانو ! کیا دیکھ نہیں رہے کہ اسرائیل کی طرح سعودیہ جارحانہ پالیسیوں پر اتر آیا ہے. اب سعودیہ دس سال پہلے والا ملک نہیں.  اس نے دنیا میں اپنی جارحانہ پالیسی کی بنیاد پر بہت دشمن بنا لئے ہیں.آپ آل سعود کی کرسی کی خاطر کس کس سے لڑیں گے.؟
 زمانہ جانتا ہے کہ
- لیبیا ، مصر اور تیونس کے بحرانوں میں سعودیہ ملوث ہے.
- عراق وشام کی تباہی میں اسکا بڑا ھاتھ ہے. اور لاکھوں بیگناہ لوگوں کے قتل میں شریک ہے.
- گذشتہ دو سال سے غریب مسلم پڑوسی ملک یمن پر حملہ آور ہے. اس ملک کو سعودیہ نے ویران کر دیا ہے . لاکھوں میزائلوں  اور گولوں کی بارشیں کی  ملک کی اس مسل بردر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور دس ہزار سے زیادہ بیگناہ  عوام کو قتل کیا.
- اسی طرح بحرینی عوام کی پر امن  تحریک کو کچلنے کے لئے سعودی فوج درع الجزیرہ گذشتہ کئی سالوں سے ظلم کر رھی ہے.
- کبھی کویت کو دھمکیاں دی جاتی ہیں. آزاد میڈیا کا دور ہے ، اب حقائق کو خوف وہراس سے دبانا مشکل ہے. خواہ جتنے بھی سخت سائبر قوانین بنائے جائیں اور زبانوں پر تالے لگانے کی کوشش کی جائے  اور جھوٹا پروپگنڈہ کیا جائے. اور قلمیں خرید لی جائیں پھر بھی حقائق چھپ نہیں سکتے.
حکمرانو ! دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے. عالمی سیاست ہو یا خطے میں آنے والی تبدیلیاں اور ملک کی داخلی صورتحال ہر جگہ طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے.بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں. آپ کو بھی اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی. اب بحرینی عوام سے دشمنی لیکر آل خلیفہ کی حفاظت کی زمہ داری لینے کے وعدوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی. حکمران طبقہ ہر ملک میں تبدیل ہوتا رہتا ہے. اور عوام ہمیشہ باقی رھتے ہیں. آج پاکستانی نیشنل پولیس اور انٹیلی جنس کے لوگ بحرینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک ہیں .اور انکے ناروا رویوں کی وجہ سے  وھاں کے عوام پاکستانی قوم کو کرائے کا قاتل کہتی ہے.
کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ:  
1- سعودیہ اس وقت اسرائیل کا اسٹریٹجک دوست ملک ہے. جبکہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا.
2- ہندوستان سے گہری دوستی کے سبب آج تک سعودیہ نے کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کی کبھی مذمت تک نہیں کی اور نہ کشمیر کاز پر ہماری کبھی حمایت کی. 3- سی پیک پاکستانی اقتصاد  کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے. ہمارے اقتصاد کا مستقبل اس سے جڑا ہوا ہے. جو ہمارے ہمسایہ ممالک چین ، روس ، افغانی و ایران کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے. جبکہ امریکہ ، غرب، انڈیا  اور خلیجی مالک اس اقتصادی ھب کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں.اور تکفیریت اسے سبوتاژ کرنے میں مختلف زاویوں سے ماحول بنا سکتی ہے. اور بعض لیڈروں کے بیانات میڈیا پر آ چکے ہیں.

اب اس نازک موڑ پر ہمارے حکمرانوں نے ذاتی مفادات کو پاکستان کی کے قومی مفادات پر ترجیح نہ دی. اور بیلنس پالیسی ترک نہ کی اور اسٹبلشمنٹ اور  سیاست میں موجود کالی بھیڑیں اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو گئیں. تو ملک میں یہ جاری دھشتگردی خانہ جنگی کو  جنم دے گی. اور دشمن اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب ہو جائے گا.

 

تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) جرم جیسا بھی ہو،مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ مجرم قرار دینے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ کیا مولوی حضرات کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں مذہب کا دشمن قرار دے کر قتل کروا دیں!؟  کیا  سیکولر اور لبرل حضرات کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں  مذہبی شدت پسند کہہ کر تنگ نظر اور بیک ورڈ قرار دے دیں!؟  کیا فوج اور پولیس کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں اسے غدار اور ملک دشمن قرار دے  کر ٹھکانے لگا دیں!؟

دنیاکے ہر مہذب ملک میں مجرم اور سزا کا تعین عدالتیں کرتی ہیں۔ اگر کہیں  ماورای عدالت لوگوں کو مارا جانے لگے یا پھر عدالتوں سے من پسند فیصلے کروائے جانے لگیں تو پھر ایسی عدالتیں  اپنا اعتماد کھو دیتی ہیں۔ جس ملک میں عدالتوں کا اعتماد نہ رہے وہاں دیگر ادارے بھی اپنا احترام کھو دیتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں لوگوں کے  لاپتہ اور گم ہونے کا سلسلہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اس میں کوئی  مذہبی اور غیر مذہبی  کی تفریق نہیں، کچھ لوگوں کو مذہبی شدت پسند اور کچھ کو مذہب دشمن قرار دے کر لاپتہ کردیا جاتاہے۔ کسی کو تقریر کرنے کے جرم میں اور کسی کو فیس بک پیجز چلانے کی آڑ میں دھر لیا جاتاہے۔

انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد چاہے جتنے بھی بڑے گنہگار ہوں انہیں باقاعدہ طور پر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور ان کے گھر والوں کو ہراساں  کرنے کے بجائے انہیں اپنے عزیزوں سےملاقات کرنےکا حق دیا جانا چاہیے۔

یاد رکھئے!جب سرکاری ادارے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں، عوام کے مشوروں کو نہیں سنتے ، عوامی  مخالفت اور تنقید کو برداشت نہیں کرتے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں تو پھر سانحہ پارا چنار جیسے حادثات پیش آتے ہیں۔

سانحہ پارا چنار اتنا دلخراش سانحہ ہے کہ اس پر ترکی کے صدر اور وزیراعظم سے بھی خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے بھی اس سانحے کی مذمت کی ہے۔ اس سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ اپنی جگہ ضروری ہے البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کوئی غیر متوقع سانحہ نہیں تھا۔

گزشتہ روز  پارا چنار  میں ہونے والا خود کش دھماکہ ایک متوقع حادثہ تھا۔ در اصل حلب اور موصل میں شدت پسندوں کی پسپائی کے بعد یہ امکان موجود تھا کہ شدت پسند پاراچنار کا رخ کریں گے۔ مقام افسوس ہے کہ اس دوران حکومتی اہلکاروں نے شدت پسندوں کا راستہ روکنے کے بجائے مقامی لوگوں کو غیر مسلح کرنے کے لئے زور لگانا شروع کردیا۔  اگر سرکاری ادارے  مقامی لوگوں سے الجھنے کے بجائے ان سے مل کر حفاظتی مسائل کو آگے بڑھاتے تو ایسی صورتحال کبھی بھی پیش نہ آتی۔

عوام سے محبت، عوامی امیدوں کا لحاظ، عوامی تنقید کا احترام ، عوام سے روابط یہ ساری چیزیں خود حکومتی اداروں کے مفاد میں ہوتی ہیں۔ سانحہ پارا چنار کے بعد  پاکستانی آرمی چیف نے فورا پاراچنار کا دورہ کر کے اپنی عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے اس دورے سے جہاں انہیں صورتحال کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے وہیں پاراچنار کے مقامی لوگوں کو بھی یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان آرمی کے دل میں ہماری محبت اور ہمدردی موجود ہے۔

یہ دورہ اپنی جگہ قابل ستائش ضرور ہے تا ہم اس کا حقیقی فائدہ تبھی ہوگا جب آرمی چیف کے ماتحت ادارے بھی عوامی احترام کو یقینی بنائیں گے۔

کسی بھی منطقے کے حقیقی محافظ اس کے مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں لہذا پارا چنار کے مسائل میں وہاں کے مقامی لوگوں کی رائے، رسوم و رواج ، اور حقوق کو ہر حال میں مقدم رکھنا چاہیے۔

اگر ہمارےسرکاری ادارے عوم سے اپنے فاصلے کم کردیں ، عوامی مسائل اور آرا کو اہمیت دیں، اختلاف رائے کو برداشت کریں  تو انہیں  کہیں پر بھی عوام سے الجھنے اورفیس بک پیجز چلانے والوں کو گم اور لاپتہ کرنے کی ضرورت  پیش نہیں آئے گی۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوتا ہے جب کچھ سرکاری اہلکار اپنے آپ کو قانون اور عدالت سے برتر تصور کرلیتے ہیں۔


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) دو شیعہ نشین قصبے سوریہ کے شمال مغرب محافظہ ادلب (ادلب ڈویژن) میں واقع ہیں. چاروں اطراف سے تکفیری دہشتگردوں نے گذشتہ تقریبا تین سال سے محاصرہ کر رکھا ہے. ان دونوں قصبوں کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ تھی. ابھی اس وقت تقریبا 18 ھزاہ لوگ رہتے ہیں. ادلب شہر پر تکفیریوں نے ترکی کمانڈوز اور امریکہ ،غرب ، سعودیہ ، قطر وغیرہ کی مدد سے تازہ دم دستوں اور جدید تریں جنگی اسلحہ سے قبضہ کر لیا. اس وقت سے یہ لوگ مکمل حصار میں آ چکے ہیں کیونکہ نکلنے کے تمام تر راستے بند کر دیئے گئے . یہ علاقے ترکی بارڈر سے  تقریبا 17 کلو میٹر پر واقع ہیں. ادلب ڈویژن کی سرحد مغرب سے ترکی ، مشرق سے حماۃ ڈویژن اور شمال سے حلب اور جنوب سے لاذقیہ ڈویژن سے ملتی ہیں. فوعہ اور کفریا نے مقاومت اور قربانیوں کی عظیم مثالیں رقم کی ہیں. انکے صبر واستقامت کی وجہ سے ادلب  ڈویزن کو مکمل طور پر تکفیریوں دھشگردوں کے قبضے میں نہیں آ سکا.  یہ لوگ کہ جنکے 80% گھر دہشتگردوں کی بمباری سے تباہ ہو چکے  ہیں.  انکی امداد کا کوئی راستہ نہیں. تقریب50 کلو میٹر دور تک  سیرین آرمی کا وجود نہیں. ان سب علاقوں پر سعودی ،امریکی اور ترکی واسرائیلی ایجنٹ قابض ہیں. دھشگردوں نے بجلی اور پانی کنکشن تقریبا اڑھائی سال سے کاٹ دیئے ہیں. چاروں اطراف سے ہزاروں بار انھوں  نے پوری طاقت کے ساتھ حملے کئے لیکن سلام ہو اس خطے کے بہادر عوام پر جنھوں نے ہزاروں شہید تو دئیے لیکن اپنی زمینی حدود کو ناپاک دشمن کے وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا اور زن ومرد اور پیر و جوان سب نے ملکر دفاع کیا۔

کبھی کبھی شام حکومت کے ھیلی کاپٹرز بلندی سے انکے لئے  امداد سامان پھینکتے ہیں.تو ضروریات زندگی اور علاج ومعالجہ کی دوائیں انہیں مل جاتی ہیں. اور کبھی یہ امداد بھی دشمن کے علاقے میں گرتی ہے یا انکے گولوں اور میزائلوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔

انھوں نے مریضوں اور زخمیوں کے علاج کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت بعض گھروں میں صحت کے مرکز بنائے. انھیں  بھی دشمن نے میزائلوں اور گولہ باری سے تباہ کر دیا ہے . جو سبزیاں اور اناج اپنی زمینوں میں کاشت کرتے ہیں وھی کھاتے ہیں اور جو مویشی پالتے ہیں انھیں سے ضروریات پوری کرتے ہیں  . پینے کے پانی کو نکالنے اور فصلوں کی سیرابی کے لئے پاور کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن بجلی، گیس،  ڈیزل اور پٹرول نہ ہونے کے سبب سابقہ ٹیوب ویل اور موٹریں نہیں چلتیں.وہ  اب نئے کنویں خود کھود کر کچھ پانی دیسی طریقوں سے  نکالتے ہیں. بارود اور گرد غبار اور غذا کی قلت اور ادویات کی عدم فراھمی وجہ سے موذی امراض اور وبائیں پھیل رہی ہیں. انکی کسمپرسی کا کوئی پرسان حال نہیں. ہزاروں رپورٹس انسانی حقوق کے دعویداروں اور اقوام متحدہ کو باقاعدہ مل چکی ہیں. لیکن ان کا قصور یہ ہے کہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں. اس لئے دنیا نہ انکے انسانی حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور نہ کلمہ شھادت پڑھنے کے باوجود انکے مسلمانی حقوق کو قبول کرتا ہے۔

حلب کے عوام کی جھوٹی اور من گھڑت مظلومیت پر واویلا کرنے والے بین الاقوامی اور مقامی میڈیا چینلز اور انسانی حقوق کے علمبردار نام نہاد  علماء وخطباء سیاسی ومذھبی جماعتیں اور شخصیات اور حکومتیں کیوں گنگ اور خاموش ہیں. کیوں ان مظلوموں کو سوشل میڈیا اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں کوریج نہیں دیتے.
یہ لوگ بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہم کربلا والے ہیں. بنی امیہ کے فوجیوں نے کل 61 ہجری کو کربلا کے ریگزار پر فرزند رسول خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا محاصرہ کیا تھا اور پانی بھی بند کیا تھا.جوانان جنت کے سردار کو اپنے اس زمانے کے میڈیا میں باغی بنا کر شھید کیا تھا. اور دختران رسول کریم  کے خیموں کو چاروں طرف سے آگ لگائی اور انکے خیموں کو راکھ کیا تھا. آج تاریخ ایک بار پھر دھرائی جا رہی ہے. کہتے ہیں کہ ہم اس حصار، آگ وبارود سے گھبرانے والے نہیں.  اور اس زمانے کے یزیدی لشکر کا مقابلہ اپنے آقا ومولا اور انکے اصحاب با وفا کی طرح ڈٹ کر کریں گے. اور اپنے وطن کے دفاع اور اپنی ملت کی عزت و کرامت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ میدان کربلا عصر میں پیش کریں گے۔

آج ہر غیرتمند اور با ضمیر انسان اور مسلمان کی زمہ داری ہے کہ وہ انکی صداء ہل من نا صر ینصرنا اور ھل من مغیث یغیثنا ، پر لبیک کہے. اور دنیا کی نگاھوں سے اوجھل ہونے والے اس ظلم کو آشکار کرے. یہ دو قصبے تکفیریت اور دھشتگردی کے سمندر کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت اختیار کر چکے ہیں. آئیں ان ہزاروں انسانوں اور مسلمانوں کو بچانے کے لئے بھرپور آواز بلند کریں.  تاکہ عالمی ضمیر جاگ کر انہیں بچانے کے اقدامات کرے.  اور دھشتگردی کا خاتمہ ہو. اور ظالمانہ حصار کی زنجیریں پاش پاش ہو جائیں۔

تحریر۔۔۔ علامہ  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) زوال کسی کا مقدر نہیں، لیکن زوال ہر کسی کو آسکتا ہے، کوئی بھی  شخص یا ادارہ جب حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پلاننگ میں ضروری تبدیلیاں نہیں لاتا تو زوال اس کا مقدر بن جاتاہے۔ اسی ہفتے کی بات ہے،افغان پارلیمنٹ کے سامنے خود کش حملہ ہوا، حملے میں ۴۰ کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے،مرنے والوں میں فغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے مقامی سربراہ بھی شام تھے۔  ذرائع ابلاغ نے  اس دھماکے کو کابل میں ہونے والے  بدترین دھماکوں میں سے ایک قرار دیا۔  دھماکے کی زمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بخوشی قبول کرلی، اگلے روز  دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اپنے بیان میں کہا کہ  بھارت افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اس کے  بعد اگلے روز ہی  افغانستان میں پاکستان ایمبیسی کے سامنے افغانیوں نے مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے پاکستان اور پاکستان آرمی  کے خلاف نعرے بازی کی،جس کے بعد مظاہرین  نےایمبیسی میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی۔

اس واقعے سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکاری کامیابی کی طرف جارہی ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی سفارتکاری روبہ زوال ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی روز اول سے ہی بڑی طاقتوں کے دباو کی شکار ہے۔بڑی طاقتیں ہماری خارجہ پالیسی سے اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں اور پھر کنارہ کش ہوجاتی ہیں۔ طالبان کے مسئلے میں بھی ہمارےساتھ ایسا ہی ہوا۔ ہم نے امریکی پلاننگ کے تحت دینی مدارس میں طالبان کی فصل بوئی ،امریکہ نے اس سے فائدہ اٹھایا اور پھر طالبان کو دہشت گرد کہہ کر الگ ہوگیا۔ اب طالبان کے وجود کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

افغانی عوام جہاں ہمیں طالبان کا سرپرست سمجھتے ہیں وہیں افغانستان میں بد امنی کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں نے حالات کے ساتھ پلاننگ نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  طالبان کی بھی ایک بھاری  اکثریت ہمارے خلاف ہوگئی اور افغانی عوام بھی ہم سے بد ظن ہوگئے۔

طالبان کی طرف سے پاک فوج کو ناپاک فوج کہنا،پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے کاٹنا اور پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنا ہماری ناکام  خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ہماری داخلہ پالیسی بھی اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہے۔ہمارے ہاں طالبان کے ساتھ نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں۔نیشنل ایکشن پلان فقط کاغذی کاروائی تک محدود ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے 94 مشکوک مدارس پر پابندی کیلئے وفاق کو خط لکھا تھا لیکن ہماری  وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے جن مدارس کی فہرست وفاقی حکومت کو دی تھی وہ صرف سندھ  میں ہی نہیں بلکہ فاٹا اور دیگر صوبوں میں بھی واقع تھے۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ مشکوک مدارس جس صوبے میں بھی ہیں ان پر پابندی لگنی چاہیے چونکہ یہ آپس میں مضبوط نیٹ ورکنگ کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت فقط اپنی حدود تک محدود رہے۔

یعنی داخلی طور پر مشکوک مدارس اپنا کام کررہے ہیں اور خارجی طور پر افغان عوام ہم سے بد ظن ہو ہے ہیں۔ افغانستان جیسے برادر ہمسایہ ملک کے لوگوں  کا ہم سے نالاں ہو جانا کسی طور بھی ہمارے حق میں نہیں۔

افغانستان کے لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کا کیا مقام ہے اور آئندہ  وقتوں میں پاک افغان تعلقات کس طرف جارہے ہیں،  اس کا اندازہ پاکستان ایمبیسی پر افغانیوں کے حملے سے ہمیں ہوجانا چاہیے۔

ہمیں ہر قیمت پر اٖفغان عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اپنی طالبان پالیسی پر فوری نظر ثانی کرنی چاہیے۔   جو حال ہماری وزارتِ خارجہ کا ہے وہی وزارت داخلہ کا بھی ہے۔

ملک میں ایک عرصے سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گمشدگی  وزارت داخلہ کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔بعنوان نمونہ عرض کروں کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق  گزشتہ برسوں میں عدالت  نے محترم  خواجہ آصف کو 35 لاپتہ افراد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا  تھاجو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں تھے۔ وزارت دفاع نے ٹال مٹول کرکے 7 دسمبر 2013ء کو 14 افراد کو پیش کیا  تھاجن میں سے صرف 6 کی شناخت ہو سکی  تھی۔

ابھی صرف اس مہینے میں کئی ایسے بلاگرز بھی لاپتہ ہوگئے ہیں جو انسانی حقوق کی بات کرتے تھے۔ ایک اسلامی اور جمہوری ملک میں لوگوں کی اس طرح سے گمشدگی بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری سے اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس  ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، سوشل میڈیا پر فعال شخصیت  احمد وقاص گورایہ اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں،  احمد رضا نصیر سات جنوری سے لاپتہ ہیں۔

یہ ہماری وزارت داخلہ اور خارجہ کی کارکردگی ہے ، ہم کئی سالوں سے مسلسل دشمن تراشی اور دشمن سازی میں مصروف ہیں، ہم نے اپنے ہی جوانوں کو طالبان بنا کر اپنا دشمن بنایا، اب ہم اپنے ہی جوانوں کو اغوا اور لاپتہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے  سینکڑوں جوان ملکی و غیر ملکی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، بہت سارے ایسے ہیں کہ جو جرم کرنے سے انکاری ہیں لیکن انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے اور بہت سارے ایسے ہیں کہ جو طالبان  ہونےپر فخر کرتے ہیں اور وہ سر عام دندناتے پھرتے ہیں،  ہماری وہ توانائیاں جو بد عنوان اور کرپٹ عناصر کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھیں اپنے ہی جوانوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں ۔

اگر اس ملک کو بچانا ہے تو اس کے جوانوں کو بچائیے ، اس ملک کے جوانوں  کے لئے منصوبہ بندی کیجئے ، اس ملک کے تعلیمی اداروں سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ کیجئے، اس ملک کے ہسپتالوں میں لوگوں کو زبردستی سٹنٹ ڈالنے والوں کے خلاف کاروائی کیجئے۔

ہمارے اعلی حکام کو اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے  حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دینی  چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے جوان ہمارا سرمایہ ہیں ہمارے دشمن نہیں ہیں۔  اگر ہمیں انہیں طالبان کی انڈسٹری میں ڈال کر دہشت گرد بنائیں گے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی  کامیاب نہیں ہوگی اور اگر ہمیں انہیں اغوا اور لاپتہ کرتے رہیں گے تو ہم داخلی طور پر کبھی بھی مضبوط نہیں ہوسکتے۔

ہمارا عروج و زوال ہمارے  پروردگار اور ہمارے ملک کے جوانوں کے ہاتھ میں ہے،  بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں۔

 

 

 


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کے قیام کا مقصد اگرچہ ایک ایسے جداگانہ وطن کا حصول تھا، جس میں تمام تعصبات بالخصوص مذہبی تفریق و تقسیم سے بالاتر ہو کر تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے آزادی ہو اور وہ بے خوف و تردید نیز کسی تعصب کا شکار ہوئے بغیر اپنے عقیدے و مذہب کیمطابق اپنی عبادات کو انجام دے سکیں، اقبال و قائد رحمۃ اللہ کے خیال و فکر میں یقیناً ایسا ہی پاکستان اور ہندوستان سے جدا وطن کا حصول تھا، مگر بدقسمتی سے حضرت اقبال قیام پاکستان سے بہت پہلے اور قائد اعظم قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد نوزائیدہ مملکت کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کے داغ مفارقت دے گئے، جس کے بعد ہمارے پیارے پاکستان کو ایسی نظر لگی کہ آج تک ہم تعصبات و تنگ نظریوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تعصب نے ہم سے ایسے ایسے گوہر نایاب چھین لئے کہ جن کا متبادل ہمیں دکھائی نہیں دیا۔ ان شہداء، چمکتے ستاروں اور پاک سرزمین کے فرزندان میں علماء بھی ہیں اور بزرگان بھی، ڈاکٹرز بھی ہیں اور وکلا بھی، اعلٰی آفیسرز بھی ہیں اور خطیب بھی، شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، پروفیسرز بھی ہیں اور انجینئرز بھی، طالبعلم بھی ہیں اور تاجر بھی۔ الغرض اس تعصب و تنگ نظری کا شکار ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائی قیمتی اور ملک کے حقیقی خدمت گذار نظر آتے ہیں۔

یہ فہرست بہت طویل ہے، کس کس کا نام لیں، کس کو روئیں، کس کس کا ماتم کریں، یہ ایک دو دن کی بات نہیں، کم از کم پینتیس برس کی لہو رنگ داستان ہے، جسے سنانے کیلئے بہت وقت درکار ہے اور لکھنے کیلئے کتابوں کا بار، انہیں میں سے ایک سید محسن نقوی ہیں، جن کا اصل نام سید غلام عباس تھا، ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تھا، محسن نقوی نے 6 مئی 1947ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں سید چراغ حسن نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی، مگر محسن نقوی نے اپنا مسکن و رہائش لاہور کو پسند فرمایا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعہ کلام چھپا، جس کے بعد ان کی شہرت و نام میں بلندی دیکھی گئی، اسی دوران وہ لاہور منتقل ہوگئے، جہاں 15 جنوری 1996ء کو انہوں نے لاہور کی معروف مون مارکیٹ دبئی چوک میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پائی۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

سید محسن نقوی کو بطور ایک شاعر دیکھیں یا ایک بلند پایہ خطیب کے طور پر سٹڈی کریں، ان کی شخصیت کو ایک ادیب کے طور پر سامنے رکھیں یا ایک مداح اہلبیت ؑ کے طور پر، انہیں ایک قومی رہنما کے طور پہ دیکھا جائے یا ایک سیاستدان کے طور پہ، محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری انہیں ان سب حیثیتوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ شاعر تھے، غزل گو تھے، مگر ان کی نظمیں بھی لافانی ہیں، وہ شاعری میں منفرد حیثیت و مقام کے حامل تھے، انہیں آپ جب جب پڑھیں گے، ان کے کلام سے نئی ضوفشانیاں پائیں گے، وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر ناصرف خوبصورتی سے پورے اترتے نظر آتے ہیں، بلکہ ہر ایک صنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دینگے۔ ان کی شاعری میں آپ کو مقتل، قتل، مکتب، خون، گواہی، کربلا، ریت، فرات، پیاس، وفا، اشک، صحرا، دشت، لہو، عہد، قبیلہ، نسل، چراغ، خیمہ جیسے الفاظ، جن کا تعلق کسی نا کسی طرح کربلا اور اس سرزمین پر لکھی گئی ان کے اجداد کی حریت و آزادی کی بے مثال داستان سے ہے، بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ کربلا کی تپتی زمین پر قربانی کی جتنی داستانیں لکھی گئی ہیں، محسن نقوی نے ان کو کسی نا کسی رنگ و آہنگ میں اپنا موضوع بنایا ہے اور انہیں اپنے تئیں زندہ کرنے اور نئے پہلو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔

ذرا اس کلام میں دیکھیں کہ کربلا سے درس حریت اور احساس زندگی لینے والا یہ مسافر کربلا، کس طرح حالات حاضرہ دیکھ کر، اس کا احساس کرکے اسے اپنے رنگ میں اجاگر کر رہا ہے۔۔۔۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
آج بھی ہمارے ملک میں صورتحال ویسی ہی ہے، جیسی آج سے کئی برس پہلے شہید محسن نقوی نے محسوس کی تھی۔ ہر سو بے گناہوں کا لہو بہایا جا رہا ہے اور درد و الم کی داستانیں گھر گھر اور شہر شہر رقم ہو رہی ہیں۔ اب کوئی معزز نہیں رہا، کوئی تہذیب نہیں رہی، کوئی توقیر نہیں رہی، احساس مر چکا ہے، عزتین پائمال کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر شام خون آشامیوں کی تاریک راتوں کیساتھ سامنے آتی ہے، محسن جیسا حساس شاعر اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، لہذا وہ اس پر بہت ہی اداس ہوا، اگر اس کی شاعری میں قتل، مقتل، بھرے بازار جیسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں تو یہ اس کے اندر کا کربلائی ہونا ہے، جو کسی بے گناہ کے قتل پر اپنا دھیان الگ نہیں کرسکتا۔ انسان کو فکر معاش کے ذریعے جس طرح لاتعلق رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، وہ ایک باشعور فرد ہونے کے ناطے اس سے آگاہ کر رہے تھے کہ
رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
اور پھر محسن کا دردمند دل یہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیرِ خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

ذیل میں جس کلام کو پیش کر رہے ہیں، اسی میں دیکھیں کہ کتنے استعارے اور الفاظ ایسے ہیں، جن کا تعلق صحرائے کربلا پر لکھی تاریخ کی عظیم ترین داستان عشق سے ہے۔
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
شہید محسن نقوی اگرچہ عام مشاعروں میں زیادہ نہیں دیکھے جاتے تھے اور ایسے مشاعرے و پروگرام جن کا خاص مقصد یا خاص ایجنڈا حکومتی یا کسی خاص ادبی گروہ یا سوچ و فکر کی ترویج ہوتا تھا، ان سے دور ہی دکھائی دیتے تھے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ عوامی سطح پہ روزانہ کئی کئی مجالس پڑھتے تھے، جن میں ہزاروں لوگ ان کے سامع ہوتے تھے اور ان کو داد و تحسین دیتے تھے۔ مجالس میں انہیں لوگ بے حد عقیدت سے ملتے تھے، محسن کو بھی اپنے انہی چاہنے والوں سے محبت تھی۔ وہ کو بہ کو، شہر بہ شہر جاتے اور مجالس میں شریک ہوتے، اپنے خوبصورت عقیدت بھرے افکار سے لوگوں میں محبت اہلبیت کے چراغ جلاتے۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، اگرچہ وہ ایوارڈز اور عہدوں سے بہت بلند مقام رکھتے تھے، مگر یہ ان کی فکر کی ترویج و تسلیم کا ایک ذریعہ تھا۔ وہ بہرحال اپنے دور کے سب سے موثر قادرالکلام شاعر تھے، جنہیں عوامی پذیرائی اور محبتیں حاصل تھیں۔

مزاحمتی شاعری، جس کا ہدف عوامی شعور کی بیداری، غیر عادل حکمرانوں کا احتساب اور انصاف و مساوات قائم کرنا ہوتا ہے، محسن نقوی کے ہر کلام میں اپنے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انداز کے حامل نہیں تھے، مگر ان کا طرز تخاطب اور انداز تحریر زمانہ حال و مستقبل سے ہم آہنگ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان کی شاعری کو آج پڑھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ آج کے حالات پر لکھی گئی ہے۔۔۔۔
منصب بقدر قامت کردار چاہیئے
کٹتے ہوئے سروں کو بھی دستار چاہیئے
اک صبح بے کفن کو ضرورت ہے نوحہ گر
اک شام بے ردا کو عزادار چاہیئے
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصف کو صرف اپنا طرفدار چاہیئے
اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہا خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
اور اسی کلام میں یہ شعر ملاحظہ کریں، کس طرح یہ مرد مجاہد اپنے نہ ہونے کی خبر دیتے ہوئے اپنے افکار کی ترو تازگی کی بات کر رہا ہے۔۔۔
آئندہ نسل مجھے پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا

ان کی سیاسی ہمدردیاں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ تھیں، محسن نقوی کی پارٹی سے بے لوث محبت اور انتھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے غریبوں کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں محسن نقوی کو پارٹی ٹکٹ دیا، مگر بدقسمتی سے یہ انتخابات ملتوی ہوگئے۔ جن دنوں ڈیرہ غازی خان کے فاروق لغاری بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے، وہ ان کی حکومت میں مشیر بھی بنائے گئے، جبکہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسیری اور پہلی حکومت گرائے جانے پہ ایک لافانی نظم لکھی، جسے ایک عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے جلسوں میں خاص طرز و ترنم میں پڑھا کرتے تھے۔ اس نظم کا عنوان "یااللہ یارسول بے نظیر بے قصور تھا" اسی طرح انہوں نے ایک اور لافانی کلام بھی لکھا، جسے وہ مجالس میں پڑھا کرتے تھے، اس نظم میں کالعدم تکفیری گروہ کی حقیقت بیان کی گئی تھی، اس کے بول کچھ یوں تھے۔۔۔۔
کل شب کو خواب میں میرے دور پرفتن
دیکھی یزیدیت کے قبیلے کی اک دلہن
آئی صدا اس کے مقابل کرو جہاد
دیکھیں یہ ہے سپاہ صحابہ کی انجمن
محسن نقوی نے چند ایک فلموں کیلئے بھی گیت لکھے، مگر وہ فلمی دنیا کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھے، البتہ ان کی غزلیں بالخصوص ؛آوارگی؛ کو معروف گلوکار غلام علی نے گایا، جو بہت پسند کی گئی۔ محسن نقوی نے قومیات میں بھی اپنا حصہ ڈالا، اسلام آباد کے معروف معرکہ جس میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی گئ
وہ سٹیج پر موجود تھے اور اپنے کلام و افکار و انداز سے عوام کو گرما رہے تھے۔ محسن نقوی کی شہادت کے بعد ان کے فرزند سید عقیل محسن نے ان کی مسند مجالس سنبھال رکھی ہے، جو ملک بھر میں اپنے باپ کے نام کیساتھ پہچانے جاتے ہیں۔

تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس نازک دور میں امت اسلامیہ کو بہت سے مسائل درپیش ہیں ، جن میں ایک اھم مسئلہ " دھشتگردی "  ہے. اور اس کے خاتمے کیلئے ہر سنجیدہ کوشش قابل قدر ہے.  اس کے علاوہ بھی دو اہم مسائل میں ہم عرصہ دراز سے مبتلا ہیں.ایک مقبوضہ فلسطین کا مسئلہ اور دوسرا مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ہے . اہمیت کے لحاظ سے یہ دہشتگردی کے ناسور سے کم نہیں.شاید اگر یہ مسائل حل ہو جاتے تو دہشتگردی بھی کافی حد تک محدود ہو جاتی.  البتہ انکے علاوہ جہالت ، فقر و فاقہ اور صحت کی سہولیات کا فقدان جیسے بنیادی مسائل بھی بہت اہم ہیں.

پاکستانی قوم کو حکمرانوں نے کرپشن اور پانامہ لیکس جیسی ٹنشن میں ہمارے سیاستدانوں ، اداروں، میڈیا اور عدلیہ نے مصروف کیا ہوا تھا. اور تمام تر دلائل ، ثبوت اور اسناد واعترافات کے باوجود وہ ہمیں قانون کی بے بسی کا تماشا دکھا رہے تھے. اور دوسری طرف غیر ملکی نفوذ کے سبب حکمران طبقہ اپنے مخصوص طرز فکر اور ذاتی مفادات کی خاطر پاکستانی عوام کے نمائندہ اور نظام پاکستان کا اعلی اختیاراتی ادارے "پارلیمنٹ " کے فیصلے کے بر عکس اور اسکے ماوراء کھچڑی پکانے میں لگا ہوا تھا .  کہ اچانک ایک غیر ملکی خصوصی طیارہ حال ہی میں ریٹائرمنٹ حاصل کرنے والے آرمی چیف کو سعودی عرب لے گیا. اور پاکستانی ملک وقوم کے مفادات کو پس پشت ڈال کر دھشتگردی کے خاتمے کا  دعویدار سابق آرمی چیف ، دھشتگردی کی بنیاد رکھنے والے اور نفرتیں اور تکفیریت پھیلانے والے اور یمن و بحرین میں فوجیں اتارنے والے اور اسی طرح لیبیا ، تیونس ، مصر ، شام وعراق میں امریکی اشاروں پر ان ممالک کو تباہ کرنے میں بنیادی رول ادا کرنے والے ملک سعودی عرب کے نام نہاد فوجی اتحاد کا سربراہ بن گیا.

جس طرح پاکستانی مفادات پر مسلکی اور مخصوص طرز فکر اور غیر ملکی آقاوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ضیاء الحق دور میں سیاہ کمروں میں پاکستانی سالمیت کے خلاف  فیصلے ہوئے تھے.  اور ان کا خمیازہ پورا پاکستان گذشتہ 37 سال سے بھگت رھا ہے. آج اگر ایک بار پھر  یہ فیصلے اسی پالیسی کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو پاکستان کو مزید 37 سال نئے پیدا کردہ بحرانوں سے گزرنا پڑے گا.

پاک آرمی کے سابق چیف ایک نام نہاد  39 اسلامی ممالک کے مشترکہ عسکری الائنس کے سربراہ بنے ہیں. ہر محب وطن اور درد مند شہری آج پریشان ہے اور ان کے اذھان میں مختلف سوالات ابھر رہے ہیں. جن کی وضاحت اگر حکمران کر دیں تو شاید عوام کی بے چینی میں کچھ کمی آ سکتی ہے.

1- کیا واقعا اسلامی ممالک نے ملکر یہ  عسکری اتحاد  بنایا ہے؟  یا یہ سعودی شہزادوں کی ذاتی سوچ ہے؟

2- اس الائنس میں شریک ممالک کا تاسیسی اجلاس کس شہر میں، کس تاریخ کو ہوا ؟ .اور اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے کون کون شخصیات نمائندگی کر رہی تھی. اور پاکستانی کی طرف سے کس نے کی.؟ اور اسکے اہداف کیا کیا ہیں.؟

اگر کوئی یہ کہے گا کہ ایسا کوئی اجلاس منعقد ہوا تو پھر یا تو یہ کہنے والا قوم سے جھوٹ بولے گا یا ہماری وزارت خارجہ امور جھوٹی ثابت ہوگی.کیونکہ جب پاکستان کی اس الائنس میں شرکت کا سعودی حکام نے اعلان کیا تھا تو کئی ممالک کی طرح ہماری وازرت خارجہ  نے لا علمی کا اظہار کیا تھا. بحر کیف پاکستانی قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟

3- اتنا بڑا  فیصلہ پاکستانی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر کیوں کیا گیا. اور اس میں کیا مصلحت تھی؟

4- امت مسلمہ کے مذکورہ اہم مسائل من میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ہے. اس میں یہ عسکری اتحاد کیا کردار ادا کرے گا . اس کی وضاحت کی جائے ؟

5- داعش ، القاعدہ ، طالبان اور لشکر جھنگوی عالمی وغیرہ کی مدد کرنے والے سعودی عرب نے کیا اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا اعلان کیا؟ اور انکی مدد کرنے والے  ممالک کے خلاف کیا پالیسی ہو گی.؟

6- خطے میں ان دہشتگردوں کے خلاف عملی طور پر لڑنے والے ممالک جیسے عراق ، شام اور ایران کو اتحاد سے باھر کیوں رکھا گیا. ؟

7- سابق آرمی چیف تو  انہیں دھشتگردوں کو ختم کرنے کے دعوے کر رہے تھے. انہوں نے انکے خلاف لڑنے والوں کی بجائے انکے بانی اور انکی مدد و تقویت کرنے والوں کے اتحاد کی سربراہی کیوں قبول کی؟ وہ ہمارے ہزاروں سویلین اور آرمی کے شہداء کے ورثا کو کیا جواب دیں گے؟

8- سعودی حکومت کی نوکری کے بعد اب سب جرنیلوں اور عام عوام کے لئے قانونی طور پر  دروازہ کھول دیا گیا ہے کہ وہ اب کسی بھی غیر ملکی فوج میں جاکر جہان چاہیں کمانڈ کر سکتے ہیں اور لڑ سکتے ہیں. کیا اس پالیسی کے تحت ہمارا ملک طاقتور ہو گا یا کمزور؟

9- اگر او آئی سی ، اقوام متحدہ یا ہر وہ اتحاد جس کا پاکستان پورے احترام کے ساتھ ممبر ہوتا . اور اسکی سربراہی پاکستان کے پاس آتی تو پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہوتا. لیکن جیسا کہ میڈیا میں لکھا جا رھا ہے کہ فقط ریال کی خاطر ہماری آبرو بکی اور نواز حکومت نے بھی سعودی احسانات کا بل پاکستان کی عزت وقار کا اور پاکستانی قوم اور فوج کا وقار بری طرح مجروح ہوا . ہمیں بتایا جائے کہ ہم پاکستانی قوم پوری دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے.؟

10- پاکستان آرمی جس پر ہم ناز کرتے تھے جس کا پوری دنیا میں ایک مقام تھا. اسکا اتنا سستا سودا کیوں کر دیا گیا.؟ اور پاک آرمی میں تمام مسالک اور مذاہب کے افراد موجود ہیں .کیا وہابی اور دیوبندی سوچ کی بناء پر ایسے فیصلوں سے پاک آرمی کمزور ہو گی یا طاقتور؟  جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ سعودی اتحاد مسلکی اور فرقے کی بنیاد پر بنایا گیا.  کیا یہ فیصلہ کہیں پاک فوج میں  شگاف ڈالنے  اور پھوٹ پیدا کرنے کی سازش تو نہیں .؟

سوالات کا تسلسل بہت طولانی ہے لیکن انھیں دس سوالوں پر ابھی اکتفاء کرتے ہوئے حکمرانوں کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ سوچیں آج اس اتحاد میں شمولیت اور اسکی سربرہی قبول کرنے کی حمایت پاکستان میں وہ قوتیں کر رہی ہیں جنکے خلاف آپریشن جاری تھا یا جو ان دھشگردوں کے سہولت کار ہیں. اور وہ پاکستانی شیعہ وسنی عوام اور اقلیتیں جو فوج کی اس آپریشن میں حمایت کر رہی تھیں وہ آج اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں. اور نیشنل ایکشن پلان اور جاری آپریشن کے بر عکس یہ فیصلہ ہماری قومی سلامتی اور امن وامان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے.


تحریر۔۔۔۔۔۔علامہ   ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree