وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری آج کل پنجاب کے بھرپوردورہ جات کر رہے ہیں اور تنظیمی فعالیت کو بڑھا رہے ہیں، ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے گذشتہ دنوں میں بلتستان میں ایک تاریخی جلسہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مجلس وحدت مسلمین نے آئندہ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا بھی اعلان کیا۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن، نواز حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس اور گلگت بلتستان میں سال کے آخر میں ہونے والے الیکشن میں اپنائی جانے والی پالیسی پر ایک جامع انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: حکومت کا پہلے طالبان سے مذاکرات کرنا اور اب فوج کے آپریشن کے اعلان کے بعد حمایت کا اعلان، اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ حقیقت میں طالبان کی مدد کرنا اور ان دہشتگردوں کو مضبوط بنانا تھا اور عوام میں ان کے خلاف موجود نفرت کو کم کرنا تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں جو سپورٹ سکیورٹی اداروں کو ملنی چاہئے تھی اس میں کمی آئی۔ ہماری سیاسی حکومت نے طالبان کی وکالت کی اور انہیں اسٹیک ہولڈر بنا دیا اور انہیں ریاستی اداروں کے مقابلے میں لیکر آگئے۔ دہشتگردوں کے بارے میں یہ رائے رکھنا کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں حقیقت میں سرنڈر کرنا ہے۔ مذاکرات کی بات کرنے سے مراد حقیقت میں شکست تسلیم کرنا ہے، حکومت کی طرف سے اس حد تک طالبان کو فری ہینڈ اس لئے دیا گیا تھا کہ کیونکہ طالبان نے انہیں الیکشن میں سپورٹ کیا تھا اور ان کے مدمقابل قوتوں کو الیکشن کمپین نہیں چلانے دی گئی تھی۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو الیکشن کے دوران اٹھا لیا جاتا ہے اور وہ آج تک طالبان کے پاس ہے، ہماری حکومت نے اس کو چھڑانے کیلئے کیا کیا ہے؟ عجیب نہیں کہ ملک کے اندر سے ایک بندہ اغوا کر لیا جاتا ہے اور ملک کے اندر ہی اسے رکھا جاتا ہے اور کوئی چھڑوا نہیں سکتا، ان طالبان نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی تھی، اور ہمارے حکمران ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے رہے اور انہیں فرصت دیتے رہے۔ کراچی واقعہ کے بعد پاک فوج نے حکومت پر دو جمع دو کی طرح واضح کر دیا کہ ہم آپریشن کرنے جا رہے ہیں، آپ نے دیکھا کہ جب فوج نے اعلان کر دیا تو نواز شریف نے دو دن بعد اعلان کیا۔ اس سارے عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ دہشتگردی سے متعلق فوج اور حکومت کہاں کھڑی ہے۔ الحمد اللہ پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آخری دہشتگرد کے خاتمہ تک یہ آپریشن جاری رہے گا اور پاک فوج اپنے عوام کی امیدوں پر پورا اترے گی۔
اسلام ٹائمز: میاں صاحب نے قومی اسمبلی سے خطاب میں دہشتگردوں کے خلاف فوج کی حمایت اور آپریشن کا تو اعلان کیا لیکن فرقہ وارنہ دہشتگردی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: آپ دیکھیں ناں کہ فرقہ وارنہ دہشتگردی کے پیچھے بھی یہی قوتیں ہیں جن کے خلاف فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے، جب فرقہ وارنہ دہشتگردی کرنا ہوتی ہے تو اس کیلئے لشکر جھنگوی کا نام استعمال کیا جاتا ہے، جب ریاستی اداروں اور فوج پر حملے کرنا ہوں تو طالبان کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ تمام ایک ہی سوچ کے حامل لوگ ہیں جنہیں ہم تکفیری کہتے ہیں۔ اگر تکفیری سوچ کو کچل دیا جائے تو ہمارا ملک ترقی کریگا اور اس ملک میں خوشحالی آئی گی۔ ان کے خلاف سنجیدگی کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ اس آپریشن کو فقط شمالی وزیرستان تک محدود رکھنا درست نہیں، ان مدارس اور لوگوں کو بھی پکڑنا ہوگا اور کچلنا ہوگا جو ان کیلئے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں اور انہیں مختلف شہروں میں پناہ دینے کے ساتھ ساتھ مکمل مدد فراہم کرتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: میاں صاحب کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انکا فوج سے تصادم ہے، اس پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نواز شریف پاکستان میں تیرہ سال بعد واپس آئے ہیں اور وہی پرانا ذہن لیکر آئے ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان کے خاص حالات اور خاص خصوصیات ہیں، یہاں میاں صاحب سعودی عرب کے اسٹریٹیجک پاٹنر ہیں۔ یہاں سعودی عرب کے شہزادوں کا آنا جانا تیز ہوگیا، ہزاروں لوگوں کو بحرین بھیجا گیا، 25 ہزار پاکستانیوں کو بحرین کی قومیت دی گئی ہے۔ ان کا کام وہاں کے مظلوم لوگ جو گذشتہ چار برسوں سے جمہوریت کی تحریک چلا رہے ہیں، اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں، اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان افراد کو وہاں کیلئے بھرتی کیا گیا۔ پاکستان کے اندر نواز شریف کی حکومت سعودی عرب کی اسٹریٹیجک پارٹنر بن چکی ہے، ضیاءالحق کے دور کی پالیسی کو دہرایا جا رہا ہے، شام کے معاملے پر ان کا اسٹینڈ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں شفٹ آیا ہے۔ پاکستان اور اس کے اطراف میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ان حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا کریں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بزنس مین لوگ ہیں، انہیں اپنے بزنس کی فکر پڑی ہے۔ ملکی مفاد پر اپنے بزنس کو فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی یہ جعلی قیادت ہے جو دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں آئی ہے، اگر حقیقی قیادت ہوتی تو یہ تبدیلی نہ آتی۔
ان لوگوں نے فوج کو ایسے پرندے کی ماند بنانے کی کوشش کی ہے جو پنجرے میں بند ہو، وہ پھڑ پھڑا تو سکے لیکن اڑ نہ سکے۔ فوج پر میڈیا، علاقائی ممالک اور دیگر پریشرز ڈلوائے گئے جس کا مقصد یہی تھا کہ میاں صاحب اپنی طاقت میں اضافہ کریں، جس کے نتیجے میں یہ اتنے طاقتور ہوجائیں کہ وہ کریں جو سعودی عرب چاہتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ پاکستان کے داخلی اور خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کا نقش اور رول بڑھ گیا ہے۔ اگر یہ سمجھدار ہوتے تو یہ ایسا نہ کرتے، کسی بھی معاملے پر جہاں اختلاف پیدا ہوجاتا تو یہ اس سے لاتعلق ہو جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، آپ نے راولپنڈی میں عاشور کا واقعہ دیکھا کہ انہوں نے کھل کھلا کے تکفیری ٹولے کا ساتھ دیا اور آج تک ان کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا حکومت اور اسٹیٹ اپنے عوام کے خلاف کھڑی ہوتی ہے یا فریق بنتی ہے۔؟ راولپنڈی کے واقعے میں پنجاب حکومت ہمارے مقابلے میں آئی ہے، اس واقعہ میں وکیل پنجاب حکومت نے کیا۔ عملی طور پر نون لیگ کی حکومت تکفیریوں کی سرپرست حکومت ہے۔ عنقریب آپ دیکھیں گے کہ تکفیری ٹولہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے والا ہے، جیسے ہی حقیقی لیڈر شپ کیلئے کوئی تحریک چلے گی، ان تکفیریوں کے بیانات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ وہ افراد جنہیں 35 سالوں سے پشت پناہی کی گئی، وہ نواز شریف کےساتھ کھڑے ہوجائیں گے۔
اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بڑے اتحاد بنانے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے کوششیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین کس حد تک اس حوالے سے انکے ساتھ ہوگی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں ہر وہ اتحاد جو پاکستان کو سعودیوں کے قبضے اور استعماری ایجنٹوں سے نجات دلائے، دھاندلی زدہ لوگوں سے نجات دلائے، تکفیریوں کے حامیوں سے نجات دلائے، ایسا اتحاد جو پاکستان میں نفرتوں کو مٹائے اور امن کو فروغ دے، ناامنی کے خاتمے کیلئے کام کرے، محبت اور امن کو فروغ دے، ہم اس کا ساتھ دیں گے اور اس سے لاتعلق نہیں رہیں گے۔ ہم اس وطن کے اندر تکفیری ٹولے کی شکست کیلئے جس نے 35 سال سے اس ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور ملک کو تباہی کی طرف لے گئے ہیں، انکے خلاف جو بھی حقیقی تحریک چلے گی، ہم اس کا بھرپور ساتھ دیں گے۔
اسلام ٹائمز: اگر تحریک کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے اور کوئی آمریت نافذ ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نواز شریف کی حکومت ایک جعلی حکومت ہے جو دھاندلی کرکے ایوانوں میں پہنچی ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے، سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان کے اندر دھاندلی ہوئی ہے، ایسے حکمرانوں کو کیا حق ہے کہ وہ حکمرانی کریں، جن لوگوں نے ریٹرننگ افسران کے ذریعہ مینڈیٹ چرایا ہو، اور ڈاکہ ڈالا ہو، انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت کریں، پاکستان میں جمہوری اصلاحات لانی پڑیں گی، دھاندلی سے پاک اور آزاد الیکشن کمیشن کا قیام لانا پڑیگا، جدید طرز الیکشن کا استعمال کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں جتنے بھی طبقات ہیں انہیں احساس محرومی سے نکالنے کیلئے ایک ایسے انتخابی نظام کو رائج کرنا ہوگا جس سے لوگوں کو اطمینان ہو، اس وقت جو بہترین نظام ہے وہ متناسب نمائندگی کا نظام ہے، جس کے تحت پارلیمنٹ میں تمام طبقات کی نمائندگی ہوگی اور وہ اپنے حقوق کی بات کرسکیں گے۔ اس سے طبقات کے اندر احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا اور اس سیاسی مافیا سے بھی نجات ملے گی، اگر ان تمام چیزوں کیلئے کوئی گرینڈ الائنس بنتا ہے جس میں ان تمام ایشوز پر بات کی جاتی ہے تو ہم اس کا حصہ بنیں گے۔
اسلام ٹائمز :گلگت میں آپ لوگوں نے ایک تاریخی جلسہ کیا، آئندہ انتخابات کے حوالے سے وہاں پر آپکی کیا حکمت عملی ہوگی۔ کہیں آپ لوگوں کی موومنٹ سے شیعہ ووٹ تقسیم تو نہیں ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: گلگت بلتستان کے اندر مجلس وحدت مسلمین کافی مضبوط ہے، مجلس کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اس کیلئے اسٹینڈ لیتے ہیں اور حقیقی لوگ ہیں جو ان کی جنگ لڑ رہے ہیں، عوام ہم پر اعتماد کر رہے ہیں، بارہ دن کے دھرنوں نے ثابت کیا کہ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت عوام کے حقوق کیلئے لڑنے والی ہے نہ کہ جھکنے اور بکنے والی قیادت ہے۔ یہ اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ اٹھارہ مئی کو گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کیا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں شیعہ سنی اور نور بخشی سمیت تمام طبقات نے شرکت کی۔ ہم الیکشن میں مذہب کی بنیاد پر نہیں جائیں گے۔ ہم اہلیت، لیاقت، استعداد اور قابلیت کی بنیاد پر جائیں گے۔
ہم لوگوں کے پاس جائیں گے اور کہیں کہ یہ ہمارا امیدوار ہے، اگر آپ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے اہل سمجھتے ہیں تو اسے اپنی خدمت کیلئے ووٹ دیں۔ ہم شیعہ، سنی، نور بخشی سب ملکر الیکشن لڑیں گے اور اہل لوگوں کو لیکر آئیں گے، تاکہ 67 سال سے محروم لوگوں کی احساس محرومی کو ختم کیا جا سکے، انہیں انکے حقوق دلوائے جاسکیں، وہاں ترقی اور پیشرف ہوسکے، بہترین اسکولنگ سسٹم ہو، بہترین ہیلتھ کا نظام متعارف کرا سکیں، لوگوں کی معیشت بہتر سکے، اگر دیندار، امانت دار اور انصاف پنسد لوگوں کو آگے لایا گیا تو وہاں کے لوگوں کی 67 سال کی احساس محرومی کو سالوں میں ختم کیا جا سکتا ہے، لوگ تبدیلی دیکھیں گے۔ مجلس وحدت کوشش کرے گی اس انداز میں انتخابات میں داخل ہو کہ وہاں کے لوگ اطمینان محسوس کریں، حساسیت پیدا نہ ہو، ہراسمنٹ پیدا نہ ہو، کوئی طبقہ خوف زدہ نہ ہو، ہم سنی، شیعہ، اسماعیلی اور نوربخشی سمیت تمام طبقات کو ساتھ رکھیں گے۔ ہم کوشش کریں گے وہاں ایک خوبصورت الیکشن کرایا جاسکے، جس سے اس خطے اور پاکستان کو فائد ہو۔
اسلام ٹائمز: کیا ایسی صورتحال بھی بن سکتی ہے مجلس وحدت مسلمین وہاں پر اہل سنت لوگوں کو بھی اپنا امیدوار بنائے یا انہیں ٹکٹ دے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی امکان ہے کہ ہم انہیں بھی ٹکٹ دیں، اس حوالے سے اہل سنت کے دوست ہم سے رابطہ کر رہے ہیں، ہمارے ٹکٹ پر اہل سنت، اسماعیلی اور نور بخشی بھی آسکیں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک ایسا اتحاد وجود میں آئے جس میں تمام طبقات موجود ہوں اور ہم سب ملکر الیکشن لڑیں، مذہب کے نام پر یا فرقوں کے نام پر نہیں بلکہ اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے۔ مذہب ایک مقدس چیز ہے، اگر حلقے میں شیعہ شیعہ کے خلاف الیکشن لڑے تو وہاں مذہب کیوں استمال ہو؟، ہم فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ ہم لوگوں سے استعداد، لیاقت اور صلاحیت کی بنیاد پر ووٹ مانگیں گے، اگر لوگوں نے ہم اعتماد کیا تو ٹھیک ہے نہیں تو ہم دوبارہ ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ جدوجہد رکھیں گے کہ ان کا اعتماد حاصل ہوسکے اور ہم ان کی خدمت کرسکیں۔
اسلام ٹائمز: شام کے الیکشن ہونا اور صدر بشار الاسد کا ایک پار پھر منتخب ہونا، کیسی تبدیلی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ اہم تبدلی ہے، شام میں الیکشن حقیقت میں تکفیریت اور دہشتگردی کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ 70 فی صد سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور بشار الاسد نے 87 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ چار سالہ دہشتگردی، امریکہ، اسرائیلی اور سعودی عرب کی مداخلت کے باوجود مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے۔ اس بلاک نے انہیں ہر میدان میں شکست دی ہے، انہوں نے مسلح جدوجہد کی تو اس میں شکست دی، اخلاقی طور پر شکست ہوئی ہے کہ شام کی اکثریت عوام کے دل بشار الاسد کی طرف مبذول ہوئے، قانونی طور پر انہیں شکست ہوئی کہ سکیورٹی کونسل میں وہ کوئی قرار داد پاس نہ کرا سکے۔ میڈیا پر یہ رسوا ہوئے ہیں، اسی طرح انہیں سیاسی شکست ہوئی ہے۔ یہ بڑی تبدیلی ہے۔ مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے وہ ان تمام استکباری قوتوں کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے اور انکا مقابلہ کرسکتا ہے۔ دہشتگرد اور انکے آقا سب مایوس ہیں کہ تین سال جنگ لڑنے باوجود وہ بشار الاسد کو نہ ہٹا سکے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکی وزیر خارجہ لبنان گیا ہوا تھا، جہاں اس نے شام کے معاملے میں حزب اللہ اور ایران سے مدد مانگی ہے، یہ ان کی شکست ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو عراق میں بھی شکست ہوئی ہے، وہاں لوگوں نے 66 فی صد سے زائد ووٹ کاسٹ کئے۔ عراق کے عوام نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ دہشتگردوں سے ڈرنے والے نہیں، اس ملک میں بھی دہشتگردی اور دہشتگردی کرانے والے ممالک کو شکست ہوئی ہے۔ جو ممالک عراق اور شام میں آگ لگا رہے ہیں، انہیں بھی یہ آگ اپنی لپیٹ میں لے گی، دنیا مکافات عمل کا نام ہے۔ جب آپ کسی کے گھر میں آگ لگاتے ہیں تو آپ کے بھی گھر میں آگ لگے گی۔ یہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ مقاومت کا بلاک اتنا مضبوط ہوا ہے کہ چند دن قبل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے کوئی ایڈونچر کیا تو ہم آپ کے علاقے الجلیل پر قبضہ کرلیں گے۔ اس اعلان کے بعد اسرائیلی پریشان ہیں۔ انہوں نے کوشش کی تھی کہ وہ دہشتگردی کے ذریعہ مقاومت کے بلاک کو کمزور کریں گے لیکن وہ اور مضبوط ہوگیا ہے۔