وحدت نیوز(لاہور) سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ ریاست مخالف دہشت گردوں سے مذاکرات پر شدید تحفظات اور خدشات ہیں۔ پچاس ہزار شہداء کے قاتلوں سے مذاکرات شریعت اور آئین کے منافی ہیں۔ حکمران شہداء کے ورثاء کے غم و غصے کا بھی احساس کریں۔ حکومت دہشت گردوں کو اور کتنے موقع دے گی۔ ایٹمی ریاست کا مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے جھک جانا المیہ ہے۔ دہشت پسندوں اور جنونیوں سے خیر کی توقع نہیں۔ اگر ہم نے پاکستان بچانا ہے تو دہشت گردی کی ہر قسم کے خلاف پوری قوم کو یکسو ہو کر ایک بڑے اتحاد اور جہاد کا اعلان کرنا ہو گا۔ فوجیوں کے گلے کاٹنے والوں کے خلاف آپریشن نہ کیا گیا تو فوج میں بددلی پھیل جائے گی۔ اب اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا تو اس کی ذمہ داری وزیراعظم پر عائد ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ رضویہ میں سنی اتحاد کونسل کے علماء بورڈ کے اہم ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے باغیوں کی ناز برداریاں کی جا رہی ہیں۔ اس طرزعمل سے مزید بغاوتوں کا دروازہ کھلے گا۔ مذاکرات سے پہلے دہشت گردوں کے سروں کی قیمتیں واپس لی جائیں۔ ملکی سلامتی کے لیے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
سنی اتحاد کونسل علماء بورڈ کے چیئرمین علامہ محمد شریف رضوی نے کہا کہ طالبان کا طرزعمل جہاد فی سبیل اﷲ کے اسلامی اصولوں اور شرائط کے منافی ہے۔ اسلام اور آئین پاکستان کے باغیوں کی سرکشی کو طاقت سے کچل کر آئین اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ اسلام نجی جہاد کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ مفتی محمد سعید رضوی نے کہا کہ ملک میں نفرتیں پھیلانے والے قومی مجرم ہیں۔ ملک تکفیری دہشت گردوں کی مسلط کردہ جنگ میں جھلس رہا ہے۔ فوجیوں اور شہریوں کی شہادتوں کی ذمہ دار حکومت ہے۔ ملکی سلامتی کے لیے غیرملکی دہشت گردوں اور ایجنسیوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ ضروری ہے۔ علامہ حامد سرفراز نے کہا کہ فتنہ پرور شرپسندوں اور فسادیوں کو کھلی چھٹی دینا ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ انتہاپسندوں کی سرکشی اسلام اور پاکستان سے کھلی بغاوت ہے۔ اجلاس میں علامہ نوازبشیر جلالی، مفتی محمد اکبر رضوی، علامہ شرافت علی قادری، مفتی محمد یونس رضوی، مفتی محمد حسیب قادری، مولانا محمد اکبر نقشبندی، مفتی محمد رمضان جامی، مفتی محمد شعیب منیر، علامہ باغ علی رضوی، علامہ فیصل عزیزی، علامہ محمد اشرف گورمانی، صاحبزادہ مطلوب رضا اور دیگر نے شرکت کی۔