پارہ چنار۔۔۔ناکامی سے کامیابی کا سفر

04 اپریل 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) ناکامی ہی کامیابی کا زینہ ہے۔ انسان ناکامیوں سے سیکھتا ہے۔ سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ناکامی کے اسباب کو سمجھا جائے۔ پارہ  چنار میں حالیہ بم دھماکہ پہلا یا آخری نہیں ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ  پارہ چنار میں ہونے والا نواں  دھماکہ ہے اور جغرافیائی لحاظ سے  پارہ  چناراسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

 اس کی ریاستی اہمیت یہ ہے کہ یہ کرم ایجنسی کا دارالحکومت ہے اور پاکستان کی تمام ایجنسیو ں میں دلکشی کے اعتبار سے منفرد اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا شہر ہے۔

دفاعی طور پر  پارہ  چنار انتہائی حساس علاقہ ہے ، چونکہ اس کے  ساتھ تین طرف سے افغانستان کا بارڈر لگتا ہے جبکہ صرف ایک طرف سے یعنی فقط  مشرق  کی طرف سے یہ علاقہ پاکستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

یہ اس علاقے کے لوگوں کی پاکستان سے محبت اور نظریاتی وابستگی ہی ہے جس نے اس علاقے کو پاکستان کے ساتھ ملا کر رکھا ہوا ہے۔

دشمن طاقتوں نے ہر دور میں اس علاقے کو پاکستان سے جدا کرنے کی  اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی ہے ۔ سال ۲۰۰۵ میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس علاقے کو  زمینی طور پر  بنگلہ دیش کی طرح پاکستان سے کاٹ کر الگ کردیاگیا۔اس دوران  یہاں کے لوگ  ایک لمبا چکر کاٹ کر افغانستان سے ہو کر  پارہ چنار پہنچتے رہے۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ  ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملک دشمن عناصر ، یہاں کے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے جسموں کے ٹکڑے کرتے رہے اور انہیں لاپتہ کرتے رہے۔ چنانچہ آج بھی یہاں کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد لاپتہ ہے۔  اس کے علاوہ  حسبِ ضرورت ، افغانستان سے اس علاقے پر میزائل بھی داغے جاتے ہیں، یہاں پر میزائل داغنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ملکی دفاع کی کے لئے ایک کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان ساری مشکلات کے دوران یہاں کے باسیوں نے  آج تک وطن کی سلامتی پر کسی طرح کی آنچ نہیں آنے دی۔  چاہیے تو یہ تھا کہ پورا پاکستان مل کر یہاں کے عوام کی ہر ممکنہ مدد کرتا اور انہیں یہ احساس دلاتا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

حق بات تو یہ ہے کہ آج تک  پارہ چنار کے لوگ ، افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا مقابلہ تن تنہا کر رہے ہیں۔یہ ایک المیہ ہے کہ  جب یہاں کوئی  ناگوارواقعہ پیش آجاتا ہے تو پورے ملک کی سیاسی ، سماجی ،دینی اور سرکاری شخصیات چند مذمتی بیانات دینے کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور یوں یہ علاقہ دوبارہ فراموشی کی نظر ہوجاتاہے۔

اتنے اہم علاقے میں بار بار بمب دھماکوں کا ہونا ، صرف سیکورٹی اداروں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں کی  ہی ناکامی نہیں بلکہ  مجموعی اور قومی سطح پر ہم سب کی ناکامی ہے۔

ہمارا تعلق خواہ کسی اجتماعی، رفاہی، سیاسی یا مذہبی تنظیم سے ہو  یا پھر حکومتی سیٹ اپ  یا میڈیا سے ہو ، ہم سب مشترکہ طور پر   پارہ  چنار کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں۔

سیکورٹی کے حوالے سے ،  پارہ چنار کے عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان کا جاننا، اور ان کے  حل کے لئے حکومت کو تذکر دینا ، اور ان مشکلات کو حل کروانا یہ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔

ظاہر ہے جب ہم اپنی قومی ذمہ داری کو ادا نہیں کریں گے تو قومی سطح پر ناکام ہی ہوں گے۔ ایک دانشمند کے بقول کسی بھی حکومت یا تنطیم یا ادارے کی ناکامی کی چار وجوہات ہیں:۔

۱۔ تنظیمی یا سرکاری عہدوں کا بغیر اہلیت کے مل جانا۔

جب کسی ادارے میں صلاحیت اور اہلیت کے بجائے، رشوت ، دھونس ، چاپلوسی یا دوستی اور رشتے داری کی بنا پر مسئولیتیں تقسیم ہونے لگیں تو پھر مسئولین اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بظاہر مسئول تو بن جاتے ہیں لیکن عملا  صلاحیت کے فقدان کے باعث وہ کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کرپاتے اور اسی طرح منصوبہ بندی سے ان کی دلچسبی بھی نہیں ہوتی لہذا ایسے لوگ  فقط بیانات تک محدود رہتے ہیں۔  کوئی واقعہ پیش آجائے تو بیان دے دیتے ہیں اور اسی کو اپنی کارکردگی بناکر پیش کرتے ہیں۔جس ملک کی  کلیدی پوسٹوں پر بیٹھنے والے فقط بیانات تک محدود ہو جاتے ہیں تو پھر اس ملک کو ناکام ریاست بننا ہی پڑتا ہے۔

آپ نیشنل ایکشن پلان سے لے کر آپریشن رد الفساد کو ہی لے لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ فقط بیانات کی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ عملا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر سرکاری سطح پر عملا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تو پھر  اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے ہماری مذہبی  اور سیاسی تنظیموں نے ابھی تک کسی مشترکہ  پلاننگ کا اعلان کیوں نہیں کی!؟

یعنی ہمارے ہاں ہر طرف خواہ کوئی  سرکاری سیٹ اپ ہو یا غیر سرکاری ، یہاں ہر طرف مسئولین  موجود ہیں، لیکن اپنی مسئولیت سے عہدہ برا ہونے کا  مطلوبہ احساس  اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔

اس بات کو ہم  پارہ  چنار کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم لوگوں نے کس قدر اپنی مسئولیت کو ادا کیا ہے!؟

۲۔ ناکامی کا دوسرا سبب کاموں میں شفافیت کا نہ ہونا ہے۔

ہمارے ہاں فعالیت تو بہت انجام دی جاتی ہے لیکن کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ یہ جو فعالیت انجام دے رہے ہیں ، کیا اس وقت یہی فعالیت ہونی چاہیے!؟

مجازی فعالیت کر کے اصلی فعالیت پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔  مثلا اگر کسی ادارے کی طرف سے کہیں پر   تعلیم و تربیت کا کام کرنے کا عزم کیا جائے تو  اکثر اوقات چند   افراد آپس میں  مل کر اپنے ہی عزیزوں اور رشتے داروں  اور اپنی پارٹی یا تنظیم کے حوالے سے  افراد کی تعداد کو دیکھ کر ہی کوئی تعلیمی ادارہ کھولیں گے یا پھر سکالر شپ دیں گے۔بظاہر تعلیم و تربیت کے نام پر ہی فعالیت ہورہی ہوتی ہے لیکن در حقیقت  صرف اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔

 اسی طرح اگر کہیں پر لوگوں میں غربت و افلاس اور پسماندگی  کا مسئلہ ہو تو لوگوں کی اقتصادی و اجتماعی مشکلات کو حل کرنے ، نیز بیواوں اور یتیموں کی سرپرستی کے بجائے وہاں پر ایک مسجد یا مدرسے کی عمارت کھڑی کر دی جاتی ہے اور  تمام ممکنہ ذرائع سے روپیہ پیسہ جمع کر کے اس عمارت پر صرف کردیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں بڑی بڑی شاندار بلڈنگیں تو بن جاتی ہیں لیکن انہیں آباد کرنے کے لئے دوردراز سے بچوں کو لاکر بھرتی کیا جاتا ہے۔ یوں مقامی لوگوں کی حالت جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ بظاہر اس علاقے میں فعالیت تو ہو رہی ہوتی ہے لیکن مطلوبہ فعالیت پر گردو غبار ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم لوگ اداروں کی رپورٹس دیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ  یہ فعالیت اس علاقے کی ضرورت کو کس حد تک  پورا کرتی ہے!؟

فقط فعال ہونا کافی نہیں ہے بلکہ درست سمت میں فعالیت ضروری ہے۔ ہمیں  پارہ  چنار  کے حوالے سے بھی اپنی فعالیتوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے وہاں پر شہدا اور لاپتہ ہونے والے افراد کے یتیموں اور بیواوں کی سرپرستی کے لئے اب تک کیا عملی کام کیا ہے!؟

۳۔ ناکامی کا تیسرا سبب ایمانداری کا فقدان ہے۔

اگر قومی و ملی اداروں میں ایمانداری کے بجائے خانہ پری سے کام لیا جائے گا تو بلاشبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہمارے ہاں جس طرح سرکاری اداروں میں رشوت اور کرپشن کا دروازہ کھلا رہتا ہے اسی طرح غیر سرکاری اداروں میں بھی امور کی نظارت اور دیکھ بھال فقط برائےنام ہوتی ہے۔

جو لوگ نظارت اور دیکھ بھال پر مامور ہوتے ہیں ، ان کا منہ مختلف طریقوں سے بند کردیا جاتا ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں۔

ایسے ناظر اور مامور افراد، معاملات کا ایمانداری سے نوٹس لینے کے بجائے  فقط دستخط اور امضا کرنے والی  اور بیانات داغنے والی مشینیں بن جاتے ہیں۔چنانچہ  پریس ریلیز اورلیٹر پیڈز پر فقط ان کے نام چھاپے جاتے ہیں اور خطوط پر صرف ان کی مہریں ثبت کی جاتی ہیں۔  پارہ  چنار کے حوالے سے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم نے اس حوالے سے آج تک کسی کو  پارہ  چنار کی صورتحال پرناظر مقرر کیا تھا اور اس نے اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دیا ہے!؟

۴۔ناکامی کا چوتھا سبب ، احترام باہمی کا فقدان

ہمارے  اردگرد بہت سارے مخلص  اور انتھک محنت کرنے والے موجود ہوتے ہیں، لیکن ان  میں “دوسروں کے  احترام  کے“نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ وہ کام  تو بڑی محنت اور جانفشانی سے کرتے ہیں لیکن دوسروں کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ خود دوسروں سے کٹ جاتے ہیں بلکہ وہ جس ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں، اسے بھی دوسروں کی نظر میں منفور بنا دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ  کسی بھی ادارے کی جتنی خدمت کرتے ہیں اس سے زیادہ اس کے بارے میں نفرت پھیلا تےہیں۔

دوسری تنظیموں اور اداروں سے ہٹ کر خود ان کا اپنے ہی ادارے کے لوگوں  اور دوستوں کے ساتھ برتاو فرعونوں کی طرح کا ہوتا ہے۔  جب تک  ہمارے اداروں سے  من مانی، فرعونیت  اور انانیت کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔

 پارہ چنار میں قومی سلامتی کے حوالے سے ہماری ناکامی  کی ایک اہم وجہ  وہاں کی سرکاری انتظامیہ میں پائی جانے والی فرعونیت ہے۔  وہاں پر عوامی مطالبات کو اصلا اہمیت نہیں دی جاتی اور دھماکوں کے بعد ہونے والے مظاہروں پر بھی گولی چلا دی جاتی ہے۔

اب تک کتنے ہی لوگوں کو مظاہروں کے درمیان گولیاں مار کر شہید کیا گیا ہے لیکن اس فرعونیت کے خلاف ہماری سیاسی اور قومی تنطیمیں بالکل خاموش ہیں۔

جب تک ہم  پارہ  چنار میں فرعونیت کا راستہ نہیں روکیں گے تب تک وہاں امن و سلامتی کے حوالے سے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔

اگر ہم نے ناکامی سے کامیابی کی طرف سفر کرنا ہے تو پھر پارہ چنار کے حوالے سے فقط حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے ، ہمیں اپنی اجتماعی مسئولیت، شفافیت، ایمانداری اور باہمی ادب و احترام پر بھی  توجہ دینی پڑے گی۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اگر پاراچنار کی سلامتی کے حوالے سے ہماری قومی تنظیموں اور اداروں کے پاس کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہوتو اسے حکومت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے لیکن اگر ہماری کوئی پلاننگ ہی نہ ہوتو پھر ہمیں ابھی سے یہ جان لینا چاہیے کہ فقط بیانات سے ہم صورتحال پر قابو نہیں پا سکتے۔ بیانات دینا بھی ایک فعالیت ہے لیکن  یہ پاراچنار کے حوالے سے مطلوبہ فعالیت  نہیں ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree