وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک شخص کسی بیابان یا صحرا میں تنہا سفر کر رہا تھا کہ اچانک ایک خونخوار شیر کو دیکھا، جو اُس پر حملہ آور ہو رہا تھا، وہ اپنی موت کو نزدیک دیکھ کر وحشت زدہ ہو جاتا ہے، اتنے میں اس کی نظر ایک کنویں کی طرف پڑتی ہے اور اسی کی طرف بھاگ جاتا ہے، لیکن شیر بھی اس کے طرف دوڑتا ہے۔ جب جوان کنویں کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ ایک رسی کنویں میں لٹک رہی ہے، وہ فوراً کچھ سوچے سمجھے بغیر رسی کو پکڑ کر کنویں میں اتر جاتا ہے، لیکن رسی آدھے ہی راستے میں تمام ہو جاتی ہے اور وہ بیچ میں لٹک جاتا ہے، اتنے میں شیر بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور شیر کنوں کے دھان پر کھڑے غرانے لگا ہے۔ جوان جب کنویں کے نیچے کی جانب دیکھتا ہے تو اس کے ہوش اڑ جاتے ہیں، کیونکہ ایک بڑا سا اژدھا اپنا منہ کھولے اُس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ابھی وہ اس وحشت سے نہیں نکل پایا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی چیز کی کریدنے کی آواز آتی ہے، اس کی نظر اوپر کی طرف اٹھتی ہے تو دیکھتا ہے کہ دو چوہے رسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں۔ نوجوان جب یہ حالت دیکھتا ہے تو اس کا دل حلق میں آجاتا ہے اور اس کا خون رگوں میں منجمد ہو جاتا ہے۔ اسی لمحے میں اچانک اسکی نظریں کنویں کی دیوار پر پڑھتی ہے اور دیکھتا ہے کہ یہاں شہد کی مکھیوں کا چھتا موجود ہے اور اس میں سے کچھ شہد دیوار پر لگا ہوا ہے۔ اس جوان کے دل میں شہد کو چکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ تمام تر خطرات کو بھول جاتا ہے، وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ کنویں کے باہر شیر اور کنوں میں ایک اژدھا اس کا منتظر ہے، وہ ان سب کو فراموش کرکے شہد کی خواہش میں غرق ہو جاتا ہے اور ایک ہاتھ سے رسی کو پکڑتا ہے، دوسرے ہاتھ سے شہد کو چکھنا شروع کر دیتا ہے۔
اس واقعہ میں کنویں کو دنیا سے تشبیہ دی گئی ہے اور رسی انسان کی عمر ہے، یہ دو چوہے دن رات ہیں، جو ہر روز انسان کی عمر کو کم کرتے ہیں، اژدھا قبر ہے اور عسل یعنی شہد اس دنیا کا مال، دولت و لذت و خواہش ہیں اور اس شہد کے چھتے پر موجود مکھیاں اہل دنیا ہیں۔ انسان کی زندگی دنیا میں بالکل اسی طرح ہے اور آج کے دور میں ہم بھی سو فیصد اس نوجوان کی طرح تمام تر خطرات اور حقیقت سے بے خبر ہو کر اس دنیا کی لذت میں مگن ہیں، حالانکہ اس لذت کی عمر کچھ سیکنڈ سے زیادہ نہیں، لیکن اسی لذت اور خواہش نفس کی خاطر ہم دنیا میں ہر وہ کام انجام دیتے ہیں، جو انسانوں کو اشرف المخلوقات کے درجے سے گرا کر حیوان سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں۔ دنیا میں آج عدل و انصاف نہیں ہے تو اس کی ایک اہم وجہ ہمارا اپنے فرائض سے غافل ہونا ہے۔ ہم سب صدر سے لیکر چپڑاسی تک اگر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں تو معاشرے اور ملک میں خوشحالی نہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن ہم اپنے نفس کو کچھ دیر لذت دینے کی خاطر اپنے فرائض سے غفلت برتے ہیں اور کام چوری کرتے ہیں، اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں، دولت و ثروت کو حاصل کرنے کے لئے انسانیت اور اخلاقیات کی حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔ جب معاشرے میں افراتفری کا عالم ہو، ہر کوئی اپنی ہوس کو پورا کرنے میں مصروف ہو تو معاشرے سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جب معاشرے سے عدل و انصاف کا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر معاشرے میں ایسے درندہ صفت انسان پیدا ہوتے ہیں، جو قصور کے زینب کو سفاکی اور درندگی کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن اس سے بڑی سفاکیت یہ ہے کہ ذمہ داران ان ملزموں کو ابھی تک کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام ہیں۔ چونکہ ہم میں سے ہر کوئی کرپٹ اور کام چور ہیں، جب ہمیں کہیں سے کوئی مٹی میں مخلوط شہد ملنے کی امید پیدا ہوتی ہیں تو ہم اپنی انسانیت اور ذمہ داریوں سے دور بھاگتے ہیں۔
زینب کا واقعہ تو ایک ایسا واقعہ ہے، جس پر ملک بھر میں آواز اٹھی ہے، لیکن ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں اور اُن مظلوموں کی آوازیں ظالموں کے رعب و دبدبہ اور ناانصافیوں میں دب کر رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے آج تک کسی ایک ملزم کو بھی اس کے کئے کی سزا نہیں ملی۔ آخر مجرموں کو کیوں سزا نہیں ملتی؟ اس میں قصور کس کا ہے؟ میرے نزدیک اس میں ہر وہ شخص قصوروار اور مجرم ہے، جس نے مظلوم کی حمایت نہیں کی اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر اپنی زبانوں پر تالے لگا بیٹھے ہیں، یا وہ افراد جو مختلف ذریعے سے واقعہ کی حقیقت کو چھپانے اور ملزمان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، چاہئے وہ قلم و میڈیا کے ذریعے سے ہو یا سفارش و طاقت کے ذریعے سے۔ ہمارے معاشرے کی ایک اہم شخصیت اور صحافی اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ "عوام دس بچیوں کے قاتل کو سرعام پھانسی لگتا دیکھنا چاہتے ہیں"، آگے وہ لکھتے ہیں کہ "سر عام پھانسی دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ عمران علی درندہ ہے، لیکن کیا ریاست سرعام پھانسی دے کر خود کو بڑا درندہ ثابت کرنا چاہتی ہے اور کیا ریاستوں کو درندوں کے ساتھ درندگی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔۔" اور یہاں سے پھر اس مسئلہ کو کسی اور طرف لئے جاتے ہیں۔۔۔۔ جناب آپ نے دیگر جو تجاویز دی ہیں، وہ بالکل بجا ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن آیا کسی کے کئے کی سزا دینا درندگی ہے؟؟ آپ کی نظر میں ظالم و مظلوم، سزا و جزا میں کوئی فرق نہیں ہے؟ اس طرح نعوذ باللہ جس دین پر آپ یقین رکھتے ہیں، اُس نے آپ کو درندگی کا درس دیا ہے؟۔۔۔۔۔
جب یہ شخص قاتل ہے تو اس کو اس کے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے اور اسے نشان عبرت بننا چاہئے، اس میں کوئی درندگی کی علامت نہیں ہے، اس کی سزا سے معاشرہ تبدیل ہوگا یا نہیں ہوگا، یہاں پر معاشرے کی تبدیلی اور عمران علی کے ذاتی فعل کی سزا سے کوئی تعلق نہیں ہے، عمران علی کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہئے، کیونکہ سزا و جزا اسلام کا ایک اہم جز ہے اور اگر مجرموں کو ان کے عمل کی سزا نہیں ملے گی تو اس سے جرائم میں مزید اضافہ ہوگا اور جرائم پیشہ افراد کو مزید تقویت ملتی ہے اور مظلوموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، قرآن مجید سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۷۹ میں خداوند عالم فرماتے ہیں "اور اے عقل مندو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے، تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔" باقی معاشرے سے جرائم کی روک تھام کے لئے جدوجہد حکمرانوں سمیت ہم سب پر فرض ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشرے کو ایک پُرامن اور تہذیب یافتہ معاشرہ بنائیں اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم معاشرے میں علم و آگاہی اور عدل و انصاف کو رائج کریں اور سب اپنی ذمہ داریوں پر دنیا و آخرت کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل کریں۔ اس طرح ممکن ہے کہ کچھ عرصے میں ہمارا معاشرہ بھی برائیوں سے پاک معاشرہ بن جائے، لہذا آج سے ہی ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دیکھیں کہ خود سازی اور معاشرہ سازی میں ہماری غلطیاں کہاں کہاں ہیں اور اس چیز کو فراموش نہ کریں کہ ہماری زندگی بہت مختصر ہے اور یہاں کی لذتیں کچھ لمحے کے لئے ہیں۔
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز (آرٹیکل) مبارک ہو!پیغامِ پاکستان فتویٰ صادر ہوگیا۔ اب اس فتوے کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کی کسی کو خبرنہیں لیکن تعریفوں کے ڈونگے برسائے جا رہے ہیں دوسری طرف یہ بھی مبارک ہو کہ کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد بھی ان دنوں پاکستان کے آئین پر ایمان لے آئے ہیں اور اُن کے ایمان کی قانونی حیثیت کا بھی ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اب جن کی قانونی حیثیت سب پر عیاں ہے ان کی کارکردگی بھی کچھ تسلی بخش نہیں، اس طرف سے بھی بعض چونکا دینے والی خبریں گردش کر رہی ہیں جیسے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں کراچی میں دوجعلی پولیس مقابلے ہوئے، بغیر کسی کریمنل ریکارڈ کے پولیس نے جعلی مقابلوں میں دو نوجوان ٹھکانے لگا دیے۔انیس سالہ انتظار احمد کو ڈیفنس میں صرف گاڑی نہ روکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور نقیب اللہ محسود کو سچل گوٹھ کے قریب پولیس نے پار کر دیا۔
دونوں کے کیس میں لواحقین اور عوام نے پولیس پر عدم اعتماد ظاہر کیاہے اور اسے کھلی پولیس گردی سے تعبیر کیا ہے۔مبینہ طور پر صرف ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اب تک پولیس مقابلوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے. میڈیا کے مطابق نقیب اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ راؤ انوار پر اس سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کرنے اور زمینوں پر قبضے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2016ء میں بھی معطل کیا گیا تھا تاہم بعدازاں اعلیٰ سطح سے آنے والے دباؤ کے بعد کچھ ہی عرصے میں بحال کردیا گیا۔ 2016 میں ایک انٹرویو میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ وہ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس مقابلے اور ان میں درجنوں مبینہ ملزمان کو ہلاک کرچکے ہیں۔
جہاں تک پولیس کے لگے ناکوں کو دیکھ کر لوگوں کے فرار ہونے کا تعلق ہے تو اس میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ بعض متاثرین کے مطابق پولیس والے ناکے لگا کر ڈاکووں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں اور جو کچھ لوگوں کی جیب میں ہو وہ ابھی انیٹھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ گھڑیاں اور موبائل تک ہتھیا لیے جاتے ہیں۔
یہ سارے الزامات اپنی جگہ قابلِ تحقیق ہیں البتہ ایک فوری کام یہ بھی ہے کہ پولیس والوں کی اخلاقی تربیت کرنے نیز حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف بھی ایک مشترکہ فتویٰ اور قومی بیانیہ منظرِ عام پر آنا چاہیے ۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے کہ جو پولیس کی مسلسل نگرانی کرے اور موصولہ شکایات پر نوٹس لے۔
عوام میں ظلم، استحصال، حرام خوری اور رشوت کے خلاف آگاہی اور شعور کی مہم چلانا بھی علمائے دین کا اوّلین فریضہ ہے، اگر ٹرمپ کے ڈالر رکنے پر پیغامِ پاکستان صادر ہو سکتا ہے تو ملک میں حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف نیز مختلف اداروں کے جبر و استحصال کے خلاف کوئی مشترکہ فتویٰ یا بیانیہ کیوں صادر نہیں ہو سکتا۔
بہرحال آئین پاکستان سے صوفی محمد جیسے لوگ کھیلیں یا پولیس وردی میں ملبوس حضرات یہ ارباب حلو عقد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاحِ احوال پر توجہ دیں۔ اگر ٹرمپ کے دباو پر سارے مسالک کے علام حضرات کو ایک میز پر بٹھایا جاسکتا ہے تو عوامی شعور اور یکجہتی کے ساتھ پولیس کو بھی راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی و عوامی اکابرین لعن طعن اور گالی گلوچ کی سیاست سے ہٹ کر عوامی سطح پر آکر مسائل کو درک کریں اور مسائل کے حل کے لئے عملی کوشش کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) صحافت ایک آفاقی شعبہ ہے، ایک صحافی کی ماضی پر عقابی، حال پر احتسابی اور مستقبل پر فیصلہ کن نگاہیں ہوتی ہیں، بعض لوگ ایک ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کی ٹکر کی خبر چھاپنے کو صحافت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت صحافت آنے والے زمانوں پر نگاہ رکھتی ہے اور مستقبل کے آسمان پر سیاسی و سماجی ستاروں کی حرکات کا نوٹس لیتی ہے۔
16 جنوری 2018ء کو ایوانِ صدر پاکستان میں پیغامِ پاکستان کے نام سے کیا ہوا!؟ اس پر ہماری صحافی برادری کو جو دلچسبی لینی چاہیے تھی وہ نہیں لی گئی۔بات فقط پیغامِ پاکستان کے نام سے ایک فتویٰ جاری کر دینے کی نہیں بلکہ اِن فتویٰ دینے والوں کی شناخت قومی زبوں حالی اوت کشت و کشتار میں ان کا کردار اور اس وقت میں یہ فتویٰ دینے کی وجہ نیز اس فتوے کے ہمارے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں یہ سب کچھ زیرِ بحث آنا چاہیے۔
بلاشبہ جو لوگ ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے کوشاں رہے ہیں وہ ہمارے لئے لائق صد احترام ہیں لیکن صحافت کسی کی جی حضوری کرنے، خوشامد کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے کا نام نہیں ہے۔
یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ جب ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں مسٹر ٹرمپ کو مطمئن کرنے کے لئے 1829 علمائے کرام کو بٹھا کر ایک فتویٰ صادر کیا گیا۔ان فتویٰ صادر کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں امریکہ سے ڈالر ملنے پر ہی فتوے جاری کئے تھے اور ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا۔
یعنی بالکل وہی لوگ جنہوں نے امریکی ڈالر ملنے پر قتل وغارت کے فتوے دئیے تھے اب انہوں نے امریکی ڈالر رکنے پر بھی فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس سے ڈالر کی طاقت اور اپنے ہاں کے علمائے کرام کے قلم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں کی زندگی ہی وحدت اسلامی کے لئے وقف ہے وہ ہمارا موضوع نہیں ہیں بلکہ ہمارا موضوع سخن وہ لوگ ہیں کہ جن کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں ، جن کی آستینوں پر نہتے لوگوں کے لہو کے نشانات ہیں ، جن کے فتووں سے مساجد پر خود کش حملے کئے گئے ہیں ، جن کی تقریروں نے مسافروں کو قتل کروایا ہے ۔۔۔
وہ لوگ جو کل ڈالر لے کر معصوم انسانوں کے قتل کے فتوے جاری کرتے تھے اور آج ڈالر رُکنے کے خوف سے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں ایسے لوگ کسی طرح بھی قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
اگر حکومتی ادارے معاشرے میں واقعتاً اسلامی اتحاد چاہتے ہیں اور علمائے کرام اس ملک کو امن و اخوت کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بے گناہ انسانوں کے قاتلوں سے قصاص لیا جائے، دین فروشوں، فتویٰ فروشوں، خود غرضوں، زر پرستوں اور اغیار کے ایجنٹوں کو علمائے کرام کی صفوں سے باہر کیا جائے۔
جن کی ایک تقریر سے نفرتوں کےا لاو بھڑکتے رہے اور ایک ایک فتوے سے سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے ، انہیں عدالتوں کے کٹہرے میں لایا جائے۔
جب تک بے گناہ شہیدوں کے لہو کی روشنائی قصاص مانگتی رہے گی، جب تک بے آسرا مائیں بد دعائیں دیتی رہیں گی، جب تک اجڑے ہوئے سہاگ خون اگلتے رہیں گے، جب تک بیواوں کے بین گونجتے رہیں گے ، جب تک یتیموں کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں گی تب تک فتووں کی سیاہی اس ملک کو کوئی روشنائی نہیں بخش سکتی۔
جو فتویٰ قاتل کو دار تک نہ پہنچائے، جو قلم درندے کو زندان تک نہ پہنچائے جو علم وحشی کو رام نہ کرے جوحکومت باغیوں کو لگام نہ ڈالے وہ عوام کے لئے قابلِ اعتماد نہیں اور عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں۔
یہ یتیم ، یہ بے نوا، یہ بے آسرا ، یہ بیوائیں، یہ بے زبان، یہ اداس لوگ فتوے نہیں قصاص مانگتے ہیں، یہ ٹرمپ کی خوشی نہیں اپنے دشمنوں کا سراغ مانگتے ہیں ، اور یہ ڈالر کی امداد نہیں قاتلوں کے سر مانگتے ہیں۔
یہ صحافت اور میڈیا سے مربوط افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے فتوے جاری کرنے والوں کا محاسبہ کریں ۔ یہ مقامِ فکر ہے کہ ۱۸ سو سے زائد علمائے کرام نے ٹرمپ کو مطمئن کنے کے لئے فتویٰ دیا لیکن گزشتہ ستر سالوں میں قوم کو مطمئن کرنے کے لئے انہیں اکٹھے ہونے کی توفیق نہیں ہوئی۔
اگر ان لوگوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا اور فتوی فروشی کے اس کاروبار سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تو مستقبل میں اس سلسلے کو روکنا سب کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
ہمیں چاپلوسی اور خوشامد کے بجائے صاف انداز میں یہ بیان کرنا چاہیے کہ یہ پیغام ، پیغامِ پاکستان نہیں بلکہ ٹرمپ کی خوشامد کے لئے فتویٰ فروشوں کا پیغام ہے۔ پاکستانی قوم مستقل طور پر فتویٰ فروشی اور شدت پسندی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔
پاکستانی بحیثیت قوم فتویٰ فروشی اور شدت پسندی دونوں کو یکسر طور پر مسترد کرتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) میرے ابو کتنے اچھے ہیں، ابو نے کہا تھا کہ واپسی پر وہ میرے لیے بہت سارے کھلونے لائیں گے، ابو ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ میں ان کی اچھی بیٹی ہوں اور ضد بھی نہیں کرتی ۔۔۔۔ امی نے بھی کہا تھا کہ وہ بھی میرے لیے اچھے اچھے کپڑے اور بہت ساری کھانے کی چیزیں لائیں گی۔۔۔۔۔
اور ابھی وہ دونوں اللہ کے گھر گئے ہیں تاکہ اللہ میاں سے بولیں کہ میں ہمیشہ ان کی اچھی بیٹی بن کر رہوں ۔۔۔۔ لیکن امی ابو کے بغیربلکل بھی میرا دل نہیں لگتا ۔۔۔ جب وہ آئیں گے تو میں کہوں گی کہ اب کبھی بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔۔ مجھے یہاں ڈر لگتا ہے اور یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔
ابھی تک اس معصوم بچی کی اس طرح کی ہزاروں باتیں و خواہشیں فضا میں موجود ہیں کہ جو بار بار ایک ہی سوال کی شکل میں میرےکانوں سے ٹکراتیں ہیں ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔۔ کیا ابھی بھی ہم زندہ ہیں ؟؟ اور کیا زینب مر گی ؟؟ ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔
ہم بھی مر چکے ہیں اور مجھے اپنے مردہ ہونے کا یقین اس وقت ہوا کہ جب میں نے اس دل خراش واقعہ کی آڑ میں لکھی گی چند روشن خیال تحریروں کو پڑھا ۔ جن میں بجا ئےاس کے کہ ان جیسے انسان سوز واقعات کی بنیادوں کو ذکر کیا جائے ۔۔ لگے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے ۔ کسی نے لکھا کہ یہ اس لیے ہوا کیونکہ ہماری سوسائٹی میں سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی۔ تو کوئی بولا کہ آخر زنا کی حد کے لیے چار گواہ کیوں ضروری ہیں۔ تو کسی نے تو سیدھا یہ کہہ دیا کہ یہ سب مولویوں کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے ۔
تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب تک اندر کے لوگ ساتھ نہ دیں کسی بھی مضبوط سلطنت کی بنیادوں کو ہلایا تک نہیں جاسکتا ۔ تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ آخر کون لوگ آج آزادی نسواں و روشن خیالی کی باتیں کر رہے ہیں ۔۔ وہی کہ کل تک جن میں یہ رائج تھا کہ ؛ عورت ،مرد کے ساتھ ایک جگہ نہیں سو سکتی کیونکہ اس کی نحوست کی وجہ سے مرد کی زندگی کم ہو جاتی ہے[1] اور مرد کو اختیار ہے کہ وہ عورت کو فروخت کر سکتاہے یا بھر وہ کہ جو کل تک خواتین کی شادیاں زبردستی حیوانات سے کرتے رہے [2] اس روشن خیالی کا ماضی یہی ہے کہ جس میں عورت کو اجازت نہ تھی کہ وہ کسی بھی جگہ مرد کے ساتھ نظر آئے چاہے وہ اس کی ماں یا بہن ہی کیوں نہ ہو ، عورتوں کا بازار ، گلیوں ، سڑکوں حتی تمام پبلک پلیسسز پر آنا ممنوع تھا[3]۔ بعض جگہ تو مرد کے مرنے کے ساتھ عورت کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور جب کبھی گھر پر مہمان آتا تو اپنی ناموس کو اسے پیش کیا جاتا[4] حتی افریقا کے کچھ قبائل میں تو ایک گائے کے بدلے بیٹی کو فروخت کیا جاتا۔ اگر کسی کو جنگجو یا کسی بھی خوبی والا بیٹا چاہیے ہوتا تو اپنی ناموس کو اسی قسم کے مرد کے پاس بیھجا جاتا[5] ۔ کبھی خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا [6] ۔تو کہیں پر اپنی ناموس کا تبادلہ کیا جاتا[7] ۔ کہیں پہ یہ ہوتا کہ اگر مرد و عورت دونوں راضی ہیں تو آزادی سے معاشرے میں کچھ بھی کرتے پھریں [8] تو کہیں پیسوں کے عوض اپنی ناموس کو سرعام فروخت کر دیا جاتا[9]۔
مگر جیسے ہی اسلام جیسے مقدس دین نے طلوع کیا تو ان خرافات و واہیات کی جگہ انسانی اقدار اور تو انسانیت کے تقاضوں نے لے لی ، دینِ اسلام نے معاشرے میں عورت کو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمانی بلندیاں عطا کیں اور بلند صدا دے کر کہا کہ عزت و تکریم کا معیار فقط تقوی ہے نہ کہ نسب و جنسیت ۔
وہی عورت کہ جسے معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا جنت جیسی عظیم نعمت کو اس کے قدموں میں قرار دیا گیا۔ وہ بیٹی کہ جسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا جنت کو اس کی پرورش کا صلہ قرار دیا گیا ۔ آج قوانین اسلام سے ہٹ کر آزادی کا علمبردار ہونا ایسا ہی ہے کہ جیسے گھپ اندھیروں میں سیاہ ورق تلاش کرنا ۔ اور رہی بات سیکس ایجوکیشن کی تو میں اپنے ناداں دوستوں سے یہ عرض کروں گا کہ اس روشن خیالی کو پھیلانے سے پہلے اُن علل و اسباب کا ضرور مطالعہ کریں کہ جن کی بنا پر غرب معاشرے کو اس ایجوکیشن کی ضرورت پڑی ۔
اگر ہم ذرا بھی اسلام اوراسلامی تہذیب سے آشنا ہوتے تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا کہ ہمیں قطعا ایسی مشکلات کا سامنا نہیں جن مشکلات سے مغربی سوسائٹی گزر رہی ہے ۔ مغرب میں بسنے والے پاکستانیوں سے ہی پوچھ لیجئے جہاں آج بھی ایک عورت کے دو ، دو اور تین تین شوہر ملتے ہیں اور بعض اوقات محرموں کے ساتھ بھی شادی کا پراسیس انجام دینا پڑتا ہے۔
اور ساتھ ہی یہ یاد رہے کہ بچے کا ذہن ایک سفید ورق کی مانند ہے جیسی بنیاد رکھو گے ویسی ہی عمارت بنتی نظر آئے گی ۔ جہاں تک چار گواہوں کا مسئلہ ہے تو بیان کرتا چلو کہ چار گواہوں کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ خداوند متعال اصلاً نہیں چاہتا کہ ہر کوئی ہماری ناموس پہ انگلیاں اٹھاتا پھر ے جبتک کہ ٹھوس ثبوت نہ ہوں۔
حتی اسلام نے مسئلہ ناموس کو اسقدر محترم رکھا کہ بعض علما کے نزدیک سورہ یوسف تک کی تعلیم کو بچیوں کے لیے مکروہ قرار دیا ہے۔ مقام فکر ہے کہ بقول اقبال ؒ آج ہم بدعملی سے بدظنی کی طرف گامزن ہیں[10]مگر دوسری طرف آج پھر خاتون کو آزادی کے نام پر اندھیروں کی اس دلدل میں دھکیلاجا رہا ہے کہ جس کے تصور سے ہی انسانیت کانپ اٹھتی ہے ۔
مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کل عورت بازار میں ایک جنس کے طور پر فروخت ہوتی تھی جبکہ آج مختلف اجناس کو فروخت کرنے کےلیے اسے بازاروں میں لایا جاتاہے۔
[1] ۔ تاریخ تمدن جلد ۱ ص ۴۴
[2] ۔ سیر تمدن ص ۲۹۵
[3] ۔ تاریخ تمدن جلد ۱ ص ۳۸
[4] ۔ ایضا ص ۶۰
[5] ۔ زمانہ جاہلیت میں (نکاح الاستیظاع)
[6] ۔ نکاح رھط
[7] ۔ نکاح البدل
[8] ۔ نکاح معشوقہ
[9] ۔ نکاح الاشغار
[10] ۔ بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے (از جواب شکوہ)
تحریر۔ ساجد علی گوندل
Sajidaligondal88gmail.com
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک وقت وہ تھا کہ جب پاکستان میں ملت تشیع نہ صرف کئی سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں کھٹ پتلی بنی ہوئی تھی بلکہ مساجد و امامبارگاہوں کے ممبروں تک سے اس بات کی تبلیغ کی جاتی تھی کہ ہمیں سیاست سے کیا لینا دیناہم توبس عزادار ہیں اور ہمیں عزاداری کی اجازت ہونی جائے ۔جبکہ جس عظیم ہستی کی عزاداری کی جارہی ہے وہ کائنات کی اس بے مثال تحریک یعنی کربلا کا بانی ہے کہ جس نے نہ صرف یزیدیت جیسی آمرانہ حکومت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے کوڑے دانوں کے سپرد کردیا اور سیاست الہی اور سیاست محمدی اور علوی کو بھی بلندی عطا کی یہاں تک کہ آج ہر انقلاب خود کربلا کا مرہون منت سمجھتا ہے-
عزاداری بذات خود ایک تحریک اور ہر زمانے کے باطل کیخلاف ایک للکارہے دلوں سے نکلنے والی یا حسین کی آہ دنیا کے ہر ستم کے خلاف صدائے احتجاج ہےآنکھوں سے نکلنے والے آنسو ظلم کیخلاف ایک سیلاب ہیں، بقول رہبر کبیر انقلاب امام خمینی رض غم حسین ؑ کایہ سیلاب دنیا کے ظلم و ستم کو بہا لے جائے گا ، سینوں پر آلگنے والے ماتم حسین کے ہاتھ ہر ظالم و ستمگر کے منہ پہ ایک طمانچہ ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ایک زمانے تک ہم سادہ فکری کے شکار تھے اور ہمیں اصل تشیع اور حقیقت عزاداری سے مکمل و گہری آشنائی نہیں تھی لیکن الحمداللہ اب معرفت کے دریچے کھلتے جارہے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتے جارہے ہیں اور بیداری کی تحریک قوت پکڑتی جارہی ہے۔
حق و حقیقت کے متلاشی عاشقوں نے راہ حق میں آخرکار قدم رکھ ہی لیا اور دنیا والوں کے لئے ثابت کردیا کہ کربلاکی روح اب بھی زندہ ہے ، حسینیت آج بھی یزیدیت سے نبرد آزما ہے ۔آج بھی شہدائے اسلام اپنے سرخ لہو سے پھر تاریخ رقم کررہے ہیں، ملتوں میں بیداری کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ آج بھی جاری ہے ۔
ملت پاکستان بھی باقی ملتوں کے شانہ بشانہ اس بیداری کا حصہ ہے اور مملکت پاکستان کا وجود ہی انقلابی بنیادوں پر رکھا گیاتھا اوران بنیادوں میں ملت تشیع بھی کسی دوسری قوم سے نہ صرف پیچھے نہ تھی بلکہ سب کے شانہ بشانہ اپنی آزادی اورخودمختار مملکت کے قیام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق ملت تشیع سے ہے ،اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سنی شیعہ بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکار جو اس ملک میں آباد ہیں وہ سب ملک کے برابر کے شہری ہیں اور سب نے ملکر قربانیاں دی ہیں لیکن ملت تشیع جس طرح مسلسل قربانیاں دے رہی ہے خاص کر گذشتہ تین دھائیوں جتنی قربانیاں دی ہیں شاید کسی اور قوم نے دی ہوں۔
دشمن نے گذشتہ عرصے میں اس ملت کو نشانہ بنایا اور لاکھوں کی تعداد میں اس کے فرزندوں کو صرف اس جرم میں کہ یہ لوگ محبت اہل بیت اطہار سے سر شار ہیں اور اپنے ملک و ملت کے ساتھ وفادار ہیں انہیں گولیوں ،خودکش حملوں ،خنجروں اور تلواروں کا نشانہ بنایا ۔ہمارے نوجوانوں کو بسوں سے اتار کر نشان دہی کے ساتھ ،نام معلوم کر کے شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔پاراچنار سے لے کر گلگت اور پنجاب سے لے کر سندھ بلوچستان اور کوئٹہ جیسے شہروں میں شیعہ کے خون کی ندیاں بہائی گئیں، وطن کی سرزمین ہمارے خون سے رنگین کی گئی ،ہمارے بڑے بڑے علما اور بالخصوص ہماری ملت کے ہر دلعزیز قائد علامہ عارف الحسینی کو شہید کر دیا گیا۔
دشمن کا یہ خیال تھا کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے اس شہید پرور ملت اور اس ملک میں کمزور کردے گااوران احمقوں نے گمان کرنا شروع کیا تھا کہ شیعہ کو ملک میں اقلیت قرار دے دیا جائے اور اس پہ کفر کےفتوے صادر کرکے اس مظلوم ملت کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے-ہمارے خلاف ایک بہت گہری اور دراز مدت پلاننگ کی گئی جس کا حکومتوں نے بھی کم و بیش ساتھ دیا چونکہ ایک بین الاقوامی سازش بھی پس پردہ کارفرما تھی شائد اس لئے کسی ایسے قاتل کو نہ صرف سر عام سزا نہیں دی گئی جس نے ملت تشیع کے جوانوں کا خون بہایا ہوبلکہ اس کے برعکس مجرموں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا اور آج بھی بہت سے مجرم ملک میں دندناتے پھرتے ہیں-حکومتوں نے بجائے اس ستمدیدہ قوم کی داد و فریاد سننے اور ان کی مدد کرنے کے اسی ملت کو نوجوانوں کو گھروں سے مختلف جگہوں سے اٹھانا شروع کیا اور کتنے ہی جوان اب سالہا سال سے لاپتہ اور جبری گمشدگی میں ہیں ۔
ہمیں مختلف مذہبی اور قومی اختلافات میں دھکیلا گیا تاکہ یہ قوم ملک میں پنپ نہ سکے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ مکتب تشیع مظلومیت ہی میں پروان چڑھتا اور خون سے ہی اس مکتب کی آبیاری ہوتی ہے-چنانچہ جو ملت اس سے پہلے فقط اپنی مجلس اور عزاداری کا سوچتی تھی ان میں رفتہ رفتہ قومی شعور بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا شروع کی-
ایک زمانے میں سیاست کو ہمارے مدارس میں شجرہ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا اور سیاسی امور سے متعلق مجالس میں گفتگو حرام شرعی اور یا پھر مجلس کے تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا تو آج اسی ملت سے متعلق مختلف انقلابی قوتیں اس ملک میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور اب اس بات کو لیکر ہر گز اختلاف نہیں کہ ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں بلکہ اگر کہیں اختلاف ہے بھی تو اس بات پر کہ ہمیں انقلابی بنیادوں پہ ملک میں ایک مکمل تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے یا ہمیں ملکی سطح پراصلاحات کا عمل جاری رکھنا چاہیے یہاں تک کہ ہم خود ملک میں کسی بڑی تبدیلی لانے کے قابل ہو جائیں لیکن دونوں افکار ملک میں ایک سیاسی ارتقا کی دلیل ہیں اور جو بھی اس ملک و ملت کے لئے اخلاص کے ساتھ جذبہ خدمت سےسرشار جدوجہد کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے اور ہمارے فکری اور نظریاتی اختلافات ہماری قومی بالیدگی اور پیشرفت کی علامت ہے جبتک یہ اختلافات ٹکراو و تصادم کی شکل اختیار نہ کریں اور مومنین آپس میں دست وگریبان نہ ہوں اور اپنی اپنی حدود میں ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے اپنی جہت میں حرکت کرتے رہیں تو الہی عمل میں نہ تعارض ہے نہ تزاحم-لیکن جہاں ذاتی مفادات پیش نظر ہوں اور افکار مادی ہو جائیں وہاں رسہ کشی ہوتی ہے اور اختلاف رائے انتشار کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس سے دشمن بھی سو استفادہ کرتا ہے اور ملت میں بھی مایوسی پیدا ہوتی ہے-
بحمد اللہ ان گذشتہ سالوں میں ہمارے انقلابی علما کی جہد مسلسل سے ملت میں بیداری پیدا ہوئی یہ اسی سیاسی کرداراور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ جہاں کچھ علما تربیتی عمل میں مصروف ہیں اور کئی بنیادی کام انجام دینے میں اپنی مساعی جمیلہ کو بروئے کار لا کر ملت کے مستقبل کے لئے عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں وہاں کچھ دوسرے طبقے کے علما ملک کی روزمرہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں-
گذشتہ دہائیوں میں دشمن کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ہمارے مبارز اور مجاہد علما نے اپنی ملت کی صحیح جہت میں رہبری کی لہذا ہماری ملت نے مظلوم ہونے کے باوجود کبھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیاکبھی ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا کبھی ہماری قوم نے ملکی املاک کو ہاتھ نہیں ڈالا کبھی کوئی کسی مسجد پہ حملہ کرتے یاخودکش حملے میں پکڑا نہیں گیا-ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہم ہر زمانے میں مظلوم رہے ظالم نہیں بنے-ہمارے علما نے پر امن مظاہرے کئے کوئٹہ میں بارہا ہزارہ کے مومنین اور دیگر شیعیان اہلبیت کا خون بہایا گیا لیکن ہمارے علما نے قوم کو صبر کی تلقین اور استقامت کا مظاہرہ کر کے عوامی طاقت سے صوبائی حکومت کو گرا دیا-یہ ایک با شعور قوم کا سیاسی عمل تھا جس نے بلوچستان کی حکومت کو فقط ایک بار ہی نہیں بلکہ اب دوسری بار استعفی دینے پہ نہ ٖصرف مجبور کر دیا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کے باعث آج مجلس وحدت مسلمین کے رہنمااور ممبر بلوچستان اسمبلی آغارضا ملت تشیع کی نمائندگی میں بلوچستان کی ایک سے زائد وزارتوں کے عہدے پہ فائز ہیں ۔
سلام ہے ان شہدا کے خانوادوں پرکہ جنہوں نے اپنے حقوق کی جنگ میں فتح حاصل کی اگرچہ جتنی قربانی پیش کی گئیں اس کے مقابلے میں یہ کامیابی کوئی حیثیت نہیں رکھتی-
ہمارے علما نے گذشتہ سالوں پر امن جدوجہد کی اور ملک کے عالم مجاہد علامہ ناصر عباس جعفری ۸۰ دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرکے اپنی ملت کی بیداری اور دوسری اقوام کو ملت تشیع کی مظلومیت سے آگاہ کرنے اور حکومت وقت کو اپنے عظیم ارداے سے لرزانے میں بہت بڑا کردار ادا کیاکہ جس کے متعلق میں نے اس سے پہلے بھی اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ اسلامی ممالک میں سے کسی عالم کی قوم کے لئے یہ ایک بے مثال قربانی تھی-
چنانچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملت میں گلگت و بلتستان یا کوئٹہ کی سرزمین جو اعتماد اور عزم و ارادہ میں قوت و قدرت پیدا ہوئی اس میں ہمارے علما اور زعما ملت کی انتھک کوششیں ہیں یہاں تک گذشتہ عرصے ملک کی بہت ہی فعال مذہبی اور سیاسی شخصیت کو دن دھاڑے اٹھا لیا گیا اور ایک ماہ سے زیادہ انہیں لا پتہ رکھا گیاتاکہ قومی شخصیات میں خوف و ہراس پیدا کر سکیں لیکن یہ ملت شہید پرور ہے اور یہ ملت خوف سے مقابلہ کرنا جانتی ہے-
آج گلگت و بلتستان کی ملت کی وحدت و کامیابی اور وہاں کے عالم مبارز و مجاہدآغا علی رضوی کہ جس نے وہاں کی قوم کی رہبری کا فریضہ ادا کیا اور اس علاقے کی شدید سردی کے موسم میں اپنے حقوق کی جدوجہدکے لئے دن رات ایک کر کے حکومتی اداروں کا گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا اور دوسری طرف ملک کی دوسری سر حد کوئٹہ کامیاب سیاسی عمل اور عظیم کامیابیوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ملت تشیع پاکستاں ملک کے سیاسی عمل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکی ہے-
باوجود اس کے کہ دشمن ہمیں ملکی دھارے سے ہٹانے کا سوچ رہا تھا جبکہ ہماری قومی جدوجہد نے دشمن عناصر کو کنارے لگا دیا اوروہ سب قوتیں ملک کی منفور قوتیں ہیں یہانتک کہ ہماری ملت نے امریکہ اور اسرائیل سے مسلسل دشمنی کو اپنی قوم و ملت میں رائج کیا کہ اج امریکہ کے صدر کو بھی ملت پاکستان سے بیزاری کا اعلان کرنا پڑا لیکن اسے کیا معلوم ہماری ملت نے تو اس کی حماقتوں کو نیک شگون ہی لیا کہ اچھا ہوا اس چھچھوندر سے جان چھوٹی اگرچہ ہمارے بعض بے ضمیر اور وطن فروش تو اب بھی بھیک مانگنے چلے جائیں گے اور اتنی جلدی جان چھوٹتے دیکھائی نہیں دیتی لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے ہماری قوم و ملت میں ایک شعوری ارتقا کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں ہماری ملت تشیع کے علما کا بہت بڑا کردار ہے-
ہم ان عظیم کامیابیوں پہ جو قوم و ملت کو نصیب ہوئیں تمام شہدا کی اروح کو سلام بھیجتے ہیں جن کی ارواح طیبہ آج بھی ملت میں زندہ اور جن کا خون آج بھی قوم و ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور اگر ہمارے علما و ملک کے ذمہ دار ایک دوسرے سے ساتھ ملکر وحدت و یکجہتی سے اس ملک میں عمل کریں تو ہم کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں-
آج اس قوم کو مخلص قیادت اور رہبری کی ضرورت ہے اور جن مقاصد کے لئے یہ مملکت معرض وجود میں آئی ان مقاصد کے حصول کے لئے مضبوط قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس ملک و ملت کی رہبری میں جو کردار ہمارے شیعہ علما پیش کر سکتے کوئی دوسرا نہ اس کی صلاحیت رکھنا ہے نہ اتنا موثر کردار ادا کرسکتا ہے-اخر وہ قوم جس کے پاس سیاست عکوی موجود ہو اور جو عاشورا و کربلا کے وارث ہوں اور جو مہدویت پہ عقیدہ رکھتے ہوں جن کی بنیادوں میں ائمہ علیھم السلام کا دو سو پچاس سالہ دور ہو اور جن کےمکتب کا پروردہ خمینی بت شکن بنے اور جس مکتب سے حسن نصراللہ جیسے فرزند جنم لیں اور جو قوم حکیم امت رہبر معظم انقلاب کے سائے پروان چڑھ رہی ہو اور جس کی بنیادوں شہید راہ حق علامہ عارف الحسینی کا خون ہو اس کا کوئی کیسے مقابلہ کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس میراث کی درست حفاظت کریں اور انہی خطوط پہ عمل پیرا رہیں اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ان شااللہ وہ دن دور نہیں حرم الہی سے فرزند زہرا کا پرچم بلند ہو اور اہل حق دنیا کے اطراف و اکناف سے اس پرچم کے نیچے جمع ہو جائیں اور پوری دنیا کو نوید امن و امان دی جائے اور انسان عدالت الہی کے سائے میں زندگی بسر کریں-اللہم عجل لولی الفرج واجعلنا من اعوانہ و انصار
از قلم :حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ غلام حر شبیری
وحدت نیوز (آرٹیکل) قیامت کےدن انجام پانےوالے اہم امورمیں سےایک بعض گنہگار افراد کے حق میں شافعین کی شفاعت ہے ۔یہ افراد شفاعت کرنے والوں کی سفارش کی بدولت رحمت الہیٰ کے حقدار ہو کر بہشت میں داخل ہوں گے ۔شفاعت کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک ایک مسلم عقیدہ ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت نبوی میں اس بارے میں صراحت ہوئی ہے۔ قرآن کریم مسئلہ شفاعت کو مسلم قرار دیتا ہے اور اس کے بعض احکام کو بیان کرتا ہےچنانچہ ارشاد فرماتا ہے کہ شفاعت صرف اور صرف اذن الہیٰ کے ساتھ ہی انجام پائے گی۔{مَن ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِاِذْنِہ}1کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضورسفارش کر سکے ؟ ایک اور مقام پر فرماتا ہے :{مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِہ}2کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قرآن کریم مشرکین اور بت پرستوں کے عقیدے {بتوں سے شفاعت طلب کرنے}کو باطل قرار دیتا ہے کیونکہ مشرکین اپنے معبودوں کی الوہیت کے قائل تھےاور وہ شفاعت کے نفاذ میں کسی قسم کےقید و شرط کےقائل نہیں تھے۔قرآن کریم ان کے اس عقیدے کو مردود قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہ ِ مَا لَا يَضُرُّہُمْ وَ لَا يَنفَعُہُمْ وَ يَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَؤُنَا عِندَ اللّہ ِ قُلْ أَ تُنَبِّونَ اللّہ َ بِمَا لَا يَعْلَمُ فیِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فی الاَرْضِ سُبْحَانہُ وَ تَعَالیَ عَمَّا يُشْرِکُون } 3 اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور{پھربھی}کہتے ہیں : یہ خدا کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں کہہ دیجئے: کہ تم خداکو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اورنہ زمین۔ وہ پاک و پاکیزہ اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے ۔لہذا قرآن کریم کی ان آیات کےتناظر میں بتوں کی شفاعت کی نفی ہوتی ہے ۔اسلام میں اصل شفاعت سے انکار کرنا کھلم کھلا مغالطہ ہے کیونکہ اسلام نہ شافعین کی الوہیت کا قائل ہے اور نہ ہی کسی قید و شرط کےبغیر انہیں شفاعت کی اجازت دیتا ہے۔یعنی شافعین کی شفاعت کو اذن الہیٰ میں منحصرکیا ہےاور اسلام کی نظر میں شافعین خدا کے مقرب بندے ہیں ۔ قرآن کریم فرشتوں کو شافعین میں سےقرار دیتا ہے جو صرف ان افراد کی شفاعت کریں گے جنہیں خدا پسند کرتا ہے ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے:{بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَ. لَا يَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَ ہُم بامْرِہِ يَعْمَلُونَ. يَعْلَمُ مَا بَينْ أَيْدِيہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضی}4بلکہ یہ تواللہ کے محترم بندے ہیں۔وہ تواللہ{ کے حکم }سے پہلے بات {بھی} نہیں کرتےاور اسی کے حکم کی تعمیل کرتےہیں۔ اللہ ان باتوں کوجانتا ہےجو ان کے رو برو اور جوان کے پس پردہ ہیں اوروہ فقطان لوگوں کی شفاعت کر سکے ہیں جن سےاللہ راضی ہے۔5
قرآن کریم کےمطابق پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محمود پرفائزہوں گے ۔ مفسرین متعدد روایتوں سے استناد کرتےہوئے مقام محمود کو شفاعت سے تعبیرکرتےہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:{ عَسیَ أَن يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا محَّمُود}6امید ہےکہ آپ کا رب آپ کو مقام محمودپر فائز کرے گا ۔طبرسی لکھتےہیں:مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مقام محمود سےمراد شفاعت ہے ۔یعنی قیامت کے دن پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرچم {لواء الحمد}کو ہاتھ میں اٹھائیں گے اور تمام انبیاء اس پرچم تلے جمع ہوں گے ۔ آپ ؐ پہلے شافع ہوں گے جس کی شفاعت قابل قبول ہوگی ۔7 مسلمانوں کے نزدیک شفاعت کرنےوالوں سے شفاعت طلب کرنا ایک جائز کام ہے خواہ ان کی حیات میں ہو یا مرنےکے بعد۔ شفاعت دو طریقے سےطلب کی جا سکتی ہے :
پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان خدا وند متعال سے براہ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرےافراد جنہیں شفاعت کا اختیار حاصل ہے کے واسطے سے شفاعت طلب کرے مثلا یہ کہے :{اللہم شفع لی محمدؐ}خدایا !میرے حق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے افراد سےشفاعت طلب کرے مثلاً کہے:{یامحمد ؐاشفع لی عند الله ، کن لی شفیعا عند الله}اے رسول !خدا کےحضور میرے حق میں شفاعت کیجئے ۔وہابی صرف پہلی صورت کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کےنزدیک دوسرا طریقہ ناجائز اور شرک کاباعث بنتاہے ۔
شافعین سے شفاعت طلب کرنا حقیقت میں شفیع سےدعا طلب کرنا ہے اور اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہےکہ غیرخدا سے دعا طلب کرنا نہ مطلقا حرام ہے اور نہ شرک کا باعث بنتا ہے ۔مسلمانوں سے مدد طلب کرنا ایک جائز کام ہے اور مسلمانوں پر اپنی وسعت کے مطابق دوسرےمسلمان کی مدد کرنا واجب ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:{من سمع مناد ینادی یا للمسلمین و لم یجبہ فلیس بمسلم}جو شخص کسی محتاج کی آواز کو سنے جو مسلمانوں سےمدد طلب کر رہا ہو اور وہ اس کی مدد نہ کرے تووہ مسلمان نہیں ہے ۔اصولی طور پر اگرایک عمل کسی کے لئے جائز ہو تواس شخص سے اس عمل کی درخواست بھی جائز ہوگی ۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے شافعین کے لئے قیامت کے دن شفاعت کرنا جائز ہے پس ان افرادسے شفاعت طلب کرنا بھی جائز ہوگا۔
شفاعت سے مراد شفیع کا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کی لیاقت رکھنے والے افراد کے حق میں دعا طلب کرنا ہے ۔نیشاپوری اس آیت{ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعۃً حَسَنَۃً يَکُن لَّہُ نَصِيبٌ مِّنہْا وَ مَن يَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئۃً يَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہ}8{جوشخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتاہےوہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اورسفارش کرتاہےوہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا }کی تفسیرمیں مقاتل سے نقل کرتے ہیں: خداوند متعال کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرنے سے مراد مسلمانوں کے حق میں دعاکرنا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :{من دعالاخیہ المسلم بظہر الغیب استجیب لہ و قال لہ الملک:و لک مثل ذلک}جو شخص اپنےمسلمان بھائی کے حق میں اس کی غیرموجودگی میں دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوجائے گی اور فرشتہ اس سےکہے گا کہ تمہارے حق میں بھی ایسا ہو ۔ لہذا مذکورہ آیت میں نصیب کا معنی وہی ہے جو اس حدیث میں آیاہے یعنی جو دعا انسان کسی دوسرے مسلمان کے حق میں کرتا ہے وہ اس کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے ۔پس جس طرح انسان ہر مسلمان سے دعا طلب کرسکتا ہے اسی طرح غیر خدا سےشفاعت بھی طلب کر سکتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ صرف ان افراد سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے جو مقام شفاعت پر فائز ہوں جیسے انبیاء ،ائمہ اہل بیتعلیہم السلاممومنین اورفرشتے ۔
فخر الدین رازی نے فرشتوں کا مومنین کے حق میں استغفار9کرنے کو شفاعت سے تعبیر کیا ہے ۔وہ اس سلسلےمیں لکھتےہیں کہ اس آیت سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فرشتوں کی شفاعت صرف گنہگار افراد سے مخصوص ہے اور اس بارےمیں معتزلہ کا نظریہ صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں کی شفاعت نیک افراد کے لئے ہے تاکہ ان کے درجات میں اضافہ ہو سکے نہ گنہگار افراد کے گناہوں کی بخشش کے لئے ۔ابن عباس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےایک حدیث نقل کرتےہیں جس میں آپؐ فرماتےہیں:اگر کوئی مسلمان مر جائےاورچالیس مومن موٴحد اس کے جنازے پر نماز پڑھیں تو خدا ان کی شفاعت کو اس کے حق میں قبول کر تا ہے۔10نماز میت مومن کے حق میں دعا کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔لہذادعاایک قسم کی شفاعت ہے اور مومنین سے دعا طلب کرنا اور یہ کہنا {ادع لی}کسی شک و شبہ کےبغیر جائز ہے ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی سیرت اس کےجائز ہونے پر گواہ ہے ۔ جیسے ترمذی ، انس بن مالک سےنقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس کا بیان ہےکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں ۔11قرآن کریم میں چند موارد ذکر ہوئےہیں جو دوسروں سے دعا طلب کرنے کے جواز پر دلالت کرتےہیں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کےفرزندوں نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ وہ خدا سے ان کی بخشش کی سفارش کریں۔12۔ قرآن کریم گنہگاروں کے لئے یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ خودبھی مغفرت طلب کریں اورپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی درخواست کریں کہ آپ ؐبھی ان کے حق میں دعا کریں ۔13
وہابی اورتکفیری گروہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ ؐ سے دعا طلب کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اگر یہی کام شرک ہو تو دونوں حالتوں میں شرک ہوگا یعنی اگر زندوں سے شفاعت طلب کرنا شرک نہیں ہے تو مردوں سے شفاعت طلب کرنا بھی شرک نہیں ہے ۔علاوہ ازیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت آپ ؐ کے جسم کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ آپؐ کی روح زندہ ہے اور دعا و شفاعت کی درخواست کو سننا اور ان کی اجابت کرنا روح سےمتعلق ہے نہ جسم سے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد آپ ؐ پردرود وسلام بھیجنے کے بارے میں نقل شدہ بہت ساری احادیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود وسلام کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ۔14
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیار ت کے آداب میں یہ بات نقل ہوئی ہےکہ زائر جب آپؐ کی قبرمبارک کے پاس دعا کرتا ہے تو آپؐ سےمخاطب ہو کر اس طرح سےکہنا چاہیے:{جئنالقضاء حقک والاستشفاع بک فلیس لنایارسول الله شفیع غیرک فاستغفر لنا واشفع لنا}یا رسول اللہ:ہم آپؐ کے پاس اپنے حوائج کی برآوری اور شفاعت طلب کرنے کے لئے آئے ہیں۔آپ ؐکےسوا ہمارا کوئی شفیع نہیں ہے۔آپؐ ہماری مغفرت کےلئے دعا کریں اور ہماری شفاعت کریں ۔اہل سنت کے بہت سارے علماءنے اپنےمناسک کی کتابوں میں یہ بات ذکرکیا ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت آپ ؐسے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے ۔ 15قرآن کریم حق شفاعت کو خدا کے ساتھ منحصر کرنے کےعلاوہ خدا کے اذن سے اسےانبیاء،اولیاء اور فرشتوں کے لئے بھی ثابت کرتاہے۔ لہذامقام شفاعت صرف خدا کا حق ہے لیکن شافعین کی شفاعت رضائے الہی پر منحصر ہے۔لہذا آیت کریمہ{ قُل لللہ الشَّفَاعَۃُ جَمِيعًا}{کہہ دیجئے:ساری شفاعت اللہ کےاختیار میں ہے} نہ دوسرے شافعین کی شفاعت کی نفی کرتا ہے اور نہ ان افراد سے شفاعت طلب کرنے کی نفی کرتا ہےکیونکہ شفیع سے شفاعت طلب کرنے کا مطلب یہ ہےکہ وہ بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کی بخشش کے لئے دعاکریں نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے ان کےگناہوں کو بخش دیں ۔
زمحشری اس آیت{قُل لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا}“کہہ دیجئے:
سا ری شفا عت اللہ کے اختیار میں ہے اور کوئی کسی دوسرے کے بارے میں شفاعت نہیں کر سکتا مگر دو شرائط کے ساتھ :
1۔شفاعت ان کی ہوگی جو شفاعت کی لیاقت رکھتے ہوں۔2۔ شفیع کے لئے یہ مقام خدا کی طرف سے حاصل ہواہو یعنی خدا نے شفاعت کرنے کا اختیار انہیں عطا کی ہے جبکہ یہ دو شرائط مشرکین اور ان کے شافعین کے بارے میں موجود نہیں ہیں ۔16 بنابرین شفاعت خدا کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے اس لئے ذاتا ًیہ حق اسی کےساتھ مخصوص ہے لیکن یہ مطلب انبیاء و اولیاء کے لئے مقام شفاعت کے قائل ہونےکےساتھ منافات بھی نہیں رکھتاہے کیونکہ ان افراد کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ ان افراد کی شفاعت اذن الہی پر منحصر ہے ۔
حوالہ جات:
1۔بقرۃ،255۔
2۔یونس،3۔
3۔یونس،18۔
4۔انبیاء،26،28۔
5۔نجم،26۔
6۔اسراء،79۔
7۔مجمع البیان،ج3،ص435۔تفسیر برہان،ج2،ص440۔
8۔نساء،85۔
9۔غافر،7۔
10۔صحیح مسلم،ج3،ص54۔
11۔صحیح ترمذی ،ج4،ص42۔
12۔یوسف،97۔
13۔نساء،64۔
14۔سنن ابوداود ،ج2،ص218۔کنز العمال،ج10،ص381۔طبقات الشافعیۃ،ج3،ص406۔
15۔کشف الارتیاب، ص320 میں احمد بن زینی دحلان کی کتاب خلاصۃ الکلام سےنقل ہوا ہے ۔
16۔تفسیر کشاف،ج4،ص30۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی