وحدت نیوز(آرٹیکل)ایران اور اسرائیل اندر سے ملے ہوئے ہیں!
• ایران اور امریکہ اندر سے ملے ہوئے ہیں!
• ایران کبھی اسرائیل پر حملہ نہیں کرے گا!
• ایران اور بعض “عرب ممالک” کا اختلاف شیعہ سنی لڑائی کا شاخسانہ ہے!
• ایران و عراق کی جنگ شیعہ سنی جنگ تھی!
ایران نے بشار الاسد سے دوستی اس لیے کی کہ وہ علوی شیعہ ہے!
ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے!
ایران فلسطینیوں کی مدد اس لیے کر رہا ہے کہ وہ انہیں شیعہ بنانا چاہتا ہے!
یہ وہ چند بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈے ہیں جو امریکہ کے غلام عناصر کی جانب سے 1979ء میں شاہِ ایران کی حکومت کے سقوط اور امام خمینیؒ کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں۔ ان پروپیگنڈوں کی اصل وجہ انقلابِ اسلامی کے چند بنیادی نعرے اور پالیسیاں تھیں، جیسے:
مرگ بر آمریکا (مردہ باد امریکہ)
مرگ بر اسرائیل (مردہ باد اسرائیل)
فلسطین پیروز است، اسرائیل نابود است (فلسطین کامیاب ہوگا، اسرائیل نابود ہوگا)
امام خمینیؒ کے فرامین:
اسرائیل باید از صفحۂ روزگار محو شود (اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہیے)
آمریکا شیطان بزرگ است (امریکہ سب سے بڑا شیطان ہے)
مسلمانوں کی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
انقلاب اسلامی کا ایک اور اہم اصول تھا:
“لا شرقیہ، لا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ”
(نہ مشرق کی غلامی، نہ مغرب کی تابع داری، صرف ایک آزاد و خودمختار اسلامی جمہوری نظام)
ایران کی اصل جنگ ابتدا سے ہی امریکی سامراجیت اور اسرائیل کی جعلی حکومت کے خلاف تھی۔ چنانچہ جو بھی مسلم ممالک امریکہ و اسرائیل کے اتحادی تھے، ان سے اختلافات ناگزیر تھے۔ انہی اختلافات کو ایران دشمن قوتوں نے “شیعہ سنی” لڑائی کا رنگ دیا، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ایران فلسطین کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہا تھا اور عالمی دباؤ و اقتصادی محاصروں کا سامنا کر رہا تھا۔
? ایران و عراق جنگ کا پس منظر
1979ء میں اسلامی انقلاب کے فوراً بعد، عراق کے صدام حسین نے امریکی ایما پر ایران پر حملہ کر دیا۔ صدام کو امریکہ، یورپ، اور بیشتر عرب حکومتوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن نوزائیدہ انقلابی ایران نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ صدام اور اس کے حامیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
تو سوال یہ ہے:
کیا ایران کی یہ مزاحمت شیعہ سنی مسئلہ تھی؟ یا یہ سامراجی حملہ تھا جسے ایران پر زبردستی مسلط کیا گیا تھا؟
? شام، بشار الاسد اور ایران
ایران کا بشار الاسد اور اس کے والد حافظ الاسد سے اتحاد اس بنیاد پر تھا کہ وہ امریکہ و اسرائیل کے خلاف مزاحم تھے اور فلسطینی و لبنانی مزاحمتی تحریکوں کو پناہ اور رسد فراہم کرتے تھے۔ بشار کی حکومت کو جب امریکہ، اسرائیل، اور ترکی کی مدد سے گرایا گیا تو:
فلسطینی مزاحمت کی سپورٹ کی راہداریاں بند ہو گئیں
اسرائیل کو شام میں آزادانہ مداخلت کا موقع مل گیا
شام کی عسکری تنصیبات کو اسرائیل نے تباہ کر دیا
تو سوال یہ بنتا ہے:
کیا ایران نے بشار سے اتحاد کرکے امت مسلمہ سے خیانت کی یا فلسطین سے وفاداری نبھائی؟
? ایران اور فلسطین
فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی “مزاحمت” کے اصول پر ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔
سوال یہ ہے:
کیا ایران نے 46 سال میں حماس یا دیگر فلسطینیوں کو شیعہ بنا لیا؟
کیا ایران نے حماس کو مدد دینے کے بدلے میں شیعہ ہونے کی شرط رکھی؟
جائیں اور خود فلسطینیوں سے، حماس کے قائدین سے پوچھیں کہ کیا ایران نے کبھی ان پر مسلکی دباؤ ڈالا؟ افسوس! یہ پروپیگنڈا صرف اس لیے کیا گیا تاکہ ایران کو فلسطینیوں کی حمایت سے روکا جا سکے اور اسرائیل کو “قانونی” ریاست کے طور پر تسلیم کرایا جا سکے اور ہمیشہ کے لیے مزاحمت کا خاتمہ کردیا جائے۔
یمن، حزب اللہ اور ایران کی قربانیاں
آج ایران، ایک شیعہ اکثریتی مملکت ہونے کے باوجود، اہلِ سنت فلسطینیوں کے لیے عظیم قربانیاں دے چکا ہے۔
قدس فورس کے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کی شہادت سے لے کر اسرائیلی تازہ حملوں میں ایران کے چیف آف آرمی اسٹاف سمیت دیگر اہم ترین کمانڈرز نے جامِ شہادت نوش کیا۔
اسی طرح شیعہ جماعت حزب اللہ لبنان کے لیڈر سید حسن نصراللہ، ان کے نائب ہاشم صفی الدین، اور کئی دیگر کمانڈرز فلسطین کی حمایت میں شہید ہو چکے ہیں۔
یمن کے پابرہنہ حوثی شیعہ اور انصار اللہ کے مجاہدین بھی اسی مقصد کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
یہ جنگ شیعہ سنی کی نہیں، بلکہ مظلوم و ظالم کی ہے۔
قرآن و سنت کے مطابق مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
? ایران کا حملہ اور عالمی ردعمل
حال ہی میں جب ایران نے اسرائیل پر براہِ راست حملہ کیا تو وہ لوگ جو کہتے تھے کہ “ایران کبھی حملہ نہیں کرے گا”، انہیں اب اپنی رائے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
ایران نے جو دلیری دکھائی، اس پر دوست و دشمن سب نے اعتراف کیا کہ ایسا جراتمندانہ حملہ آج تک کسی نے اسرائیل پر نہیں کیا۔
ایران کے سپریم لیڈر نے واضح کہا کہ:
“ہم تمہیں ایسا سبق سکھائیں گے کہ تم پچھتاؤ گے۔”
امریکہ، عرب دنیا، اور ایران
ایران نے نہ کسی ملک پر حملہ کیا، نہ دہشت گردی کی، نہ جارحیت کی۔ ایک جمہوری ملک ہے، جہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔
پھر بھی امریکہ و مغرب اسے مسلسل دھمکاتے اور اقتصادی، سیاسی و عسکری سازشوں میں الجھاتے رہتے ہیں۔
وجہ واضح ہے: ایران ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی مزاحمتی ماڈل ہے جو مغرب کے عالمی نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔
بدقسمتی سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور دیگر عرب ممالک کو امریکہ و اسرائیل نے یہ باور کروایا ہے کہ ایران ان کا دشمن ہے، حالانکہ ایران نے کبھی کسی عرب ملک پر حملہ نہیں کیا۔
امریکہ کو اس پروپیگنڈے سے فائدہ ہوتا ہے کہ وہ عربوں سے کھربوں روپے اسلحے کی مد میں بٹورتا ہے۔
? پاکستانی حکومت اور ایران
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی ایران سے گریز کی پالیسی ترک کرے اور اسٹریٹیجک تعلقات قائم کرے تاکہ اسرائیل کے خلاف مشترکہ محاذ بنایا جا سکے۔
یہ تعلقات دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی، دفاعی طاقت اور امتِ مسلمہ کی آزادی و وحدت کے لیے ضروری ہیں۔
? حاصل کلام
کیا اب بھی امتِ مسلمہ آنکھیں بند رکھے گی؟
کیا اب بھی ایران کے خلاف پروپیگنڈے پر یقین کیا جائے گا؟
ایران نے جو حملہ کیا، وہ محض عسکری ردعمل نہیں تھا، بلکہ غزہ کے یتیم بلکتے بچوں، بے سہارا اور داغدیدہ ماؤں، اور مظلوم نوجوانوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے والا اقدام تھا۔
لہٰذا ایران کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں غزہ کے غمزدہ مسلمانوں میں جشن و سرور اور اسرائیل میں سوگ کا سماں — ایران کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
پس، وقت آگیا ہے کہ امتِ مسلمہ ایران کے ساتھ کھڑی ہو،
اسے شیعہ ہونے کی سزا نہ دی جائے،
مسلکی تعصب کے خول سے باہر نکل کر فلسطین کی حمایت کرے،
اور امریکہ و اسرائیل کے سامراجی نظام کے خلاف متحد ہو کر ایک طاقتور اسلامی بلاک تشکیل دے،
تاکہ ہم نبی مکرم حضرت محمد ﷺ کی اطاعت گزار امت بن سکیں۔
دعا ہے کہ خدا ہمیں مسلکوں سے نکل کر امت واحدہ بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین۔?
تحریر: علامہ سید احمد اقبال رضوی
وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان