وحدت نیوز(آرٹیکل) اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصرو ف  ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هہوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هہے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا:ہم اس کے شاگرد هہیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هہو ؟

شاگرد نے کہا:ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ  اور وہ جو کام کرنا چاہتا هہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو  استاد  ایک سوال هہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں هے جو تم سمجھ رہے هہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وہ مفہوم و معانی نہیں هہیں جو آپ نے سمجھا هہے؟ وہ کہے گا: هہاں یہ احتمال پایا جاتا هہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل هہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے هہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!ہوسکتا هہے قرآن کا مفہوم کچھ اورہو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی هو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے هہوں!۔

شاگرد اپنے استاد کے  پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ہو بہو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں غرق ہو گیااس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔  استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رہا اورشاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رہاآخر کاراسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی پیداوارنہیں هے اور ممکن هہی نہیں هہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے اذہان میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔

 اس دفعہ شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا هہے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔۱

تاریخ میں نقل ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا قید میں تھے،شدید قحط پیش آگیا خلیفۂ وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں، نماز استسقاء بجالائیں اور خداوندمتعال سے بارش کی دُعا کریں ۔مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن بارش نہ برسی۔

چوتھے دن جاثلیق نصرانی مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لیے صحرا گئے۔وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش برسنے لگی۔اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کیلیے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے بارش برسنا شروع ہو گیا اور لوگ سیراب ہوئے۔لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا،اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے ۔

خلیفۂ وقت کے لئے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح بن وصیب کو حکم دیا کہ امام  حسن عسکری علیہ السلام کوآزاد کر دے اور اس کے پاس لے آئے۔ حضرت نے خلیفہ سے فرمایا:لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں۔خلیفہ کہنے لگا:لوگوں کی ضرورت پوری ہوئی ہےاور دوبارہ طلب باران کی  اب ضرورت نہیں ۔حضرت نے فرمایا میں چاہتا ہوں لوگوں کے اذہان سے شک نکال دوں اور اس واقعے سے اُنہیں نجات بخشوں۔

خلیفہ نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب تیسرے دن بھی طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں۔خلیفے کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے تمام مسیحو ں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا،اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا،اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش برسنے لگی۔اس موقع پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے لوگوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حبیب خدا حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو کھولے،جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے۔پس امام علیہ السلام نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی،ایک کپڑےے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا:اب طلب باران کرو۔راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے سورج ظاہر ہوگیا۔

لوگوں نے اس واقعے سے مزید تعجب کیا۔اس وقت خلیفہ نے حضرت سے سوال کیا:یا ابا محمد! اس امر کی وجہ بیان فرمائیں ۔ حضرت نے فرمایا:ان لوگوں نے کسی قبرستان میں ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی وضاحت پر یقین کرلیا،پھر اسی طرح خود بھی آزمائش کر کے دیکھا تو قضیہ ویسے ہی تھا جیسے حضرت نے بیان فرمایا تھا۔اس واقعہ کے بعد لوگوں کے اذہان سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے۔ خلیفہ اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے۔یہاں حضرت نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی خلیفے سے فرمایا اور خلیفے نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا
جائے۔


حوالہ جات
۱۔مناقب، ج۴، ص۴2۴۔
۲۔ زندگی حضرت امام حسن عسکری(ع)، علی‌اکبر جہانی، ص۱۳۵۔


تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ انسان نہیں درخت تھے، جنہیں بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت کے علاقے گروک میں گاڑی سے اتار کر گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے افراد عسکری تعمیراتی کمپنی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ملازمین تھے اور ضلع کیچ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔

لیجیے اب یہ انسان کی قیمت رہ گئی ہے، کسی انسان کے خون بہانے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ایف ڈبلیو او کا ملازم ہو، اس غم اور دکھ کی فریاد کس سے کی جائے، اور کون ہے اس ملک میں  جس کے نزدیک انسان کی کوئی قیمت ہے،  انسانی احساسات و جذبات کی کوئی قدر ہے اور انسانی رشتوں کا کوئی احترام ہے۔

یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کر دینے کی رسم ہمارے  ہاں مذہبی جنونیوں نے ہی ڈالی ہے ۔ میں اس وقت سانحہ چلاس۲۰۱۲ کے اُن مقتولین کو نہیں بھول سکتا جن میں سے بعض کو ہاتھ پاوں باندھ کر دریا برد کر دیا گیا تھا۔

میرے پاس الفاظ نہیں کہ کس طرح  اس دکھ مظلومیت اور غم کو بیان کیا جائے کہ آج بھی یہاں روٹی کی تلاش میں نکلنے والوں کو گولی سے سیر کیا جاتا ہے،مسافروں کو شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کر دیا جاتا ہے،  نوے سالہ بوڑھا باپ اپنے لاپتہ بیٹے کی خاطر گرفتاری دیتا ہے، مسنگ پرسنز کے لئے آواز بلند کرنے والا ناصر شیرازی خود لا پتہ ہو جاتا ہے۔

آج انسانی حقوق، انسانی آزادی، عدل و انصاف ، محبت اور اخوت کے لئے کوشش کرنا گویا آہنی دیوار پر ٹکریں مارنے کے مترادف ہے۔  

ہم سب  احساسات سے عاری ہیں، ہم لوگ انسان نہیں ، درخت ہیں اور جنگل میں درختو ں کی طرح رہتے ہیں، ہمارے ارد گرد مسلسل کٹائی جاری ہے اور ہم خاموش اور ساکت ہیں، ہمیں سیاسی اور مذہبی ٹھیکیداروں نے کٹائی کے لئے ٹھیکے پر دے رکھا ہے۔

اس کٹائی پر ہم نہ بول سکتے ہیں ، نہ سوال کر سکتے ہیں اور نہ آہ بھر سکتے ہیں! ہم اگر بولیں تو گستاخ، سوال کریں تو ملک دشمن اور آہ بھریں تو کافر ٹھہرتے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے سیاسی شخص کو اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کرپشن کے باعث نا اہل قرار دیدے تو وہ بھی چیختا ہے کہ مجھے  کیوں نکالا !؟

ملک کے مذہبی ٹھیکیداروں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ آپ لوگ ہمیں تو دیگر مسلمان فرقوں کے خلاف کافر کافر  کے نعرے لگواتے ہو اور خود امریکہ ، اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ یارانے رکھتے ہو اور ٹرمپ کی آمد پر بھنگڑے ڈالتے ہو  تومذہبی ٹھیکیدار  اس پر چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ تو دین کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔

ہم اگر آہ بھرتے ہیں کہ بھائی اس ملک میں پنجابی، بلوچ، پٹھان اور سندھی کی تقسیم کیوں ہے اورمختلف بہانوں سے  لوگوں کو جبراً  لاپتہ  اور اغواکیوں کیا جاتا ہے  تو ہمیں ملک کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔

ہمیں بولنے، سوچنے ، پوچھنے اور احتجاج کرنے کا حق نہیں، سیاسی و مذہبی ٹھیکداروں کے نزدیک ہم یعنی عوام  !انسان نہیں درخت ہیں اور درخت کٹتے تو ہیں لیکن  بولتے سوچتے پوچھتے اور احتجاج نہیں کرتے۔

اب احتجاج کریں بھی تو کس سے کریں!جب  حکومتی ادارے ہم نہیں مانتے ، ہم نہیں جانتے کے راستے پر گامزن ہیں، جب اپنی پارٹیوں کی تقویت کے لئے عوام کو صوبائی اور مذہبی تعصبات میں تقسیم کر کے بکھیر دیا جاتا ہے ، جب سوچنے اور بولنے والے لوگوں کو نوالے کی طرح نگل دیا جاتا ہے اور مزدوروں کے خون کو بلوچستان میں  پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے۔

ہمارے سیاسی و مذہبی  ٹھیکداروں  کی  دیرینہ خواہش ہے  کہ اب عوام، ملکی معاملات سے لا تعلق ہو کر غزلیں لکھیں، جاڑے کی سرد راتوں میں گرما گرم کافی پئیں،  سیاسی و مذہبی   شخصیات کے ساتھ مل بیٹھ کرنت نئی تصاویر بنوائیں اور  اپلوڈ کریں، لڈو کھیلیں اور کبوتر اڑائیں،  ملکی حالات پر کڑھنے اور دل جلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔درختوں کو درخت بن کر رہنا چاہیے چاہے جنگل میں آگ لگے یا کٹائی ہو۔

اب عوام  کو یہ سمجھانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ  مسائل کے پسِ پردہ محرکات کو جاننے کی ضرورت نہیں، ویسے بھی جن کی لاشیں گری ہیں ، جن کے گھر سنسان ہوئے ہیں، جن کے دل لٹے ہیں اور جن کے عزیز بچھڑے ہیں وہ مزدور ہی تو تھے،  اُن کے ورثا ایک دو دِن رو دھو کر خاموش ہو ہی جائیں گے ، اور یوں  جنازے دفن ہونے کے بعد ملک میں ہر طرف  امن ہی امن  ہو جائے گا۔

 
تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) سرگودھا بار اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معزز ممبر ایڈوکیٹ سیدناصر عباس شیرازی کا نام کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک فرد میں ایک تنظیم کا نام ہے وہ عام کارکن یا عام فرد نہیں بلکہ وہ ایک بڑے کردار کا نام ہے جنہوں نے زمانہ طالبعلمی سے خدمت خلق میں حصہ لینا شروع کیا اورجب وہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سٹو ڈنٹ تھے اس وقت 2003 سے5 200 تک آئی ایس او پاکستان طلبہ تنظیم کے میر کارواں رہے جو ایک ملک گیر تنظیم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ متحدہ طلبہ محاز کے بھی صدر رہے یہاں میں متحدہ طلبہ محاز کے بارے عرض کرتا جاوں متحدہ طلباء گیارہ ملک گیر طلبہ تنظیموں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے اس کے علاوہ چھوٹی علاقائی تنظیمیں بطور مبعسر شامل ہیں، اور طالب علموں کے مسائل حل کرنے میں اپنابھرپور کردار ادا کرتے رہے جبکہ موجودہ قومی پلیٹ فارم تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیاجب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس قومی پلیٹ فارم میں ناصر شیرازی نے عوامی ترجمانی کا حق ادا کیا،اور اپنی بھرپور فعالیت کی بناء پران کو مجلس وحدت مسلمین کا سیکرٹری اطلاعات کا عہدہ دیا گیا 3 201 میں سیکرٹری سیاسیات جیسی اہم ذمہ داری دی گئی اور الیکشن میں ناصر شیرازی صاحب نے اپنی پارٹی کی طرف سے پھر پور سیاسی کردار ادا کیا او رپاکستان کے صف اول کے سیاستدانوں میں خود کو لا کھڑا کیا پورے پاکستان میں اپنے نمائندے کھڑے کئے اور مخالفین کا سکون اور چین برباد کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی دہشتگردی اور فرقہ واریت سے شیعہ سنی علماء کے ساتھ ملک بھر دورے کر کے گراونڈ لیول تک کام کیا اب جیسے ہی الیکشن قریب آرہا ہے تومخالفین نے اپنے ہوش ہواس پر قابو نہ پاتے ہوئے سیاسی انتقام لینے کے لئے ان کو جبری اغوا کر ایا ملک کی ایک اہم سیاسی و مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان جو ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا اہم حصہ ہے اور اتحاد امت کے لیے مصروف عمل ہے کے مرکزی راہنما ء سید ناصر شیرازی کا صوبہ پنجاب کے صدر مقام سے اغواء انتہائی قابل مذمت ہے۔اس پر مزید یہ کہ تاحال ان کے اغواء کار کا کوئی علم نہیں ہو سکا جو ملکی اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ان خیالات کااظہار تمام مذہبی لیڈروں سمیت سیاسی جماعتوں کے لیڈر ان نے کیا سابق صدر پرویز مشرف اورسابق صدر آصف زرداری،بلاول بھٹو زرداری،پی ٹی آئی پنجاب کے اپوزیشن لیڈ ر محمود الرشید اور مسلم لیگ ق کے چوہدری برادرن نے سخت الفاظ میں مذمت کی اور ان سب کا کہنا تھامجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور معروف قانون دان سید ناصر شیرازی اتحاد امت کے لیے کوشاں تھے اور ان کا اغواء قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے نیز ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔شیعہ سنی اتحاد کے لئے شیرازی صاحب کی کاوشیں عملی اور مثالی ہیں، تو پھر محب وطن شہری کو بیوی بچوں کے سامنے اسلحہ کے زور پر لاہور سے اغواکیا جاتاہے لہذا اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے اور پارٹی لیڈران کا کہنا ہے کہ ان کو رانا ثنااللہ کے کہنے ہر اٹھایا گیا ہے اس کا مطلب ہے اس میں پنجاب حکومت براہ راست ملوث ہے ،حکومت کا کام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ظلم جابر کرنا ناصر شیرازی کو اغوا کئے ہوئے آج بیس دن ہوگئے ہیں جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے ایک پاکستانی شہری کو بیوی بچوں کے سامنے لاہور جیسے شہر سے اسلحے کے زور پرجبری اغوا کیا جاتا ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی پاکستان کا پرنٹ میڈیا الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت عدالت ناصر شیرازی کے جبری اغوا پر چیخ رہا ہے اور پنجاب حکومت لگتا ہے بھنگ پی کے سو رہی ہے لیکن حکومت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کی بجائے لا پتہ افراد کو عدالتوں میں جلد پیش کرے جتنا حکومت اس کام میں دیر کرے گی اُتنا دالدل میں پھنستی جائے گئی اور اپنے لئے مسائل پیدا کرے گی اس سے بہتر ہے جلد ان کو سامنے لایا جائے ۔

قلم ازماو خرابے کی رُت ہے
دیا بننے والو ہوا جانتے ہو؟
تم اہل خیرات ہو سو ،ارذاں رہو گئے
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو ؟
یہاں وردیوں میں سپاہی کھڑے ہیں
یہاں لفظوں و معنی پہ تالاے پڑے ہیں
محافظ کی بندوق تم پر تنی ہے
جوانوں کے بازو خدا سے بڑے ہیں
خطا کرنے والو خطا جانتے ہو؟
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو؟
ہم ہی رہنما ہیں ہم ہی کارواں ہیں
ہماری عدالت ہم ہی حکمراں ہیں
ہے کون و مکاں ہم زمین و زماں ہم
یہ سب لشکری بھی ہمارے جواں ہیں
دعا مانگتے ہو ؟خدا جانتے ہو؟
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو؟
زمینوں پہ قبضہ،ہواوں پہ قبضہ،دعاوں پہ قبضہ،خداوں پہ قبضہ
معلم مساجدنسب و زرائع نگاہوں پہ قبضہ صداوں پہ قبضہ
گلہ کر رہے ہو،سزا جانتے ہو؟
زباں کھولنے کی سزا جانتے ہو؟

تحریر ۔۔۔امیر عباس سواگ
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) اب اس بات پر کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کوکسی بھی حال میں آگے لانا چاہتا ہے اور یقیناًبھارت کے جارحانہ قسم کے عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی یہ کوشش اسلام آباد سے افغانستان تک کے مسائل کو سخت متاثر کرسکتے ہیں ،یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ امریکی بھارتی ان عزائم کے مقابلے کے لئے اور پاکستان کو اپنے قومی مفادات کو بچانے کے لئے کیا کرنا چاہیے اور پاکستان کیا کرسکتا ہے ؟کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں بھارت نے اقتصادی طور پر کافی بہتری حاصل کی ہے اور اسی بہتری کے زعم میں بھارت خطے میں اپنے عسکری اور سیاسی جارحانہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں پولیس مین کا کردار ادا کرے ۔

بھارت کے امریکہ کے ساتھ پر گذرتے لمحے گہرے سے گہرے ہوتے ہوئے روابط بھی اس کے اعتماد میں اضافہ کررہا ہے جبکہ امریکہ کو چین کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ کو روکنے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر مسائل کے لئے بھارت کو استعمال کرنا چاہتا ہے ،امریکی سیکرٹری خارجہ کا حالیہ دورہ جنوبی ایشیا اور بھارت کے حق میں دہرایا جانا والا بیان اس بات کی واضح دلیل ہے،امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’افغانستان کےبارےامریکی اسٹرٹیجی میں بھارت کا مرکزی کردار ہے اور دونوں ممالک مضبوط اقتصادی رشتے میں جڑ تے جارہے ہیں ‘‘امریکی سیکرٹری خارجہ نے جہاں ایک طرف چین پر تنقید کی وہیں دوسری جانب عالمی امن کے لئے بھارت کے کردار کی تعریف بھی کی ۔

اس سے قبل افغانستان اور پاکستان کے امور امریکی خصوصی ایلچی ایلس ویلز نے کھل کر کہا تھا کہ بھارت امریکہ کا ایک اہم اسٹراٹیجک پارٹنر ہے اور خطے کی امن وسلامتی کی لئے بھارت کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے ،ویلز کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ بھارت کوایسے حساس نوعیت کے فوجی سازوسامان سے لیس کرنا چاہتا ہے جو اس سے قبل اس نے اپنے کسی بھی اتحادی کو نہیں دیے ۔جبکہ اسی سال جون کے مہینے میں امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے موقعے پر بھارت وزیراعظم مودی اور ٹرمپ میں جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والے ڈرون طیاروں کی فروخت کا بات چیت طے ہوئی تھی ،جس کے بارے میں دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے پاکستان کے شدید تحفظات کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی طاقتوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے بھارت کو ڈرونز کی فراہمی کا مطلب خطے میں طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرناہے ،اس قسم کے اسلحے کی فراہمی سے بھارت کے جارحانہ عزائم کو تقویت ملے گی ۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائیکل کولنس نے کہا تھا کہ امریکہ کے لئے روس سے زیادہ چین سے خطرہ ہے ۔چین کے مشرق و جنوبی سمندر میں بڑھتی ہوئی عسکری اور سول مومنٹ ،پاکستان بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اس کے مزید گہرے ہوتے روابط اور وسیع اقتصادی پروجیکٹس امریکیوں کو کھٹک رہے ہیں چین کے پیسفک سے لیکر براعظم افریقہ تک اقتصادی ،سیاسی اور عسکری اثرات پھیلتے جارہے ہیں جبکہ ان علاقوں میں امریکی اثر ورسوخ ایک حدتک کم ہوتا جارہا ہے امریکی چینی اس پھیلتے اثر رسوخ کو روکنے کے لئے بھارت کو شہ دینے کے ساتھ ساتھ اسے پولیس مین کے کردار کا لالچ بھی دے رہا ہے ،امریکہ نے گذشتہ دس سالوں میں بھارت کو پندرہ ارب ڈالر کا اسلحہ بھی فروخت کیا ہے جبکہ آنے والے سات سالوں میں امریکہ بھارت میں تیس ارب ڈالر کے فوجی منصوبوں کا بھی پلان رکھتا ہے ۔

اس کے علاوہ امریکہ بھارت اور جاپان نے اس سال جولائی میں خلیج بنگال میں مشترکہ عسکری مشقیں بھی کیں ہیں جبکہ اسی دوران چین اور بھارت میں سرحدی تنازعے پر کافی کشیدگی بھی پیدا ہوئی تھی ،اسی سال اگست کے مہینے میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کردیا ،ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس کی پالیسی وقت سے زیادہ حالات پر انحصار کرتی ہے ٹرمپ یہ کہنا چاہتا تھا کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کی واپسی وہاں کے حالات کے مطابق ہوگی ،ٹرمپ نے کھل کر پاکستان پر الزامات لگائے جبکہ پاکستان خود ہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور سب سے اہم اور کامیاب آپریشن دہشتگردوں کیخلاف پاکستان کرتا جارہا ہے ۔
ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزامات کی ایک وجہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے ساتھ ساتھ بھارت کواپنے ایجنڈوں کے لئے راضی رکھنا تھا ۔

امریکی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمد پر جس انداز سے پاکستان نے اسے ویلکم کیا اس نے امریکہ پر مزید واضح کرہی دیا ہوگا کہ پاکستان کے اہم اتحادی ہونے کے امریکی کھوکھلے نعروں کی حقیقت پاکستان جان چکا ہے ،اس پر رہی سہی کسر پاکستان کی وزارت خارجہ اور ذمہ داروں کے بیانات نے پوری کردی ،پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں مزید بہتری لانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ پالیسی کو مرتب کرتے وقت امریکی خوشی یا ناراضگی کو بالا ئے طاق رکھنا ہوگا،یہ بات واضح ہے کہ امریکہ سمیت تمام سامراجی قوتوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت و صلاحیت ایک آنکھ نہیں بہاتی اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان جیسا ملک آگے بڑھے لہذا تاریخ نے ہمیں ایک ایسے نادر موڑ پر لاکر کھڑا کردیا کہ ہے کہ ہم باجود سیاسی و معیشتی مشکلات کے خود کو امریکی بلاک سے نکالیں جو در حقیقت ایک طوق کی مانند ہماری گردن پر بوجھ بننا ہوا ہے ۔

امریکی بلاک سے نکلنا یقیناًپاکستان کے لئے آسان نہیں ہوگا لیکن قوم میں اس قدر تونائی ہے کہ وہ اس نادر اور سنہری تبدیلی کی خاطر آنے والی مشکلات کو سہہ سکتی ہے ۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف کو یہ کہنا بلکل درست ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اپنے مفادات کومقدم رکھے گے ،خواجہ آصف نے یہ بات بھی سو فیصد درست کہی ہے کہ مستقبل میں بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں زیادہ خوشگواری کا امکان نہیں ،امریکہ آج یہاں ہے لیکن کل نہیں ہوگا علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی امن کو یقینی بنائے گے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو بھرپور طریقے سے استعمال کرے گے ،پاکستان کے حق میں سب سے اچھا یہی ہوگا کہ وہ خود کو نہ صرف امریکہ بلکہ امریکی بلاک سے فاصلے پر رکھے اور علاقائی و ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعاون کو مزید بہتر کرے ،علاقائی ممالک سے تعاون ابھرتے چین اور روس کے ساتھ مزید بہتر تعلقات پاکستان کو انڈو امریکہ عزائم سے بچنے میں مدد فراہم کرے گا لیکن خدا نخواستہ پاکستان پھر سے امریکی ایجنڈوں کو حصہ بنتا ہے تو پھر نہ صرف چین جیسے اہم ترین دوست اور علاقائی ممالک سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ خطے میں بھارتی بالادستی کی امریکی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی ۔

تحریر۔۔۔حسین عابد

وحدت نیوز(آرٹیکل) قانون اور شعور کا گہرا تعلق ہے، انسان جتنا باشعور ہوتا ہے اتنا ہی قانون پسند بھی۔ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ طالبا ن  اور داعش سے نفرت کرو، اس لئے کہ وہ قانون شکن ہیں، وہ ملک اور دین کی بدنامی کا باعث ہیں، وہ خواتین کو کوڑے مارتے ہیں ، وہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں اور وہ۔۔۔

ظاہر ہے ہر محب وطن پاکستانی ، اپنے ملک اور آئین کی بالادستی کے لئے طالبان  اور داعش کے خلاف کمر بستہ ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ قانون شکنی اگر جرم ہے تو پھر سرکاری لوگوں کے ذاتی عقوبت خانوں کو کیا نام دیا جائے!

 قانون سے کھلواڑ اگر بے شعوری کی دلیل ہے تو لوگوں کا ماورای قانون اغوا اور لاپتہ ہونا کس بات پر دلالت کر رہا ہے!

 ملک اور دین کی بدنامی اگر قبیح ہے تو پھر ائیر پورٹ پر خواتین کی پٹائی کر کے کونسی نیک نامی کمائی گئی ہے!

خواتین کو کوڑے مارنا اگر قابلِ مذمت ہے تو پھر کسی مستور کو برہنہ کر کے گلی کوچوں میں پھرانے کو کیا کہا جائے!!!

گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں  تھانہ چودہوان کی حدود میں گرہ مٹ کے کچھ مسلح افراد نے ذاتی دشمنی کے باعث مخالف خاندان کی 16 سالہ بچی شریفاں کو اس وقت ننگا کر کے گائوں میں گھومنے پر مجبور کر دیا جب وہ جوہڑ سے پانی بھر کے گھر واپس آ رہی تھی۔

غنڈوں نے مدد کے لئے چیختی ہوئی اس  برہنہ بچی کو کسی سے چادر تک نہ لینے دی،  شیطانیت ایک گھنٹے تک رقص کرتی رہی لیکن پولیس یا ہمارے انتہائی حساس اداروں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔

یہ سب ُاس صوبے میں ہوا جس میں غیرت اور مذہب کے نام پر قتل کرنے کو بہادری سمجھا جاتا ہے۔  اور جہاں کچھ عرصہ پہلے مشال خان کو توہین مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

اسی صوبے میں   ایک گھنٹے تک  مسلمان بچی کو برہنہ کرکے  اس پر  تشدد کیا جاتا رہا لیکن   کسی کے مذہب کی توہین نہیں ہوئی، کسی جہادی کی رگِ جہاد نہیں پھڑکی، کسی مُلّا نے ایک مسلمان بچی کی آبرو بچانے کے لئے کوئی فتوی نہیں دیا، کسی مسجد کے سپیکر سے کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، کسی تنظیم کے جیالے اپنے دیس کی بیٹی کی ناموس بچانے کے لئے میدان میں نہیں اترے، جی ہاں اور اس ایک گھنٹے میں کسی قانونی ادارے کے نزدیک ملک میں کسی قسم کی کوئی قانو ن شکنی نہیں ہوئی۔

جب بچی کے ورثاء تھانے رپوٹ درج کرانے گئے تو  وہاں پر کوئی طالبان یا داعش کے کارندے  ڈیوٹی پر نہیں تھے بلکہ ہمارے قانون کے محافظ براجمان تھے، جنہوں نے باثر ملزمان کے ساتھ مل کر لڑکی کے خاندان کو دباو میں لانے کے لئے اس کے  بھائی پر بھی ایک مقدمہ درج  کر لیا ۔

چونکہ یہ سب کچھ کرنے والے طالبان، القاعدہ یا داعش نہیں ہیں لہذا یہ سب کچھ برا بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف صحافیوں پر حملوں اور تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے تو چونکہ یہ سب کچھ طالبان ، القائدہ یا داعش کی ریاست میں نہیں ہو رہا لہذا ہمارے ہاں  اس کے ہونے میں کوئی قباحت بھی نہیں سمجھی جاتی۔

قباحت تو تب ہے کہ جب طالبان کے اذیت کدوں میں کسی پر ٹارچر کیا جائے لیکن اگر  کسی سرکاری ٹارچر سیل میں جمشید دستی جیسے کسی شخص پر بچھو چھوڑے جائیں تو یہ قانون، مذہب  اور آئین کے عین مطابق ہے۔

اسی طرح اسی طرح  معروف سیاستدان ، ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کو لاپتہ ہوئے آج کئی دن گزر چکے ہیں،  چونکہ انہیں لاپتہ کروانے میں وزیر قانون  کا ہاتھ ہے لہذا یہ گمشدگی بھی قانونی ہے اور اس میں دینی، شرعی اور قانونی اعتبار سے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ویسے بھی تو اِ س مُلک میں  ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔

آپ خود دیکھ لیجئے ! برما اور کشمیر کی بیٹیوں کی ناموس کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر رونے والے مولوی حضرات کے اپنے دیس میں ایک نوعمر مسلمان بچی کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس پر کسی مولانا کے اشک نہیں گرے، کسی مولوی نے جہاد کی بات نہیں کی کسی مفتی نے کفر کا فتوی نہیں دیا۔۔۔

اور عجب اتفاق ہے کہ سیاسی عناصر جس طرح مشال خان کے قتل میں ملوث تھے اُسی طرح ڈی آئی خان کے واقعے میں بھی غنڈوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

اب یہ بھی خبریں ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہو رہی ہے یعنی  مولویت و جمہوریت رسمی طور پر پھر سے ایک ہو رہے ہیں۔ اچھا ہے  ایسا ہی ہونا چاہیے چونکہ ہمارے ہاں رائج مولویت اور جمہوریت کی لوح محفوظ پر  عوام کی تقدیر میں یہی کچھ لکھا ہے۔  

عوام کے ساتھ جو مرضی ہے ہوتا رہے، حوا کی بیٹی گھنٹوں برہنہ پھرائی جاتی رہے یا سالوں، ٹارچر سیلوں میں بچھو چھوڑے جائیں یا سانپ، کسی وکیل پر تشدد ہو یا صحافی پر ، اس پر کبھی بھی ہمارا  مقامی مذہبی ٹھیکیدار  یا  سیاستدان  نہیں بولے گا۔

ہمارے ہاں دین اور قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ چلتا رہے گا چونکہ یہی ہمارے ہاں کی مولویت اور جمہوریت ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) اٹھارہ اکتوبر کو واٹس اپ چیک کیا تو ناصر شیرازی کا میسج آیا ہوا تھا ۔میسج اوپن کیا تو یہ انکی میڈیا ٹاک کی ایک ویڈیو تھی ۔جس میں بولے گئے انکے الفاظ یہ تھے ”پاکستان کے جو سٹیٹ انسٹیٹیوشنز ہیں جن میں جوڈیشری ہے ،جن میں فوج ہے انکو divide کرنے کی کوشش کرنا یہ نا صرف غداری کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ ڈس کوالیفائی کے زمرے میں آتا ہے۔بس جو بندہ پبلک آفس رکھتا ہو وہ سٹیٹ انسٹیٹیوشنز کوdivide کرنے کی کوشش کرے گا کسی بھی بنیاد پر ،وہ غداری کا مرتکب بھی کہلائے گا اورآئین کے تحت نا اہل بھی قرار پائے گا۔صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے ایک ایسا فیصلہ جو معروف فیصلہ ہے جسٹس باقر نجفی صاحب کا جو جوڈیشل کمیشن بنا تھا،اس کمیشن نے جو رپورٹ بنائی تھی اس رپورٹ پرلائیو ٹی وی چینل پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ جج صاحب ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔انہوں نے ایک خاص مسلک کو نشانہ بنایا ۔ججز کا کوئی مسلک نہیں ہوتا ۔ججزلاءکی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہیں،ججز آئین اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہیں ۔اگر جوڈیشری کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹیٹ انسٹیٹیوشنز کو ڈس انٹیگریٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو غداری کے مترادف ہے “۔وغیرہ وغیرہ ۔

 ناصر شیرازی نے وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ کیخلاف عدالت میں انکی بطور ممبر صوبائی اسمبلی نا اہلی کے حوالے سے دائر کی گئی پٹیشن کے بعد یہ الفاظ میڈیا بریفنگ میں ادا کیے ۔اس پٹیشن کے تقریباً دو ہفتے بعدیکم نومبر کوبعد مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی کوواپڈا ٹاون کمرشل مارکیٹ کی شاہراہ پر رات نو بجے سیاہ ڈبل کیبن ڈالے میں سوار پنجاب ایلیٹ فورس کی وردی اور سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اس وقت اغواءکر لیا جب وہ فیملی کیساتھ واپڈا ٹاون جا رہے تھے ۔ان کے اغواءکو کئی دن گزر چکے ہیں مگر تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا(تاہم بعض ذرائع کے مطابق ناصر شیرازی کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی تحویل میں ہیں )تاہم کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ اسکی تصدیق نہیں کر رہااور پنجاب حکومت نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ناصر شیرازی کے اغواءنے جہاں کئی سوالات کو جنم دیا ہے وہیں پنجاب حکومت کو ایک بار پھر مشکوک بنا دیا ہے ۔پنجاب حکومت اپنے مخالفین کو انجام تک پہنچانے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتی ہے ۔شریف خاندان جو برسوں سے پنجاب پر برسر اقتدار ہے ،اس کے دور حکومت میں مخالفین کو جس طرح سے تشدد اور جان سے بھی پار کر دینے کا رجحان پایا جاتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔پنجاب حکومت میں برداشت نام کی کوئی چیز نہیں ۔کئی صحافیوں کو خلاف لکھنے پر مختلف طریقوں سے ابدی نیند سلاد یا گیا یا انکی زبان بندی کرا دی گئی ۔

پاکستان میں سیاسی مقدمے عروج پر رہے ہیں ،ان میں پنجاب کا شاید پہلا نمبر ہو ۔ماڈل ٹاون سانحہ تو ابھی انصاف کا طلبگار ہے جس میں سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے درجن بھر نہتے افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا ۔بدقسمتی قوم کی یہ ہے کہ آج تک نہ کسی نے واقعہ کی ذمہ داری لی اور نہ کسی کو سزادی جا سکی جبکہ پنجاب حکومت جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو اوپن کرنے اور اس میں ملوث افراد کو سزا دینے کی بجائے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔اوراس کیلئے پنجاب حکومت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔رانا ثناءاللہ کارپورٹ کے حوالے سے مسلکی بیان قابل مذمت ہے ۔حد تو یہ ہے کہ پنجاب حکومت اپنے کیے پر نادم اور خود کو قانون کے کٹہرے میں پیش کرنے کے بجائے ملک میں انتشار پھیلانے کے درپے ہے ۔راقم کی ناصر شیرازی سے کئی برس کی شناسائی ہے ۔وہ پڑھے لکھے اور عالمی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے نوجوان ہیں ۔میڈیا پرسنزکے ساتھ انکے ہمیشہ اچھے روابط رہے ہیں۔وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں مگر کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلئے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں اگرقانون کے دائرے میں رہ کر کمیونٹی کی خدمت کی جائے یا انکے حقوق کیلئے آواز بلند کی جائے ۔متعدد نظریاتی جماعتیں اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور حقوق کیلئے کام کر رہی ہیں ۔

ناصر شیرازی ایک مکتبہ فکرکی جماعت مجلس وحدت مسلمین سے وابستہ اور اس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے ۔جب بھی ان سے بات ہوئی ہر بار انکی باتوں سے پاکستان اور پاکستانیت سے سچی محبت کی خوشبو آئی ۔وہ ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی کیلئے سرگرم عمل رہے اور رانا ثناءاللہ کیخلاف بھی انہوں نے اس لیے پٹیشن دائر کی کہ وہ عدالیہ جیسے اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔پوری قوم کی طرح ناصر شیرازی اور انکے مکتبہ فکر نے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کیلئے اہم کردارا دا کیا۔ پنجاب حکومت ہمیشہ کسی بات پر صبر ،تدبر اور تحمل کی بجائے اس معاملہ کو فوراً قصہ پارینہ بنا دینے پر تل جاتی ہے ۔اس حوالے سے اسکا ٹریک ریکارڈ بھی سب کے سامنے ہے ۔کالعدم تنظیمیں کن کی سپورٹ سے دندناتی پھرتی تھیں یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،مگر بھلا ہو آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا کہ پاک فوج نے ملک سے ان ناسوروں کے خاتمے کی ٹھانی اور پنجاب حکومت کو بھی مجبوراً اپنی بوئی گئی فصلوں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹنا پڑا ۔انسان یہ سوچ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ رانا ثناءاللہ جیسا متنازعہ شخص صوبے کا وزیر قانون ہے جس کا سانحہ ماڈل ٹاون سمیت کئی دوسرے حوالوں سے ایک شہرہ ہے۔

آفرین ہے شریف برادران پر جنہیں رانا ثناءاللہ کے علاوہ دوسرا کوئی شخص اس عہدے کے قابل نظر نہیں آتا ۔ابھی حال ہی میں قادیانیوں کے حوالے سے موصوف اپنے غیر متنازعہ بیان کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں ۔رانا ثناءاللہ جیسا وزیر داخلہ صوبے کیلئے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے مگر شریف برادران کی مجبوری ہے کہ وہ انہیں خود سے دور بھی نہیں کر سکتے چونکہ رانا صاحب میاں بردران کے بہت بڑے رازدان اور بعض” معاملات“ میں برابر کے شریک بھی ہیں۔ناصر شیرازی کے اغواءمیں ایک اورپہلواورخدشہ یہ ہے کہ کسی دوسرے فریق نے اس تمام صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو۔مگر یہ خدشہ اس وقت دم توڑ جاتا ہے جب اس کیس میں پنجاب حکومت کی سستی اورسردمہری سامنے آتی ہے ۔جب یہ الفاظ قلم سے رواں ہیں ناصر شیرازی کے اغواءکو ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر تاحال پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اور نہ اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔

سیف سٹی منصوبہ کے اربوں روپے کے کیمرے کہاں گئے؟ایک پر ہجوم سڑک پر وردی اور سادہ لباس میں ملبوس افراد زبردستی ایک شہری کو لے جاتے ہیں ،سکیورٹی ادارے کہاں ہیں؟ابھی تو ملک میں سکیورٹی بھی الرٹ ہے۔ان عوامل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے نہیں تو اب تک چکھ نہ کچھ سراغ لگایا جا چکا ہوتا ۔کیونکہ پنجاب حکومت خاص طور پر رانا ثناءاللہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس اغواءکی ذمہ داری ان پر ڈالی جا رہی ہے اس لیے اگر انکا اس اغواءمیں کوئی کردار نہیں تو وہ بازیابی کیلئے تمام وسائل برائے کار لاتے جو عملی طور پر دیکھنے میں نہیں آئے۔ناصر شیرازی کے بھائی کی طرف سے رانا ثناءاللہ اور شہباز شریف کیخلاف دی گئی درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔مگر مغوی کے بھائی کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت نے مغوی کو دو یوم کے اندر 8نومبر کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ناصر شیرازی کا اغواءبلاشبہ پنجاب حکومت کو ایک بار پھر مشکوک بنا گیا ہے۔


فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے


تحریر۔۔۔۔۔صابر بخاری

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree