وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ زمانہ کہ جہاں ہر طرف ظلمت ہی ظلمت تھی ۔ نہ انسان تھا نہ انسانیت ۔ ۔ جہان ہر طرف غلامی ، ظلم ، استبداد ، محکومی وجہالت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ عین اسی وقت نور کی ایک نحیف سی کرن نے وہاں سراٹھایا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کرن سورج کا سماں پیش کرنےلگی ۔۔اور اپنے اطراف کو کچھ اس طرح اجالا بخشاکہ " جہاں جہالت کے اندھیروں نے زندگی کو اجیرن بنارکھا تھا " وہاں زندگی نے سر اٹھایا ۔وہی لوگ کہ جو مفہوم انسان و انسانیت سے کوسوں دور تھے ، دنیا کے مہذب ترین تمّدن کی آغوش میں آ بیٹھے ۔ ۔۔۔۔مگر پھرکیا ہوا۔۔۔۔۔؟
زمانے نے اپنا رخ ایک بار پھر بدلا۔۔۔زمانے کو مفہوم آزادی ، علم و زندگی سے آگاہ کرنیوالے اس عظیم رہنما کوگزرے ابھی تقریباْ ۵۰ سال ہی ہوئےتھے کہ پھر سے اندھیرے روشنیوں پر چھانے لگے ۔ سب کچھ دھندلا سا دیکھائی دینے لگا ۔ اسلام کی نورانی تعلیمات کو جہالت و مفاد پرستی کے اندھیروں نےہر طرف سے گھیر لیا ۔۔۔مگر اس بار انداز بدل کر ۔۔۔نبی اکرمﷺ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں کفر تھا مگرحسینؑ ابن علی ؑ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں مسلمان تھے ۔۔کل باہر کے دشمنوں سے مقابلہ تھا مگر آج اندر کے دشمن سے نبردازمائی تھی، کل کا دش،من خود کو بت پرست کہتا تھا لیکن آج کا دشمن خود کو خلیفہ المسلمین اور توحید پرست کہہ رہاتھا ۔۔اور رہی بات اسلامی معاشرے کی تو معاشرہ اس قدر تنزلی کا شکار ہو چکا ہے کہ مسلسل گمراہی کی آغوش میں جا رہا ہے ۔۔حتی معاشرے نے حق و باطل کے معیار کو اس قدر بھلا دیا تھا کہ مسندِ رسولﷺ پر یزید جیسا شخص بیٹھ گیا تھا اور لوگ خاموش تھے۔
قرآنی نکتہ نظر سے کوئی بھی قوم و ملت جو" حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کرنے لگے" اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔۔
۱۔ذکر خدا سے غافل ہونا ۔
۲۔شہوات طلبی [شہرت ، دولت و اقتدار طلبی۔۔۔۔]
اور جب قومیں و ملتیں ایسی ہو جائیں کہ جو اعمال میں مفسد ہوں اور دشمن ان کے اندر ڈیرے لگائے بیٹھا ہو تو ان حالات میں خداوند متعال کو موسیٰ جیسے نبی کو40دنوں کے لئے طور پر بلانا پڑتا ہے ۔۔۔۔تاکہ ان40دنوں میں یہ پتہ چل جائے کہ کون خدا پرست ہے اور کون گوسالہ پرست۔۔
61ہجری میں بھی حالات کچھ اسی طر ح کے تھے ۔۔بقول سید الشہداع " اسلام فقط لوگوں کی زبانوں کا چسکا بن چکاتھا" حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کیا جانے لگا تھا ۔۔اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ دشمن خود مسلمانوں کی صفوں میں خیمہ زن تھا ۔۔لوگ باطل کو حق سمجھ کر اس کی پیروی کر رہے تھے ۔۔۔پس ضروری تھا کہ کوئی موسی ٰ ہو جوفعرون وقت کے خلاف قیام کرے اور باطل کو حق سے جدا کرے۔۔۔
اسی ضرورت کے پیش نظر امام حسین ع نے وقت کے فرعون کے خلاف کربلا کے میدان میں اسلام کو بچانے کے لئے قیام م کیا ۔۔ اس بار بھی امام حق کے مقابلے میں تخت پر ایک فرعون بیٹھا ہوا تھا ۔ ۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔عاشورا ہی وہ دن تھا کہ جب حسین ابن علی [ع] نے فرعون کے تخت کو ٹھوکر مار کر خود کو خداوند سے ملاقات کے لیے پیش کیا ۔۔حسینؑ ابن علی کا وہ خون کہ جو پہلے دن غریبانہ و مظلومانہ طریقے سے بہایا گیا آہستہ آہستہ زور پکڑتا گیا یہاں تک کہ 40ویں روز [اربعین ] کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ وسط آسماں میں ایسا چمکا کہ جس کی چمک سے باطل کو حق کے دائرے سے باہر آنا پڑا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔عاشورا ۔۔تا۔۔۔۔اربعین کی اس 40روزہ مدت نے لوگوں پر حق و باطل اس قدر واضح کر دیا کہ لوگ باطل کے خلاف عملا آواز اٹھانے لگے ۔۔۔۔
عاشور کے بعد ۴۰ روز ۔۔یعنی۔۔۔حق و
باطل کی جدائی کے ایام
عاشور کے بعد ۴۰روز ۔۔یعنی ۔۔۔تلوار پر خون کی فتح کے ایام
عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔ظلم و
ظالم و طاغوتی نظام سے بیزاری کے ایام
عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔غدیر سے تجدید عہد کے ایام
عاشور کے بعد 40روز ۔۔۔یعنی ۔۔۔یزید و
یزیدیت کی ذلت و رسوائی کے یام
عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔درس علم
، شجاعت ، عزت و آزادی کے ایام
عاشور کے بعد 40روز ۔۔۔یعنی ۔۔۔استغاثہ
حسینی پر لبیک کہنے کے ایام ۔۔
بقول ڈاکٹر شریعتی کے "وہ لوگ جو امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے ، انہوں نے فریضہ حسینی انجام دیا ،جو بچ گئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ فریضہ زینبی انجام دیں ورنہ وہ یزیدی ہیں ۔ "
دس محرم کو کربلا ختم نہیں ہوتی بلکہ فریضہ زینبیؑ کا آغاز ہوجاتا ہے۔
تحریر۔۔۔ساجد علی گوندل
وحدت نیوز(آرٹیکل) بھوک بڑی ظالم چیز ہے، بھوکے انسان کو پیٹ کے سوا سب کچھ بھول جاتا ہے،البتہ پیٹ کی بھوک تو خشک روٹی کی ایک ٹکڑے سے بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن عقل کی بھوک یعنی ہوس ایسے نہیں مٹتی۔
جن کی عقل بھوکی ہو وہ مرغ مسلم کھا کر بھی بھوکے رہتے ہیں، ہوس میں مبتلا لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے ۔ان کے سامنے کچھ حرام و حلال یا حق و باطل نہیں ہوتا وہ صرف دولت سمیٹنے کے چکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔
اگر ان کی دنیا خطرے میں پڑے تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے کوفے والے بھی تھے،جب کوفیوں نے یہ سوچا کہ حکومت ملے گی تو انہیں بھی مال و دولت ہاتھ آئے گا چنانچہ انہوں نے حضرت مسلم ؑ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں مال و دولت ملنے کے بجائے جان جانے کا خطرہ ہے تو حضرت مسلمؑ کو تنہا چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔
انہوں نے جب شام سے لشکر کے آنے کی جھوٹی خبر سنی اور اپنی تنخواہ کو بیت المال سے کاٹے جانے کی دھمکی سنی تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہوگئےاور انہوں نے اپنے تیروں کے رخ ابن زیاد سے موڑ کر امام حسین(ع) کی طرف کر لیے۔
دنیا داروں کی حقیقت یہی ہے کہ جو امام حسین(ع) نے اپنی ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے کہ
لوگ دنیا کے اسیر ہیں اور دین صرف ان کی زبان کا لقلقہ ہے(لقلقہ زبان کے اوپر لگے ہوئے پانی کو کہتے ہیں جو تھوڑی سی ہوا سے خشک ہو جاتا ہے)
لوگ اس وقت تک دین کی اطاعت کرتے ہیں جب تک ان کی معیشت چلتی ہے لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب عمر ابن سعد چار ہزار فوجیوں کے ہمراہ کربلا پہنچا تو عروہ بن قیس سے کہا کہ حسین(ع) کے پاس جاو اور ان سے پوچھو کہ وہ کس لیے اس سرزمین پر آئے ہیں!؟
عروہ اس ماموریت پر راضی نہیں تھا یعنی وہ امام حسین(ع) کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اس نے امام کو کوفے میں آنے کیلئے خط لکھا ہوا تھا ۔اب وہ امامؑ کا سامنا نہیں کرنا چاہتاتھا۔
عروہ بن قیس کے پیٹ میں بھوک نہیں تھی، اس کے دماغ میں بھوک تھی۔وہ بھوکا تھا، اقتدار، نعام ، اور منصب کا۔
لیکن دوسری طرف بریر بن خضیر ھمدانی تھے جو اپنے وقت کے زاھد،عابد،قاری اور مفسرقرآن تھے اور اپنے وقت کے بہترین جنگجو تھے ۔ جب وہ میدان کربلا میں پہنچے تو انہوں نے کوفیوں کو مخاطب کرکے کہا :
اے اہل کوفہ واے ہو تم پر!آیا وہ خطوط جو تم نے لکھے تھے وہ عھد و پیمان جو تم نے باندھے تھے ان سب کو بھول گئے ہو؟
واے ہو تم پر۔آیا اہل بیت پیامبر کو دعوت نہیں دی تھی، اپنی طرف نہیں بلایا تھا !آیا ان پر جان نثار کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
لیکن جب اہل بیت ؑ نے تمہاری طرف رخ کیا تو ان کو ابن زیاد کے حوالے کردیا اور اب (پردیس میں) ان پر پانی بھی بند کردیا ہے۔فرزندان پیامبر کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کر رہے ہو تم کو کیا ہو گیا ہے۔
خدا تم کو قیامت کے دن پیاسا رکھے تم بد ترین امت ہو۔
اس کے جواب میں کوفیوں نے کہا کہ :اے فلاں!تم کیا کہہ رہے ہو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا
ہاں کوفی سچ کہہ رہے تھے! انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، جب انسان کی عقل پردنیا کا لالچ سوار ہو جائے تو پھر اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔
آج ہمیں بھی جب حسینؑ اور یزید ، حق اور باطل ، حرام اور حلال کا فرق سمجھ میں نہ آئے تو ایک مرتبہ اپنی عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کس چیز کی ہوس نے ہمیں اہل کوفہ کی طرح اندھا ، بہرہ اور گونگا کردیا ہے۔
جوآج ابھی حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کی حمایت نہیں کرتا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتا اسے یقین کرلینا چاہیے کہ میں ابھی لشکر یزید میں ہوں۔
تحریر۔۔۔سجاد مستوئی
وحدت نیوز(آرٹیکل) دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اس فانی زندگی کو راہ خدا میں قربان کر دیتے ہیں اور اس کےعوض ابدی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔خدا کی خوشنودی کی خاطر ہر وقت ہر لمحہ ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اورباطل قوتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے خدا کی معرفت اوراحکام خداوندی کی ترویج کرتے ہیں۔ کربلا بھی معرفت خداوندی رکھنے والوں اورراہ حق کے متلاشیوں کی امتحان گاہ تھا۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ۔یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام ،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام ، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔یہ وہ کردار کے نمونے ہیں جنھوں نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو اس عظیم درسگاہ سے فیضیاب کرایا ۔معصوم بچوں سے لے کر کڑیل جوانوں تک ، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جو ہمیشہ کے لئے تاریخ کا روشن باب بن گئے۔
کربلا کے میدان میں ایک جوان ایسا بھی تھا جو سیرت و صورت اورگفتار و کردار میں شبیہ پیغمبر تھے۔دیکھنے والا دنگ رہ جاتا تھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں۔انہوں نے اس کائنات میں ایسی قربانی پیش کی کہ تمام دنیا دھنگ رہ گئی۔آپ ایسے باپ کے فرزند تھے جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناز تھا ،جس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری بن گئے۔اس عظیم باپ کا فرزند تھا جس نے دنیا والوں کو جینا سکھایا اورباطل قوتوں کے سامنے قیام کر نا سکھایا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ فرزند تھے ایک فرزند جدا ہو گیا ۔علم نبوت سے معلوم تھا کہ یوسف زندہ ہے لیکن فراق پسر میںاس قدر گریہ کیا کہ آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی۔صبر ایوب اس وقت ختم ہوا جب عزت نفس کا معاملہ پیش آیا لیکن قلب حسین علیہ السلام پر قربان کہ اکبر جیسے کڑیل جوان فرزند کو جو شبیہ رسول،رشک یوسف اور فخر جناب اسماعیل تھےشہید ہوتے اپنے آنکھوں سے دیکھا۔حضرت علی اکبر علیہ السلام کی صورت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ایسا فرزند عطا کیا جو سیرت اورصورت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔آپ کی والدہ حضرت لیلی عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔1۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام کے بارے میں ابو الفرج نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن امیر معاویہ اپنی خلافت کے دور میں سوال کیا کہ خلافت کے لئےلائق سب سے زیادہ کون شخص ہے؟ خوشامدی درباری کہنے لگے ہم تو تیرے علاوہ کسی کو خلافت کے لئے لائق نہیں سمجھتے۔ معاویہ کہنے لگا ایسا نہیں بلکہ سب سے زیادہ خلافت کے لئے لائق علی ابن الحسین یعنی علی اکبر ہے۔ جن کا نانا رسول خدا ہے جو شجاعت بنی ہاشم،سخاوت بنی امیہ اور دیگر خوبیوں کا حامل ہے۔2۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی ہر وقت اپنے والد گرامی کے ساتھ دین اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کرتے رہے۔آپ بھی دیگر جوانان بنی ہاشم کی طرح عازم کربلا ہوئے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مختلف مواقع پر قریب الوقوع موت کے حوالہ سے اپنے اصحاب سے گفتگو کی تب کڑیل جوان نے اپنے بابا سے سوال کیا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ؟ باپ نے جوان بیتے کے سوال پر فرمایا: بیٹے ہم حق پر ہیں تب اس جوان نے کہا بابا: اگر ہم حق پر ہیں تو ہمیں کیا پرواہ کہ موت ہم پر آ پرے یا ہم موت پر جا پڑیں۔جناب علی اکبر علیہ السلام شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہونے کے لئے بے قرار تھے۔
روز عاشور جوانان بنی ہاشم کی طرح جناب علی اکبر علیہ السلام نے بھی میدان جنگ میں جانے کے لئے اپنے بابا سے اجازت طلب کی۔پھوپھی زینب کی اجازت پر امام حسین علیہ السلام نے بھی اجازت دی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام جب میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے تو مہربان باپ نے ایک مایوسانہ نگاہ اس جوان پر کی اورروتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کیا:{ اللہم اشہد علی هہولاءِ القوم، فقد برز علیہم غلام، اَشبہُ الناس خَلقاً و خُلقاً و منطقاً برسول الله۔۔ }3۔
اے میرے پروردگار ؛ اس قوم پر گواہ رہنا کہ ان کی طرف مبارزہ اورجنگ کے لئے ایسے جوان کو بہیج رہا ہوں جو خلق و گفتار و کردار میں تیرے نبی سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے۔جب ہم تیرے نبی کی زیارت کا مشتاق ہوتے تو اس جوان کے چہرے پر نظر کرتے۔{ اللہم فامنعہم برکات الارض و فرقہم تفریقاً و مزقہم و اجعلہم طرایق قدداً و لا ترض الولاہ عنہم أبداً، فانہم دعونا لینصرونا ثم عدوا علینا یقاتلونا}خدایا ان سے زمین کی برکتیں روک لے اور انہیں متفرق و پراگندہ کر دے۔۔۔۔۔ادھر جناب جناب علی اکبر علیہ السلام کربلا کے میدان میں خورشید تابان کی طرح افق میدان پر طلوع ہوئے اور کچھ عرصہ میدان کو اپنے نور کی شعاع سے جو جمال پیغمبر کی خبر دیتا تھا منور کیا۔دیکھنے والے ان کے جمال سے فریفتہ ہو گئے اور ہر نظر ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے میدان کربلا میں فوجی یزیدی کے سامنے یہ رجز پڑھا:
أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن بیت الله آولی با لنبیّ
أضربکَم با لسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هہاشمیّ عَلَویّ
وَ لا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَا للہِ لا یَحکُمُ فینا ابنُ الدّعی4۔
میں علی ابن الحسین ہوں۔کعبہ کی قسم ہم نبی سے زیادت قربت رکھتے ہیں ۔میں تمہیں تلوار سے ماروں گا یہاں تک کہ وہ ٹیڑھی ہو جائے۔ جناب علی اکبر علیہ السلام دشمنوں پر حملے پر حملہ کرتے رہے اوربدبختوں کو جہنم واصل کرتے رہے۔جس طرف رخ کرتے لاشوں کے انبار لگ جاتے۔بڑی بہادری کے ساتھ لڑے مگر سورج کی گرمی،پیاس کی شدت اورزخموں کی کثرت نے آپ کو تھکا دیا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام میدان سے واپس بابا کی خدمت میں آئے اورعرض کیا: بابا پیاس کی شدت ہے اگر ممکن ہو تو ایک گھونٹ پانی پلا دیجئے۔بیٹے کی آخری تمنا باپ پوری نہ کر سکا۔حضرت اما م حسین علیہ السلام نے اشک بھری آنکھوں کے ساتھ فرمایا: بیٹا تھوڑی دیر جنگ کرو بہت جلد نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے کوثر کی پانی سے سیراب کر دیں گے۔
ایک روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے اپنی زبان مبارک جناب علی اکبر علیہ السلام کے دہان مبارک میں رکھ دئیے لیکن کس طرح پیاس بجھ جاتی کیونکہ امام حسین علیہ السلام خود تین دن کے پیاسے تھے۔بیٹے نے کہا: بابا آپ تو مجھ سے زیادہ پیاسے ہیں ۔ جناب علی اکبر علیہ السلام ایک دفعہ پھر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔یزیدی فوج کو علی مرتضی کی یاد تازہ کرائی لیکن دشمن جو تعداد میں بہت زیادہ تھے چاروں طرف سے آپ پر حملہ ور
ہوئے۔یوں میدان کربلا میں آفتاب کربلا غروب ہو گیا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی روح پرواز کر گئے اورآپ حوض کوثر پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کوثر کے پانی سے سیراب ہوگئے۔ آپ کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ولدی عَلَی الدّنیا بعدک العفا۔ 5۔بیٹا تیرے بعد دنیا اوردنیا کی زندگی پر خاک ہو۔ عاشورا کے دن بنی ہاشم کے جوانوں میں سے سب سے پہلے جناب علی اکبر علیہ السلام شہید ہوئے اور زیارت شہدائے معروفہ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے ۔ السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیل مِن نَسل خَیْر سلیل۔6۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنی پاک جوانی دین مقدس اسلام کی سر بلندی پر قربان کر دی اورقیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر اسلام کے لئے جوانوں کی ضرورت ہو تو جوان اپنی جوانی کو قربان کر نے سے دریغ نہ کرے۔یوں کربلا کے میدان سے جوانی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اگرچہ جوان باقی رہ گئے۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے صبح عاشور اذان دے کر قیامت تک ایک آفاقی پیغام فضاوں اور ہوا کے حوالہ کر دیا جو آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اذان علی اکبر کی یاد تازہ کر ا رہا ہے اورحق شناس انسانوں کو باطل قوتوں کے مقابلہ میں اٹھنے اورقیام کرنے کا پیغام دے رہاہے۔
حوالہ جات:
1۔أعلام النّساء المؤمنات محمد حسون و امّ علی مشکور، ص 126؛ مقاتل الطالبین ابوالفرج اصفہانی، ص 52۔
2۔مقاتل الطالبین، ص 52؛ منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی، ج 1، ص 373 و ص 464۔
3۔ مقتل الحسین خوارزمی. ج2. ص30۔
4۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375؛ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459.
5۔منتہی الآمال، ج 1، ص 375.
6۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) تمام مسلمان بلاتفریقِ مسلک کربلا کے وارث ہیں، کربلا تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، لہذا پیغامِ کربلا کی حفاظت کرنا اور اسے نسل در نسل منتقل کرنا نیز کربلا والوں کی یاد کو انحرافات و خرافات سے پاک رکھنا بھی تمام مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجود اہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی، جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ناصبی اپنے اوپر اسلام کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔
ایک سروے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جو لوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے، ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلا کو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں کو امام حسین (ع) کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے۔ گویا جو زہر رشدی کے قلم نے رسولِ اکرمﷺ کے خلاف اگلا تھا، وہی نواسہ رسولﷺ کے خلاف اگلا جانے لگا۔ پوری دنیا میں خصوصاً عراق، افغانستان، سعودی عرب، ہندوستان اور پاکستان میں ایسے تجزیہ نگار، مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی، انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کرکے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین (ع) پر تنقید کی جانے لگی، اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی، وہ مجموعی طور پر اس بات سے غافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھا رہے ہیں۔
آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین (ع) پر تنقید کرتا ہے، کوئی چینل یزید کی تعریف کرتا ہے، کوئی صحافی دہشت گردوں کو امام حسین (ع) کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین (ع) تو پہنچا ہے، پیغامِ حسین (ع) نہیں پہنچا۔ اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ حقیقی معنوں میں پیغام کربلا کو عام کریں۔ تحریک ِکربلا پر لکھیں، کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں، تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں، اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصد کربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔ آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہو جانے کا اہم سبب وہ دانشمند، خطباء اور ادباء ہیں، جنہیں حسین ابن علی (ع) کی چوکھٹ سے علم کا رزق، افکار کا نور، قلم کی بلاغت، زبان کی فصاحت اور بیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلا کو عوام تک نہیں پہنچاتے، اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں، لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔
اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب، جمال و جلال، عشق و عرفان اور خون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تو دنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہر منصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہو جاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں، جس نے دین ِ اسلام کو لازوال کر دیا، جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کر دیا، جس نے سنّت کو زندہ کر دیا، جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کر دیا، جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا، جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا، جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنا دیا، جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطا کیا، جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا، جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کر دیا، جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کر دیا، جس کے علم کا پھریرا آفاقِ عالم پر چھایا ہوا ہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔۔
کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہو تو شہکارِ رسالت ہے، اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے، اگر آغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے امیر نے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جما دیا، جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کر دیا، جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلا دیا۔ بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔! یہ ہمارے واعظین، خطباء، ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کر کربلا پر تحقیق کریں، کربلا لکھیں، کربلا پڑھیں، کربلا خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے:
ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا
رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک بار بار ڈوب جاتی ہے
جو اِک آنکھ دنیا پر اور اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں
شہادت کی گھڑی ان کی زباں سوکھ جاتی ہے
جھوٹ کے چشمے سے سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا
مرمر کا پتھر پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا
راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا
جو مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑ جائے
وہ ہاتھ سلام یاحسین (ع) نہیں لکھ سکتا
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
اللہ اللہ باء بسم اللہ پدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معنی ذبح عظیم آمد پسر
وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو محرم ہر سال آتا ہے مگر پچھلے سال کی نسبت نئے درس اور عبرت لے کر آتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والے اللہ کی محبت میں سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں اگرچہ وطن ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے ،عزیزوں کو ترک کرنا ہی کیوں نہ پڑے اور اولاد کو قربان کرنا ہی کیوں نہ پڑے۔ محرم ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ ایمان و عشق کا مرحلہ امتحان پیش آئے تو مرد مومن اپنی مستورات اور اولادکو راہ خدا میں دینے سے دریغ نہیں کرتے۔وہ مادی مفاد کو نہیں دیکھتے بلکہ اس چیز کی فکر میں رہتے ہیں کہ کن کاموں سے رضائے خداوندی حاصل ہوتی ہے،چونکہ عشق کا جذبہ اور اس کا اظہار مادی میزان سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سر نگوں کر دیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کےساتھ کربلا پہنچے اوروہاں امام عالی مقام نے کربلا کے تپتےہوئے صحرا میں انسانوں کو جینےاور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو نے
بنی امیہ کے مردہ دل سیاستدان اس بات کے خیال میں تھے کہ حسین بن علی علیہ السلام کے بعد کام تمام ہو جائے گا ،لیکن زمانے کی گردش نے ان افراد کویہ بتا دیا کہ جس حسین علیہ السلام کو تم شہید کر چکے ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا آج بھی یہی پیغام دے رہی ہے کہ حق پر ڈٹ کر باطل کا مقابلہ کرنا چاہیے اگرچہ اپنی جان اور اولاد کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ اور حسین بن علی علیہ السلام نے 61ھ میں ذبیح اللہ کی یاد تازہ کرائی ،لیکن اسماعیل علیہ السلام کے ذبح ہونے اور کربلا میں ذبح ہونے والوں میں آسمان و زمین کا فرق نظرآتا ہے ،وہاں صرف ابراہیم خلیل اللہ نے خواب دیکھا لیکن یہاں حسین بن علی علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے بیٹوں کے سر کٹتے ہوئے دیکھے ،ابرہیم خلیل کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی لیکن کربلا میں حسین بن علی علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے بیٹوں کو شھید کیا گیا،وہاں ایک اسماعیل تھا لیکن یہاں کئی اسماعیل تھے جنہوں نے حسین علیہ السلام کے سامنے اپنی جانیں فدا کر دیں ۔ امام علیہ السلام نے اسلام پر اپنے آپ کو قربان کر کے اور اپنی جان کو اسلام پر نچھاور کر کے اس آیت ( و فدیناہ بذبح عظیم) کا
مصداق بنا دیا ۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
کربلا پاکیزہ رشتوں کی امین ہے، یہاں اسلام نے رشتوں کو جو عظمت عطا کی ہے، وہ اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔کربلا ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے شہید ہونے کا نام ہے، کربلا انسانیت کی عظیم درسگاہ کا نام ہے، کربلا دائمی بقا کے لئے حکم مولا پر فنا ہونے کا نام ہے، کربلا خاندان پیغمبر (ص) کی عظمتوں کی امین ہے، کربلا عاشقوں کی منزل ہے، کربلا اسلام حقیقی کی ابدی بقا کی مسلسل تحریک ہے، کربلا عقیدتوں کا مرکز ہے، کربلا اہل محبت کا مرکز ہے، کربلا وہ چشمۂ فیض ہے جس سے ہر انسان فیضیاب ہوتا ہے۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کو پرکھا جا رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے خود فرمایا : {الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتہم یحوطونہ مادرت معایشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون}لوگ دنیا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تو دیندار کم نکلتے ہیں۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جو آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رہے اور دنیوی مفادات کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہ کر ے۔
آج واقعہ کربلا کو وقوع پذیر ہوئے چودہ سو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہوا ہے لیکن عاشورا کادن ابھی ڈحلا نہیں۔شام غریباں کی بے مہر تاریکیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔سر امام حسین علیہ السلام ابھی نوک سناں سے اترانہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مظلوم اور ستائی ہوئی بیٹیاں ،بےمقنع و چادر، رسن بستہ ابھی تک سکھ کا چین نہیں لے سکیں۔امام حسین علیہ السلام آج بھی دشت کربلا میں تنہا ھل من ناصرینصرنا کی صدادے رہے ہیں۔آج بھی اموی شیاطین اوریزیدی افکار رکھنے والے چراغ مصطفوی کی لو کو گل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔آج بھی شرور بو لہبی سے امام مظلوم کے اعداء پہلے سے زیادہ فعال ہو کر ،مکر و فریب کے جدید اسلحوں اور نئی روشنی اور روشن فکری کے چکا چوند قمقموں سے دنیا کو ظلمت کدہ بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں ۔آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کر کے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش ،القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان بزرگ امریکہ، اسرائیل ،سعودی عرب ا ور ان کے دستر خوان پر پلنے والے یزیدی افکار رکھنے والےعناصر کو علم ہونا چائیے کہ شیعیان حید کرار اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کرتےرہیں گے اور ان کا غم مناتے رہیں گے اور قیامت تک یہ سلسلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔
باطل کے سامنے جو جھکائے نہ اپنا سر
سمجھو کہ اس کے ذہن کا مالک حسینؑ ہے
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک سبزہ زار پر تین گائیں باہم زندگی بسر کرتی تھیں، ایک کا رنگ سفید ، دوسرے کا سیاہ اور تیسری کا رنگ ذرد تھا۔ یہ تین آپس میں پیار, دوستی اور محبت سے زندگی گزارتی تھیں. ایک دن ایک ناتواں اور بھوکا شیر وہاں پہنچا اس نے ان تینوں گائیں کی محبت اور اتفاق کو دیکھ کر ایک ترکیب سوچی کہ کسی نہ کسی طرح ان کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جائے کیونکہ تفرقہ ہی واحد حل تھا جس سے وہ ان تینوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا اور پھر اپنی بھوک مٹاتا۔ ایک دن اس نے سیاہ اور ذرد گائیں کو سفید گائے سے الگ پایا تو جلدی سے ان دونوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم دونوں کے رنگ ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے ہیں لیکن یہ سفید گائیں تم دونوں سے بالکل الگ ہے لہذا اس خوبصورت سبزہ زار کا مالک صرف تم دونوں کو ہونا چاہئیے تاکہ تم دونوں آرام سے گھانس چر سکو. شیر کی باتیں ان دونوں جانوروں پر اثرکر گئیں اور انہوں نے سفید گائیں سے نفرت کا اظہار کر دیا ، نفرت کا اظہار کرنا تھا کہ شیر نے اپنا دوسرا تیر کمان سے چھوڑا اور کہنے لگا میں تم دونوں کی مدد کر سکتا ہوں، میں ایسا کرتا ہوں کہ اس سفیدگائے کو کھا جاتا ہوں تاکہ تم دونوں راحت سے یہاں زندگی گزار سکو دونوں گائیں شیر کی بات پر متفق ہو گئیں یوں شیر نے موقع پاکر سفید گائے پر حملہ کیا اور اپنی بھوک مٹائی۔ کچھ دن بعد شیر نے زرد گائے کو اکیلا پا کر پھر عیاری کی اور کہنے لگا کہ تم اس کالی گائے کے ساتھ بلکل اچھی نہیں لگتی تمہارا اور میرا رنگ ملتا جلتا ہے لہذا میں اس کالی گائے کو کھا جاتا ہوں تا کہ اس سبزہ زار کی مالک صرف تم بن سکو۔ اس طرح شیر نے موقع دیکھ کر سیاہ گائیں کو بھی کھا لیا اور کچھ دن بعد زرد گائیں کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اب تمہاری باری ہے، میں تمہیں کھانا چاہتا ہوں اب زرد گائے کو شیر کی چالیں سمجھ آگئیں مگر اب کچھ فائدہ نہیں تھا. اختلاف نہ صر ف تفرقہ کا باعث بن سکتا ہے بلکہ ہلاکت و نابودی کا سبب بھی ہے۔
کچھ ایسے ہی مسائل سے پاکستان بھی دوچار ہے ہم آپس میں دست وگریبان ہیں، کہی پر سندھی مہاجر کا مسئلہ ہے تو کہی پر پنجابی سرائیکی کا تو کہی پر پٹھان کا غرض ہم نہ صرف لسانی فسادات میں جھگڑے ہوئے ہیں بلکہ فرقہ واریت بھی اپنی عروج پر ہے ۔ ہمیں وطن عزیز میں کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں پر سب امن و بھائی چارگی سے زندگی گزار رہے ہوں اور اپنے آپ کو سچا اور محبالوطن پاکستانی سمجھتے ہوں۔ ملکی صورت حال کو اس نہج پر پہنچانے میں عوام سے زیادہ ہمارے ذمہ دار اداروں اور حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ قائد اعظم کے بعد ہمارے حکمرانوں اور جنریلوں نے اپنے اصل قبلہ سے منہ موڑ دیا تھا یعنی پاکستان بنانے کے مقصد کو فراموش کر دیا تھا اسی وجہ سے ایک تو ہم ابتدا ہی سے لسانی مسائل کا شکار ہو گئے اور دوسری جانب ہم نے اپنے قبلہ کو امریکہ طرف موڑ دیا۔ جس سے ہمیں جو فائدے حاصل ہوئے ہیں وہ آج کل ہم طالبان اور دہشتگردوں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کرپٹ اور غلام حکمران و جنریلز بھی امریکہ سے دوستی کے بل بوتے پر ہم پر مسلط رہے ہیں۔
ہمارے تمام حکمران طبقے اور پڑھے لکھے طبقے امریکہ اور یورپ سے دوستی کو اجر عظیم سمجھتے ہیں اور امریکہ کی طرف سے کوئی ہڈی بھی پہنچے تو اسے سر آنکھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ حکمرانوں سے زیادہ حیرت مجھے پڑھے لکھے طبقے پر ہوتی ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود ان کی غلامی کو افضل سمجھتے ہیں اور ان کے ہر فرمان پر سر تسلیم خم کرتے ہیں اور فریب کھا جاتے ہیں۔
ہم اگر امریکہ سے دوستی میں کیا کھویا کیا پایا اس پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہم نے صرف چند ڈالرز حاصل کیے ہیں اور وہ بھی حکمرانوں کے اکاونٹس میں جمع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کو جو تحفہ ملا ہے وہ ملکی قرضے اور دہشت گردی کا ناسور ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے حواریوں کو انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتے ہیں اور پس پردہ ان کے مقاصد سے غافل ہیں۔ عالمی طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے مسلمانوں کو بدنام کیا ہے اور ساری دنیا میں مسلمان کے نام کو ہی ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اس کی حمایت میں ہمارے سادہ لوح مسلمان میدان میں ہیں۔ ہمارے لیے اسے زیادہ شرم کا مقام اور کیا ہو گا کہ امریکہ کا بدمعاش اور متعصب ترین صدر سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو اسلام پر لیکچر دے اور سب سے بڑا دہشت گرد ہمارے وطن عزیز کو دہشت گرد ملک قرار دے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں. ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کچھ گروہ کے نائین الیون حملے میں ملوث ہونے پر(لیکن خود 9/11 پر حملے ابھی تک ایک معمہ ہے کہ اس کے اصل ماسٹر مائنڈ کون تھے) افغانستان کو خاک و خون میں ملا دینا دہشت گردی نہیں ہے؟ کیمیکل ویپن کی آڑ میں عراق کو تباہ کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟ اسی طرح شام، لیبیا، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں امریکی مداخلت بھی ایک مسئلہ ہے۔ امریکہ جو کہ اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا لیڈر مانتا ہے اگر ہم عراق، شام کی جنگ اور داعش کے وجود میں امریکہ کے کردار کو ایک جانب رکھ کر صرف افغانستان کا ہی جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ میں پیش پیش ہے یا دہشت گردوں کی نرسریاں لگانے میں آگے آگے ہے۔ امریکہ ۲۰۰۱ سے افغانستان میں نام نہاد شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور اس وقت ۱۱ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں ان سب کے باوجود آئے روز بم دھماکے اور دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں دوسری طرف داعش اور طالبان پھر سے ابھر رہے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ سولہ سترہ سالوں سے لڑنے والی دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟؟
لہذا مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیے، اسلام دشمن عناصر کبھی بھی مسلمانوں کو اتفاق اور طاقت میں نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی کبھی مسلمانوں کے دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مشرق وسطی کے حالات سے سبق حاصل کرنا چاہئیے کہ کس طرح امریکہ نے پہلے صدام اور قزافی سے غلامی کروائی اور جب انکی تاریخ ختم ہوئی تو کس طرح ان کو ذلیل کیا اور موت کے گھاٹ اتروایا۔ اگر ہم غور و فکر کریں تو امریکہ نے سب سے پہلے عوام کو اپنے حکمرانوں سے بے زار کرایا، ملکوں میں افرا تفری کا عالم پیدا کروایا، فرقہ واریت اور لسانی تعصب کو بڑھکایا پھر خود ہمدرد بن کر میدان میں کود پڑا، یوں اس نے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والی مثال پر عمل کیا۔ امریکہ اور ان کے حواریوں نے اسی طرح مشرق وسطی کے ملکوں کو تباہ کیا ہے عرب ممالک کو لوٹ رہا ہے اور اپنے اشارے پر نچا رہا ہے اب جو آخری ملک ان کی آنکھوں میں چبھ رہی ہے وہ وطن عزیز پاکستان ہے جہاں پر اترنے کے لیے وہ سالوں سے منصوبہ بندی کر رہا ہے. اول پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر رہا ہے, دوئم کچھ خائن حکمران یا قائدین کے ذریعے نسل پرستی و لسانیات کو فروغ دے رہا ہے، سوئم فرقہ واریت و دہشت گردی کے ذریعے ملک کو کمزور کر رہا ہے تاکہ وہ موقع ملتے ہی پاکستان کو عراق اور شام کی طرح بنا سکے۔ لہذا عوام کو باخبر رہنا چاہئیے کہ کوئی بھی فرقہ و لسانی طور پر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے تو وہ پاکستان کا دشمن اور امریکہ و را کا ایجنٹ ہے۔ اگر ہم اپنے پرانے رویہ پر قائم رہے تو پھر ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو شیر نے گائے کے ساتھ کیا تھا۔
تحریر: ناصر رینگچن