وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیس ویں صدی کی دنیا دو عالمی جنگوں اور پھر سرد جنگ کے بعد وہ نہیں رہی تھی جو انیس ویں صدی یا اس سے پہلے تھی ،بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نے دنیا کو یکدم بدل کررکھ دیا اور ایران میں آنے والے انقلاب کہ جس کی بنیاد مذہبی تھی نے اس بدلتی دنیا پر اپنے منفرد انداز کے گہرے نقوش مرتب کرنا شروع کردیئے۔لیکن اکیسویں صدی ،خاص کر اس کی پہلی دہائی کے بعد بین الاقوامی سطح پر جس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہورہی ہیں وہ بھی یقینا اپنے اندر بالکل ہی انفرادیت کی حامل ہیں ۔اب دنیا کسی ایک بڑے ملک یا طاقت کے زیر اثر نہیں رہی ہے اور نہ ہی کسی ایک بلاک یا دو بلاکوںکے کنٹرول میں ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔
آج کی ہماری دنیا اس حوالے سے کثیر قطبی (ملٹی پولر)بنتی جارہی ہے جس کی اہم وجہ سامراج ازم کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن تو دوسری جانب ان کے مدمقابل وجود میں آنے والی نئی طاقتیں جیسے روس ،چین تو دوسری جانب انتہائی اثر رسوخ اور موثر کردار کے حامل ممالک جیسے ایران ،جنوبی افریقا ،ترکی اور برزایل وغیرہ نے بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن کو ہر پہلو سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔گرچہ ایران کو اس کے اتحادیوں (مزاحمتی بلاک)کے سبب بہت سے دانشور اور تجزیہ کار روس اور چین کے بعد تیسرے درجے پر قراردیتے ہیں خاص کر مشرق وسطی جیسے انتہائی اہم اور زرخیز علاقے میں ایران کا مضبوط کردار اسے انفرادیت ضرور دیتا ہے ۔
خیال ظاہر کیا جارہاہے کہ چند قوتوں یا کثیر قطبی ( ملٹی پولر)موجودہ عالمی صورتحال کا تسلسل باقی رہے گا گرچہ بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے سبب دنیا میں بے چینی اور تصادم کے خطرات میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہے گا لیکن ہمارے خیال میں بے چینی اور تصادم کے خطرات کی اصل وجہ کثیر قطبی کو قرارد دیناکچھ زیادہ درست تجزیہ نہیں لگتا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خود کوعالمی طاقت کا تنہا مرکز ومحور سمجھنے والی سامراجی ( امپیریلزم )قوتوں کے ہاتھوں سے لمحہ بہ لمحہ سرکتی بساط کے سبب پیداہونے والی صورتحال ہے جو کہیں بے چینی تو کہیں تصادم کی شکل میں سامنے آرہی ہے ۔
امریکی برتری میں کمی ۔
امریکہ جوکہ دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد واحد عالمی قوت کے طور پر خودکو پہچنوا رہا تھا گذشتہ قریب ایک دہائی سے بری طرح اپنی برتری کو باقی رکھنے کی کوششوں میں ہے لیکن مسلسل اس کی طاقت اور اثر رسوخ میں کمی ہوتی جارہی ہے ۔بارک اوباما کے دور میں ہم امریکی بے بسی اور پریشانی میں اس کی عالمی سطح پر گرتی ہوئی پوزیشن اور کم ہوتا کنٹرول کو دیکھ سکتے ہیں کہ خود اوباما کا کہناتھا کہ امریکہ پس پشت رہ کرمسائل کو ہینڈل کرنے کی کوشش کرے گا مطلب واضح تھا کہ امریکہ سامنے آکر فرنٹ لائن میں کھیلنے کی پوزیشن نہیں رکھتا ۔اوباما کی اس پالیسی کے بارے میں بہت سے امریکی تجزیہ کار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ایک کمزور،گومگو اور ناکامی اورز وال کے شکار ہوتے ملک کی پالیسی ہے ۔بین الاقوامی سطح پرامریکہ کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک مسلم امہ کے درمیان انتہائی اہم و منفرد اتحادی سعودی عرب کو بھی اوباما کی اس پالیسی کے بارے میں کہنا پڑا کہ’’ امریکہ اب اپنے اتحادیوں کو چھوڑ رہا ہے ،وہ پہلے جیسا مددگار اور پشت پناہ نہیں رہا ،اس نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے ‘‘۔
ظاہر ہے کہ اوباما کی پالیسیاں خود اس کی اپنی ذاتی پالیسی تو ہرگز نہیں تھی بلکہ یہ جارج ڈبلیوبش کی پالیسیوں خاص کر عراق و افغانستان پرحملہ کے نتائج اور سن دوہزار چھ ،آٹھ اور نو میں لبنان،فلسطین کے علاقہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ناکامی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال تھی تو دوسری جانب اسی دوران سن دو ہزار آٹھ میں امریکی معیشت بھی شدید بحران کا شکار رہی ہے ۔اس دوران میں گرچہ جارج دبلیوبش نے کوششیں تو بہت کیں کہ امریکی پوزیشن کو روس چین ،ایران ،ترکی جنوبی افریقہ اور برازیل کے حوالے سے برقرار رکھے لیکن لاطینی امریکہ اور ایشیا میں حریت پسندتحریکوں اور مزاحمتی موومنٹس ،عرب ممالک میں پیداہونی والی عوامی تحریکیں ایک چلینج بن کر سامنے آگئیں ۔
یقینا ان حالات نے بھی اوباما انتظامیہ پر بہت دباو ڈالا ہواتھا یہاں تک کہ اس کے اثرات کو اوباما کے بعدامریکی انتخابات میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نے امریکہ جیسے ممالک کی اندرونی ساخت اور اسٹریکچر ،پالیسیز اور اداروں میں موجود بے یقینی اور تضادات کو مزید واضح کردیا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابات میں کامیابی در حقیقت امریکی پالیسیوں کی فرسودگی کو ظاہر کرتی ہے ۔ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے وقت پہلے سے اندرونی طور پر منقسم امریکی معاشرہ اور ریاستی ادارے ایک ایسے صدر کا سامنا کررہے تھے جو بذات خود نفسیاتی طور پر ایک ایسا بے چین شخص کے طورپر سامنے آیا ہے کہ ایک طرف جہاںریاستی معاملات کو چلانے کے لئے جرنیلوں کا سہارا لیتا ہے تو دوسری جانب اندرونی طور پر امریکی روایتی پالیسی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے کئی قسم کے محاذ کھڑا کردیتا ہے ۔وہ نہ تو نہ تو میڈیا کے ساتھ معاملات اچھے رکھ پارہا ہے اور نہ ہی خود اپنے ایڈوائزروں کے ساتھ اس کی بنتی ہے ۔ٹرمپ کے دور اقتدار میں اٹھائے گئے بہت سے اقدامات یکے بعد دیگر شکست کا سامنا کررہے ہیں ،خواہ پناہ گزینوں کا معاملہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ ہونے والی ڈیل کا معاملہ ٹرمپ کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔
ٹرمپ نے مشرق وسطی میں مسلسل امریکن پالیسی کی ناکامی کو سہارادینے کی خاطر ایک بڑی چھلانگ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 53ممالک کے اجلاس سے خطاب کیا جو در حقیقت روس، ایران ،حزب اللہ اور حماس (یعنی مزاحمتی بلاک )کیخلاف اظہار قوت کرنا اور مشرق وسطی میں اپنے دوستوں کو تحفظ کا احساس دلانا تھا لیکن یہ تمام تدبیریں اس وقت الٹی پڑ گئیں جب امریکی اتحادی خود دست و گریباں ہوئے اور قطر کیخلاف سعودی عرب ،امارات بحرین اور مصر نے محاذ کھڑا کردیا ۔ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے ایک بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی اور اس کوشش کو ’’تاریخی معاہدہ‘‘اورـ’’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘‘ کا نام دیا لیکن یہ کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہیں باوجود اس کے کہ اپنے دو اہم ایڈوائزوںجیراڈ کاونجراور جیسین گرین پلاٹ کی دیوٹی لگائی کہ وہ اسے جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچائیں۔ان کے ایڈوائزر محمود عباس ،نیتن اور سعودی عرب کے درمیان بڑے چکر کاٹتے رہے لیکن ان چکروں کا کوئی بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا کیونکہ ٹرمپ محمود عباس سے یہ ڈیمانڈ کررہا تھا کہ غزہ پٹی میں حماس کے کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے ،جو اس پر توانائی سے زیادہ بوجھ تھا ،یہاں تک کہ ٹرمپ کودرمیان میں مصر کو لے آنا پڑا اورخود محمود عباس سے براہ راست یہ کہنا پڑا کہ غزہ والوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے پائیں وہ مصر کے چینل کے ذریعے انجام پانے چاہیے اور یوں فتح اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ غزہ ایک حد تک تنہائی سے نکل آیا اور فتح کی جانب سے غزہ کے لئے موجود روکاوٹیں ختم ہوئیں، فلسطینی دو گروہوں کے درمیان موجود کشیدگی کسی حدتک کم ہوئی لیکن اب اس کے بعد اگلا مرحلہ کیا ہوگا اور کیا اس کی شکل صورت ہوگی؟کیونکہ اس معاہدے کا مقصد غزہ پٹی کی عوام ریلیف دینا تو نہیں ہرگز نہیں تھا۔یہ وہ اہم سوال ہے کہ جس کے جواب کی تلاش ہمیںیہ بتلا رہی ہے کہ مشرق وسطی اور عالمی سطح پر ایک نئی بے چینی پیدا ہورہی ہے کیونکہ دونوں گروہوںکے درمیان اس بات پر اتفاق تو ہوا کہ ایک ہی حکومت ہوگی اور غزہ والے خود کو مکمل طور پر رام اللہ کی اتھارٹی یعنی محمود عباس کے کنٹرول میں دینگے لیکن غزہ میں موجود مزاحمتی تحریک اپنا اسلحہ،زیر زمین خندقوں اور گذرگاہوںکے ساتھ برقرار رہے گی ۔ٹرمپ اسرائیل کے کہنے پر جس اصل چیز کی تلاش میں تھا وہ اب بھی اپنی جگہ پر اسی طرح باقی تھی یعنی تحریک مزاحمت کا وجود،اس کی طاقت ،اس کا اسلحہ کہ جس کے خاتمے کے لئے یہ ساراجال بنا گیا تھا۔
ٹرمپ کے سامنے موجود مسائل کی فہرست طویل ہے کہ جہاں ہر قدم اسے یہ احساس دلارہا ہے کہ امریکہ اب تنہا قوت نہیں رہا ہے ،شمالی کوریا کے میزائل و ایٹمی پروگرام ہو یا پھر ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل کا خاتمہ ،داعش کیخلاف اس کی جنگ کے نعرے ہو ںیا پھر حزب اللہ، حماس اور ایران اورچین و روس کے بڑھتے اثر روسوخ کیخلاف اس کی محاذ آرائی کی کوششیں ۔یہاں تک کہ ٹرمپ اپنے ہی اتحادیوں کے ہاتھوں بھی بری طرح شکست کا سامنا کررہا ہے عالمی ماحولیات اور ایرانی ایٹمی معاہدے میں اسے یورپ کی شدید مخالفت کا سامنا ہے تو نیٹو کے مسئلے پر اب بھی تنازعہ باقی ہے،اکتوبر میں ٹرمپ کی جانب سے ایران اور لبنانی جماعت حزب اللہ کیخلاف پارلیمنٹ سے چار قوانین کو منظور کرایا گیا جسے کسی بھی وقت سینٹ میں پیش کیا جانا ہے یہ چار قوانین ایران کے بلیسٹک میزائل پروگرام ،عام انسانوں کو ڈھال کے طور استعمال کرنا( بطور ہیومن شیلڈ)، مالی امدادکو روکنا اور لبنانی جماعت حزب اللہ کو مکمل طور پر دہشتگردی کی لسٹ میں شامل کرنا ہے ،واضح رہے کہ اس سے قبل امریکہ نے حزب اللہ کو سیاسی و عسکری طور پر دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کے عسکری حصے کو دہشتگرد قرار دیا تھا ۔
اگرچہ یہ پابندیاں اور قوانین کی تشکیل کوئی نئی چیز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس بار ان قوانین کے حق میں دو نوںپارٹیوں یعنی ڈیموکریٹ اور ریپپلکنز نے اتفاق سے ووٹ دیا ہے یہ چیز ٹرمپ کو اس بات کی جرات دے سکتی ہے کہ یورپ پر دباو ڈالے کہ وہ بھی اس قرارداد میں شامل ہوجائیںا گرچہ ایرانی ایٹمی معاہدے کے خاتمے کو لیکر ٹرمپ کویورپ کی جانب سے سخت قسم کا ردعمل دیکھنے کو ملاہے ۔گرچہ امریکہ کہہ سکتا ہے کہ نئی پابندیوں کا ایٹمی ڈیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس ڈیل کو متاثر کرتا ہے لیکن کیا یورپ اتفاق کے ساتھ ان نئی پابندیوں میں ٹرمپ کا ساتھ دے گا ؟کیا یورپ ان پابندیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حق میں ہوگا ؟کیونکہ یہ پابندیاں مشرق وسطی خاص کر لبنان میں بڑے بحران کو جنم دے سکتیں ہیں اور مسلسل سیاسی بحران میں چلے آرہا لبنان اس قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ جس کی خواہش مشرق وسطی میں امریکی اتحادی رکھتے آرہے ہیں ۔
اور کیا امریکی اس پابندی کا اثر یورپی ان کمپنیوں اور میگا پروجیکٹس پر نہیں پڑے گا جو ایران میں اربوں ڈالر کے معاہدے کرچکیں ہیں ؟
اہم سوال یہ بھی ہے کہ ان نئی پابندیوں کو چین اور روس کیسے دیکھیں گے ؟اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ان نئی پابندیوں کے لئے اقوام متحدہ یا سیکوریٹی کونسل کا شیلٹر کسی طور بھی حاصل نہیں کر پائے گا لیکن ان پابندیوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات عالمی سطح پر موجود تقسیم کو مزید گہرانہیں کرے گی ؟اور اگر ان پابندیوں کو ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو خود امریکہ اس وقت کس پوزیشن میں کھڑا ہوگا۔کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ چاہتا ہے کہ ان پابندیوں کا اعلان 1983میں بیروت میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے دن کے ساتھ ہو اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی سکریٹری خارجہ کا حالیہ دورہ سعودی عرب ،قطر و پاکستان میں دیگر ایشو ز کے علاوہ یہ موضوع بھی زیربحث رہا ہے۔دوسری جانب بہت سے تجزیہ کار پیوٹن کا دورہ ایران اور ایرانی سپریم لیڈر سے ملاقات کے ایک پہلو کو اسی تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ شائد مزاحمتی بلاک اور اس کے اتحادی اس قسم کی ممکنہ صورتحال کے لئے پہلے سے ہی خود کوسیاسی وسفارتی میدانوںمیں تیارکر رہے ہوں ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشرق وسطی میں امریکی پالیسی بری طرح ناکامی کا شکار ہے اور ہر کوشش مزید ناکامی کو گہری کرتی جارہی ہے ،وہ مشرق وسطی کہ جہاں بیرونی قوت کے طور پر صرف امریکہ تن و تنہا کھلاڑی کے طور پر دیکھائی دیتا تھا آج اپنی پوزیشن کو باقی رکھنے کی کوشش میں ہے ۔لبنان میں سعد الحریر ی کو ہٹانے سے لیکر محمود عباس کا دورہ سعودی عرب و فلسطینیوں کے درمیان معاملات کے حل کی کوشش تک ٹرمپ اور مشرق وسطی میں اس کے دوستوں کی اسی حکمت عملی کے ابتدائی گام تھے کہ جنہیں اٹھنے سے پہلے ہی گھٹنے ٹیک دینا پڑے۔
مشرق وسطی خاص کر شام و عراق کے اندرپیدا کیا گیا دہشتگردی کا بحران کہ جسے مذہبی فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کی بہت کوشش ہوئی جو کہ ایک جیوپولیٹکل جنگ تھی اور اپنے اندر متعدد اہداف رکھتی تھی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ تباہ کن جنگ اپنے اختتام کو پہنچی اور اس کے منصوبہ سازوںکو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت وہ اس جنگ میں ناکامی کے آفٹرشاکس کو سہہ رہے ہیں ۔ان حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ مشرق وسطی میں اٹھایا جانے والا امریکی ہر اقدام بری طرح شکست سے دوچار ہورہا ہے عراق یمن شام سے لیکر لبنان تک تمام مہرے جو امریکہ اور اس کی پالیسی فالورز چلاتے ہیں بری طرح پٹتے جارہے ہیں ۔
صدام کے بعد کا عراق ہو یا اربوں ڈالر خرچہ کروانے والے شام و یمن تینوں ممالک میں امریکہ نہ صرف اپنی پوزیشن کھو چکا ہے بلکہ یہ تینوں ملک اس بلاک میں اپنی پوزیشن مزید گہری کرچکے ہیں جسے مزاحمتی بلاک ،روسی چینی ایرانی بلاک یا اتحادی کا نام دیئے جاتے ہیں ۔
چین ،روس اور یورپ ۔
چین نہ صرف اقتصادی ،عسکری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز رفتاری کے ساتھ دوسروں کے لئے چلینج بنتا جارہا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی ایسا اتحاد اور وحدت کو قائم رکھا ہوا کہ کسی بیرونی قوت کو ایسا کوئی سوراخ نہیں مل رہا کہ وہ چین کو اندر سے الجھانے کی کوشش کرے یا چینی معاملات میں اثر انداز ہوسکے ،جیسا کہ ماضی کی بڑی قوت سودیت یونین کے ساتھ ہوا تھااور جیساکہ آج بھی بہت سے ممالک کے ساتھ ہورہا ہے ۔حکمران کیمونسٹ پارٹی ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنی پوزیشن مضبوط کرتی جارہی ہے ،اسی سال اکتوبر میں ہونے والا چینی حکمران جماعت کا سالانہ انیسواں کنونشن اس بات کی علامت تھا کہ اکیسویں صدی کے آدھے سے بھی کم عرصے میں چین دنیا میں اپنی پوزیشن سب سے اوپر لیکر جائے گا۔چین کی اس کامیابی کو اس سوشلسٹ نظام میں بھی دیکھا جارہا ہے جو خاص چینی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام اور چینی مخصوص اشتراکی اقتصادی نظام کے درمیان ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے لئے پیدا کی جانے والے گنجائشات شامل ہیں ۔
چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا ایک اہم راز اس کی اس حکمت عملی میں بھی پوشیدہ ہے کہ دیگر طاقتوں کے برخلاف چین نے اب تک ثابت کیا ہے کہ وہ کسی قسم کا سامراجی ایجنڈا نہیں رکھتا اور ساتھ میںاس نے اب تک دنیا میں کہیں پر بھی کسی بھی قسم کے براہ راست ٹکراو یا جنگ سے بھی خود بچائے رکھا ہوا ہے ۔جبکہ اس کے برعکس دیگرطاقتوں نے اپنے سامراجی نوعیت کے ایجنڈوں کے ساتھ ساتھ جنگوں اور تصادم میں بھی خود کو مصروف کر رکھا ہوا ہے ،حتی کہ روس نے بھی خود کو براہ راست کئی محاذوں میں مصروف رکھا ہوا ہے کہ جس کے سبب اس کی معیشت کی بڑھتی ہوئی رفتار متاثر ہو رہی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بہت سو ں کا خیال یہ ہو کہ روس کا شمار اس کی معیشت اور اندرونی ایشوز کے سبب بڑی قوت کے طور پر نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ روس اور ایران جیسے ممالک اپنی درست اور بروقت کامیاب پالیسیوں کے سبب ایسی مضبوط پوزیشن میں آکر کھڑے ہوئے ہیں کہ کم ازکم روس کو کسی بھی طور بڑی قوت اور ایران کو موثر طاقت کی صف سے باہر نہیں کیا جاسکتااسی طرح اگر ہم روس اور ایران کو ان کی حلیف دیگر قوتوں جیسے عراق شام لبنان و فلسطین اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ دیکھیں گے تو واضح ہوگا کہ یہ اتحاد چینی ہم آہنگی اور تعاون کے بعد دنیا میں ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر چکا ہے جبکہ اسی اتحاد ی اعضاء کی دوسرے اہم فورمز کی تشکیل اور موجود گی جیسے شنگھائی تعاون تنظیم وغیرہ تو ان کے طاقت کے دائرے کا مزید بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔روس کے کردار کو یوکرائن سے لیکر مشرق وسطی میں شام عراق ایران سعودی عرب مصر ترکی تک اگر دیکھا جائے تو اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت اور طاقت کے توازن میں اس کا بڑھتا ہوا کردار مزیدواضح ہوجائے گا ایک طرف وہ جہاں ایران اور شام کا حلیف ملک ہے وہیں پر اس کے مصر سعودی عرب ترکی کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں ۔
گذشتہ سات سالوں نے واضح کردیا کہ یورپ اور امریکہ کا مختلف پہلو سے روس پر برتری رکھنے کے باوجود روس نے عالمی سطح پر کامیاب حکمت عملی (ٹیکٹیکل ایڈاوانٹیج)کے اعتبارسے بہت سے عالمی مسائل میں برتری حاصل کی ہے ۔انہی کامیابیوں نے روس کی پوزیشن کو جہاں رائے عامہ میں تقویت دی ہے وہیں پر یورپ اور امریکہ کی پوزیشن کو سخت نقصان پہنچایا ہے ،جبکہ دوسری جانب جہاںبین الاقوامی سطح پر امریکہ اور یورپ کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے وہیں پر انہیں داخلی سطح پر بھی انتہائی مسائل کا سامنا ہے کہ جن میں سرفہرست امریکی انتخابات اور ایک غیر مستقل مزاجی کے حامل بے چین شخص کا بطور صدر انتخاب ،اور انتخابات میں روسی مداخلتوں کا بحران ،جو کہ اب بھی ایک لٹکتی تلوار کی طرح موجود ہے ،برطانیہ کا یورپی یونین سے باہر نکلنا ،عوامیت یا پاپولرازم اور دائیں بازو کی علیحدگی پسند تحریکوں کا وجود میںآنا ،امریکہ کے ساتھ نیٹو اور ماحولیاتی بل پر عدم اتفاق جیسے مسائل شامل ہیں ۔
تحریر۔۔۔حسین عابد
(ریسرچ اسکالر اور تجزیہ کار )
وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قبلہ اول اور تمام عیسائی، یہودیوں کی مقدس جگہ یروشلم) جہاں بیت المقدس موجود ہے( کو اسرائیل کا دارلخلافہ قرار دیتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کردیا، جس سے تمام دنیا میں غم و غصے کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے اور سعودیہ اور بحرین کے علاوہ تمام اسلامی ممالک حتاکہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، جرمنی، چین اور فرانس وغیرہ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کی مذمت کی ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ٹرمپ پاگل ہے ،میرا سوال ہے اگر وہ پاگل ہے تو امریکہ کے ہر اسٹیٹ کو آزاد اور الگ کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتا؟ہر وقت مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں؟ ۔ظاہر سی بات ہے وہ دیوانہ یا پاگل نہیں ہے بلکہ عمدا اس کام کو انجام دیتا ہے۔اب ہمیں آہستہ آہستہ سمجھ آتا ہے کہ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب کے وجوہات کیا تھے ۔کیونکہ کسی بھی صدر کا دورہ یا خطاب اسٹیٹ پالیسی اور قومی مفادات کا حصہ ہوتا ہے۔
اسرائیل ایک ایسا غاصب ملک ہے جس نے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی پر فلسطین پر قبضہ کیا اور صدیوں سے آباد مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجر بنادیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھالے جانے والے مظالم کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں آئے روز مسلمانوں پر ظلم و ذیادتی کی جاتی ہے کبھی نماز پڑھنے پر پابندی تو کبھی مسجد اقصیٰ کو بند کیا جاتا ہے ، کبھی مسلم خواتین کی سرعام بے عزتی کی جاتی ہیں، حتیٰ انہیں زد وکوب کیا جاتا ہے ، کبھی شک کی بنیاد پر بچے، بوڑھے، جوان اور مرد و زن کی تمیز کئے بغیر ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں تو کبھی رات کے سناٹے میں گھروں کو مسمار کئے جاتے ہیں۔یہ وہ مظالم ہیں جو ہم ہر روز میڈیا پر دیکھتے ہیں۔لیکن عالم دنیا کے نام و نہاد حقوق انسانی کے علمبرداروں کا کہی کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔
لیکن امریکی و اسرائیلی مظالم سے زیادہ تکلیف دہ ظلم ہم پر خود ہمارے مسلمانوں کی جانب سے ہوتا ہے جسے سوچ کر ایک باشعور انسان خون کے آنسو بہائیں تو بھی کم ہے۔آخر ہمارے اوپر ہونے والے مظالم کے اسباب کیا ہیں؟ کیا ہم مسلمان اتنے کمزور اور ناتوان ہے کہ ہمارے اوپر ہونے والے مظالم کا مقابلہ نہیں کرسکتے؟تو جواب ہوگا نہیں کیونکہ خدا کے فضل سے مسلمانوں کے پاس تمام نعمتیں موجود ہیں، ہمارے پاس ایمانی طاقت بھی موجود ہے اور مالی وسائل بھی، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے پاس کیا طاقت ہے اور ان سے کیسے استفادہ کرنا ہے۔ اس میں سب سے بڑا نقص ہمارے مسلم حکمرانوں کے ہیں جنہوں نے اپنے زاتی مفادات کی خاطر سر اٹھا کے جینے کی بجائے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سامنے غلامی کو قبول کیا ہے۔اور جب غلامی کی عادت ہو جائیں تو تمام تر وسائل و آزادی ہونے کے باوجود بھی ہم ذہنی طور پر غلام بن جاتے ہیں۔ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے، مسلمان ممالک تیل ،گیس ، سونے و دیگر تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس نہیں ہے تو صرف ایمان نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے ساتھ بھی خیانت کر رہے ہیں اور اپنے دین ووطن کے ساتھ بھی۔ لیکن ہمارے برعکس دشمن چاہے وہ امریکہ ہو یا سرائیل یا کوئی اور ملک وہ اپنے فلسفہ ، اپنے مقاصد اور اپنے اہداف پر یکجا ہیں۔ وہ اپنے باطل عقیدوں اور پالیسیوں پر دل و جان سے عمل کرتے ہیں اسی لئے وہ کامیاب بھی ہیں۔ہم پورے عالم اسلام میں دیکھیں تو مغربی طاقتیں صرف ایک فارمولےdivide and rule پر عمل کر رہے ہیں وہ مسلمانوں میں انتشار و تفرقہ پیدا کرتے ہیں اور ہمارے اوپر حکومت کرتے ہیں افغانستان سے لیکر پورے مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک کو دیکھیں ہر جگہ اسی فارمولہ کے تحت کام ہو رہا ہے۔آخر دشمن کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ جس جگہ چاہیں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیتیں ہیں اور جس جگہ چاہیں فساد بر پا کر دیتیں ہیں اس سے بڑھ کر مسلمان با آسانی ان کے فریب میںبھی آجاتے ہیں۔ اس کے لئے ایک چھوٹی مثال کا سہارا لینا ہوگا کہ ایک جنگل میں کچھ لوگ درختوں کو کاٹ رہے تھے۔ جنگل کے درخت پریشان تھے کہ اگر اس طرح انسانوں نے اپنا کام جاری رکھا تو کچھ دنوں میں ہم سب نابود ہو جائینگے ۔ ایک دفعہ جنگل کے تمام درخت میٹنگ کر رہے تھے کہ ایک عمر رسیدہ، بلند و بزرگ درخت نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ جنگل کی نابودی میں یقینا ہم میں سے کوئی ہے جو انسانوں کی مدد کر رہا ہے، بزرگ کی بات سن کردرختوں نے سر جوڑ کر سوچنا شروع کیااور آخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں کاٹنے میںہمارے ہی شاخیں انسانوں کی مدد کر ر ہے ہیں۔انسان ان شاخوں سے کلہاڑی کے دستے بناتے تھے اور انہی کے سہارے درختوں کو کاٹتے تھے۔
اس وقت عالم اسلام کو درپیش مشکلات کا سبب بھی اسی مثال کی طرح ہیں، مسلمانوں میں ہی کچھ گروہ ایسے ہیں جو اسلام کے خلاف یا تو استعمال ہو رہے ہیں یا اپنی مفادات کی خاطر جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منافقت کر رہے ہیں۔ طالبان سے لیکر داعشی خلافت کے اعلان تک مسلمانوں میں کچھ منافقین ہی تھے جنہوں نے اسلام کے لبادے میں دشمنان اسلام کے لئے مزدوری کے عوض کام کیااور ان کے آلہ کار بن گئے۔ان مغربی ساختہ چند گروہوں نے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا یا ہے شاید اس کی مثال کہی نہیں ملتی۔مشرق وسطیٰ کے حالات ہمارے سامنے ہیںکہ جب یہاں پر داعش نے اسلام کے نام پر قتل و غارت گری شروع کی تھی تو ہمارے کچھ مسلمان حکمران اسلام دشمن عالمی طاقتوں کے شانہ بہ شانہ ان تکفیریوں کی فکری، مالی و نفری مدد کر رہے تھے اور ان کو اسلام کے ہیرو بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ان کا ہدف ایک ہی تھا کہ اسلامی ممالک کو کمزور کرنا اور ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر ہمارے ہی لوگوں کے زریعے ہمارے ہی لوگوں کو تربیت دیتے ہیں، پھر انہی کے خلاف قیام کرتے ہیں اور پھر انہی کو ختم کرنے کے لئے ہم سے ہی پیسے وصول کرتے ہیں اور بدنام بھی ہمیں ہی کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک تمام تر حقائق کو دیکھتے ہیں سمجھتے ہیں لیکن اپنی کرسی کی خاطر ان غاصب صہونیوں کا ساتھ دیتے ہیں ان سے تعلقات قائم کرنے کو کامیابی قرار دیتے ہیں ۔
ٹرمپ کے اسرائیلی دارلخلافہ کے اعلان کے بعد اسلامی اتحادی افواج کی جانب سے خاموشی ٹرمپ کے اعلان سے بڑھ کر خطرناک ہیںکیونکہ اس ملٹری الائنس کے رسمی طور پر اعلان ہونے کے بعدہی امریکی صدر نے اسرائیلی دارلخلافہ کا اعلان کیا ہے اور اس کے بنانے والوں میں سے کوئی چپکے چپکے تو کوئی کھلے عام اس اعلان کی حمایت کر رہے ہیں۔حقیقت دیکھا جائے تو اس وقت اس اسلامی ملٹری الائنس پر فرض بنتا تھا کہ وہ سب سے پہلے مظلوم فلسطینوں کی حمایت کرتے۔۔مگر ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتابلکہ بحرین نے ایک وفد کو" امن" کے عنوان سے اسرائیل بیجا ہے تاکہ دو طرفہ تعلقات پر کوئی آنج نہ آنے پائے۔
لیکن اگر ہم دوسری جانب دیکھیں توہمارے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور ہمیں اس اندھیری گلی میں امید کی کرن نظر آتے ہیں اور وہ ہے مقاومتی تحریک ، جو سنی ،شیعہ مسلمانوں کا اتحاد ہے جنہوں نے عراق ،شام اور لبنان میںعالمی سازشوں کو ناکام بنا کر ساری دنیا کو بتا دیا ہے کہ حقیقی مسلمان اور اسلام کی حفاظت کرنے والے ہم ہیں۔ وہ اسلام و مسلمان جن کو مغربی و عالمی طاقتوں نے پروموٹ کئے ہیں وہ دراصل کرایہ کے لوگ تھے جن کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور مغربی مفادات و اسرائیل کا تحفظ کرنا تھا ۔مگر الحمد اللہ باشعور مسلمانوں نے آج اس فتنے کو شام ، عراق میں دفن کر دئیے ہیںاور ہمیں امید ہے کہ جس طرح داعش کو شام ، عراق میں شکست دیا ہے اسی طرح اسرائیل اور امریکہ کو فلسطین میں شکست دینگے اور نیل سے فرات تک قبضہ کرنے کی اسرائیلی خواب کو چکناچور کر دینگے۔
تحریر : ناصر رینگچن
وحدت نیوز(آرٹیکل) اقوام و ممالک کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک اس ملک کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف پاکستانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جہانِ اسلام کے لئے بھی امیدکی شمع ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ہر دور میں پاکستان آرمی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سیاہ چن کے برفیلے پہاڑوں سے لے کر بلوچستان کے صحراوں تک ہر طرف پاکستان آرمی کی عظمت و شجاعت کی داستانیں رقم ہیں اور دہلی سے لے کر تل ابیب تک ہر دشمن طاقت پر پاکستان آرمی کے نام سے خوف چھایا ہوا ہے۔
پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کا لفظ لفظ پاکستان آرمی کے جوانوں کے خون سے عبارت ہے، ملک کی سرحدوں پر باہر سے حملہ ہو یا اندرونِ ملک سے طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسے ٹولے حملہ کریں، یہ پاکستان آرمی ہی ہے جو اِن سب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔
ملکی تاریخ میں پاکستان آرمی نے ملک دشمن عناصر کے خلاف متعدد آپریشن کئے ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:
آپریشن راہ حق سوات 2007 میں کیا گیا، آپریشن صراط مستقیم خیبر ایجنسی2008 میں آپریشن شیر دل باجوڑ 2008 میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم بنیر 2009میں آپریشن راہ راست سوات 2009 میں آپریشن راہ نجات جنوبی وزیرستان 2009 میں ، آپریشن ضربِ عضب ۲۰۱۴ میں اور آپریشن ردُّ الفساد میں ۲۰۱۷ فروری کے مہینے میں شروع کیا گیا۔
اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ یہ آپریشنز کن حالات میں اور کن لوگوں کے خلاف کئے گئے تو ہمیں پاکستان آرمی کے بہادر سپوت لائق حسین کی شہادت کی ویڈیو ضرور دیکھنی چاہیے ، یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے دشمن کس قدر وحشی اور ظالم ہیں، 14 اگست 2007ء میں طالبان نے لائق حسین کو دوران حراست جانوروں کی طرح ذبح کر کے شہید کردیا تھا۔
۱۴ اگست پاکستان کا یومِ آزادی ہے، اس روز پاکستان کے دشمنوں نے، پاکستان کی فوجی وردی میں ملبوس پاکستان کے بیٹے کو ذبح کر کے ملت پاکستان کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کے سینوں میں دل نہیں بلکہ پتھر ہیں، اگر اس کے باوجود کسی کو اطمینان نہ ہو تو وہ آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے مُنّےبچوں کی لاشیں گن کر دیکھ لے۔ سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کو پاکستان کے ان دشمنوں نے وحشت و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے تقریبا ۱۴۴ بچوں کو شہید کردیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے خود کُش دھماکوں میں بھی ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں اور پاکستان فوج اور پولیس کے کئی مراکز پر حملے کرنے کے علاوہ کئی قیمتی افیسرز کو بھی شہید کر کے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ملک و ملت کے ان دشمنوں نے مذہبی مقامات حتی کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کئے اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی قتل کر کے دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ۔
ابھی گزشتہ دنوں میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں9 افراد شہید 38 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ پاکستان کے دشمن پاکستانیوں کے خلاف مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔
طالبان ،القاعدہ اور لشکر جھنگوی وغیرہ کے بے شمار لوگوں کی گرفتاریوں اور اُن سے ہونے والی تفتیش کے بعد اب یہ حقیقت سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان کے دشمن ،بانی پاکستان کو کافر اعظم ، ملت پاکستان کو کافرو مشرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں، یہ پاکستان میں بسنے والی کسی بھی قوم، قبیلے یا مسلک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔
یہ دہشت گرد ٹولے پاکستان اور بانی پاکستان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے 15 جون 2013 کو زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو بھی بم دھماکوں سے تباہ کردیا ،تفصیلات کے مطابق ایک سے دو منٹ کے وقفے کے ساتھ چار بم دھماکے کئے گئے۔
چنانچہ موجودہ حالات میں پاکستان آرمی مسلسل ملک دشمنوں کے مظالم کے سامنے بند باندھنے میں مصروف ہے۔ پاکستان آرمی کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب عوامی سطح پر بھی لوگ اپنے ملک کےدشمنوں کو پہچانیں اور اُن سے نفرت کریں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ماضی میں ہماری افغانستان پالیسی اور امریکہ و سعودی عرب کے ایجنڈے کی وجہ سے ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط ہونے میں مدد ملی ہے تاہم اب یہ ہم سب کی ملی ذمہ داری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں اپنی فوج کا ساتھ دیں۔
جن مدارس اور مراکز میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو اور جولوگ ملک و قوم کے خلاف نوجوانوں اور جوانوں کو تیار کرتے اور بڑھکاتے ہوں ان کی نشاندہی کرنا ہم سب کا قومی و ملی فریضہ ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو جان اور مان لینا چاہیے کہ اقوام کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک اس ملت کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں،لہذا اپنے دشمنوں کو ناکام اور نامراد کرنے کے لئے ہمارے عوام کو اپنی آرمی سے ہر ممکنہ تعاون کرنا چاہیے۔
ہمیں اپنے قومی اتحاد، وسعتِ قلبی، دینی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی سے اپنے بدترین دشمنوں پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس ملک کی حفاظت کے لئے ہم سب پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) شیعوں کےمخصوص عقائد میں سے ایک {عقیدہ رجعت }ہے ۔یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ مہدی موعود {عج}کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قائم ہونےکے بعد اولیائے الہی اوراہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمنوں کا ایک گروہ دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آئیں گے۔اولیاءاور نیک لوگ دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت دیکھ کر خوش ہو ں گے اور انہیں اپنے ایمان اورعمل صالح کے ثمرات دنیا میں حاصل ہوں گے جبکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو اپنے ظلم کی سزا ملے گی البتہ آخری جزا و سزا قیامت میں ملیں گی ۔ رجعت ایک ممکن امر ہے جو عقلی لحاظ سے محال نہیں ہے ۔اس کے امکان پر واضح دلیل گذشتہ امتوں میں اس کا واقع ہونا ہے یعنی گذشتہ امتوں میں بھی کچھ لوگ مرنے کے بعد زندہ ہو ئے ہیں۔قرآن کریم جناب عزیر علیہ السلام کے بارے میں فرماتاہے کہ وہ مرنے کے سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوئے ۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔رجعت اور مردوں کے زندہ ہونے کا ایک نمونہ بنی اسرائیل کےمقتول کا زندہ ہونا ہے۔بنابریں بعض شبہ ایجاد کرنے والوں کا رجعت کو تناسخ کے ساتھ تشبیہ دینا ان کی کوتاہ فکری اور نا آگاہی کی دلیل ہے ۔
شیعہ علماء نے عقیدہ رجعت کے اثبات میں تین طرح کے دلائل ذکر کئے ہیں:1۔آیات قرآنی 2۔سنت نبوی 3۔احادیث اہل بیت علیہم السلام۔ علماء کے نزدیک سب سے عمدہ دلیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ نقل شدہ احادیث ہیں۔علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ان احادیث کو چالیس سے زیادہ موثق شیعہ علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کیا ہے اور یہ احادیث پچاس سے زیادہ شیعوں کی تفسیر ، حدیث اور کلام کی کتابوں میں نقل ہوئیں ہیں ۔ علاوہ ازیں شیعوں کے کچھ بزرگ علماء نے رجعت کے بارےمیں مستقل کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح دوسرے افراد نے بھی اپنی کتابوں میں باب غیبت میں اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔ لہذا اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت پر ایمان رکھتاہو تو ان تمام دلائل کے بعد اس مسئلے میں شک و تردید کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اسی لئے رجعت کے بارے میں شیعہ علماء کا اجماع ہے ۔علمائے علم کلام نے رجعت کے اثبات کے لئے ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث سےاستدلال کرنے کے علاوہ قرآن کریم کی بعض آیات سےبھی استدلال کرتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف دو نمونےذکر کرتےہیں:
1۔{وَ يَوْمَ نحَشُرُ مِن كُلّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِايَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُون} اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔یہ آیت اس دن کے بارے میں بیان کر رہی ہے کہ جس دن ہر امت سے خدا کی نشانیوں کو جھٹلانے والے چند افراد زندہ ہو ں گے ۔اس آیت میں {حشر}صرف اورصرف ایک گروہ{ناصالح افراد} کے ساتھ مخصوص ہے ۔یعنی اس آیت میں صرف ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کا ذکر موجود ہے حالانکہ قیامت کے دن{حشر}عام ہوگا یعنی تمام انسان محشور ہوں گے جیساکہ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : {وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنهْمْ أَحَدًا}اور سب کوہم جمع کریں گےاوران میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
بنابریں قرآن کریم دوقسم کے {حشر}کے بارے میں خبر دے رہا ہے ۔1۔حشرعمومی جو قیامت اور آخرت کے ساتھ مربوط ہے۔2۔حشر خصوصی جو چند افراد کے ساتھ مخصوص ہے ۔چونکہ یہ آخرت کے ساتھ مربوط نہیں ہے لہذا یہ دنیا میں ہی انجام پائے گا اوریہ وہی رجعت ہے ۔
2۔{قَالُواْرَبَّنَاأَمَتَّنَااثْنَتَينْوَأَحْيَيْتَنَااثْنَتَينْفَاعْترَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلىَ خُرُوجٍ مِّن سَبِيل}وہ کہیں گے :اے ہمارےپروردگار!تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کر تےہیں تو کیا نکلنے کا کوئی راہ ہے ؟ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں خبر دے رہی ہے جو قیامت کےدن عذاب الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔یہ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں بخشش طلب کرتے ہیں ۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ افراد دو مرتبہ مرنے اور دو مرتبہ زندہ ہونے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں ۔یعنی خدا نے انہیں دو مرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندگی عطاکی حالانکہ تمام انسان ایک دفعہ مرتے ہیں اور ایک دفعہ ہی زندہ ہو تے ہیں یعنی روح انسان کےبدن میں دوبارہ داخل ہو تی ہےتاکہ وہ اپنے اعمال کا جزا و سزا دیکھ سکے۔مذکورہ گروہ دو مرتبہ مر جاتا ہے اور دو دفعہ زندہ ہو جاتاہے بنابریں یہ مطلب عقیدہ رجعت کےساتھ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ رجعت کرنےوالوں کے لئے دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی حاصل ہوگی ۔
منکرین رجعت اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں : دو مرتبہ موت واقع ہونےسےمراد ایک دنیوی زندگی سےپہلے والی موت اور دوسری دنیوی زندگی کے بعد آنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سے مراد ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی ہے ۔یہ تفسیر لفظ {اماته}کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ اس سےمراد صاحب حیات کو موت دیناہے یعنی پہلے وہ حیات رکھتا ہو پھر اسے موت دی جائے۔ بعبارت دیگر لفظ{اماته}اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ موت سے پہلے ایک زندگی ہے جبکہ انسان کو اس کی ابتدائی شکل میں موت دینا یعنی جب وہ مٹی یا نطفہ کی شکل میں موجود ہو اورابھی تک اس کے بدن میں روح نہ پھونکی گئی ہو تویہ صاحب حیات نہیں ہے کیونکہ ایسے مقام پر لفظ {اماته}استعمال نہیں ہوتا ۔علاوہ ازیں یہ انسانوں کا کلام ہے اور اس کا ظہور بھی یہی ہے کہ انہیں انسانی زندگی گزارنے کے بعد دو مرتبہ موت دی گئی ہے ۔
بعض افراد اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں :دو مرتبہ موت دینے سے مراد ایک دنیوی زندگی کےبعد آنےوالی موت ہے اور دوسری منکرونکیر کےسوالات کا جواب دینے کے لئے قبر میں زندہ ہونے کے بعدآنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سےمرادبھی ایک دنیوی زندگی اور دوسرا قبرمیں زندہ ہونا ہے ۔
یہ تفسیربھی آیت کے ظہور کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ آیہ کریمہ کا ظہور یہ ہے کہ یہ افراد جوعذاب الہی میں گرفتار ہیں اپنے ان دو زندگیوں کے بارے میں [جو ان کے اختیارمیں دی گئ تھی}نادم ہیں کیوں انہوں نے اپنی ان زندگیوں کومعقول اور جائز طریقے سے نہیں گزاری کہ آخرت میں عذاب کے مستحق نہ ہوں جبکہ یہ اس صورت میں ہوگا جب انہیں دو مرتبہ زندگی اسی دنیامیں ہی ملی ہوں کیونکہ عمل اسی دنیا کے ساتھ مختص ہیں لیکن قبر میں زندہ ہو نا عمل کے لئے نہیں ہے تاکہ یہ افراد اپنی اس زندگی کے گناہوں کے بارے میں ندامت کا اظہار کریں ۔
رجعت کےدلائل میں سےایک دلیل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث ہے جو شیعہ و اہلسنت دونوں کے نزدیک مقبول و مشہور ہے ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں جتنے وقائع اور حوادث رونما ہوئے وہ سب امت اسلامی میں بھی رونما ہوں گے۔صحیح بخاری میں ابوسعید خدری سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرابشبر،وذراعا بذراع} “تم گذشتہ امتوں کی روش پربعینہ عمل کرو گے”۔ شیخ صدوق {کمال الدین} میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کرتےہیں کہ آپ ؐنے فرمایا:{ کل من کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هذه الامة مثله،حذو النعل بالنعل و القذة بالقذة}جو کچھ گذشتہ امتوں میں واقع ہوا وہ سب اس امت میں بھی واقع ہو گا۔واضح رہے کہ رجعت گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے اہم حوادث میں سے ہے۔ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ حدیث کی روشنی میں امت اسلامی میں بھی رجعت واقع ہوگی ۔مامون عباسی نے جب امام رضا علیہ السلامسے رجعت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی حدیث سے استدلال فرمایا۔علامہ شبر رجعت کے عقلی اورنقلی دلائل ذکر کرنے کے بعد اسے مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :گزشتہ دلائل کی روشنی میں رجعت پر اجمالی طور پر ایمان رکھنا واجب ہے لیکن اس مسئلہ کی تفصیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام پر ہی چھوڑنی چاہیے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارےمیں روایات متواتر ہیں جبکہ بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی رجعت کے بارے میں بھی روایات توا تر سے نزدیک ہیں لیکن ان کی رجعت کی کیفیت ہمارے لئےواضح نہیں ہے۔اس بارےمیں علم صرف خدا اور اولیاء کو ہی حاصل ہیں۔
حوالہ جات:
۱۔بقرۃ،259۔
۲۔مائدۃ،110۔
۳۔ بحار الانوار ،ج53،ص132 – 134۔
۴۔نمل:83۔
۵۔کہف،47۔
۶۔مصنفات الشیخ المفید،ج7،ص33۔{المسائل السروریۃ}
۷۔غافر،11۔
۸۔مصنفات الشیخ المفید،ج7 ،ص33 – 35 {المسائل السروریہ}
۹۔صحیح بخاری : ج 9،ص 112،کاتاب الاعتصام بقول النبی{ص}۔
۱۰۔کمال الدین ،ص 574۔ا
۱۱۔بحار الانوار ،ج53،ص59،حدیث 45۔
۱۲۔حق الیقین،ج2،ص35۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو ماضی کے تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ھوئے اپنے مستقبل کو تابناک بناتی ہیں مگر ہم ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اسی ڈگر پر چلے جارہے ھیں یہاں46سال قبل 16دسمبر 1971 کے دن پاکستانیوں نے اپنے وطن کو دو حصوں میں منقسم ہوتے دیکھا تھا۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو صدق دل سے تسلیم نہیں کیا اوراسکی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں آپنی ریشہ دیونیوں کا آغاز اور ھندو اساتذہ نے بنگالی بچوں میں مغربی پاکستان کے متعلق زہر اگلناشروع کیا اور جب وہ بچے جوان ہوئے تو انہوں نے ان محرومیوں کا اظہار کرنا شروع کیا تومغربی پاکستان میں بیٹھے حکمرانوں نے ان کی طرف توجہ نہ دی اور الٹا حقوق کے حصول کو وطن دشمنی قرار دیا۔ یہی وجہ تھی ایک نظریاتی مملکت اپنے قیام کے چند ہی سالوں بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اشرافیہ اسی ڈھٹائی سے اسی طرز عمل پر گامزن ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ’’آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘ اْن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔‘‘
یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے نااہل لالچی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے خود پیدا کئے۔ہم بھارت پر یہ الزام کیوں عائد کریں کہ اْس نے یہ مذموم کھیل کھیلا، دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہیکیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اْن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی اگر 3 مارچ کے اجلاس میں مغربی پاکستان کے ممبران قومی اسمبلی شریک ہوجاتے تو مجیب الرحمان اور بنگالی علیحدگی پسند گروپوں کو تقویت نہ ملتی اس سلسلہ میں جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئیمشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔
اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔اور ہمارے فوجی افسران نشے میں بدمست رہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ انداز سے مشرقی پاکستان جنگ لڑی جبکہ مغربی پاکستان میں موجود افواج تماشہ ہی دیکھتی رہی۔جنرل یحی جرنل رانی کے ساتھ لطف اندوز ھوتا رہا۔مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں افواج کو مس گائید کیا گیا اور جس دشمن کو ہم نے 1965 میں شکشت فاش کیا 1971 میں اسی دشمن سے ذلت آمیز شکشت سے دوچار ہوئی۔
سانحہ ڈھاکہ پر بننے والا حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو آج تک پبلک نہی کیا۔ دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے ہی عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی، یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان۔ کے بعد بھارتی فوج اور عوامی لیگ کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد شہریوں کو قتل کیا، درست نہیں کیونکہ حمود الرحمٰن کمیشن کے مطابق ان ہلاکتوں کی اصل تعداد 26 ہزار ہے جو مکتی باہنی کے علیحدگی پسند تھے اور انہی علیحدگی پسندوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا۔آج بھی لاکھوں بہاری پاکستانی پرچم لہرائے پناہ گزین کیمپوں میں ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان محب وطن لوگوں کونہ بنگلہ دیش قبول کررہا ہے اور نہ ہی پاکستان۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ اور حقوق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے اور محرومیوں،مایوسیوں اور نا مناسب سیاسی فیصلوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتاہے۔۔ اگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی بجائے اپنی افواج کو دریاؤں سے نکال کرباؤل فال میں حکمت عملی سے لڑتے تو بھارتی سورمائوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا سکتا تھا اورذلت آمیز شکشت سے بچا جا سکتا تھا۔یہ کتنا شرم ناک فعل تھا کہ جنرل نیازی جنر ل اروڑا کے سامنے لطیفے سناتا رہا اور اس کا سر شرم سے جکھنے کی بجائے بے شرمی سےپنجابی اشعار سناتے سناتے سلنڈر کیا۔اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواء نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
تحریر :محمد عتیق اسلم
وحدت نیوز (آرٹیکل) عوامی طاقت کا کوئی متبادل نہیں، خصوصا عوام اگر خدا پر توکل کریں تو وہ اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں، عوامی طاقت کو اُس وقت نقصان پہنچتا ہے جب حکومتی فرعون مذہبی دجالوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرتے ہیں، سادہ لوح عوام مذہبی دجالوں کی جوشیلی تقریروں اورباتوں میں بہہ جاتے ہیں ۔
یہ ہمارے ہی دور کی بات ہے ، جب ایران میں عوام نے بادشاہ کے خلاف قیام کیا تھا، ایران کا بادشاہ ایک شیعہ ڈکٹیٹر تھا، ایران صدیوں سےشیعت کا قدیمی مرکز چلا آرہاتھا، ایران میں اس وقت بھی اہلِ تشیع کے مجتہد اورمراجع کرام تھے۔
ایران کا بادشاہ لوگوں کو یہ بھی یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کا مذہبی پیشوا بھی ہے اور اس کے ہمراہ کشف و کرامات کا سلسلہ بھی ہے۔ ایرانی بادشاہ کو مغرب ، امریکہ اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔
ایران کی داخلی حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو بادشاہ پچیس ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن مناتا تھا ، اور دنیا میں سب سے طاقتور بادشاہ یہی شہنشاہِ ایران تھااور دوسری طرف عوام نالیوں اور کچرے سے روٹی کے ٹکٹرے چن کر چبانے پر مجبور تھے۔
بہر حال ۱۹۷۹ میں ہر طرف سے مایوس ہوکر ایرانی عوام نے خدا پر توکل کر کے بادشاہ کے خلاف قیام کیا، یہ آمریت کے خلاف جمہوریت کا قیام تھا، یہ بادشاہت کے خلاف انسانیت کا انقلاب تھا، یہ حیوانیت کے خلاف عقل و شعور کی آواز تھی ۔
جس وقت ایران کے مضبوط ترین بادشاہ کے خلاف یہ عوامی و جمہوری انقلاب رونما ہوا تو منطقے میں ہر طرف آمریت کا دور دورہ تھا، پاکستان میں ضیاالحق کی آمریت، عراق میں صدام کی استبدادیت اور عرب ریاستوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈکٹیٹر براجمان تھا۔ ایران کا عوامی انقلاب خطے کی تمام ریاستوں کے عوام کے کے لئے یہ پیغام تھا کہ عوامی اور الٰہی طاقت کو کوئی بادشاہت نہیں دبا سکتی۔ ایرانی بادشاہ کا تخت الٹنے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ جب عوام کے سامنے شہنشاہِ ایران نہیں ٹھہر سکتا تو پھر کسی اور بادشاہ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ وہ عوامی انقلاب کا مقابلہ کر سکے۔
ایرانی عوام کے اس انقلابی پیغام کو دبانے اور ایران تک محدود کرنے کے لئے دنیا کے ڈکٹیٹروں نے مذہبی دجالوں کو اکٹھا کیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ایران کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے۔ لہذا کافر کافر شیعہ کافر۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انقلاب سے پہلے ایران کوئی حنفی، حنبلی ، شافعی یا سُنّی ملک تھا، انقلاب سے پہلے بھی تو ایران ایک شیعہ ریاست تھی، ایرانی عوام کی اکثریت، مجتہدین، مراکز ، تہذیب و ثقافت حتیٰ کہ بادشاہ بھی شیعہ تھا۔ اس سے پہلے تو کسی نے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔
ارباب دانش سوچیں اور فکر کریں کہ ۱۹۷۹ میں ایرانی عوام سے ایسا کیا گناہ سرزد ہو گیا تھا کہ اس کے بعد ہر طرف شیعہ کے کفر پر تقریریں ہونے لگیں، لٹریچر چھپنے لگا، چودہ سو سالہ پرانے مسائل کو اچھالا جانے لگا،پروپیگنڈے ، جھوٹ اور افترا پردازی کی انتہا کی گئی حتی کہ ۲۰۱۷ میں بھی راولپنڈی میں ایک فرقے نے خود اپنے ہی مدرسے کو آگ لگا کر اور اپنے ہی افراد کو قتل کر کے اس کا الزام اہل تشیع پر لگایا۔
کیوں آخر کیوں!؟ اس درجے تک ضد ، بغض اور حسد کرنے کی وجہ کیا ہے؟
اس قدر جھوٹ، اس قدر افترا پردازی ، اس قدر پروپیگنڈہ آخر کیوں!؟
وجہ صرف اور صرف اتنی سی ہے کہ اگر ایران کے انقلاب کو شیعہ کہہ کر اہل سنت کو اہل تشیع سے دور نہ کیا جاتا تو ایرانی عوام کی دیکھا دیکھی دنیا کی ساری ریاستوں کے مسلمان،اپنے اوپر مسلط آمروں کے خلاف قیام کرنے لگتے اور یوں مسلمانوں پر مسلط بادشاہتیں دم توڑنے لگتیں۔
آمریت کے خلاف ایرانی عوام کی جدوجہد کو چھپانے لئے عراق کے ڈکٹیٹر صدام نے دیگر آمروں کی ایما پر ایران پر حملہ کیا اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو یہ تاثر دیا کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ ہے ۔
آج وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں تھی بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ٹکراو تھا، شعور اور تعصب کی لڑائی تھی، اور بادشاہت و بیداری کا معرکہ تھا۔
وقت کا پہیہ گردش میں رہا، مورخ کا قلم چلتا رہا، تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے، چہروں سے نقاب الٹتے رہے، مذہبی دجا ل اپنے ڈکٹیٹروں سمیت جہنم کا ایندھن بن گئے، جھوٹ بولنے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتےگئے، ان چند سالوں میں اگر کچھ باقی رہا تو صرف اور صرف حق اور سچ باقی رہا۔۔۔!
وہ عوامی شعور اور جمہوری انقلاب جسے شیعہ کہہ کر ایران میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس نے تونس سے بھی سر نکالا ، اس نے مصر میں بھی دستک دی، اس نے عراق کو بھی ہلایا ، اس نے قطر کو بھی جھنجوڑا اورآج وہ سعودی عرب پر بھی خوف طاری کئے ہوئے ہے۔
آج ہر منطقے ، ہر ریاست اور ہر علاقے کے مسلمان اپنے اوپر مسلط بادشاہت سے بیزار ہیں، آج مسلم دنیا کے ڈکٹیٹر تو شہنشاہِ ایران کی طرح امریکہ و اسرائیل کے تلوئے چاٹ رہے ہیں لیکن آج عرب ریاستوں کے عوام اپنے اوپر مسلط بادشاہوں سے نالاں ہے۔
عوام کی بادشاہوں سے ناراضگی، لوگوں کی آمریت سے نفرت، جمہور کا شعور کی آواز پر لبیک کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ حکومتی آمروں اورمذہبی دجالوں سے آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں، اب ان بیدار اور باشعور لوگوں کے خلاف چاہے کافر کافر کے نعرے لگائے جائیں اور مذہبی دجال ان کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کریں ، یہ انقلاب، شعور اور بیداری کی لہر اب کافر کافر کے نعروں سے رکنے اور تھمنے والی نہیں، اب لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی لازم و ملزوم ہے ، جب تک دنیائے اسلام سے آمریت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک قدس کی آزادی ممکن نہیں، لہذا اب عوامی شعور کی یہ لہر آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی پر ہی منتہج ہوگی۔
بقول شاعر اب وہ وقت آگیا ہے کہ
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
ان شااللہ
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.