آزادی۔۔۔ قوم قید اور دہشت گرد آزاد

18 فروری 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) بعض خبریں منحوس ہوتی ہیں،آزادی کا غلامی میں تبدیل ہوجانا بھی ایک منحوس خبر ہے،  کئی سال پہلے میں منحوس خبریں پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر تھک چکا تھا، ہر روز ایک خبر آتی تھی کہ فلاں جگہ کسی مخصوص فرقے کا  کوئی ڈاکٹر، پروفیسر یا عالم دین ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گیا ہے یا فلاں شہر میں مجلس عزا پر حملہ ہوگیا ہے، پھر یہ سلسلہ  ایک مخصوص فرقے کےڈاکٹر، پروفیسر، وکیل ،عالم دین اور مجلس و امام بارگاہ سے بڑھ کر ان کی مساجد تک پھیل گیا ، اس وقت بھی مجھے تعجب ہوتا تھا ان لوگوں پر جو مساجد میں خود کش دھماکوں یا ٹارگٹ کلنگ کی مذمت نہیں کرتے تھے بلکہ دبے لفظوں میں کبھی کبھی خوشی کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چالیس پچاس لاشوں کے سرہانے ہمارے حکمران فقط یہ کہہ کر لوگوں کو تسلی دیا کرتے تھےکہ اس واقعے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔

دہشت گردوں کا ٹارگٹ کلنگ کرنا ، عبادت گاہوں  میں لوگوں کا مارے جانا اور اس خون خرابے پر بڑی بڑی اسلامی تنظیموںکا خاموش رہنا۔۔۔ یہ سب  دیکھ کر مجھے بہت اداسی ہوتی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے ملک میں اسلامی اخوت کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

رفتہ رفتہ ہماری آزادی غلامی میں بدلتی گئی  اور لوگ دہشت گردی کی زنجیروں میں جھکڑتے گئے، جہادی کیمپوں سے نکل کر دہشت گردہماری پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے گئے اور اسمبلیوں تک پہنچ گئے،  ہمارے حکمران دہشت گردوں سے مذاکرات کے بہانے انہیں مزید مضبوط کرتے رہے اورپھر دہشت گردی کا دائرہ  آگ کے شعلوں کی طرح مزید پھیلا اور عوام النّاس  کی طرف بڑھنے لگا،  اہم قومی و ملکی شخصیات نیز اولیائے کرام کے مزارات بھی اس کی زد میں آنے لگے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس کے جوانوں کوبھی مارا جانے لگا اور ان کے گلے کاٹے جانے لگے۔۔۔  تو اس وقت آہستہ آہستہ لوگوں نے بھارت کے بجائے اپنے میٹھے میٹھے مجاہد بھائیوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا  اورتب لوگوں کو یہ بات بخوبی سمجھ آ گئی کہ ہمیں بھارت سرکار نہیں بلکہ اپنے ہی غدار مار رہے ہیں۔اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، دہشت گردی کا دائرہ مزید   پھیلتا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ سیہون شریف میں  ایک دھماکے میں ۸۸ افراد مارے گئے ہیں۔

مارے جانے والوں اور زخمیوں کے لواحقین مسلسل پولیس اور حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کئے ہوئے ہیں اور مظاہر ے کر رہے ہیں۔  گزشتہ روز جب ہمارے وزیراعظم صاحب زخمیوں کو پھول تھما رہے تھے تو باہر مظاہرین پر پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ تصور جوادی پر قاتلانہ حملے کے بعد آزاد کشمیر میں بھی لوگوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔

دہشت گردی کا وہ  سلسلہ جو ایک مخصوص فرقے کے قتل سے شروع ہوا تھا آج قتلِ عام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اب صورتحال بہت بدل چکی ہے، جب پہلے لوگ مارے جاتے تھے تو انہیں ہلاک کہا جاتا تھا  لیکن اب مارے جانے والوں کو شہید کہا جاتاہے، اُس وقت کہا جاتا تھا کہ بھارت مروا رہا ہے لیکن اب بے چارے افغانستان کو کوسا جاتا ہے، اس وقت ہمارے حکمران کہتے تھے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور اب کہتے ہیں کہ ہم خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے، کل تک کہتے تھے کہ  جلد دہشت گردی پر قابو پالیا جائے گا اب کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، کل تک ہمارے ہاں کی مذہبی تنطیمیں ان واقعات کی مذمت نہیں کرتی تھیں لیکن اب مذمت کرنا ان کی مجبوری بن چکی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کاحل یہ نہیں کہ ہمارے حکمران  دہشت گردی کا ذمہ دار کبھی بھارت کو قراردیں  اور کبھی افغانستان کو،  کبھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کریں  اور کبھی ان کی ٹوٹی ہوئی کمر کا مساج کریں، کبھی مذہبی تنظیموں سےان کی سرپرستی کروائیں اور کبھی ان کی  مذمت کروائیں ،  کبھی دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں کریں اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کا ڈھونگ رچائیں۔

اس مسئلےکا حل یہ ہے کہ  جس طرح بعض دہشت گردوں کو اسٹریٹجک سرمایہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح  فوج ، پولیس اور عوام کو بھی قومی اور ملی سرمایہ سمجھا جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔  اس کے علاوہ ہمیں بھارت یا ہندوستان کو کوسنے کے بجائے یہ تسلیم کرنا  چاہیے کہ ہم جن سانپوں کو دودھ پلاتے رہے  ہیں اب انہوں نے ہی ہماری ملت کا خون پینا شروع کر دیا ہے۔ لہذا ہمیں  جہاں بھارت اور افغانستان سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے وہیں  اپنے ملک میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں  اور دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کو سیاسی ،حکومتی اور سرکاری پوسٹوں سے ہٹانے کی بھی ضرورت ہے۔

آج ہماری آزادی دہشت گردوں کی غلامی میں بدل چکی ہے، ہماری اسمبلیوں، مدارس اور جہادی کیمپوں میں دہشت گردوں  اور ان کے سہولت کاروں کی  بھر مار ہے۔ ہماری قوم اپنے قومی و مذہبی تہوار بھی آزادی سے نہیں منا سکتی، لوگ آزادانہ مساجد اور مزارات پر بھی نہیں جا سکتے، قوم کے نونہالوں کو سکولوں میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یوم القدس کی ریلیاں اور عید میلاد النبی ؐ سمیت حتی کہ نماز پنجگانہ بھی ادا نہیں کر سکتے۔ جن مشکلات سے نجات کے لئے ہماری ملت نے انگریزوں اور ہندووں کے خلاف قیام کیا تھا آج وہی مشکلات  ہماری ملت کو نام نہاد مجاہدین  کی طرف سے درپیش ہیں۔اس مسئلے کا مختصر اور آسان حل یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف گلی کوچوں سے شروع ہونے والے ہر آپریشن کا دائرہ اسمبلیوں اور سرکاری ملازمین تک پھیلایا جائے اور ہر سطح پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ہمیں بحیثیت قوم مل کر ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree