وحدت نیوز( آرٹیکل) خامس آل عبا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور مصیبت اس قدر عظیم تھی کہ گریہ و زاری آپ کے نام سے ملی ہوئی تھی اورجس طرح حریت،شجاعت، غیرت، دفاع از دین وغیرہ، امام حسین علیہ السلام کے نام سے ملی ہوئی ہیں۔اس دلخراش حادثے نے نہ صرف اہل اسلام کو متاثر کیا بلکہ عرشیان اورساکنان آسمان کے لئے یہ حادثہ سنگین ترہوا۔[ و جلت و عظمت المصیبۃبک علینا و علی جمیع اہل السلام و جلت و عظمت المصیبۃ بک علینا و علی جمیع اہل السموات]
تاریخچہ عزاداری مظلومیت امام حسین علیہ السلام کوہم تین حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک پرقسم مختصرروشنی ڈالیں گے۔
1۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے قبل ان کے لئے عزاداری:
روایت میں ہے کہ انبیاء الہی امام علیہ السلام کی ولادت سے کئی ہزار سال پہلے جب ماجرائے کربلا سے باخبر ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ کیا۔روایت میں ہے کہ جب جبرئیل[ع]حضرت آدم علیہ السلام کو توبہ کرنے کے لئے کلمات کی تعلیم دے رہے تھے اور جب انہوں نے خداوند متعال کو پانچ مقدس اسماء سے پکارا،اور جب نام امام حسین علیہ السلام پر پہنچے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہو گئی ۔
جناب آدم [ع]جبرئیل سے پوچھتے ہیں کہ میں جب پانچویں شخصیت پر پہنچاتونہیں معلوم کیوں ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی اور آنسو جاری ہوگئے ؟جبرئیل[ع] کہتے ہیں اس شخصیت پر ایک عظیم مصیبت آئے گی کہ تمام مشکلات و مصائب اس مصیبت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں ۔انہیں غریبانہ بالب تشنہ بغیریارو مدد گار شھید کر دیا جائے گا ۔جبرئیل امام حسین علیہ السلام اور انکے خاندان پرڈھائے جانے والے مصا ئب حضرت آدم علیہ السلام کو بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ جبرئیل [ع] وآدم [ع] مثل مادر[فرزند مردہ]ان پر روتے ہیں {فبکی آدم و جبرئیل بکاء الثکلی }اور جب خداوند متعال نے حضرت موسی[ع] کے لئے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شھادت اور اہل حرم کی اسیری اور سر شھداء کا مختلف شھروں میں پھیرانے کی خبرسنائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی گریہ و زاری کیا ۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی جب جبرئیل[ع] سے پانچ مقدس شخصیات کے نام سیکھ لئے اور جب امام حسین علیہ السلام کا اسم مبارک انکی زبان سے جاری ہوا تو ایک عجیب سی حالت ان پر طاری ہو گئی اور اشک جاری ہوئے۔خداوند متعال سے عرض کی خداوندا! کیوں جب ان چہار مقدس شخصیات کے نام لیتا ہوں توغم و اندوہ مجھ سے ختم ہو جاتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام کا نام میری زبان پر جاری ہوتا ہے تو آنسو جاری ہو جا تے ہیں؟خداوند متعال نے مصائب امام حسین علیہ السلام میں سے بعض مصائب حضرت زکریا علیہ السلام کو سنائے اور جب حضرت زکریا علیہ السلام ان مصائب سے آگاہ ہوئے تو تین دن تک مسجد سے باہر نہیں آئے اور لوگوں سے بھی ملاقات نہیں کی اور ان تمام مدت میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ و زاری کی۔
روایت میں منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جب حضرت عیسی علیہ السلام ا پنے حواریوں کے ساتھ کربلا کی سر زمین سے گزرے تو گریہ کرنا شروع کردیا ۔حواریین نے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ گریہ شروع کردیا اور جب حواریین نے حضرت عیسی علیہ السلام سے گریہ کی وجہ پوچھی تو حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : اس سر زمین پر پیامبر اسلام [ص]اور فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا کا فرزند قتل کیا جائیگا۔
2۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر انکی ولادت کے بعد عزاداری:
امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام علی علیہ السلام اور حضرت زھراء[س] جب انکی مظلومیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی ۔
رسول خدا [ص]کا گریہ:
روایت میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زھراء[س]کےگھر تشریف لے گئے اور اسماء سے فرمایا: میرے بیٹے کو لے آو۔اسماء نے امام حسین علیہ السلام کو ایک سفید کپڑے میں ملبوس کر کے رسول خدا[ص]کو دیا ۔پیغمبر اکرم [ص] نے امام حسین علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور انہیں آغوش میں لے کر گریہ کیا ۔ اسماءنقل کرتی ہیں جب میں نے حضرت[ص] سےپوچھا کہ میرے ماں باپ آپ[ص] پر فدا ہو جائیں آپ کیوں گریہ کر رہےہیں ؟آپ[ص] نے فرمایا: اس فرزند کی خاطر رو رہا ہوں ۔اسماء کہتی ہیں یہ فرزند تو ابھی ابھی متولد ہوا ہے اس پر آپ [ص]کو خوشحال ہونا چاہیے ۔آپ[ص] نے فرمایا [ تقتلہ الفئتہ الباغیتہ من بعدی لا انا لھم اللہ شفاعتی] میرے بعد ان کو ایک گروہ ستم کار شھید کرے گا کہ ہرگز خداوند متعال انہیں میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔ اسکے بعد آپ[ص] نے فرمایا [یا اسماء لا تخبری فاطمۃ بھذا فانھا قریبتہ عھد بولادتہ]اے اسماء فاطمہ [س]کو اس سے آگاہ نہیں کرنا چونکہ وہ ابھی تازہ اس بچے کی ماں بنی ہے ۔
امام علی علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ:
ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ میں اورامیر المومنین علی علیہ السلام صفین جاتے وقت ساتھ تھے اور جب نینوا کے مقام پر پہنچے تو بلند آواز میں مجھ سے فرمایا : اے ابن عباس اس مکان کو پہچانتے ہو ؟ میں نے عرض کی میں نہیں جانتا ہوں ۔فرمایا :اے ابن عباس جس طرح میں اس سر زمین کو جانتاہوں اسی طرح تم اسکے بارے میں جانتے تو حتما میری طرح گریہ کرتے ہوئے اس سر زمین سے گزرتے۔ اسکے بعد امام علیہ السلام کافی دیر تک گریہ کرتے رہے یہاں تک آنسو آپکی محاسن سے سینہ مبارک کی طرف سرازیر ہوگئے ۔میں بھی امام علیہ السلام کے ساتھ گریہ کرنے لگا امام[ع] نے اسی حالت میں فرمایا وای ،وای ابوسفیان کو مجھ سے کیا کام ؟مجھے آل حرب سے کیا کام؟یہ لوگ حزب شیطان اور اولیائے کفر ہیں ۔اے ابا عبد اللہ صبر کرو چونکہ آپکے والد کو بھی اسی گروہ سے وہی ظلم و ستم پہنچے گے جس طرح تمھیں پہنچے گے۔[اوہ اوہ مالی و لآل سفیان؟ مالی و لآل حرب حزب الشیطان؟ و اولیاء الکفر؟صبرا یا ابا عبد اللہ فقد لقی ابوک مثل الذی تلقی منھم]
گریہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شھادت امام حسین علیہ السلام اور انکے مصائب کی خبر اپنی بیٹی کو سنائی تو حضرت زھراء [س] نے سخت گریہ کیا اور اسکے بعد اپنے والد سے پوچھتی ہیں کہ یہ ماجرا کس زمانے میں واقع ہوگا ؟ رسول خدا [ص]نے فرمایا : یہ حادثہ اس زمانے میں رونما ہو گا جب نہ میں اس دنیا میں ہونگا اور نہ تم اور نہ علی اس دنیا میں ہو نگے ۔جب یہ سنا تو حضرت فاطمہ[س] شدید گریہ کرنے لگیں اسکے بعد رسول خدا[ص]نے انہیں امت کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کے لئے عزاداری کی خبر دی اور اس گریہ و زاری کی جزاء بھی بیان فرمائی۔
3۔ امام حسین علیہ السلام پر ان کی شہادت کے بعد عزاداری:
آخر کار ابتدائے خلقت میں اولیاء الھی کو جس دلخراش و دلسوزناک واقعے کی اطلاع دی گئی تھی وہ61ہجری کو سر زمین کربلا پر واقع ہوا ۔وہ حادثہ جو واقع ہو نے سے پہلے ہی اشکوں کو جاری کر دیتا تھا دسویں محرم 61ہجری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مومنین کے دلوں میں آگ کی طرح حرارت وجود میں لے کر آیا جو قیامت تک خاموش نہیں ہوگی۔اس قدر یہ حادثہ المناک تھا کہ روز عاشورا کو روز عزاداری و سوگواری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور رہیگا چونکہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:[ ان القتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا] یقینا امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت بھر دی ہے جو کبھی بھی خاموش نہیں ہوگی ۔9
جب اہل حرم کی نظر شہداء کے جسموں پر پڑی تو فریاد کرنے لگے اس وقت زینب بنت علی[س] بھی فریاد کرنی لگی۔]وا محمداہ صلی علیک ملیک السماء ھذا حسین مرمل بالدماء مقطع الا عظاء و بناتک سبایا [اے پیغمبر ،درود خدا ہو آپ[ص] پر :یہ آپ کا فرزند حسین[ع] ہے جو اپنے خون میں غلطان ہے اور انکے جسم کو قطعہ قطعہ کیا گیا ہے اور یہ آپ[ص]کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہو چکی ہیں ۔ زینب بنت علی[س] نے جب گریہ شروع کیا تو منقول ہے کہ [فابکت واللہ کل عدو و صدیق]خدا کی قسم دوست و دشمن سب گریہ کرنے پر مجبور ہوئے اور سب نے گریہ کیا۔
اسیروں کے کاروان کو کوفہ و شام لے جانے کے بعد امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب[س] کے خطبوں نے شہر دمشق میں ہلچل مچا دی ، یہاں تک کہ یزید کے محل میں ہی مراسم عزاداری برپا ہوئی اور اموی خاندان کی عورتوں نے بھی مراسم میں شرکت کی اور یہ برنامہ تین تک دن جاری رہا ۔[فخرجن حتی دخلن دار یزید فلم تبق من آل معاویہ امراۃ الا استقبلھن تبکی و تنوح علی الحسین فا قاموا علیہ المناحۃ ثلاثا]
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں:
امام حسین علیہ السلام کی عزادری امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کےزمانے میں بھی منعقد ہوا کرتی تھی ۔کمیت اسدی امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں شھداء کربلا پر مرثیہ سرائی کرتےیہاں تک امام علیہ السلام کے آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔امام صادق علیہ السلام ابو ہارون مکفوف سے امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کے لئے فرمایا: اور ابو ہارون مرثیہ خوانی شروع کی۔
امرر علی جدث الحسین
فقل لا عظمہ الزکیتہ
امام[ع] کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں آخر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں[یا ابا ہارون من آنشد فی الحسین فابکی عشرۃ فلہ الجنۃ]اے ابا ہارون جو کوئی امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کرے گا اور دس افراد کو رلائے گا اس کی جزا جنت ہے ۔امام رضا علیہ السلام نے دعبل خزاعی سے فرمایا: اے دعبل ایام عاشورا ہمارے لئے بہت غمگین و اندوھناک ہیں لذا اسی مناسبت سے چند اشعار پڑھو ۔
دعبل نے مرثیہ خوانی شروع کی اور امام[ع] نے اپنے جد بزرگوار پرگریہ کیا ۔
غم امام حسین علیہ السلام میں نہ صرف انسان بلکہ فرشتے اور آسمان والوں نے بھی گریہ و زاری کیا ۔٦١ ہجری سے آج تک غم حسین علیہ السلام میں آنسو بہائے جا رہے ہیں اور ہر سال یہ مراسم پر رونق تر ہو رہیں ہیں اس لئے کہ حسین علیہ السلام نے درس بندگی اور درس آزادی دیا ۔آج جسے بھی امام حسین علیہ السلام کی ذرہ برابر معرفت ہو وہ بھی اس عظیم کاروان میں شامل ہو جاتا ہے جس کاروان کا امیر رسول خدا [ص]،علی مرتضی[ع] ،زھرامرضیہ [س]حسن مجتبی[ع] اور باقی ائمہ علیھم السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام ہیں جو فرماتے ہیں :[فلا ندبنک صباحا و مساء و لا بکین علیک بدل الدموع دما حسرۃ علیک و تا سفا و تحسرا علی ما دھاک و تلھفا حتی اموت بلوعۃ العصاب و غصۃالاکتیاب]
یعنی اے میرے جد مظلوم و غریب !اس قدر تجھ پر صبح و شام گریہ کروں گا اور اس قدر رووں گا کہ آنسووں کے بدلے آنکھوں سے خون رواں ہو گا ۔ایسا رونا جس کی بنیاد تجھ پر حسرت و افسوس ، غم و اندوہ اور جگر سوز ہے۔اس المناک اور دردناک عظیم سانحہ کی وجہ سے جو تیرے ساتھ پیش آیا۔یہاں تک کہ تیری اس جگر سوز اور اندوہناک مصائب کی وجہ سے قریب ہے کہ میری روح پرواز کر جائے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
منابع:
١۔زیارت عاشورا
٢۔بحارالانوار،ج٤٤،ص٢٤٥
٣۔معالی السبطین،ج١ص١٨٦
٤۔احتجاج طبرسی،ج٢،ص٥٢٩
٥۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٣
٦۔بحار الانوار،ج٤٣،ص٢٣٩
٧۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٢
٨۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٩٢
٩۔مستدرک الوسائل ،ج١٠ص ٣١٨
١٠۔بحارالانوار،ج٤٥،ص٨١کامل بن اثیر ، ج ٤ ،ص٨١
١١۔تاریخ طبری،ج٤٥ص١٤٢
١٢۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٨٧
١٣۔زیارات ناحیہ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت جب ہم لوگ اربعین امام حسین ؑ کے پروگرام فائنل کرنے میں مصروف ہیں ،کسی نے کربلا جانا ہے اور کسی کو اپنے ہاں مجلس ،جلوس،نیاز،ماتم داری کا اہتمام کرنا ہے،کوئی جلوسوں کو پر امن بنانے کیلئے سیکیورٹی معاملات کو آخری شکل دے رہا ہے،ہماری قوم پر ایک شدید وار پنجاب کے حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا ہے،،گذشتہ شب یہ خبر ملی کہ مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جو ایک وکیل اور سابق طالبعلم رہنما کے طور پہ بھی جانے جاتے ہیں کو کالے ڈبل کیبن والی پارٹی نے زبردستی ان کے گھر کی نزدیکی مارکیٹ سے اس وقت اغوا کیا ہے جب ان کی فیملی اور گارڈ بھی ہمراہ تھے،یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی اور اس پر رد عمل آنا شروع ہوا،ظاہر ہے مجلس وحدت جو اس وقت اہل تشیع کا سب سے فعال اور مربوط قومی پلیٹ فارم ہے جس کی فعال ترین شخصیت کو بے جرم و خطا انتہائی بھونڈے ا نداز میں اٹھالیا جانا کسی بھی طور مناسب نہیں بلکہ ایسے اشتعال انگیز اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے ذمہ داروں کو کورٹ میں لایا جانا چاہیئے، سید ناصر عباس شیرازی کوئی عام کارکن یا معمولی فرد نہیں وہ ایک تاریخ ہے جس نے زمانہ اسکول سے شیعہ قومیات میں حصہ لینا شروع کیا اور یونیورسٹی کے زمانہ میں پورے پاکستان کے طلبا کی قیادت کی،جبکہ موجودہ قومی پلیٹ فارم تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا،حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے ان کا تعلق پنجاب سے ہو یا مرکز سے،ہماری خفیہ ایجنسیاں ان کا تعلق فیڈرل سے ہو یا صوبے یہ توقع نہیں رکھتی تھیں کہ شیعہ قوم ایک بار پھر ابھر آئے گی اور اپنے مسائل کے حل اور ایشوز منوانے کیلئے سٹریٹ پاور کی سیاست کر سکے گی،جب مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں آیا تو اس قومی پلیٹ فارم نے عوامی ترجمانی کا حق ادا کیا،اور اپنی بھرپور فعالیت سے ڈیرہ اسماعیل خان،پاراچنار،ہنگو،کوئٹہ،اور ملک کے دیگر ان علاقوں جہاں شیعیان حیدر کرار ؑ کا قتل بے دریغ اورآئے روز کی مشق بن چکا تھا ان علاقوں کے یوتھ کو فعال بنانے میں ایک کردار ادا کیا۔مجوروں اور مظلوموں کی آواز کو اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچایا۔بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا،امیدیوں کے بادلوں کو امید میں تبدیل کیا،علما ء سے فرار کر جانے والے قوم کے نوجوانوں کو ایک بار پھر علما ء پر اعتماد کی صورت میں مجتمع کیا،ملت کی دبا دی گئی آواز کو ایک طاقت می تبدیل کیا،اسی طاقت نے دینی و مکتبی اجتماعات کیساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر بھی اپنے لوہے کو منوایا،اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے پہلی بار بھرپور روبط قائم ہوئے اور قومی وزن محسوس کیا جانے لگا،وہ لوگ جو اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے ایک بار پھر اپنے آبائی علاقوں میں واپس لوٹ آئے اور ان کا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال ہوا،قوم نے مجلس وحدت مسلمین کی شکل میں اپنے مسائل کا حل سمجھا تو قائدین کو بھی اعتماد ملااور انہیں بڑے فیصلے کرنے کی ہمت بڑھی اسی حوالے سے ہم نے دیکھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے سولہ برس کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا،یہ اجتماع اگرچہ سخت گرمی میں منعقد ہوا مگر قوم اور قائدین کو داد دینا پڑے گی کہ دونوں طرف سے بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کیاگیا،اور علماء ،ذاکرین،عمائدین،اور عوام نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ دشمن کے منہ کھلے رہ گئے،ایجنسیوں اور سازشیوں کی انگلیاں دانتوں تلے دبی ہوئی دیکھی گئیں،اور پھر ہم نے دیکھا کہ سازشیں شروع ہو گئیں،کہ کسی بھی طرح یہ قوم اکٹھی نا ہو،منظم نا ہوسکے اور پاکستان میں ایکبھرپور قومی کردار ادا نہ کر سکے،اسی دوران یمن پر سعودیہ نے حملہ کیا،عراق و شام میں دولت اسلامیہ کے نام سے عالمی دہشت گردوں کا ٹولہ سامنے آیا اور اسلام کی ایک انتہائی مکروہ شبیہ پیش کی،جسے عالمی استعمار کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل رہی،پاکستان کے نوجوانوں میں بھی عراق و شام کے جہادی جذبوں کے اثرات مرتب ہوئے،مزارات آئمہ کے تحفظ کے عنوان سے مجلس وحدت مسلمین نے بھرپور تحریک چلائی اور ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے عملی آمادگی کا اظہار کیا۔
ہمارے ملک میں عجیب طریقہ رائج ہے کہ ملک کے سیکورٹی اداروں کو ناکوں چنے چبوانے والے دہشت گردوں کو تو کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ان سے تو مزاکرات کا دور چلایا جا سکتا ہے مگر اہل تشیع پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا،یہ بعض انتہائی موثر لوگوں کی ایک ایسی پالیسی ہے جو ضیا ء کے دور سے چلی آ رہی ہے،اور اس کا خمیازہ ہم ہمیشہ بھگتتے چلے آ رہے ہیں،اسی پالیسی کے نتیجہ میں ایک بار پھر ہمیں توڑنے کی سازشیں ہوئیں،اور ایک منظم قومی پلیٹ فارم کو مختلف قسم کے الزامات کے تحت مشکلات کا سامنا کرنا پرا حتی یہ کہ اگر کسی ایریا میں ایک بندے نے ذمہ داری کا حلف اٹھایا تو دوسرے دن اسے استعفے دینا پڑا یعنی اسے اس قدر ڈرایا گیا کہ وہ بیچارہ اپنی جان بچانے کیلئے سائیڈ پہ ہو گیا،چنیوٹ،جھنگ،کوئٹہ،پشاور،اسلام آباد،فیصل آباد،خانیوال،ملتان،وہاڑی،سکردو،گلگت،راولپنڈی،اور ملک کے اکثر اضلاع میں سی ٹی ڈی کے نام پہ لوگوں کو ڈرایا گیا،انہیں تھانوں کے چکر لگوا کے زدوکوب کیا گیا،ان کے خلاف پرچے کاٹے گئے،انہیں تنگ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب مجلس عہدیداران اور ہمدردوں کو نشانہ بناتے ہوئے جبری طور پہ غائب کیا جانے لگا،اس وقت بھی مجلس کے کئی ذمہ دار اور ہمدرد جبری طور پہ غائب ہیں،ان میں علما کی کی بھی تعداد ہے اور کارکنان بھی شامل ہیں۔
قارئین! آپ آگاہ ہیں کہ انہی جبری غائب کردہ افراد قوم کی رہائی کیلئے کئی ہفتوں سے کراچی سے ایک تحریک اٹھی ۔جسے مجلس وحدت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی لیڈ کر رہے ہیں ،علامہ احمد اقبال رضوی اور اسیران کے ورثا بھی اس تحریک کے تحت گرفتاریاں پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔یہ تحریک ابھی چل رہی تھی اور دنیا کی توجہ حاصل کر رہی تھی کہ گزشتہ رات برادر ناصر عباس شیرازی کو جبری طور پہ اغوا کر کے غائب کر دیا گیاہے،یہ وقوعہ صوبائی دارالحکومت میں پیش آیا ہے جس کے گواہ برادر ناصر شیرازی کی فیملی اور سرکاری گارڈ بھی ہیں ،برادر موصوف کاا س انداز میں اٹھایا جانا موجودہ حکمرانوں کا ایک متجاوز اقدام ہے جس سے ملت تشیع کے قلوب میں نون لیگی حکومت اور اس کے متعصب قائدین کیلئے نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے ،نون لیگ کی متعصبانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کرپٹ و نااہل حکمرانوں کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا جائے گا،برادر ناصر عباس شیرازی چونکہ مرکزی سیاسی سیکرٹری بھی رہے ہیں اور ان کے روابط دیگر سیاسی جماعتوں سے بھرپور ہیں اور انہوں نے موجودہ متعصب وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے خلاف ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے لہذا ان کی شخصیت سے خوف زدہ یہ حکمران اپنے اختیارات اور اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طرح کے بھونڈے اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ اب نون لیگی چراغوں میں روشنی باقی نہیں رہی ،یہ بجھا ہی چاہتے ہیں،عوام ان کو اس ملک اور اقتدار سے اٹھا کر باہر پھین دیں گے اور کرپشن کی سزا دینگے،رہا سوال برادر ناصر شیرازی کے جبری غائب کیئے جانے کا تو یہ سلسلہ ہمارے لیئے نیا نہیں،یہ چودہ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے،ہم محبت علی کا خراج ادا کرتے آ رہے ہیں اور کرتے رہینگے ،ہمیں کسی قسم کی گھبراہٹ یا پچھتاوا نہیں ہوتا،ہم اپنے ہدف کے حصول تک چراغ سے چراغ جلاتے رہینگے تاوقتیکہ حضرت حجت فرزند اباعبد الللہ الحسین ؑ پردہ غیبت سے ظاہر نہیں ہو جاتے اور مظلوموں اور مجبوروں کے ہاتھ میں اقتدار کا علم نہیں تھما دیتے،برادر ناصر عباس شیرازی کی گرفتاری اور جدوجہد اسی راہ اور راستے میں آنے والی مشکلات و مصائب کا حصہ ہیں وہ ہم سب سے زیادہ باہمت ہیں اور اس کا ادراک انہیں اٹھانے والوں کو بھی باخوبی ہو گیا ہو گا،مولا کریم ان کی حفاظت فرمائے،اور وہ ابا عبداللہ الحسین ؑ کے اربعین کیلئے انہیں سلام پیش کرنے کربلا میں نظر آئیں۔۔۔انشا اللہ
از۔۔۔۔ علی ناصر الحسینی
وحدت نیوز(آرٹیکل) سیاست اصولوں پر چلنے کا نام ہے، سیاست میں مخالفت کے بھی اصول ہوتے ہیں، جوقومیں سیاسی اصولوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں وہ عقب ماندہ اور پسماندہ رہ جاتی ہیں۔ سیاسی تعلقات میں اونچ نیچ اور اتار چڑھاو بھی آتا رہتا ہے اور کمالِ سیاست یہی ہے کہ اونچ نیچ کے وقت سیاسی تعلقات کو متوازن رکھا جائے۔
جو سیاسی پارٹیاں یا سیاستدان اپنے سیاسی تعلقات میں توازن نہ رکھ سکیں وہ ملک کے لئے بنگلہ دیش کی علیحدگی جیسے حالات تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن کوئی اچھے دنوں کی نوید نہیں لا سکتے۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں بھی اتناجانتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں باہمی طور پر بڑے پیمانے پر سیاسی خلفشار پایا جاتا ہے۔اس خلفشار کے نتیجے میں بہت سارے پاکستانی لاپتہ ہو چکے ہیں، ظاہر ہے کہ جب کوئی لاپتہ ہوتا ہے تو اس کے اہلِ خانہ پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔
اگرچہ لاپتہ ہونے والے افراد کے بارے میں مختلف باتیں کی جاتی ہیں لیکن ان میں سے ایک بات سیاسی انتقام بھی ہے۔ یہ کسے معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی انتقام کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔
ابھی کچھ دیر پہلے کی خبر ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی ایڈوکیٹ کو واپڈا ٹاون لاہور سے اغوا کر لیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق موصوف اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں کچھ سول کپڑوںمیں ملبوس اور پولیس کی وردی میں موجود اہلکاروں نے انہیں زبردستی اٹھا لیا۔
دوسری طرف ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناصر شیرازی کے اغوا کے ذمہ دار شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ہیں، اگر انہیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو حالات کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہوگی۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ نون لیگ ، پنجاب حکومت اور رانا ثنا اللہ کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین تعلقات میں شدید کھچاو ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی سید ناصرعباس شیرازی کی اپیل پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے لیے 2 رکنی بنچ تشکیل دیا ہے، انٹرا کورٹ اپیل ناصر عباس شیرازی نے ایڈووکیٹ فدا حسین رانا کی وساطت سے دائر کی ہے۔
اپیل میں چیف سیکرٹری پنجاب، وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور الیکشن کمیشن پاکستان کو فریق بنایا گیا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے سانحہ ماڈل ٹاون کے جوڈیشنل کمیشن کے سربراہ کے بارے میں جو بیانات دیئے تھے ان کے بارے میں ، اپیل کنندہ نے کہا ہے کہ یہ بیانات ملک میں عدمِ استحکام اور انتشار پھیلانے کا سبب ہیں، لہذا صوبائی وزیر قانون آرٹیکل 63،62 پر پورےنہیں اترتے۔ درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فوری طور پر رانا ثنااللہ کو صوبائی اسمبلی کی نشت سے نا اہل کرے۔
اسی طرح مجلس وحدتِ مسلمین اپنے لوگوں کے اغوا ہونے میں نواز حکومت اور خصوصاً پنجاب حکومت کو موردِ الزامات ٹھہراتی رہی ہے۔ لاپتہ ہوجانے والے افراد کی تلاش کے لئے بھی ناصر شیرازی بہت سرگرم تھے۔
ہمارے خیال میں سیاسی کارکنوں کو اس طرح اغوا کرنے کے بجائے، ملکی سلامتی کے ضامن اداروں، وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کی صوبائی حکومتوں کو اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے تاکہ لاپتہ ہوجانے والے افراد کے لئے کوئی متفقہ اور مناسب لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔
افراد کا ایک تسلسل سے لاپتہ ہونا اور پھر اُن کی تلاش کے لئے جدوجہد کرنے والے لوگوں کا بھی اغوا ہوجانا ، عوام میں اضطراب اور پریشانی کا سبب ہے۔
پنجاب حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کو سیاسی انتقام کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے آئینی طور پر ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہو۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاست اصولوں پر چلنے کا نام ہے، سیاست میں مخالفت کے بھی اصول ہوتے ہیں، جوقومیں سیاسی اصولوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں وہ عقب ماندہ اور پسماندہ رہ جاتی ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) معاویہ خلفائے ثلاثہ کی طرح ظاہری طور پر امام حسین علیہ السلام کے لئے غیرمعمولی احترام کا قائل تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام مکہ اور مدینہ کے عوام کے یہاں بہت زیادہ ہر دلعزیز ہیں اور آپ کے ساتھ عام افراد جیسا رویہ نہيں اپنایا جاسکتا۔ معاویہ کو ہر وقت آپ کے قیام کا خوف رہتا تھا۔ چنانچہ اس نے امام کے سامنے قبض و بسط کی پالیسی اپنائی یعنی ایک طرف سے آپ کی منزلت کو مد نظر رکھتا تھا اور بظاہر آپ کے لئے احترام کا قائل تھا اور آپ کی تعظیم کرتا تھا اور اپنے کارگزاروں کو بھی ہدایت کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو نہ چھیڑیں اور ان کی بےحرمتی سے پرہیز کریں۔دوسری طرف سے امام کی مسلسل اور شب و روز نگرانی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا اور سفر اور حضر میں آپ کی تمام حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ اس نے حتی امام حسین علیہ اسلام کی عظمت اور معاشرتی منزلت کے پیش نظر اپنے بیٹے یزید کو بھی سفارش کی تھی کہ امام کے ساتھ رواداری سے پیش آئے اور آپ سے بیعت لینے کی کوشش نہ کرے۔1
50ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے اگرچہ آپ ؑنےاپنے بھائی کی طرح معاویہ کے خلاف قیام نہیں کیا لیکن وقتا فوقتا حقایق کو برملا کرتے تھے اور معاویہ اور اس کے عمال کے مظالم اور مفاسد کو لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے ۔چنانچہ جب معاویہ نے آ پؑ کو اپنی مخالفت سے روکا تو آپ ؑنے مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ایک خط معاویہ کولکھا جس میں اس کی سختی سے مذمت کی۔
1۔تم حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے قاتل ہو جو سب کے سب عابد وزاہد تھےاور بدعتوں کے مخالف اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکیاکرتے تھے ۔
2۔ تم نے عمرو بن حمق کو قتل کیا جو جلیل القدر صحابی تھے جن کابدن کثرت عبادت کی وجہ سے نحیف و کمزور ہو چکا تھا۔
3۔تم نے زیاد بن ابیہ کو { جو ناجائز طریقے سے متولد ہوا تھا }اپنا بھائی بنا لیا اوراسےمسلمانوں پرمسلط کردیا ۔ زیاد ابو سفیان کے نطفہ سے ناجائز طریقے سے پیدا ہوا تھا اس کی ماں بنی عجلان کی ایک کنیز تھی اور ابو سفیان نے ناجائز طریقے سے اس کے ساتھ ہمبستری کی جس سے زیاد پیدا ہوا حالانکہ اسلام کا حکم یہ تھا کہ{الولد للفراش و للعاہر الحجر} 2۔
4۔ تم نے عبد اللہ بن یحیی حضرمی کو اس جرم میں شہید کیا کہ وہ علی ابن طالب علیہ السلام کے دین و مذہب ہر عمل کرتا تھا۔کیا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دین و مذہب پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا دین و مذہب نہیں تھا وہی دین جس کے نام پر تم لوگوں پر حکومت کر رہے ہو ۔
5۔تم نے مجھے مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی سے روکا ہے لیکن میری نظر میں مسلمانوں کے لئے تیری حکومت سے زیادہ بدتر اور کوئی فتنہ نہیں ہے ۔اور میں تم سے جہاد کرنے کو بہترین عمل سمجھتا ہوں۔3۔
ابن ابی الحدید{ الاحداث} میں ابو الحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں : معاویہ نے حکومت سنبھالتے ہی اپنے عمال کو جو مختلف علاقوں میں رہتےتھے حکم دیا کہ شیعوں کے ساتھ نہایت سخت سلوک کیاجائے ۔ اور ان کے نام کو کو دیوان سے حذف کیا جائے اور بیت المال سے انہیں کچھ نہ دیا جائےاور انہیں سخت سزا دی جائے ۔ معاویہ کے اس حکم کی بنا پر شیعوں کےلئے زندگی گزارنا خاص طور پر کوفہ میں سخت ہو گیاتھاکیونکہ معاویہ اور اس کے افراد کی جاسوسی کے خوف سے ہر طرف نا امنی پھیل چکی تھی یہاں تک کہ افراد اپنے خدمتگاروں پر بھی بھروسہ نہیں کرتےتھے ۔اس نے علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے فضائل و مناقب پر پابندی لگانےکے ساتھ عثمان کے فضائل و مناقب کو زیا دہ سے زیادہ بیان کرنے اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آنے کا حکم دیا یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میں سابقہ خلفاء کے فضائل میں حدیث گھڑنے اور نشر کرنے کا حکم دیا تاکہ علی ابن ابی طالب کی شخصیت اور شہرت کم ہو جائے لیکن اس کے برعکس اس قسم کے دستورات سے اسلامی معاشرے میں حدیث گھڑنے کا رواج عام ہو گیا ۔
حضرت علی علیہ السلام اس سے پہلے سے ہی باخبرکرچکے تھے۔ آپ ّنے فرمایا تھا :{ اما انہ سیظہر علیکم بعدی رجل رحب البلعوم ، مندحق البطن .... الا و انہ سیامرکم بسبی و البرءۃ منی ....}۴۔ میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص مسلط ہو گا جس کا حلق گشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا ۔جو پائے گا نگل جائےگا اور جو نہ پائے گا اس کی اسےکھوج لگی رہے گی {بہتر تو یہ ہے }تم اسے قتل کرڈالنا لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہر گز قتل نہ کروگے وہ تمہیں حکم دے گا کہ مجھے برا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو ۔جہاں تک برا کہنے کا تعلق ہے ،مجھے برا کہہ لینا اسلئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے {دشمنوں سے} نجات پانے کا باعث ہے لیکن {دل سے} بیزاری اختیار نہ کرنا اس لئے کہ میں دین فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں سبقت رکھتا ہوں۔ آپؑ نے اس خطبہ میں جس شخص کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے بارے میں بعض نے زیاد بن ابیہ اور بعض نے حجاج بن یوسف اور بعض نے معاویہ کوکہا ہے ۔ابن ابی الحدید نےآخری شخص کو مصداق قرار دیتےہوئے معاویہ کے حضرت علی علیہ السلام کو لعن کرنے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔ اس کے بعد وہ ان محدثوں اور راویوں کا ذکر کرتا ہے جنہیں معاویہ نے امیر المومنین علیہ السلام کی خلاف احادیث گھڑنے کے لئےدرہم و دیناردیاتھا ۔جن میں سے ایک سمرۃ بن جندب تھا جسے ایک لاکھ درہم دیا گیا تھاتاکہ وہ یہ کہے کہ یہ آیت {و من الناس من یعجبک قولہ فی الحیاۃ ..}حضرت علیعلیہ السلام کی شان میں اور یہ آیت { و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات الله ...}ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔5۔مفسرین کے بقول پہلی آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو ظاہرہی طورپرپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کرتا تھا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا لیکن حقیقت میں وہ منافق تھا ۔جبکہ دوسری آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ثعلبی مفسر اہل سنت نےاس آیت کی شان نزول کو لیلۃ المبیت قراردیا ہے ۔ 6۔
معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کئے گئےصلح پر عمل نہ کرتے ہوئے یزید کو اپنا جانشین معین کیا اور لوگوں سے اس کے لئے بیعت لیا اگرچہ دین اسلام کی کچھ ممتاز شخصیتوں نے اس عمل کی مخالفت کی لیکن اس نے مخالفت کئے بغیر خوف و ہراس اور لالچ دے کر اپنا مقصد حاصل کیا ۔
ابن ابی الحدید معاویہ کی پرخوری کے متعلق لکھتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ایک دفعہ اسے بلایا تو معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے ۔دوسری تیسری مرتبہ جب بھیجا تو یہی بتایا گیا جس پر آپ ؐ نے فرمایا :{اللہم لا تشبع بطنہ }خدایا اس کے پیٹ کو کبھی نہ بھرنا ۔اس بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ جب کھاتے کھاتےتھک جاتا تھاتو کہتا تھا{ارفعوا فوالله ما شبعت و لکن مللت و تعبت } دستر خوان اٹھاو َ خدا کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک گیاہوں ،مگر پیٹ ہے جو بھرنے کا نام نہیں لیتا۔اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم کرنا اور اپنے عاملوں کو اس کاحکم دینا تاریخی مسلمات میں سے ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور منبر پر ایسے الفاظ کہے جاتے تھے جن کی زد میں اللہ اور رسولؐ بھی آجاتے تھے۔ چنانچہ ام المومنین ام سلمہؓ نے معاویہ کو لکھا:{انکم تلعنون الله و رسولہ علی منابرکم و ذلکم انکم تلعنون علی ابن ابی طالب و من احبہ و انا اشہد ان الله احبہ و رسولہ }تم اپنے منبروں پر اللہ اور رسول پر لعنت بھیجتے ہو وہ یوں کہ تم علی ابن ابی طالب اور ان کو دوست رکھنے والوں پر لعنت بھیجتے ہو اور میں گواہی دیتی ہوں کہ علی کو اللہ اور اس کا رسول بھی دوست رکھتےتھے۔7۔
معاویہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس کی جان ومال محفوظ نہیں ہیں اور جو شخص تمام اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں کوئی حدیث بیان کرے گا اسے بہت زیادہ انعام و اکرام دیا جائےگا اس نے حکم دیا تھا کہ سارے اسلامی ممالک میں منبروں سے علی علیہ السلام کو ناسزا کہا جائے اور اس نے اپنے مددگاروں کی مدد سے بعض اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کےشیعوں کو قتل کروایا اور ان میں سے بعض کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شہروں میں پھروایا تھا وہ عام شیعوں کو جہاں کہیں بھی دیکھتا آزار و اذیت دیا کرتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی پیروی سے باز رہیں اور جو اس حکم کو نہیں مانتا تھا اسے قتل کر دیاجاتا تھا ۔8۔
60 ہجری قمری میں معاویہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹےیزید نے اس بیعت کے مطابق جو اس کے باپ نے اس کے لئے لوگوں سےلی تھی اسلامی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی اور اس نےمدینہ کے لوگوں سے خاص طور پر چند شخصیات سے بیعت لینی چاہی جن میں امام حسین علیہ اسلام سر فہرست تھے۔ امام ؑاس کی بیعت نہ کرتے ہوئے مکہ کی طرف نکل گئے اور کچھ مہینے مکہ میں مقیم رہے لیکن جب یزید اور اس کے افراد کے ناپاک عزائم سے آگاہ ہوئے جو آپؑ کو مراسم حج کے ایام میں شہید کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے ناجائز مقاصد تک آسانی کے ساتھ پہنچ جائیں ،تو آپ ؑکوفہ کی طرف چلے کیونکہ کوفہ کی اکثریت شیعوں کی تھی اور انہوں نے خطوط کے ذریعے آپؑ کے ساتھ وفادار رہنے اور یزید سے بیزاری کا اعلان کیا تھا ۔لیکن عبید اللہ بن زیاد جو کوفہ کا گورنر تھا ڈرا دھمکا کر اور بعض لوگوں کو لالچ دے کر ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جس کے نتیجہ میں کربلا کا خونین و دردناک واقعہ پیش آیا اور امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کوپردیس میں مظلومانہ شہید اور آپ کے اہل بیت کو اسیر کیاگیا ۔
اگرچہ واقعہ کربلا ظاہری طور پر بنی امیہ اوریزید کی فتح اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شکست تھی مگر تاریخ اسلام میں اس نے عظیم انقلاب پیدا کیا اور اس کی وجہ سے خواب غفلت میں پڑے مسلمان جاگ گئےاور بنی امیہ کی دین دشمنی اور امام حسین علیہ السلام کی حق طلبی آشکار ہوگئی۔اس عظیم انقلاب نے معاویہ اور اس کے افراد کی بیس سالہ گھنونی سازش کو خاک میں ملا دیا جو حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ناموں کو اسلامی معاشرےسے سرے سے ختم کرنا چاہتے تھے اور شیعوں کو غلط طریقے سے معاشرے میں پیش کر رہے تھے ۔چنانچہ شیعہ اور سنی مورخین نے لکھا ہےکہ واقعہ کربلا نےجس طرح مسلمانوں کے دلوں میں بنی امیہ اور یزید سے نفرت پیدا کیا اسی طرح مسلمانوں کو اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نزدیک کرنے اور ان کی محبوبیت میں اضافہ کا باعث بنا تھا۔ اسی طرح مورخین لکھتے ہیں : واقعہ کربلا کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے جب بنی امیہ کی حکومت کی بدنامی دیکھی تو عمر بن سعد سے اس خط کو واپس کرنے کا کہا جس میں اس نے اسے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم دیا تھا ۔ لیکن عمربن سعد نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں نے اسے مدینہ بھیج دیاہے تاکہ لوگ اس خط کو پڑھیں اور مجھے اس ظلم میں شامل نہ سمجھیں ۔اس کے بعدکہا: خدا کی قسم میں نےاس کے نتیجہ کے بارے میں تجھے آگاہ کیا تھا اور تم سے اس طرح سے بات کی تھی کہ اگر اپنے باپ سے اس طرح سے بات کرتا تو شاید حق پدری ادا ہو جاتا ۔عبید اللہ کا بھائی عثمان نے ابن سعد کی باتوں کی تائید کی اور کہا :میں فرزندان زیاد کی قیامت تک کی ذلت کی زندگی کو ترجیح دیتا اگر یہ لوگ حسین ابن علی کے قتل میں شریک نہ ہوئے ہوتے ۔
ابن اثیر لکھتا ہے : جب سر مبارک امام حسین علیہ السلام کو یزید کےسامنے لایا گیا تو یزید خوشی کا اظہا ر اور ابن زیاد کی تعریف کر رہا تھا لیکن تھوڑی مدت میں ہی حالات بدل گئے اور سرزمین شام کی فضا یزید کے خلاف ہو گئی اور لوگوں نے اسے لعن و نفرین کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ ندامت کا اظہار کرتا تھا اور ابن زیاد کی مذمت کرتے ہوئے کہتا تھا : اسی نے حسین ابن علی کے ساتھ سخت رویہ اختیارکیا کیونکہ حسین ابن علی نے بیعت سے انکار کر کے دوردارز علاقے میں رہنے کے لئےکہا تھا لیکن ابن زیاد نے ان کی بات کو رد کر کے انہیں قتل کیا اور لوگوں کو میرا دشمن بنا دیا ۔ 9۔
امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت اور اہل بیت علیہم السلام کی اسیری نے لوگوں پر حقایق روشن کر دئیے یہاں تک کہ سر زمین شام کا ماحول{جہاں سالہا سال سے معاویہ اور اس کے افراد کی حکومت تھی}بنی امیہ کے خلاف اور اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں بدل گیاکیونکہ ابھی تک بنی امیہ کی حکومت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو کافر ،باغی اور خوارج بتاتی تھی اور فریب دینے والےنعروں سے علویوں اور شیعوں کو اذیت و آزار پہنچاتے تھے ۔لیکن آپؑ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، بدعتوں اور برائیوں کا مقابلہ اورامت کی اصلاح جیسےمقاصد کی خاطر قیام فرمایا اور اپنی شہادت اور اہل حرم کی اسیری کےذریعے اسلامی معاشرے میں ان اصولوں کو رائج کیا جن کی وجہ سے ہر آزاد منش انسان کے لئے بنی امیہ سے جہاد کرنے کا راستہ ہموار ہو گیاچنانچہ یکے بعد دیگرے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئےیہاں تک کہ معتزلہ اور قدریہ نے بھی قیام کیا ۔اسی طرح کچھ شیعوں نے سلیمان بن صرد خزاعی کی رہبری میں قیام کیا اس کے علاوہ قیام مختار اور زید بن علی کا قیام قابل ذکر ہےجنہوں نے قیام عاشورا کواسوہ اور نمونہ قرار دیا تھا ۔خلاصہ یہ کہ کربلا کے خونین قیام نے مسلمانوں ،خاص طورسے شیعوںمیں جراٴت ،شہامت اور شہادت طلبی کا جذبہ پیدا کیا جس کے بعد انہوں نے بنی امیہ کے حکمرانوں کی نیند حرام کر دی اگرچہ اس راہ میں سخت شکنجوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑایہاں تک کہ راہ خدا میں شہید ہو گئے۔
حوالہ جات:
1۔یعقوبی، ج2، ص228؛ ابن عثم کوفی، ج4، ص343؛ طبری، ج5، ص303۔ الذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص291۔ الدینوری، کشّی، محمد بن عمر؛ رجال الکشی، ص48.
2۔ تاریخ یقوبی، ج2 ،ص 127۔
3۔الامامۃ وا لسیاسۃ ،ج 1، ص 155 – 157 ۔
4۔ نہج البلاغہ ،خطبہ 57۔
5۔ شرح نہج البلاغہ ، خطبہ 56،ج 1، ص 355۔
6۔ بحار الانوار، ج 19،ص 38 ۔تفسیر نمونہ ،ج 2۔
7۔عقد الفرید،ج3 ،ص 131، ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین ،ص20۔
8۔ شیعہ در اسلام ،علامہ طباطبائی، ص 40 -46
9۔ تاریخ ابن اثیر ،ج2، ص 157۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) علم ایک چراغ کی مانند ہے، چراغ اگر کسی مہذب شخص کے ہاتھ میں ہوتو وہ خود بھی اس کی روشنی میں سفر کرتا ہے اور دوسروں کو بھی راستہ دکھاتا ہے لیکن یہی چراغ اگر کسی غیر مہذب کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس چراغ کی روشنی میں لوگوں کے گھروں کو لوٹ لیتا ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے قلم کے ذریعے علم کی روشنی کو عام کرتے ہیں۔ علم ہمیشہ تحقیق و جستجو کا مرہونِ منت ہے۔جو شخص تحقیق اور جستجو کا دلدادہ ہو اور مہذب انسان ہو وہ معاشرتی اندھیروں کے مقابلے میں خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا۔
آج جب ملک کے گوش و کنار میں نوجوانوں کو ماورائ عدالت لاپتہ کیا جاتا ہے اور کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرنے والے طالب علم مسلسل یہ شکایت کررہے ہیں کہ ٹرانسپورٹر حضرات، ان سے ایک ہزار کے بجائے چار ہزار اور ساڑھے چار ہزار کرایہ وصول کرتے ہیں ، اور بھتہ خور سرکاری اہلکار انہیں راستے سے واپس کر دیتے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق طالب علموں کو سدا بہار ٹرانسپورٹ سروس والے اسی دن تو ٹکٹ بھی نہیں دیتے اور چار ہزار سے لے کر ساڑھے چار ہزار تک کرایہ وصول کرتے ہیں ، اسی طرح ولی ٹرانسپورٹ سروس والے دو ہزار کرایہ لیتے ہیں جبکہ سرکاری اعلان کے مطابق اصل کرایہ ایک ہزار روپے بنتا ہے۔
زائد کرایہ وصول کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ راستے میں سرکاری اہلکار ہم سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ بہت سارے طالب علموں سے ساڑھے چار ہزار کرایہ وصول کرنےکے باوجود انہیں راستے سے واپس لوٹا دیا گیاہے۔
جب اس طرح کے عوامی مسائل سنتا ہوں کہ کہیں تو غیر قانونی طور پر نوجوان لاپتہ ہو رہے ہیں اور کہیں لوگوں کے ریاستی و آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالاجا رہا ہے اور ان سے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے تو ایسے میں مجھے شہید صحافت میاں عبدالرزاق کی شخصیت یاد آتی ہے۔
اپنی شہادت کے ایّام میں وہ مسلسل روحانیت کے موضوع پر قلم اٹھائے ہوئے تھے ، فنّی اعتبار سے وہ ایک کرائم رپورٹر تھے، شہادت کے وقت بھی وہ جرائم پیشہ افراد کا پیچھا کررہے تھے اور اسی دوران انہیں گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔
میاں عبدالرّزاق اگر چاہتے تو بڑے آرام سے موقع واردات سے غیر جانبدار بن کر گزر جاتے۔ وہ اپنی زندگی داو پر نہ لگاتے ، لیکن انہوں نے اپنی زندگی قربان کرکے قلمکاروں کے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں ، باشعور انسان غیر جانبدار نہیں رہ سکتا، ظالم کے ظلم کو دیکھ کر غیر جانبدار بن جانا در اصل ظالم کی ہی مدد ہے۔
کیا آج پورے ملک میں ایک میاں عبد الرزّاق بھی نہیں رہا جو منہ زور ٹرانسپورٹرز اور بھتہ خور مافیا کا پیچھا کرے ، کیا اب ہمارے درمیان کسی کے سینے میں بھی میاں عبدالرزاق کا دردمند دل نہیں رہا جو لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کے لئے آواز بلند کرے۔
یقیناً ہم سب اس وطن کے قلمی و علمی پاسبان ہیں اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے ہم سب کو مل کر اپنے اپنے فریضے کو انجام دینا ہوگا۔
صحافت ، ظالم و مظلوم کی جنگ میں غیر جانبدار بن جانے کا نہیں بلکہ مظلوم کی مدد و نصرت کا نام ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) مقدمہ:تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف ابعاد میں سے کسی ایک بعد{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانےیا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنےکا نام ہے تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔امام حسین علیہ السلام کی تربیت رسول خداؐ جیسے ہستیوں کے دامن میں ہوئی ہے ۔ ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک کے لئے تربیت کے سنہری اصول بتا دئے ہیں۔ اگر انسان ان اصولوں پر عمل کرے تو کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔ ً کربلا کا زندہ وجاوید واقعہ اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے تربیتی پیغامات کو ہرسال لوگوں تک پہنچاتا ہے تاکہ بنی نوع انسان ان انمول پیغامات پر عمل کریں اور اپنے لئے سعادت اور خوش بختی کی راہ اختیار کریں۔قیام امام حسین علیہ السلام کے بھی بہت سی جہات ہیں جو قابل بررسی ہیں جیسے عرفانی، سیاسی، اجتماعی، تاریخی و غیرہ۔ اس تحریر میں ہم قیام امام حسین علیہ السلام کے تربیتی پیغامات کو بطورمختصر بیان کرنے کی کوشش کرینگے۔
1۔خدا پر ایمان
امام حسین علیہ السلام توحید اور ایمان کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ توحید کے اندر دوسرے تمام اوصاف خداوندی پوشیدہ ہیں ۔ امام ؑ مکہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ :اے میرے خدا !میں غنا کی حالت میں تیری طرف محتاج ہوں پس کس طرح حالت فقر میں تیری طرف محتاج نہ ہوں۔ دانائی کی حالت میں نادان ہوں پس کس طرح نادانی کی حالت میں نادان نہ رہوں۔امام حسین علیہ السلام حر کے لشکر سےمخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ: میری تکیہ گاہ خدا ہے اور مجھے تم سے بے نیاز کرتا ہے ۔ صبح عاشور لشکر ابن سعد شور وغل اور طبل بجاتے ہوئے خیمہ کی طرف آئے تو آپ نے فرمایا : خدایا !ہر گرفتاری اور مشکل میں تو میری پناہ گاہ اور امید ہے اور ہر حادثہ میں جو مجھے پیش آتا ہے تو میرا مدد گار ہے۔۱۱جب زخمی ہو کرکربلا کی زمین پر تشریف لائے تو فرمایا: الہی رضا بقضائک و تسليما لامرک و لا معبود سواک يا غياث المستغيثين۔
2۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان
امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس سے پوچھتے ہیں : ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو فرزند رسول کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ نے پر مجبور کررہے ہیں حالانکہ رسول خدا (ص)کے اس فرزند نے نہ کسی کو خدا کاشریک ٹھہرایا ہے ، نہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور نہ رسول(ص) کے آئین سے ہٹ کر کوئی فعل انجام دیا ہے۔ ابن عباس جواب میں عرض کرتے ہیں : میں ان لوگوں کے بارے میں اس قرآنی آیت کے سوا کچھ نہیں کہوں گاکہ(یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کی نسبت کافر ہو گئے ہیں) ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ؑ نے فرمایا: خدایا! تو گواہ رہنا ،ابن عباس نے صراحتاً ان لوگوں کے کافر ہونے کی گواہی دی ہے ۔امام ؑ نے میدان کربلا میں لشکر ابن سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا:{انشدکم الله ھل تعرفونی ،قالوااللهم نعم انت ابن رسول الله و سبطہ قال انشدکم الله ھل تعلمون ان جدّی رسول الله قالوا اللهم نعم }میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو۔کہا کہ ہاں آپ رسول اللہ(ص) کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ میرا نانا رسول خدا(ص]ہے۔5۔حضرت زینبؑ نے دربارابن زیاد میں فخر سے یہ جملہ ادا کیا :{الحمد الله الذی اکرمنا بنبیہ محمد}تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد(ص) کے ذریعے کرامت بخشی۔
3۔ توکل بر خدا
امام حسین علیہ السلام کے کلمات اور افعال وکردار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ خدا پر توکل کرتے تھے ۔امام ؑ مکہ سے نکلتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :{فمن کان باذلا فینا مہجتہ موطنا علی لقاء الله نفسہ فلیرحل معنا فانی راحل مصبحا ان شاء الله}جو بھی اپنے خون کو ہماری راہ میں بہانا چاہتا ہے اور خدا سے ملاقات کا مشتاق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔میں کل صبح سفر پر نکل رہا ہوں۔ آپ ؑنے صرف اپنے اصحاب اور ساتھیوں پر بھروسہ نہیں کیا اسی لئے آپ نے فرمایا کہ : {فمن احبّ منکم الانصراف فلینصرف}جو واپس جاناچاہتا ہے وہ واپس چلا جائے ۔ شب عاشور چراغ بجھا کر فرمایا کہ جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرمایا :{ما توفیقی الا بالله علیہ توکلت والیہ انیب} میری توفیق خدا سے ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی میری پناہ گاہ ہے۔ وہ تمام خطبات جو روز عاشور آپ نے دیے ان میں یہ جملہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ:{انی توکلت علی اللّٰہ ربی وربکم} میں خدا پر توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔
4۔ صبر و تحمل
امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ا صحاب صبر اور تحمل میں نمونہ تھے ۔ امام ہمیشہ اپنے اصحاب اور اقرباء کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ صبر اور مقاومت سے کام لو اے بزرگ زادگان کیونکہ موت تمہیں غم اور سختی سے عبور کراتی ہے اور وسیع بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔کربلا کے میدان میں ہمیں ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے صبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسی وجہ سے ان کا نام ام المصائب پڑ گیا ۔ حضرت زینب وہ شخصیت ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت فرمایا :{اللہم تقبل منا هذا القربان القلیل} اے خدا ہماری یہ قلیل قربانی اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔امام حسین علیہ السلام ؑ شب عاشور اپنے اہل حرم کو جمع کرکے فرماتے ہیں : یہ قوم میرے قتل کے بغیر راضی نہیں ہو گی ۔ لیکن میں آپ لوگوں کو تقوی الہٰی اور بلا پر صبر اور مصیبت میں تحمل کی وصیت کرتا ہوں۔
5۔ اخلاص
امام حسین علیہ السلام کے قیام کاکوئی ذاتی مقصد نہیں تھا بلکہ خداکی رضا کی خاطر لوگوں کو گمراہی سے بچانا تھا۔جو لوگ طالب مال ودنیا تھے انہوں نے امام ؑکا ساتھ نہیں دیا اور کئی لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے بھی گئے۔امام ؑ کے ساتھ فقط وہی لوگ تھے جو مخلص تھے اور مال ومتاع کی غرض نہیں رکھتے تھے ۔امام حسین علیہ السلام نے خروج نہ حکومت کے لئے کیاتھا نہ جاہ طلبی ومال کے لئے ۔بلکہ امام ؑ خالصتاًللہ مدینہ سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے تھے۔امام ؑنے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا کہ {انی لم اخرج اشرا ً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً بل خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول الله ارید ان امر بالمعروف وانہی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی} میں اس وجہ سےقیام نہیں کر رہا ہوں تاکہ فسادپھیلاؤں اور ظلم کروں بلکہ میں اس وجہ سے قیام کررہاہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ اور میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔امام ؑکے اصحاب میں سے حضرت عابس نے رجز پڑھتے ہوئے فرمایا کہ : میں اپنی تلوار سے تمہارے ساتھ جنگ اور جہاد کروں گا یہاں تک کہ خدا کی بارگاہ میں چلاجاؤں اور اس کے بدلے میں خدا سے جزا کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ۔
6۔ وفاداری
قیام امام حسین علیہ السلام میں ہر طرف وفاداری کے پیکر نظر آتے ہیں ۔اسی وفا داری کو دیکھ کر اباعبداللہ ؑ ارشاد فرماتے ہیں : {فانی لا اعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی} میں نے اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اچھے اصحاب نہیں دیکھے۔شیخ مفید کتاب ارشاد میں لکھتے ہیں کہ جب شمر ملعون آیا اور کہا کہ :{انتم یا بنی اختی آمنون }اے میری بہن کے فرزندو!تم امان میں ہوتو پیکر وفاحضرت عباس نے جواب میں فرمایا کہ : {لعنک الله ولعن امانک اتؤمننا وابن رسول الله لا امان لہ}تم اور تمہارے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو، کیا تو ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسول خدا ؐ کے فرزند کیلئے امان نہیں ہے۔ کتاب اعیان الشیعہ میں حضرت عباس ؑ کا جواب اس طرح سے موجود ہے۔تبت یداک ولعن ما جئتنا بہ من امانک یا عدوالله اتأمرنا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاطمہ وندخل فی طاعۃ اللعناء ۔ اے دشمن خدا وای ہو تجھ پر ، لعنت ہو تمہارے امان پر ۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی وآقا حسین ؑابن فاطمہؑ کو چھوڑ دیں اور لعینوں کی اطاعت کریں۔عمرو بن قرظہ روز عاشور دشمنوں کے تیروں کے سامنے امام ؑ کے لئے سپر بنتے ہیں تاکہ امامؑ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اس قدر زخمی ہو گئے کہ زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور حضرت سے پوچھنے لگے : اے فرزند رسول !کیا میں نے وفا کی ہے ۔ حضرت نے جواب دیا :ہاں! تم مجھ سے پہلے بہشت جا رہے ہو ،رسول خداؐ کو میرا سلام کہنا۔حضرت مسلم ابن عوسجہ فرماتے ہیں کہ :{والله لو علمت انی اقتل ثم احیا ثم احرق ثم احیا ثم اذری یفعل بی ذالک سبعین مرۃ ما فارقتک} خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور جلاکر راکھ کیا جائے پھر اسے ہوا میں اڑایا جائے گا، اسی طرح ستر بار یہ عمل دہرایا جائے تب بھی میں آپ کوچھوڑکر نہیں جاؤں گا۔
7۔ شوق شہادت
اما م ؑ اورا صحاب امام ؑ شہادت طلبی کے مظہر اور نمونہ تھے خصوصاً اما م حسین علیہ السلام اس میدان میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ امام ؑ جب مدینہ سے روانہ ہورہے تھے تو آپؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :{فمن کان باذلاً فینا مہجتہ موطناً علی لقاء الله نفسہ فلیرحل معنا}جو بھی شہادت کا طالب ہے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتاہے وہ میر ے ساتھ چلے۔راہ حق میں موت کو امام ؑ زینت قرار دیتے ہیں {خطَّ الموت علی ولد آدم مخطَّ القلادۃ علی جید الفتاۃ} موت ،بنی آدم کے لئے اس گردن بند کی طرح ہے جو جوان لڑکیوں کے گلے میں ہوتا ہے۔شب عاشور امام ؑ کے اصحاب شوق شہادت میں محو تھے اور شہادت کی تمنا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: تعریف اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آپ ؑ کی مدد کرنے کی سعادت بخشی اور آپ کے ساتھ شہید ہونے کی شرافت عطاکی ۔ایک مقام پر امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ :{انی لااری الموت الا سعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الا برماً }میں موت کو سعادت لیکن ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتا هوں ۔قاسم بن الحسن سے جب امام ؑ نے پوچھا کہ : {کیف الموت عندک} موت آپ کے نزدیک کیسی ہے تو فرمایا:{یا عماہ احلی من العسل}چچا شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔ حضرت قاسم نے موت کو شہد سے تشبیہ دے کر یہ بتا دیا کہ جو شہادت کاجذبہ رکھتا ہے اس کے نزدیک موت شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔
8۔ حجاب وعفت
کربلا میں خواتین مخصوصاحضرت زینب ،ام کلثوم اور دوسری مخدرات اپنے آپ کو نامحرموں کی نظروں سے پچانے کی کوشش کرتی تھیں ۔ حضرت ام کلثوم بازار کوفہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں:{یا اہل الکوفۃ اما تستحیون من الله ورسولہ ان تنظرون الی حرم النبی} اے اہل کوفہ کیا تمہیں خدا اور اس کے رسول ؐ سے شرم نہیں آتی کہ تم حرم نبی ؐ کو دیکھ رہے ہو۔حضرت زینبؑ نے پردہ کے بارے میں یزید کو مخاطب کر کے بہت ہی سخت الفاظ میں فرمایا : اے رسولؐ کے آزاد کردہ کی اولاد !کیا یہ عدالت ہے کہ تمہاری بیویاں اور کنیزیں پردہ میں ہوں اور رسول خداؐ کی بیٹیاں اسیر کرلی جائیں اور ان کے پردے کو چھین لیا جائے ۔ ان کے چہروں کو عیاں کیاجائے اور دشمن انہیں اس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر پھرائیں کہ شہر،دیہات اورقلعہ کے لوگ اور بیابانی افراد ان کو دور ونزدیک سے دیکھیں۔صحابی رسولؐ حضرت سہیل بن سعدنے بازار میں جب حضرت سکینہ سے کہا میں آپ کے نانا کا صحابی ہوں ،کیامیں اس حالت میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں۔ حضرت سکینہ ؑ نے فرمایا کہ اس نیزہ بردار کو آگے بھیج دیں تاکہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوں اور حرم رسول پر ان کی نگاہ نہ پڑے۔
9۔عزت نفس
عزت نفس مومن کی برجستہ صفات میں سے ایک صفت ہے ۔خداوند متعال نےاس صفت کو اپنے لئے اور انبیاء الہی اور مومنین کے لئے قرار دیا ہے ۔خداوند متعال نے فرمایا :{و لله العزۃ و لرسولہ و للمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون}عزت، خداوند متعال اور انبیاء اور مومنین کے لئے ہے ۔ سید محسن امین لکھتے ہیں : امام حسین علیہ السلام ظلم و ستم اور ذلت کو قبول نہ کرنے ،ظلم و ستم کے مقابلے میں ڈٹ جانے، خدا کی راہ میں جہاد کو آسان سمجھنے اور عزت و آزادگی حاصل کرنے میں ضرب المثل ہیں ۔وہ ہر انسان کا جو روح برتر کا مالک ہو نمونہ عمل ہیں .ہر باضمیر اور عالی ضمیر انسان اس کی اقتداء کرتا ہے اور وہ ہر زمانے میں ان تمام انسانوں کے لئے جوذلت و پستی کو قبول نہیں کرتے، راہنما و رہبر ہیں ۔اسد حیدر یوں لکھتا ہے : امام حسین علیہ السلام نے عزت دین کی خاطر زندگی کو اہمیت نہیں دی اور اپنی امت کی کرامت کی خاطر دشمنوں سے راسخ عزم کے ساتھ مقابلہ کیا اور تمام خطرات سے روبرو ہوکراسکے باوجود کہ دشمنوں نے وحشیانہ مظالم ڈھائے جو کہ قابل شمارش نہیں ،پھر بھی ان تمام مشکلات کو سہتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :(موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے اور جب شہید ہو رہے تھے تو فرمایا:( الموت اولی من رکوب العار و العار اولی من دخول النار) اور ایک جگہ پر فرماتے ہیں ( انی لا اری الموت الا سعادۃ ولا الحیاۃ مع الظالمین الا برما) میں موت کو سعادت لیکن ظالموں کے ساتھ زندگی کو ذلت و خواری سمجھتا ہوں ۔عاشورا کے روز قیس ابن اشعث کو فرمایا :( لا والله لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ولا اقرلکم اقرار العبید۔خدا کی قسم ذلت کاہاتھ تمھارے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح فرار یا اقرار نہیں کرونگا ۔آپ فرماتے ہیں :( الا و ان الدعی بن الدعی قد رکز بین اثنیتین بین السلۃ و الذلۃ و هیہات منا الذلۃ) اس زناکار فرزند زناکار نے مجھے دو چیزوں کے درمیان مخیر کر دیا ہے ذلت اور شہادت لیکن ذلت ہم سے کوسوں دور ہے ۔ مقدس و پاک ماوں کی گود میں پلنے والے اور پاک و غیرت مند والدین کے فرزندوں کو گوارہ نہیں کہ وہ پست و ذلیل افراد کی اطاعت کریں ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد حنیفہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:( یا اخی والله لو لم یکن فی لدنیاء ملجاء و لا ماوی لما بایعت یزید بن معاویۃ)۴۰اے برادر خدا کی قسم اس دنیا میں میرے لئے اگر کوئی ٹھکانہ نہ رہے تب بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا ۔
10۔شجاعت
سید علی جلال مصری لکھتے ہیں :عاشورا کے دن دو طاقتوں کے درمیان فرق تصور سے بھی بالاترتھا اس کے باوجود شجاعت ، پائیداری اور استقامت میں امام حسین علیہ السلام نے ہر دانشمند و عاقل کو حیران کر دیا چونکہ اس کی مانند کوئی نہیں تھا جس طرح امام حسین علیہ السلام کے دشمن پستی و ذلت میں بے مثال تھے۔سید محسن امین امام حسین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں لکھتے ہیں : جب پیادہ افراد نے امام پر حملے کئے تو امام نے اپنی تلوار سے دشمن کی صفیں کاٹ ڈالیں، دشمن، امام سے اس طرح سے بھاگے جس طرح بھیڑیں شیر سے بھاگتی ہیں ۔صاحب کشف الغمہ کمال الدین سے امام علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں نقل کرتے ہیں:۴۲ امام حسین علیہ السلام کی شجاعت سے اصحاب کے چہرے لحظہ بہ لحظہ نورانی تر ہو جاتےتھے اور ایک خاص آرامش اور خاموشی ان پر طاری تھی کہ بعض اصحاب دوسرے اصحاب سے فرماتے تھے( انظروا لا یبالی بالموت فقد قال لہم الحسین صبرا بن الکرام فما الموت الا قنطرۃ تعبر بکم عن الیوس و الضرار الی الضنان الواسعہ و النعم الدائمۃ) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اے جوان مردو صبر کرو ،موت صرف ایک پل کی طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور مشکلات سے نجات دے کر بہشت اور ابدی نعمات کی طرف پہنچانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتی۔امام ؑ اور اصحاب امام ؑ شجاعت کے میدان میں ہر ایک کے لئے نمونہ ہیں ۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں حمید بن مسلم نقل کرتے ہیں :خدا کی قسم کسی کو بھی امام حسین علیہ السلام کی طرح نہیں دیکھا جو دشمن کی کثرت کی وجہ سے مغلوب ہو چکا ہواور اسکے فرزندوں اور اصحاب کو قتل کر دیا گیا ہو لیکن پھر بھی قدرت قلبی اور ثابت قدم اور عزم راسخ کا مالک ہو۔
11۔حق طلبی اور احقاق حق
قیام امام حسین علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو دوبارہ زندگی بخشی اور بدعتوں اور تحریفوں سے دین اسلام کو نجات دلائی۔امام علیہ السلام صرف یزید کی بیعت نہ کرنےکےلئے مدینے سے نہیں نکلے تھے بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی احیاء اور امت کی اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن منکر کی خاطر نکلے،امام خمینی فرماتے ہیں :امویان اصل اسلام کو ختم کرنا چاہتے تھے تا کہ ایک عربی ریاست قائم کریں۔دوسری جگہ پر فرماتے ہیں :اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو یزید اور پیروان یزید اسلام کو الٹا لوگوں تک پہنچا دیتے۔مدینہ سےروانہ ہوتے وقت آپ نے فرمایا: جو بھی میری پیروی کرے گا اور میری باتوں کو قبول کرے گا تو سعادت پائے گا اور جو میری اطاعت نہ کرے اور میری اطاعت کے دائرے سے باہر چلا جائے تو اس وقت تک صبر کرے گا کہ جب تک نہیں کرتا خداوند متعال میرے اوراس کے درمیان حکم۔امام علیہ السلام نے اپنے خطوط میں فرمایا: میں تمہیں قرآن وسنت کی طرف دعو ت دیتا ہوں چونکہ سنتوں کو ختم کیاگیا ہے اوربدعتوں کو زندہ کیا گیا ہے ۔
12۔فطرتوں کا بیدار کرنا
بنی امیہ کی مسموم تبلیغات کی وجہ سے مسلمان صحیح اعتقادات سے کوسوں دور ہو چکے تھے،یہاں تک کہ عاطفہ نام کی کوئی شئی باقی نہ رہی ۔اسلامی معاشرے میں اس قسم کی تبدیلی سے معاشرہ ذلت و پستی اور موت کے دھانے پہنچ چکا تھا۔امام علیہ السلام نے یزیدی فوج میں موجود نام نہادمسلمانوں کی فطرتوں کو جھگا نے اور انکی روح و وجدان میں تحول لانے کی کوشش کی اور ان کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ لیا لیکن پھر بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا چونکہ ان لوگوں کے پیٹ حرام چیزوں سے بھرے ہوئےتھے اور وجدان سرے سے ہی ختم ہو چکا تھا،جیسا کہ آپ نے فرمایا:(ویحکم یا شیعۃ آل ابی سفیان!ان لم یکن لکم دین ،و کنتم لا تخافون المعاد،فکونوا احرارا فی دنیاکم ه۔۔۔۔) وائے ہو اے ابو سفیان کے پیروکار!اگر تم لوگوں کا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت سے خوف محسوس نہیں کرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد زندگی کر لو۔۔۔ دوسری جگہ پر امام[ع] فرماتے ہیں :( الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتھم یحوطونہ ما درت معایشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون ۔امام نے اس زمانے کے دینداروں اور ہر زمانے میں آنے والے افراد سے مخاطب ہو کر فرمایا : لوگ دنیا کے غلام ہیں اور جب سختیاں اور مشکلات آجائیں تو بہت ہی کم دیندار رہ جاتے ہیں ۔
13۔ایثار و فداکاری
ایثار و فدا کاری عشق ملکوتی ہے جو رحمت الہی سے اخذ ہوتا ہے۔ کربلا میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نے ایثار و فدا کاری کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں جو رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ ہیں ۔ان میں سے ہر ایک شخص شہادت میں پہل کر رہا تھا۔ ہر ایک کی خو اہش یہی تھی کہ دوسروں سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر جان قربان کر دے ،اور جب کوئی موت کے دھانے پہنچ جاتا تو دوسروں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ثابت قدمی سے رہنے کی وصیت کرتا،اصحاب امام حسین علیہ السلام خداوند متعال کے حضور جانے کے لئے بے تاب تھے۔
14۔غیرت
امام حسین علیہ السلام اورآپ کے اصحاب غیرت کے پیکر تھے ۔ امام نے یہ کبھی گوارا نہیں کیا کہ جیتے جی کوئی اہل حرم کے خیموں کی طرف جائے یا اہل حرم خیموں سے باہر آئیں ۔حتی اس وقت بھی جب آپ ؑ زخمی حالت میں تھے اور حضرت زینب ؑ آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی تو فرمایا بہن زینب واپس خیمہ میں جاؤ میں آپ ابھی زندہ ہوں۔حضرت عباس رات کو خیموں کی حفاظت کے لئے خیموں کے گرد چکر لگاتے تھے تاکہ خواتین وبچے بے خوف وہراس سو جائیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تھے تو دشمن کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں اور کسی میں یہ جرأت بھی نہیں تھی کہ آپ کے سامنے جائے ۔ شمر ملعون کہنے لگا کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حسینؑ زندہ ہیں یا نہیں تو خیموں پر حملہ کردو۔ امام نے جب یہ سنا تو فرمایا: اے پیروان ابوسفیان ! اگر تم میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد رہو۔ یعنی کم از کم حیا دار بنو ،خواتین اور بچوں سے تمہاری کیا دشمنی ہے ۔کوئی پوچھتا ہے :ماتقول یابن فاطمہ؟ اے فرزند فاطمہ ؑ کیا کہہ رہے ہو۔امام ؑ نے فرمایا:{انا اقاتلکم وانتم تقاتلونی والنساء لیس علیہن حرج }میں تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے ۔عورتوں نے کیا بگاڑا ہے ۔
15۔ مواسات وایثار
امام حسین علیہ السلام نے فقط دوستوں کے ساتھ نہیں بلکہ دشمن کے ساتھ بھی مواسات اور ایثار کا عملی مظاہرہ کیا ۔ حر کا لشکر جب کربلا پہنچا تو پیاس کی شدت سے ان کی حالت بری تھی تو آپ نے فرمایا کہ دشمنوں کو پانی پلایا جائے نہ فقط انسانوں کو بلکہ ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا گیا۔ شب عاشور اصحاب امام ؑ آپس میں یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ کل ہم پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرینگے اور امام ؑکے عزیزوں پر ہم سے پہلے آنچ آنے نہیں دیں گےجبکہ دوسری طرف خاندان بنی ہاشم کے جوان اکھٹے ہو تے ہیں اور حضرت عباس ؑ جوانان بنی ہاشم سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اصحاب غیروں میں شمار ہوتے ہیں اور بار سنگین کو خاندان کے افراد کو اٹھانا چاہیے ۔ آپ لوگوں کو سب سے پہلے میدان میں جانا چاہیے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اصحاب کو پہلے میدان کی طرف میدان بھیجا گیا۔حضرت عباس ؑ کے اسی کردار کی وجہ سے آپ کو زیارات میں ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے کہ{فلنعم الاخ المواسی}کس قدر اچھے مواسات کے حامل بھائی ہیں۔
16۔ تسلیم ورضا
امام ؑاپنے تمام افعال میں تسلیم ورضا کا درس دیتے ہیں ۔ آپ ؑسے جب عبداللہ ابن مطیع نے کوفہ کے لوگوں کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا:{یقضی الله ما احبّ} خدا جس چیز سے محبت کرتا ہے اسے مقدر کرتا ہے۔شہیدمرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ رضا وتسلیم میں سے ایک یہ ہے کہ کام کسی اور کے ہاتھ میں ہو یعنی خدا کے فرمان اور امر سے ہو۔ شخصی اور خواہش نفس کی پیروی میں نہ ہو۔امام ؑکے اقوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ رضائے الٰہی میں انجام دیتے ہیں ۔ امام ؑ اپنی آخری دعا میں فرماتے ہیں {صبراً علی قضائک یا ربّ لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین ، مالی رب سواک ولا معبود غیرک ، صبراً علی حکمک} پروردگا ر!آپ کی قضا پر صبر کرتا ہوں ۔ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اے فریاد کرنے والوںکی فریاد سننے والا ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں۔
حوالہ جات:
1۔اعرافی علی رضا، سید نقی موسوی،فقہ تربیتی،ص ۱۴۱،موسسہ اشراق قم۔
2۔مفاتیح الجنان دعا عرفہ۔
3۔العوالم ،الامام الحسین ص٢٣٣۔
4۔الارشاد ج٢ ص٩٤۔
5۔کلمات امام حسین علیہ السلام ؑ ص٣٠٦۔
6۔لھوف ص ١٢٠۔
7۔الارشاد ج٢ ص١١٥۔
8۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦۔
9۔الارشاد ج٢ص٧٥۔
10۔ بحار الانوار ج ٤٤ ص٣٢٩۔
11۔ کلمات الامام الحسین ص٤٠٠۔
12۔بحارالانوار ج ٤٤ ص ٣٢٩،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٧۔
13۔العوالم ٢٧٢۔
14۔الارشاد ج٢ص٩١۔
15۔الارشاد ج٢ ص ٨٩۔
16۔ اعیان الشیعہ ج١١ص٤٧٧۔
17۔سوگنامہ آل محمدص٣٠٤۔
18۔بحارالانوار ج٤٥ص٢٢۔
19۔الارشاد ج ٢ض٩٢ ۔
20۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦ ۔
21۔لہوف ص ٩٠، حماسہ حسینی ج ١ ص ١٥٢۔
22۔کلمات امام حسین علیہ السلام ؑ ص٤٠٢۔
23۔حماسہ حسینی ج١ ص ٢٧٠۔
24۔ مقتل الحسین ؑ ص٤٠٠۔
25۔احتجاج طبرسی ج٢ص ٣٥۔
26۔حیاۃ امام حسین علیہ السلام بن علی ؑ ج٣ ص٣٧٠۔
27۔اخلاق فلسفی،ص ١٩٦
28۔فی رحاب ائمہ اھل البیت، ج٢، ص ٦٦
29۔سیدحیدر،مع الحسین فی نھضتہ،ص ٢٥
30۔مجلسی،بحار الانوار،ج٤٤،ص١٩٢
31۔سید بن طاووس ،لھوف ،ص ١٣٨
32۔مجلسی ،بحار ،ج٤٥،ص٧
33۔ موسوعۃطبقات الفقہاء،ج١ص ۳۲۔
34۔سید محمد ہادی ،فادتنا کیف نعرفھم، ج٦ ص ٥٩
35۔ارشاد مفید،ص٢٦٣
36۔ اربلی،کشف الغمۃ فی معرفۃالائمۃ ، ج٢ص ٢٢٩۔
37۔ فرہنگ عاشورا در کلام امام خمینی ،ص١٥۔
38۔صحیفہ نور،ج١٢ص١٥
39۔ہمان ج١٧ص٥٨
40۔محمد بن احمد مستوفی ،برگزدہ از الفتوح ابن اعثم کوفی،ص١٧۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی