وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے تحت نشتر پارک کراچی میں منعقدہ ’’ عظمت ولایت کانفرنس ‘‘ میں لاکھوں کی تعداد میں شرکاء نے شرکت کی، جس میں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کانفرنس کے موقع پر نشتر پارک میں ایک دیوہیکل اسٹیج بنایا گیا تھا۔ جبکہ شرکاء کے لئے ہزاروں کی تعداد میں کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ خواتین کے لئے علیحدہ انتظام کیا گیا تھا۔ شرکاء نے ہاتھوں میں مجلس وحدت مسلمین اور علی ولی اللہ کے پرچم تھامے ہوئے تھے۔ کانفرنس کی سیکورٹی کے فرائض وحدت یوتھ کے ذیلی شعبہ وحدت اسکاؤٹس کے 3 ہزار سے زائد رضاکاروں نے سنبھالی ہوئی تھی جبکہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی جلسہ گاہ کے اطراف موجود تھی۔ اندرون سندھ سے ہزاروں کی تعداد میں بسوں، کاروں اور دیگر سواریوں کے ذریعے آنے والے شرکاء کو ایم اے جناح روڈ سے پیدل جلسہ گاہ تک لایا گیا جبکہ ایم اے جناح روڈ کے نمائش جانے والے ٹریک کو ٹریفک کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ کانفرنس کی براہ راست کوریج اور میڈیا کے لئے علیحدہ علیحدہ اسٹیج بنائے گئے تھے۔ جبکہ مرکزی اسٹیج کے اطراف بھی سخت سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے۔
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری جب جلسہ گاہ میں پہنچے تو عظمت ولایت کانفرنس کے شرکاء نے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کیں، ان کی اسٹیج آمد پر اسٹیج پر موجود تمام علماء کرام نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اظہار یکجہتی کیا۔ اس موقع پر کانفرنس میں شریک شرکاء نے یاعلی، یاعلی، علی مولا کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ اسٹیج پر ’’پاکستان بنایا تھا ۔ پاکستان بچایا تھا کہ نعرے کا ایک بہت بڑا بینرز آویزاں کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر جشن غدیری منایا گیا اور شاندار آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بچانے کے لیےطویل سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا ہے، قوم کو مایوس نہیں کریں گے، بلدیاتی انتخابات، گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور شرکت اور 2018ء کے انتخابات کے لیے ابھی سے تیاری شروع کردی ہے، ملک میں امن و امان، معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے پاکستان بنانے والی قوتیں سنی شیعہ ملکر ملک دشمنوں کو شکست دیں گے، طالبان سے مذاکرات ایسی بدعت ہے جو بڑی برائیوں کو جنم دے گی، اگر یہ بدعت رائج کر دی گئی تو آئندہ ایک نیا گروہ معصوم انسانوں کا خون کریگا اور پھر حکومت ان سے بھی مذکرات شروع کر دیگی، ہم ان مذاکرات کے کل بھی مخالف تھے اور آج بھی مخالف ہیں، ہم قوم کی خدمت کی غرض سے میدان میں اترے ہیں ، قیادت کی غرض سے نہیں، نہ ہی قوم پر مسلط ہونا ہماری خواہش ہے، ہم نے ایک طولانی جنگ کا آغاز کیا ہے، تھکنے والے یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے نام پر آنے والوں نے عوام کو مایوس کیا ہے، طالبان کو دفتر کھول دینے کے بیان نے تبدیلی کے خواہاں عوام کو مایوس کیا۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اگر عزاداری کو روکنے یا محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو جس طرح سے بلوچستان کے رئیسائی کی حکومت گرائی اسی طرح پنجاب اور اسلام آباد کے رئیسانی کی حکومت بھی گرا دیں گے، جب سے ہم نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا ہے اس وقت سے ہمیں ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، کھبی لبرل بننے کے مشورے دیئے گئے اور کبھی سیاسی اتحاد کا جھانسا دیا گیا، لیکن ہم نے قومی غیرت اور وقار کا سودا نہیں کیا، کبھی قوم کو مایوس نہیں کیا، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ قوم نے ساتھ دیا تو ہم بھی قوم کو مخلص، دیانتدار اور امین لیڈر شپ فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی داخلہ اور دفاعی پالیسی کے حوالے سے ہمارا ایک مضبوط اور ٹھوس موقف ہے ، ملکی اداروں میں میرٹ کا خون کیا جارہا ہے، جو بھی سینئر ہے اس کو آرمی چیف بنایا جائے، ہمشہ سیاسی مفادات کی خاطر جونیئر کو اعلی عہدوں پر تعینات کرکے ملکی دفاع کو نقصان پہنچایا گیا ہے، چھ سال میں جنرل کیانی نے اہل سنی و شیعہ جنرلوں کو ترقی دینے کے بجائے نظر انداز کیا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاک فوج سے انتہا پسند سوچ کو ختم کرکے فوج کو پاک کیا جائے۔
کانفرنس سے خطاب میں علامہ امین شہیدی نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات گویا شیطان سے مذاکرات ہیں، جو نہ صرف غیر آئینی ہیں بلکہ غیر قانونی اور پاکستان کے عوام کی توہین ہے، جب سے حکومت نے مذاکرات کا اعلان کیا ہے کہ ملک میں بم دھماکوں میں اضافہ اور ہر روز لاشوں کے تحفے دئیے جا رہے ہیں، یہ مذاکرات پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام سے دھوکا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے بدلے طالبان نے لاشیں اور دہشتگرد دی، قوم کو بتایا جائے کہ طالبان سے مذاکرات کے نتائج کیا ہیں؟۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور بھرپور آپریشن کیا جائے۔ کانفرنس سے خطاب میں علامہ حسن ظفر نقوی کا کہنا تھا کہ لبنان، فلسطین، شام، بحرین، یمن، عراق کی طرح پاکستان میں ہم نے اپنے سیاسی اجتماعی حقوق کی بازیابی کی جنگ کا آغاز کر دیا ہے، اب ہم اپنے غصب شدہ حقوق حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے مظلوم عوام کو دہشت گردی اور فرقہ واریت سے نجات دلانا چاہتے لیکن مسلسل ہماری لاشیں گرا کر ہماری ملت کو اسی دلدل میں دھکیلا جاتا ہے، پاکستان کے ریاستی ادارے بین الاقوامی استعماری قوتوں کے اشارے پر ہمارے خلاف محاز آرائی میں مصروف عمل ہیں، جشن غدیر پر اس عظیم اجتماع نے ثابت کردیا کہ ولایت کے پیروکار آج بھی زندہ ہیں اور نظام ولایت کے مقابلے میں تمام باطل نظاموں سے اظہار برائت اور لاتعلقی کرتے ہیں۔
کانفرنس کے آخر میں قراردیدیں پیش کی گئیں، جو درج ذیل ہیں۔
قرارداد نمبر ایک میں عظمت ولایت کانفرنس کے شرکاء و قائدین نے متفقہ طور پر امریکا اور طالبان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات و مکالمے کو مسترد کردیا۔ کانفرنس کا موقف تھا کہ سال دو ہزار آٹھ اور دو ہزار گیارہ میں متفقہ طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں اور ایک کل جماعتی کانفرنس میں امریکا کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے اور نئی سمت اور نئی پالیسی وضع کرنے کے لئے واضح رائے دی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بھی واضح کیا تھا کہ وقت بہت کم ہے اور دہشت گرد ہم سب کے دشمن ہیں۔
قرارداد نمبر دو میں کہا گیا کہ عظمت ولایت کانفرنس کے شرکاء اور قائدین متفقہ طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اور طالبان ایک فکسڈ میچ کھیل رہے ہیں یا باالفاظ دیگر نورا کشتی میں مصروف ہیں۔ دہشت گردوں اور طالبان کے اس فکسڈ میچ کا ثبوت یہ ہے کہ چالیس ہزار سے زائد پاکستانی شہری اور سات ہزار سے زائد فوجی، نیم فوجی اور پولیس اہلکار شہید کئے جا چکے ہیں۔ کم از کم دو مرتبہ امریکی افواج نے فضائی حملوں میں پاکستانی افواج کو بھی شہید کیا جس کی آخری مثال سلالہ کا حملہ تھا۔
قرارداد نمبر تین میں کہا گیا کہ نہ تو امریکا دہشت گردوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی دہشت گرد امریکا کو زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ امریکا سے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
قرارداد نمبر چار میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا قراردادوں کی روشنی میں ہم حق بجانب ہیں کہ امریکا اور طالبان دونوں کے خلاف دفاعی جنگ لڑی جائے نہ کہ پسپائی اختیار کی جائے۔ دہشت گردوں کو سرنگوں کیا جائے نہ کہ خود سرنگوں ہوجائیں۔
قرارداد نمبر پانچ میں کہا گیا کہ ولایت ایک الٰہی نظام ہے جس کے ذریعے امت کی رہبری و قیادت کی جاتی ہے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد (ص) نے میدان غدیر خم میں حضرت علی (ع) کی ولایت کا اعلان کرکے ولایت کی اہمیت و عظمت کو ثابت کردیا تھا۔ امت نے دیکھا کہ تین خلفاء نے جب ولایت سے مشورے لے کر حکمت عملی بنائی تو اسلامی معاشرہ مستحکم و خوشحال ہوا تھا۔ آج بھی خلفاء کی محبت کا دعویٰ کرنے والے اگر ولایت سے رہنمائی لیں گے تو کامیاب ہوں گے۔
قرارداد نمبر چھ میں کہا گیا کہ اللہ کے ولی اعظم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف کاؤنٹر ٹیررازم اور کاؤنٹر انسرجنسی کی جنگ لڑی تو آج بھی یہی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