وحدت نیوز(آرٹیکل) صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔
قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ اس قدر اساسی اہمیت کا حامل ہے کہ تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔
بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔
اس وقت نیتن یاھو کے ہمراہ 130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ اس دورے میں چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔
قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔
اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔
سب سے بڑھ کر اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
ہنداورپاکستان۔۔۔ کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فضا دیکھ
وحدت نیوز(آرٹیکل)صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔
قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ اس قدر اساسی اہمیت کا حامل ہے کہ تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔
بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔
اس وقت نیتن یاھو کے ہمراہ 130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ اس دورے میں چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔
قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔
اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔
سب سے بڑھ کر اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان ایک گنجان آباد ملک ہے، دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی انسانوں کے روپ میں درندے بھی رہتے ہیں، ایسے میں انسانیت سوز واقعات کا رونماہو نا ایک فطری عمل ہے البتہ بعض واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان واقعات کے پیچھے جہاں دشمن کی منصوبہ بندی ہے وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی بھی شامل ہے۔
قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ بچی 5 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا ہوئی اور 4 دن بعد اس کی نعش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔ڈی پی او قصور ذوالفقار احمدکا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کی شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے۔[1]
ایک ہی نمونے کا ملنا سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر زبردست سوالیہ نشان ہے۔ لوگوں نے پولیس کے خلاف جگہ جگہ مظاہرے کئے، سڑکیں بلاک اور مارکیٹیں بند کرکے پولیس کی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے اور قصور میں ڈی سی آفس کا گیٹ توڑ کر اندر بھی گھس گئے، پولیس نے بھی حسبِ عادت ،مظاہرین پر فائرنگ کر کے تین افراد زخمی کئے۔
مظاہرین کا واویلا یہ تھا کہ قصور میں ایک سال کے دوران 11کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا ہے، لیکن پولیس ابھی تک ایک بھی ملزم کو بھی گرفتار نہیں کر سکی۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس بچی کی نعش جس جگہ سے ملی ہے اس سے پہلے بھی ریپ ہونے والی بچیوں کی لاشیں یہیں سے ملتی رہی ہیں۔
حیف ہے کہ اس سے قبل 2015میں بھی قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی کے بعد ان کی ویڈیوز بنانے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔
اس طرح کے جرائم اپنی جگہ پر جاری ہیں اور اب ملکی حالات کا صفحہ الٹ کر دیکھئے، سال ۲۰۱۷ میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں دہشت گردوں نے نوسے زائد حملے کئے، ان حملوں میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ابھی بھی جنوری ۲۰۱۸ میں ایک مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے قریب خود کش دھماکہ کر کے سترہ افراد کو زخمی اور پانچ کو شہید کر دیا گیا ہے۔
دہشت گردی کے ان واقعات کا تسلسل کے ساتھ کوئٹہ میں ہوانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئٹہ مسلسل دشمن کے نشانے پر ہے۔ دشمن کے سہولت کار اور اصلی مددگار وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کے واقعات کو ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کہہ کر دہشت گردوں کے چہروں پر نقاب چڑھاتے ہیں۔
کیا دہشت گردی کو ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار کہنے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ سال ۲۰۱۷ میں کوئٹہ میں دہشت گردی کا جو پہلا واقعہ 23 جون کو آئی جی پولیس کے دفتر کے باہر شہدا چوک پر پیش آیا تو اس میں شہید ہونے والے 13 افراد اور زخمی ہونے والے ۲۱ افراد میں سے کتنے ایرانی تھے!؟
کیا جو دوسرا واقعہ 13 جولائی ۲۰۱۷کو کلی دیبا کے علاقے میں پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح افراد نے پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایس پی قائد آباد مبارک سمیت چار اہلکار شہید ہوئے۔ان میں سے کتنے ایرانی تھے!؟
کیا تیسرا واقعہ جو 12 اگست ۲۰۱۷ کی رات کو جب سیکیورٹی فورسز کے ٹرک کو دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، تو 8 جوانوں سمیت 15 شہری شہید ہوگئے تھے ، اُن میں سے کتنے ایرانی تھے!؟
کیا دہشت گردی کا جو چوتھا واقعہ تیرہ اکتوبر۲۰۱۷ کو فقیر محمد روڈ پر پیش آیا جب نامعلوم مسلح افراد نے گشت کرنے والی پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 1 اہلکار شہید ہوا تھا۔کیا وہ اہلکار ایرانی تھا!؟
کیا دہشت گردی کا جو پانچواں واقعہ اٹھارہ اکتوبرکی صبح پیش آیا جب خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی کو پولیس ٹرک سے ٹکرا یا گیا اور 7 اہلکاروں سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے۔ان شہدا میں سے کوئی ایک بھی ایرانی تھا!؟
کیا دہشت گردی کا چھٹا واقعہ جو پندرہ نومبرکی دوپہر کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں پیش آیا جہاں فائرنگ سے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن محمد الیاس، ان کی اہلیہ، بیٹا اور پوتا شہید ہو گئے تھے۔اس سے ایران کا کچھ نقصان ہوا!؟
کیا دہشت گردی کے ساتویں حملے میں۹ نومبرکو کوئٹہ میں فائرنگ سے ڈی آئی جی بلوچستان سمیت تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اور آٹھویں حملے میں 25 نومبر کو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، بتائیے ان شہادتوں سے ایران کا کچھ بگڑا یا پاکستان کا نقصان ہوا!؟
دہشت گردی کے نویں حملے میں زرغون روڑ پر گرجا گھر میں خود کش دھماکہ کر کے 8 افراد کی جان لے لی ، کیا اس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی یا ایران کی!؟
ہم سب کو ہماری قومی سلامتی کے اداروں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کسی طرح کی پراکسی وار نہیں ہو رہی بلکہ یکطرفہ طور پر قتلِ عام اور ظلم ہو رہا ہے۔ خصوصاً بلوچستان کے اندر جتنے بھی دینی مدارس قائم ہیں ان سب کو حکومتی نظارت کے تحت ہونا چاہیے۔
کیا کل کو قصور میں ریپ کرنے والے شخص کوبھی یہ کہہ کر چھوٹ دی جاسکتی ہے کہ یہ بھی پراکسی وار ہے،لاقانونیت چاہے ریپ اور زنا کی صورت میں ہو یا خود کش دھماکوں اور قتل وغارت کی شکل میں، انسانیت دشمن قصور میں ظلم کریں یا کوئٹہ میں، ہم سب کو بحیثیت قوم ظالموں کے خلاف قیام کرنا چاہیے۔اس لئے کہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اس کو ظالموں اور ان کے سہولت کاروں سے پاک کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
آخر میں اس ہفتے میں صوفی محمد اور اُن جیسے چند دیگر افراد کی ضمانت اور بلوچستان اسمبلی کے قریب خودکش دھماکہ ہونے پر اعلیٰ اداروں کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مائی لارڈ یہ ملک میں یکطرفہ قتل و غارت ہے کوئی پراکسی وار نہیں۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ مہینہ جس میں سردی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور انسان گرم لباس زیب تن کر نے کے باوجود گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ہزار بار سوچتا ہے اسے دسمبر کہا جاتا ہے۔ راستوں میں جمی ککر کی پھسلن، برف کے گرتے گالوں اورسرد ہواؤں کے سبب لوگ گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں اسکردو کا شمار سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں اکیس دسمبر کے بعد سردی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ گھروں میں دیسی انگیٹھی میں لکڑی جلا کر اس کے گرد بوڑھے بچے جمع ہو کر آگ کی تمازت سے جینے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اسی موسم میں اس خوبصورت شہر سے خوش گلو پرندے بھی غائب ہو جاتے ہیں ، درختوں کے پردے مرجھا جاتے ہیں، سبزہ و گل غائب ہو جاتا ہے۔ کاروبار زندگی منجمداور یخ بستہ ہو جاتا ہے۔ اس دوران دن کی چادر بھی سمٹ جاتی ہے جبکہ رات کی وادی تاریک اور گہری ہو جاتی ہے۔ سورج بھی ہلال عید بن جاتا ہے۔ بادل اور برفباری کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ برف کی چادر اوڑھ کر اسکردو شہر سنساں ہو جاتا ہے اور ہو کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ صبح دس بجے تک شاہراہوں پر اکا دکا انسان نظر آتا ہے اور سڑکوں پر خاموشی کی سنسناہٹ رقص کرتی اور اعصاب شکن سردی راج کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن اب کی بار لگتا ہے یہ وہ بے جا ن اور منجمد دسمبر نہیں جس میں لوگ آگ کے گرد جمع ہو کر یا کمبل اوڑھ کر گزارا کرتے ہیں۔ میں نے جب ایک ریڑھی چلانے والے مزدور کا بدلا بدلا تیور دیکھا تو دیکھا کہ اس کے عزم کی گرمائش سے برف پگھل جا ئے گی ۔ مڑ کر دوسری طرف دیکھا تو ستر سال کا بوڑھاکانپتے ہاتھ، ہاتھ میں لاٹھی اٹھائے ہوئے ہے جنکی بے خواب آنکھوں میں غیض و غضب ہے یہاں کی برف پگھلانے کیلئے یہی کچھ کافی تھا۔ شاید اس دسمبر میں اس قوم نے کوئی اور تاریخ رقم کرنی ہے۔ اس تاریخی سردی میں قوم نے ٹھانی ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا جائے یہ دسمبر کی 25تاریخ ہے ۔ آج اسکردو شہر کے در و دیوار لرز رہے ہیں۔ میرے لیے یہ منظر انتہائی عجیب و غریب اور ناقابل یقین ہے۔
وہ دسمبر جس میں خاموشی کی سنسناہٹ گاتی ،رقص کرتی ،دھول اڑاتی، یخ بستہ ہوائیں راج کرتیں اورسخت سردی خون جمادیتی ہے اس میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندریہاں موجود ہے۔ سورج غروب ہونے سے قبل گھروں کو لوٹنے والے عوام شام ڈھلنے تک یہاں پر موجود ہیں۔ اس ٹھٹھرتی سردی میں لوگ مظلوموں اور محروموں کی فریاد کی جگہ یاد گار شہدا ء اسکردو کے گرد جمع ہیں۔ حقوق سے محروم عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی حکومتی کوشش پر اب خطے کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہے۔ میں اسوقت یادگار شہداء سے کئی سو فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر عوامی ایکشن کمیٹی اور ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ آغا علی رضوی کی تقریر سن رہا ہوں۔ آغا علی رضوی وہی شخصیت جو میدان عمل کا شہسوار ہے ۔ جو وہ کہتا ہے کر گزرتا ہے۔ جو بھی ان کے دل میں منہ سے کہہ دیتا ہے۔ ان کی سخت گوئی پر مجھ سمیت بہت سوں کو شکایت ہونے کے باوجود دھرنے کو چھ دن گزر چکے ہیں اور ہر کسی کی نگاہیں اس مرد مجاہد کی طرف ہیں۔ ان کا خلوص اور استقامت ناقابل یقین حد تک ہے ۔ میں مسلک کے اعتبار سے ان سے الگ ہوں ،لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ٹیکس کے خلاف جاری تحریک میں جان اس وقت ہی آئی جب یہ شخص زیارات سے واپس آگیا۔انہوں نے خود کربلا سے واپسی کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ کربلا سے امام عالی مقام سے عزم اور حوصلہ لے کر آیا ہوں اور ا س مظلوم قوم پر جاری مظالم کے خلاف لڑنے کا عزم کر کے آیا ہوں۔ٹیکس کے خلاف جاری تحریک کے روح رواں انجمن تاجران کے نڈر صدر غلام حسین اطہر کا لہجہ بھی پر اعتماد تھا وہ کہہ رہے تھے جب آغا علی رضوی نے ساتھ دینے کا کہا ہے تو کامیابی یقینی ہے، یہ شخص جان دے سکتا ہے لیکن عوامی حقوق پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف حکومتی نمائندے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام کو شیعہ سنی اور گلگتی بلتی کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جی بی میں ٹیکسز کا آغا ز پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا تھا اور موجودہ ٹیکس کا فیصلہ بھی اسی دور میں ہوا تھا چنانچہ نون لیگ تمام تر ملبہ پیپلز پارٹی پر ڈال کر خود بری ہونے اور عوامی لعن طعن کرنے اور راہ فرار اختیار کرنے کی کوششوں کے ساتھ دھمکیوں اور الزاما ت بھی شروع کیے ہوئے ہیں۔ حفیظ الرحمان کے ارد گرد پھرنے والوں نے ٹیکس کے خلاف تحریک چلانے والوں کے تانے بانے کو انڈیا اور راء تک سے ملایا ہے۔ وزیر قانون گلگت بلتستان نے واضح پیغام میں کہا کہ حالیہ ٹیکس مخالف تحریک کے لیے را سے پیسے آرہے ہیں اور انکے اشارے پراحتجاج کر رہے ہیں۔ وزیراعلی گلگت بلتستان نے گزشتہ رات اپنے ویڈیو پیغام میں عوام کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کے خلاف ٹحریک غیرملکی ایجنڈا ہے جسے کامیاب ہونے نہیں دیں گے انہوں نے کہا کہ جو شرپسندی کر یں گے انکے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔
اس یخ بستہ ،دسمبر کی سردہواؤں کا راج کرتی اور خون جمادینے والی سرد شاموں میں، میں نے ہر چوک چوراہے سے عوام کو امڈ امڈ کے یادگار شہداء کی طرف ایک عزم کیساتھ بڑھتے دیکھا۔ ان حالات میں لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر پید ل چل کر آتے دیکھا جبکہ ہڑتال کی وجہ سے تما م پیٹرول پمپس بند ہیں۔ صرف یہی نہیں پورے بلتستان میں آج چھٹا روز ہے تمام دکانیں مکمل طور پر بند ہیں جبکہ کسی بھی دکاندار پر جبری اور زبردستی نہیں ہے۔ عوام نے اس تحریک پر سو فی صد اعتما د کا اظہار کر دیا ہے۔ میں نے حکومت کی غیر لچکدار اور میں نہ مانوں کی پالیسی کے سبب پست ہوتے ہوئے حوصلے والے افراد کی زبانی سنا کہ آغا علی رضوی اس تحریک کو کامیاب بنا کر دم لے گا۔ ایک طرف حکومتی رویے اور دوسری طرف عوام کا اعتماد عجیب منظر تھا۔ عوام کے دم توڑتے حوصلوں میں نئی روح پھونکنے کے لیے ایک کالے رنگ کے عمامے والے شخص کی کرشماتی تقریر کافی تھی۔ وہ پست حوصلوں کو بلند کرتے، مرے ہوئے جذبات کو زندہ کرتے، دفن ہونے والے عزم کو قم کہہ کر اٹھاتے دیکھا ۔ میرے لیے یہ زندگی کا عجیب منظر تھا۔
وہ دسمبر جس میں خاموشی کی سنسناہٹ رقص کرتی تھی اس میں، میں نے دیکھا کہ عوامی قیادت کس چیز کا نام ہے۔ قائد اور رہبر وہ ہوتا ہے جو خود آگے بڑھتا ہے اور عوام سے کہتا ہے کہ میرے پیچھے آؤ۔ ہمارے ہاں رہبر اور لیڈر وہ ہوتے ہیں جو عوام کو آگے کرتے ہیں اور خود نرم و گداز صوفوں پر چائے کی چسکیاں لیتے ہیں اور کامیابی پر جشن مناتے ہیں ایسے لیڈر اصل میں گیڈر ہوتے ہیں لیڈر نہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو آگے بڑھ کر جان ہتھیلی پہ رکھ کر تمام تکالیف برداشت کرنے کے بعد کہتا ہے کہ میرے نام کے نعرے مت لگاؤ ہمار ا قائد غلام حسین اطہر ہے۔ ایسی بے لوث قیاد ت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا جب لوگ آغا قدم بڑھاؤ کے نعرے لگا رہے تھے تو انہوں نے روک کر کہا کہ میں عوام کا خادم اور اس تحریک کا ادنی سا کارکن ہوں اور ہمارا قائد اطہر غلام ہے اگر وہ اٹھنے کو کہیں تو اٹھیں گے اور بیٹھنے کو کہیں تو بیٹھیں گے ۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ غلام حسین اطہر کی قیادت ہی اس کی کامیابی کی ضامن ہے۔ یعنی وہ ہر طرح کا کریڈٹ اپنے نام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ تمام انجمنوں اور سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے رہے۔اور تحریک کا چھٹا روز انتہائی منفرد دن تھا جب آغا علی رضوی نے اعلان کیا کہ اطہر غلام نے کورکمیٹی سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ کل گلگت کی طرف لانگ مارچ کریں گے اور وہیں پر ٹیکس سمیت صوبائی حکومت کا تختہ الٹ کر واپس آئیں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ایسا لگا عوام کو فتح کی نوید ملی عوام اٹھ اٹھ کر آغا تیرا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا کے نعرے بلند کرتے رہے۔آغا علی رضوی نے گلگت جانے کے لیے گرم لباس ، کمبل اور راستے میں کھانے کے لیے خشک سامان لے کر اگلے دن پہنچنے کا اعلان کر دیا۔
وہ دسمبر جس میں خاموشی کی سنسناہٹ رقص کرتی ، یخ بستہ ہوائیں راج کرتیں او سردی خون جمادیتی ہے اس ماحول میں میں نے دیکھا کہ یادگار شہداء اسکردو تحریر اسکوائر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا اجتماع نہیں دیکھا تھا۔ چلو چلو گلگت چلو کی صداؤں سے اسکردو شہر کی فضاء گونج رہی تھی ۔اس تحریک میں شہر سے قافلہ علامہ شیخ ضامن اور شیخ طہٰ ٰ موسوی کی قیادت میں پہنچ گئے، کھرمنگ سے مجاہد عالم دین شیخ اکبر رجائی کی قیادت میں پہنچ گئے۔ خپلو سے عوام کی بڑی تعداد پہنچ گئی ۔ اس تحریک میں شیعہ ،سنی، نوربخشیہ ، اہل حدیث سب ایک ہو چکے تھے۔ قافلہ درود و سلام اور دعائیہ کلمات کے ساتھ یادگار شہدا ء سے آغا علی رضوی اور غلام اطہر کی قیادت میں نکلنا چاہتا تھا ۔ میں بھی ان میں موجود تھا اور یہ میرے لیے عجیب جذباتی منظر تھا جب عوام نے قافلے کو یعنی گاڑی والوں نے جانے نہیں دیا۔ لوگ بضد تھے کہ آغا کو تنہا جانے نہیں دیں گے حالانکہ ہزاروں افراد گاڑیوں میں قافلے کی صورت میں موجود تھے لیکن عوام تھے کہ سنبھل نہیں رہے تھے یہاں تک کہ عوام کا ایک بے قابو بپھرا ہو ا سمندر قافلے کے آگے نکل گیا اور پیدل مارچ شروع کر دیا ، قائدین نے مل کر منتیں کرتے ہوئے روکنے کی بھرپور کوششیں کیں ۔ لیکن عوام نے کسی کی نہیں سنی، پید ل اور گاڑیوں کا قافلہ نعروں کی گونج میں گلگت کی طرف چل پڑا۔ یہ قافلہ نہیں سمند ر تھا عوام کا۔
اس یخ بستہ سرد برفیلی رات میں، میں نے عزم و ہمت کے چٹان ، کے ٹو سے بلند حوصلہ رکھنے، نڈر بہادر اور شجاع عوام کے محبوب قائد آغا علی رضوی کو اس وقت رات کے وقت پھوٹ پھوٹ کے روتے دیکھا جب عوام چار گھنٹہ پیدل چل کر گمبہ پہنچ گئے۔ آغا علی رضوی نے انہیں گزارش کہ تیل کی قلت کی وجہ سے گاڑیاں کم ہیں اور جتنی ہیں اس تحریک کی کامیابی کے لیے کافی ہیں آپ لوگوں نے اس سردی میں یہاں تک پید ل سفر طے کیامزید آگے نہ جائیں۔ جب عوام نے دوبارہ کہا کہ ہم ایک لمحے کے لیے آپ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تو آغا علی رضوی جلال میں آگئے وہ بھی عوام کے ساتھ پیدل چل نکلے۔ انہوں نے تاجران سے گزارش کہ فوری گاڑیوں کا انتظام کرو جب سب کے لیے گاڑی مل جائے اس وقت تک میں گاڑیوں میں نہیں بیٹھوں گا ۔ غلام حسین اطہر نے جتنی مزید گاڑیاں منگوائی جاسکتی تھی منگوائیں اور یہاں تک کہ کھلے چھت والی گاڑیوں پر اس ٹھنڈ میں لوگ بیٹھتے گئے ۔ اس کے باوجود گاڑیاں کم پڑ گئیں تو تحریک کے قائد نے آغاعلی رضوی سے گزارش کی کہ آپ مان جائیں اور عوام کو واپس بھیج دیں ۔ قائد تحریک کے حکم پر آغا علی رضوی نے لبیک کہا اور عوام سے دوبارہ خطاب کرکے پیادہ سفر کرنے والوں کو روکنے کو کہا۔ انکی تاکیدانہ لہجے کے باوجود عوام نے روتے ہوئے انکے پاؤں پکڑنا شروع کردئے کہ ہم آپ کو تنہا جانے نہیں دیں گے۔ چند جوانان کو جب یہ علم ہوا کہ انہیں واپس بھیجا جا رہا تو سر پیٹ کر رونے لگے۔ جب محبت ، خلوص اور فدا کاری کا یہ منظر دیکھا تو وہ خود بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔آغا علی رضوی کے سرخ گالوں سے آنسوؤں کے قطر ے موتی کی طرح گرنے لگے۔ یہ عجیب منظر تھا جب وہ رو پڑے تو کئی اور لوگوں نے مل کر رونا شروع کر دیا۔ یہ رونا ،یہ گریہ خوشی کا بھی تھا اور اعتماد کا بھی،اس میں عوام کی محبت کا عنصر بھی شامل تھا اور قیادت کا خلوص بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا جو آنسوؤں کی صورت میں نکل رہا تھا۔یہی وہ موقع تھا جب عوام کو اپنی قیادت پر فخر محسوس ہوا ہوگا،اسی لیئے جب عوام نے اس ماحول میں آغا کے فیصلہ کو سنا تو اس کا فوری اثر ہوا اور عوام نے بات مان لی اور واپس جانے کیلئے تیار ہو گئے۔
دسمبر کی اس یخ بستہ برفیلی رات کے اس پہر میں بھی اپنے اہل تشیع دوستان کیساتھ روندو ڈمبوداس کے ایک امام بارگاہ میں دیگر جوانوں کے ساتھ موجود تھا۔ یہ رات کے بارہ بجے تھے۔ رات یہیں قیام کے بعد اگلے روز گلگت کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اہلیان روندو جو کہ مہمان نوازی اور شجاعت کے حوالے سے یکتا اور یگانہ ہیں نے چھ سات گائے ذبح کرنے کے باوجود کھانا پڑ گیا تھا۔ او ر حسن اتفاق سے کچھ زیادہ جذبات میں آکر دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا البتہ بیگ میں کچھ خشک فروٹس تھے لیکن وہ سب کے سامنے کیسے کھائیں۔ باہر کسی دکان میں جا کر بسکٹ وغیر ہ سے پیٹ کی آگ بجھائی اور واپس امام بار گاہ میں پہنچ گئے تو اس تحریک کو رونق بخشنے والے حاجی پٹھان ماحول کو گرما رہے تھے۔ میں بھی کسی کونے میں دبک کے بیٹھ گیا صبح کی آذان ہوگئی لیکن نیند ندارد ۔ سخت ترین سردی اور شدید برفباری روندو میں ہمارے انتظار میں تھی۔ اس برف میں گاڑی چلانا بھی ایک عذاب سے کم نہ تھا ۔ صبح کی نماز مشکل سے ادا کرنے کے بعد دوبارہ سونے کی کوشش کی تو لانگ مارچ کے شرکاء کی خوش گپیاں بھاری ہوگئیںِ یہ تمام رات ٹھٹھرٹھٹھر کے گزار ی اور صبح کے ناشتے کے بعد دوبار ہ عازم سفر ہونے کو تھے کہ گلگت سے ایکشن کمیٹی کے سربراہ مولانا سلطان رئیس کی طرف سے پیغام آیا کہ دو بجے تک مذاکرات کا تیسرا دور ہوگا دو دور بے نتیجہ ختم ہو ئے ہیں اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ دیں گے۔ اس موقع پر روندو کے عوام امڈ کے آئے اور احتجاجی جلسے بھی ہوئے۔دو بجے کے بعد مذاکرات میں مثبت پیش رفت کے بعد حکم ہوا کہ قافلہ واپس جائے گا۔ لانگ مارچ کے خوف کی وجہ سے حکومت مذاکرات کی ٹیبل پر آگئی تھی ۔ دوسری طرف اس مذاکرات میں کامیابی میں پاکستان آرمی کا بھی غیر معمولی کردار سامنے آیاہے ۔ ایف سی این اے کمانڈر ہی کی ضامن پر انجمن تاجران اور ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کا سمجھنا تھا کہ حکومت پر کوئی اعتماد نہیں اور مذاکرات کے دھوکہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ اس پرگھٹن ماحول میں پاکستان آرمی نے ایک بار پھر پاکستان کو درپیش بحران سے نکالنے میں مثبت کردا ر ادا کیا۔
اس موسم میں رات کے نو بجے جب ہم واپسی پر اسکردو شہر میں داخل ہوگئے تو کچورا سے حسینی چوک تک ہزاروں مرد و زن استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہماری واپسی کی خبر پھیلتے ہی عوام گاڑیوں میں پیدل ہمارے انتظار میں تھے۔ مختصر یہ کہ رات گیارہ بجے قریب جب حسینی چوک انجمن تاجران کے آفس کے سامنے پہنچے تو عوام نے اپنے محبوب قائد غلام اطہر کو دائرے میں لے کر نعرے لگارہے تھے ۔ اس وقت جشن کا منظر تھا ،ابھی محبوب قائد آغا علی رضوی کا انتظار ہو رہا تھا اتنے میں فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ جگمگاتے جوانوں کے دائرے میں مجمع میں داخل ہوگئے ، انکی آمد کا اعلان سٹیج سے کیا گیا عوام ان کی طرف جھپٹ پڑے ان سے گلے ملے انکے عمامے چومے ، محبتوں کے اظہار کے ساتھ انہیں سٹیج پر پہنچایا گیااس دوران آغا آپ پے درود و سلام کے نعرے بلند ہوتے رہے۔اسٹیج پر احمد چو، راجہ جلال حسین مقپون، وزیر عدیل شگر کے علاوہ آغا علی رضوی اور غلام اطہر نے خطاب کرکے کہا کہ ہم نے لانگ مارچ واپس کیا ہے کل سے احتجاجی دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ٹیکس کے خاتمے کا نوٹیفیکیشن ہمارے ہاتھ میں نہیں آتا۔ ادھر گلگت میں مولانا سلطان رئیس کی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت کے سبب ہر قسم کی علاقائی ، لسانی اور مسلکی تعصب کو ابھرنے نہ دیا۔ حکومتی مشینری یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ بلتستان والے شیعہ گلگت کے سنی وزیراعلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تحریک میں شیعہ ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث، نوربخشیہ سب ایک ہو چکے تھے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کی دفن ہو گئی تھی۔ داریل ، تانگیر،چلاس، غذر، ہنزہ ،نگر،اور بلتستان کے تمام مسلم لیگ نون کے عوام دشمن فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگئے تھے۔ ابھی جی بی بھر میں احتجاج جاری ہے اور یہ نوٹیفکیسن ملنے تک جاری رہے گا بلتستان میں ہڑتال میں نرمی لائی گئی ہے۔ اس تحریک میں تمام سیاسی ،سماجی و مذہبی جماعتیں شریک تھیں۔
اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ اس یخ بستہ سرد موسم میں جب انسان اور جاندار تک سوکھ جاتے ہیں ہم نے اس بلند چوٹیوں کی بیچ محبت کے پھول کھلتے دیکھے ہیں ، قربانی کی کلیاں چٹکتی دیکھی، اتحاد کی خوشبو پھیلتی دیکھی،عزم و ارادے کا چمن مہکتے دیکھا، حوصلوں کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، امید کی کرنیں پھوٹتی دیکھیں، خوشیوں کی بہار آتے دیکھی، فتح کا سہرا سجتے دیکھا، نفرت کی راتیں ڈھلتی دیکھیں،وفاداری کا کونپل پھوٹتے دیکھا، سیادت کا چہرہ دمکتے دیکھتا ،شجاعت کا موسم آتے دیکھا،پیار کی گھٹائیں چھاتی دیکھی،جیت کا نغمہ گاتے دیکھا، غریب کا آنسو تھمتے دیکھا، مظلوم کی فریاد سنتے دیکھی اور ظلم کا محل گرتے دیکھا،ناانصافی کے قدم ڈگماتے دیکھے،نفرت کی دیواریں گرتی دیکھی، غرور کا بت گرتے دیکھا، حکمرانی کا تخت لرزتے دیکھا،سازشوں کی کشتی ڈوبتے دیکھی، حاکم کا چہرہ بجھتے دیکھا،فرقہ پرستی کا تراشیدہ بت چٹخ کے زمیں بوس ہوتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔سال رفتہ کا دسمبر تو کتنا مہربان تھا تو میری زندگی میں پھر پلٹ آئے گا۔ اے 2017کا دسمبر تیرا اس عوام پر بہت احسان ہے ۔ تیرا لطف بہت عجیب تو لوٹ کے آنا ، تو لوٹ کے آنا۔۔۔ آخر میں اس تحریک کی جان اور عوامی قائد آغا علی رضوی کی نذر چند اشعار کیساتھ اجازت چاہوں گا۔
یہ تیرا جمال کامل، یہ شباب کا زمانہ
دل دوستان سلامت، دل دشمناں نشانہ
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
تحریر: عبداللہ گانچھے
بشکریہ: ماہانہ افکار العارف
وحدت نیوز(آرٹیکل) کسی بھی ریاست کا سربراہ ، اس کا ترجمان ہوتا ہے، اس وقت مسٹر ٹرمپ فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ امریکی صدر کا نام ہے، وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں اس کے پیچھے مکمل پلاننگ اور نقشہ ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی پے درپے تبدیلیوں نے در اصل سعودی و امریکی مفکرین اور اسٹیٹجک اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
افغانستان میں سعودی عرب اور امریکہ طالبان کے بعد دوبارہ طالبان نما حکومت بنانےمیں ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں شیعہ و سُنّی کا محاز گرم کرکے ایران کے خلاف ماحول بنانے میں بھی انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے، عرب دنیا میں قطر پہلے ہی امریکہ نواز اتحاد سے فرار ہو چکا ہے، عراق میں شیعہ و سنّی و مسیحی اور یزدی مختلف اقوام و ملل نے مل کر داعش و طالبان جیسے دہشت گرد ٹولوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے ، اور ادھر شام میں بشار الاسد نے امریکہ اور اس کے حامی عربوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں ،لبنان کی سیاست سے حزب اللہ کو باہر کرنے کے لئے سعد حریری کو سعودی عرب بلاکر زبردستی وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دلوانے کی چال چلی گئی جو ناکام ہوئی اور سعد حریری نے واپس لبنان آکر اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور یوں امریکہ و سعودی عرب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے، جون ۲۰۱۷ میں ایران کے دارالحکومت تہران میں داعش سے ایران کی پارلیمنٹ کی عمارت اور امام خمینی کے مزار حملہ کروایا گیا ،اِن حملوں میں 12افراد جاں بحق جبکہ 42زخمی ہوگئے ، حملہ کروانے کا مقصد ملک میں انارکی اور خوف پھیلانا تھا اور ایران سے غیرمنطقی بیانات داغنےکی امید تھی جو کہ خاک میں مل گئی، اس کے بعد حالیہ دنوں میں ایران میں ریالوں اور ڈالروں کی مدد سے ننھے مُنّے جلسے جلوسوں کے ذریعے ایرانی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی۔اب رہی بات یمن اور بحرین میں سعودی مداخلت کی تو ساری دنیا ان ممالک میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت اور حملوں کی بھرپور مذمت کررہی ہے۔
اس وقت امریکی و سعودی حکومتیں مکمل طور پر بوکھلاہٹ کی شکار ہیں، گزشتہ دنوں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے بوکھلاہٹ کے مارے پاکستان سے بھی تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں، امریکی ترجمان کے مطابق پاکستان کو 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد جاری نہیں کی جائے گی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس کی روشنی میں ہی دونوں ممالک کے تعلقات بشمول فوجی امداد کا فیصلہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کی 255 ملین ڈالر کی امداد روکی ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو15 سال میں33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی،پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا وہ سمجھتے ہیں ہمارے لیڈرز بے وقوف ہیں۔
ٹرمپ نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے ، جس سے افغانستان میں دہشتگردوں کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔[1]
اگر قارئین کو یاد ہوتو کچھ عرصہ پہلے اسی طرح سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان آل سعود نے بھی پاکستانیوں کو دھوکہ باز کہاتھا۔[2]
قابلِ ذکر ہے کہ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بعد فلسطین کو بھی امداد روکنے کی دھمکی دے دی ہے۔امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہےکہ امریکا پاکستان و دیگر ممالک کو اربوں ڈالر دیتا ہے مگر یہ کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے فلسطین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہر سال ہم سے اربوں ڈالر لیتا ہے مگر یہ ہمارا احترام نہیں کرتا جب کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کیلئے بھی تیار نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا کہ ہم نے نئے امن مذاکرات کے تحت یروشلم جیسے متنازعہ شہر کا مسئلہ اٹھایا جس پر بحث کرنا ایک بہت مشکل عمل تھا لیکن اسرائیل کو بھی اس کے لیے مزید کام کرنا ہوگا تاہم اگر فلسطین امن کے لیے تیار نہیں تو ہم مستقبل میں اس کی امداد کیوں جاری رکھیں۔[3]
اس وقت امریکہ اور سعودی عرب دنیا میں اپنی واضح شکست اور غلط پالیسیوں کے عیاں ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے ملک کی پُشت کے پیچھے اپنا منہ چھپانا چاپتے ہیں، اس حوالے سےانہیں پاکستان اور فلسطین ہی نظر آئے ہیں لیکن اب یہ پالیسی بھی چلنے والی نہیں چونکہ پاکستان بالآخر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور پاکستانی عوام پہلے سے ہی امریکہ و سعودی عرب کے اثر و نفوز سے نالاں ہیں دوسری طرف فلسطینی عوام بھی امریکہ و سعودی عرب کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔
اگر صورتحال یونہی چلتی رہی اور امریکی و سعودی پالیسی ساز اداروں نے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی نہ کی تو مستقبل میں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی امریکہ و سعودی عرب کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) طول تاریخ میں امریکا کی سیاسی منظر نامہ پر شکست کی ایک طویل داستان موجود ہے جو کبھی ویت نام کی صورت میں تو کبھی ناکامیوں کا بوجھ نا قابل برداشت ہونے کے باعث ہیروشیما پر ایٹم بم کے حملوں کی صورت سمیت متعدد مرتبہ ہمیں مختلف ممالک میں فوجی چڑھائی کی صورت میں ملتی ہے در اصل امریکی جارحیت ہمیشہ امریکا کی ناکام سیاست کا پیش خیمہ رہی ہے کیونکہ جب امریکی سیاست عالمی منظر نامہ سے آؤٹ ہوئی ہے تو پھر اسی طرح کے حالات و واقعات کا دنیا کو سامنا کرنا پڑا ہے۔بہر حال اس کالم میں ماضی بعید نہیں بلکہ ماضی قریب کی بات کی جائے گی یعنی کہ نائین الیون، جی ہاں نائن الیون بھی دراصل امریکی سیاست کے عالمی منظر نامہ پر ناکامی کا ایک سیاہ دھبہ ہے کہ جس کے بارے میں آج تک متعدد رپورٹس شائع ہو رہی ہیں کہ جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکا خود نائن الیون کے حملوں میں ملوث تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکا کی ناکامی کا نیا باب سنہ 2001ء میں افغانستان سے شروع ہوتا ہوا سنہ 2003ء میں عراق پہنچا اور اسی طرح بدستور سنہ2006ء میں اسرائیل کی جانب سے لبنان پر مسلط کردہ جنگ کی صورت میں لبنان پہنچا ، اور پھر اسی طرح 2007اور 2008غزہ کی پٹی جا پہنچا ،اسی طرح 2011میں ایک نئی امریکی ایجاد داعش کی صورت میں منظر نامہ پر ابھری، اگر چہ اس سے قبل بھی القاعدہ اور طالبان جیسی امریکی ایجادات مسلمان ممالک میں سامنے آ چکی تھیں لیکن داعش اپنی نوعیت کی ایک الگ ہی ایجاد تھی ۔بہر حال یکے بعد دیگرے امریکا کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا ہوا اور سب سے بڑی شکست سنہ2017ء میں شام و عراق میں امریکی کٹھ پتلی داعش کی شکست تھی ۔داعش کی شکست کی طویل داستان ہے جسے کسی اور کالم میں پیش کروں گا جبکہ ماضی میں شائع ہونے والے کالمز میں کچھ حد تک بیان کی جا چکی ہے۔ در اصل اس ساری منصوبہ بندی میں امریکا کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح اپنی ناکام سیاست کی پردہ پوشی کی جائے اور اس گھمنڈ کو برقرار رکھنے کے لئے امریکا نے خود براہ راست اور اپنے اتحادیوں کے ذریعہ لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا، یہ خون سرزمین فلسطین سے لبنان و شام وعراق اور پاکستان سمیت افغانستان کی سرزمین پر مسلسل بہایا گیا ۔
گذشتہ پندرہ سالہ حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ امریکا کی عالمی منظر نامہ میں سیاست کا مرکز و محور مشرق وسطیٰ کا خطہ ہی رہاہے جہاں امریکا ہمیشہ سے کوشش میں رہا ہے کہ بالا دستی حاصل کر سکے اور اس خطے میں اسرائیل جیسے جرثومہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، نائن الیون کے بعد سے پورے خطے کو جس طرح کے حالات و واقعات درپیش رہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان حالات وواقعات کو موجد خود امریکا ہی تھا کہ جس کے مقاصد میں ایک طرف فلسطین کاز کو دنیا میں نابود کرنا تھا تو ساتھ ساتھ فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کا خاتمہ بھی تھا، فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کی لسٹ امریکا کے اتحادیوں جیسی لمبی فہرست نہیں ہے بلکہ چیدہ چیدہ قوتیں یا ممالک ہیں جن میں پاکستان، ایران، شام ،فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس، جہاد اسلامی، لبنان میں موجود اسلامی مزاحمت حزب اللہ اوردیگر ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا ؟ اگر افغانستان ہی سے شروع کریں تو جواب یہ ہے کہ آج بھی امریکا افغانستان میں اپنی شکست کو چھپانے کے لئے پاکستان پر الزام تراشیاں کر رہا ہے، اسی طرح عراق کے بارے میں بات کی جائے تو عرا ق آج پہلے سے زیادہ مستحکم ہو چکا ہے اور صلاحیت رکھتا ہے کہ امریکا کی داعش جیسی ایجادات کو نابود کر دے اور ایسا عملی طور پر کیا گیا ہے، عراق میں بسنے والی تمام اکائیاں امریکی خواہشات کے بر عکس متحد اور یکجا ہو چکی ہیں جو خود امریکا کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اب گذشتہ دنوں عراقی کردوں کی حمایت کی ہے اور عراق میں سیاسی بھونچال پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ اسی طرح لبنان کی بات کریں تو یہاں بھی امریکا اور اس کے ناجائز بچہ اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے، سنہ2006ء کی 33روزہ جنگ میں براہ راست اسرائیلی افواج کو شکست ہوئی تو حقیقت میں یہ شکست امریکا کی تھی کیونکہ اس وقت کے امریکی حکمران یہ کہتے تھے کہ بس چند دن میں لبنان ان کے کنٹرول میں ہو گا لیکن آج گیارہ سال کے بعد بھی ان کی ناپاک سیاست وہاں پر کامیاب نہیں ہو پائی۔اسی طرح حالیہ دنوں امریکا اور اسرائیل سمیت ہمارے عرب اسلامی ملک نے لبنان کے وزیر اعظم کو ریاض بلا کر استعفیٰ دلوایا جس کا مقصد لبنان کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنا تھا لیکن چنددن بعد اسی وزیر اعظم کو لبنان واپس جا کر معافی مانگ کر استعفیٰ واپس لینا پڑا یہ ایک اور بڑی شکست تھی جو دراصل امریکا کے حصے میں آ پہنچی۔
شام کی مثال لے لیجئے ، امریکا نے گزشتہ چند سال تک شام کو تہس نہس کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن آج بالآخر شام کے عوام شامی حکومت کے ساتھ ہیں، یہاں بھی امریکا کی دشمنی شامی حکومت سے اس لئے تھی کہ شامی حکومت فلسطین کاز کی حمایت میں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکا کے دشمن ایران کے ساتھ ہے اور اسرائیل کو ناجائز اور غاصب سمجھتی ہے جبکہ فلسطین کی آزادی کی جد وجہد کرنے والی مزاحمتی تنظیموں کے لئے مدد فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔بہر حال اب جس حلب پر امریکا اور اس کی اسلامی دنیا میں اسلام کے لبادے میں چھپی مشینری واویلا کر رہی تھی حال ہی میں اسی حلب میں دسیوں ہزار لوگ کرسمس کے موقع پر جمع ہوئے اور مسیحی عوام کے مذہبی تہوار کو مل جل کر منایا جس کی تصاویر دنیا بھر کے آزاد ذرائع ابلاغ نے بھی شائع کیں جس سے امریکی سیاست کی ایک اور ناکامی ثابت ہوئی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی گذشتہ پندرہ سالوں میں مشرق وسطیٰ میں کی جانے والی تمام تر سیاسی چالیں درا صل اس لئے تھیں کہ ایران اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں اور ان تمام ممالک کو تباہ و برباد کر دیا جائے جو فلسطین کے عوام کے مدد گار ہیں اور اسرائیل کے کھلے دشمن ہیں ، داعش کا وجود اور خطے میں جاری رہنے والی 6سالہ جنگ بھی درا صل اسرائیل کو رتحفظ فراہم کرنے کی ایک چال تھی جو بالآخر ناکام ہوئی، امریکا اپنے تمام تر حربوں میں ناکام ہوتا رہااور بالآخر اب ناکامی کا اعتراف امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں فلسطین کے ابدی دارلحکومت القدس(یروشلم) کو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا یکطرفہ اعلان و فیصلہ کر کے کیا جسے خود اقوام متحدہ میں اکثریت کے ساتھ مسترد کر دیا گیا۔پوری دنیا فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے اور امریکا تنہا ہو رہا ہے۔
بہر حال امریکا تو ایک فرعون ہے یعنی شکست کھانے کے باوجود بھی سرکشی کرنا امریکی سیاست کا عین شیوہ اور وطیرہ رہاہے، اب امریکا نے نئی چال چلتے ہوئے پہلے ایران میں ہونے والے مہنگائی مخالف مظاہروں کی اتنی جلد بازی میں حمایت کی اب تا دم تحریک یہ مظاہرے دم توڑ چکے ہیں جن کا رخ موڑنے کی امریکا اور برطانیہ سمیت اسرائیل کی بھرپور کوشش تھی لیکن چند دنوں میں ہی ایران کی با بصیرت قیادت اور خودار عوام نے فتنہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے جس پر امریکا کو پھر ایک بڑا جھٹکا لگا ہے ۔ ایران میں امریکی ناکامی کے بعد اب پھر امریکا نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا نیا بازار گرم کیا ہے لیکن یہاں بھی عوام اور سیاست دانوں سمیت حکمرانوں کی جانب سے امریکا کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکی احکامات اور اعلانات کو شدت کے ساتھ مسترد کیا گیا ہے جو خود امریکا کی ایک اور بڑی شکست ہے۔امریکا کی مسلسل شکست نے شاید امریکی حکمرانوں کو زہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے کہ جس کے باعث اب وہ دنیا بھر میں انارکی پھیلانے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں حالانکہ امریکا ایران اور پاکستان سمیت شام و دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پائمالیوں کا دعوے دار ہے لیکن کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ امریکی حکومت کہ جسے فلسطین میں امریکی اسلحہ کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالی نظر نہیں آتی۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
وحدت نیوز (آرٹیکل) آغا علی رضوی ایک ایسی قیادت کا نام جو ہمیں ستر سال پہلے درکار تھی ۔مگر دیر آید درست آید کے مصداق آج میسر ہیں جو گلگت بلتستان کی عوام کی خوش قسمتی ہے ۔ستر سال سے تمام تر بنیادی انسانی ، آئنی ، قانونی ، معاشرتی ، معاشی حقوق سے محروم خطہ بے آئین ڈوگرہ راج سے آزادی کے پہلے دن سے ہی قیادت کے بحران کا شکار رہا ۔ سنجیدہ اور مخلص قیادت کے بحران ، اپنوں کی غداری اور میجر براون کی چالاکی نے کرنل مرذزا حسن خان کی قیادت میں ملنے والی آزادی کو سرادر عالم نامی ایک پولیٹیکل ایجنٹ کی جولی میں بلا کسی شرائط اور معاہدے کے ڈال دیا ، آج اس پٹواری کا نام بدل کر چیف سکریٹری رکھ دیا گیا ہے مگر حالات آج بھی وہیں کےوہیں ہیں ، آج بھی پورےجی بی کی سڑکوں پر بیٹھے عوام کے نمائندے اور وفاق کے جوتے صاف کر کے مراعات لینے والے چند نمائندہ نماء ایک دستخط کیلیئے اسلام اباد آنے پر مجبور ہیں اور کئی دن سے عوام اس انتظار میں سڑکوں پر ہین کہ گلگت بلتستان کے عوام کے انتخاب سے بالکل غیر متعقلہ وفاقی ممبر نیشنل اسمبلی کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ جس میں انکم ٹیکس اڈاہٹیشن ایکٹ کے خاتمے کی سفارش کی گئی ہے کا نوٹیفیکیشن وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے جاری ہو جائے۔ گلگت بلتستان کی 1947 سے بعد کی تاریخ سے شناسا لوگ جانتے ہیں کہ یہاں کی عوام نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے کبھی بھی اس طرح سڑکوں پر آ کر احتجاج نہیں کیا جس طرح 2013 میں گندم سبسڈی اور 2017 کے آخر میں اینٹی ٹیکس مومنٹ چلی ، ان دوںوں تحریکوں کی کامیابی سے یہ امید ہو چلی ہے کہ آنے والوں وقتوں میں ہم اپنے آئینی حقوق کیلئے میدان عمل میں اترنے کے قابل ہو رہے ہیں ، یہ بات بھی یہاں بتانا بہت اہم ہے کہ یہ دونوں تحریکیں بلتستان ریجن کی پیدار عوام کی وجہ سے کامیاب ہوئی اور ان تحریکوں کی کامیابی میں دیگر تمام تر عوامل اور بہت ساری مقامی پارٹیوں کے اتحاد عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی کوششوں کے علاوہ ایک شخصیت کا کلیدی کردار ہے جن کا نام آغا علی رضوی حفظ اللہ ہے ۔
گندم سبسڈی کی تحریک کی کامیابی ہو یا اینٹی ٹیکس موممنٹ کی کامیابی ہو دونوں کی کامیابی کا تمام تر کریڈٹ آگا علی رضوی کی قیادت کو جاتا ہے ، جس کا اعتراف عوامی ایکشن کمیٹی کے چئیرمین اور انجمن تاجران کے چئیرمین سمیت سب کر چکے ہیں ، یہ بات بتانی انتہائی اہم ہے کہ آغا علی رضوی پر عوام کا دیوانہ وار اعتماد اس امر کا مظہر ہے کہ ان کی قیادت گلگت بلتستان کو اپنے تمام تر حقوق کے حصول ممکن بنا سکتی ہے ۔بڑی عجیت شخصیت کا مالک یہ سید زادہ نہ جانے کس دنیا سے آیا ہے جنہیں نہ اپنےگھر کی فکر ہے ، نہ اپنی صحت کی فکر ، عہد جوانی میں ہی شوگر اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود آغاصاحب کا دن رات عوام اور عوامی مسائل کے درمیان گزرتا ہے ۔ ہر مظلوم کی آیک آہ پر پہنچ جانا، چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر ڈٹ جانا ، کسی حکومتی دباو ، لالچ میں نہ آنا ان کی قیادت کے مخلص ہونے کے ثبوت ہیں ، نہ نام بنانے کی فکر ہے نہ کریڈٹ لینے کا شوق، نہ حکومتی بڑوں کے ساتھ مذاکرات کار بنے کا شوق ہے نہ کسی کے ساتھ فوٹو کچھوانے کا ، نہ ہار لگوانے کا شوق ہے اور نہ تالیاں بجوانے کا بس عوام کے درمیان رہ کر عوام کی طاقت سے عوام کے نام پر کھانے پینے والوں کے غرور و تکبرکو خاک میں ملانا ان کا مرغوب مشغلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جس طرح سے آغا صاحب کی عوام کے اندر پذیرائی ہے اسے دیکھتے ہوۓ گلگت بلتستان کے حقوق سے دلچسپی رکھنے والوں کو چاہیےکہ ان کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی اس صلاحیت کو جی بی کے محروم و مظلوم عوام کے حقوق کے حصول کیلئے استعمال کرے ، سید حیدر شاہ رضوی جیسی قیادت کو ہم نے بے قدری کی نذر کر دیا مگر اس سید زادے کو اگر ہم نے بے قدری کی بھینٹ چڑھا دیا تو پھر گلگت بلتستان کے حقوق کا خواب مزید سو سال تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مصلحت پسندی ۔ ذاتی مفادات ، لالچ اور وفاقی سیاسی پارٹیوں کے چاپلوسیوں کو چھوڑکر ایک بار اور صرف ایک بار اس سید زادے پر اعتماد کر کے دیکھیں ، آپ کے تمام تر حقوق آپ کے در پر خود آکر گریں گے ، خدا ہمیں نیک مخلص اور ایماندار قیادت اور ڈمی ، بزدل ، لالچی اور کرپٹ قیادت مین فرق کرنے کی توفیق عطا کرے۔
تحریر : انجینئر شبیر حسین