وحدت نیوز (آرٹیکل) قیامت کےدن انجام پانےوالے اہم امورمیں سےایک بعض گنہگار افراد کے حق میں شافعین کی شفاعت ہے ۔یہ افراد شفاعت کرنے والوں کی سفارش کی بدولت رحمت الہیٰ کے حقدار ہو کر بہشت میں داخل ہوں گے ۔شفاعت کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک ایک مسلم عقیدہ ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت نبوی میں اس بارے میں صراحت ہوئی ہے۔ قرآن کریم مسئلہ شفاعت کو مسلم قرار دیتا ہے اور اس کے بعض احکام کو بیان کرتا ہےچنانچہ ارشاد فرماتا ہے کہ شفاعت صرف اور صرف اذن الہیٰ کے ساتھ ہی انجام پائے گی۔{مَن ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِاِذْنِہ}1کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضورسفارش کر سکے ؟ ایک اور مقام پر فرماتا ہے :{مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِہ}2کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قرآن کریم مشرکین اور بت پرستوں کے عقیدے {بتوں سے شفاعت طلب کرنے}کو باطل قرار دیتا ہے کیونکہ مشرکین اپنے معبودوں کی الوہیت کے قائل تھےاور وہ شفاعت کے نفاذ میں کسی قسم کےقید و شرط کےقائل نہیں تھے۔قرآن کریم ان کے اس عقیدے کو مردود قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہ ِ مَا لَا يَضُرُّہُمْ وَ لَا يَنفَعُہُمْ وَ يَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَؤُنَا عِندَ اللّہ ِ قُلْ أَ تُنَبِّونَ اللّہ َ بِمَا لَا يَعْلَمُ فیِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فی الاَرْضِ سُبْحَانہُ وَ تَعَالیَ عَمَّا يُشْرِکُون } 3 اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور{پھربھی}کہتے ہیں : یہ خدا کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں کہہ دیجئے: کہ تم خداکو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اورنہ زمین۔ وہ پاک و پاکیزہ اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے ۔لہذا قرآن کریم کی ان آیات کےتناظر میں بتوں کی شفاعت کی نفی ہوتی ہے ۔اسلام میں اصل شفاعت سے انکار کرنا کھلم کھلا مغالطہ ہے کیونکہ اسلام نہ شافعین کی الوہیت کا قائل ہے اور نہ ہی کسی قید و شرط کےبغیر انہیں شفاعت کی اجازت دیتا ہے۔یعنی شافعین کی شفاعت کو اذن الہیٰ میں منحصرکیا ہےاور اسلام کی نظر میں شافعین خدا کے مقرب بندے ہیں ۔ قرآن کریم فرشتوں کو شافعین میں سےقرار دیتا ہے جو صرف ان افراد کی شفاعت کریں گے جنہیں خدا پسند کرتا ہے ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے:{بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَ. لَا يَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَ ہُم بامْرِہِ يَعْمَلُونَ. يَعْلَمُ مَا بَينْ أَيْدِيہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضی}4بلکہ یہ تواللہ کے محترم بندے ہیں۔وہ تواللہ{ کے حکم }سے پہلے بات {بھی} نہیں کرتےاور اسی کے حکم کی تعمیل کرتےہیں۔ اللہ ان باتوں کوجانتا ہےجو ان کے رو برو اور جوان کے پس پردہ ہیں اوروہ فقطان لوگوں کی شفاعت کر سکے ہیں جن سےاللہ راضی ہے۔5
قرآن کریم کےمطابق پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محمود پرفائزہوں گے ۔ مفسرین متعدد روایتوں سے استناد کرتےہوئے مقام محمود کو شفاعت سے تعبیرکرتےہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:{ عَسیَ أَن يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا محَّمُود}6امید ہےکہ آپ کا رب آپ کو مقام محمودپر فائز کرے گا ۔طبرسی لکھتےہیں:مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مقام محمود سےمراد شفاعت ہے ۔یعنی قیامت کے دن پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرچم {لواء الحمد}کو ہاتھ میں اٹھائیں گے اور تمام انبیاء اس پرچم تلے جمع ہوں گے ۔ آپ ؐ پہلے شافع ہوں گے جس کی شفاعت قابل قبول ہوگی ۔7 مسلمانوں کے نزدیک شفاعت کرنےوالوں سے شفاعت طلب کرنا ایک جائز کام ہے خواہ ان کی حیات میں ہو یا مرنےکے بعد۔ شفاعت دو طریقے سےطلب کی جا سکتی ہے :
پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان خدا وند متعال سے براہ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرےافراد جنہیں شفاعت کا اختیار حاصل ہے کے واسطے سے شفاعت طلب کرے مثلا یہ کہے :{اللہم شفع لی محمدؐ}خدایا !میرے حق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے افراد سےشفاعت طلب کرے مثلاً کہے:{یامحمد ؐاشفع لی عند الله ، کن لی شفیعا عند الله}اے رسول !خدا کےحضور میرے حق میں شفاعت کیجئے ۔وہابی صرف پہلی صورت کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کےنزدیک دوسرا طریقہ ناجائز اور شرک کاباعث بنتاہے ۔
شافعین سے شفاعت طلب کرنا حقیقت میں شفیع سےدعا طلب کرنا ہے اور اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہےکہ غیرخدا سے دعا طلب کرنا نہ مطلقا حرام ہے اور نہ شرک کا باعث بنتا ہے ۔مسلمانوں سے مدد طلب کرنا ایک جائز کام ہے اور مسلمانوں پر اپنی وسعت کے مطابق دوسرےمسلمان کی مدد کرنا واجب ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:{من سمع مناد ینادی یا للمسلمین و لم یجبہ فلیس بمسلم}جو شخص کسی محتاج کی آواز کو سنے جو مسلمانوں سےمدد طلب کر رہا ہو اور وہ اس کی مدد نہ کرے تووہ مسلمان نہیں ہے ۔اصولی طور پر اگرایک عمل کسی کے لئے جائز ہو تواس شخص سے اس عمل کی درخواست بھی جائز ہوگی ۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے شافعین کے لئے قیامت کے دن شفاعت کرنا جائز ہے پس ان افرادسے شفاعت طلب کرنا بھی جائز ہوگا۔
شفاعت سے مراد شفیع کا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کی لیاقت رکھنے والے افراد کے حق میں دعا طلب کرنا ہے ۔نیشاپوری اس آیت{ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعۃً حَسَنَۃً يَکُن لَّہُ نَصِيبٌ مِّنہْا وَ مَن يَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئۃً يَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہ}8{جوشخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتاہےوہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اورسفارش کرتاہےوہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا }کی تفسیرمیں مقاتل سے نقل کرتے ہیں: خداوند متعال کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرنے سے مراد مسلمانوں کے حق میں دعاکرنا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :{من دعالاخیہ المسلم بظہر الغیب استجیب لہ و قال لہ الملک:و لک مثل ذلک}جو شخص اپنےمسلمان بھائی کے حق میں اس کی غیرموجودگی میں دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوجائے گی اور فرشتہ اس سےکہے گا کہ تمہارے حق میں بھی ایسا ہو ۔ لہذا مذکورہ آیت میں نصیب کا معنی وہی ہے جو اس حدیث میں آیاہے یعنی جو دعا انسان کسی دوسرے مسلمان کے حق میں کرتا ہے وہ اس کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے ۔پس جس طرح انسان ہر مسلمان سے دعا طلب کرسکتا ہے اسی طرح غیر خدا سےشفاعت بھی طلب کر سکتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ صرف ان افراد سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے جو مقام شفاعت پر فائز ہوں جیسے انبیاء ،ائمہ اہل بیتعلیہم السلاممومنین اورفرشتے ۔
فخر الدین رازی نے فرشتوں کا مومنین کے حق میں استغفار9کرنے کو شفاعت سے تعبیر کیا ہے ۔وہ اس سلسلےمیں لکھتےہیں کہ اس آیت سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فرشتوں کی شفاعت صرف گنہگار افراد سے مخصوص ہے اور اس بارےمیں معتزلہ کا نظریہ صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں کی شفاعت نیک افراد کے لئے ہے تاکہ ان کے درجات میں اضافہ ہو سکے نہ گنہگار افراد کے گناہوں کی بخشش کے لئے ۔ابن عباس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےایک حدیث نقل کرتےہیں جس میں آپؐ فرماتےہیں:اگر کوئی مسلمان مر جائےاورچالیس مومن موٴحد اس کے جنازے پر نماز پڑھیں تو خدا ان کی شفاعت کو اس کے حق میں قبول کر تا ہے۔10نماز میت مومن کے حق میں دعا کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔لہذادعاایک قسم کی شفاعت ہے اور مومنین سے دعا طلب کرنا اور یہ کہنا {ادع لی}کسی شک و شبہ کےبغیر جائز ہے ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی سیرت اس کےجائز ہونے پر گواہ ہے ۔ جیسے ترمذی ، انس بن مالک سےنقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس کا بیان ہےکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں ۔11قرآن کریم میں چند موارد ذکر ہوئےہیں جو دوسروں سے دعا طلب کرنے کے جواز پر دلالت کرتےہیں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کےفرزندوں نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ وہ خدا سے ان کی بخشش کی سفارش کریں۔12۔ قرآن کریم گنہگاروں کے لئے یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ خودبھی مغفرت طلب کریں اورپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی درخواست کریں کہ آپ ؐبھی ان کے حق میں دعا کریں ۔13
وہابی اورتکفیری گروہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ ؐ سے دعا طلب کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اگر یہی کام شرک ہو تو دونوں حالتوں میں شرک ہوگا یعنی اگر زندوں سے شفاعت طلب کرنا شرک نہیں ہے تو مردوں سے شفاعت طلب کرنا بھی شرک نہیں ہے ۔علاوہ ازیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت آپ ؐ کے جسم کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ آپؐ کی روح زندہ ہے اور دعا و شفاعت کی درخواست کو سننا اور ان کی اجابت کرنا روح سےمتعلق ہے نہ جسم سے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد آپ ؐ پردرود وسلام بھیجنے کے بارے میں نقل شدہ بہت ساری احادیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود وسلام کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ۔14
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیار ت کے آداب میں یہ بات نقل ہوئی ہےکہ زائر جب آپؐ کی قبرمبارک کے پاس دعا کرتا ہے تو آپؐ سےمخاطب ہو کر اس طرح سےکہنا چاہیے:{جئنالقضاء حقک والاستشفاع بک فلیس لنایارسول الله شفیع غیرک فاستغفر لنا واشفع لنا}یا رسول اللہ:ہم آپؐ کے پاس اپنے حوائج کی برآوری اور شفاعت طلب کرنے کے لئے آئے ہیں۔آپ ؐکےسوا ہمارا کوئی شفیع نہیں ہے۔آپؐ ہماری مغفرت کےلئے دعا کریں اور ہماری شفاعت کریں ۔اہل سنت کے بہت سارے علماءنے اپنےمناسک کی کتابوں میں یہ بات ذکرکیا ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت آپ ؐسے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے ۔ 15قرآن کریم حق شفاعت کو خدا کے ساتھ منحصر کرنے کےعلاوہ خدا کے اذن سے اسےانبیاء،اولیاء اور فرشتوں کے لئے بھی ثابت کرتاہے۔ لہذامقام شفاعت صرف خدا کا حق ہے لیکن شافعین کی شفاعت رضائے الہی پر منحصر ہے۔لہذا آیت کریمہ{ قُل لللہ الشَّفَاعَۃُ جَمِيعًا}{کہہ دیجئے:ساری شفاعت اللہ کےاختیار میں ہے} نہ دوسرے شافعین کی شفاعت کی نفی کرتا ہے اور نہ ان افراد سے شفاعت طلب کرنے کی نفی کرتا ہےکیونکہ شفیع سے شفاعت طلب کرنے کا مطلب یہ ہےکہ وہ بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کی بخشش کے لئے دعاکریں نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے ان کےگناہوں کو بخش دیں ۔
زمحشری اس آیت{قُل لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا}“کہہ دیجئے:
سا ری شفا عت اللہ کے اختیار میں ہے اور کوئی کسی دوسرے کے بارے میں شفاعت نہیں کر سکتا مگر دو شرائط کے ساتھ :
1۔شفاعت ان کی ہوگی جو شفاعت کی لیاقت رکھتے ہوں۔2۔ شفیع کے لئے یہ مقام خدا کی طرف سے حاصل ہواہو یعنی خدا نے شفاعت کرنے کا اختیار انہیں عطا کی ہے جبکہ یہ دو شرائط مشرکین اور ان کے شافعین کے بارے میں موجود نہیں ہیں ۔16 بنابرین شفاعت خدا کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے اس لئے ذاتا ًیہ حق اسی کےساتھ مخصوص ہے لیکن یہ مطلب انبیاء و اولیاء کے لئے مقام شفاعت کے قائل ہونےکےساتھ منافات بھی نہیں رکھتاہے کیونکہ ان افراد کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ ان افراد کی شفاعت اذن الہی پر منحصر ہے ۔
حوالہ جات:
1۔بقرۃ،255۔
2۔یونس،3۔
3۔یونس،18۔
4۔انبیاء،26،28۔
5۔نجم،26۔
6۔اسراء،79۔
7۔مجمع البیان،ج3،ص435۔تفسیر برہان،ج2،ص440۔
8۔نساء،85۔
9۔غافر،7۔
10۔صحیح مسلم،ج3،ص54۔
11۔صحیح ترمذی ،ج4،ص42۔
12۔یوسف،97۔
13۔نساء،64۔
14۔سنن ابوداود ،ج2،ص218۔کنز العمال،ج10،ص381۔طبقات الشافعیۃ،ج3،ص406۔
15۔کشف الارتیاب، ص320 میں احمد بن زینی دحلان کی کتاب خلاصۃ الکلام سےنقل ہوا ہے ۔
16۔تفسیر کشاف،ج4،ص30۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی