ملت تشیع پاکستان کے سیاسی افق پر

16 جنوری 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک وقت وہ تھا کہ جب پاکستان میں ملت تشیع نہ صرف کئی سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں کھٹ پتلی بنی ہوئی تھی بلکہ مساجد و امامبارگاہوں کے ممبروں تک سے اس بات کی تبلیغ کی جاتی تھی کہ ہمیں سیاست سے کیا لینا دیناہم توبس عزادار ہیں اور ہمیں عزاداری کی اجازت ہونی جائے ۔جبکہ جس عظیم ہستی کی عزاداری کی جارہی ہے وہ کائنات کی اس بے مثال تحریک یعنی کربلا کا بانی ہے کہ جس نے نہ صرف یزیدیت جیسی آمرانہ حکومت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے کوڑے دانوں کے سپرد کردیا اور سیاست الہی اور سیاست محمدی اور علوی کو بھی بلندی عطا کی یہاں تک کہ آج ہر انقلاب خود کربلا کا مرہون منت سمجھتا ہے-

عزاداری بذات خود ایک تحریک اور ہر زمانے کے باطل کیخلاف ایک للکارہے دلوں سے نکلنے والی یا حسین کی آہ دنیا کے ہر ستم کے خلاف صدائے احتجاج ہےآنکھوں سے نکلنے والے آنسو ظلم کیخلاف ایک سیلاب ہیں، بقول رہبر کبیر انقلاب امام خمینی رض غم حسین ؑ کایہ سیلاب دنیا کے ظلم و ستم کو بہا لے جائے گا ، سینوں پر آلگنے والے ماتم حسین کے ہاتھ ہر ظالم و ستمگر کے منہ پہ ایک طمانچہ ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ایک زمانے تک ہم سادہ فکری کے شکار تھے اور ہمیں اصل تشیع اور حقیقت عزاداری سے مکمل و گہری آشنائی نہیں تھی لیکن الحمداللہ اب معرفت کے دریچے کھلتے جارہے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتے جارہے ہیں اور بیداری کی تحریک قوت پکڑتی جارہی ہے۔
حق و حقیقت کے متلاشی عاشقوں نے راہ حق میں آخرکار قدم رکھ ہی لیا اور دنیا والوں کے لئے ثابت کردیا کہ کربلاکی روح اب بھی زندہ ہے ، حسینیت آج بھی یزیدیت سے نبرد آزما ہے ۔آج بھی شہدائے اسلام اپنے سرخ لہو سے پھر تاریخ رقم کررہے ہیں، ملتوں میں بیداری کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ آج بھی جاری ہے ۔

ملت پاکستان بھی باقی ملتوں کے شانہ بشانہ اس بیداری کا حصہ ہے اور مملکت پاکستان کا وجود ہی انقلابی بنیادوں پر رکھا گیاتھا اوران بنیادوں میں ملت تشیع بھی کسی دوسری قوم سے نہ صرف پیچھے نہ تھی بلکہ سب کے شانہ بشانہ اپنی آزادی اورخودمختار مملکت  کے قیام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق ملت تشیع سے ہے ،اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سنی شیعہ بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکار جو اس ملک میں آباد ہیں وہ سب ملک کے برابر کے شہری ہیں اور سب نے ملکر قربانیاں دی ہیں لیکن ملت تشیع جس طرح مسلسل قربانیاں دے رہی ہے خاص کر گذشتہ تین دھائیوں جتنی قربانیاں دی ہیں شاید کسی اور قوم نے دی ہوں۔

