وحدت نیوز (آرٹیکل) بیداری ایک مسلسل عمل کا نام ہے، افراد کی بیداری سے اقوام بیدار ہوتی ہیں، اور اقوام کی بیداری ممالک و معاشروں کی بیداری کا باعث بنتی ہے، جس طرح نیند اور غفلت میں ایک نشہ اور مستی ہے اسی طرح بیداری میں بھی ایک لذّت، طراوت اور شگفتگی ہے۔
اگر ہم انتخابات کے ذریعے اپنے ملک میں بیداری اور تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں گام بہ گام تمام شعبہ ہای زندگی میں بیداری کے ساتھ درست انتخاب کی عادت ڈالنی ہوگی۔ہمیں عملی طور پر اپنا آئیڈیل، رول ماڈل اور نمونہ عمل رسولِ اعظمﷺ کی ذاتِ گرامی کو بنانا ہوگا۔
پیغمبرِ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کی طرح سیاسی زندگی میں بھی بطورِ رہبر ہماری رہنمائی کی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان ایک مکمل اور بھرپور سیاسی زندگی گزار کر ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے سیاستدانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔
مدینے سے ہجرت کے دوران جب آپ ﷺ قبا کے مقام پر کچھ دن کے لئے ٹھہرے تو یثرب سے لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے آتے تھے، آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اور مسلمان ہوکر پلٹتے تھے، بلاشبہ تلواریں توفقط شر سے دفاع اور احتمالی ضرر سے بچاو کے لئے تھیں چونکہ لوگ تو آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر دیوانہ وار کلمہ پڑھتے جارہے تھے۔
مورخ کو یہ لکھنے میں قطعا کسی قسم کی تردید نہیں کہ مدینہ پیغمبرِ اسلام کے اخلاق کی وجہ سے مفتوح ہوا، آج جب ہم کسی کو اپنا سیاسی لیڈر یا رہنما منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے اخلاق اور عادات و اطورا کے بارے میں بھی جانیں۔
مدینے میں جب رسولِ گرامی ﷺ کی سواری داخل ہوئی تو ہر طرف ایک جشن کا سماں تھا، کبھی کسی قبیلے کا رئیس آپ کی اونٹنی کی لگام تھام لیتا تھا کہ ہمارے ہاں تشریف رکھئے ، کبھی کسی گروہ کا کوئی معزز فرد آپؐ کی اونٹنی کی باگ تھام کر اپنے گھر میں ٹھہرنے کی التجا کرتا تھا، کبھی کوئی بڑا تاجر آگے بڑھ کر دستِ ادب دراز کر کے شرفِ میزبانی حاصل کرنے کی اپیل کرتا تھا اور کبھی کسی محلے کا کوئی بزرگ آپ کے نعلین مقدس کو چوم کر اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دیتا تھا، لیکن آپ نے سب سے یہی کہا کہ میری اونٹنی کو چلنے دیجئے یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، یہ جہاں خود ٹھہرے گی میں وہیں قیام کروں گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ اونٹنی نہ کسی سردار کے گھر ٹھہری، نہ کسی وڈیرےکےہاں اس نے ڈیرہ ڈالا ، نہ کسی بزرگ کے ہاں اس نے زانو ٹیکے بلکہ مدینے کے ایک عام شخص حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔
حضرت ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام میں اہلِ اسلام کے لئے یہ پیغام تھا کہ رسولِ اسلام کے تعلقات کسی کے ساتھ کسی کی خاندانی شرافت و منزلت، قبائلی جاہ و حشمت اور خاندانی مال و ثروت کی بناپر نہیں ہونگے بلکہ ایک عام مسلمان بھی رسولِ اکرم کے نزدیک اتناہی محترم تھا جتنے کہ قبائل کے امرا و سردار تھے۔
یہ اسوہ حسنہ ہے آج پاکستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے کہ ہم اپنے ملک میں سیاسی رہبر ی و قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں کہ جن کے نزدیک امرا اوفقرا کی کوئی تمیز نہ ہو۔
اور ہاں! سیرت النبیﷺ اس بات پر شاہد ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ، غربا، فقرا اور مساکین پر زیادہ توجہ دیتے تھے تاکہ زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے گھر کے سامنے کچھ زمین خالی پڑی ہوئی تھی، اس کے مالک دو یتیم بچے تھے، نبی اکرمﷺ نے مسجد کے لئے وہ زمین اپنی جیب سے خریدی اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کے کام میں صحابہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا اور اپنا پسینہ بہایا۔
آج کل ہمارے ہاں ہمارے لیڈر شجر کاری مہم کے افتتاح کے لئے زمین پر ایک ضرب لگاکر لاکھوں تصویریں بنواتے ہیں اور اگر کسی غریب فقیر کی مدد کر دیں تو اخبارات و جرائد ان کے بیانات سے بھر جاتے ہیں۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کی زمین اپنی جیب سے خرید کر اور مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح کام کر کے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کا لیڈر وہ ہو جو دینی امور کے نام پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور دین کے کاموں میں عملاً مشقت میں کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو۔
جب تک ہمارے لیڈر بیت المال کو چوسنے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے اور عوام کے ساتھ برابر مشقت اٹھانے کی عادت نہیں اپنائیں گے اس وقت تک معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
جب مسجد کے لئے موذن کے انتخاب کا وقت آیا تو سروروعالمﷺ نے بڑے بڑے رئیس زادوں، آقا زادوں، تاجروں، مالداروں، مہاجروں، انصار اور نامی و گرامی شخصیات کے ہوتے ہوئےحبش کے ایک سیاہ رنگ کے شخص کا انتخاب کیا جس کی زبان میں بھی لکنت تھی۔
حضرت بلال حبشیؓ کو بطور موذن منتخب کر کے آپ نے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ دینِ اسلام میں کسی کی ظاہری خوبصورتی، رنگ و نسل، قوم و قبیلے، برادری اور علاقے نیز ملک و خطے کی کوئی اہمیت نہیں دینِ اسلام میں ایمان، تقویٰ اور اسلام پر عمل ہی اصل میزان ہے۔
پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم سیرت النبیﷺ سے انتخاب کا طریقہ سیکھیں اور انتخابات میں عشقِ رسولﷺ کا مظاہر کریں۔
اگر ہم نعرے تو عشقِ رسولﷺ کے لگاتے رہیں اور ووٹ بدمعاشوں اور شرابیوں کو دیتے رہیں تو اس سےہمارا اعمال نامہ بھی اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔
کتنے بدقسمت ہیں ہم لوگ کہ جو سیرت النبیﷺ کے ہوتے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ الله تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ معاشروں میں اعتدال قائم رکھنے کے لئے انسانوں کی تعداد میں مختلف حوالوں سے ایک توازن رکھتا ہے۔ جیسے مرد و زن کی تعداد میں ایک قدرتی توازن برقرار رہتا ہے اسی طرح معاشروں میں عقل و دانش اور ضروری ہنر و فن کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھی ایک توازن برقرار رہتا ہے- مرد و زن کی تفریق اور دیگر صلاحیتوں کو متوازن رکھنے میں فرق صرف یہ ہے کہ مرد و زن کو ظاہری جسمی علامتوں سے تشخیص دینا آسان ہے جبکہ دیگر صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت کرنا قدرے محنت طلب کام ہوتا ہے۔ نظام تعلیم جہاں انسانی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے وہاں ان صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت میں مدد بھی دیتا ہے۔
آج کی دنیا میں ہمارا خطہ دو قسم کے بنیادی تعلیمی نظاموں میں تقسیم ہے_ انگریزی (جو دنیاوی علوم کے نام سے مشہور ہے) اور عربی (جو دینی علوم کے نام سے مشہور ہے)- میں انگریزی نظام تعلیم اس لئے کہتا ہوں کہ انگریز سرکار کے غلبہ کے بعد اس نظام کو رائج کیا گیا اور سر سید احمد خان کی حکیمانہ جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے اسے وقت کی ضرورت کے تحت قبول بھی کر لیا جبکہ اس سے پہلے جو نظام تعلیم رائج تھا اس کی بنیاد وہ مسلمان بادشاہ تھے جنہوں نے صدیوں اس زمین پر اپنی حکومت قائم رکھی- اس نظام تعلیم کی بنیاد عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں رائج تعلیم کا سلسلہ تھا اور انہی تین زبانوں اور مقامی سنسکرت و ہندی کے امتزاج کے ساتھ اردو زبان معروف وجود میں آئی جو مسلمانوں کی زبان بن گئی اور اب ایک ورثہ کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں ہے-
انگریزی نظام تعلیم رائج کرنے والوں کی نظر میں یہ ہدف تھا کہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق اسی معاشرے سے امور مملکت چلانے کے لئے افراد مہیا کئے جائیں جبکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کے پیشِ نظر اچھے روزگار کا حصول اور مالی پریشانیوں سے پاک زندگی کا حصول تھا جو آج تک قائم ہے- اسی دور میں عربی نظام تعلیم بھی متبادل کے طور پر چلتا رہا اور ان اداروں کو مدارس کا نام دے دیا گیا جبکہ انگریزی تعلیم کے ادارے اسکول و کالج کہلائے- عربی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی تھی لہذا انہیں دینی مدارس بھی کہا جانے لگا- یہی وہ وقت ہے جب دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم ہوئی- دینی علوم کے مدارس سے فارغ ہونے والے عوام کی دینی ضروریات جیسے نکاح و طلاق، امامت نماز، تراویح و خطبہ جمعہ کو پورا کرنے دھن میں لگ گئے جبکہ دنیاوی علوم نے اچھے کھاتے پیتے مغرب سے متاثر افراد تیار کرنے شروع کر دئے-
انگریزی نظام تعلیم نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو فلٹر اور جذب کرنا شروع کر دیا- گویا اس نظام نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو چنا اور انہیں اپنے نظام کو چلانے کے لئے استعمال کیا- جب معاشرے کے بہترین ذہن انگریزی تعلیم کی طرف چلے گئے تو دینی مدارس کے پاس متوسط یا کمزور اذہان کے طالب علم آئے- البتہ چند استثنائات کو چھوڑ کر-
یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس کے تدارک کے لئے ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے- اگر آج ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ منبر رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں یا تفرقہ بازی کی باتیں ہوتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دینی علوم سے معاشرے کے بہترین اذہان کو دور رکھا گیا ہے بلکہ ان دو نظام تعلیم کی تقسیم نے مہذب اور غیر مہذب افراد کو بھی الگ الگ کر دیا ہے۔
آج کا دور اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک منفرد دور ہے کیونکہ اس دور میں دین شناسی کی تڑپ میں اضافہ ہوا ہے- اس دور میں دینی علوم کے ماہرین سے دینی ہدایت اور راہنمائی طلب کی جا رہی ہے گویا ہدایت کا جو پیغمبرانہ کام تھا اس کا تقاضا کیا جارہا ہے- اب منبرِ رسول سے حکمت و دانش کی باتوں کی امید کی جا رہی ہیں- دینی راہنماؤں سے امت کو لڑانے کے بجائے انہیں جوڑنے کی فرمائش کی جا رہی ہے- دین کی ان تعبیروں کو زندہ کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے جو ایک صاف ستھرے اور مہذب معاشرے کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے-
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں ہمارے ملک پاکستان میں عوامی اور ملکی سطح پر مذہبی رجحان بہت زیادہ بڑھا ہے۔ اس رجحان میں اضافے کی وجہ سے دینی ہدایت اور دینی راہنمائی اور قیادت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے۔
کیا ہمارے آج کے دینی مدارس اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا نفی میں جواب دینے میں شاید ہی کسی ذی فہم کو تامل ہو لیکن اگر ہم اس نظام تعلیم کی اصلاح کر سکیں جس کے ذریعے معاشرے کے بہترین اذہان کو ان علوم کی طرف مائل کر سکیں اور معاشرے کے مہذب گھرانوں کے افراد کی پہلی ترجیح دینی علوم کو بنا سکیں تو شاید یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا- کیونکہ ہدایت کا کام الله تعالیٰ نے ہمیشہ معاشرے کے بہترین انسانوں سے لیا ہے-
دنیاوی علوم کے مقاصد کو بھی صرف اچھے روزگار کے حصول سے موڑ کر کائنات کی حقیقت، اس کی ابتدا و انتہا اور اس دنیا میں ایک سعادت مند زندگی کے معیارات سمجھنے کا ذریعہ بھی بنانا ہو گا- آج کا دور معاشرے کے لئے بابو تیار کرنے کا دور نہیں ہے بلکہ دین فہم ، معاشرہ ساز ہادی بنانے کا دور ہے جو اصل میں انسان کا کام ہے-
تحریر۔۔۔پروفیسر سید امتیاز رضوی
وحدت نیوز (آرٹیکل) لوگ ہنستے رہتے ہیں، بعض تالیاں بھی بجاتے ہیں اور بعض واہ واہ اور سبحان اللہ بھی کہتے ہیں، شیخ رشید جب بلاول بھٹو کو ایک فلمی اداکارہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لوگ ہنستے ہیں، عمران خان جب آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو زلیل اور گھٹیا انسان کہتے ہیں تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور پیر طریقت خادم رضوی جب ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دوسروں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں تو مجمع واہ واہ اور سبحان اللہ کہتا ہے،مسلمانوں کے دینی مدرسوں میں دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے تو لوگ آنکھیں موندھ لیتے ہیں، مشال خان کو یونیورسٹی میں قتل کیا جاتا ہے تو عوام قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ایک فرقے کے اجتماع میں دوسرے فرقے کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو لوگ اچھل اچھل کر نعروں کے جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ظاہر کر رہا ہے کہ ہمارے اجتماعی اورسماجی و سیاسی کلچر کو اب اسی سمت لے جایا جارہا ہے۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ دشمن طاقتیں ایکدم تو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو دینِ اسلام سے بیزار اور متنفر نہیں کر سکتیں لہذا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں سے غیر ت ایمانی کے خاتمے اور حرام کاموں سے نفرت کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔
لوگ جب اپنے سیاستدانوں کی زبان سے نازیبا الفاظ سنتے ہیں تو انہیں اپنی روزمرّہ زندگی میں بھی نازیبا الفاظ کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی اور اسی طرح جب ٹیلی ویژن پر فحاشی دیکھتے ہیں تو عام زندگی حتیٰ کہ اپنے گھرانوں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بے حجابی اور عریانیت سے کراہت محسوس نہیں کرتے۔
آج ایک دم سے لوگوں کا فر نہیں کیا جا سکتا اور حرام کو حلال نہیں کہاجاسکتا لہذا بتدریج لوگوں کے دلوں سے کفر اور حرام کی نفرت کو کم کیا جارہا ہے۔
آج لوگوں کو جہاد سے بیزار کرنے کے لئے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دئیے گئے ہیں اور کفر جیسے لفظ کے وزن کو ختم کرنے کے لئے مشال جیسے بے گناہ طالب علم کو قتل کروا دیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کےمطابق بے حیائی صرف ٹیلی ویژن پر گانے بجنے اور بے حجاب عورتوں کو دیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ گالیاں دینے والے، بداخلاق، شرابی اور بدمعاشوں کا مسلمانوں سے اقتدار کے لئے ووٹ مانگنا بھی سراسر بے حیائی اور فحاشی ہی ہے۔
ہمارے معاشرے کو بداخلاق، بدزبان اور بے حیا لیڈروں کے بجائے شریف ، نیک اور متقی سیاستدانوں کی ضرورت ہے، آج معاشرے میں تو ہر طرف، ظلم، فساد ، بے عدالتی، ذخیرہ اندوزی ، گراں فروشی اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے ایسے میں اگر ہم لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تو شرفا کی زندگی گزار رہے ہیں تو در اصل یہ شرفا کی زندگی نہیں بلکہ بزدلوں کا جینا ہے۔
شرفا کی زندگی یہ ہے کہ معاشرے میں شرافت کا اقتدار ہو ، ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ہو ، لوگوں کو مفت تعلیم ، انصاف اور صحت کی سہولیات نصیب ہوں، بیت المال سے غربا کی کفالت کی جائے، ملک سے بے روزگاری اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو ، نوکریوں میں سفارش اور رشوت کے بجائے میرٹ کا بول بالا ہو۔۔۔
یہ سب آج بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگ تہِ دل سے پیغمبراسلامﷺ کو اپنے لئے سیاست میں بھی نمونہ عمل تسلیم کریں اور ہمارے دانشور اور مفکرین ، دیندار اور متقی لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
پیغمبرِ اسلام ﷺ کی زندگی اور سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے پتھر کھا کر، توہین اور اہانت برداشت کر کے، ہجرت کر کے، اپنے جلیل القدر اصحاب کی قربانیاں دے کر ، اپنے مقدس دانت شہید کروا کر، اپنے زمانے کے مظلومین، دبے ہوئے اور کمتر سمجھے جانے والے لوگوں کو پستی سے نکال کر شریکِ اقتدار کیا۔
آپ نے مظلومین اور محکومین اور غلاموں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر کے انہیں اتنا مضبوط کیا کہ آپ نے ان مظلوموں کے ذریعے معاشرے پر حاکم وڈیروں، قبائلی سرداروں اور گناہ و زنا کے رسیا لوگوں کی طاقت کا طلسم توڑ ڈالا۔
جب سرورِ دوعالمﷺ نے سیاسی تبدیلی کی جدوجہد شروع کی تو آپ کے مقابلے میں جہاں عرب کے متکبر، عیاش اور اوباش بادشاہ اور سردار تھے وہیں ایران اور روم کے بدمعاش بادشاہ بھی تھے۔
آپ نے گالیوں کا جواب گالیوں اور پتھروں کا جواب پتھروں سے نہیں دیا بلکہ اپنے حسنِ اخلاق سے ، بد زبانی، بدکرداری اور بد اخلاقی پر خطِ بطلان کھینچ دیا۔
خودپیغمبر اسلام کا ارشاد ہے : إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق
مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا ہے، اسی طرح قرآن مجید نے آپ ﷺ کے بارےمیں فرمایا ہے :
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ. ''اور بے شک آپ عظیم الشان خلق کے مرتبے پر قائم ہیں،
یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیغمبرﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے اعلی ترین مقصد مکارم اخلاق کی تعمیل ہو اور جس پیغمبرﷺ کو خود قرآن خلق عظیم پر فائز قرار دے ، اس پیغمبر کی امت سے اقتدار کے لئے بدزبان، بدترین، اور بدمعاش لوگ منتخب کئے جائیں۔
آج ہمیں اپنی تمام تر عبادی و سیاسی و اقتصادی زندگی میں اپنے نبی ﷺ کو نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جب پیغمر اسلام نے جہالت قدیم کے عہد میں مستضعفین ، مظلومین اور محکومین کی نجات کے لئے اسلام کا پرچم بلند کیا تھا تو ہر طرف سے فتنوں نے لوگوں کو گھیر رکھا تھا، مادہ پرستی، شراب و کباب، راگ و موسیقی، شہوت رانی، دست درازی اور زنا جیسی سماجی و اخلاقی برائیاں لوگوں میں رچ بس چکی تھیں، بلا روک و ٹوک قبائلی سرداروں اور مالداروں کے ہاتھ غریبوں کی عزت و آبرو پر پڑتے تھے، شعرو شاعری میں عورتوں کو بطور جنس استعمال کیا جاتا تھا اور یہ صورتحال صرف عرب دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ روم و ایران جیسی متمدن اور مہذب کہلاوانے والی اقوام میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، ایسے میں معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے نبیؐ نے جن مشکلات کا سامنا کیا ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
آپ نے اس معاشرے میں جہاں جاہلانہ رسوم و رواج کو بہادری اور عقلمندی کہا جاتاتھا ، آپ نے وہاں پر اپنے آپ کو صادق اور امین کہلوایا، آپ نے کفر اور ضلالت اور ظلم و جہالت کے درمیان اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی اقتصاد ، اسلامی نظام عدل اور اسلامی فوج کو قائم کیا ، آپ نے مشرق و مغرب کی مخالفت مول لے کر بڑے بڑے بادشاہوں کو اسلام کے قبول کرنے کی دعوت دی ۔آج جہالت جدید کے عہد میں بھی ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اور پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر وہی کچھ دہرا یا جا رہا ہے ۔
اس سماجی ابتری، معاشی ناانصافی، قبائلی مظالم، دینی اجارہ داری اور موروثی سیاست کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک ہی راہ ِ حل ہے کہ ہم ان بدترین حالات میں صرف اور صرف اپنی نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور صرف انہیں لوگوں کو ووٹ دیں جن کا کردار اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ وہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے نقشِ قدم اور اسوہ حسنہ پر چلنے اور عمل کرنے والے ہیں۔
متوقع الیکشن میں سیاسی بیداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ ختم النبیین ﷺ ہی ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کی حکمت کاتقاضا ہے کہ کائنات کی خلقت با ہدف اور بامقصد ہو کیونکہ فاعل حکیم سے کسی بھی فعل کاکسی مقصداورمعقول ہدف کےبغیر سرزد ہونا محال ہے۔قرآن مجید کی آیتوں سےیہ بات واضح طور پر ثابت ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنہَمَا لَاعِبِين}1اور ہم نے آسمان ،زمین اور ان کے درمیان کی تما م چیزوں کو کھیل تماشے کے لئے نہیں بنایاہے ۔{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنہَمَا بَاطِلا}2اور ہم نےآسمان ،زمین اوران دونوں کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔مذکورہ آیات نیز ان سے مشابہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نےکائنات کو بیہودہ خلق نہیں کیا ہے بلکہ کائنات کی تخلیق حکیمانہ طور پر ہوئی ہے ۔ قرآن کریم کی بعض آیتوں میں صراحتا بیان ہوا ہے کہ کائنات کی خلقت انسانوں کے لئے ہوئی ہے جیساکہ ارشاد ہوتاہے : {ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فی الْاَرْضِ جَمِيعًا}3خدا وہ ہے جس نے زمین کے اندرموجود تمام ذخیروں کوتم ہی لوگوں کے لئےپیدا کیا ہے جب کہ انسان کی خلقت کا مقصد آخرت ہے ۔ جیساکہ ارشاد ہوتاہے :{أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَ أَنَّکُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون}4کیا تم نےیہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکارپیدا کیا ہےاورتم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاوٴ گے؟جبکہ کمال مطلوب، خدا کی عبادت و بندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتاہے:{وَ مَا خَلَقْتُ الجْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون}5میں نے جنات اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔
خداوند متعال کی حکمت اور عدل کا تقاضا ہے کہ انسان پرجن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان میں وہ آزاد وخود مختار ہوکیونکہ انسان پر ایسے کاموں کی ذمہ داری ڈالنا جواس کی طاقت اور توان سے باہر ہو ،غلط ہے جیساکہ کسی کو ایسے کام کی سزا دینا جس کے ترک کرنے پر وہ قادر نہ ہو۔ یہ سزا دینےکے معاملے میں عدل خداوند ی کے ساتھ منافات رکھتا ہے ۔قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{إِنَّا ہَدَيْنَاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا کَفُورًا}6یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے ۔ انسان شکر گذار بنے یا کفران نعمت کرنےوالا یہ انسان کے آزاد و خود مختار ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں کے غلط تصور کے بارے میں جو قضا وقدر الہیٰ کو مستلزم جبر قرار دیتے تھے ،فرماتے ہیں :{ و لو کان کذلک لبطل الثواب و العقاب،والامروالنہی، ولسقط معنی الوعدوالوعید}7اگر انسان کوکسی کام پر مجبور کیاجائے تو اس صورت میں امر و نہی، وعد و عید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔
کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا : کیا خدا نے انسان کو مختلف کاموں پر مجبور کیا ہے ؟امام ؑنے فرمایا:خداوند متعال عادل ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کرے پھراسے اس کی سزا بھی دے ۔8
انسان کے مختار ہونے کو درک کرنے کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کی مختلف حالتوں پر غور و فکر کرےنیز دیکھے کہ وہ اپنے کاموں کے بارے میں خود فیصلہ کرتا ہے کیونکہ انسان کاضمیر اس امر کی گواہی دیتاہے کہ وہ کسی کام کے انجام دینے یا ترک کرنےمیں سےکسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود وجودی لحاظ سے وہ خود مختار نہیں ہے بلکہ اپنے وجود میں محتاج ہے ۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایتوں میں مذکورہ مطالب { یعنی انسان کے آزادا ور مختارہونے نیز وجودی لحاظ سے وابستہ ہونے}کی تعبیر {امر بین الامرین} سے ہوئی ہے ۔ امرین سے مراد ایک طرف سےنظریہ جبر اور دوسری طرف سے نظریہ تفویض ہیں ۔یعنی نہ انسان کے مجبور ہونے کا عقیدہ صحیح ہے اورنہ تفویض کا بلکہ صحیح نظریہ [الامربین الامرین] کا نظریہ ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لاجبرولا تفویض بل امر بین الامرین}9نہ جبردرست ہے اور نہ تفویض بلکہ ان دو امور کے درمیان ایک تیسری چیز۔ انسان کی آزادی و اختیار ایک واضح سی حقیقت ہے جسے مختلف طریقوں سے درک کیا جا سکتا ہے ۔
الف: ہر انسان کا ضمیر و وجدان اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ کسی بھی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے میں سے کسی ایک کو انتخاب کر سکتا ہے اوراگر کوئی شخص اس واضح و مسلم ادراک کے بارے میں بھی شک و شبہ کرے تواسے کسی بھی واضح حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔
ب:انسانی معاشرے میں مختلف افراد کے سلسلے میں کی جانی والی تعریف و تمجید یا ملامت و مذمت {دینی و غیر دینی} اس بات کی دلیل ہے کہ تعریف یا مذمت کرنے والا شخص فاعل کو اس کے افعال میں مختار جانتاہے ۔اگر وہ کسی کام پر مجبور ہو تو تعریف اور مذمت کرنے کاکوئی معنی نہیں بنتا۔
ج: اگر انسان کی آزادی و اختیار کی حقیقت کونظرانداز کیا جائے توشریعت کا نظام بیہودہ و بے ثمر ہو گا کیونکہ اگر انسان اس امر پر مجبور ہو کر وہ اس راہ پر چلے جواس کے لئے قبل از وقت معین ہو چکی ہے اور اس سے ذرہ برابر تجاوز اور خلاف ورزی نہیں کر سکتا تو اس صورت میں امر و نہی،وعد ووعید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔
د:تاریخ انسانیت میں ہمیں ایسے انسان ملتےہیں جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس کے نتائج بھی حاصل کئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ امر انسان کے مجبور ہونے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا ،کیونکہ جبر کی صورت میں یہ ساری جد و جہد بیہودہ و بیکار ہوں گے ۔بنابریں انسان ہر کام اپنے اختیارو ارادہ کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ 10
لغت میں قضاحتمیت و قطعیت اور قدر اندازہ و مقدارکے معنی میں ہے ۔11
قضا وقدر اسلام کے قطعی اور ناقابل تنسیخ عقائد میں سےایک ہے جس کاذکر قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :{ إِنَّاکل كُ شَیءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَر}12
بےشک ہم نے ہر شئے کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے ۔
کبھی یہ خیال کیا جاتاہے کہ قضاو قدرپر عقیدہ رکھنا انسان کے مختار و آزاد ہونے کے ساتھ منافات رکھتاہے لیکن اس مسئلے پر غور وفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قضا و قدر کا لازمہ انسان کا مجبور ہونا نہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ انسان کا مختار و آزادہونا خود قضا وقدر کی تجلی ہے کیونکہ قدر الہیٰ یہی ہے کہ وہ ہر موجود کو کچھ خاص شرائط اور اندازے کے ساتھ خلق کرتا ہے جبکہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کے انتخاب اور انجام دینے میں آزاد ومختار ہے ۔قرآن کریم اس بارےمیں ارشاد فرماتا ہے:{ وَ الَّذِی قَدَّرَ فَہدَی}13
جس نے تقدیر معین کی اور پھر ہدایت دی”۔ یعنی تقدیر الہیٰ کا لازمہ ہدایت ہے اور انسان ہدایت تکوینی کے علاوہ ہدایت تشریعی کا بھی حامل ہے جبکہ ہدایت تشریعی کی بنیاد انسان کے مختار اور آزاد ہونے پر ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{إِنَّا ہَدَيْنَاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا
کَفُورًا}14
یقینا ہم نےاسے راستے کی نشاندہی کی ہے چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والابن جائے ۔
قضائےالہیٰ سے مراد یہ ہے کہ کائنات پر کچھ اٹل ،ناقابل تغییراور قطعی قوانین حاکم ہیں جبکہ انسان کی زندگی پر حاکم دائمی اور حتمی نظام یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں اپنے علم وارادےسے انجام دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب انسان کسی کام کے کرنے کےبارےمیں قطعی فیصلہ کرتا ہےاور اس حوالےسےکوئی مانع بھی نہ ہوتو وہ کام حتما انجام پاتا ہے۔لہذا یہ قطعیت انسان کےاپنےاختیار سے وجود میں آئی ہے جو کسی بھی طریقے سے قضاءکے ساتھ منافات نہیں رکھتی ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :قدر کے معنی کسی چیز کا بقاء و فنا کے لحاظ سے اندازہ کرنا ہے اور قضا سےمرادکسی چیز کی قطعیت و حقیقت حاصل ہونا ہے ۔15
مذکورہ مباحث سے واضح ہوا کہ علم ازلی اور ارادہ ازلی دونوں قدرت و خالقیت الہیٰ کی طرح کسی بھی طریقے سے انسان کےمختار ہونےکے ساتھ منافات نہیں رکھتے۔کیونکہ خدا کا ازلی ارادہ اور علم،انسان کے ان افعال سے تعلق پیدا کرتےہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے انجام دیتا ہے ۔خداوند متعال کی خالقیت و قدرت حکیمانہ و عادلانہ ہیں جو کبھی بھی انسان کے اختیاری نظام کو تبدیل نہیں کرتیں کیونکہ یہ عدل و حکمت الہیٰ کے مطابق ہے ۔ قضا وقدر اور ان جیسے مسائل کی جزئیات کی وضاحت ان افراد کےلئے جو ایسے سخت مسائل کو درک کرنےیاسمجھنے کی صلاحیت وقدرت نہیں رکھتے، ضروری نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایسےافراد اپنےعقیدے کے بارے میں غلط فہمی اور شک و تردید سے دوچار ہوجائیں ۔اسی بناپر حضرت علی علیہ السلام ایسےافراد سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{طریق مظلم فلا تسلکوہ ،وبحرعمیق فلا تلجوہ وسر الله فلاتتکلفوہ}یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلیں،یہ ایک عمیق سمند ر ہے اس میں غوطہ زن نہ ہو جائے یہ ایک سرالہی ہے اسے کشف کرنے کے لئے اپنےآپ کو زحمت میں نہ ڈالے ۔16
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔انبیاء ،16۔
2۔ص،27۔
3۔بقرۃ،29۔
4۔مومنون،115۔
5۔ذاریات،56۔
6۔انسان،3۔
7۔توحید شیخ صدوق ،باب قضاوقدر ،روایت 28۔
8۔توحیدشیخ صدوق ،باب نفی جبر و تفویض،روایت 6۔
9۔بحار الانوار ،ج5،ص57۔
10۔جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ ،ص 151۔
11۔مقائیس اللغۃ ج2 ص63۔مفردات راغب ،مادہ قضا و قدر۔
12۔قمر،49۔
13۔اعلی ، 3۔
14۔انسان،3۔
15۔اصول کافی،ج1،ص 158۔
16۔نہج البلاغۃ،کلمات قصار،287۔
وحدت نیوز( آرٹیکل)تاجربہت اداس تھا، طوطا بھی پریشان ہوگیا، اس نے پنجرے میں اپنے پر پھڑ پھڑائے، پنجرے کی سلاخوں کو چونچ سے ٹھوکریں ماریں، لیکن تاجر اس کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔ ننھا طوطا یہ سمجھ گیا کہ اس کا مالک اس سے آنکھیں چرارہا ہے، شام کو تاجر گھر لوٹا تو پھر وہی منظر تھا، تاجر کی ا داسی اور طوطے کی پھڑ پھڑاہٹ۔
بالآخر طوطے نے مالک سے اداسی کی وجہ پوچھی، مالک نے گھبراتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھا، ماتھے سے پسینہ صاف کیا، اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا کہ میاں مٹھو! تمہارے لئے بہت بری خبر ہے میرے پاس۔
طوطے نے کہا وہ تو میں جان ہی چکا ہوں ، کئی دنوں سے آپ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہا ہوں، اب بتا بھی دیجئے!
تاجر نے کانپتے ہوئے بدن اور لرزتی ہوئی زبان سے جواب دیا کہ تمہارے نقشے کے مطابق جب میں فلاں باغ میں پہنچا تو وہاں تو عجب منظر تھا، ہرطرف چہک مہک تھی، سبزہ ہی سبزہ اور سبزے میں رنگ برنگے طوطے، میں نے اُن طوطوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اے فطرت کی رنگینیوں اور کائنات کے حُسن سے لطف اندوز ہونے والے آزاد پرندو تمہارے لئے فلاں علاقے کے فلاں تاجر کے پنجرے میں قید ایک طوطے نے سلام بھیجا ہے۔۔۔
یہ سُن کر پنجرے میں قید طوطے نے ٹھنڈی آہ لی اور مالک سے پوچھا پھر کیا ہوا!؟
مالک نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنتے ہی سارے طوطے درختوں سے نیچے گر گئے اور ہرا بھرا باغ سنسان ہوگیا۔یہ سننا تھا کہ پرندے میں قید طوطے نے غم سے چیخیں ماریں اور پنجرے کی سلاخوں سے سر پٹخ کر وہیں مر گیا۔
تاجر کے غم اور دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا، اس نے طوطے کو پنجرے سے نکالا اور دور پھینک دیا ، طوطے نے فوراً اڑان بھری اور درخت پر جاکر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو کہنے لگا آزادی مبارک۔
اس حکایت سے ان گنت نتائج لئے جاتے ہیں، ان نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ کسی کو جب قیدی اور غلامی سے نجات چاہیے ہوتو اس کے سامنے ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل موجود ہونا چاہیے جس کے عمل کے مطابق عمل کر کے غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔
پنجرے میں قید طوطے کے لئے باغ کے آزاد طوطوں نے ایک عملی پیغام بھیجا تھا جس پر عمل کر کے اس نے بھی آزادی حاصل کی۔ آج ہمارا ملک ، ہماری قوم ، اقتصادی، ثقافتی،سائنسی،تعلیمی اور سیاسی غلامی میں گرفتار ہے، کیا ان طرح طرح کی غلامیوں سے ہمارے یہ سیاستدان ، ہمیں نجات دلائیں گے! کیا ہمارے یہ سیاستدان ہمارے لئے رول ماڈل اور نمونہ عمل ہیں اور اِن کے نقشِ قدم پر چل کر ہم کوئی مثبت تبدیلی حاصل کریں گے!؟
کیا آنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ لیڈر ہمارے ملک میں تبدیلی لائیں گے!؟
اتنی لاشیں اٹھانے اور اتنی غربت و فقر کاٹنے کے باوجودکیا ہم نے ابھی تک دینِ اسلام کی طرف لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا!؟ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق پیغمبرِ اسلام ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور پیغمبرِ اسلام کے اسوہ حسنہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آزادی و خودمختاری کے ساتھ جینا ،دنیا کے ہرانسان کا بنیادی اور فطری حق ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی کہتے کسے ہیں؟
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کلین شیو کی جگہ داڑھی والا اقتدار میں آجائے، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض والا اسمبلی میں پہنچ جائے،انگلش کی جگہ اردو بولنے والا الیکشن میں جیت جائے، سرخ رنگ کے پرچموں کی جگہ سبز رنگ والے پرچم چھا جائیں تو یہ سب ہماری سادگی اور کم فکری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تبدیلی کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں، یہ سب کچھ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک کمرے میں کبھی سرخ رنگ کریں، کبھی سفید کریں، کبھی سیاہ کریں اور کبھی نیلا کریں لیکن اس سے کمرہ کشادہ ، کھلا اور آپ کی ضرورت کے مطابق وسیع نہیں ہو جائے گا۔
کمرے کے رنگ بدلنے سے کمرے کی گولائی، چوڑائی اور لمبائی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔آج ہماری سیاسی پارٹیاں حقیقی معنوں میں دیانت، شرافت، صداقت اور عدالت کھو چکی ہیں، ہر طرف لوگوں کے جذبات سے کھیلنے،بے اصولی اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کا چلن ہے۔
ایک طرف جماعتوں کے سربراہ مشال خان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف جماعت کے سرکردہ لوگ اور کارکنان قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، ایک طرف تعلیمی اداروں میں اسلامی کلچر کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور دوسری طرف نعرے لگانے والوں کے ہاسٹلوں کے کمروں سے دہشت گرد برآمد ہوتے ہیں، ایک طرف تبدیلی اور غیر موروثی سیاست کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے ۔
بحیثیتِ قوم یہ لوگ ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں بلاتفریق تعصب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسلامی تعلیمات میں تبدیلی کے تین بنیادی عناصر ہیں:
۱۔ تمام بیت المال، زمینی، معدنی اور آبی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھا جائے
۲۔ تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے
۳۔ تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق ہر طرح کی دینی و مذہبی آزادی دی جائے اور کسی کی دل آزاری نہ کی جائے
جب ہمارا سیاسی و مذہبی طبقہ تمام بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھے گا تو پھر امریکہ کے مفاد کے لئے بیت المال سے پیسہ دے کر لوگوں کے بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ نہیں دے گا۔
جب معدنی اور آبی زخائر کو اللہ کی ملکیت سمجھا جائے گا تو کسی صوبے کا حق نہیں مارا جائے گا، جب تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے گا تو پھر موروثی سیاست کا تصور ہی ختم ہوجائے گا اور کوئی وڈیرہ ، کوئی بدمعاش اور کوئی لٹیرا لوگوں پر زبردستی حکومت نہیں کر سکے گا ، اسی طرح جب تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دی جائے گی تو کوئی مذہبی پنڈت کسی کی تکفیر نہیں کرے گا اور کوئی کسی کی عبادت گاہ کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔
آج ہمارے ہاں بنیادی مسائل ہی یہ تین ہیں، بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھنے کے بجائے ہمارے سیاستدان امریکہ اور یورپ کی امانت سمجھتے ہیں، اور ان قومی وسائل اور ذخائر سے اسلام کے دشمنوں کی خدمت کرتے ہیں جیسا کہ ٹرمپ نے صرف سعودی عرب کے ایک دورے میں اربوں کے تحائف حاصل کئے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کا بندہ سمجھنے کے بجائے اپنے اپنے خاندان ، شخصیات، پارٹیوں اور تنظیموں کا بندہ، غلام اور نوکر سمجھا جاتا ہے اور مختلف قسم کے پروپیگنڈوں کے ذریعے لوگوں کو باقاعدہ ذہنی غلام بنایا جاتا ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دینے کے بجائے اپنے فرقے یا پارٹی کو مسلط کرنے کے لئے ساری حدود پھلانگ دی جاتی ہیں ۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی میں ایک فرقے کے لیڈروں نے ایک دوسرے فرقے کو دبانے کے لئے خود اپنے مدرسے کو آگ لگا دی اور اپنے لوگوں کو قتل کردیا۔
جب اس طرح کے مذہبی اور سیاسی لیڈر ہم پر حاکم ہیں تو اس وقت اس قوم کے سمجھدار اور باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو بیدار اور خبردار کریں۔
جوخوددوسروں کولوٹ کر کھاتے ہیں، جن کی زبان پر گالیاں ہیں ، جن کے دامن پتھروں سے بھرے ہوئے ہیں، جن کے دماغوں میں سازشیں اور فتنے ہیں،جن کی سوچوں میں تعصب ہے، جو فرقے اور صوبے کے نام پر بھائی کو بھائی سے لڑوا کر اور ایک دوسرے کو گالیاں دے کر نیز عوامی جذبات کو بھڑکا کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اُن سے کسی تبدیلی کی امید رکھنا حماقت ہے۔
ہمیں ابھی سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ا ٓنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ سیاسی و مذہبی لیڈر ہمارے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے، ہم سب کو ان سب کا متبادل سوچنا ہوگا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) فتح اور شکست واضح ہے، فاتح کون ہے اور مفتوح کون !؟ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے کون نکلا تھا اور کسے اب مشرقِ وسطیٰ سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا!؟ کون ہے جس کے گلے میں شام ایک ہڈی بن کر اٹک گیا ہے اور عراق کے انگور اس کے لئے کھٹے ثابت ہوئے ہیں!؟
عوام، اقوام ، قبائل ، ممالک اور تنظیموں کے درمیان نفرتیں بانٹ کر ، انہیں تقسیم کرکے اسلحہ سازی اور اسلحہ فروشی کے دھندے میں اب مندے کا رجحان ہے۔
وہ زمانہ گزر گیا جب دنیا میں امریکی منصوبوں پر بلا چون و چرا عمل ہوتا تھا اور ہر طرف امریکی اسلحے کی دھاک جمی ہوئی تھی ، اب دنیا میں تقسیم کرو، لڑاو اور جھگڑے اور تنازعے کھڑے کر کے چودھری بننے کا تصور مسترد ہوتا جا رہا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی اب لوگوں نے امریکہ کے بارے میں سوچنا اور بولنا شروع کردیا ہے، وہ پاکستان جہاں گزشتہ تقریبا چار دہائیوں سے لوگوں کے درمیان نفرتیں تقسیم کی گئیں، اسلحہ بانٹا گیا، کافر کافر کے نعروں کی ترویج و اشاعت کی گئی، بھائی کو بھائی کا دشمن بنانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے لیکن اب پیغامِ پاکستان نامی فتویٰ اس بات پر شاہد ہے کہ پاکستان میں بھی لوگوں نے ان نفرتوں، تعصبات اور فرقہ بندیوں کو رد کرنا شروع کردیا ہے، اور ایسا ہی افغانستان میں بھی ہو رہا ہے۔
عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ سی پیک کے نام سے خطے میں اقتصادی انگڑائی بھی سونے پر سہاگہ ہے۔ یعنی مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا گرتا ہوا اسلحے کا کاروبار جنوبی اور مغربی ایشیا میں بھی کچھ دیر کا مہمان ہے۔
جنوبی اور مغربی ایشیا میں اسلحہ فروشوں کے لئے کشمیر کا ایشو سب سے زیادہ سود مند ہے۔یہ حقیقت اب کشمیریوں سمیت پاکستان اور ہندوستان بھی جان چکے ہیں کہ کشمیر کا حل جنگ میں نہیں ہے۔ جب جنگ کا آپشن ہی کم رنگ ہوا جاتا ہے تو پھر اسلحے کی دوڑ پر بھی اس کا اثر پڑنا یقینی ہے۔
مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے !؟ اس پر اب پاکستان ، کشمیر اور ہندوستان کے مقتدر حلقوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں اسلحہ فروش مافیا یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مسئلہ کشمیر سے جنگ کا آپشن ختم کیا جائے تا ہم اب اس سچائی سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مثبت پیشرفت کر کے اور غیر ضروری کشیدگی کو کم کر کے ہندوستان بھی سی پیک کے منافع میں شریک ہو سکتا ہے۔چونکہ بلاشبہ سی پیک منصوبہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو ایک مضبوط اقتصادی لڑی میں پرو سکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر مثبت پیشرفت کی صورت میں خطے کے تمام ممالک خصوصا ہندوستان کے اقتصاد کو بہت تقویت مل سکتی ہے۔اگرچہ چین اور بھارت کے درمیان بھی گاہے بگاہے کشیدگی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن یہ اس طرز کی کشیدگی نہیں کہ سی پیک کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔
اگر معاملات کو دور اندیشی کے ساتھ طے کیا جائے تو چینی مال بردار ٹرک واہگہ بارڈر اور کچھ دیگر پوائینٹس سے ہندوستان کا سفر بھی کر سکتے ہیں اور افغانستان، ایران، بھارت، پاکستان اور چین مل کر خطے میں ایک بہت بڑی مشترکہ اقتصادی تبدیلی لا سکتے ہیں، ایک ایسی تبدیلی کہ جس سے اسلحے کی دوڑ اور دشمنی کے فروغ کے بجائے اقتصادی ترقی کی راہیں کھلیں اور ہمسایہ ممالک کے دیرینہ مسائل کے حل کا موقع بھی ہاتھ میں آئے یوں اس طرح خطے سے اسلحہ فروشوں کا اثرو رسوخ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
مشترکہ ترقی کے اس خواب اور سفر میں مسئلہ کشمیر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، اگر ایشیائی ممالک دور اندیشی کامظاہرہ کریں تو جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں اسلحہ فروشوں کے منصوبوں کو خاک میں ملایا جا سکتاہے اسی طرح ایشیا کو بھی اسلحے کی دوڑ سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
لہذا کشمیر، پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک خصوصا ایران اور چین کے اکابرین کو بھی چاہیے کہ وہ علاقائی مسائل کے اعتبار سے اپنے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی اوّلین ترجیح میں رکھیں۔مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر اس خطے میں کوئی مشترکہ دیرپا منصوبہ بندی ، بڑی اقتصادی تبدیلی یا پیشرفت ممکن نہیں۔
ایشیا میں ایک مشترکہ اور بڑی اقتصادی تبدیلی اور خوشحالی کے لئے ایشیا کے باشندوں خصوصا مفکرین اور دانشمندوں کو تمام باہمی مسائل خصوصا مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔
تاریخ بشریت کا یہ واضح درس ہے کہ نفرت کی آغوش میں بیٹھ کرمحبت کے زائچے بنانے والوں کو وصال نصیب نہیں ہوا کرتا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.