دشمن نے گذشتہ عرصے میں اس ملت کو نشانہ بنایا اور لاکھوں کی تعداد میں اس کے فرزندوں کو صرف اس جرم میں کہ یہ لوگ محبت اہل بیت اطہار سے سر شار ہیں اور اپنے ملک و ملت کے ساتھ وفادار ہیں انہیں گولیوں ،خودکش حملوں ،خنجروں اور تلواروں کا نشانہ بنایا ۔ہمارے نوجوانوں کو بسوں سے اتار کر نشان دہی کے ساتھ ،نام معلوم کر کے شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔پاراچنار سے لے کر گلگت اور پنجاب سے لے کر سندھ بلوچستان اور کوئٹہ جیسے شہروں میں شیعہ کے خون کی ندیاں بہائی گئیں، وطن کی سرزمین ہمارے خون سے رنگین کی گئی ،ہمارے بڑے بڑے علما اور بالخصوص ہماری ملت کے ہر دلعزیز قائد علامہ عارف الحسینی کو شہید کر دیا گیا۔

دشمن کا یہ خیال تھا کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے اس شہید پرور ملت اور اس ملک میں کمزور کردے گااوران احمقوں نے گمان کرنا شروع کیا تھا کہ شیعہ کو ملک میں اقلیت قرار دے دیا جائے اور اس پہ کفر کےفتوے صادر کرکے اس مظلوم ملت کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے-ہمارے خلاف ایک بہت گہری اور دراز مدت پلاننگ کی گئی جس کا حکومتوں نے بھی کم و بیش ساتھ دیا چونکہ ایک بین الاقوامی سازش بھی پس پردہ کارفرما تھی شائد اس لئے کسی ایسے قاتل کو نہ صرف سر عام سزا نہیں دی گئی جس نے ملت تشیع کے جوانوں کا خون بہایا ہوبلکہ اس کے برعکس مجرموں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا اور آج بھی بہت سے مجرم ملک میں دندناتے پھرتے ہیں-حکومتوں نے بجائے اس ستمدیدہ قوم کی داد و فریاد سننے اور ان کی مدد کرنے کے اسی ملت کو نوجوانوں کو گھروں سے مختلف جگہوں سے اٹھانا شروع کیا اور کتنے ہی جوان اب سالہا سال سے لاپتہ اور جبری گمشدگی میں ہیں ۔

ہمیں مختلف مذہبی اور قومی اختلافات میں دھکیلا گیا تاکہ یہ قوم ملک میں پنپ نہ سکے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ مکتب تشیع مظلومیت ہی میں پروان چڑھتا اور خون سے ہی اس مکتب کی آبیاری ہوتی ہے-چنانچہ جو ملت اس سے پہلے فقط اپنی مجلس اور عزاداری کا سوچتی تھی ان میں رفتہ رفتہ قومی شعور بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا شروع کی-

ایک زمانے میں سیاست کو ہمارے مدارس میں شجرہ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا اور سیاسی امور سے متعلق مجالس میں گفتگو حرام شرعی اور یا پھر مجلس کے تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا تو آج اسی ملت سے متعلق مختلف انقلابی قوتیں اس ملک میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور اب اس بات کو لیکر ہر گز اختلاف نہیں کہ ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں بلکہ اگر کہیں اختلاف ہے بھی تو اس بات پر کہ ہمیں انقلابی بنیادوں پہ ملک میں ایک مکمل تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے یا ہمیں ملکی سطح پراصلاحات کا عمل جاری رکھنا چاہیے یہاں تک کہ ہم خود ملک میں کسی بڑی تبدیلی لانے کے قابل ہو جائیں لیکن دونوں افکار ملک میں ایک سیاسی ارتقا کی دلیل ہیں اور جو بھی اس ملک و ملت کے لئے اخلاص کے ساتھ جذبہ خدمت سےسرشار جدوجہد کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے اور ہمارے فکری اور نظریاتی اختلافات ہماری قومی بالیدگی اور پیشرفت کی علامت ہے جبتک یہ اختلافات ٹکراو و تصادم کی شکل اختیار نہ کریں اور مومنین آپس میں دست وگریبان نہ ہوں اور اپنی اپنی حدود میں ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے اپنی جہت میں حرکت کرتے رہیں تو الہی عمل میں نہ تعارض ہے نہ تزاحم-لیکن جہاں ذاتی مفادات پیش نظر ہوں اور افکار مادی ہو جائیں وہاں رسہ کشی ہوتی ہے اور اختلاف رائے انتشار کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس سے دشمن بھی سو استفادہ کرتا ہے اور ملت میں بھی مایوسی پیدا ہوتی ہے-

بحمد اللہ ان گذشتہ سالوں میں ہمارے انقلابی علما کی جہد مسلسل سے ملت میں بیداری پیدا ہوئی یہ اسی سیاسی کرداراور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ جہاں کچھ علما تربیتی عمل میں مصروف ہیں اور کئی بنیادی کام انجام دینے میں اپنی مساعی جمیلہ کو بروئے کار لا کر ملت کے مستقبل کے لئے عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں وہاں کچھ دوسرے طبقے کے علما ملک کی روزمرہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں-

گذشتہ دہائیوں میں دشمن کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ہمارے مبارز اور مجاہد علما نے اپنی ملت کی صحیح جہت میں رہبری کی لہذا ہماری ملت نے مظلوم ہونے کے باوجود کبھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیاکبھی ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا کبھی ہماری قوم نے ملکی املاک کو ہاتھ نہیں ڈالا کبھی کوئی کسی مسجد پہ حملہ کرتے یاخودکش حملے میں پکڑا نہیں گیا-ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہم ہر زمانے میں مظلوم رہے ظالم نہیں بنے-ہمارے علما نے پر امن مظاہرے کئے کوئٹہ میں بارہا ہزارہ کے مومنین اور دیگر شیعیان اہلبیت کا خون بہایا گیا لیکن ہمارے علما نے قوم کو صبر کی تلقین اور استقامت کا مظاہرہ کر کے عوامی طاقت سے صوبائی حکومت کو گرا دیا-یہ ایک با شعور قوم کا سیاسی عمل تھا جس نے بلوچستان کی حکومت کو فقط ایک بار ہی نہیں بلکہ اب دوسری بار استعفی دینے پہ  نہ ٖصرف مجبور کر دیا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کے باعث آج مجلس وحدت مسلمین کے رہنمااور ممبر بلوچستان اسمبلی آغارضا ملت تشیع کی نمائندگی میں بلوچستان کی ایک سے زائد وزارتوں کے عہدے پہ فائز ہیں ۔
سلام ہے ان شہدا کے خانوادوں پرکہ جنہوں نے اپنے حقوق کی جنگ میں فتح حاصل کی اگرچہ جتنی قربانی پیش کی گئیں اس کے مقابلے میں یہ کامیابی کوئی حیثیت نہیں رکھتی-

ہمارے علما نے گذشتہ سالوں پر امن جدوجہد کی اور ملک کے عالم مجاہد علامہ ناصر عباس جعفری ۸۰ دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرکے اپنی ملت کی بیداری اور دوسری اقوام کو ملت تشیع کی مظلومیت سے آگاہ کرنے اور حکومت وقت کو اپنے عظیم ارداے سے لرزانے میں بہت بڑا کردار ادا کیاکہ جس کے متعلق میں نے اس سے پہلے بھی اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ اسلامی ممالک میں سے کسی عالم کی قوم کے لئے یہ ایک بے مثال قربانی تھی-

چنانچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملت میں گلگت و بلتستان یا کوئٹہ کی سرزمین جو اعتماد اور عزم و ارادہ میں قوت و قدرت پیدا ہوئی اس میں ہمارے علما اور زعما ملت کی انتھک کوششیں ہیں یہاں تک گذشتہ عرصے ملک کی بہت ہی فعال مذہبی اور سیاسی شخصیت کو دن دھاڑے اٹھا لیا گیا اور ایک ماہ سے زیادہ انہیں لا پتہ رکھا گیاتاکہ قومی شخصیات میں خوف و ہراس پیدا کر سکیں لیکن یہ ملت شہید پرور ہے اور یہ ملت خوف سے مقابلہ کرنا جانتی ہے-

آج گلگت و بلتستان کی ملت کی وحدت و کامیابی اور وہاں کے عالم مبارز و مجاہدآغا علی رضوی کہ جس نے وہاں کی قوم کی رہبری کا فریضہ ادا کیا اور اس علاقے کی شدید سردی کے موسم میں اپنے حقوق کی جدوجہدکے لئے دن رات ایک کر کے حکومتی اداروں کا گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا اور دوسری طرف ملک کی دوسری سر حد کوئٹہ کامیاب سیاسی عمل اور عظیم کامیابیوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ملت تشیع پاکستاں ملک کے سیاسی عمل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکی ہے-

باوجود اس کے کہ دشمن ہمیں ملکی دھارے سے ہٹانے کا سوچ رہا تھا جبکہ ہماری قومی جدوجہد نے دشمن عناصر کو کنارے لگا دیا اوروہ سب قوتیں ملک کی منفور قوتیں ہیں یہانتک کہ ہماری ملت نے امریکہ اور اسرائیل سے مسلسل دشمنی کو اپنی قوم و ملت میں رائج کیا کہ اج امریکہ کے صدر کو بھی ملت پاکستان سے بیزاری کا اعلان کرنا پڑا لیکن اسے کیا معلوم ہماری ملت نے تو اس کی حماقتوں کو نیک شگون ہی لیا کہ اچھا ہوا اس چھچھوندر سے جان چھوٹی اگرچہ ہمارے بعض بے ضمیر اور وطن فروش تو اب بھی بھیک مانگنے چلے جائیں گے اور اتنی جلدی جان چھوٹتے دیکھائی نہیں دیتی لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے ہماری قوم و ملت میں ایک شعوری ارتقا کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں ہماری ملت تشیع کے علما کا بہت بڑا کردار ہے-
ہم ان عظیم کامیابیوں پہ جو قوم و ملت کو نصیب ہوئیں تمام شہدا کی اروح کو سلام بھیجتے ہیں جن کی ارواح طیبہ آج بھی ملت میں زندہ اور جن کا خون آج بھی قوم و ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور اگر ہمارے علما و ملک کے ذمہ دار ایک دوسرے سے ساتھ ملکر وحدت و یکجہتی سے اس ملک میں عمل کریں تو ہم کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں-

آج اس قوم کو مخلص قیادت اور رہبری کی ضرورت ہے اور جن مقاصد کے لئے یہ مملکت معرض وجود میں آئی ان مقاصد کے حصول کے لئے مضبوط قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس ملک و ملت کی رہبری میں جو کردار ہمارے شیعہ علما پیش کر سکتے کوئی دوسرا نہ اس کی صلاحیت رکھنا ہے نہ اتنا موثر کردار ادا کرسکتا ہے-اخر وہ قوم جس کے پاس سیاست عکوی موجود ہو اور جو عاشورا و کربلا کے وارث ہوں اور جو مہدویت پہ عقیدہ رکھتے ہوں جن کی بنیادوں میں ائمہ علیھم السلام کا دو سو پچاس سالہ دور ہو اور جن کےمکتب کا پروردہ خمینی بت شکن بنے اور جس مکتب سے حسن نصراللہ جیسے فرزند جنم لیں اور جو قوم حکیم امت رہبر معظم انقلاب کے سائے پروان چڑھ رہی ہو اور جس کی بنیادوں شہید راہ حق علامہ عارف الحسینی کا خون ہو اس کا کوئی کیسے مقابلہ کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس میراث کی درست حفاظت کریں اور انہی خطوط پہ عمل پیرا رہیں اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ان شااللہ وہ دن دور نہیں حرم الہی سے فرزند زہرا کا پرچم بلند ہو اور اہل حق دنیا کے اطراف و اکناف سے اس پرچم کے نیچے جمع ہو جائیں اور پوری دنیا کو نوید امن و امان دی جائے اور انسان عدالت الہی کے سائے میں زندگی بسر کریں-اللہم عجل لولی الفرج واجعلنا من اعوانہ و انصار


از قلم :حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ غلام حر شبیری



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree